دین اسلام ایک ایسا اکمل،آفاقی و عالمگیر ضابطہ حیات ہے جو ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے-دین اسلام اپنے دائرہ کار میں لامحدود، وسعت میں آفاقی اورخصوصیات میں جامع ہونے کے باعث اپنے اندر ایک جہانِ معنیٰ سموئے ہے-اس کے حقائق و خزائن کے ابلاغ اور اظہار کیلئے بہت سارے علوم و فنون نے جنم لیا-اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کی وضاحت و تشریح کے لیے درکار علوم کا تعلق اسلام کی خارجی دنیا سے ہے اور ان کا اسلام سے کوئی بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق نہیں-یہ علوم انسانی زندگی کےساتھ ضرور ارتقاء پذیر ہوئے لیکن انہیں صرف مخصوص معاشرتی و تہذیبی عوامل سے وقوع پذیر ہونے والے علوم شمار نہیں کیا جاتا بلکہ تمام علوم کا ماخذ و مصدر دینِ اسلام اور شریعتِ محمدی (ﷺ)ہی ہے-
قرآن مجید کلام الٰہی اور انسان کیلئے منبع ہدایت ہے لیکن اس کے بیان، انسانی فہم اور آسانی کی خاطراس کی وضاحت و تشریح نے علم تفسیر و اصول تفسیر کو جنم دیا جس سے متون کی تعبیر و تاویل کافن وجود میں آیا-علم حدیث و سُنّت نے اصولِ حدیث کو اور اصول حدیث نے علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کو متعارف کروایا کہ آج باقاعدہ نبی کریم (ﷺ) کی گفتگو،اعمال اور سکوت ہم تک مکمل چھان بین سے پہنچے ہیں-اسی طرح متصوفانہ طریق نے احوال کو جنم دیا -فن خطاطی اور تعمیر و نقوش میں مسلم شخصیات نے ایسے لطیف ڈیزائن متعارف کروائے جن سے فطرت کے تخلیقی اوصاف چھلکتے نظر آتے ہیں جنہیں آج کی ترقی یافتہ دنیا میں دیکھ کرعقلِ انسانی دَنگ رہ جاتی ہے اور آنکھوں کو رعنائی و تسکین بہم پہنچتی ہے-ایسے ہی اولہ عقلیہ کے ذریعے ذات باری تعالیٰ کے فلسفیانہ مباحث نے علم الکلام کی بنیاد رکھی-
اِسی طرح قانون بھی اسلام کے بنیادی مآخذ سے منظم و مربوط طریق سے وجود میں آیا یعنی مسلمانوں نے فقہ اور اصول فقہ کو نظام و نظم عطا کیا- فقہ فی نفسہ ٖ ایسے اصولوں پر قائم ہے جو نہ صرف اپنے عناصر، اجزائے تراکیبی اور دائرہ کار میں احسن انداز سے مربوط ہے بلکہ اصول فقہ کا ایک اصول دوسرے اصولوں کے مابین یوں ہم آہنگ و مطابقت پر مبنی ہے کہ ان کے درمیان تضاد ممکن نہیں اور کسی قانون کی اصولی موافقت میں تضاد جنم نہیں لیتا-الغرض ایسے کئی علوم شجرِ اسلام کی سر سبز و شاداب شاخوں سے براہِ راست پھوٹتے ہیں-
علم فقہ محض کوئی فرضی مباحثِ قانون کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح ہے، جو خاص اصول و ضوابط سے قرآن کریم اور سنت رسول (ﷺ) میں موجود احکام مستنبط کرنے کا نام ہے-مجتہدین کرام نے قرآن و حدیث میں غوطہ زنی کر کے نہ صرف اس وقت میں درپیش مسائل کے حوالے سےقانونی ’’Reasoning‘‘ کی بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے فقہی اصول متعارف کروائے جن کے ذریعے امت مستقبل میں درپیش مسائل حل کر سکتی ہے-تمام فقہی مذاہب نے اصول و ضوابط متعین کئے جو باقاعدہ طور پر آپس میں منضبط اور باہم دگر ہم آہنگ ہیں اور قرآن و سنت کے عمومی پیغام سے پیوستہ بھی ہیں-اسی زمانے میں فقہ کو فن کی حیثیت حاصل ہوئی-
لیکن آج کچھ لوگ بعض استشراقی تحریکوں سے متاثر ہو کر بلکہ ذہنی و نفسیاتی طور پہ مغلوب ہوکر بڑے زور و شور سے یہ ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں کہ صدیوں پہلے ترتیب دیئے گئے فقہی نظام کی ضرورت صرف اور صرف ماضی ہی سے وابستہ تھی- عہد جدید کے نئے مسائل کا حل ان سے ممکن نہیں-یعنی ان کی آزاد فکری اور سہل پسندی کے پیشِ نظر؛ خواہش نفس کو مسرت دینے والا اور عقلِ محض کےتابع ’’اسلام‘‘ نافذ کیا جائے اور دین کی نئی تعبیر وحی اور پیغام وحی سے آزاد محض مبنی بر عقل ہو- مزید تڑکا یوں لگاتے نظر ہیں کہ دروازۂ اِجتہادکی نام نہاد بندش کے بعد مسلم دنیا جمود کا شکار ہے اور اسی فقہی جمود نے مسلمان کی معاشرتی ترقی روک رکھی ہے- در حقیقت یہ فقہی جمود کا ڈھول پیٹنے والوں کا اپنا ذہن جمود میں مُبتلا ہے- مزیدوہ کبھی کبھار مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کےدور میں مغرب زدگی میں پنپنے والے قوانین کو مشرف بہ اسلام کیا جائے-
یہ کچھ درآمد شدہ جدت پسند ذہن، فقہائے اسلام کو عیسائیت میں پوپ کی شخصی دلیل کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے برابر تسلیم کرتے ہیں-یہ جدیدیّت زدہ نفسیاتی طور پر مغلوب مفکرین، فقہائے کرام کے قائم کردہ شرعی استدلال کا موازنہ پاپائیت کی شخصی دلیل سے کرتے ہیں-جیسے کلیسا کے پوپ کو بائبل کی تعبیر و تشریح میں حتمی اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے جو تعبیر و تاویل پوپ کی بالکل ذاتی اور شخصی دلیل پر مبنی ہوتی ہے- پوپ کی شخصی،عقلی اور محض سیاسی مفادات پر مبنی تعبیر و تشریح کے خلاف مارٹن لوتھر نے احتجاجی تحریک شروع کی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی تعبیر نو و تشریح کی اساس بنی-ہمارے بعض اہلِ فکر پوپ اور فقہاء کے اجتہادات کو ایک ہی عینک سے دیکھتے ہیں-ان کا یہ مؤقف انتہائی سہل فکری کا نتیجہ ہے کہ فقہی کام کو پرانا و فرسودہ نظام کَہ کر چیلنج کرتے ہیں جس کے لئے وہ دینِ اسلام کی تعبیر و تشریح کے لئے مارٹن لوتھر کے عمل پر تقلید کرتےپائے جاتے ہیں-
