کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ معاہدۂ امرتسر کے بعد ڈوگرا عہد میں بنتی، جوان ہوتی، لہو میں رستی اور آج بھارتی تسلط کے منحوس چنگل میں پھنسی مظلوم کشمیری قوم کے دردناک حالات تک آن پہنچی ہے-بھارت ساری دنیا میں نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے اور خود کو جمہوری روایات کا چیمپئن ثابت کر رہا ہے-رقص و موسیقی کے زور پر اپنی امن پسندی، روشن خیالی اور جدت کے رجحانات پر قائم معاشرت کا نقشہ پیش کر رہا ہے- وہ ایک ایسے معاشرے کا تصور دے رہا ہے جہاں انسان امن و آشتی اور پر امن بقائے باہمی کے سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں-اس کے ہاں جیسے ذات پات اور سماجی نا ہمواری کاسایہ تک نہ پڑتا ہو- لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں-بھارت ماتا در اصل قاتل چڑیل ہے جس کے اصل چہرے پر جمہور کی نقاب ڈال کر سیکولر رقاصہ کے روپ میں دنیا بھر میں نچایا جاتا ہے-اس منحوس رقاصہ کے گھنگروؤں کی چھن چھن میں اگر گولڈن ٹیمپل کی گرتی دیواروں کی باز گشت ہے تو اس کے ہاتھ بابری مسجد کے خون کی مہندی سے سجے ہیں- مسلمانوں کے لہو سے رنگے ملبوس میں ناچتی یہ رقاصہ ناچ ناچ کر تماشہ دکھا رہی ہے جبکہ اکھنڈ بھارت کا بھیانک خواب بھارت ماتا کی رگوں اور ضمیر میں موجزن ہے-نریندرہ مودی، بال ٹھاکرے، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل کی صورت اس رقاصہ کے چہرے کی لالی پر کافی سارے دھبے ہیں پر اس قاتل حسینہ کے جلوے اتنے دلفریب ہیں کہ اپنے اور پرائے سب تماش بینوں کو داغ نظر نہیں آتے اور وہ گھنگروؤں کی چھن چھن میں مست ہوئے سر دھنتے ہیں اور امن کی آشا کا درس پڑھنے اور پڑھانے لگتے ہیں-
حقائق یہ ہیں کہ بھارت کشمیری قوم کے ساتھ وعدوں کے باوجود کئی دہایوں سے انہیں حقِ خود ارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے-نظریۂ پاکستان کی خاطر لاکھوں کشمیریوں کی قربانیاں تکمیل ِ پاکستان کی منزل کی طرف نشانِ راہ ہیں-چاہے یہ قربانیاں تکمیلِ اذان کے لئے دی گئیں ہوں یا ہجرت کے دوران لاکھوں انسانوں کو جموں میں شہید کر دیا گیا ہو-جوانوں کے لہو سے سینچی ہوئی کشمیر دھرتی نام نہاد جمہور پسندوں کے دعوں کی قلعی کھو ل رہی ہے-کشمیری قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم دنیا بھر کے جمہور پسندوں کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ یہاں بھی انسانوں کی بستی ہے، اسے بھی استصوابِ رائے کا حق دیا گیا تھا-جب برطانوی استعمار کے سوادگروں نے کشمیر دھرتی کے ا نسانوں، زمینوں، جانوروں، دریاؤں، جھیلوں، مرغزاروں کا سارا مول 75 لاکھ سکہ رائج الوقت لگا یا تھا اور جنت نظیر کی گلاب دھرتی کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کیا تھا، تب بھی کشمیریوں کے حال پر کسی نے رحم نہ کھایا تھا اورآج بھی مہاراجہ کی جگہ مہاراج کشمیر پر قابض ہیں- سچ تو یہ ہے کہ کشمیری قوم نے مملکتِ خداد ِ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کو ہر دور میں لہو کے نذرانے دے کر ثابت کیا ہے- آئیے ہم اس بھارت ماتا کی بد اصولیوں، وعدہ خلافیوں اور پہ در پہ جھوٹ پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوری ملک کے عظیم سورماؤں نے کشمیر کے حوالے سے جَنتا اور اقوامِ عالم سے کیا وعدے کیے تھے اور آج کا جمہوری ہندوستان اور جمہور پر