بندہ ناچیز یونیورسٹی انتظامیہ اور فیکلٹی کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ آپ نے اِس اہم موضوع پہ بات کرنے کا شرف بخشا، طلبہ کا بھی مشکور ہوں کہ وہ اپنے تعلیمی وقت سے کچھ لمحات نکال کر اتنے جوش و خروش سے اس آڈیٹوریم میں تشریف لائے-پاکستان کا اگر سیرت النبی (ﷺ) کے تناظر میں مُطالعہ کیا جائے تو بہت سے حیرت انگیز پہلُو نکلتے ہیں جو بڑی مفید اور کار آمد راہنمائی فراہم کرتے ہیں - اُن تمام تناظرات پہ بات کرنا تو ممکن نہ ہوگا، لیکن اُن میں سے چند ایک ایسے منتخب پہلؤں پہ اپنا نُقطۂ نظر پیش کروں گا جن کی عصری تفہیم کی بڑی سخت ضرورت ہے اور جو پاکستان کے ’’آج‘‘ سے متعلق ہیں- اُن میں سے کچھ عملی ہیں اور کچھ فکری ہیں -
(1)سیرت مبارکہ کا پاکستان سے ایک بہت گہرا تعلق ہے اور یہ گہرا تعلق پاکستان کی بالکل بنیا د سے شروع ہوتا ہے کہ جب نہ تو پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا، نہ ہی ریاستِ پاکستان کے تصور کا سیاسی طور پر اعلان کیا گیا تھا اور نہ ہی پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا- میرے خیال میں یہ وہ تعلق تھا کہ جب بیسوی صدی میں مسلم دنیا میں بہت بڑے علمی معرکے در پیش تھے؛ ان معرکوں میں سے یہ بھی ایک معرکہ تھا جو مصور پاکستان، حکیم الامت، حضرت علامہ اقبال نے جنگ کے محاذپر لڑا؛ اور وہ معرکہ تھاقوم کی ملی یا وطنی شناخت کا یعنی دوسرے لفظوں میں ’’حقیقی تصورِ پاکستان‘‘ جس تصور کی بنیاد پر یہ ریاست حاصل کی گئی-
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت اسلامی ہند کے مسلمان مراعات یافتہ طبقہ اس تصور کے حامی نہیں تھے لیکن ایک شخصیت جو اس نظریہ کے اولین حامی تھی اور جس نے اس تصور کی وضاحت سیرتِ رسول (ﷺ) کی روشنی میں کی، وہ حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت تھی-یعنی وہ مسئلہ جس کی بنیاد پر اس قوم کا عقیدہ کھڑا ہے وہ وطنیت کا مسئلہ ہے جس کو علامہ اقبال ؒ نے سیرت کے تناظر میں ڈسکس کیا کہ مسلمانوں کی قومیت کا تصور ان کے عقیدہ اور ملت کی بنیاد پر ہوگا-کیونکہ اس وقت کے گلوبل پیراڈائم میں سب سے مشہور تھیوری ’’نیشل ازم‘‘ کی تھی جس کی بنیاد پرمغرب اور مسلم دنیا میں بہت سی جنگیں لڑی گئیں-اسی تھیوری پر اقبال کی بہت سی مشہور نظمیں زبان زدِ عام بھی ہوئیں جس میں سب سے مشہور نظم ’’وطنیت‘‘تھی جو کہ سیرتِ طیبہ(ﷺ) کے تناظر میں لکھی گئی؛ جس میں وہ کہتے ہیں کہ:
اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور |
یعنی اقبال کے نزدیک مسلمانوں میں قومیت کا تصور سیرتِ طیبہ (ﷺ) سے اس سوال کی بنیاد پر ہوگا کہ رسول اکرم (ﷺ) نے اپنی وطنی شناخت کو ترجیح دی یا اپنی دینی و ملی شناخت کو ترجیح دی ؟ اس کے استدلال پر علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ:
عقدۂ قومیتِ مسلم کشود |
’’ہمارے آقائے نامدار (ﷺ) نے وطن سے ہجرت کر کے قومیتِ مسلم کا عقدہ حل فرمادیا‘‘-
یعنی حضور رسالت مآب (ﷺ)نے اپنی ہجرت سے مسلم قومیت کا عقدہ یوں حل فرمایا کہ اسلامی قومیت کا حصول وطن پر نہیں بلکہ عقیدہ پر ہوگا-جیسا کہاقبال نے بمقامِ دیگر کہا کہ:
اگر قوم از وطن بودے محمد |
’’اگر قوم وطن سے بنتی تو محمد (ﷺ ) بولہب کو دین کی دعوت نہ دیتے‘‘-
یعنی دونوں عربی النسل اور مکی الوطن تھے-اگر قوم کی بنیاد نسل، زبان، جغرافیہ، رنگ پر رکھی جاتی تو پھر ابو لہب سے اختلاف کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ کیونکہ مسلم قومیت کا اصول نسل، زبان، جغرافیہ وغیرہ سے مختلف ہے- ارمغانِ حجاز اردو میں اقبالؒ کی نظم ہے جس کا عُنوان ہے ’’حسین احمد مدنی‘‘ :
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است |
’’جو لوگ منبر پر بیٹھ کر کہتے ہیں کہ ملت وطن سے ہے وہ محمد عربی (ﷺ) کے مقام سے کتنے بے خبر ہیں‘‘-
اس لئے اقبال نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست |
’’اپنے آپ کو مصطفےٰ (ﷺ) تک پہنچا دے کیونکہ سارے کا سارا دین آپ (ﷺ) ہیں اگر تم آپ (ﷺ) تک نہ پہنچے تو تمہارا سارا عمل بو لہبی یعنی بے دینی ہے‘‘-
اس لئے آج ہمیں یہ مغالطہ مغربی چال بازی سے پڑا ہے جنہوں نے زبان اور جغرافیہ کے تعصب پہ دو عالمی جنگیں لڑ لیں ، اُن کے فکری اثرات سے اُمّت آج تک نہیں نکل سکی جس طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال عالم عرب سے خطاب میں کہتے ہیں کہ:
امتے بودی امم گردیدۂٖ |
’’تم ایک امت تھے مگر اب مختلف قوموں میں منقسم ہوگئے تم نے اپنی بزم کو خود ہی منتشر کردیا‘‘-
مجھے ابھی حال ہی میں عرب ممالک جانے کا موقع ملا تو میں نے وہاں ان سے بھی یہی کہا کہ:ہم جسے ’’عرب ایرانین وار‘‘ کَہ کر لڑ رہے ہیں؛ ہمیں آج تک یہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ جنگ ’’پروکسی وار‘‘ ہے- رسول اللہ (ﷺ) کے زمانہ میں پروکسی کون تھے اور آج اسی سیرت کے تناظر میں پاکستان میں موجود پروکسی کے ساتھ ریاستِ پاکستان کا رویہ کیا ہونا چاہیے-
