اِس تحریر کا مقصد میانمار کے بے وطن روہنگیا مسلمانوں کے المیہ اور مُشکلات کا جائزہ لینا ہے - جیسا کہ قارئین جانتے بھی ہیں کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بہت پرانا ہے جو کہ اب ایک مرتبہ پھر اُبھر کر بلکہ سُلگ کر سامنے آیا ہے-
یہ مسئلہ آخر کیا ہے؟
یہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ پندرہ لاکھ سے زائد برمی مسلمانوں کو ان کی شناخت سے ،ان کی حقِ شہریت سے محروم کردیا گیاہے- ان کا استحصال ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور وہ بہت مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں- تمام بین الاقوامی دستاویزات و قوانین کے مطابق میانمار کے روھنگیا مسلمان جِن حقوق کے پیدائشی طور حقدار ہیں انہیں ان بنیادی حقوق جیسا کہ معاشی ، سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے- آج جو مسئلہ موضوعِ بحث ہے یہ کثیر الجہتی ہے اور ان میں سے کچھ جہتوں کو ہماری فی الفور توجہ کی ضرورت ہے کچھ کو ثانوی اور کچھ کو لمبے دورانیے میں توجہ کی ضرورت ہے-
اس پر بحث کرنے سے قبل ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر عالمی برادری اور اِسلامی دُنیا کا رد عمل کیا رہا ہے ؟
اقوامِ متحدہ کے کردار کا جائزہ :
اگر ہم اقوام متحدہ کی بات کریں تو یہ ایک عام آدمی کے لیے سب سے پہلی جائے پناہ ہے - اور اس کی جنرل اسمبلی نے واضح الفاظ میں یہ موقف اپنایا ہے؛ (۱) جو کچھ میانمار میں ہو رہا ہے یہ ناقابل برداشت ہے اور (۲) روہنگیا برادری کو میانمار کی شہریت دی جانی چاہئے- یعنی اخلاقی طور پر روہنگیا کے موقف کی تائید کر دی گئی لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کا اختیار نہیں ہے بلکہ اس کا اختیار تجاویز کی حد تک محدود ہے- اس لئے یہ معاملہ سیکورٹی کونسل میں اٹھایا جانا چاہئے تھا کیونکہ سیکورٹی کونسل کو اپنے فیصلو ں پر عمل درآمد کروانے کا اختیار حاصل ہے لیکن سیکورٹی کونسل میں صورت حال حوصلہ افزا نہیں ہے کیونکہ رواں سال اٹھائیس مئی کو سیکورٹی کونسل کو اس مسئلہ پر پہلی مرتبہ بریفنگ دی گئی- اس سے قبل جنرل اسمبلی نے اس معاملہ پر بات کی اور خصوصی وفد تشکیل دیا تاکہ وہ معاملے کی چھان بین کر سکیں اور یہ وفد روہنگیا کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ میانمار میں عمومی طور پر انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے تھا- لیکن سیکورٹی کونسل میں صورت حال ابتر ہے جس نے اس معاملے کو صرف سننے کی حد تک ہی اکتفا کیا اور کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا- یہاں تک کہ دو ممالک نے سیکورٹی کونسل کے اس معاملہ پرکسی بھی قدم اُٹھائے جانے کی مخالفت کی، روس کی رائے کے مطابق یہ میانمار کا اندرونی معاملہ ہے اور سیکورٹی کونسل کو اسے زیرِ بحث نہیں لانا چاہئے جبکہ چین نے بھی اسی سے ملتا جلتا موقف پیش کیا - اگرچہ انہوں نے اس مسئلے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ صورتِ حال بہتر ہونی چاہئے مگر ساتھ ہی یہ بھی موقف اپنایا کہ اقوام متحدہ کو اس معاملے پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھانا چاہئے - یہ بڑی عالمی طاقتوں کا اس مسئلہ پر افسوس ناک رویہ ہے- اور یہ بھی ہم سب جانتے ہیںکہ سیکورٹی کونسل میں بڑی طاقتوں کو ہی حتمی فیصلے کا اختیار حاصل ہے- یہ حقیقت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ معاملہ صرف روہنگیا کے ساتھ بد سلوکی کی