یقین رکھنے والی قوم ان وعدوں کو کہاں رکھتی ہے-اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں خود بھارت کے وعدوں پر مبنی دستاویزات ہیں جن میں کشمیر میں استصواب ِ رائے کا انتظام کیا جائے گا-کشمیری عوام بھارت یا پاکستان جس کا بھی انتخاب کریں گے، ہندوستان اسے تسلیم کرے گا-آج ہم ان قرار دادوں سے ہٹ کر بھارتی اکابرین کے بیانات اور تقاریرسے پردہ اٹھاتے ہیں اور کیس بھارتی عوام، میڈیا اور عالمی ثالثوں کے سامنے رکھتے ہیں:
1. ’’کشمیر کے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے لئے ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں-وہ جیسا چاہتے ہیں انہیں کرنے دیا جائے-اہمیت حاکمیت کی نہیں بلکہ عوام سب کچھ ہوتے ہیں‘‘-(ماتما گاندھی کی تقریر سے اقتباس ، جولائی 1949ء)
2. ’’شہزادے (مہاراجے ) برطانوی تاج کی پیداوار تھے اور اب برطانوی ہندوستان چھوڑ چکے، ریاستوں کے عوام حقِ حکمرانی محفوظ رکھتے ہیں، کشمیریوں کو بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنے مستقبل کے لئے اپنی منزل کے تعین کا حق ملنا چاہیے‘‘-(ماتما گاندھی کا بیان دورۂ سری نگر کے دوران)
3. ’’میں یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے حکومت ِ ہندوستان اپنے وعدے پر سختی سے قائم ہے جس میں لکھا ہے کہ کشمیریوں کو بنا کسی بیرونی دباؤ کے اپنے مستقبل کے تعین کا پورا حق ہے ‘‘-(ماتما گاندھی اگست 1947ء)
4. ’’اگر کشمیر کی عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی، انہیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دینا چاہیے‘‘- (ماتما گاندھی، 26اکتوبر1947ء)
5. ’’الحاق کا فیصلہ کشمیریوں کے آزادانہ استصوابِ رائے سے مشروط ہے ‘‘-( ماتما گاندھی، 30کتوبر1947ء)
6. ’’مجھے یہ بات واضع کر دینی چاہیے کہ کشمیریوں کی مدد کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم کشمیریوں پر اپنی مرضی مسلط کریں گے-ہم یہ بات عوامی سطح پر کئی بار کَہ چکے ہیں کہ الحاق کا فیصلہ استصوابِ رائے اور عوام کی مرضی سے ہو گا اور ہم اس پر سختی سے کار بند رہیں گے‘‘-(جواہر لال نہرو کا ٹیلیگراف، بنام پاکستانی و برطانوی وزرائے اعظم، 27اکتوبر 1947ء)
7. ’’الحاق سے متعلق یہ بات واضع کر دی گئی ہے کہ یہ ریاست کے عوام کی منشا سے مشروط ہو گا‘‘-(جواہر لال نہرو کا ٹیلیگراف، بنام پاکستانی وزیرِ اعظم 28 اکتوبر 1947ء)
8. ’’کشمیریوں کو الحاق کا فیصلہ کرنے کے لئے استصوابِ رائے یا ریفرنڈم کا موقع ملنا چاہیے جو بین الاقوامی تعاون سے ہو، جیسے اقوامِ ِ متحدہ ‘‘-(جواہر لال نہرو، 21 نوبر 1947ء)
9. ’’ہمارے پالیسی رہی ہے کہ ریاستوں کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے‘‘-(نہرو کی نشری تقریر آل انڈیا ریڈیو، 2 نومبر 1947ء)
10. ’’ہم یہ بات واضع کرتے ہیں کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے- ہمارا یہ وعدہ کشمیریوں سے ہی نہیں، ساری دنیا سے ہے اور ہم اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘‘-(نہرو کی نشری تقریر آل انڈیا ریڈیو، 3 نومبر 1947ء)
11. ’’میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیری بلا کسی بیرونی دباؤ کے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں‘‘-(بھارتی قانون ساز اسمبلی سے نہرو کا خطاب، 5 مارچ، 1948ء)