شام، عراق اور یمن عرب سے تعلق رکھتے ہیں اور جو ’’پروکسی وار‘‘عرب دنیا میں ہو رہی ہےاس میں ایران اپنی جنگ شام اور یمن میں لڑرہا ہے جبکہ عرب بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ یہ جنگ ایران کی مٹی پہ نہیں بلکہ عرب کی سرزمین پہ ہو رہی ہے اس لئے عربوں نے اس جنگ کو ختم کرنا ہے-یہ وہ اشارہ تھا جو اقبال نے عربوں کو کہا تھا کہ ’’امتے بودی امم گردیدۂٖ‘‘ تم ایک مسلمان ملت تھے لیکن اس عرب نیشنل ازم نے تمہیں کئی ملتوں میں تقسیم کر دیا ہے-
اس لئے اقبال سیرت کے تناظر میں رسول اکرم (ﷺ) کی ذات اقدس کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ:
کرے یہ کافر ہندی بھی جرأت گفتار |
یعنی عالم عرب رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ آپ (ﷺ) کے جلوہ افروز ہونے سے پہلے یہ بدو قبائل تھے-پوری انسانی تاریخ میں نہ ہی ان کی کوئی یونین تھی، نہ ہی کوئی یونیفائیڈ ملٹری اور نہ ہی ان کی گورنمنٹ کا کوئی متحدہ سسٹم تھا-ظہور اسلام کے بعد عربوں کی پہلی ریاست وجود میں آئی اور پہلی یونیفائیڈ ملٹری بنی جس کے تحت پوری عرب دنیا قبائل سے نکل کر ایک قوم میں شامل ہوئی ہے-اس لئے اقبال نے اسی نکتہ کی وضاحت کی کہ ہمارا تعلق رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس سے ہے اور آپ (ﷺ)کی سیرت مبارکہ سے ہم یہ اخذ کرتے ہیں کہ ہمارا تصورِ قومیت وطن پر نہیں بلکہ ملت کی شناخت پر ہوگا - اِسی تصور کے تحت ہم ’’اسلامی جمہوریّہ‘‘ کی شناخت رکھتے ہیں -
(2)سیرتِ رسول (ﷺ) اور پاکستان میں دوسری بڑی مماثلت یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں اور قرآن کا وہ وعدہ دیکھیں کہ جو بھی بستیاں ظلم کرتی تھیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ ان کو ہلاک کردیا جاتا تھا-پاکستانی قوم نے کچھ کم مظالم نہیں کیے، ہم نے صرف ایک قصور دیکھا، یہاں روزانہ قصور بنتے ہیں کونسا دن ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں کے اخبارات کا ایڈیشن ہر روز ہماری قصور جیسی زینب بیٹیوں سے بھرا ہوا نہ نکلتاہو، کونسا ایسا دن ہے جس دن اس قوم نے ایک نئے ظلم کی ایجاد نہیں کی لیکن اس کے باوجود بھی یہ قوم آج تک قائم ہے؟
اگر یہ قوم آج تک قائم ہے، اس کی خطاؤں کو بخشا اور اس کی تقصیروں کو معاف کیا جاتا ہے جو کہ سمجھ سے بالاتر ہوجاتا ہے کہ یہ کیا مسئلہ ہے کہ اس قوم میں ان تمام خطاؤں اور تقصیروں کے باوجود ایسا جذبہ ہے جو اس قوم کو اسلامی دنیا میں امتیاز عطا کرتا ہے؟ آج بھی اسلامی دنیا میں شناخت کے حوالہ سے اس قوم کی ایک امتیازی حیثیت قائم ہے، تو روضۂ رسول (ﷺ) پر حاضر ہوکر میرایہ شک دور ہوا کہ اس قوم کا اقوام عالم میں بالعموم اور مسلم دنیامیں بالخصوص طرہ امتیاز ’’عشقِ مصطفےٰ (ﷺ)‘‘ ہے-
آپ میں سے جن خوش نصیبوں کو مدینہ منورہ کی حاضری نصیب ہوئی ہے ان کو مبارکباد-وہاں دو مقامات عشاق کے بیٹھنے کے مقامات ہیں مواجہ شریف اور قدمین کریمین، آپ جا کر دیکھ لیں اکثریت کس قوم کی بیٹھی ہوگی؟ وہاں پر پوری دنیا سے مسلمان گئے ہوتے ہیں لیکن آپ کو واضح اکثریت پاکستانیوں کی نظر آئے گی- اس کے باوجود کہ یہ وہاں پر طعنے برداشت کرتے ہیں، جھڑکیں، مذمت و ملامت سہتے ہیں مگر ان کا وعدہ ہے کہ ہم ملامت گروں کی ملامت کا خوف نہیں رکھیں گے کیونکہ ہمارا سرکارِ دو عالم (ﷺ) کے ساتھ عشق غیر متزلزل ہے- اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ عشقِ رسول (ﷺ) کی بنیاد پر آج تک پاکستانی قوم کی بنیاد کھڑی ہے، مجھے یہ کہنے میں کوئی باک و خوف نہیں کہ سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی ذاتِ گرامی سے جو عشق پاکستانیوں کو ہے وہ سارے جہان سے انوکھا ہے، ناموسِ رسالت کے تحفظ کیلئے سب سے زیادہ قُربانیاں پاکستانیوں نے دی ہیں -
’’ہُوَالَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖط وَکَفٰی بِااللہِ شَہِیْدًا‘‘[5](3) تیسری بڑی نسبت جو پاکستان کو سیرتِ طیبہ سے ہے وہ اس پاکستان کے مقاصدِ قیام ہیں جو ہمارے بانیان نے رسول اللہ (ﷺ) کے مقاصدِ بعثت سے حاصل کیے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے:
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اور (رسول (ﷺ)کی صداقت و حقانیت پر) اﷲ ہی گواہ کافی ہے‘‘-
ایک اور مقام پر فرمایا کہ:
’’ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖلا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘‘[6]
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول (ﷺ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول (ﷺ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگے‘‘-
