ربع صدی قبل بانیٔ اِصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین سُلطان الفقر حضرت سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب تفکر کے لئے خلوت گزین ہوئے توکسی کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کایہ تفکر پاکستان کی مسلم معاشرت کی اِصلاح پہ کس قدر دوررَس نتائج مرتب کرے گا-یہ کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان کی مسلم معاشر ت میں کثیر الجہت بگاڑ پیدا ہو چکاتھا - حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بگاڑ کی اِصلاح کے لئے تنہائی میں تفکر وسوچ بچار کاآغاز فرمایا-حالات یوں تھے کہ قحط الرجال نے خانقاہی نظام کوایسا مفلوج کیاتھاکہ خانقاہی نظام طالبان مولیٰ میں طلبِ الٰہی کی تربیت کرنے سے عاجز تھا - طلبِ الٰہی کی شدت ہی فقراء اہل اللہ کی امتیازی خاصیت ہوتی ہے مگر دریں حالات تعویذ و گنڈا کے عاملین نے طالبانِ مولیٰ کو رجوعاتِ خلق میں غرق کرکے طالبانِ مولیٰ کی طلبِ الٰہی کے امتیاز کوبدنماکردیا-خانقاہی نظام محض تقلیدی رسومات کامرقع بن چکا تھا - بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ اس امر کابین ثبوت ہے کہ خانقاہی نظام نے ہمیشہ مسلم معاشرہ کوصائب قیادت فراہم کی ہے مگر بے عملی و پست فکری اور جھوٹ بتنگوں پہ قائم رُوحانی خِلافت کے نظریہ نے خانقاہی نظام کی قیادت کوحسن ِ کردار سے محروم کردیا تھا-جیسے اقبال کہتے ہیں کہ
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟
خانقاہی نظام کی تاریخی روایات سے ثابت ہے کہ عموماً خانقاہ معاشرے کی فلاح وبہبودکے لئے مسلم کمیونٹی کااثاثہ گردانی جاتی تھی - جہاںایک جانب غریب طبقے کے لیے لنگر کاانتظام کیا جاتا اورمسافروں کیلئے طعام وقیام کابندوبست ہوتاتو دوسری جانب عامۃ الناس کی تعلیم و تربیت کے لئے اِنہی خانقاہوں سے اصلاحی تحاریک کے چشمے بھی پھوٹتے تھے -خانقاہی نظام عامۃ الناس کی رُوحانی تربیت اوربیداریٔ قلب کابراہِ راست ذمہ دار تھا مگر یہ ذمہ داری حسن اسلوب سے ادا نہیں ہوپارہی تھی -اِسی رُوحانی تربیت سے مسلمانوں میں باہمی برداشت ،تحمل ،رواداری ،احسان اور عفو در گزر ممکن تھا اورمسلم معاشرہ صدیوں سے مذکورہ تابندہ روایات کاامین تھامگر خانقاہی نظام کی مذکورہ ناکامیوں نے معاشرتی اصلاح وفلاح میں ایک خلا پیدا کر دیا - درج بالا علمی وعملی خلا پورا کرنے کے لئے اسلامی معاشرہ اور ازخود خانقاہی نظام میں لادینی اورسخت گیر عناصر دَرآئے -مذکورہ ناپسندیدہ عناصر نے ایک جانب مسلمانوں میں عدم برداشت وعدم تحمل اورتنگ نظری پیدا کردی تودوسری جانب پاکستان کی مسلم معاشرت میں دو انتہائیں پیداکردیں ،پہلی انتہا لا دینیت پہ مبنی تھی جبکہ دوسری انتہامذہبی سخت گیریت و فرقہ وارانہ شدّت سے آراستہ تھی -درج بالا انتہائوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے مسلمانوں میں نفسانفسی اور خود غرضی جیسی ناپسندیدہ خصوصیات دَرآئیں-اُمت مسلمہ کے مذکورہ سنگین حالات وواقعات نے حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت حضرت سلطان محمداصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ کو خلوت گزین ہوکر تفکر پہ مائل کیا- حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ نے بقولِ اقبال بارگاہ ٔ رسالت مآب میں چارہ گری کے لئے فریاد کی کہ :
شیرازہ ہوا ملتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے !
اِس راز کو اب فاش کر‘ اے رُوح محمد ﷺ!
آیاتِ الٰہی کا نگہبان کدھر جائے !
بارگاۂ رسالت مآب ﷺ سے حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ کو ملتِ اسلامیہ کی اصلاحِ احوال کافریضہ ازخود سرانجام دینے کااشارہ ہوا - حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ نے مزید تفکر کیا تو ملتِ اسلامیہ کی زبوں حالی کاعلاج قُرآن و سُنّت کی اُس فکری و عملی تشریح میں پایا جو کہ صوفیائے کرام و اولیاء عظام نے بیان فرمائیں اور قُرآن و سُنّت کے جس عملی اُسلوب پہ انہوں نے عامۃالناس کی تربیّت فرمائی ،بالخصوص غوث الاعظم پیرانِ پیر دستگیر سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ اور سُلطان العارفین حضرت سلطان محمد باھُوقدس اللہ سرہٗ نے - ملتِ اسلامیہ کی اصلاحِ احوال کے لئے حضرت سلطان محمد اصغر علی رحمۃ اللہ علیہ نے سہ جہتی منصوبہ مرتب فرمایا، (۱)ملت اسلامیہ کوشریعت نبویﷺ کے ظاہری وباطنی احکامات پہ مکمل کار بند کیاجائے-(۲) اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے اسمِ ذاتی’’ اَللّٰہُ‘‘ کے ذکر و تصور کے ذریعے اُمت مسلمہ میں بیداریٔ قلب وتجلیہ رُوح اورمعرفت الٰہی کے شوق کو عام کیاجائے-(۳)توکل علی اللہ کے ذریعے مسلمانوں کی کردار سازی کی جائے -
مذکورہ عظیم مقاصد کی تکمیل کے لئے حضرت سلطان محمداصغر علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین ومتوسلین کومدعو کیا-۱۹۸۷ء میں حضرت سلطان محمد اصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ نے انجمن غوثیہ عزیزیہ حق باھُوسلطان پاکستان وعالم اسلام کی تنظیم سازی فرمائی اوربعدازاں اصلاحی جماعت تشکیل دی - اصلاحی جماعت کے اراکین کی درج ذیل خطوط پہ تربیت کاانتظام فرمایا:
شریعت مطہرہ کی مکمل پیروی :-
حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاحی جماعت کے اراکین کی تربیت کے لئے شریعت مطہرہ کوبنیاد قرار دیا-قرآن مجید کے آفاقی حکم کہ ’’دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجائو!‘‘کے مطابق اصلاحی جماعت کے اراکین کوحکم دیا کہ اپنے شب وروز کے ہر لحظہ کوشریعت نبوی ﷺ سے معطر کرو -
اسم اللّٰہ ذات کاقلبی ذکر :-
حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاحی جماعت کے اراکین کوہمہ قسم کی نفسانی خواہشات سے بچنے اوربیداریٔ قلب کے لئے اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کاحکم دیا -آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاحی جماعت کے کارکنوں کو ’’اُٹھتے ،بیٹھتے ،حتٰی کہ کروٹ کے بل لیٹے الغرض ہرسانس کے ساتھ اسم اللہ ذات کے قلبی ذکر کی ہدایت فرمائی -جیسا کہ حضر ت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
جو دم غافل سو دم کافر اسانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھُو
کیتی جان حوالے رب دے اساں ایسا عشق کمایا ھُو
سنیا سخن گیاں کھل اکھیں اساں چِت مولاول لایا ھُو
مرن توں اگے مرگئے باھُوؔ تاں مطلب نوں پایا ھُو
توکل علی اللّٰہ :-
حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاحی جماعت کے کارکنوں کوتوکل علی اللہ کے مرغوب ہتھیار سے نفس امارہ اورظاہری وباطنی شیاطین کے خلاف ہمہ وقت برسرپیکار رہنے کی نصیحت فرمائی -حضرت سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :
تلہ بنھ توکل والا ہو مردانہ ترئیے ھُو
انّ مَع العُسرِیُسرا آیا چِت اسے ول دہرئیے ھُو
جیں دکھ تھیں سکھ حاصل ہووے اس دکھ تھیں نہ ڈرئیے ھُو
اوہ بے پرواہ درگاہ ہے باھُوؔ اوتھے رو رو حاصل بھرئیے ھُو
بہرکیف آمدبرسرمطلب حضرتسلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن وسُنّت کی تعلیمات کے اِبلاغ سے اپنی مساعی جمیلہ کاآغاز کیا-ایک با عمل صوفی کی زندگی کے عملی تقاضوں کی پرکھ کے لئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ بہترین کسوٹی ہے -آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاحی جماعت کے مبلغین کو شریعت نبوی ﷺ کی پاسداری، اسم اللہ ذات کے قلبی ذکراورتوکل علی اللہ کے ابدی تقاضوں سے آراستہ کیا-توکل علی اللہ کے آتش دان سے کندن اوراسم اللہ ذات کی رُوحانیت سے معموراصلاحی جماعت کے مبلغین کاعوام نے فراخ دلی سے پُرتپاک استقبال کیا-یہ امر سہل نہ تھاحضرتسلطان محمداصغرعلی رحمۃ اللہ علیہ کو اعلائے کلمۃ الحق کی راہ نوَردی میں اَن گنت اور مثلِ پہاڑ بڑی مشکلات کاسامناکرناپڑا(اندیشۂ طوالت سے ان مشکلات کے تذکرے سے گریز کیا جاتا ہے ) - حضرتسلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مساعی جمیلہ کی فیوض و برکات سے اصلاحی جماعت نے نصف صدی پر محیط ارتقائی عروج کی مسافت ایک عشرے سے بھی کم مدت میں طے کی -ضرب المثل کہ ’’درخت اپنے پھل سے پہچاناجاتاہے‘‘ کے مصداق عصرِ حاضر میں اصلاحی جماعت اپنا ہر سنگِ میل معینہ مدت سے پہلے عبورکرتی ہے -اب حالات کی کایاتیزی سے پلٹ رہی ہے -اولیاء عظام کی تعلیمات کے پیغام کی بازگشت گھرگھرسنائی دے رہی ہے -اب گلی محلوں کے تھڑوں پر بھی فقر محمدی ﷺ کے روشن امکانات اوراسم اللہ ذات کی رُوحانیت اورنورانیت پر مبحث عام ہورہی ہے -
یہ فیضان نظر تھا؟ یا کہ مکتب کی کرامت تھی؟
سکھائے کس نے اسماعیل ؑ کو آداب فرزندی
حضور بانیٔ اِصلاحی جماعت رحمۃ اللہ علیہ کاایک نمایاں اعجاز خانقاہی نظام میں انقلابی اصلاحات کانفاذ ہے -اب خانقاہی نظام بھی اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنے کی راہ پہ گامزن ہے-دربارِ عالیہ شہبازِ عارفاں حضرتسلطان محمدعبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کانظم وضبط دیگرخانقاہوں کے لئے دُرِیکتااورقابلِ تقلید نظیر ہے - آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ظاہری حیات مبارکہ میں ہی مردِ خودآگاہ حضرتسلطان محمدعلی صاحب کواپنے فیضِ رُوحانی کاوارث نامزد کیا - حضرتسلطان محمد علی صاحب سروری قادری فقرِمحمدیﷺ کے امین بنے توحضرتسلطان محمداصغرعلی کی قائم کردہ روایت کی پاسداری کوہمیشہ مقدم کیا- عصرِ حاضرکے نفسانفسی کے عالم اوردگرگوں حالات میں اصلاحی جماعت جیسارُوحانی پلیٹ فارم میسر آنابڑی غنیمت ہے - اصلاحی جماعت ہمہ قسم کی سیاسی اورمتعصب عُفُونت سے قطعی پاک ہے- آفتابِ فقر سُلطان الفقر حضرتسلطان محمد اصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے۲۷ رمضان المبارک بوقت سحر ،۱۴/اگست ۱۹۴۷ء کودنیا کو فقر کا اُجالا بخشا اور ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ء کو انتقال فرمایا -آپ کی حیات مبارک چھپن سالوں پہ محیط تھی جس میں سے اڑتیس سال اعلائے کلمۃ الحق کے لئے سفر میں گزرے - اللہ تبارک وتعالیٰ ابدلآباد آپ رحمۃ اللہ علیہ کے درجات میں اضافہ فرمائے -(امین)