آزادی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور زمین کا وارث ہونا اللہ رب العزت کا انعام ہے-پاکستان کی تخلیق برطانوی دور استعمار کے اختتام پر ایسے وقت میں ہوئی جب انگریز جنگ عظیم میں کمزور ہونے کے باعث اس خطے کے حصے بخرے کرنے کے بعد یہاں سے روانہ ہو رہے تھے-امت مسلمہ کے رہبروں اور اہل علم و دانش کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلم ممالک میں یورپ اور روس کے استعماری دور کی سیاہ تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں کیونکہ اس دور کی تاریخ کے پیش نظر ہی اپنے زوال کے اسباب کو جان کر ان کا سد باب کیا جانا ممکن ہے-
1917ء میں جنرل ایلن بی جب بیت المقدس میں داخل ہوا تو پوری امت مسلمہ میں کوئی ایک حکمران بھی ایسا نہ تھا جو بیت المقدس کے دفاع کے لیے اپنی تلوار اٹھانے کی سعی کرتا-1857ء میں حکومت مغلیہ کے سورج کے غروب ہونے اور 1923ء میں سلطنت عثمانیہ کے تاخت و تاراج ہونے کے بعدمایوسی کے زمانہ میں 27رمضان مبارک سید الایام جمعہ کے دن پاکستان کا وجود میں آنا یقینا اللہ تعالیٰ کے منصوبے کا حصہ ہے-11/9 کے بعد دنیا میں امریکی استعمار کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے-افغانستان، عراق، شام، برما، کشمیر، پاکستان، فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں 70 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا کشت و خون ہو چکا ہے جو تاحال آب ارزاں کی مانند بَہ رہا ہے-یہ کثیر جہتی جنگوں کا دور ہےجس میں جہازوں کی بمباری،گولیوں کی بارش اور میزائل کی برسات سے قبل دشمن کو ضروری وسائل کی قلت کے بحرانوں اور نظریاتی تخریب کاری کے ساتھ معاشی،سیاسی،دفاعی،تعلیمی اور نظریاتی طور پر اس قدر غیر مستحکم کر دیا جاتا ہے کہ اس کے لیے اپنا دفاع کرنا ناممکن ہو جاتا ہے-تقریباً تمام ہی مسلم ممالک اس وقت جنگ کی لپیٹ میں ہیں جبکہ ذرائع ابلاغ کی جنگ نے اہل پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کے لیے اُبھارنے کی بجائے لذیذ کھانا پکانے کی ترکیبوں،چھپکلی مارنے کے فضائل، بھارتی ڈراموں،لہو و لعب،فحاشی اور لایعنی موضوعات میں الجھایا ہواہے-
ہماری غلطیوں کی بنا پر 1971ء میں پاکستان دولخت ہو گیاتاہم ہندو مشرکوں اور صہیونی یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود پاکستان پہلی مسلم ایٹمی قوت بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہو گیا جس نے افغانستان کے پہاڑوں میں خون کے پیاسے دہریوں کو شکست فاش دی جو یقیناً سلطان ٹیپو کے بعد مسلمانوں کے لیے قیادت کی امیدِ نو تھی-پاکستان کا وجود ’’نظریہ اسلام‘‘ پر قائم ہے اور یہی نظریہ اس میں بسنے والے ہر مسلمان کو حرم کی پاسبانی کے لیے جینا،مرنا اور مارنا سکھاتا ہے-دشمنانِ اسلام و پاکستان کیونکہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کی اہلیت رکھتا ہے اور اسلام کا نظریہ حیات دفاع پاکستان کے لیے لازم ہے اس لیے پاکستان کے تعلیمی نظام پر امریکی رپورٹ ’’پاکستان میں عدم برداشت کی تدریس‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام اور پاکستان کے تعلق کو توڑنے کی بھر پور کوشش جاری ہے-ان کے لیے اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا کے تقریباً تمام ہی مسلم ممالک سیکولر ازم کو قبول کرتے ہوئے اپنا حال اپنے شاندار ماضی سے توڑتے ہوئے اسلام کو اپنی اجتماعی زندگی سے نکال چکے ہوں ریاستی اور عوامی سطح پر اسلام صرف پاکستان میں سب سے زیادہ قابل عمل ہے- معروف قانون دان ایس ایم ظفر قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جناب قدرت اللہ شہاب نے اپنے تل ابیب کے خفیہ دورے کی رو داد بیان کرتے ہوئے ایک یہودی پروفیسر کی ایک بات مجھے بتائی تھی جو گذشتہ سالوں میں مجھے اکثر یاد آتی ہے-ہوا یوں کہ قدرت اللہ شہاب ایک عیسائی ایرانی کی حیثیت میں تل ابیب کے شہر ایک یہودی پروفیسر کے مہمان رہے اور اس کے گھر انہوں نے ممتاز شخصیات کی آویزاں تصاویر میں ایک تصویر محمد علی جناح کی بھی دیکھی-تجاہل عارفانہ دکھاتے ہوئے قدرت اللہ شہاب نے پوچھا: ’’یہ صاحب کون ہیں جواباً اس پروفیسر نے کہا یہ محمد علی جناح بانیٔ پاکستان ہیں اور میں نے اس کی تصویر اس لیے رکھی ہے کہ اس شخص نے اسلام کے نام سے ایک ملک حاصل کیا ہے اب اگر اس ملک ہی میں اسلام ناکام ہو جائے تو پھر اور کہیں کامیاب نہ ہو گا‘‘-
