تحریکِ پاکستان میں صوفیائے کرام کی شمولیت کے محرکات کا تحقیقی جائزہ

تحریکِ پاکستان میں صوفیائے کرام کی شمولیت کے محرکات کا تحقیقی جائزہ

تحریکِ پاکستان میں صوفیائے کرام کی شمولیت کے محرکات کا تحقیقی جائزہ

مصنف: ڈاکٹر فیاض احمد شاہین اگست 2018

محرکات وہ اشیاء یا قوتیں اور مقاصد ہیں جو معاشرے کے افراد کو ترغیب دیتی ہیں جن کے ذریعے فرد کسی رد عمل کا اظہار کرتا ہے  -یعنی جن چیزوں اور کاموں سے فرد کسی عمل کی طرف راغب ہو اُن کو محرکات کہا جاتا ہے؛ اور یہ امر تجرباتی طور پر ثبوت ہے کہ انسان کو وہ محرک اپنی جانب جلد راغب کرے جس کے حاصل کرنے کی وہ کوشش کرے گا یا جو اُسے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہوگا-محرک جتنا طاقتور ہوتا ہے اُس کا رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے اور جب تک اسے مقصد حاصل نہ ہوجائے اُس وقت تک اپنا عمل جاری رکھتا ہے-

تحریکِ پاکستان کا سب سے مضبوط محرک دو قومی نظریہ تھا جس کی اساس ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘تھی اور کون سا مسلمان ہے جو اپنے معبود حقیقی سے محبت نہیں رکھتا اور اسے الٰہ نہیں مانتا ہے-یقیناً جس کی محبت اپنے رب سے جتنی کامل ہوگی وہ اسی درجہ اس نظریاتی اساس کی حفاظت بھی کرے گا اور دل و جان سے قربان ہونے کے لئے بھی تیار رہے گا-تاریخ کے اوراق پر طائرانہ نظر ڈالئے تو آپ عالم فرط و مسرت سے جھوم اٹھیں گے اور اپنے عقیدے کی پختگی کے حامل بن جائیں گے کہ دین پر جب بھی کڑا وقت آیا یا اُمتِ مسلمہ کے نظریات کی احیاء کی باری آئی ہے جو بھی ہستی میدان میں اُتری اُس کا رابطۂ حق اس قدر مضبوط اور ایمان اس قدر غیر متزلزل تھا کہ طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے-ایسی صورتِ حال کچھ تحریکِ پاکستان میں عملی شرکت کرنے والوں کی تھی جیسا کہ حضرت محدثِ دہلوی، امامِ ربانی مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، علامہ فضلِ حق خیر آبادی،محدثِ بریلی امام الشاہ احمد رضا خاںؒ۔ ان سب نے اصلاحی اور انقلابی طریقہ ہائے کار سے اُس مضبوط محرک کی طرف اہلِ اسلام کو راغب کیا جو دو قومی نظریے کا اولین عملی اظہار تھا-یہ عشق و محبت کی بات تھی کہ جب فکرِ حریت لاحق ہوگئی اور قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے مدبر راہنما جب ہندو مسلم اتحاد کی بات کررہے تھے تو اُس وقت بھی سیاستِ ملیہ کو نظریاتی فکر فراہم کرنے کے لئے، محدثِ بریلوی نے اُن کو خبردار کیا کہ ہنود کے خفیہ ارادے کچھ اور ہیں جو ہندو مسلم اتحاد کے لئے خطرناک نتائج برآمد کرسکتے ہیں-پھر وقت نے ثابت کردیا ہندو مسلم اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا اور مسلم لیگ کا قیام عمل میں لانا پڑا-یہ کیسی بصیرت تھی جس کا استعمال کر کے اہل نظر راہِ وفا پر گامزن رہے-

صوفی وہ ہے جو خوفِ خدا اور کشتہٗ حبِ رسول (ﷺ) کا مظہر ہو-جس دور کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے اُس دور میں صوفی وہی کہلاتا تھا جو علوم شریعت و طریقت پر کاربند ہوتا تھا- یعنی عالم بھی اور صاحبِ تصوف بھی-جو پیوستۂ شجر نہیں وہ صاحبِ فقر نہیں-

تحریکِ پاکستان ایک طویل کاوش کا نام ہے-کسی بھی دور کو دیکھا جائے مشکلات اُسی دور کے اعتبار سے سامنے آتی رہیں- صاحب النظر لوگ اپنی دوربینی، دور اندیشی اور مضبوط قوتِ ارادی سے فیصلے فرماتے رہے اور اُمتِ محمدیہ کو راہِ راست پر گامزن کرتے رہے-علمائے دین اور مشائخِ عظام ہر دور میں دینِ اسلام کے تحفظ اور آبروئے ملتِ واحدہ کیلئے سرگرمِ عمل رہے-یہ فکر ہمیشہ دامن گیر رہی کہ کہیں ہندوانہ تہذیب و ثقافت اسلامی ثقافت پر اثر انداز نہ ہو-اسی فکر کے پیشِ نظر حضرت مجددِ الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ ؒ نے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بھرپور کردار ادا کیا-تحریکِ پاکستان کے دوران جب جمعیت علمائے ہند نے انگریز سامراج سے خطرہ محسوس کیا تو ہندو اکثریت کا ساتھ دیا مگر علماء و مشائخ کی ایک بڑی جماعت یہ محسوس کر رہی تھی کہ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد ہندو اکثریت کا تسلط قائم رہے گا اور آزادی کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکیں گے-لہٰذا مسلمانانِ برصغیر کے لئے الگ وطن کے لئے کاوش شروع کردی گئیں-حضرت قائد اعظم ؒ  کا ساتھ دیتے ہوئے علماء کرام اور صوفیائے عظام نے قیامِ پاکستان کی مخالف قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کا تذکرہ حضرتِ قائد اعظمؒ نے خود متعدد مرتبہ کیا-بظاہر حکمتِ عملی کچھ بھی رہی مگر حقیقت میں سب بزرگان، مشائخ عظام اور صوفیائے کرام کا مطمحٔ نظر ایک ہی رہا ہے اور وہ محرک کلمۂ حق تھا-تمام محرکات اسی ایک محرک کا طواف کرتے نظر آتے ہیں- چاہے وہ دو قومی نظریہ ہو یا نظریۂ پاکستان ہو-ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میرؔ صاحب گویا ہوتے ہیں:

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

اور بقول سرورؔ:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

موضوع کی گہرائی اور گیرائی کا خیال رکھتے ہوئے محقق کی یہ کوشش ہوگی کہ یہاں اُن ہی اہلِ بصیرت (صوفیائے کرام) کا تذکرہ کیا جائے جن کی بدولت ہم آزادی کے سائے میں سانس لے رہے ہیں-تحریکِ پاکستان کے معروف نعرے کا ایک جواب اہلِ محبت کا یہ بھی رہا ہے کہ:

اولیاء کا ہے فیضان

 

پاکستان پاکستان

ایسے ہی چند عظیم صوفیائے عظام کی کاوشوں کا اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے-ساتھ ہی ساتھ وہ محرکات زیرِ بحث آئیں گے جن کی وجہ سے وہ تحریکِ پاکستان کے ہمنوا وہم قدم بنے-

مولانا جمال میاں فرنگی محلی:

تحریکِ پاکستان کے عظیم اور نامور مجاہد جنہوں نے اوائلِ عمری میں ہی اپنے آپ کو لیلیٔ آزادی کے حصول کی خاطر وقف کردیا تھا- کم عمری میں ہی اپنی ذہانت و فطانت کی بدولت مسلم لیگ کے صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل ہو گئے-آپ ایک عظیم روحانی پیشوا بھی تھے اور شعلہ بیان مقرر بھی،  گھر گھر مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا- حتیٰ کہ جھنگ جیسے دور اُفتادہ علاقے میں بھی مسلم لیگ کا پیغام عام کرنے کے لئے مہر غلام فرید کے ساتھ مل کر کانفرنس کی اور اس کا تنظیمی جال بچھادیا-

مسلمانانِ ہند کی اقتصادی و سماجی مشکلات، ضروریات اور نظامِ تعلیم اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی اہمیت اور نظریۂ پاکستان پر تقاریر کیں اور تحریری مواد فراہم کیا-روزنامہ ’’ہمدم‘‘کے ذریعے گراں قدر خدمات سرانجام دیں- ’’وطنیت‘‘اور ہندو ذہنیت کے خلاف آپ نے زور دار مقالے لکھے اور دو قومی نظریے کو اُجاگر کیا- آپ کے پیشِ نظر بنیادی اسلامی نظریہ تھا-جو آخری دم تک محرک بنا رہا اور اسی کی بنیاد پر کانگریسی نظریے کو مات دی، جس کی عکاسی راج گوپال اچاریہ کی اس خوش فہمی پر تھی کہ ’’تقسیمِ ہند کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے گاؤ ماتا کے دو ٹکڑے کئے جائیں‘‘-یعنی ہندو قطعی طور پر تقسیم ہندوستان نہیں چاہتے تھے-

سلطان الاولیاء سلطان محمد عبدالعزیزؒ(1909ء-1981ء)

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)معروف صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کی آٹھویں پشت سے ہیں-آپ نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی اور فقر و درویشی میں گزاری-آ پ اکثر مشاہدہ  و استغراق میں خلوت گزین رہتے-جب پاکستان کی منزل قریب تھی اور تحریکِ پاکستان کو ایک ایک مخلص کارکن کی اشد ضرورت تھی آپ نے اپنے مریدین کو تحریکِ پاکستان میں اپنا عملی کردار ادا کرنے کا حکم فرمایا اور آپ خود بھی اپنی رہائش گاہ سے جھنگ تشریف لے جاتے اور مسلم لیگ کے آفس میں جا کر تحریکِ پاکستان کیلئے فنڈ جمع کرواتے کیونکہ آپ اسے صرف سیاسی نہیں بلکہ ’’روحانی  ملی‘‘تحریک و جدوجہد سمجھتے تھے-آپ کی ان خدمات کے اعتراف میں تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی جانب سے 2013ء میں آپ کیلئے ’’تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل‘‘ کا اعلان کیا گیا جو آپ کے خانوادہ سے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے وصول کیا-حضرت سلطان عبدالعزیز(قدس اللہ سرّہٗ)  کی اسی نظریاتی میراث کے سبب آپ کی خانقاہ عالیہ کا یہ امتیاز ہے کہ روحانیت کے ساتھ ملک و ملت سے مریدین کا رشتہ مضبوط کرنے کے لئے وہاں رہائشی کمپلیکسز کو کشمیر ہاؤس، جوناگڑھ ہاؤس اور فلسطین ہاؤس کے نام دیئے گئے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی تحریک کے وارث حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی قیادت میں نوجوانانِ ملت کی روحانی، فکری و نظریاتی تربیت کیلئے یہ  خانقاہ عالیہ اپنا عملی کردار ادا کر رہی ہے-

سید ستار بادشاہ بے نواؔ پشاوریؒ (1873ء-1954ء):

آپ کا سلسلۂ نسب پیر بابا سے ملتا ہے-آپ ایک عظیم ادیب و شاعر تھے-آپ نے مسلم لیگی رضا کاروں کی سرپرستی فرمائی، ریلیف فنڈ قائم کیا، رضاکاروں کی وردیاں سلوا کردیں اورمسلم نیشنل گارڈ کا دستہ قائم کیا-ہندوؤں کے نظریہ کو مات دینے کے لئے آپ پر عزم و پرجوش مسلم لیگی راہنما تھے-آپ ایک مجاہد آدمی تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے جہاد کشمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا-اس تحریک میں شامل ہونے کے محرکات جذبۂ جہاد اور خداترسی اور فلاح و بہبودِ انسانیت تھے-

خواجہ حسن نظامی دہلویؒ (1878ء-1955ء):

آپ اسلوب تحریر میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے-قرآن پاک کا اُردو ترجمہ و اخبارات اور رسائل بالخصوص ’’منادی‘‘، وجہِ شہرت بنا-50 سے زائد کتب کے مصنف تھے- خانقاہِ چشت کے سجادہ نشین تھے- آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے بالخصوص اہلِ تشیع کو مسلم لیگ کے قریب لانے کا محرک بنے- نفسیات (سائیکالوجی) کی فریب کاری کا جو حال کانگریس نے بیرونِ ملک بیٹھ کر پھیلایا تھا اُس کا جواب قائد اعظمؒ اور خواجہ صاحب کی مدبرانہ قیادت نے ہی دیا- اور جو مایوسی نفسیات سے وہ پھیلانا چاہتے تھے،آپ نے 10کروڑ عوام کو اس مایوسی اور بے دلی سے بچالیا-آپ کے دل میں امتِ مسلمہ کے لئے جو درد چھپا ہوا تھا اُسی نے آپ کو مقصد کے حصول تک چین سے نہ بیٹھنے دیا-

میاں غلام اللہ شرقپوریؒ (1891ء-1957ء):