پس معلوم ہوا کہ بعثتِ مصطفےٰ (ﷺ) کا مقصد دین کا غلبہ ہے اور بانیٔ پاکستان قائد اعظم نے بھی پاکستان کا یہ تصور دیا تھا کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا، پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا-
اسی طرح اگر ہم تاریخ کے پیرائے کا جائزہ لیں کہ جس وقت قائد اعظم پاکستان کے تصور کے بہت زیادہ حامی نہیں تھے اور پاکستان کو ابھی ہندوستان میں ایک متحدہ ہندوستان دیکھ رہے تھے تو 1930ء میں حضرت علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد اس سیاسی نظریہ کا پہلا ڈاکیومنٹ تھا جو پاکستان کے وجود کو پہلا جواز فراہم کرتا ہے-اس لئے اس ڈاکیومنٹس کے مطابق ریاست کے مطالبے میں یہ شامل ہے کہ اس ریاست میں ہمیں یہ موقع میسر آئے گا کہ ہم اسلام کو عرب امپریل ازم کی چھاپ سے آزاد کر کے دیکھ سکیں گے-
اس لئے علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ کے نزدیک پاکستان کا تصور اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر ہے کہ اسلام کو جو ماڈرن دنیا میں چیلنجز درپیش ہیں یہاں پر احیائے اسلام کی اس تحریک کو بپا کیا جائے علمی، فکری اورعملی میدان میں اسلام کی وہ خدمت کی جائے جو بعثتِ محمدی (ﷺ) کے مقاصد میں ہے کہ دینِ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کردیا جائے، جس کے لئے حضور نبی کریم (ﷺ) نے ہجرت فرمائی اور قربانیاں دیں -
میرے طُلبہ ساتھیو! آپ اس بات کو ذہن نشین رکھیں کہ آج پاکستان مشکلات سے دوچار ہے اور میرے خیال میں پاکستان کی 75 فیصد مشکلات اس کی اسلامی شناخت کی وجہ سےہیں-اگر آج پاکستان اپنی اسلامی شناخت چھوڑتا ہے تو دیکھیئے گا کہ ایک سال میں پاکستان کی 75 فیصد مشکلات کم ہوجائیں گی-پاکستان اپنی اسلامی شناخت کی وجہ سے مشکلات برداشت کرتا ہے-دنیا کی آنکھ میں پاکستان کی اسلامی شناخت کی وجہ سے کانٹا چُھبتا ہے-
بالکل ویسے جس طرح سرکار دو عالم (ﷺ) اور آپ کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی مشکلات ان کی مذہبی شناخت کی وجہ سے تھیں کیونکہ انہوں نے عربوں کی روایتی شناخت کو ترک کرکے دینِ حق کی شناخت کو اختیار کیا اسی طرح پاکستان نے بھی دین حق کی شناخت کی وجہ سے مشکلات برداشت کیں-
مستشرقین نے پاکستان، نظریہ اور قائد اعظم پر جتنی بھی تنقید کی ہے اس کی بنیاد قائد اعظم کا پاکستان کو اسلامی شناخت قرار دینے پر اسرار کرنا ہےکہ:
“Let it be clear that Pakistan is going to be an Islamic state based on Islamic ideals even united nation recognized that”.
’’یہ بات واضح ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست بننے جارہا ہے حتی کہ اقوامِ متحدہ بھی اس کو تسلیم کرتی ہے‘‘-
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیں کہ قائد اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’پاکستان ایک مُلّائی ریاست نہیں بنے گا‘‘-یہاں یہ وضاحت کرنا چا ہوں گا کہ اسلامی ریاست اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ہے-لیکن جو پاکستان کا ’’ایتھی ایسٹ‘‘ اور ’’سیکولر‘‘ طبقہ ہے آپ ان کے ساتھ بیٹھ جائیں وہ آپ کے ساتھ خدا کے موجود ہونے (Existence of God)، یا روح کے تصور (Concept of Soul) پر بحث نہیں کریں گے بلکہ وہ آپ کے ساتھ چند گھسے پٹے سائنسی مفروضوں پر بات کریں گے یا وہ پاکستان میں موجود مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے کے اوپر اعتراض کر کے اس کو کہیں گے کہ یہ دہرے معیارات (double standards) ہیں-
بھائی جان! ان دہرے معیارات کے خلاف تو ہم بھی برسرِ پیکار ہیں یعنی کوئی کہے کہ ہم بحالی تو جمہوریت کی چاہتے ہیں، مگر چندہ بادشاہت سے لیتے ہیں اور نعرہ خلافت کا لگاتے ہیں- آپ ہی بتائیں! اس دوہرے پن اور مبنی بر کذب رویہ کا کون دفاع کرسکتا ہے؟ کم از کم میں تو اس کا دفاع نہیں کرسکتا کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی چیز کو اختیار کیا جا سکتا ہے-اس لئے قائد اعظم نے اس مذہبی سیاست کے دہرے معیارات کی نفی کی ہے نہ کہ اسلامی نظریات اور اسلامی اصولوں کی جس کی بنا پر بہت بے باک ہو کر کَہ دیا جاتا ہے کہ قائد اعظم ایک سیکولر ریاست چاہتے تھے-
اس لئے میں یہاں قائد اعظم کی 11 اگست کی سپیچ کی سیرتِ رسول (ﷺ)کے تناظر میں وضاحت کرنے سے پہلے یہ بتانا چاہوں گا کہ جب یہ کہا گیا کہ بعثتِ محمدی (ﷺ) کے مقاصد یہ ہیں کہ آپ (ﷺ) دین کو غالب کرنے کے لئے تشریف لائےاور پاکستان کے قیام کے مقاصد بھی یہی ہیں کہ پاکستان بھی اللہ کے کرم سےہر دور اور ہر صدی میں دین کی محافظت کے لئے وجود میں آیا ہے-جس طرح رسول اللہ (ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی مشکلات اسلامی شناخت کی وجہ سے تھیں اور آج پاکستانی قوم کی بھی مشکلات اس کی اسلامی شناخت کی وجہ سے ہیں-دین اور امت دونوں کا ایک باہمی ربط بنا اور آپ (ﷺ) کے بعد دین کی حفاظت آپ (ﷺ) کی امت کے سپرد ہوئی جیسا کہ آپ (ﷺ) کی معروف دعا ہے کہ:
’’اَللّٰهُمَّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِی الْأَرْضِ‘‘ [7]
’’اے اللہ !اہل اسلام کی یہ(مٹھی بھر) جماعت اگر ہلاک ہو گئی تو پھر زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی‘‘-
یعنی سرکارِ دو عالم (ﷺ) نے دین اور امت کا جو ربط قائم کیا پاکستان اس ربط کا تسلسل ہے اور انہی مقاصد کے احیاء کے لئے ہے- اس لئے آقا کریم (ﷺ) نے اپنی امت کی بنیاد کو معاشی اور معاشرتی سطح پر مربوط فرمایا،امت کو آپس میں جوڑا اور ان کے مابین جو مختلف تفریقات تھیں ان کو ختم فرمایا-
میں اپنے آپ کو پاکستان کا بیٹا سمجھتے ہوئے بڑا فخر محسوس کرتا ہوں اور مجھے پاکستان سے بے پناہ محبت ہے اور میں یہ برملا کہنا چاہوں گا کہ آپ اس بات کو پاکستان کی بنیاد میں پائیں گے کہ جس طرح سرکارِ دو عالم (ﷺ) نے اُن کی تمام تفریقات کو ختم کیا؛ وہ عربی تھے یا عجمی، شرقی تھے یا غربی، گورے تھے یا کالے، امیر تھے یا غریب، کوئی کسی قوم سے بھی تعلق رکھتا تھا جس نے بھی کہا’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ وہ اس قوم کا فرد بن گیا اور اس کے درمیان تفریقات ختم ہوگئیں-آپ (ﷺ) نے امتیازات جو رنگ، نسل، قومیت، وطنیت، لسانیت اور علاقیت کی بنیاد پر تھے ان سب کو بالائے طاق رکھ کر وحدت کو پیدا کیا-
اس لئے پاکستان اور سیرت کا آپس میں یہ تعلق ہے کہ جس طرح مکہ کے مہاجر، مدینہ کے انصار، حبشہ کے بلال، روم کے صہیب، پارس کے سلمان، وہ سب مل کر ایک ریاست مدینہ کی تشکیل کرتے ہیں؛ اسی طرح مہاجر، سندھی، بلوچی، پختون، پنجابی، کشمیری اپنے اس تنوع کے باوجود سب مل کر اس سنت کو زندہ کرتے ہوئے پاکستان کی تشکیل کرتے ہیں-
میرے ساتھیو! آپ اندازہ لگائیے کہ کون کون لوگ، کس تنوع کے، کس کس طرح کا پرائیڈ رکھنے والے لوگ آقا کریم (ﷺ) نے ریاستِ مدینہ کی سیاسی وحدت میں شامل کئے-مہاجرین، بنی عوف، نبی حارث، بنی جشم، بنوع نجار، بنوع امر ابن عوف، بنو عوس یہ مدینہ منورہ کی ساری وہ متنوع شناختیں تھیں جن کو آقا کریم (ﷺ) نے دنیا کے ایک انوکھے عمرانی معاہدہ ’’میثاق مدینہ‘‘ (charter of Madina) کے تحت ان سب کو ایک وفاق کا حصہ بنا کر ارشاد فرمایاکہ:
’’إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَّاحِدَةٌ مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ‘‘[8]
’’یہ (تمام گروہ) دنیا کے (دوسرے) لوگوں سے ممتاز و ممّیز ایک علیحدہ (سیاسی) وحدت متصور ہوں گے‘‘-
اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری منتوع شناختیں مل کر ایک پاکستان کی شناخت پیداکرتے ہیں اور سنتِ رسول (ﷺ) کو دوبارہ زندہ کرتے ہیں-
اب آئیے اسی بات کی طرف جو کہ اس ریاست میں اختلاف ہے کہ پاکستان کا تصور لبرل اور سیکولر ہے یا اسلامک آئیڈئیلز پہ ہے-مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ہمارا مذہبی طبقہ قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ سن کر پسپائی اختیار کرتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں جو ثبوت سیرتِ رسول (ﷺ) سےہمارے مذہبی سکالر کے پاس ہے وہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قائد اعظم کا تصور اور قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کامآخذ ’’میثاق مدینہ‘‘ہے کیونکہ قائد اعظم نے کوئی ایسا لفظ اس تقریر میں نہیں کہا جس سے میثاق مدینہ یا اسلامی شناخت یا اسلامی ریاست کے تصور کی نفی ہوتی ہو-
لارڈ ماؤنٹ بیٹن جس وقت شہر کراچی میں قائد اعظم کو اختیار تفویض کرنے آتے ہیں تو وہ قائد اعظم کو نصیحت کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کسی شخصیت کی پیروی کرنے کی سب سے اچھی مثال جلال الدین محمد اکبر کی ہے اور قائد اعظم اپنی تقریر میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’’ میرے پاس فالو کرنے کے لئے جلال الدین اکبر کا نہیں بلکہ محمد رسول اللہ (ﷺ) کا رول ماڈل ہے‘‘جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قائد اعظم جب یہ بات کر رہے تھے تو ان کی نظرمیں مدینہ منورہ کا یہ معاہدہ تھاجس میں ہے کہ:
’’وَ إِنَّهٗ مَنْ تَبِعَنَا مَنْ يَهُوْدٍ فَإِنَّ لَهُ النَّصْرَ وَالْأُسْوَةَ غَيْرَ مَظْلُوْمِيْنَ وَلَا مُتَنَاصَرٍ عَلَيْهِمْ‘‘[9]
’’یہودیوں میں سے جو بھی ہماری اتباع کرے گا تو اسے مدد اور مساوات حاصل ہوگی اور ان یہود پر نہ تو ظلم کیا جائے گا اور نہ ان کے خلاف کسی دشمن کی مدد کی جائے گی‘‘-
اس لئے پاکستان میں جو اقلیتیں رہتی ہیں، جو ہندو، عیسائی، سکھ اور دیگر قبائلی علاقاجات کے لوگ رہتے ہیں اس سنت کو اختیار کرتے ہوئےجو بھی آئین پاکستان اور ریاست پاکستان کے ساتھ وفا کرتا ہے اس کو ہمارےساتھ مدد بھی حاصل ہوگی اور اس کو ہمارے ساتھ مساوات بھی حاصل ہوگی -یہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ہے نہ کہ قائد اعظم کی سیکولر ریاست کی بنیاد-
مزید دیکھئے!