جدیدیت کے ماروں کو کوئی سمجھائے کہ مارٹن لوتھر کی تحریک پاپائیت کی شخصی اتھارٹی کے خلاف تھی جبکہ فقہ اسلامی کی بنیاد شخصی اتھارٹی نہیں بلکہ قرآن و سنت ہے-کسی امام کی بات قبول کرنے کی بنیاد یہ ہے ہی نہیں کہ امام نے بات کی ہے تو تسلیم کر لی جائے-اسلام میں صحیح یا غلط،برحق یا ناحق ہونے کا پیمانہ شخصی دلیل نہیں بلکہ قرآن و سنت کے واضح اصُول ہیں-پوپ کی بات ماننے میں اس کی شخصیت حائل ہے جبکہ ائمہ کی رائے قبول کرنے کی بنیاد نص پر مبنی دلیل ہے-
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن و حدیث کے اصول و ضوابط پر مبنی فقہی ذخیرہ کو جھٹلانے کا مطلب چودہ سو سالہ تاریخی اجماعی اور اجتماعی اعمال سے علیحدہ اور منحرف ہونا ہے- اسلام کو مشرف با جدیدیّت کرنے والے اگر اس انحراف پہ نازاں اور بضد ہیں تو: اپنے طریق سے قرآن سے مسائل اخذ کریں، صحیح اور موضوع حدیث کی درجہ بندی کرنے کیلئے اپنے اصول وضع و واضح کریں، اسماء الرجال کے تمام ذخیرے کی پھر سے پڑتال کریں یا پھر اپنی ’’پرویزیّت[1]‘‘ کا برمَلا اعتراف کریں - آگے بڑھنے کی بجائے جدید اسلام کےسپوٹران کی گاڑی یہیں آکر رک جاتی ہے جب انہیں محدثین و فقہاء کی مدون شدہ کتب سے راوی کاپتہ چلتا ہے- یعنی اپنے جدید فقہ کی بنیاد انہی محدثین اور فقہاء کی کتب کو بنانا ہے تو انہی کے مرتب کردہ اصول اپنانے میں کیا عار ہے؟ اگر راوی کے حوالے سے ان پر اعتبار ہے تو قانون میں کیوں نہیں؟ یا پھر مستشرقین و این جی اوز زدگان کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اسلام کو قربان گاہ میں لانے کی خواہش لئے پھرتے ہیں ؟ تمام فقہی ذخیروں کو چھوڑ کر اجتہادِ مطلق کی بات کرنے والوں سے جب یہ سوال کیا جائے تو آنکھیں چار نہیں کر پاتے-
ایسے مفکرین کسی ایک فقہ کی اصولی تقلید کو جمود گردانتے ہیں اور مسلمانوں کے زوال کی سب سےبڑی وجہ اسے ہی سمجھ بیٹھے ہیں-جنہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور دونوں اپنے حل تجویز کرتے ہیں-ایک استشراق زدہ مغربی سوچ سے متاثرہ گروہ جس کا تذکرہ مندرجہ بالا ہو چکا جبکہ دوسرے طبقہ کا خیال ہے کہ تمام مذاہب فقہیہ کے قانونی ذخیرے کو اکٹھا کیا جائے اور اسے اجتماعی اسلامی ورثہ قرار دیا جائے-اس مشترکہ علمی، فکری اور خالصتاً قانونی کاوش سے مستفید ہوا جائے جسے ’’کاسمو پولیٹن فقہ‘‘ یا فقہ عولمی بھی کہا جاتا ہے جس میں تمام فقہاء کے اجتہادات، استنباط، مسائل، استخراج اور استدلال کو استعمال میں لایا جائے اور جسے کسی مخصوص فقہ سے نہیں بلکہ اسلامی فقہ کے نام سےموسوم کیا جائے-کیا فقہ حنبلی، مالکی، شافعی اور حنفی فقہ اسلامی نہیں؟ کیا یہ معاذ اللہ! غیر اسلامی ہیں؟ لیکن اختلاف کا بنیادی سروکار محض کس نام سےفقہ موسوم کی جا رہی ہے اس سےنہیں اگرچہ ثانوی حیثیت میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے -
مشترکہ فقہی ذخیرہ کو کس نام سے موسوم کیا جائے یہ اختلاف بنیادی اختلاف کے مقابل ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور بنیادی اختلاف اصول کا ہے جسے بے اصول مفکرین کیسے سمجھ سکتے ہیں-اعتراض و اختلاف کی وجہ مختلف مذاہب کے فقہی ذخیرہ کو اکٹھا کرنے پر بھی نہیں-اختلاف ہے کہ مشترکہ فقہی فکری ورثہ کےنام پر جو آراء اکھٹی کی جا رہی ہیں، ان اجتہادی آراء کے پس پردہ کونسا اصول کار فرما ہے؟ کونسی اجتہادی رائےکس اصول کی بنیاد پر ترجیح رکھتی ہے؟ اور باقی اصولوں سے ہم آہنگ ہے بھی یا نہیں؟ مستقبل میں درپیش مسائل کا حل کس اصول پر کیا جائے گا جب کوئی طے شدہ اصول ہی نہیں ہوگا-مستقبل میں آنے والے کسی قانونی مسئلہ کو اخذ کرنے کے لئے مصادر شرعیہ کی ترتیب کیا ہوگی؟ پہلے کس ماخذ سے رجوع کیا جائے گا؟ کس مخصوص طریقہ استدلال کو اپنایا جائے گا؟ قوانین کے مابین تعارض اور تناقض کو رفع کن اصولوں کے ذریعے کیا جائے گا؟اگر اصول نہیں تو کیا مستقبل میں پھر انہی فقہی مذاہب کے اصولوں کی طرف ریورس گیئر میں جدت پسندوں کی فکری گاڑی آئے گی؟
یہ کام جو صرف و صرف مستشرقین کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کیلئے کچھ لوگوں نے شروع کر رکھّا ہے اُن سے مؤدّبانہ گزارش ہے کہ وہ خُدا را دین کو اپنی شُہرت کے حصول کی بھینٹ مت چڑھائیں- اُن کو خبر ہی نہیں ہے کہ یہ دینِ حق کے ساتھ کتنی عظیم زیادتی ہے اور اسلام کا مستقبل کتنے عظیم خطرات میں جا پڑے گا- اب پوچھیں گے کہ کیسے خطرات؟ تو نوٹ کر لیں :
پہلی بات تو یہ کہ ایسی کاوشوں کا دوسرا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ جو فقہی اصُول کتاب و سُنّت کی مطابقت و موافقت میں گزشتہ 1400سالہ تاریخ میں مدوّن ہوئے ہیں اب وہ قابلِ عمل نہیں رہے-
دوسری یہ بات کہ اب ہم نئے اصُول دیں گے جو کہ قابلِ عمل ہونگے اور جدید انسان کے سارے مسائل کو حل کر کے رکھ دیں گے اور دین کو ایک بار پھر زِندہ تابندہ کر چھوڑیں گے-یہ دعوے شُغلِ اعظم اکبر، مرزا قادیانی، غلام احمد پرویز سمیت کئی لوگ کر بیٹھے ہیں مگر اِن کا نتیجہ سوائے اُمّت میں فتنہ و فساد اور انتشار و اضطراب کے کچھ بھی نہیں نکلا نہ اب نکلے گا-
تیسرا جو عظیم ترین خطرہ ہے وہ یہ کہ جب بزعمِ خویش ’’ماہرینِ سماجیاتِ مذہب‘‘ کا یہ پہلے سے ناکام شدہ تجربہ ایک بار پھر ناکام ہوگا تو آئندہ کا مسلمان سوائے خیمۂ لادینیّت کے کہاں پناہ حاصل کرے گا؟ اب تک کی مروّجہ فقہوں میں؟ انہیں آپ پہلے ہی ناقابلِ عمل قرار دے چکے-نئی کاسمو پولیٹن فقہ میں؟ یہ تو کئی بار کا ناکام تجربہ ہے اِس نے کامیاب ہونا ہوتا تو ابولفضل کی تُندیٔ دلائل اور جلالِ اکبری کی آغوش میں یہ کامیاب ہو چکی ہوتی-اِس لئے آئندہ کے مسلمان کا نہ تو اسلام پہ یقین رہے گا نہ اسلام کے زندہ و تابندہ قوانین پہ-اقبال یاد آتے ہیں جنہوں نے کیا ہی اعلیٰ اصُول دریافت کیا کہ :
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر |
’’کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی(خطرات سے) زیادہ محفوظ ہے‘‘-
لہذا مذاہب کے مشترکہ ورثہ کی بناء پرفقہی ذخیرہ کو اچار بنانے سے محفوظ رکھنے اور عدالتوں کے لئے باضابطہ اصولی ضوابط جن کی روشنی میں وہ اپنے فیصلے کر سکیں-اصول فقہ متعارف کروایا جائے-
پاکستان جیسے اسلامی نظریاتی مملکت خداداد کے لئے ممکنہ، موزوں اور موافق و محفوظ قانونی نظام فقہ حنفی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ اصولِ فقہ حنفی کو ملک پاکستان کی عدالتوں میں بطور علم ِ قانون (جیورس پروڈنس) تسلیم کیا جائے جس سے نہ صرف فقہ عولمی جیسے گھمبیر مسئلہ سے بچا جا سکتا ہے بلکہ ایک ہی نوعیت کےدو مختلف عدالتی فیصلوں میں تضاد سے بھی بچا جا سکے گا-پاکستان کے لئے فقہ حنفی کو بطور ریاستی فقہ کہنا اس کی اپنی خصوصیات کے ساتھ، بہت سے تاریخی، معاشرتی، حنفیت کے پیروؤں کی اکثریت، عقلی مقبولیت اور عملی بنیادوں پر دیگر عوامل کے ساتھ یہ موزوں، مناسب، ممکنہ اور موافق نظام ہے-
فقہ حنفی کو باقی فقہوں کی نسبت زمانی اعتبار سے بھی برتری حاصل ہے کہ فقہ حنفی باقی تمام فقہی مذاہب سے پہلے ترویج پائی-فقہ حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ؒ اپنے علم و فضل،تقویٰ و پرہیز گاری، خدماتِ دین کی حیثیت سے اعلیٰ و ارفع مقام رکھتےہی ہیں جبکہ ان کو جو زمانہ نصیب ہوا وہ خیر کا زمانہ کہلاتا ہے- فقہی مذاہب میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے زمانے سے قریب کا زمانہ ہے جو قرون خیر میں سے ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی (ﷺ) ہے؛
’’ خیر امّتی قرنی ثمّ الذین یلو نھم ثمّ الذین یلونھم ‘‘[2]
’’میری امت میں سب سے بہتر میرے زمانے والے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں‘‘-
حدیث مبارکہ سے عیاں ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی رحلت فرمانے کے بعد پہلے تین زمانوں کو باقی زمانوں پر سب سے زیادہ فضیلت و برتری حاصل ہے-پہلا زمانہ رسول اللہ (ﷺ) کا، دوسرا زمانہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھُم)کا اور تیسرا زمانہ تابعین کا ہے جو کہ امام ابو حنیفہ ؒ کا زمانہ شمار ہوتا ہے- امام ابو حنیفہؒ نے ذاتی کوششوں سے اسلامی قانون کو پہلی دفعہ باقاعدہ منظم اور ایک مربوط قانون کی شکل میں مرتب کرنے کیلئے عرق ریزی کی-امام اعظمؒ کی اس نجی کاوش میں قابل و لائق لوگ بڑھتے چلے گئے اور آپ کا دائرہ علم بڑھتا چلا گیا-امام اعظم نےاموی و عباسی قاضیوں کے فیصلوں پر تنقید کی تو فقہ حنفی مقبول ہوئی اور اسے زیادہ عوامی پیروی حاصل ہوئی-امام ابوحنیفہؒ کے قاضیوں پر قانونی مفصل تنقید[3] نے لوگوں میں اُن قاضیوں کے بارے میں بد اعتمادی کی فضا پیدا کی، علمی طورپر لوگوں کا رجحان فقہ حنفی کی طرف ہونے لگا اور اپنی دیگر وجوہات کے ساتھ فقہ حنفی مزید مقبولیت اختیار کرتی گئی- آج بھی عالم اسلام کی کل تعداد میں دو تہائی سے زائد فقہ حنفی پر ہی عمل پیرا ہیں-فقہ حنفی کی اثر گیری اور مقبولیت کا اندازہ اس فقہ کے مقلدین کی تعداد سے ہی ہو جاتا ہے جس کا اعتراف علّامہ ابن خلدون جیسے عظیم ماہر عمرانیات و مؤرخ کرتے ہیں؛
’’آج حنفیت پر عمل کرنے والے پوری دنیا میں باقی مذاہب اربعہ سے زیادہ بالخصوص عالم عجم میں- فقہ حنفی عراق میں حنبلی مذہب پر بھی غالب مسلک ہو گیا-حنفی مذہب عراق و ہند و چین ماوراء النہر و تمام ممالک عجم میں پھیلا ہوا ہے ‘‘-
فقہ حنفی کا اس قدر عوامی فروغ اور مقبولیت کے علاوہ فقہ حنفی کا امام اعظم کی کوششوں سے منظم انداز میں ہونا اس کےحکومتی قانون بننے کا ذریعہ ثابت ہوا-محض عوامی مقبولیت ہی ریاستی قانون بننے کا ذریعہ نہ ہوئی بلکہ فقہ حنفی کی اوربھی کئی خصوصیات تھیں جو اس کے اقتدار کی وجہ بنی-امام اوزاعی اور امام ابو یوسف کے درمیان گفتگو سے آگے مزید واضح ہو جائے گا جو اس مؤقف کی واضح تردید کرتا ہے کہ اقتدار فقہ حنفی کے فروغ کا سبب بنا- یہ بات بہت سے تاریخی حوالوں سے ثابت ہے مثلاً فقہ حنفی کو بہت سے علمی مباحث کا سامنا رہا جس سے یہ مزید کامل فقہ کے طور پر سامنے آئی-ان کے فقہی مباحث یوں کامل ٹھہرے کہ علامہ عبد الرحمن ابن خلدون یوں بیان کرتے ہیں؛
’’امام ابو حنیفہ ؒکے شاگردوں نے خلفائے بنی العباس کی صحبتوں میں رہ کر بہت سی کتابیں بھی لکھیں اور شافعیوں سے خوب مناظرے کرتے رہے اور مخالفت کی وجہ سے بڑی گہری نظر سے کام لینا پڑا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا علم فقہ کامل ہو گیا اور مسائل میں ایسی ایسی مُوشگافی ہوئی کہ شاید ہی کبھی ایسا ہو‘‘[4]
ابن خلدون کےاس قول کی وضاحت اس واقعہ سےواضح ہو جاتی ہے کہ امام اوزاعیؒ بیروت (شام )میں قیام پذیر تھے جو اس وقت تجارت اور باقی ریاستوں کے سفیروں کی آمد کا مرکز تھا- مزید مسلم نیوی فورسز جو قبرص اور دیگر جزائر کے قزاقوں کے خلاف آپریشن میں مصروف تھیں بیروت ان کابھی مرکزتھا جس سے وہاں کے مسلمانوں کو تعلقاتِ عامہ سے متعلق مسائل کا سامنا تھا- امام اوزاعی اسلامی بین الاقوامی قانون پر اتھارٹی تھے جن سے بین الاقوامی معاملات لین دین سےمتعلق محض مقامی حکومتیں اور لوگ ہی قانونی معاملات پر رائے طلب نہ کرتے بلکہ دمشق و بغداد کی مرکزی حکومتیں بھی ان کی تبحر علمی سے مستفید ہوتیں جبکہ دوسری طرف فقہائے احناف عراق میں قیام پذیر تھے- جب امام اوزاعی ؒ کو امام شیبانی کی کتاب ’’السیر الصغیر‘‘ پیش کی گئی جس پر انہوں نےفرمایا کہ عراقی فُقہاء کا بین الاقوامی قانون سے کیا تعلق ہے؟ یعنی انہیں تو اس نوعیت کے مسائل درپیش ہی نہیں-عملی بنیادوں پر مسائل کے اطلاق کا سامنے نہ ہونا کام کوعلمی طور پر بڑھاتا ہے جس کو عملی زندگی پر منطبق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے- جب اس اعتراض کا علم امام ابو یوسف کو ہوا تو انہوں نے نہ صرف اس کے جواب میں لکھا بلکہ امام اوزاعیؒ کی آراء پر علمی تنقید کی اور اپنے استاد کے استدلال کو ٹھوس بنیادوں پر ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے-جس کا خلاصہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کی زُبانی یوں بیان کیا جا سکتاہے:
امام اوزاعی کی کتاب نے امام ابو حنیفہ کے شاگردوں کی توجُّہ اپنی جانب مبذُول کروائی-امام ابو حنیفہ کے قابل ترین و قریبی ترین شاگرد امام ابو یوسف آگے بڑھے اور انہوں نے امامِ شام (اوزاعی) کی تنقید کے مقابلے میں اپنے اُستاد کے مؤقّف کا دِفاع کیا-انہوں ’’الردّ علی السیر الاوزاعی ‘‘ کے نام سے امام اوزاعی کو تفصیلی جواب لکھا-امام ابو یوسف نے نہ صرف اپنے اُستاد کے بیان کردہ مؤقف کو واضح حمایت دی بلکہ کئی مقامات پہ ناقد کی تنقید پہ شدید انداز میں تنقید کی-اکثر مقامات سے جھلکتا ہے کہ امام ابو یوسف فقیہِ شام (امام اوزاعی) کے مؤقّف کے ردّ میں کامیاب رہے ہیں اور اپنے اُستاد (امام ابو حنیفہ) کے مؤقّف کو بڑے پختہ دلائل سے درست ثابت کیا -[5]
اس واقعہ سے بہت سےحقائق نمایاں ہوتے ہیں کہ؛
۱ فقہائے احناف فقاہت میں کن اعلیٰ خصائص کےحامل تھے،
۲ حنفی اصولیّین کی مباحث بلحاظ علمی اور عملی زیادہ حقیقی ہیں،
۳ فقہ حنفی کی بحث کا دائرہ کارعراق کےفقہاءتک محدود نہ تھا،
۴ فقہ حنفی کا استدلال مجرد بنیادوں پر نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک مسئلہ کا کئی پہلوؤں اور اصول سے جائزہ لیتےتھے،
۵ حنفی طریق میں اجتماعی مشاورت اور بحث و مباحثہ سےمسائل کے استنباط و استخراج میں بہت سی موشگافیاں ہوتیں،
۶ فقہ حنفی کتنی ترقی یافتہ تھی کہ جومسائل درپیش نہ تھے ان پر بھی قانون مرتب کئے جارہے تھےاور
۷ عراقی فقہاء کا کام خالصتاً علمی ہونے کے ساتھ یکساں بنیادوں پر عملی طور پر پیش آنے والے عوامل کو بھی مدنظر رکھے ہوئے تھا-
فقہ حنفی کی جب تدوین ہو رہی تھی اوراپنے اصولی بنیادوں کے ارتقائی مراحل پرتھی تو دارا لحکومت بھی کوفہ (عراق) میں منتقل ہو گیا جس پرحنفی فقہاء کو حکومتی اور معاشرتی معاملات کو بڑے قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا جس کے لئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ فقہ حنفی کی یہ خاصیت ہے کہ اس کی ساخت جتنی قانونی گہرائی کی حامل ہے اس سے زیادہ حکومتی و تہذیبی عناصر کا بھی احاطہ کئے ہے-تمام آئمہ میرے لئے آداب و احترام میں برابر درجہ رکھتے ہیں- ان کی تقوی ٰپر مبنی زندگی بےمثال،دین اسلام کے لئے خدمات بے نظیر ہیں لیکن یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اجتماعی مشاورت، کھلےمباحثوں اور مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو احاطہ عمل میں لا کرغور و فکر کرنا فقہ حنفی کا ہی خاصہ ہے-جس سے فقہ حنفی نہایت مفصّل اور منظّم انداز میں مدوّن ہوئی بلکہ حنفیت کی مقبولیت کےساتھ ساتھ امام ابو حنیفہ کے شاگردوں اور ان کے شاگرد قانون دانوں کی بڑی تعداد تیار ہوئی-اپنی ان منفرد خصوصیات کی بناء پر تجرباتی بنیادوں پر فقہ حنفی کو حالات پر منطبق کر کے اسے عملی نظام قانون بنانے کے مواقع دستیاب آئے-ان موقعوں کا اظہار مختلف ریاستوں کا فقہ حنفی کو بطور ریاستی قانون میں لاگو کرنے سے ہوتا ہے-
تاریخی مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ فقہ حنفی بہت سے دورِ حکمرانی پر حکمرانی کرتی رہی- فقہ حنفی عباسیوں، عثمانیوں اور مغلوں کے دور میں رائج رہی ہے- فقہ حنفی کا راج کسی ایک دور اور خطے پر محیط نہیں بلکہ یہ مختلف ادوار حکمرانی اور مختلف خطوں میں نافذ رہی جو اس کےکامل، زیادہ مبنی برعمل اورمقبول ہونے کی ضمانت دیتا ہے- امام ابو حنیفہ کےمشہور شاگردقاضی ابو یوسف پہلے جج مقرر ہوئے پھر قاضی القضاء کے منصب پر فائز ہوئے اور فقہ حنفی کی بنیاد پر فیصلے مرتب کئے-وہ بطور مذہبی سکالر اور سلطنت کے نمائندہ رہے انہوں نے مذہب (فقہ ) اور حکومتی امور کو مجمع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا اعتراف شرق و غرب میں برملا کیا جاتا ہے-پرنسٹن یونیورسٹی (امریکہ) کے ’’انسائیکلو پیڈیا آف اسلامک پولیٹیکل تھاٹ‘‘ میں پیول ایل-ہیک (Paul L.Heck) بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
“(Abu Yusuf) As both a religious scholar and a dynastic official, he played a pioneering role in the amalgamation of the religious sciences and governing practices of the Abbasid dynasty, which he served in Baghdad first as judge and then as chief judge (qadi al-quddat)”.[6]
مندرجہ بالاتحریر سے واضح ہوتاہےکہ امام ابو یوسفؒ کی خلافتِ عباسیہ کے لئے خدمات صرف بطور قاضی یا ریاستی نمائندہ تک محدود نہیں بلکہ مختلف حکومتی معاملات میں بھی آپ کے کارنامے دیکھنے کو ملتے ہیں-جیسا کہ خلیفہ ہارون الرشید کے حکومتی معلاملات سے متعلق مختلف سوالات پر امام ابو یوسفؒ نے ایک کتاب لکھی جس کے موضوعات کچھ یوں تھے کہ خلیفہ کو کیا کرنا چاہیے؟ انتظامی معاملات کیسے چلانے چاہیے؟ مالیات کا نظام کیا ہو؟ چنانچہ حضرت امام ابو یوسف ؒ نے ہارون الرشید کی درخواست پر ’’کتاب الخراج‘‘لکھی جسےدورِ جدید میں ایک مالیاتی ایکٹ کہا جا سکتا ہےجو ہارون الرشید کے دور میں نافذ رہا- جسے پیول ایل-ہیک یوں بیان کرتےہیں:
“The work for which Abu Yusuf is most celebrated is Kitab al-Kharaj(The book of the land of tax), in which he responds at length to 28 questions posed by the caliph Harun al-Rashid on various aspects of governance. The work is chiefly devoted to fiscal matters but encompasses a wide range of administrative concerns, including the status of non-Muslims subjects, warfare, and the punishment of crime”. [7]
عباسی دورحکومت کے بعد فقہ حنفی کی حکمرانی خلافتِ عثمانی میں بھی رہی ہے- انیسویں صدی میں دولت عثمانیہ نےجدید قانونی ضوابط کی نہج پر قانونی مجموعہ مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں ایسےقانون کو تشکیل دیا جائے جو فقہاء کے اختلافی آراء پر مبنی نہ ہو بلکہ اجتہادی اختلاف سےآزاد ہو جس سے استفادہ کرنا آسان ہو-جس کی وضاحت ڈاکٹر ایس محمد زمان یوں کرتےہیں؛
’’کمیٹی کے ابتداءمیں سات ارکان تھے جن میں ممتاز فقیہ علامہ محمد علاء الدین بن عابدین شامی بھی شامل تھے-مجلیٰ کی تالیف 1876ء میں مکمل ہوئی اورجسے سلطان ترکی کے حکم سے ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا-مجلۃ میں شامل قوانین 1918ء تک دولت عثمانیہ کی عدالتوں میں رائج رہے اور حجاز، شرق اردن، شام، عراق، مصر اور سوڈان میں انہی کے مطابق فیصلے کئے جاتے رہے‘‘- [8]
’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ کی طرح بہت سی کتب مختلف ادوار کی خلافتوں میں لکھی جاتی رہی جو ریاست کے امور اور شہریوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرتی رہیں- زمانی تقاضوں اور مصلحت عامہ جیسے عمومی اصولوں کی روشنی میں فقہ کی تدوینِ نو مستقلاً ہوتی رہی-جب حالات کے بدلنے سے مسائل بھی بدلتے تو ہر دور کے فقہاء اپنے دور کے مطابق مسائل پر غور کرتے-کوئی دور اجتہادی ادوار سے خالی نہیں بلکہ فقہ میں وقت کے تقاضوں کے مطابق مختلف طریقوں سے تدوین نو اور نظر ثانی ہوتی رہی- یعنی فقہی فتاویٰ پر نظر ثانی اور نئے درپیش مسائل کی اجتہادی کوششیں ملتی ہیں- جنوبی ایشیا کی مغل حکومت کا قانون فقہ حنفی پر مبنی تھا جبکہ ہندوستان کےتمام حکمران خود مذہب حنفی پر ہی عمل کرتے تھے-پوری مسلم دنیا میں بالعموم تمام حکمران بنیادی طور پر قرآن و حدیث سے واقف اور عالم دین تھے جبکہ کچھ بالخصوص ان خوبیوں کے مالک تھے جن میں سلطان محمود غزنوی اور سلطان اورنگ زیب عالمگیر قابلِ ذکر ہیں-اول الذکر نے فقہ حنفی پر ’’کتاب التفرید‘‘کےنام سے ایک کتاب لکھی جو تقریباً 60ہزار مسائل پر مشتمل ہے جبکہ ثانی الذکر نے فقہ حنفی پر ایک مشہور زمانہ فتویٰ فتاوی عالمگیری (فتاوی ہند) لکھوایا- جو ریاستی قانون و دستور تسلیم کیا جاتا رہا ہے- سلطان اورنگ زیب عالمگیرؒ کی فقہ حنفی سے وابستگی اور ایک عالم دین ہونے کے حوالے سے آمینہ سٹینفلس (AMINA STEINFELS)یوں تذکرہ کرتی ہیں؛
“Many of Aurangzeb’s policies, espacialy in religious matters, reflected his sober and pious personality and his commitment to a shari’a-originated Islam...Aurangzeb was not the patron of the arts that his father and grandfather had been. Instead, he commissioned the ‘Alamgir compendium of legal rulings), and personally occupied himself with copying the Qur’an.” [9]
لیکن افسوس اتنے نیک سیرت اور اہل علم حکمرانوں کے بعد سہل پسند، امور سلطنت سے لا تعلق و بے خبر حکمرانوں کےباعث مسلم حکمرانی زوال کا شکار ہوئی جس کےنتیجے میں نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ ہندوؤں نے بھی برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی کے خلاف جنگ کی اور ’’Muslim Rule‘‘ بحال کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے لیکن ایسا نہ ہو پایا- 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد انگریز نے فتاویٰ عالمگیریہ کی بطور قانون، حیثیت مکمل ختم کردی لیکن 90 سال تک برصغیرمیں استعماری راج اور برطانوی قوانین بھی مسلمانوں کی فقہ حنفی سے وابستگی کو متاثر نہ کرسکے جس سےلوگوں میں فقہ حنفی کی موثریت کا واضح ثبوت ملتا ہے-
آج برطانوی نظام کی مداخلت کےباوجود پاکستان میں فقہ حنفی کی موثریت اورمقبولیت اس کے موزوں، ممکنہ اورموافق ہونےکی دلیل ہے- پاکستان کی اکثریت مسلمان آبادی فقہ حنفی کو نا صرف دل و جان سے فالو کرتی ہے بلکہ اُس کی عالمگیریت پہ قوی و پختہ یقین رکھتی ہے ، اِس لئے پاکستان کی اسلامی قانون سازی اگر اکثریت کے اصُول پہ ہو تو عوام اور ریاست میں فاصلے کم سے کم ہونگے -
٭٭٭
[1] پرویز صاحب کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے حدیث کے مسئلہ پہ انکار کردیا مگر منافقت نہیں کی ، آج کچھ لوگ اِس کے بر عکس کر رہے ہیں اُن سے حدیث نگلی جا رہی ہے نہ اُگلی جا رہی ہے ۔
[2]( مشکواۃ ،ص :553)
[3]( تفصیل؛ امام ابو یوسفؒ کی کتاب اختلاف ابی حنیفۃ و ابن ابی لیلی)
[4]( ابن خلدون،ج:1،ص:499)
[5])al-Radd ‘ala Siyar al-Awza’I by Zafar Ishfaq Ansari,P#68 -78(
[6])Princeton encyclopedia of Islamic political thought. 2012.P#15(
[7])Princeton encyclopedia of Islamic political thought. 2012.P#15(
[8] (شرح مجلیٰ، علامہ محمد خالد اتاسی،ص:4)
[9])Princeton encyclopedia of Islamic political thought. 2012.P#50)
دین اسلام ایک ایسا اکمل،آفاقی و عالمگیر ضابطہ حیات ہے جو ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے-دین اسلام اپنے دائرہ کار میں لامحدود، وسعت میں آفاقی اورخصوصیات میں جامع ہونے کے باعث اپنے اندر ایک جہانِ معنیٰ سموئے ہے-اس کے حقائق و خزائن کے ابلاغ اور اظہار کیلئے بہت سارے علوم و فنون نے جنم لیا-اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کی وضاحت و تشریح کے لیے درکار علوم کا تعلق اسلام کی خارجی دنیا سے ہے اور ان کا اسلام سے کوئی بلواسطہ یا بلا واسطہ تعلق نہیں-یہ علوم انسانی زندگی کےساتھ ضرور ارتقاء پذیر ہوئے لیکن انہیں صرف مخصوص معاشرتی و تہذیبی عوامل سے وقوع پذیر ہونے والے علوم شمار نہیں کیا جاتا بلکہ تمام علوم کا ماخذ و مصدر دینِ اسلام اور شریعتِ محمدی (ﷺ)ہی ہے-
قرآن مجید کلام الٰہی اور انسان کیلئے منبع ہدایت ہے لیکن اس کے بیان، انسانی فہم اور آسانی کی خاطراس کی وضاحت و تشریح نے علم تفسیر و اصول تفسیر کو جنم دیا جس سے متون کی تعبیر و تاویل کافن وجود میں آیا-علم حدیث و سُنّت نے اصولِ حدیث کو اور اصول حدیث نے علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کو متعارف کروایا کہ آج باقاعدہ نبی کریم (ﷺ) کی گفتگو،اعمال اور سکوت ہم تک مکمل چھان بین سے پہنچے ہیں-اسی طرح متصوفانہ طریق نے احوال کو جنم دیا -فن خطاطی اور تعمیر و نقوش میں مسلم شخصیات نے ایسے لطیف ڈیزائن متعارف کروائے جن سے فطرت کے تخلیقی اوصاف چھلکتے نظر آتے ہیں جنہیں آج کی ترقی یافتہ دنیا میں دیکھ کرعقلِ انسانی دَنگ رہ جاتی ہے اور آنکھوں کو رعنائی و تسکین بہم پہنچتی ہے-ایسے ہی اولہ عقلیہ کے ذریعے ذات باری تعالیٰ کے فلسفیانہ مباحث نے علم الکلام کی بنیاد رکھی-
اِسی طرح قانون بھی اسلام کے بنیادی مآخذ سے منظم و مربوط طریق سے وجود میں آیا یعنی مسلمانوں نے فقہ اور اصول فقہ کو نظام و نظم عطا کیا- فقہ فی نفسہ ٖ ایسے اصولوں پر قائم ہے جو نہ صرف اپنے عناصر، اجزائے تراکیبی اور دائرہ کار میں احسن انداز سے مربوط ہے بلکہ اصول فقہ کا ایک اصول دوسرے اصولوں کے مابین یوں ہم آہنگ و مطابقت پر مبنی ہے کہ ان کے درمیان تضاد ممکن نہیں اور کسی قانون کی اصولی موافقت میں تضاد جنم نہیں لیتا-الغرض ایسے کئی علوم شجرِ اسلام کی سر سبز و شاداب شاخوں سے براہِ راست پھوٹتے ہیں-