شرق پور شریف میں یونینسٹ کا زور تھا،مسلم لیگ کے کارکن ادھر کا رخ نہ کرتے تھے-آپ نے جرأت مندانہ اقدام کیا اور یہاں مسلم لیگ کا پہلا جلسہ منعقد کرایا جس نے یونینسٹوں کا غرور خاک میں ملا دیا- 1946ء کے عام انتخابات میں چوہدری محمد حسین چٹھہ (مسلم لیگی امیدوار) تحصیل شیخوپورہ سے کامیاب ہوئے اور اس کے پیچھے آپ ہی کا کردار تھا-آپ جذبۂ شہادت سے سرشار رہتے تھے اور اسی جذبے کی تلقین فرماتے تھے-نتیجتاً کوئی بھی مخالف آپ کے سامنے ٹک نہیں پاتا تھا-

امیرِ ملت پیر سید جماعت علی شاہؒ (1841ء-1951ء):

آپ حُرکی نظریہ زندگی (Dynamic) کے حامل تھے-سکونی (Static) ہرگز نہ تھے- جمود کو توڑ نکالنے کا فن جانتے تھے- مخالفین پر ایسی ضرب کاری لگاتے کہ یا تو وہ ہم خیال بن جاتے یا پھر اُن کی زبانوں کو گنگ کردیتے-آپ کا مجاہدانہ اور قائدانہ کردار ہی مسلم لیگ کی کامیابی کا ذریعہ بنا-آپ نے قائد اعظمؒ کو خط میں واضح طور پر فرمایا کہ قوم نے مجھے امیرِ ملت کا خطاب دیا ہے-مگر میں ضعیف ہوں (بڑھاپا تھا)- قوم کا یہ بار آپ کے کاندھوں پر ہے اور امیرِ ملت ہونے کے ناتے سے مجھ پر لازم ہوگیا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں-چنانچہ آپ علالت کے باوجود مسلم لیگ کے ہر جلسے میں شریک ہوتے اس کی صدارت فرماتے-قائد اعظمؒ نے خود اپنی کامیابی کے پیچھے امیرِ ملت کا ہاتھ ہی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے-

قائد اعظمؒ نے پیر صاحب کے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ:

’’یہ سب آپ کی ہمت اور دعا کا نتیجہ ہے اب یقیناً پاکستان بن جائے گا‘‘-

آپ کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے مگر طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے-10کروڑ مسلمانانِ ہند کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا سہرہ آپ کے سرجاتا ہے-آپ کے فتاویٰ، پُرجوش خطابات اور تحاریر نے مخالفین کی نیندیں حرام کردی تھیں- آپ نے اپنی ذات سے مسلم لیگ کو نفع پہنچایا-جب کچھ شرارتی لوگوں نے کانفرنس میں بدنظمی پیدا کرنے کے لئے آپ کو امیرِ ملت کے عہدے سے مستعفی ہونے کا کہا تو آپ نے فرمایا میں سید ہوں مجھے اس عہدے سے کوئی غرض نہیں بلکہ اس عہدے کو مجھ سے شرف ہے اور یہ حقیقت ہے آپ نے مسلمانوں کو شرف بخشا، اپنی دولت کو قائدین پر لٹایا-مسلم لیگی کارکنوں کی خدمت فرمائی اور سب کو ملتِ واحدہ بناکر منزل کی جانب رواں دواں رکھا- آپ کو میدان عمل میں اُترا دیکھ کر کئی صوفیائے کرام اس تحریک کا حصہ بنے اور انہوں نے اپنی گوشہ نشینی کی زندگی ترک کی حتیٰ کہ ایسے علاقہ جات جہاں مسلم لیگ کا نام لینا گناہ سمجھا جاتا تھا آپ وہاں تک پہنچے اور مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ قائم کیا اور پھر اپنا کلام مختلف صوفیاء کرام کو سونپتے چلے گئے-آپ کے قافلہ میں جید علمائے کرام، صوفیائے عظام اور نامور مسلم لیگی لیڈرز تھے جو آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی تائید و حمایت فرماتے تھے-مسلمان راہنماؤں کو میدانِ کار زار میں لانے کا کوئی نہ کوئی محرک تھا مگر پیر صاحب مسلمانانِ ہند کے لئے خود ایک محرک تھے-

پیر غلام مجدد سرہندیؒ (1889ء-1958ء):

آپ انگریز سرکار سے سخت نفرت کرتے تھے اور زندگی بھر کسی انگریز سرکاری افسر سے نہ ملے سوائے با امر مجبوری-حکومت نے آپ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینا چاہا تو آپ نے ٹھکرا دیا-آپ نے تحریکِ ہجرت، تحریکِ خلافت، انجمن ہلالِ احمر، تحریکِ مسجد منزل گاہ اور تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا- ترکِ موالات میں پورے جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا-

انگریز حکومت کے خلاف تقاریر کیں، انگریزی ملازمت کو حرام قرار دیا، آپ کو گرفتار کیا گیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر نظریہ کو نہ چھوڑا-نظریۂ پاکستان، دو قومی نظریہ آپ کے دل میں جاگیر تھا اور عشق رسول (ﷺ) کا جذبہ کارفرما تھا کہ آپ نے قید میں ہونے کے باوجود فرمایا:

’’قید میرا تو ورثہ ہے کیونکہ میں غلام مجدد اور اولادِ مجدد الف ثانی ہوں جن کو جہانگیر بادشاہ نے قلعہ گوالیار میں نظر بند کردیا تھا‘‘-

پھر مزید فرمایا:

’’کاش آج مجھ پر یہ مقدمہ ہوتا کہ میں نے وقت کے انگریز بادشاہ جارج پنجم کو قتل کیا ہے اور اُس کے خون سے میرے ہاتھ رنگے ہوتے‘‘-

یہی وجہ ہے کہ آپ فرنگیوں کے حامی ٹولے کے بھی سخت خلاف تھے-آپ جمعیت علمائے ہند کے سرکردہ رہنما بھی رہے مگر نہرو رپورٹ پر تمام ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس سے بھی مستعفی ہو گئے-آپ نے علی برادران کا ’’تحریکِ انجمن خدام کعبہ‘‘پر ساتھ دیا- 1924ء میں آپ نے باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا-آپ نے فرمایا میں بغیر کسی عہدے کے مسلم لیگ کی خدمت کروں گا-آپ نے سندھ کے دورے کئے اور مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنا دیا-آپ نے مسلم لیگ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا-آپ کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں جی ایم سید جیسے لیڈر کو بھی ہار ماننا پڑی-

پیر محمد امین الحسناتؒ آف مانکی شریف (1922ء-1960ء):