’’وَإِنَّ يَهُوْدَ بَنِيْ عَوْفٍ أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ، لِلْيَهُوْدِ دِيْنُهُمْ وَ لِلْمُسْلِمِيْنَ دِيْنُهُمْ مَوَالِيْهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ إِلَّا مَنْ ظَلَمَ وَأَثِمَ فَإِنَّهٗ لَا يُوْتِغُ إِلَّا نَفْسَهٗ وَأَهْلَ بَيْتِهٖ‘‘[10]
’’یہود بنی عوف اور ان کے حلفاء و موالی، سب مل کر مسلمانوں کے ساتھ ایک جماعت (سیاسی وحدت) متصور ہونگے-یہودی اپنے دین پر (رہنے کے مجاز ) ہوں گے اور مومن اپنے دین پر کاربند رہیں گے- البتہ جس نے ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کیا تو وہ محض اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو مصیبت میں ڈالے گا‘‘ -
قائد اعظم نے بھی یہی کہا تھا کہ وہ مذہبی معنوں میں نہیں بلکہ سیاسی معنوں میں تمام اقلیتیں اور مسلمان سیاسی وحدت تصور کیے جائیں گے اور میثاق مدینہ بھی یہی کہتا ہے کہ مسلمان اور یہودی ایک سیاسی امت تصور ہوں گے-اس معاہدے کی رو سے مگر مسلمانوں کے لئے اپنا دین ہوگا اور یہود کے لئے اپنا دین ہوگا-اس لئے پاکستان کی کوئی فاؤنڈیشن بھی قائد اعظم نے سیکولر نہیں رکھی- قائد اعظم کا جو یہ تصور تھاکہ ریاست میں مساوات اور عدل ہو اور ریاست کی اقلیتیں اور مذہبی اکثریت مل کر خوش اسلوبی کے ساتھ زندگی بسر کریں یہ سیرتِ پاک سے اخذ کردہ ہے -
جہاں تک تعلُّق اس حقیقت کا ہے کہ پاکستان کی بعض مذہبی اقلیتوں میں سے چند عاقبت نااندیش لوگ انٹرنیشنل این جی اوز کے اُکسانے پہ اور ان سے مال ٹھال بٹورنے کی خاطر پاکستان کے خلاف سرگرم بین الاقوامی لابی کے مفادات کو پروان چڑھاتے ہیں اُن سے ریاست کو اپنے آئین و قانون کے مطابق نمٹنا چاہئے-اُن کیلئے میثاقِ مدینہ سے یہ اصول اخذ ہوتا ہے کہ ’’ البتہ جس نے ظلم یا عہد شکنی کا ارتکاب کیا تو وہ محض اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو مصیبت میں ڈالے گا‘‘-لیکن ایسے غیر مسلم پاکستانی شہری جو آئینِ پاکستان اور قوانینِ ریاست کے وفادار ہیں اُن کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ریاست کی اوّلین ذِمّہ داری ہے-
اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ عصرِ حاضر کے چیلنجز میں ہمارے اوپر یہ بات قائد اعظم کے ذریعے سے ہی آشکار ہوئی ہے کہ ہم اپنے سیاسی مسائل کا حل رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت طیبہ سے ڈھونڈ سکتے ہیں-اس لئے اس شہر کراچی کے بار کونسل کو ایڈریس کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ :
’’اسلام وہ دین ہے جو پرانانہیں ہوابلکہ اس کے قانون اسی طرح آج بھی قابلِ اطلاق (applicable) ہیں جیسا کہ آج سے تیرہ سو برس پہلے معاشرے کے اوپر قابلِ اطلاق تھے‘‘-
(4)اب آئیے اگلی بات کی جانب جو میرے نزدیک سیرت کے باب میں آج کے پاکستان کے لئے بڑی اہمیت رکھتی ہے-پہلے ہم نے دین کو ڈسکس کیا، پھر ہم نے اُمت کو ڈسکس کیا اب ہم ریاست کو ڈسکس کرتے ہیں-دین کی حفاظت کا انحصار امت پر اور امت کی حفاظت کا انحصار ریاست پرہے-آج آپ نے دیکھا کہ لیبیا میں جنگ ہوئی لیبیا قبائل میں بٹا، نیورک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ اور یہ سارے بڑے دنیا کے اخبارات اور ان کے اداریے یہ لکھتے ہیں کہ لیبیا اس وقت دنیا میں’’غلاموں کی سب سے بڑی منڈی ہے (Largest slave market) -یہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے- سوال یہ ہے کہ لیبیا ’’ورلڈز لارجسٹ سلیو مارکیٹ‘‘ کیوں بنا؟ کرنل معمر القذافی کے دور میں تو ’’غلاموں کی منڈی‘‘ نہیں تھی لیکن جب ریاست ٹوٹی تو وہ ’’سلیو مارکیٹ بن گئی‘‘-شام، جب ریاست ٹوٹی تو وہ مظالم کا شکار ہوا-عراق، جب ریاست ٹوٹی تو مظالم کا شکار ہوا-افغانستان اس ریاستی تصور سے محروم ہے تو وہاں کے حالات اس حد تک دگر گوں ہیں اور خود سعودی عرب اور دیگر ریاستیں جب انہوں نے اپنی ریاستی وحدت کو توڑا تو مشکل حالات کے بعد عرب سپرنگ آیا-اس کے بعد ’’انٹرنیشنلی اسپانسر ٹیرر ازم‘‘ کی لہر بھی پاکستان میں اسی لیے داخل ہوئی کہ پاکستان کا ریاستی تشخص بھی لیبیا، شام اور عراق کی طرح ختم کیا جائے-اس طرح قائد اعظم نے عملی طور پر پاکستانیوں اور مسلمانوں کی مشکلات کا حل رسول اکرم (ﷺ) کی سیرت مبارکہ سے تلاش کر کے دیا-اس لئے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اس کے بانیوں نے اس کو سیرتِ محمدی (ﷺ) سے اخذ کیا اور اس کی تمام اساس و بنیاد اسی کے اوپر قائم ہے-