مَیں یہاں وہ سوال اٹھا نا ضروری سمجھتا ہوں جو علامہ محمد اسد نے اپنے مضمون’’What Do We Mean by Pakistan?‘‘میں اٹھایا ہے[1]کہ کیا ہم واقعی پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں؟جب تک اس سوال کا جواب ہم اپنے آپ سے طلب نہیں کریں گے اس وقت تک محض ہم گفتار کے غازی بنے رہیں گے-اسی بات کو راقم اس انداز سے تمام اہل پاکستان کے سامنے رکھتا ہے کہ کیا ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو حرم کی پاسبانی کے لیے منتخب کیا جائے؟کیونکہ بقول اقبال حرم کی پاسبانی کے لیے مسلمانوں کو نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک بنیان مرصوص بننا پڑے گا-انتہائی لائق توجہ بات یہ ہے کہ’’GW-5th‘‘کے اس دور میں ہماری نظریاتی تخریب کاری اس قدر ہو چکی ہے کہ ہم اب صرف ’’حرمین شریفین‘‘کے دفاع اور پاسبانی کی بات کرتے ہیں جبکہ اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے روحانی مراکز دو نہیں تین ہیں-جب تک مسلمان اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی بیت المقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے ترتیب دیں گے علم آخر الزمان کے مطابق انہیں ہمیشہ ناکامی ہو گی-امام نعیم بن حماد کی بیان کردہ روایت کے مطابق غزوہ ٔہند سے قبل بیت المقدس کی فتح ہو گی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مشرکین مکہ سے قبل مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنگ کی تھی اسی طرح ہندوستان کی فتح کامل سے قبل بیت المقدس آزاد ہو گا-
اس وقت صورتحال یہ ہے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحے کے بعد سے تیسری عالمی جنگ جاری ہے اور مسلم ممالک اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف کمر بستہ ہونے کی بجائے پراکسی جنگوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں-ان پراکسی وارز کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے-تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کیا جا چکا ہے اور دشمنانِ اسلام بالآخر القدس کے بعد حرمین شریفین میں سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے جانے کی تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں-جنگ عظیم اول میں جب بیت المقدس میں صہیونی فوجیں داخل ہو رہی تھیں اور حرمین میں ترک مجاہدوں کے خلاف دشمن بغاوت کروانے کے بعد اپنی فوجوں کو داخل کر چکا تھا تو ہندوستان کے مسلمان اس موضوع پر بحث کر رہے تھے کہ نبی کریم (ﷺ) نور ہیں یا بشر-اس بات کا قومی اندیشہ ہے اورحالات بھی اسی کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وطن پرستی کے نعروں اور فرقہ وارانہ تعصبات کی آگ کے سبب مسلمان حرمین کے دفاع سے غافل رہیں گے-قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کا ایک اصول اس آیت مبارکہ میں بیان فرمایا ہےکہ:
’’وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُج وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ‘‘[2] |
|
’’اور اﷲ بے نیاز ہے اور تم (سب) محتاج ہو، اور اگر تم (حکمِ الہٰی سے) رُوگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ بدل کر دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے‘‘- |
اللہ رب کریم بے نیاز ہے اور ہم سب اس کے محتاج ہیں-پاکستان کا وجود نظریہ اسلام سے قائم ہےاور اسی میں پاکستان کی بقا ہے-اس بات کا اظہار علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا:
“One lesson I have learnt from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa. If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity, and thereby saving yourself from total destruction”.