حد تک نہیں ہے، کہ ان کے ساتھ صرف مسلمان ہونے کی بنا پر سب کچھ کیا جا رہا ہے، بلکہ یہ ایک بڑی گیم کا حصہ ہے کیونکہ اس سے بڑی طاقتوں کے اپنے مفادات وابستہ ہیں جن کا وہ دفاع کرنا چاہتی ہیں- وہ میانمار کی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہیں- اگرچہ میانمار کا نظام ملٹری دور حکومت سے جمہوری دور حکومت میں تبدیل ہوا ہے لیکن عالمی طاقتیں میانمار کی حکومت کے اقدامات سے قطع نظر کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھانا چاہتیں جس سے میانمار میں ان کے دن بدن بڑھتے ہوئے قومی اور معاشی مفادات متاثر ہوں-
اوآئی سی کے کردار کا جائزہ :
اگر ہم او آئی سی کی بات کریں تو اس کی وہی پرانی افسوسناک داستان ہے کہ اسلامی تنظیم برائے تعاون نے اسلامی دُنیا کو درپیش کسی بھی مسئلہ پر فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا- شام، عراق، افغانستان اور لیبیا کے معاملات کی طرح اس معاملہ کی بھی یہی صورت حال ہے- او آئی سی آپس کے جھگڑوں میں اس قدر اُلجھی ہوئی ہے کہ وہ ایک متفقہ موقف اپنانے سے قاصر ہے- اب تک اس نے اتنی پیش رفت کی ہے کہ روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے ایک خصوصی وفد تشکیل دیا ہے اور حقائق جاننے کیلئے روانہ کیا ہے- جہاں تک عملی اقدامات کی بات ہے تو کچھ نہیں کیا گیا اور اب تک اسلامک سالیڈیریٹی فنڈ کے ذریعے صرف دو لاکھ ڈالراس انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں- جہاں تک پاکستان کے رد ِعمل کی بات ہے تو جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اس معاملہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور میانمار کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقہ میں استحکام کے لیے کارروائی کریں-
روہنگیا کی بے وطنی کا مسئلہ :
دریں اثنا وہاں ایک بہت بڑی آفت نمودار ہورہی ہے جس پر عالمی برادری بے سُدھ ہے اور کوئی ایکشن نہیں لے رہی- جیسا کہ ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کیا گیا- اب ان کو کوئی ملک قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے- بنگلہ دیشی کہتے ہیں کہ وہ میانمار کے شہری ہیں اور میانمار کہتا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں- ان کی یہ حالت ہے کہ وہ بے وطن ہو چکے ہیں اور ایک طرح سے جہنم کے کنارے زندگی گزار رہے ہیں- جب وہ امان کی تلاش میں ٹوٹی پھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر دوسرے ملکوں میں پناہ کیلئے جاتے ہیں لیکن دوسرے ممالک بھی انہیں اپنانے سے انکار کر دیتے ہیں- صرف عالمی برادری کے دبائو کے باعث انڈونیشیا اور ملائشیا نے ان میں سے کچھ کو عارضی طور پر قبول کرنے کی حامی بھری ہے مگر اس شرط پر کہ عالمی برادری ان کو ایک سال کے بعد کسی اور جگہ منتقل کرکے آباد کرے- آخر وہ کہاں جائیں؟ جب میانمار کی حکومت یہ کہتی ہے کہ وہ میانمار کے شہری نہیں ہیں تو یہ واضح ہونا چاہئے کہ یہ فیصلہ ۱۹۸۲ء میں بغیر کسی بنیاد کے جبراً کیا گیا تھا کیونکہ یہ لوگ گزشتہ کئی نسلوں سے وہاں آباد ہیں تو پھر کیسے کوئی کسی دن اچانک یہ فیصلہ کیسے سنا سکتا ہے کہ وہ یہاں کے شہری نہیں؟ جبکہ کوئی دوسرا ملک بھی انہیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے- روہنگیا مسلمان، جن کا استحصال کیا جارہا ہے، انہیں اس قدر تنگ کیا جارہا ہے کہ اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ ’’روہنگیا برادری دنیا بھر میں مظلوم ترین اقلیتوں میں سے ہے‘‘ - میرے خیال میں ہمارا مقدمہ بالکل ٹھیک ہے اور قانونی طور پر بھی درست ہے- ہمیں ان پر دبائو ڈالنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے کیونکہ عالمی طاقتیں میانمار حکومت کے خلاف کوئی بھی قدم اُٹھانے سے گریزاں ہیں- امن کی نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی نے بھی اس معاملہ پر اپنا کوئی کردار ادا نہیں کیا - حال ہی میں ناروے میں نوبل انعام یافتہ لوگوں کا اجلاس منعقد ہوا جنہوں نے آنگ سانگ سوچی کو تنقید کا نشانہ بنایا حتیٰ کہ اسے اجلاس میں بھی مدعو نہ کیا کیونکہ اُن کے مطابق میانمار میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناقابلِ برداشت ہے - عالمی برادری کو اس پر کوئی قدم اٹھانا چاہئے اور اس معاملہ پر میانمار حکومت کو مجبور کیا جانا چاہئے- اگر جبراً نہیں تو ان کو اس بات پر مائل کیا جائے اور ذہنوں کو تبدیل کیا جانا چاہئے کہ میانمار حکومت ۱۹۸۲ء کے شہریت کے قانون میں ترمیم کرے کیونکہ اتنی بڑی آبادی جو عرصہ دراز سے وہاں آباد ہے ، کوئی جابر حکومت ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ان سے ان کا پیدائشی حق نہیں چھین سکتی-
اِنسانی حقوق کے تناظُر میں :
جو کچھ وہاں ہو رہا ہے وہ سب عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے- یہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے قطعی طور پر برعکس ہے اور انسانی حقوق کے کنونشنز کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے - مثال کے طور پر بچوں کے حقوق کے کنونشن کے مطابق جو بچہ جہاں پیدا ہوتا ہے اس کو اسی ملک کی شہریت کا حق ہے- یہاں صورتحال بالکل برعکس ہے کہ جب ان بے چارے لوگوں کے ہاں بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کو میانمار کی شہریت کا کوئی حق حاصل نہیں - یہ بچوں کے حقوق کے کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے- پھر اقوام متحدہ نے ایک اور نہایت اہم اصول اپنایا ہے جو 'تحفظ کا حق' ہے- یعنی اگر کوئی ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کے قابل نہیں تو عالمی برادری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مداخلت کرے اور وہاں کے شہریوں کو تحفُّظ فراہم کروائے - ماضی قریب میں اسی اصول کو بنیاد بناتے ہوئے لیبیا میں مداخلت کی گئی- مزید برآں عالمی برادری نے اپنے لئے ایک اور اصول بھی بنایا ہے کہ ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جو اپنی ہی حکومتوں کی بدسلوکی کا شکار ہیں- مندرجہ بالا تمام کوائف کی روشنی میں روہنگیا کے ساتھ میانمار حکومت کا سلوک تمام انسانی قوانین اور انسانی حقوق کے کنونشنز کی خلاف ورزی ہے- جس پر عالمی برادری کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے -
میانمار حکومت کی ذِمّہ داری :
میانمار کے حکومتی ذرائع کا یہ دعویٰ کرنا کہ ’’میانمار کی قیادت کا موجودہ صورت حال میں کوئی عمل دخل نہیں‘‘ رسمی طور پر تو درست ہو سکتا ہے مگر میرے خیال میں وہ اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی نہیں کر سکتی کیونکہ میانمار کے صدر کے یہ الفاظ ہیں "موجودہ مسئلہ کا صرف ایک ہی حل ہے کہ تمام روہنگیا کو میانمار سے نکال دیا جائے" - جب ایک ملک کا صدر ایسی بات کر رہا ہو کہ سب کو یہاں سے نکال دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بگاڑ کے وہ خود بھی ذمہ دار ہیں- یہ درست ہو سکتا ہے کہ بظاہر