اگر آج پاکستان اُمت مسلمہ میں لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ پاکستان کی ریاست کی مضبوطی و استحکام ہے-اس لئے ہمیں اس جدید دنیا میں اپنے اوپر یہ واضح کرلیناچاہیے کہ اگر کوئی بھی ریاست کے خلاف کسی طرح کا اِقدام کرتا ہے تو بنیادی طورپر وہ ریاست کو کمزور کر کے امت کو کمزورکر رہا ہے اور امت کو کمزور کر کے اپنے دین کو کمزور کر رہا ہے- کیونکہ ہمارا مقصد بنام خدا اور بنام رسول (ﷺ)دین ، اُمت اور اپنی ریاست کا وفادار بننا ہے-
سورہ المائدہ میں بڑا واضح حکم مبارک ہے کہ:
’’إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ‘‘
’’ جو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وه قتل کر دیئے جائیں یا سولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا انہیں جلاوطن کر دیا جائے‘‘-
اِس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں امام طبریؒ نے’’تفسیر طبری‘‘ میں حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ)کا قول مبارک بیان فرمایا کہ:
’’من شهر السلاح في فئة الاسلام، وأخاف السبيل، ثم ظفر به وقدر عليه، فإمام المسلمين فيه بالخيار، إن شاءقتله وإن شاء صلبه وإن شاء قطع يده ورجله‘‘
’’جس شخص نے مسلمانوں کی مملکت میں اسلحہ اٹھایا اور راستے میں خوف و حراس پھیلایا تو پھرجب وہ مفتوح ہو جائے اور اس پر قابو پا لیا جائے تو مسلمانوں کے حکمران کو اس کے بارے میں اس بات کا اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس کو قتل کردے اگر چاہے تو اسے سولی پر لٹکادے اور اگر چاہے تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دے‘‘-(یعنی اللہ تعالیٰ نےحکومتِ وقت کو ملک کا امن و امان برقرار رکھنے کے لئے دہشت گردوں کے خلاف ان اقدامات کی اجازت مرحمت فرمائی ہے) ‘‘-[11]
پاکستان میں جن لوگوں نے یہ بدترین خون ریزی شروع کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ سیدنا حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کے اس قول کے تحت کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے جنگ کرتے ہیں زمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ ان کو قتل کیا جائے، ان کو پھانسی دی جائے، ان کے ہاتھ اورپاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں ان کو ملک بدر کردیا جائے یا ان کو قید کر دیا جائے- اُن کے حامیوں کو بھی سخت ترین سزا دی جانی چاہیے جو ان خارجی دہشت گردوں کے حق میں دلائل تراشتے رہتے ہیں-
ہمارے بعض حکمرانوں نے بھی اس سے پہلے ان دہشتگروں کے ساتھ جو نرمی اور سمجھوتوں کا رویہ اختیار کیا بلکہ حقیقتاً ان کے سہولت کار بنے، وہ رویّہ اور طریقہ کار منافیٔ سیرت تھا اس کا نتیجہ ریاست کو ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں ہوا-آپ دیکھتے ہیں کہ جب تک یہ ملٹری آپریشنز نہیں ہوئے تھے، جب تک ریاست میں سیرت کی روشنی میں ریاستی عملداری نافذ نہیں کی تو کراچی، کوئٹہ، پشاور، لاہور، پنڈی، اسکول اور جامعات، مساجد و خانقاہیں مقتل گاہیں تھیں لیکن جب ریاست ان خارجی دہشت گردوں کے فتنے کی سرکوبی کیلئے راہِ حق، راہِ نجات آپریشنز کرتی ہے خیبر1، خیبر2، خیبر3، خیبر4 کرتی ہے اور سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تلوار کی ضرب ’’ضربِ عضب‘‘ اور ’’رد الفساد‘‘ کرتی ہے تو آپ کا یہ ملک امن کا گہوارہ بن جاتا ہے جس سے ریاست کو استحکام اور مضبوطی ملتی ہے-
اس لئےجو کوئی بھی ریاست میں اس طرح کا کام کرے جس سے ریاست کا تشخص مجروح ہو، جس سے غنڈہ گردی، دہشت گردی اور قتل و غارت کو فروع ملے از رُوئے سیرت ان کو کچل دینا ریاست پر لازم ہوجاتا ہے-
پھر وہ لوگ جو اپنی ریاست کو چھوڑ کر اس ریاست کے دشمن کی پروکسی بنتے ہیں، سیرت بتاتی ہے کہ اس کے ساتھ بنو قریظہ والا واقعہ کیا جائے جو خندق کے موقع پر کفار کے پروکسی بنے تھے-یہاں جو لوگ را موساد اور این ڈی ایس کی پروکسی ہو کر، افغانستان سے اسپانسر ہوکر پاکستان میں آتے رہے یہ کیسے مجاہدین ہیں جو کلمہ پڑھنا نہیں جانتے،جن کو نماز نہیں آتی ، پہلی بار تاریخ میں غیر ختنہ شدہ مجاہدین کے دستے لڑنے کیلئے آتے رہے، جسموں پہ ٹیٹو بنوانا کن کا شِعار و شیوہ ہے؟ کیا ایسے لوگوں کو مجاہد کہا جا سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک و شُبہ نہیں یہ لوگ گروہِ خوارج کا حصہ تھے اور ہیں، اِن کی سرکوبی اور ان کا خاتمہ لازم ہے -