12. ’’ہم شروع سے تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر میں ریفرنڈم یا استصوابِ رائے کا انعقاد کروایا جا ئے گا‘‘-(نہرو کی تقریر،7 ستمبر1948ء)
13. ’’لوگ شائد بھول گئے ہیں کہ کشمیر ایک قابلِ فروخت چیز کا نام نہیں،اس کی اپنی انفرادیت ہے اور یہاں کی عوام ہی اپنے مستقبل کی مالک ہے‘‘-(نہرو ، جولائی 1951ء)
14. ’’بھارت ایک عظیم ملک ہے اور کشمیر ایشیاء کا مرکز ہے-یہاں صرف جغرافیائی تغیرات ہی نہیں بہت سے زمینی حقائق بھی مختلف ہیں-آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کا واسطہ اتر پردیش، بہار یا گجرات سے ہے؟‘‘ ( نہرو کا پارلیمان سے کشمیر کے بارے میں استسفار، 26جون 1957ء)
15. ’’ہم مسئلہ کشمیر کو اقوام ِ متحدہ میں لے گئے، ہم نے دنیا کے ساتھ پر امن حل کا وعدہ کیا- ایک عظیم قوم ہونے کے ناطے ہم اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے-ہم نے فیصلہ کشمیری عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر کاربند رہیں گے‘‘-(نہرو کا اخباری بیان، 2 جنوری 1925ء)
مضمون کی طوالت بھارت ماتا کے عظیم سورماؤں کے کشمیر کے بارے میں بیانات درج کرنے سے روک رہی ہے- یاد رہے یہاں ان دو رہنماؤں کے بیانات اور وعدوں کا ہلکا سا تذکرہ ہوا جنہیں بھارتی عوام بتوں کی طرح پوجتے ہیں، ان کی اصول پسندیوں کے گیت گاتے، مورتیاں بنا کر پوجھتے اور بالی وڈ کی فلمیں تراشتے اور جے ہند کے نعرے لگاتے ہیں-کوئی پوچھے تو آپ باپو کے عدم تشدد پر فلم بناتے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہو، ذرا بتاؤ تو کشمیر میں 7لاکھ فوج عدم تشدد کے نظریے کو دوام بخشنے کے لئے رکھی ہے؟ 80 ہزار کشمیر ی شہداء تمہارے باپو کی راکھ کو جلا بخش رہے ہیں؟ کیا عصمتیں لوٹ کر تم نے اپنی جمہورییت کو دوام بخشا ہے؟ اور اگر تمہیں بھارت ماتا کے ان رہنماؤں پر اتنا ہی ناز ہے تو ان کے وعدوں پر عمل کر دکھاؤ-پر اب وقت بدل گیا-کشمیر کی بظاہر پر سکون جھیلوں اور سماعتوں میں امرت رس گھولتے جھرنوں کے پیچھے دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں-کہیں ایسا نہ ہو کہ برطانیہ سمیت عالمی طاقتیں ابھی تک کشمیر کی قیمت 75لاکھ نانک شاہی ہی لگا کر بیٹھی ہوں اور ایک ہولناک ایٹمی جنگ دنیا کو اپنی آگ میں لپیٹ لے- دنیا عالمی پنڈ میں بدل چکی-کسی کی گھاس تنکوں کی جھگی کو لگی آگ گاؤں کے ’’چوہدریوں‘‘کے محلوں کو بھی بھسم کر چھوڑے گی-اقوامِ عالم بھی ہوش کے ناخن لیں-بھارت سے تعلقات کی مصلحت اپنی جگہ پر ایک ہی دنیا میں الگ الگ معیار اپنانے سے دنیا کا سکون غارت ہو جائے گا-گو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان دو لخت ہو گیا، دھرتی کے چپے چپے پر کشمیریوں کا لہو گرا، پر بت پر بت چیخ و پکا ر کی باز گشت ہے، چناروں میں لگی آگ، ڈھل کے پانیوں کی سرخی اور پھول بچوں کے بکھرے اعضاء کے باوجود عالمی ضمیر جاگا، نہ بھارتی تسلط کی گرفت ڈھیلی پڑی-کشمیریوں نے پُر امن احتجاج کا راستہ بھی اپنایا ہے-اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے کشمیری قیادت کو آپسی اختلافات بھلا کر خالصتاًکشمیر کاز کے لئے بصیرت سے کام لینا ہو گا-اس ضمن میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کے حوالہ سے اپنے بیانات و معاملات میں خصوصی احتیاط برتیں-کشمیری پاکستا ن کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں-انہیں پاکستان میں جاری سیاسی بحران سے دور رکھا جائے بدقسمتی سے جب جب پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہوا یا عدم استحکام سے دوچار ہوا ،بھارت نے اپنی ساری توانائی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو مزید پیچھے دھکیلنے کی کوشش میں لگا دی-جبکہ دوسری طرف کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا-گو ہماری خارجہ پالیسی کے غیر متوازن اتار چڑہاؤ نے بھارتی عزائم کے لئے آسانیاں فراہم کیں ہیں-