آپ انتہائی متحرک، بلند اخلاق، مدبر اور دانش مند انسان تھے  روحانیت اور سیاست کے میدان میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا-آپ کو ہمیشہ یہ فکر لاحق رہی کہ ہندو زور پکڑ رہے ہیں اور اسلام پر خطرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں-آپ نے اسی لئے 1945ء میں صوفیائے کرام کی کانفرنس بلائی جس میں سینکڑوں صوفیائے عظام بشمول امیرِ ملت نے شرکت کی، جمعیت الاصفیاء معرض وجود میں آئی اور مشائخ کرام نے آپ کو صدارت سونپی-آپ نے اسی کانفرنس میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو کامیاب بنانے کا اعلان فرمایا- آپ کی مسلم لیگ کی شمولیت سے لوگ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہوئے جس سے یونینٹس اور سرخ پوشیوں کے ہوش اُڑ گئے-قائد اعظمؒ کا دورۂ سرحد 1945ء کی کامیابی کا سہرہ آپ کے سر جاتا ہے-یہاں قائد اعظمؒ کا فقید المثال استقبال بھی ہوا- جب قائد اعظمؒ کو سونے کا تمغہ پیش کیا گیا تو قائد اعظم کرسی سے سینہ تان کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا:

’’پھر تو میں کامیاب ہوں آپ تمغہ میرے سینے پر آویزاں کیجئے‘‘-

اور بالآخر وہ دن بھی آیا کہ جب جواہر لال نہرو پشاور کے تیسرے دورے پر آیا تو اُس کے سامنے احتجاج کیا گیا اور اُسے سرحد کے دورے سے نامراد و ناکامران لوٹنا پڑا-مولانا ظفر علی خان نے کیا خوب فرمایا:

لایا ہے پیر مانکی ایک ایسا انقلاب
رنگت معاً بدلے گی آسمان کی

آل انڈیا سنی کانفرنس میں آپ نے نظریۂ پاکستان کی حمایت کا اعلان فرمایا اور سرگرمی سے قرار داد پاس کرائی- سول نافرمانی تحریک میں ہراول دستے کا کام کیا اور تحریکِ پاکستان کا پہلا شہید بھی آپ کا چہیتا نواب خان تھا- یہ اعزاز حاصل ہوا- قیامِ پاکستان کے بعد آپ کو وزارت کی پیشکش بھی کی گئی مگر آپ نے اس سے اجتناب فرمایا- آپ کی کاوشوں کا اصل مقصد اسلامی نظامِ حکومت کا قیام، عوامی بہبود اور ملکی استحکام تھا-

پیر عبد الرحمٰن بھرچونڈوی (1892ء-1960ء):

آپ بڑے عابد و زاہد، پابند شریعت، شیخِ طریقت اور مجاہدِ اسلام تھے-آپ نے تحریکِ پاکستان میں گرامیٔ قدر خدمات سر انجام دیں-آپ کانگریس سے سخت نفرت کرتے تھے اور کانگریسی مولویوں سے دور رہتے تھے-اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر اُن کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے:

کانگریس کے مولوی کا کیا پوچھتے ہو کیا ہے
گاندھی کی پالیسی کا عربی میں ترجمہ ہے

آپ نے کانگریس کی پالیسی کے پیش نظر اُسے خیر آباد کہا اور پھر تادمِ مرگ مسلم لیگ کے حامی رہے،مسلم لیگ اور قائد اعظمؒ کی بھر پور اعانت فرمائی-آپ نے ’’جماعت احیاء الاسلام‘‘ کی بنیاد رکھی-جیکب آباد میں ایک تاریخی کانفرنس کروائی اور مسلم لیگ کے راستے ہموار کئےاور کانگریس کے غرور کو توڑا-

جمعیت المشائخ قائم کی جس سے اہلِ علم اور مشائخ کو اکٹھا کرنے میں مدد ملی آپ مسلمانوں کی اسلام سے دوری سے بے قرار تھے اور دو قومی نظریہ کے فروغ کے لئے سرگرم عمل رہے-قائد اعظمؒ سے ملاقات کی اور اس شرط پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے کہ نئی بننے والی ریاست میں قانون اسلامی ہوگا اور قرآن و سنت کے عین مطابق ہوگا-نہ صرف آپ نے شمولیت کی بلکہ اپنی جماعت ’’احیاء الاسلام‘‘ کو بھی مسلم لیگ میں ضم کر دیا-مسلم لیگ کی شمولیت کے بعد آپ نے حیدر آباد کو اپنا مرکز بنایا اور مشائخ سرہندی کی معاونت سے مسلم لیگ کا پیغام گلی گلی عام کیا-قائد اعظم آپ کی کاوشوں سے بہت خوش تھے-قیامِ پاکستان کے بعد آپ نے اپنی تمام تر توجہ مریدین کی طرف کردی-تحریکِ پاکستان میں آپ کی شمولیت کے محرکات اصلاحِ مسلمان ’’احیائے اسلام‘‘ اور نظریۂ پاکستان تھے- بالخصوص عشقِ رسول (ﷺ) کا وہ جذبہ کار فرما تھا جس کی وجہ سے کانگریس کو خیر آباد کہا اور کانگریسی ملاؤں کے خلاف ہو گئے-

سید محمد طاہر اشرف جیلانیؒ (1889ء-1961ء):

تحریکِ پاکستان کے سپاہی کی حیثیت سے آپ نے گراں قدر خدمات سر انجام دیں-1945ء کے الیکشن میں آپ نے اپنے مریدین اور معتقدین کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کے لئے کہاجس سے کانگریس کو ناکامی اٹھانا پڑی- آپ کے چھوٹے بھائی مسلمانوں کے مقدمات بغیر فیس کے عدالت میں لڑتے تھے اور یہی وکیل بھائی سید سلطان اشرف ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں مسجد میں شہد کئے گئے-کراچی میں خانقاہِ اشرفیہ کی بنیاد ڈالی-خلقِ خدا کی خدمت فرمائی- آپ کا علاقہ مسلم لیگ کا گڑھ تھا اور کسی کانگریسی کو وہاں ووٹ مانگنے کی ہمت نہ ہوتی تھی- آپ سخت نظریاتی بزرگ تھے- آپ کا نظریہ دو قومی نظریہ تھا اور آپ کی کاوش عشقِ رسول (ﷺ) کا جذبہ پیدا کرنے میں نہایت اہم ہیں-

پیر سید محمد محدث کچھوچھوی (1894ء-1961ء):