آپ کو ایک بہت دلچسپ واقعہ بتاتا چلوں کہ :
’’مجھے ایک دوست بتانے لگے کہ یہاں کراچی میں ایک مولانا صاحب تھے جو ہمیشہ شعلہ فشانی کرتے تھے یعنی ان کی زبان سے ہر وقت شعلے اُگلتے تھے-وہ کہتے ہیں کہ ان کے ایک دوست ان کے پیچھے جمعہ پڑھنے نہیں جاتے تھے تو ایک دن انہوں نےبڑا اصرار کیا کہ آپ نے جمعہ میرے پاس پڑھنا ہے-ایک دن کسی وجہ سے وہ لیٹ ہو گئے تو انہوں نے ان کی تھوڑی سی تقریر سنی جب شام کو وہ ان سے ملےتو انہوں نے کہا کہ مولانا صاحب! آج تو آپ کی تقریر میں وہ شعلہ فشانی نہیں تھی، آج تو آپ نے بڑی اتحاد و وحدت کی، اخوت و محبت کی، آنسوں پوچھنے اور دل جوئی کرنے کی بات کی تو یہ آپ نے کس مفتی سے اصلاح کروائی ہے ہمیں بھی اس مفتی صاحب کا بتادیں ہم بھی اس مفتی سے اپنی اصلاح کروالیں-ان دنوں ضرب عضب عروج پر تھا تو مولانا صاحب بڑے ڈر کر کہنے لگے کہ میں نے یہ اصلاح مفتی راحیل شریف سے کروائی ہے-اس لئے بعض اصلاحیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے مفتی ریاست کی طاقت کے طور پر چاہیے ہوتا ہے‘‘-
کئی دفعہ ایسی نشستوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا اور خود اپنے کانوں سے سنا کہ جس طرح قتل عام کی وکالت پر جو لوگ بہت بڑھا چڑھا کر باتیں کرتے ہیں کہ یہ ہوا، وہ ہوا، اسباب و محرکات دیکھیں- ان باتوں سے وہ بچوں، نمازیوں، فوجیوں اور پولیس والوں کےقتل کا جواز پیدا کرتے ہیں-حالانکہ فوجی اور پولیس اہلکار بھی ہمارےبھائی اور بیٹے ہیں ان کے قتل کا بھی کیا جواز بنتا ہے جو بچوں اور نمازیوں کے قتل کا جواز پیدا کرتے ہیں-اس لئےآج اگر پاکستان مستحکم ہے تو ان پراکسیز کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے ہے-اس سے پہلے کہ مَیں آخری نکتہ کی جانب آؤں یہاں میں میثاق مدینہ کی روشنی میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ریاست کس طریق سے اپنی ذمہ داری ثبت کرتی ہے:
’’وَإِنَّ الْمُؤْمِنِيْنَ اَلْمُتَّقِيْنَ عَلَى مَنْ بَغَى مِنْهُمْ أَوْ اِبْتَغَى وَسِيْعَةَ ظُلْمٍ أَوْ إِثْمٍ أَوْ عُدْوَانٍ أَوْ فَسَادٍ بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَإِنَّ أَيْدِيَهُمْ عَلَيْهِ جَمِيْعِهِمْ وَلَوْ كَانَ وَلَدَ أَحَدِهِمْ‘‘
’’اور یہ کہ تمام تقوٰی شعار مومنین، متحد ہوکرہر اس شخص کی مخالفت کریں گے جو سر کشی کرے، ظلم گنا ہ اور تعدی کے ہتھکنڈوں سے کام لے اور ایمان والوں کے درمیان فساد پھیلائے - ایسے شخص کی مخالفت میں ایمان والوں کے ہاتھ ایک ساتھ اٹھیں گے اگرچہ وہ ان میں سےکسی کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو‘‘-
اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ سیرتِ مصطفےٰ (ﷺ) سے یہ پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا سبق اور بہت بڑی تائید ہے-
(5) آخر میں اس ریاست کا شہری ہوتے ہوئے اپنی بہنوں اور بھائیوں کو بتانا چاہوں گاکہ وہ جو بانیٔ پاکستان عقیدت سے رکھتے تھے اور جن کے لئے بانی پاکستان نے کہا کہ اگر مجھے ریاست دی جائے اور مجھ سے پوچھا جائےکہ میں ریاست اور علامہ اقبال میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں تو مَیں ریاست کو چھوڑ کر اقبال کا انتخاب کروں گا-لوگ کہتے ہیں کہ شاید یہ ایک جذباتی بات ہے مگر یہ بات عقل کے معیار پر پوری اترتی ہے اس لئے کہ ایسی ریاست جس کا کوئی نظریہ نہ ہو اس ریاست سے کوئی نظریہ پیدا نہیں کیا جاسکتا لیکن اقبال جیسا ایک مفکر بھی اگر ہو، تو اقبال جیسا ایک مفکر کئی ریاستیں پیدا کروا سکتا ہے-اس لئےاقبال نے کہا تھا:
با نشۂ درویشی در ساز و دما دم زن |
’’ہر دم درویشی کے نشے میں مست رہ، جب فقر میں پختہ ہو جائے تو پھر سلطنتِ جم کے خلاف معرکہ آراء ہو‘‘-