’’میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے ایک سبق سیکھا ہے کہ ان کے تاریخ کے نازک لمحات میں اسلام نے ان کی حفاظت کی نہ کہ کسی اور نے-اگر آج آپ اپنی توجہ اسلام کے ویژن پر رکھیں اور اس میں موجود لافانی نظریات سے رہنمائی حاصل کریں تو وہ صرف آپ ہوں گے جو اپنی بکھری طاقت کو منظم کر لیں گے، اپنی کھوئی میراث کو حاصل کر لیں گے اور اسی طرح خود کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے‘‘-
اہل پاکستان کے سر پر اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی قیادت کا تاج رکھا ہے اور انہیں یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھیں اور امت مسلمہ کی سیادت کا کار عظیم سر انجام دیں-اگر ہم نے اس ذمہ دار ی کو قبول نہ کیا تو یاد رکھیں اللہ رب کریم ہمارا محتاج نہیں ہے وہ امت مسلمہ میں سے ہی کسی نئی قیادت کو سیادت کے لئے منتخب فرمالے گا-ترکی میں رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترکوں کی اسلامی بنیادوں پر نشاۃ ثانیہ کا آغاز اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے-حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام مسلم ممالک ایک امت بن کر حرمین شریفین اور القدس کی پاسبانی کے لیے اپنی بقاء کی جنگ لڑیں گے-
معمار حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز |
|
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز[3] |
’’معمارِ قوم! جہان کی از سرِ نو تعمیر کے لئے اٹھ-اس خواب گراں! خواب گراں سے بیدار ہو‘‘-
٭٭٭
آزادی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور زمین کا وارث ہونا اللہ رب العزت کا انعام ہے-پاکستان کی تخلیق برطانوی دور استعمار کے اختتام پر ایسے وقت میں ہوئی جب انگریز جنگ عظیم میں کمزور ہونے کے باعث اس خطے کے حصے بخرے کرنے کے بعد یہاں سے روانہ ہو رہے تھے-امت مسلمہ کے رہبروں اور اہل علم و دانش کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلم ممالک میں یورپ اور روس کے استعماری دور کی سیاہ تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں کیونکہ اس دور کی تاریخ کے پیش نظر ہی اپنے زوال کے اسباب کو جان کر ان کا سد باب کیا جانا ممکن ہے-
1917ء میں جنرل ایلن بی جب بیت المقدس میں داخل ہوا تو پوری امت مسلمہ میں کوئی ایک حکمران بھی ایسا نہ تھا جو بیت المقدس کے دفاع کے لیے اپنی تلوار اٹھانے کی سعی کرتا-1857ء میں حکومت مغلیہ کے سورج کے غروب ہونے اور 1923ء میں سلطنت عثمانیہ کے تاخت و تاراج ہونے کے بعدمایوسی کے زمانہ میں 27رمضان مبارک سید الایام جمعہ کے دن پاکستان کا وجود میں آنا یقینا اللہ تعالیٰ کے منصوبے کا حصہ ہے-11/9 کے بعد دنیا میں امریکی استعمار کا ایک نیا دور شروع ہوا ہے-افغانستان، عراق، شام، برما، کشمیر، پاکستان، فلسطین اور دیگر اسلامی ممالک میں 70 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا کشت و خون ہو چکا ہے جو تاحال آب ارزاں کی مانند بَہ رہا ہے-یہ کثیر جہتی جنگوں کا دور ہےجس میں جہازوں کی بمباری،گولیوں کی بارش اور میزائل کی برسات سے قبل دشمن کو ضروری وسائل کی قلت کے بحرانوں اور نظریاتی تخریب کاری کے ساتھ معاشی،سیاسی،دفاعی،تعلیمی اور نظریاتی طور پر اس قدر غیر مستحکم کر دیا جاتا ہے کہ اس کے لیے اپنا دفاع کرنا ناممکن ہو جاتا ہے-تقریباً تمام ہی مسلم ممالک اس وقت جنگ کی لپیٹ میں ہیں جبکہ ذرائع ابلاغ کی جنگ نے اہل پاکستان کو امت مسلمہ کی قیادت کے لیے اُبھارنے کی بجائے لذیذ کھانا پکانے کی ترکیبوں،چھپکلی مارنے کے فضائل، بھارتی ڈراموں،لہو و لعب،فحاشی اور لایعنی موضوعات میں الجھایا ہواہے-
ہماری غلطیوں کی بنا پر 1971ء میں پاکستان دولخت ہو گیاتاہم ہندو مشرکوں اور صہیونی یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے باوجود پاکستان پہلی مسلم ایٹمی قوت بن کر دنیا کے سامنے کھڑا ہو گیا جس نے افغانستان کے پہاڑوں میں خون کے پیاسے دہریوں کو شکست فاش دی جو یقیناً سلطان ٹیپو کے بعد مسلمانوں کے لیے قیادت کی امیدِ نو تھی-پاکستان کا وجود ’’نظریہ اسلام‘‘ پر قائم ہے اور یہی نظریہ اس میں بسنے والے ہر مسلمان کو حرم کی پاسبانی کے لیے جینا،مرنا اور مارنا سکھاتا ہے-دشمنانِ اسلام و پاکستان کیونکہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کی اہلیت رکھتا ہے اور اسلام کا نظریہ حیات دفاع پاکستان کے لیے لازم ہے اس لیے پاکستان کے تعلیمی نظام پر امریکی رپورٹ ’’پاکستان میں عدم برداشت کی تدریس‘‘ کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام اور پاکستان کے تعلق کو توڑنے کی بھر پور کوشش جاری ہے-ان کے لیے اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب دنیا کے تقریباً تمام ہی مسلم ممالک سیکولر ازم کو قبول کرتے ہوئے اپنا حال اپنے شاندار ماضی سے توڑتے ہوئے اسلام کو اپنی اجتماعی زندگی سے نکال چکے ہوں ریاستی اور عوامی سطح پر اسلام صرف پاکستان میں سب سے زیادہ قابل عمل ہے- معروف قانون دان ایس ایم ظفر قدرت اللہ شہاب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’جناب قدرت اللہ شہاب نے اپنے تل ابیب کے خفیہ دورے کی رو داد بیان کرتے ہوئے ایک یہودی پروفیسر کی ایک بات مجھے بتائی تھی جو گذشتہ سالوں میں مجھے اکثر یاد آتی ہے-ہوا یوں کہ قدرت اللہ شہاب ایک عیسائی ایرانی کی حیثیت میں تل ابیب کے شہر ایک یہودی پروفیسر کے مہمان رہے اور اس کے گھر انہوں نے ممتاز شخصیات کی آویزاں تصاویر میں ایک تصویر محمد علی جناح کی بھی دیکھی-تجاہل عارفانہ دکھاتے ہوئے قدرت اللہ شہاب نے پوچھا: ’’یہ صاحب کون ہیں جواباً اس پروفیسر نے کہا یہ محمد علی جناح بانیٔ پاکستان ہیں اور میں نے اس کی تصویر اس لیے رکھی ہے کہ اس شخص نے اسلام کے نام سے ایک ملک حاصل کیا ہے اب اگر اس ملک ہی میں اسلام ناکام ہو جائے تو پھر اور کہیں کامیاب نہ ہو گا‘‘-
مَیں یہاں وہ سوال اٹھا نا ضروری سمجھتا ہوں جو علامہ محمد اسد نے اپنے مضمون’’What Do We Mean by Pakistan?‘‘میں اٹھایا ہے[1]کہ کیا ہم واقعی پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں؟جب تک اس سوال کا جواب ہم اپنے آپ سے طلب نہیں کریں گے اس وقت تک محض ہم گفتار کے غازی بنے رہیں گے-اسی بات کو راقم اس انداز سے تمام اہل پاکستان کے سامنے رکھتا ہے کہ کیا ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو حرم کی پاسبانی کے لیے منتخب کیا جائے؟کیونکہ بقول اقبال حرم کی پاسبانی کے لیے مسلمانوں کو نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک بنیان مرصوص بننا پڑے گا-انتہائی لائق توجہ بات یہ ہے کہ’’GW-5th‘‘کے اس دور میں ہماری نظریاتی تخریب کاری اس قدر ہو چکی ہے کہ ہم اب صرف ’’حرمین شریفین‘‘کے دفاع اور پاسبانی کی بات کرتے ہیں جبکہ اس بات کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے روحانی مراکز دو نہیں تین ہیں-جب تک مسلمان اپنی دفاعی اور اقدامی پالیسی بیت المقدس کو نظر انداز کرتے ہوئے ترتیب دیں گے علم آخر الزمان کے مطابق انہیں ہمیشہ ناکامی ہو گی-امام نعیم بن حماد کی بیان کردہ روایت کے مطابق غزوہ ٔہند سے قبل بیت المقدس کی فتح ہو گی جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مشرکین مکہ سے قبل مسلمانوں نے خیبر کے یہودیوں کے ساتھ جنگ کی تھی اسی طرح ہندوستان کی فتح کامل سے قبل بیت المقدس آزاد ہو گا-
اس وقت صورتحال یہ ہے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحے کے بعد سے تیسری عالمی جنگ جاری ہے اور مسلم ممالک اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف کمر بستہ ہونے کی بجائے پراکسی جنگوں کا حصہ بنے ہوئے ہیں-ان پراکسی وارز کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام ہو چکا ہے-تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کیا جا چکا ہے اور دشمنانِ اسلام بالآخر القدس کے بعد حرمین شریفین میں سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے کیے جانے کی تاریخ کو دہرانا چاہتے ہیں-جنگ عظیم اول میں جب بیت المقدس میں صہیونی فوجیں داخل ہو رہی تھیں اور حرمین میں ترک مجاہدوں کے خلاف دشمن بغاوت کروانے کے بعد اپنی فوجوں کو داخل کر چکا تھا تو ہندوستان کے مسلمان اس موضوع پر بحث کر رہے تھے کہ نبی کریم (ﷺ) نور ہیں یا بشر-اس بات کا قومی اندیشہ ہے اورحالات بھی اسی کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وطن پرستی کے نعروں اور فرقہ وارانہ تعصبات کی آگ کے سبب مسلمان حرمین کے دفاع سے غافل رہیں گے-قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قوموں کے عروج و زوال کا ایک اصول اس آیت مبارکہ میں بیان فرمایا ہےکہ:
’’وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآئُج وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ‘‘[2] |
|
’’اور اﷲ بے نیاز ہے اور تم (سب) محتاج ہو، اور اگر تم (حکمِ الہٰی سے) رُوگردانی کرو گے تو وہ تمہاری جگہ بدل کر دوسری قوم کو لے آئے گا پھر وہ تمہارے جیسے نہ ہوں گے‘‘- |
اللہ رب کریم بے نیاز ہے اور ہم سب اس کے محتاج ہیں-پاکستان کا وجود نظریہ اسلام سے قائم ہےاور اسی میں پاکستان کی بقا ہے-اس بات کا اظہار علامہ اقبال ()نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا:
“One lesson I have learnt from the history of Muslims. At critical moments in their history it is Islam that has saved Muslims and not vice versa. If today you focus your vision on Islam and seek inspiration from the ever-vitalising idea embodied in it, you will be only reassembling your scattered forces, regaining your lost integrity, and thereby saving yourself from total destruction”.
’’میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے ایک سبق سیکھا ہے کہ ان کے تاریخ کے نازک لمحات میں اسلام نے ان کی حفاظت کی نہ کہ کسی اور نے-اگر آج آپ اپنی توجہ اسلام کے ویژن پر رکھیں اور اس میں موجود لافانی نظریات سے رہنمائی حاصل کریں تو وہ صرف آپ ہوں گے جو اپنی بکھری طاقت کو منظم کر لیں گے، اپنی کھوئی میراث کو حاصل کر لیں گے اور اسی طرح خود کو مکمل تباہی سے بچا لیں گے‘‘-
اہل پاکستان کے سر پر اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی قیادت کا تاج رکھا ہے اور انہیں یہ موقع عطا فرمایا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے ہوئے آگے بڑھیں اور امت مسلمہ کی سیادت کا کار عظیم سر انجام دیں-اگر ہم نے اس ذمہ دار ی کو قبول نہ کیا تو یاد رکھیں اللہ رب کریم ہمارا محتاج نہیں ہے وہ امت مسلمہ میں سے ہی کسی نئی قیادت کو سیادت کے لئے منتخب فرمالے گا-ترکی میں رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترکوں کی اسلامی بنیادوں پر نشاۃ ثانیہ کا آغاز اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے-حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ تمام مسلم ممالک ایک امت بن کر حرمین شریفین اور القدس کی پاسبانی کے لیے اپنی بقاء کی جنگ لڑیں گے-
معمار حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز |
|
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز[3] |
’’معمارِ قوم! جہان کی از سرِ نو تعمیر کے لئے اٹھ-اس خواب گراں! خواب گراں سے بیدار ہو‘‘-
٭٭٭