علم فقہ محض کوئی فرضی مباحثِ قانون کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی روح ہے، جو خاص اصول و ضوابط سے قرآن کریم اور سنت رسول (ﷺ) میں موجود احکام مستنبط کرنے کا نام ہے-مجتہدین کرام نے قرآن و حدیث میں غوطہ زنی کر کے نہ صرف اس وقت میں درپیش مسائل کے حوالے سےقانونی ’’Reasoning‘‘ کی بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں ایسے فقہی اصول متعارف کروائے جن کے ذریعے امت مستقبل میں درپیش مسائل حل کر سکتی ہے-تمام فقہی مذاہب نے اصول و ضوابط متعین کئے جو باقاعدہ طور پر آپس میں منضبط اور باہم دگر ہم آہنگ ہیں اور قرآن و سنت کے عمومی پیغام سے پیوستہ بھی ہیں-اسی زمانے میں فقہ کو فن کی حیثیت حاصل ہوئی-
لیکن آج کچھ لوگ بعض استشراقی تحریکوں سے متاثر ہو کر بلکہ ذہنی و نفسیاتی طور پہ مغلوب ہوکر بڑے زور و شور سے یہ ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں کہ صدیوں پہلے ترتیب دیئے گئے فقہی نظام کی ضرورت صرف اور صرف ماضی ہی سے وابستہ تھی- عہد جدید کے نئے مسائل کا حل ان سے ممکن نہیں-یعنی ان کی آزاد فکری اور سہل پسندی کے پیشِ نظر؛ خواہش نفس کو مسرت دینے والا اور عقلِ محض کےتابع ’’اسلام‘‘ نافذ کیا جائے اور دین کی نئی تعبیر وحی اور پیغام وحی سے آزاد محض مبنی بر عقل ہو- مزید تڑکا یوں لگاتے نظر ہیں کہ دروازۂ اِجتہادکی نام نہاد بندش کے بعد مسلم دنیا جمود کا شکار ہے اور اسی فقہی جمود نے مسلمان کی معاشرتی ترقی روک رکھی ہے- در حقیقت یہ فقہی جمود کا ڈھول پیٹنے والوں کا اپنا ذہن جمود میں مُبتلا ہے- مزیدوہ کبھی کبھار مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کےدور میں مغرب زدگی میں پنپنے والے قوانین کو مشرف بہ اسلام کیا جائے-
یہ کچھ درآمد شدہ جدت پسند ذہن، فقہائے اسلام کو عیسائیت میں پوپ کی شخصی دلیل کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے برابر تسلیم کرتے ہیں-یہ جدیدیّت زدہ نفسیاتی طور پر مغلوب مفکرین، فقہائے کرام کے قائم کردہ شرعی استدلال کا موازنہ پاپائیت کی شخصی دلیل سے کرتے ہیں-جیسے کلیسا کے پوپ کو بائبل کی تعبیر و تشریح میں حتمی اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے جو تعبیر و تاویل پوپ کی بالکل ذاتی اور شخصی دلیل پر مبنی ہوتی ہے- پوپ کی شخصی،عقلی اور محض سیاسی مفادات پر مبنی تعبیر و تشریح کے خلاف مارٹن لوتھر نے احتجاجی تحریک شروع کی جو مسیحیت کی تشکیل جدید اور بائبل کی تعبیر نو و تشریح کی اساس بنی-ہمارے بعض اہلِ فکر پوپ اور فقہاء کے اجتہادات کو ایک ہی عینک سے دیکھتے ہیں-ان کا یہ مؤقف انتہائی سہل فکری کا نتیجہ ہے کہ فقہی کام کو پرانا و فرسودہ نظام کَہ کر چیلنج کرتے ہیں جس کے لئے وہ دینِ اسلام کی تعبیر و تشریح کے لئے مارٹن لوتھر کے عمل پر تقلید کرتےپائے جاتے ہیں-
جدیدیت کے ماروں کو کوئی سمجھائے کہ مارٹن لوتھر کی تحریک پاپائیت کی شخصی اتھارٹی کے خلاف تھی جبکہ فقہ اسلامی کی بنیاد شخصی اتھارٹی نہیں بلکہ قرآن و سنت ہے-کسی امام کی بات قبول کرنے کی بنیاد یہ ہے ہی نہیں کہ امام نے بات کی ہے تو تسلیم کر لی جائے-اسلام میں صحیح یا غلط،برحق یا ناحق ہونے کا پیمانہ شخصی دلیل نہیں بلکہ قرآن و سنت کے واضح اصُول ہیں-پوپ کی بات ماننے میں اس کی شخصیت حائل ہے جبکہ ائمہ کی رائے قبول کرنے کی بنیاد نص پر مبنی دلیل ہے-
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن و حدیث کے اصول و ضوابط پر مبنی فقہی ذخیرہ کو جھٹلانے کا مطلب چودہ سو سالہ تاریخی اجماعی اور اجتماعی اعمال سے علیحدہ اور منحرف ہونا ہے- اسلام کو مشرف با جدیدیّت کرنے والے اگر اس انحراف پہ نازاں اور بضد ہیں تو: اپنے طریق سے قرآن سے مسائل اخذ کریں، صحیح اور موضوع حدیث کی درجہ بندی کرنے کیلئے اپنے اصول وضع و واضح کریں، اسماء الرجال کے تمام ذخیرے کی پھر سے پڑتال کریں یا پھر اپنی ’’پرویزیّت[1]‘‘ کا برمَلا اعتراف کریں - آگے بڑھنے کی بجائے جدید اسلام کےسپوٹران کی گاڑی یہیں آکر رک جاتی ہے جب انہیں محدثین و فقہاء کی مدون شدہ کتب سے راوی کاپتہ چلتا ہے- یعنی اپنے جدید فقہ کی بنیاد انہی محدثین اور فقہاء کی کتب کو بنانا ہے تو انہی کے مرتب کردہ اصول اپنانے میں کیا عار ہے؟ اگر راوی کے حوالے سے ان پر اعتبار ہے تو قانون میں کیوں نہیں؟ یا پھر مستشرقین و این جی اوز زدگان کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اسلام کو قربان گاہ میں لانے کی خواہش لئے پھرتے ہیں ؟ تمام فقہی ذخیروں کو چھوڑ کر اجتہادِ مطلق کی بات کرنے والوں سے جب یہ سوال کیا جائے تو آنکھیں چار نہیں کر پاتے-
ایسے مفکرین کسی ایک فقہ کی اصولی تقلید کو جمود گردانتے ہیں اور مسلمانوں کے زوال کی سب سےبڑی وجہ اسے ہی سمجھ بیٹھے ہیں-جنہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور دونوں اپنے حل تجویز کرتے ہیں-ایک استشراق زدہ مغربی سوچ سے متاثرہ گروہ جس کا تذکرہ مندرجہ بالا ہو چکا جبکہ دوسرے طبقہ کا خیال ہے کہ تمام مذاہب فقہیہ کے قانونی ذخیرے کو اکٹھا کیا جائے اور اسے اجتماعی اسلامی ورثہ قرار دیا جائے-اس مشترکہ علمی، فکری اور خالصتاً قانونی کاوش سے مستفید ہوا جائے جسے ’’کاسمو پولیٹن فقہ‘‘ یا فقہ عولمی بھی کہا جاتا ہے جس میں تمام فقہاء کے اجتہادات، استنباط، مسائل، استخراج اور استدلال کو استعمال میں لایا جائے اور جسے کسی مخصوص فقہ سے نہیں بلکہ اسلامی فقہ کے نام سےموسوم کیا جائے-کیا فقہ حنبلی، مالکی، شافعی اور حنفی فقہ اسلامی نہیں؟ کیا یہ معاذ اللہ! غیر اسلامی ہیں؟ لیکن اختلاف کا بنیادی سروکار محض کس نام سےفقہ موسوم کی جا رہی ہے اس سےنہیں اگرچہ ثانوی حیثیت میں یہ بھی ایک مسئلہ ہے -
مشترکہ فقہی ذخیرہ کو کس نام سے موسوم کیا جائے یہ اختلاف بنیادی اختلاف کے مقابل ثانوی حیثیت اختیار کر جاتا ہے اور بنیادی اختلاف اصول کا ہے جسے بے اصول مفکرین کیسے سمجھ سکتے ہیں-اعتراض و اختلاف کی وجہ مختلف مذاہب کے فقہی ذخیرہ کو اکٹھا کرنے پر بھی نہیں-اختلاف ہے کہ مشترکہ فقہی فکری ورثہ کےنام پر جو آراء اکھٹی کی جا رہی ہیں، ان اجتہادی آراء کے پس پردہ کونسا اصول کار فرما ہے؟ کونسی اجتہادی رائےکس اصول کی بنیاد پر ترجیح رکھتی ہے؟ اور باقی اصولوں سے ہم آہنگ ہے بھی یا نہیں؟ مستقبل میں درپیش مسائل کا حل کس اصول پر کیا جائے گا جب کوئی طے شدہ اصول ہی نہیں ہوگا-مستقبل میں آنے والے کسی قانونی مسئلہ کو اخذ کرنے کے لئے مصادر شرعیہ کی ترتیب کیا ہوگی؟ پہلے کس ماخذ سے رجوع کیا جائے گا؟ کس مخصوص طریقہ استدلال کو اپنایا جائے گا؟ قوانین کے مابین تعارض اور تناقض کو رفع کن اصولوں کے ذریعے کیا جائے گا؟اگر اصول نہیں تو کیا مستقبل میں پھر انہی فقہی مذاہب کے اصولوں کی طرف ریورس گیئر میں جدت پسندوں کی فکری گاڑی آئے گی؟
یہ کام جو صرف و صرف مستشرقین کی نظروں میں اپنا مقام بنانے کیلئے کچھ لوگوں نے شروع کر رکھّا ہے اُن سے مؤدّبانہ گزارش ہے کہ وہ خُدا را دین کو اپنی شُہرت کے حصول کی بھینٹ مت چڑھائیں- اُن کو خبر ہی نہیں ہے کہ یہ دینِ حق کے ساتھ کتنی عظیم زیادتی ہے اور اسلام کا مستقبل کتنے عظیم خطرات میں جا پڑے گا- اب پوچھیں گے کہ کیسے خطرات؟ تو نوٹ کر لیں :
پہلی بات تو یہ کہ ایسی کاوشوں کا دوسرا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ جو فقہی اصُول کتاب و سُنّت کی مطابقت و موافقت میں گزشتہ 1400سالہ تاریخ میں مدوّن ہوئے ہیں اب وہ قابلِ عمل نہیں رہے-
دوسری یہ بات کہ اب ہم نئے اصُول دیں گے جو کہ قابلِ عمل ہونگے اور جدید انسان کے سارے مسائل کو حل کر کے رکھ دیں گے اور دین کو ایک بار پھر زِندہ تابندہ کر چھوڑیں گے-یہ دعوے شُغلِ اعظم اکبر، مرزا قادیانی، غلام احمد پرویز سمیت کئی لوگ کر بیٹھے ہیں مگر اِن کا نتیجہ سوائے اُمّت میں فتنہ و فساد اور انتشار و اضطراب کے کچھ بھی نہیں نکلا نہ اب نکلے گا-
تیسرا جو عظیم ترین خطرہ ہے وہ یہ کہ جب بزعمِ خویش ’’ماہرینِ سماجیاتِ مذہب‘‘ کا یہ پہلے سے ناکام شدہ تجربہ ایک بار پھر ناکام ہوگا تو آئندہ کا مسلمان سوائے خیمۂ لادینیّت کے کہاں پناہ حاصل کرے گا؟ اب تک کی مروّجہ فقہوں میں؟ انہیں آپ پہلے ہی ناقابلِ عمل قرار دے چکے-نئی کاسمو پولیٹن فقہ میں؟ یہ تو کئی بار کا ناکام تجربہ ہے اِس نے کامیاب ہونا ہوتا تو ابولفضل کی تُندیٔ دلائل اور جلالِ اکبری کی آغوش میں یہ کامیاب ہو چکی ہوتی-اِس لئے آئندہ کے مسلمان کا نہ تو اسلام پہ یقین رہے گا نہ اسلام کے زندہ و تابندہ قوانین پہ-اقبال یاد آتے ہیں جنہوں نے کیا ہی اعلیٰ اصُول دریافت کیا کہ :
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر |
’’کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی(خطرات سے) زیادہ محفوظ ہے‘‘-
لہذا مذاہب کے مشترکہ ورثہ کی بناء پرفقہی ذخیرہ کو اچار بنانے سے محفوظ رکھنے اور عدالتوں کے لئے باضابطہ اصولی ضوابط جن کی روشنی میں وہ اپنے فیصلے کر سکیں-اصول فقہ متعارف کروایا جائے-
پاکستان جیسے اسلامی نظریاتی مملکت خداداد کے لئے ممکنہ، موزوں اور موافق و محفوظ قانونی نظام فقہ حنفی ہے جس کیلئے ضروری ہے کہ اصولِ فقہ حنفی کو ملک پاکستان کی عدالتوں میں بطور علم ِ قانون (جیورس پروڈنس) تسلیم کیا جائے جس سے نہ صرف فقہ عولمی جیسے گھمبیر مسئلہ سے بچا جا سکتا ہے بلکہ ایک ہی نوعیت کےدو مختلف عدالتی فیصلوں میں تضاد سے بھی بچا جا سکے گا-پاکستان کے لئے فقہ حنفی کو بطور ریاستی فقہ کہنا اس کی اپنی خصوصیات کے ساتھ، بہت سے تاریخی، معاشرتی، حنفیت کے پیروؤں کی اکثریت، عقلی مقبولیت اور عملی بنیادوں پر دیگر عوامل کے ساتھ یہ موزوں، مناسب، ممکنہ اور موافق نظام ہے-
فقہ حنفی کو باقی فقہوں کی نسبت زمانی اعتبار سے بھی برتری حاصل ہے کہ فقہ حنفی باقی تمام فقہی مذاہب سے پہلے ترویج پائی-فقہ حنفی کے بانی امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الکوفی ؒ اپنے علم و فضل،تقویٰ و پرہیز گاری، خدماتِ دین کی حیثیت سے اعلیٰ و ارفع مقام رکھتےہی ہیں جبکہ ان کو جو زمانہ نصیب ہوا وہ خیر کا زمانہ کہلاتا ہے- فقہی مذاہب میں حضور نبی کریم (ﷺ) کے زمانے سے قریب کا زمانہ ہے جو قرون خیر میں سے ہے جیسا کہ فرمانِ نبوی (ﷺ) ہے؛
’’ خیر امّتی قرنی ثمّ الذین یلو نھم ثمّ الذین یلونھم ‘‘[2]
’’میری امت میں سب ?