یعنی سب سے پہلے اپنے آپ کو نشہ درویشی لگا کر اپنے اندر صفاتِ درویشی کو پیدا کرو، جب اس درویشی صفات میں پختہ ہو جاؤ تو پھر اپنے آپ کو جمشید کے تخت پر لے کر آؤ-جس طرح آقا کریم (ﷺ) نے بھی نفاذِ شریعت سے قبل اپنی خدمت اور صحبت میں بیٹھنے والے لوگوں کا تزکیہ نفس فرما کران کے باطن کو پختہ کیا-اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مومنین کی تربیت کا جو اہتمام کیا ہے وہ بھی اس حقیقت کا عکاس ہے جو کہ مکی اور مدنی سورتوں کے مزاج میں آپ کو واضح فرق نظر آتا ہے-مثلاً جب آپ مکی سورتوں میں دیکھیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ جب زندہ درگور ہونے والی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ یہ کس جرم میں ماری گئی، لیکن مدینہ میں جاکر یہ مطالبہ قصاص کی صُورت میں نظر آتا ہے- اسی طرح مکی سورتوں میں بکثرت مضامین قیامت،خوف و عذاب، سورج، چاند، ستارے اور آسمان کے لپیٹ لئے جانے، سمندروں کے سلگادیے جانے، جسموں کوروحوں سے جوڑ دیے جانے یعنی حشر اجساد کے ہیں -لیکن مدنی سورتوں میں موضوعات احکامِ الٰہی کے ہوجاتے ہیں-جیسے قضاء، معیشیت، حرمت رباء، فیصلے کیسے ہونگے، عدل کیسے قائم کیا جائے گا، معاہدے کیسے ہونگے وغیرہ-
یعنی مکی اور مدنی سورتوں کاا متزاج یہ بتاتا ہے کہ جسے ہم اصطلاحاً پولیٹکل اسلام کہتے ہیں وہ مدینہ سے شروع ہوتا ہےجس کی بنیاد و مرکز مسجد نبوی (ﷺ) ہے- آج سے تقریباً دو سال قبل رمضان المبارک میں جس وقت مدینہ منورہ میں روضہ شریف پر حملہ ہوا، اسی حوالہ سے لاہور میں انعقاد پذیر سیمینار پر مجھے جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں لوگ پہلی بات بڑی تکرار سے کرتے اور دوسری بات پر مجھے ان کی زبان پر شرمندگی محسوس ہوتی اور وہ ادھر ادھر کے چہروں کو دیکھ کر خوف سے کچھ کَہ دیتے کہ مکہ ہمارے عقیدہ کا مرکز ہے اور مدینہ ہماری عقیدتوں کا مرکز ہے-مَیں نے کہا مولانا اگر عقیدہ کو مدینہ سے نکال دیں گےتو جس پولیٹکل اسلام کا چورن آپ فروخت کرتے ہیں وہ نہیں کر سکیں گے اس لئےکہ احکام کی ساری آیات ہی مدینہ منورہ میں ہوئی ہیں آپ کیسے کَہ سکتے ہیں کہ مدینہ منورہ عقیدت کا مرکز ہے اور عقیدہ کا مرکز مکہ ہے؟ جبکہ دونوں عقیدہ کے مرکز ہیں مکہ بھی اور مدینہ بھی-ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ ایک مقام پر ایسی آیات نازل ہوئیں کہ جس سے انسان میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے جس سے انسان تقویٰ اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کے قرب کا راستہ اختیار کرتا ہے اور دوسرا وہ مقام ہے جہاں جا کر ریاست کی باضابطہ تشکیل ہوتی ہے-
اس لئےآج ہمیں یہ طریق اخذ کرنے کی ضرورت ہے کہ پہلے اپنے وجود میں تزکیہ اور تصفیہ کو محکم و مستحکم کریں، تقوی اور خوف و خشیتِ الٰہی کو پیدا کریں-جب ہم اخلاق، تقوی،خشیت، زہد و عبادت، رغبت الی اللہ اور ففر و الی اللہ میں پختہ ہوجائیں تو پھر ہم پر یہ شرط عائد ہوتی ہےکہ اس سے عظیم تر مشن کی جدو جہد کریں جس میں ریاست کا استحکام اور بعثتِ محمدی (ﷺ) کے مقاصد مکمل ہوں-اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری ظاہری تطہیر کے ساتھ ساتھ باطنی تطہیر بھی ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے اور یہ سبق ہم سیرتِ رسول (ﷺ) سے اخذ کرتے ہیں-
پاکستان اپنے وجود سے قبل ہی اپنے تصور کی بنیاد سیرتِ رسول (ﷺ) پر رکھتا ہےا ور اپنے وجود میں آنے کے دوران ہی تمام تر تصور سرکارِ دو عالم (ﷺ) کی سیرت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے اور وجود میں آنےکے بعد اس کے چیلنجز کا حل بھی قائد اعظم محمد علی جناح نےہمیں سیرتِ مبارکہ سے پیش کیا ہے-پاکستان جو مقاصد لے کر آگے بڑھ رہا ہے اس میں اس کا اپنا ریاستی وجود برقرار رکھنا از روئےتعلیماتِ سیرت پاکستان کے اوپر لازم ہے-اس لئے ہمیں اپنی اسلامی اور روحانی شناخت پر معذرت خواہ (Apologetic) نہیں ہونا چاہیے-جو اہل حق ہیں وہ اپنی اسلامی شناخت کی وجہ سے مشکلات برداشت کرتے ہیں جسیا کہ سیدنا ابراہیم، سیدنا موسی (علیھم السلام)، سرکارِ دو عالم (ﷺ)اور آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام اور سید الشہداء امام حسین(رضی اللہ عنھم)نے اسی شناخت کی وجہ سے مشکلات برداشت کیں-اس لئے اقبال کہتے ہیں کہ:
در کلیسا ابن مر سوشل میڈیا پر شِیئر کریں © حقوق اشاعت العارفین پبلیکیشنز
|