آپ ایک عالم، فاضل، ادیب، خطیب، صوفی، شاعر، پیر طریقت اور محدث تھے- قرآن کا ترجمہ و تفسیر، فرش پر عرش (نعتیہ کلام)، حیات غوث العالم اور اتمام حجت جیسی کتابیں لکھیں- آپ نے تحریکِ پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں- آپ ایک نظریاتی اور فکری سوچ کے حامل بزرگ تھے-آپ نے مسلم لیگ کا منشور گلی گلی عام کیا-آپ نظریۂ پاکستان کے حامی تھے- آپ نے بنارس سنی کانفرنس میں صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا جو کارکن کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوا-آپ کا ذہنی ماڈل ایسی اسلامی ریاست تھی جو خلافت راشدہ کا نمونہ ہو- آپ نے سنی مسلمانوں کو جگایا اور پاکستان بنانے کیلئے ان کو حقیقی وارث قرار دیا-آپ کے اقتباسات آج بھی آپ کے جذبات اور اخلاص کی ترجمانی کرتے ہیں-

قیامِ پاکستان کے بعد جولائی 1948ء میں ’’دارالعلوم حزبِ الاحناف‘‘ میں اجلاس ہوا جس میں سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، پیر صاحب مانکی شریف، حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی مولانا مفتی محمد عمر نعیمی، مولانا غلام معین الدین نعیمی، مولانا سید ابوالبرکات لاہوری شریک ہوئے- اس موقعہ پر اس بات پر زور دیا گیا کہ دستورِ اسلامی کا ایک خاکہ مرتب کرکے قائد اعظمؒ کے سامنے پیش کیا جائے- صد افسوس جو پایہٗ تکمیل تک نہ پہنچ سکا-

بعد میں پیر آف مانکی شریف، مولانا عبد الستار خان، نیازی امیرِ ملت پیر سید جماعت علی شاہ کی قیادت میں تحریک نفاذِ شریعت چلائی مگر افسوس یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی-

مگر عجب تماشا ہوا کہ
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

مسلم لیگ اقتدار میں آنے کے بعد نشۂ حکومت میں اپنے بزرگان اور صوفیائے کرام کے کردار کو نظر انداز کر بیٹھی-حتیٰ کہ پیر آف مانکی شریف پر عرصۂ حیات تنگ کردیا اُن کو نظر بند کیا گیا- اس پر شیر افضل جعفری (جھنگ) نے یہ شعر کہا:

لیگیو! یہ کیا اندازِ جہاں بانی ہے
خضر آزاد، مانکی زندانی ہے

پیرانِ عظام جو تحریک پاکستان کا ہرا دل دستہ رہے-اپنا تن من دھن سب کچھ نظریۂ پاکستان پر قربان کردیا-قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جنہوں نے خود فرمایا تھا کہ پاکستان کا قانون یہی ہوگا جو بزرگان دین فرمارہے ہیں- صوفیائے کرام اور علماء ومشائخِ عظام نے مسلم لیگ کی سربراہی محض اس لئے فرمائی کہ نئی بننے والی ریاست میں اسلامی نظامِ حکومت نافذ کیا جائے گا مگر قائد اعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کے راہنما اپنا کیا ہوا وعدہ بھول گئے اور ظلم تو یہ ہوا کہ صوفیائے کرام کے کردار کو محدود کرنے کے لئے پیرانِ عظام کی نقل و حمل پر بھی پابندیاں عائد کردی گئیں اور احسان فراموشی کی راہ اختیار کی گئی-یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر صوفیائے کرام و مشائخِ عظام کا سایہ مسلم لیگ پر نہ ہوتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا- پاکستان آج بھی ایک ترقی یافتہ اسلامی ملک اور امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اگر اسے اُس نہج پہ ڈالا جائے جس کا خاکہ صوفیائے کرام نے پیش کیا تھا-محرکاتِ صوفیائے کرام کی رو گردانی سے منہج کیسے روشن ہوسکتا ہے- اندھیرے میں منزل کی تلاش احمقانہ فعل ہوگا-

٭٭٭

ماخذ و مراجع

1      سید سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ ،محمد احمد ترازی 2018ء، دارالنعمان پبلشرز، لاہور

2      نفسیات و تعلیم، سید ساجد حسین 2000ء، رہبر پبلشرز، کراچی

3      اکابر تحریکِ پاکستان،محمد صادق قصوری 1970ء، فضل نور اکیڈمی، گجرات

4      تقریب عطائے گولڈ میڈل ، شاہد رشید، 2013ء، تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ، لاہور

5      تحریکِ پاکستان میں علما و مشائخ کا کردار ، محمد صادق قصوری2008ء، تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ

6      قائد اعظمؒ اور ان کے سیاسی رفقاء، اقبال احمد صدیقی 1990ء،  مطبوعہ کراچی

7      تذکرہ علمائے فرنگی محل، مولانا عنایت اللہ فرنگی محل 1930ء، مطبوعہ لکھنو

8      تاریخِ کانپور،سید اشتیاق اظہر 1990ء، مطبوعہ کراچی

9      تعارفِ علماء اہلسنت،مولانا محمد صدیق ہزاروی 1979ء،مطبوعہ لاہور

10      تذکرہ اکابرِ اہلسنت،مولانا محمد عبد الحکیم شرف قادری 1976ء، مطبوعہ لاہور

11     وفیاتِ مشاہیر، پاکستان ،پروفیسر محمد اسلم 1990ء، مطبوعہ اسلام آباد

12      حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اور ان کے خلفاء،قاری فیوض الرحمٰن 1984ء، مطبوعہ کراچی

13      جدوجہد آزادی میں سندھ کا کردار، ڈاکٹر عبد الجبار عابد 1992، مطبوعہ لاہور

14      کاروانِ گم گشتہ،سید رئیس احمد جعفری 1971،مطبوعہ کراچی

15      عظیم قائد عظیم تحریک،ولی مظہر ایڈووکیٹ 1983ء،مطبوعہ ملتان

16      تذکرہ اولیائے سندھ،مولانا محمد اقبال حسین نعینی 1986ء،مطبوعہ کراچی

17      انسائیکلوپیڈیا تحریکِ پاکستان ،اسد سلیم شیخ 1999ء،مطبوعہ لاہور

18    مہر منیر،مولانا فیض احمد فیض 1976ء،مطبوعہ کراچی

19    تحریکِ پاکستان اور سرگودھا کی یادیں، ملک محمد اقبال ایڈووکیٹ 1984ء، سرگودھا