ِادھر ُادھر ہونے والے ہنگاموں میں ان کا کردار نہ ہو لیکن اس کی بھی اخلاقی ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے جبکہ ان کی پالیسیاں، ذہنی رجحان اور مقاصد بالکل واضح ہیں- اس لیے یہ ایک بڑا کٹھن کام ہوگا کہ عالمی برادری کی رائے عامہ کے ذریعے مختلف اقوام میں تحرک پیدا کیا جائے کہ وہ میانمار کی حکومت پر اتنا دبائو ڈالیں کہ وہ ۱۹۸۲ء کے شہریت کے قانون میں ترمیم کریں- لیکن ،اگر وہ کرنا چاہیں تو ا س کی ترمیم کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ یہ کسی پارلیمنٹ کا پاس کردہ قانون نہیں ہے بلکہ ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے لاگو کیا گیا تھا - چنانچہ اسے ایک اور ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ میانمار کی قیادت یہ سیاسی خواہش رکھتی ہو-
مسئلہ حل کیسے کیا جائے ؟
اب اہم بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہونا چاہیے؟ تمام تر زمینی حقائق اور بڑی طاقتوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے خیال میں اس معاملے کی انسانی جہت پر سب سے پہلے توجہ مرکوز کرنی چاہئے - کہ وہ لوگ جن کو در بدر ہونے پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ بھی جو باقی ماندہ ہیں ان کی داد رسی کی جائے کیونکہ دربدر ہونے والوں کے علاوہ پیچھے رہ جانے والے لوگ بھی ابتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،جو کیمپوں میں مقید ہیں - میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ صورت حال بھی افریقہ کے اپارتھیڈ سسٹم (نسلی عصبیت کے نظام) جیسی ہے تو ان لوگوں کو انسانی بنیاد پر امداد فراہم کی جانی چاہئے- جن کو تارکِ وطن ہونے پر مجبور کیا گیا ہے دوسرے ممالک کو انہیں قبول کرنا چاہیے، تحفظ فراہم کرنا چاہیے اور ان کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنا چاہیے- اس وقت یہی پہلی ترجیح ہونی چاہیے- دوسرا یہ کہ عالمی رائے عامہ کو ہموار کیا جائے جس کے نتیجہ میں مختلف ممالک کی حکومتیں مائل ہوں تا کہ وہ روہنگیا کے سماجی اور معاشی حالات کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں- ان لوگوں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھا گیا ہے- عالمی رائے عامہ کے ہموار ہونے کے نتیجے میں میانمار کی حکومت کو قائل کیا جائے کہ وہ روہنگیا برادری کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم کرے- لیکن اس مسئلہ کا اصل حل یہ ہے کہ روہنگیا کو میانمار کی شہریت دی جائے کیونکہ ایک مرتبہ جب ان کو میانمار کا شہری تسلیم کر لیا گیا تو انہیں باقی حقوق بھی آہستہ آہستہ مل جائیں گے- ان حقوق کی خلاف ورزی تو ہوگی لیکن یہ خلاف ورزیاں ہمارے جیسے ملکوں میں بھی ہوتی ہیں- جب بھی کوئی قانون بنتا ہے تو اس کی خلاف ورزی تو ہوتی ہی ہے لیکن جب ان کو میانمار کا شہری تسلیم کر لیا گیا تو بحیثیت شہری، وہ باقی حقوق کے حصہ دار بھی بنتے جائیں گے - لیکن میانمار حکومت ابھی تک اپنے مذموم ارادے پر اڑی ہوئی ہے- میں نے پاکستان میں میانمار کے مقررہ سفیر سے رابطہ کیا اور اُن سے پوچھا کہ آپ کا کیا موقف ہے ؟ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ہماری حکومت کا نکتہ نظر یہ ہے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں اور ہم اپنے شہریوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے - تو ضرورت اس امر کی ہے کہ میانمار روہنگیا کو اپنا شہری تسلیم کرے-