افسوس! کی بات ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے-انفراسٹرکچر کی تباہی، افواجِ پاکستان کے جوانوں، افسروں کی شہادت اور انسانی جانوں کے بے پناہ ضیاع کے باوجود بھارت پاکستان کو دہشت گردی ختم کرنے کے درس دیتا ہے اور حیرت یہ کہ وہ شخص ہمیں امن کے اسباق پڑھا رہا ہے جس کا دامن گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے خون میں رنگا ہوا ہے اور جسے امریکہ کی ایک عدالت نے بے گناہ انسانوں کے قتل پر عدالت میں طلب کر رکھا تھا-بھارتی قیادت کے نظریات روائتی بھارتی براہمنی سوچ کا تسلسل ہیں- بھارت چھوٹا سا ملک نہیں ایک ارب سے زیادہ انسان، ایک ایسا سمندر ہیں جس میں انتہاء پسندی کے مد و جذر بھارت کو بہا کر لے جا سکتے ہیں-بھارتی دانشوروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود مودی کی انتہاء پسندانہ سوچ معاشرے میں واضح دکھائی دینے لگی ہے-آنے والے دنوں میں ایسے انتہاء پسندانہ واقعات میں اضافہ ہو گا اور نام نہاد سیکولر بھارت اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے بے بس ہوتا جائے گا-بھارت کی داخلی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں- اگر وہ اپنی فیڈریشن کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے جلد ا ز جلد کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دینا ہو گا -
کشمیر دھرتی پر ٹپکنے والا خون کا ہر قطرہ آزادی کے پیڑ کی آبیاری کر رہا ہے-دفاعی اعتبار سے مستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کی آزادی کا ضامن ہو سکتا ہے-پاکستان کو اندرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا-ایک پر امن اور داخلی لحاظ سے مستحکم پاکستان ہی معاشی آزادی اور دیر پا استحکام کا باعث بنے گا-دوسری طرف سفارتی محاز پر کشمیر کے مسئلہ پر ہمیں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا راگ مسلسل الاپتے رہنا ہے-قومی اور بین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیر پر عالمی اور بھارتی وعدوں کا تذکرہ بھارت کو پچھلے قدم پر دھکیل سکتا ہے-کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا دفاع کرنے پر پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور افواجِ پاکستان مبارک باد کے مستحق ہیں-امید کی جاتی ہے کہ کشمیر کے حوالہ سے ایک جاندار خارجہ پالیسی کشمیر میں بھارتی تسلط کے پنجوں کی گرفت کو کمزور کرتی رہے گی-کشمیریوں کو بھی دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے متحرک رویہ اپنا نا ہو گاکشمیری قیادت کو آپس کے اختلافات بھلا کر کشمیر کی آزادی کے لئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا ہو گا- انشا اللہ ایک روز کشمیر کی آزاد ی کا سورج ضرور طلوع ہو گا اور تکمیلِ پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا-
٭٭٭