محرکات وہ اشیاء یا قوتیں اور مقاصد ہیں جو معاشرے کے افراد کو ترغیب دیتی ہیں جن کے ذریعے فرد کسی رد عمل کا اظہار کرتا ہے -یعنی جن چیزوں اور کاموں سے فرد کسی عمل کی طرف راغب ہو اُن کو محرکات کہا جاتا ہے؛ اور یہ امر تجرباتی طور پر ثبوت ہے کہ انسان کو وہ محرک اپنی جانب جلد راغب کرے جس کے حاصل کرنے کی وہ کوشش کرے گا یا جو اُسے زیادہ محبوب اور عزیز تر ہوگا-محرک جتنا طاقتور ہوتا ہے اُس کا رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے اور جب تک اسے مقصد حاصل نہ ہوجائے اُس وقت تک اپنا عمل جاری رکھتا ہے-

تحریکِ پاکستان کا سب سے مضبوط محرک دو قومی نظریہ تھا جس کی اساس ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘تھی اور کون سا مسلمان ہے جو اپنے معبود حقیقی سے محبت نہیں رکھتا اور اسے الٰہ نہیں مانتا ہے-یقیناً جس کی محبت اپنے رب سے جتنی کامل ہوگی وہ اسی درجہ اس نظریاتی اساس کی حفاظت بھی کرے گا اور دل و جان سے قربان ہونے کے لئے بھی تیار رہے گا-تاریخ کے اوراق پر طائرانہ نظر ڈالئے تو آپ عالم فرط و مسرت سے جھوم اٹھیں گے اور اپنے عقیدے کی پختگی کے حامل بن جائیں گے کہ دین پر جب بھی کڑا وقت آیا یا اُمتِ مسلمہ کے نظریات کی احیاء کی باری آئی ہے جو بھی ہستی میدان میں اُتری اُس کا رابطۂ حق اس قدر مضبوط اور ایمان اس قدر غیر متزلزل تھا کہ طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے-ایسی صورتِ حال کچھ تحریکِ پاکستان میں عملی شرکت کرنے والوں کی تھی جیسا کہ حضرت محدثِ دہلوی، امامِ ربانی مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ، علامہ فضلِ حق خیر آبادی،محدثِ بریلی امام الشاہ احمد رضا خاں (﷭)-ان سب نے اصلاحی اور انقلابی طریقہ ہائے کار سے اُس مضبوط محرک کی طرف اہلِ اسلام کو راغب کیا جو دو قومی نظریے کا اولین عملی اظہار تھا-یہ عشق و محبت کی بات تھی کہ جب فکرِ حریت لاحق ہوگئی اور قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے مدبر راہنما جب ہندو مسلم اتحاد کی بات کررہے تھے تو اُس وقت بھی سیاستِ ملیہ کو نظریاتی فکر فراہم کرنے کے لئے، محدثِ بریلوی نے اُن کو خبردار کیا کہ ہنود کے خفیہ ارادے کچھ اور ہیں جو ہندو مسلم اتحاد کے لئے خطرناک نتائج برآمد کرسکتے ہیں-پھر وقت نے ثابت کردیا ہندو مسلم اتحاد زیادہ دیر نہ چل سکا اور مسلم لیگ کا قیام عمل میں لانا پڑا-یہ کیسی بصیرت تھی جس کا استعمال کر کے اہل نظر راہِ وفا پر گامزن رہے-

صوفی وہ ہے جو خوفِ خدا اور کشتہٗ حبِ رسول (ﷺ) کا مظہر ہو-جس دور کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے اُس دور میں صوفی وہی کہلاتا تھا جو علوم شریعت و طریقت پر کاربند ہوتا تھا- یعنی عالم بھی اور صاحبِ تصوف بھی-جو پیوستۂ شجر نہیں وہ صاحبِ فقر نہیں-

تحریکِ پاکستان ایک طویل کاوش کا نام ہے-کسی بھی دور کو دیکھا جائے مشکلات اُسی دور کے اعتبار سے سامنے آتی رہیں- صاحب النظر لوگ اپنی دوربینی، دور اندیشی اور مضبوط قوتِ ارادی سے فیصلے فرماتے رہے اور اُمتِ محمدیہ کو راہِ راست پر گامزن کرتے رہے-علمائے دین اور مشائخِ عظام ہر دور میں دینِ اسلام کے تحفظ اور آبروئے ملتِ واحدہ کیلئے سرگرمِ عمل رہے-یہ فکر ہمیشہ دامن گیر رہی کہ کہیں ہندوانہ تہذیب و ثقافت اسلامی ثقافت پر اثر انداز نہ ہو-اسی فکر کے پیشِ نظر حضرت مجددِ الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ(﷭) نے اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے بھرپور کردار ادا کیا-تحریکِ پاکستان کے دوران جب جمعیت علمائے ہند نے انگریز سامراج سے خطرہ محسوس کیا تو ہندو اکثریت کا ساتھ دیا مگر علماء و مشائخ کی ایک بڑی جماعت یہ محسوس کر رہی تھی کہ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد ہندو اکثریت کا تسلط قائم رہے گا اور آزادی کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکیں گے-لہٰذا مسلمانانِ برصغیر کے لئے الگ وطن کے لئے کاوش شروع کردی گئیں-حضرت قائد اعظم (﷫)  کا ساتھ دیتے ہوئے علماء کرام اور صوفیائے عظام نے قیامِ پاکستان کی مخالف قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کا تذکرہ حضرتِ قائد اعظم(﷫) نے خود متعدد مرتبہ کیا-بظاہر حکمتِ عملی کچھ بھی رہی مگر حقیقت میں سب بزرگان، مشائخ عظام اور صوفیائے کرام کا مطمحٔ نظر ایک ہی رہا ہے اور وہ محرک کلمۂ حق تھا-تمام محرکات اسی ایک محرک کا طواف کرتے نظر آتے ہیں- چاہے وہ دو قومی نظریہ ہو یا نظریۂ پاکستان ہو-

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں میرؔ صاحب گویا ہوتے ہیں:

مت سہل ہمیں جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

اور بقول سرورؔ:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

موضوع کی گہرائی اور گیرائی کا خیال رکھتے ہوئے محقق کی یہ کوشش ہوگی کہ یہاں اُن ہی اہلِ بصیرت (صوفیائے کرام) کا تذکرہ کیا جائے جن کی بدولت ہم آزادی کے سائے میں سانس لے رہے ہیں-تحریکِ پاکستان کے معروف نعرے کا ایک جواب اہلِ محبت کا یہ بھی رہا ہے کہ:

اولیاء کا ہے فیضان

 

پاکستان پاکستان

ایسے ہی چند عظیم صوفیائے عظام کی کاوشوں کا اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے-ساتھ ہی ساتھ وہ محرکات زیرِ بحث آئیں گے جن کی وجہ سے وہ تحریکِ پاکستان کے ہمنوا وہم قدم بنے-

مولانا جمال میاں فرنگی محلی:

تحریکِ پاکستان کے عظیم اور نامور مجاہد جنہوں نے اوائلِ عمری میں ہی اپنے آپ کو لیلیٔ آزادی کے حصول کی خاطر وقف کردیا تھا- کم عمری میں ہی اپنی ذہانت و فطانت کی بدولت مسلم لیگ کے صفِ اول کے رہنماؤں میں شامل ہو گئے-آپ ایک عظیم روحانی پیشوا بھی تھے اور شعلہ بیان مقرر بھی،  گھر گھر مسلم لیگ کا پیغام پہنچانے میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا- حتیٰ کہ جھنگ جیسے دور اُفتادہ علاقے میں بھی مسلم لیگ کا پیغام عام کرنے کے لئے مہر غلام فرید کے ساتھ مل کر کانفرنس کی اور اس کا تنظیمی جال بچھادیا-

مسلمانانِ ہند کی اقتصادی و سماجی مشکلات، ضروریات اور نظامِ تعلیم اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی اہمیت اور نظریۂ پاکستان پر تقاریر کیں اور تحریری مواد فراہم کیا-روزنامہ ’’ہمدم‘‘کے ذریعے گراں قدر خدمات سرانجام دیں- ’’وطنیت‘‘اور ہندو ذہنیت کے خلاف آپ نے زور دار مقالے لکھے اور دو قومی نظریے کو اُجاگر کیا- آپ کے پیشِ نظر بنیادی اسلامی نظریہ تھا-جو آخری دم تک محرک بنا رہا اور اسی کی بنیاد پر کانگریسی نظریے کو مات دی، جس کی عکاسی راج گوپال اچاریہ کی اس خوش فہمی پر تھی کہ ’’تقسیمِ ہند کا مطالبہ ایسا ہی ہے جیسے گاؤ ماتا کے دو ٹکڑے کئے جائیں‘‘-یعنی ہندو قطعی طور پر تقسیم ہندوستان نہیں چاہتے تھے-

سلطان الاولیاء سلطان محمد عبدالعزیزؒ(1909ء-1981ء)

آپ (قدس اللہ سرّہٗ)معروف صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کی آٹھویں پشت سے ہیں-آپ نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی اور فقر و درویشی میں گزاری-آ پ اکثر مشاہدہ  و استغراق میں خلوت گزین رہتے-جب پاکستان کی منزل قریب تھی اور تحریکِ پاکستان کو ایک ایک مخلص کارکن کی اشد ضرورت تھی آپ نے اپنے مریدین کو تحریکِ پاکستان میں اپنا عملی کردار ادا کرنے کا حکم فرمایا اور آپ خود بھی اپنی رہائش گاہ سے جھنگ تشریف لے جاتے اور مسلم لیگ کے آفس میں جا کر تحریکِ پاکستان کیلئے فنڈ جمع کرواتے کیونکہ آپ اسے صرف سیاسی نہیں بلکہ ’’روحانی  ملی‘‘تحریک و جدوجہد سمجھتے تھے-آپ کی ان خدمات کے اعتراف میں تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی جانب سے 2013ء میں آپ کیلئے ’’تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل‘‘ کا اعلان کیا گیا جو آپ کے خانوادہ سے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نے وصول کیا-حضرت سلطان عبدالعزیز(قدس اللہ سرّہٗ)  کی اسی نظریاتی میراث کے سبب آپ کی خانقاہ عالیہ کا یہ امتیاز ہے کہ روحانیت کے ساتھ ملک و ملت سے مریدین کا رشتہ مضبوط کرنے کے لئے وہاں رہائشی کمپلیکسز کو کشمیر ہاؤس، جوناگڑھ ہاؤس اور فلسطین ہاؤس کے نام دیئے گئے ہیں-آپ (قدس اللہ سرّہٗ)کی تحریک کے وارث حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ الاقدس) کی قیادت میں نوجوانانِ ملت کی روحانی، فکری و نظریاتی تربیت کیلئے یہ  خانقاہ عالیہ اپنا عملی کردار ادا کر رہی ہے-

سید ستار بادشاہ بے نواؔ پشاوری (﷫) (1873ء-1954ء):

آپ کا سلسلۂ نسب پیر بابا سے ملتا ہے-آپ ایک عظیم ادیب و شاعر تھے-آپ نے مسلم لیگی رضا کاروں کی سرپرستی فرمائی، ریلیف فنڈ قائم کیا، رضاکاروں کی وردیاں سلوا کردیں اورمسلم نیشنل گارڈ کا دستہ قائم کیا-ہندوؤں کے نظریہ کو مات دینے کے لئے آپ پر عزم و پرجوش مسلم لیگی راہنما تھے-آپ ایک مجاہد آدمی تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے جہاد کشمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا-اس تحریک میں شامل ہونے کے محرکات جذبۂ جہاد اور خداترسی اور فلاح و بہبودِ انسانیت تھے-

خواجہ حسن نظامی دہلوی(﷫) (1878ء-1955ء):

آپ اسلوب تحریر میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے-قرآن پاک کا اُردو ترجمہ و اخبارات اور رسائل بالخصوص ’’منادی‘‘، وجہِ شہرت بنا-50 سے زائد کتب کے مصنف تھے- خانقاہِ چشت کے سجادہ نشین تھے- آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے بالخصوص اہلِ تشیع کو مسلم لیگ کے قریب لانے کا محرک بنے- نفسیات (سائیکالوجی) کی فریب کاری کا جو حال کانگریس نے بیرونِ ملک بیٹھ کر پھیلایا تھا اُس کا جواب قائد اعظم(﷫) اور خواجہ صاحب کی مدبرانہ قیادت نے ہی دیا- اور جو مایوسی نفسیات سے وہ پھیلانا چاہتے تھے،آپ نے 10کروڑ عوام کو اس مایوسی اور بے دلی سے بچالیا-آپ کے دل میں امتِ مسلمہ کے لئے جو درد چھپا ہوا تھا اُسی نے آپ کو مقصد کے حصول تک چین سے نہ بیٹھنے دیا-

میاں غلام اللہ شرقپوری(﷫) (1891ء-1957ء):