کثیر الجہت و مافوق الفطرت داستانوں سے مزین تاریخِ جموں و کشمیر بہت پرانی ہے-جدید کشمیر کی تاریخ جغرافیائی، سماجی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے 1864ء کے بد نام زمانہ معاہدۂ امرتسر کے بعد ڈوگرا عہد میں بنتی، جوان ہوتی، لہو میں رستی اور آج بھارتی تسلط کے منحوس چنگل میں پھنسی مظلوم کشمیری قوم کے دردناک حالات تک آن پہنچی ہے-بھارت ساری دنیا میں نام نہاد جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے اور خود کو جمہوری روایات کا چیمپئن ثابت کر رہا ہے-رقص و موسیقی کے زور پر اپنی امن پسندی، روشن خیالی اور جدت کے رجحانات پر قائم معاشرت کا نقشہ پیش کر رہا ہے- وہ ایک ایسے معاشرے کا تصور دے رہا ہے جہاں انسان امن و آشتی اور پر امن بقائے باہمی کے سنہری اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں-اس کے ہاں جیسے ذات پات اور سماجی نا ہمواری کاسایہ تک نہ پڑتا ہو- لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں-بھارت ماتا در اصل قاتل چڑیل ہے جس کے اصل چہرے پر جمہور کی نقاب ڈال کر سیکولر رقاصہ کے روپ میں دنیا بھر میں نچایا جاتا ہے-اس منحوس رقاصہ کے گھنگروؤں کی چھن چھن میں اگر گولڈن ٹیمپل کی گرتی دیواروں کی باز گشت ہے تو اس کے ہاتھ بابری مسجد کے خون کی مہندی سے سجے ہیں- مسلمانوں کے لہو سے رنگے ملبوس میں ناچتی یہ رقاصہ ناچ ناچ کر تماشہ دکھا رہی ہے جبکہ اکھنڈ بھارت کا بھیانک خواب بھارت ماتا کی رگوں اور ضمیر میں موجزن ہے-نریندرہ مودی، بال ٹھاکرے، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل کی صورت اس رقاصہ کے چہرے کی لالی پر کافی سارے دھبے ہیں پر اس قاتل حسینہ کے جلوے اتنے دلفریب ہیں کہ اپنے اور پرائے سب تماش بینوں کو داغ نظر نہیں آتے اور وہ گھنگروؤں کی چھن چھن میں مست ہوئے سر دھنتے ہیں اور امن کی آشا کا درس پڑھنے اور پڑھانے لگتے ہیں-
حقائق یہ ہیں کہ بھارت کشمیری قوم کے ساتھ وعدوں کے باوجود کئی دہایوں سے انہیں حقِ خود ارادیت سے محروم رکھے ہوئے ہے-نظریۂ پاکستان کی خاطر لاکھوں کشمیریوں کی قربانیاں تکمیل ِ پاکستان کی منزل کی طرف نشانِ راہ ہیں-چاہے یہ قربانیاں تکمیلِ اذان کے لئے دی گئیں ہوں یا ہجرت کے دوران لاکھوں انسانوں کو جموں میں شہید کر دیا گیا ہو-جوانوں کے لہو سے سینچی ہوئی کشمیر دھرتی نام نہاد جمہور پسندوں کے دعوں کی قلعی کھو ل رہی ہے-کشمیری قوم پر ڈھائے جانے والے مظالم دنیا بھر کے جمہور پسندوں کو چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ یہاں بھی انسانوں کی بستی ہے، اسے بھی استصوابِ رائے کا حق دیا گیا تھا-جب برطانوی استعمار کے سوادگروں نے کشمیر دھرتی کے ا نسانوں، زمینوں، جانوروں، دریاؤں، جھیلوں، مرغزاروں کا سارا مول 75 لاکھ سکہ رائج الوقت لگا یا تھا اور جنت نظیر کی گلاب دھرتی کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے حوالے کیا تھا، تب بھی کشمیریوں کے حال پر کسی نے رحم نہ کھایا تھا اورآج بھی مہاراجہ کی جگہ مہاراج کشمیر پر قابض ہیں- سچ تو یہ ہے کہ کشمیری قوم نے مملکتِ خداد ِ پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کو ہر دور میں لہو کے نذرانے دے کر ثابت کیا ہے- آئیے ہم اس بھارت ماتا کی بد اصولیوں، وعدہ خلافیوں اور پہ در پہ جھوٹ پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ اس نام نہاد جمہوری ملک کے عظیم سورماؤں نے کشمیر کے حوالے سے جَنتا اور اقوامِ عالم سے کیا وعدے کیے تھے اور آج کا جمہوری ہندوستان اور جمہور پر یقین رکھنے والی قوم ان وعدوں کو کہاں رکھتی ہے-اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں خود بھارت کے وعدوں پر مبنی دستاویزات ہیں جن میں کشمیر میں استصواب ِ رائے کا انتظام کیا جائے گا-کشمیری عوام بھارت یا پاکستان جس کا بھی انتخاب کریں گے، ہندوستان اسے تسلیم کرے گا-آج ہم ان قرار دادوں سے ہٹ کر بھارتی اکابرین کے بیانات اور تقاریرسے پردہ اٹھاتے ہیں اور کیس بھارتی عوام، میڈیا اور عالمی ثالثوں کے سامنے رکھتے ہیں:
1. ’’کشمیر کے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے لئے ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں-وہ جیسا چاہتے ہیں انہیں کرنے دیا جائے-اہمیت حاکمیت کی نہیں بلکہ عوام سب کچھ ہوتے ہیں‘‘-(ماتما گاندھی کی تقریر سے اقتباس ، جولائی 1949ء)
2. ’’شہزادے (مہاراجے ) برطانوی تاج کی پیداوار تھے اور اب برطانوی ہندوستان چھوڑ چکے، ریاستوں کے عوام حقِ حکمرانی محفوظ رکھتے ہیں، کشمیریوں کو بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنے مستقبل کے لئے اپنی منزل کے تعین کا حق ملنا چاہیے‘‘-(ماتما گاندھی کا بیان دورۂ سری نگر کے دوران)
3. ’’میں یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے حکومت ِ ہندوستان اپنے وعدے پر سختی سے قائم ہے جس میں لکھا ہے کہ کشمیریوں کو بنا کسی بیرونی دباؤ کے اپنے مستقبل کے تعین کا پورا حق ہے ‘‘-(ماتما گاندھی اگست 1947ء)
4. ’’اگر کشمیر کی عوام پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کو روک نہیں سکتی، انہیں اپنی منشا کے مطابق فیصلہ کرنے کا اختیار دینا چاہیے‘‘- (ماتما گاندھی، 26اکتوبر1947ء)
5. ’’الحاق کا فیصلہ کشمیریوں کے آزادانہ استصوابِ رائے سے مشروط ہے ‘‘-( ماتما گاندھی، 30کتوبر1947ء)
6. ’’مجھے یہ بات واضع کر دینی چاہیے کہ کشمیریوں کی مدد کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم کشمیریوں پر اپنی مرضی مسلط کریں گے-ہم یہ بات عوامی سطح پر کئی بار کَہ چکے ہیں کہ الحاق کا فیصلہ استصوابِ رائے اور عوام کی مرضی سے ہو گا اور ہم اس پر سختی سے کار بند رہیں گے‘‘-(جواہر لال نہرو کا ٹیلیگراف، بنام پاکستانی و برطانوی وزرائے اعظم، 27اکتوبر 1947ء)
7. ’’الحاق سے متعلق یہ بات واضع کر دی گئی ہے کہ یہ ریاست کے عوام کی منشا سے مشروط ہو گا‘‘-(جواہر لال نہرو کا ٹیلیگراف، بنام پاکستانی وزیرِ اعظم 28 اکتوبر 1947ء)
8. ’’کشمیریوں کو الحاق کا فیصلہ کرنے کے لئے استصوابِ رائے یا ریفرنڈم کا موقع ملنا چاہیے جو بین الاقوامی تعاون سے ہو، جیسے اقوامِ ِ متحدہ ‘‘-(جواہر لال نہرو، 21 نوبر 1947ء)
9. ’’ہمارے پالیسی رہی ہے کہ ریاستوں کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے‘‘-(نہرو کی نشری تقریر آل انڈیا ریڈیو، 2 نومبر 1947ء)
10. ’’ہم یہ بات واضع کرتے ہیں کہ کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام نے کرنا ہے- ہمارا یہ وعدہ کشمیریوں سے ہی نہیں، ساری دنیا سے ہے اور ہم اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے‘‘-(نہرو کی نشری تقریر آل انڈیا ریڈیو، 3 نومبر 1947ء)
11. ’’میرے ذہن میں کوئی شک نہیں ہے کہ کشمیری بلا کسی بیرونی دباؤ کے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں‘‘-(بھارتی قانون ساز اسمبلی سے نہرو کا خطاب، 5 مارچ، 1948ء)
12. ’’ہم شروع سے تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیر میں ریفرنڈم یا استصوابِ رائے کا انعقاد کروایا جا ئے گا‘‘-(نہرو کی تقریر،7 ستمبر1948ء)
13. ’’لوگ شائد بھول گئے ہیں کہ کشمیر ایک قابلِ فروخت چیز کا نام نہیں،اس کی اپنی انفرادیت ہے اور یہاں کی عوام ہی اپنے مستقبل کی مالک ہے‘‘-(نہرو ، جولائی 1951ء)
14. ’’بھارت ایک عظیم ملک ہے اور کشمیر ایشیاء کا مرکز ہے-یہاں صرف جغرافیائی تغیرات ہی نہیں بہت سے زمینی حقائق بھی مختلف ہیں-آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ کا واسطہ اتر پردیش، بہار یا گجرات سے ہے؟‘‘ ( نہرو کا پارلیمان سے کشمیر کے بارے میں استسفار، 26جون 1957ء)
15. ’’ہم مسئلہ کشمیر کو اقوام ِ متحدہ میں لے گئے، ہم نے دنیا کے ساتھ پر امن حل کا وعدہ کیا- ایک عظیم قوم ہونے کے ناطے ہم اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے-ہم نے فیصلہ کشمیری عوام پر چھوڑ دیا ہے اور ہم ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے پر کاربند رہیں گے‘‘-(نہرو کا اخباری بیان، 2 جنوری 1925ء)
مضمون کی طوالت بھارت ماتا کے عظیم سورماؤں کے کشمیر کے بارے میں بیانات درج کرنے سے روک رہی ہے- یاد رہے یہاں ان دو رہنماؤں کے بیانات اور وعدوں کا ہلکا سا تذکرہ ہوا جنہیں بھارتی عوام بتوں کی طرح پوجتے ہیں، ان کی اصول پسندیوں کے گیت گاتے، مورتیاں بنا کر پوجھتے اور بالی وڈ کی فلمیں تراشتے اور جے ہند کے نعرے لگاتے ہیں-کوئی پوچھے تو آپ باپو کے عدم تشدد پر فلم بناتے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہو، ذرا بتاؤ تو کشمیر میں 7لاکھ فوج عدم تشدد کے نظریے کو دوام بخشنے کے لئے رکھی ہے؟ 80 ہزار کشمیر ی شہداء تمہارے باپو کی راکھ کو جلا بخش رہے ہیں؟ کیا عصمتیں لوٹ کر تم نے اپنی جمہورییت کو دوام بخشا ہے؟ اور اگر تمہیں بھارت ماتا کے ان رہنماؤں پر اتنا ہی ناز ہے تو ان کے وعدوں پر عمل کر دکھاؤ-پر اب وقت بدل گیا-کشمیر کی بظاہر پر سکون جھیلوں اور سماعتوں میں امرت رس گھولتے جھرنوں کے پیچھے دو ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں-کہیں ایسا نہ ہو کہ برطانیہ سمیت عالمی طاقتیں ابھی تک کشمیر کی قیمت 75لاکھ نانک شاہی ہی لگا کر بیٹھی ہوں اور ایک ہولناک ایٹمی جنگ دنیا کو اپنی آگ میں لپیٹ لے- دنیا عالمی پنڈ میں بدل چکی-کسی کی گھاس تنکوں کی جھگی کو لگی آگ گاؤں کے ’’چوہدریوں‘‘کے محلوں کو بھی بھسم کر چھوڑے گی-اقوامِ عالم بھی ہوش کے ناخن لیں-بھارت سے تعلقات کی مصلحت اپنی جگہ پر ایک ہی دنیا میں الگ الگ معیار اپنانے سے دنیا کا سکون غارت ہو جائے گا-گو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان دو لخت ہو گیا، دھرتی کے چپے چپے پر کشمیریوں کا لہو گرا، پر بت پر بت چیخ و پکا ر کی باز گشت ہے، چناروں میں لگی آگ، ڈھل کے پانیوں کی سرخی اور پھول بچوں کے بکھرے اعضاء کے باوجود عالمی ضمیر جاگا، نہ بھارتی تسلط کی گرفت ڈھیلی پڑی-کشمیریوں نے پُر امن احتجاج کا راستہ بھی اپنایا ہے-اسے دنیا بھر میں پھیلانے کے لئے کشمیری قیادت کو آپسی اختلافات بھلا کر خالصتاًکشمیر کاز کے لئے بصیرت سے کام لینا ہو گا-اس ضمن میں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کے حوالہ سے اپنے بیانات و معاملات میں خصوصی احتیاط برتیں-کشمیری پاکستا ن کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں-انہیں پاکستان میں جاری سیاسی بحران سے دور رکھا جائے بدقسمتی سے جب جب پاکستان اندرونی خلفشار کا شکار ہوا یا عدم استحکام سے دوچار ہوا ،بھارت نے اپنی ساری توانائی مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو مزید پیچھے دھکیلنے کی کوشش میں لگا دی-جبکہ دوسری طرف کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا-گو ہماری خارجہ پالیسی کے غیر متوازن اتار چڑہاؤ نے بھارتی عزائم کے لئے آسانیاں فراہم کیں ہیں-
افسوس! کی بات ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے-انفراسٹرکچر کی تباہی، افواجِ پاکستان کے جوانوں، افسروں کی شہادت اور انسانی جانوں کے بے پناہ ضیاع کے باوجود بھارت پاکستان کو دہشت گردی ختم کرنے کے درس دیتا ہے اور حیرت یہ کہ وہ شخص ہمیں امن کے اسباق پڑھا رہا ہے جس کا دامن گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے خون میں رنگا ہوا ہے اور جسے امریکہ کی ایک عدالت نے بے گناہ انسانوں کے قتل پر عدالت میں طلب کر رکھا تھا-بھارتی قیادت کے نظریات روائتی بھارتی براہمنی سوچ کا تسلسل ہیں- بھارت چھوٹا سا ملک نہیں ایک ارب سے زیادہ انسان، ایک ایسا سمندر ہیں جس میں انتہاء پسندی کے مد و جذر بھارت کو بہا کر لے جا سکتے ہیں-بھارتی دانشوروں کی لاکھ کوششوں کے باوجود مودی کی انتہاء پسندانہ سوچ معاشرے میں واضح دکھائی دینے لگی ہے-آنے والے دنوں میں ایسے انتہاء پسندانہ واقعات میں اضافہ ہو گا اور نام نہاد سیکولر بھارت اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے بے بس ہوتا جائے گا-بھارت کی داخلی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں- اگر وہ اپنی فیڈریشن کو قائم رکھنا چاہتا ہے تو اسے جلد ا ز جلد کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دینا ہو گا -
کشمیر دھرتی پر ٹپکنے والا خون کا ہر قطرہ آزادی کے پیڑ کی آبیاری کر رہا ہے-دفاعی اعتبار سے مستحکم پاکستان ہی کشمیریوں کی آزادی کا ضامن ہو سکتا ہے-پاکستان کو اندرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لئے پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا-ایک پر امن اور داخلی لحاظ سے مستحکم پاکستان ہی معاشی آزادی اور دیر پا استحکام کا باعث بنے گا-دوسری طرف سفارتی محاز پر کشمیر کے مسئلہ پر ہمیں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کا راگ مسلسل الاپتے رہنا ہے-قومی اور بین الاقوامی سطح پرمسئلہ کشمیر پر عالمی اور بھارتی وعدوں کا تذکرہ بھارت کو پچھلے قدم پر دھکیل سکتا ہے-کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کا دفاع کرنے پر پاکستانی عوام، سیاسی قیادت اور افواجِ پاکستان مبارک باد کے مستحق ہیں-امید کی جاتی ہے کہ کشمیر کے حوالہ سے ایک جاندار خارجہ پالیسی کشمیر میں بھارتی تسلط کے پنجوں کی گرفت کو کمزور کرتی رہے گی-کشمیریوں کو بھی دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات کو دیکھتے ہوئے متحرک رویہ اپنا نا ہو گاکشمیری قیادت کو آپس کے اختلافات بھلا کر کشمیر کی آزادی کے لئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا ہو گا- انشا اللہ ایک روز کشمیر کی آزاد ی کا سورج ضرور طلوع ہو گا اور تکمیلِ پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے گا-
٭٭٭