شرق پور شریف میں یونینسٹ کا زور تھا،مسلم لیگ کے کارکن ادھر کا رخ نہ کرتے تھے-آپ نے جرأت مندانہ اقدام کیا اور یہاں مسلم لیگ کا پہلا جلسہ منعقد کرایا جس نے یونینسٹوں کا غرور خاک میں ملا دیا- 1946ء کے عام انتخابات میں چوہدری محمد حسین چٹھہ (مسلم لیگی امیدوار) تحصیل شیخوپورہ سے کامیاب ہوئے اور اس کے پیچھے آپ ہی کا کردار تھا-آپ جذبۂ شہادت سے سرشار رہتے تھے اور اسی جذبے کی تلقین فرماتے تھے-نتیجتاً کوئی بھی مخالف آپ کے سامنے ٹک نہیں پاتا تھا-

امیرِ ملت پیر سید جماعت علی شاہ (﷫) (1841ء-1951ء):

آپ حُرکی نظریہ زندگی (Dynamic) کے حامل تھے-سکونی (Static) ہرگز نہ تھے- جمود کو توڑ نکالنے کا فن جانتے تھے- مخالفین پر ایسی ضرب کاری لگاتے کہ یا تو وہ ہم خیال بن جاتے یا پھر اُن کی زبانوں کو گنگ کردیتے-آپ کا مجاہدانہ اور قائدانہ کردار ہی مسلم لیگ کی کامیابی کا ذریعہ بنا-آپ نے قائد اعظم(﷫) کو خط میں واضح طور پر فرمایا کہ قوم نے مجھے امیرِ ملت کا خطاب دیا ہے-مگر میں ضعیف ہوں (بڑھاپا تھا)- قوم کا یہ بار آپ کے کاندھوں پر ہے اور امیرِ ملت ہونے کے ناتے سے مجھ پر لازم ہوگیا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں-چنانچہ آپ علالت کے باوجود مسلم لیگ کے ہر جلسے میں شریک ہوتے اس کی صدارت فرماتے-قائد اعظم(﷫) نے خود اپنی کامیابی کے پیچھے امیرِ ملت کا ہاتھ ہی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے-

قائد اعظم(﷫) نے پیر صاحب کے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ:

’’یہ سب آپ کی ہمت اور دعا کا نتیجہ ہے اب یقیناً پاکستان بن جائے گا‘‘-

آپ کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے مگر طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے-10کروڑ مسلمانانِ ہند کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا سہرہ آپ کے سرجاتا ہے-آپ کے فتاویٰ، پُرجوش خطابات اور تحاریر نے مخالفین کی نیندیں حرام کردی تھیں- آپ نے اپنی ذات سے مسلم لیگ کو نفع پہنچایا-جب کچھ شرارتی لوگوں نے کانفرنس میں بدنظمی پیدا کرنے کے لئے آپ کو امیرِ ملت کے عہدے سے مستعفی ہونے کا کہا تو آپ نے فرمایا میں سید ہوں مجھے اس عہدے سے کوئی غرض نہیں بلکہ اس عہدے کو مجھ سے شرف ہے اور یہ حقیقت ہے آپ نے مسلمانوں کو شرف بخشا، اپنی دولت کو قائدین پر لٹایا-مسلم لیگی کارکنوں کی خدمت فرمائی اور سب کو ملتِ واحدہ بناکر منزل کی جانب رواں دواں رکھا- آپ کو میدان عمل میں اُترا دیکھ کر کئی صوفیائے کرام اس تحریک کا حصہ بنے اور انہوں نے اپنی گوشہ نشینی کی زندگی ترک کی حتیٰ کہ ایسے علاقہ جات جہاں مسلم لیگ کا نام لینا گناہ سمجھا جاتا تھا آپ وہاں تک پہنچے اور مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ قائم کیا اور پھر اپنا کلام مختلف صوفیاء کرام کو سونپتے چلے گئے-آپ کے قافلہ میں جید علمائے کرام، صوفیائے عظام اور نامور مسلم لیگی لیڈرز تھے جو آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی تائید و حمایت فرماتے تھے-مسلمان راہنماؤں کو میدانِ کار زار میں لانے کا کوئی نہ کوئی محرک تھا مگر پیر صاحب مسلمانانِ ہند کے لئے خود ایک محرک تھے-

پیر غلام مجدد سرہندی(﷫) (1889ء-1958ء):

آپ انگریز سرکار سے سخت نفرت کرتے تھے اور زندگی بھر کسی انگریز سرکاری افسر سے نہ ملے سوائے با امر مجبوری-حکومت نے آپ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینا چاہا تو آپ نے ٹھکرا دیا-آپ نے تحریکِ ہجرت، تحریکِ خلافت، انجمن ہلالِ احمر، تحریکِ مسجد منزل گاہ اور تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا- ترکِ موالات میں پورے جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا-

انگریز حکومت کے خلاف تقاریر کیں، انگریزی ملازمت کو حرام قرار دیا، آپ کو گرفتار کیا گیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مگر نظریہ کو نہ چھوڑا-نظریۂ پاکستان، دو قومی نظریہ آپ کے دل میں جاگیر تھا اور عشق رسول (ﷺ) کا جذبہ کارفرما تھا کہ آپ نے قید میں ہونے کے باوجود فرمایا:

’’قید میرا تو ورثہ ہے کیونکہ میں غلام مجدد اور اولادِ مجدد الف ثانی ہوں جن کو جہانگیر بادشاہ نے قلعہ گوالیار میں نظر بند کردیا تھا‘‘-

پھر مزید فرمایا:

’’کاش آج مجھ پر یہ مقدمہ ہوتا کہ میں نے وقت کے انگریز بادشاہ جارج پنجم کو قتل کیا ہے اور اُس کے خون سے میرے ہاتھ رنگے ہوتے‘‘-

یہی وجہ ہے کہ آپ فرنگیوں کے حامی ٹولے کے بھی سخت خلاف تھے-آپ جمعیت علمائے ہند کے سرکردہ رہنما بھی رہے مگر نہرو رپورٹ پر تمام ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس سے بھی مستعفی ہو گئے-آپ نے علی برادران کا ’’تحریکِ انجمن خدام کعبہ‘‘پر ساتھ دیا- 1924ء میں آپ نے باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا-آپ نے فرمایا میں بغیر کسی عہدے کے مسلم لیگ کی خدمت کروں گا-آپ نے سندھ کے دورے کئے اور مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنا دیا-آپ نے مسلم لیگ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا-آپ کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں جی ایم سید جیسے لیڈر کو بھی ہار ماننا پڑی-

پیر محمد امین الحسنات (﷫) آف مانکی شریف (1922ء-1960ء):

آپ انتہائی متحرک، بلند اخلاق، مدبر اور دانش مند انسان تھے  روحانیت اور سیاست کے میدان میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا-آ

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر