اصلاحی جماعت : فکرِوتحریک کا سائنسی تجزیہ

اصلاحی جماعت : فکرِوتحریک کا سائنسی تجزیہ

اصلاحی جماعت : فکرِوتحریک کا سائنسی تجزیہ

مصنف: ڈاکٹرعثمان حسن اپریل 2015

کسی بھی چیز کے متعلق جاننے اور اسے پرکھنے کے مختلف معیارات ہوتے ہیں اسی طرح کسی بھی تحریک یا نظریہ کو سمجھنے یا پرکھنے کے بھی مختلف معیارات ہیں- جدید دور میں عالمی سطح پر علم حاصل کرنے اور معاملات کو پرکھنے کا سب سے مقبول طریقہ سائنسی طریقہ کار(Scientific Method) کہلاتا ہے اگرچہ مختلف مضامین کیلئے سائنسی طریقہ کار کی تعریف میں تھوڑا بہت فرق آتا ہے مگر جس بنیاد پر یہ طریقہ کار پروان چڑھا ہے وہ مشاہداتی علم ہے جسے حاصل کرنے کیلئے ہر شخص آزاد ہے- قدرتی سائنس (Natural Sciences)میںاس کی عام تعریف ایسے کی جاتی ہے کہ کسی بھی قدرتی عمل (Natural Process) کے متعلق پہلے ایک واضح سوال اٹھایا جائے اور پہلے سے موجود تجربات اور علوم کی بنیاد پر اس کے متعلق ایک مفروضہ ترتیب دیا جائے پھر تجربات کی دنیا سے گزرا جائے اور اُن تجربات کی بنیاد پر مفروضہ کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کر کے اصل سوال کا جواب مرتب کیا جائے-

طبیعات میں سائنسی طریقہ کار کی تعریف ایسے کی جاتی ہے-

(۱)کسی بھی قدرتی عمل کے متعلق سوال ترتیب دینا-( ۲)اس واقعہ یا عمل کے متعلق پہلے سے موجود لٹریچر کا مطالعہ کرنا-( ۳)موجودہ علم کی بنیاد پر مفروضہ ترتیب دینا-( ۴)مفروضہ کے درست یا غلط ہونے کو پرکھنے کیلئے تجربات کرنا- (۵)ریاضی کے اصولوں سے تجربات کے ڈیٹا کو پرکھنا (mathematical modeling)اور نتائج اخذ کرنا-

سوشل سائنس میں اس کی ترتیب اس طرح سے دی جاتی ہے-

( ۱) مشاہدہ،(۲) سوال کی تیاری،( ۳)پہلے سے موجود لٹریچر کا مطالعہ،( ۴)مزید مشاہدہ،( ۵)مفروضہ بنانا،( ۶)تحقیق کا ڈیزائن تیار کرنا،( ۷)ڈیٹا اکٹھا کرنا، (۸)نتیجہ کا تجزیہ کرنا،( ۹)حتمی نتیجہ اخذ کرنا-

 سوشیالوجی میں سائنسی طریقہ کار کی تعریف ایسے کی جاتی ہے-

’’سائنسی طریقہ کار ڈیٹا اکٹھا کرنے کا ایسا طریقہ ہے جو دو مفروضات پر بنیاد کرتا ہے-( ۱) دنیا سے متعلقہ علم مشاہدات سے اکٹھا کیا جاتا ہے- (۲)اس علم کی سچائی تصدیق کے ذریعے ہوتی ہے یعنی جب دوسرے لوگ بھی ویسا ہی مشاہدہ کرتے ہیں- تاہم اگر سائنسی طریقہ کار کی جانب نظر دوڑائی جائے تو اس کی ابتدا سوال سے ہوتی ہے یعنی علم حاصل کرنے اور معاملات کو جاننے کی ایسی جستجو جو ہر کسی کیلئے ایک جیسے نتائج مرتب کرے-

راقم نے زیرِ نظر مضمون میں اصلاحی جماعت کو سائنسی بنیادوںپر بیان کرنے کی سعی کی ہے اور اس کا قدرتی سائنس (Natural Sciences) کے ساتھ کچھ موازنہ پیش کیا ہے-‘‘

جب کسی تحریک یا نظریہ کے تجزیہ کی بات آتی ہے تو اس سلسلے میں اہم سوالات جوسامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں- تحریک کے نظریہ کی پختگی و وسعت کتنی ہے؟ اس میں کتنا نظم و ضبط ہے؟ جدت سے کتنی ہم آہنگی ہے؟ اور تحریک کی قیادت اور کارکنان کے  کیاتجزیات ہیں-؟

 اصلاحی جماعت کے نظریہ کی بات کی جائے تو اس کی بنیادیںقُرآن و سُنّت کی عملی تعلیمات اور فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر استوار ہیں جو ظاہر و باطن کے تمام معاملات کا احاطہ کرتا ہے اسی وجہ سے اس تحریک کے ذریعے نہ صرف افراد کی روحانی بیداری کا سلسلہ شروع ہوا بلکہ معاشرے کے مادی و روحانی بہتری کا بیڑہ بھی اٹھایا گیا ہے- تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل اس سفر کے دوران اس تحریک کے نظریات میں کبھی بھی ایک پل کیلئے بھی لڑکھڑاہٹ یا تذبذب دیکھنے کو نہیں آیا- در حقیقت یہ تحریک چودہ سو سال پہلے مکہ کی وادیوں سے اٹھنے والے انقلاب کے اصولوں کو مشعلِ راہ بنائے ہوئے آگے بڑھتی جا رہی ہے- جس بھی شخص نے اس تحریک کا کھلے دل و دماغ سے مطالعہ کیا ہے وہ اس کی نظریاتی مضبوطی تسلیم کرنے پر مجبور ہوا ہے-موجودہ دور کے حالات و واقعات جہاں شدت پسندی و فروعی تنازعات کو ہوا مل رہی ہے، اس تحریک نے تمام مکاتب فکر کو ساتھ لے کر چلنے کی نئی روایت قائم کی ہے اور اسی وجہ سے ہر مکتبہ فکر کے لوگ اس تحریک میں شامل حال ہیں-جہاں تک اصلاحی جماعت کے پروان چڑھنے اور ارتقاء کا تعلق ہے تو وقت کے ساتھ ساتھ جب یہ تحریک آگے بڑھی تو اسے عہدِ حاضر کے مطلُوب عملی تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے  آگے بڑھایا گیا- علم و عمل کے میدان میں سلف صالحین کے طریقِ تربیّت اور اُن انداز کے ساتھ نوجوان نسل کی تربیت جاری ہے- ماہنامہ میگزین اور حضرت سلطان باھوؒ کی کتب پر تحقیق سے لے کر فکری و تربیتی لیکچرز کا اہتمام، سوشل میڈیا نیٹ ورک پر عوام الناس میں اسلامی تعلیمات کا پرچار، نوجوانوں کی تربیت کیلئے خصوصی نشستوں کا اہتمام اور دیگر طریقوں سے معاشرے کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں- اسی طرح امتِ مسلمہ کے حالات کے پیش نظر اتحاد امت کا علم بلند کیا اور تمام فرقہ وارانہ و فروعی اختلافات سے بالا تر ہو کر سعی اتحادِ امت کے سیمینارز اور لیکچرز کا سلسلہ شروع کیا گیاجنہیں تمام حلقوں کی جانب سے زبردست پذیرائی ملی - اصلاحی جماعت کے نظم و ضبط کی بات کی جائے تو اس کا ایک اظہار ملک بھر میں میلادِمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سلسلے میں اجتماعات کا انعقاد ہے جب روزانہ کی بنیاد پر ہر ضلع میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں اور یہ اجتماعات نظم و ضبط کے حوالہ سے اپنی مثال آپ ہیں - خاص کر سالانہ مرکزی ٹور جب چلتا ہے تو ایک دوسرے سے متصل اضلاع میں روزانہ پروگرام ہو رہے ہوتے ہیں اور ہر جگہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے ہیں عموماً جماعتیں ایک بڑا ڈویژنل پروگرام کرتی ہیں یا ایک ضلع میں دیگر اضلاع کے کارکنوں کو بھی مدّعُو کرتی ہیں مگر اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کا اجتماع جس بھی ضلع میں ہو صِرف اُسی مخصوص ضلع کے عوام و کارکنان شرکت کرتے ہیں جو کہ اتنی بڑی تعداد ہوتی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے پورا ضلع ہی اِس روحانی و اصلاحی اجتماع میں اُمڈ آیا ہو - الحمد للہ اِس تحریک کے ضلعی اجتماعات بھی بڑی بڑی جماعتوں کے صوبائی و ڈویژنل اجتماعات سے زیادہ بھر پور اور زیادہ مُنظّم ہوتے ہیں -

تحریک کے کارکنان کی بات کی جائے تو اگرچہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ تحریک میں شامل افراد کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے اور جدید تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے مگر یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اس تحریک میں شامل افراد کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جنہوں نے باقاعدہ دینی تعلیم کسی مدرسے سے حاصل نہیں کی اور فقط اپنے مرشد کی نگاہ کاملہ سے نوازے جانے کے بعد وہ اس امت کی اصلاح کیلئے مال و جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے میدانِ عمل میں آگے بڑھے اور انہوں نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور کردارسے لوگوں کیلئے مثالیں قائم کی ہیں اور مختلف شعبہ جات میں گراں قدر خدمات سر انجام دیں - قیادت کے حوالے سے دیکھا جائے تو اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العارفین کے بانی حضرت سلطان محمد اصغر علیؒ کی شخصیت، کردار، اخلاق، دور اندیشی اور دیگر پہلوئوں کو کسی قسم کی طرف داری یا تعصب سے پاک ہو کر پرکھا جائے اور سائنسی اصولوں پر تجزیہ کیا جائے تو ہر انسان کیلئے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اِس صاحبِ نِگاہ ، خود آگاہ ، عظیم اور دور اندیش قیادت نے ایسی تحریک کی بنیاد رکھی ہے جو چودہ سوسال قبل کی طرح انسانیت کی تاریخ بدلنے کیلئے پھل پھول رہی ہے ویسی ہی ترتیب نظر آتی ہے کہ پہلے چند لوگوں سے تحریک کا آغاز کرنا، توکل علی اللہ کے درس کے ساتھ درس و تدریس اور اصلاح معاشرہ کا آغاز، گلی گلی کوچہ کوچہ سفر کر کے پیغامِ الٰہی کا پرچار کرنا- صوفیاء کے جس کردار، اخلاق اور عمل کی مثالیں چند دہائیاں قبل صرف کتابوں تک محدود تھیں، اس کی عملی صورت ایک بار پھر آپ کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی- ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ء کو آپؒ کے وصال مبارک کے بعد آپؒ کے جانشین حضرت سلطان محمد علی نے جماعت کی قیادت سنبھالی، آپ کی ذاتِ مقدسہ بھی اپنے مرشد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے-

قدرتی سائنس (Natural Sciences) کے حوالہ سے بات کی جائے تو اس کا مقصد مادی دنیا کا مطالعہ کرنا ، اسے سمجھنا اور اور اس میںوقوع پذیر ہونے والے عوامل کو بیان کرنے کیلئے کلیات تلاش کرنا ہے- عامۃ الناس میں سائنس کے متعلق اکثر ایک مغالطہ پایا جاتا ہے کہ ہر نئے دور کی سائنس پچھلے دور کی سائنس کی نفی کر دیتی ہے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے در حقیقت سائنس وقت کے ساتھ پروان چڑھتی ہے اور اس کا علم بتدریج بڑھ رہا ہے- جونہی کسی عمل کا مطالعہ اور اس پر تحقیق زیادہ گہرائی اور باریکی سے کی جاتی ہے، اس کو بیان کرنے کیلئے کلیات اور ماڈلز کی نئی صورت سامنے آ جاتی ہے- اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کلیہ یا ماڈل نے پچھلے کلیہ کو غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جدید مشاہدات اور مزید باریکی سے کئے گئے تجربات کی روشنی میں زیادہ مؤثر نظریہ کی ضرورت پیش آئی اور یہ جدید کلیات، پرانے مشاہدات اور تجربات کی سطح پر پرانے کلیات کے مطابق ہی نتائج دیتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کوانٹم فزکس میکروسکوپک سطح پر ( Expectation Value) نیوٹن کے حرکت کے قوانین کے مطابق نتائج دیتی ہے- اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی وجوہات جاننے کیلئے کوشاں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کا علم بڑھ رہا ہے لیکن یہ کہنا مناسب نہیں کہ اس کا علم مکمل ہے یا یہ مکمل طور پر کائنات کی حقیقت کو بیان کرنے کے قابل ہو گئی ہے- ابھی شاید سائنس دانوں کو بھی اس سطح کے دعویٰ کیلئے کئی صدیاں درکار ہوں-

آئن سٹائن جیسے عظیم سائنسدان نے بھی سائنس میں اپنے ذاتی نظریات کی بناء پر رائے قائم کرنے کی کوشش کی اور وہ کوانٹم مکینکس کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے مگر وقت نے ثابت کیا ہے کہ سائنس کسی بھی ذہن یا نظریہ کو ماننے کی بجائے مشاہدات اور تجربات کی کسوٹی پر پروان چڑھتی ہے اور حقائق کو بیان کرنے کی جستجو میں مگن رہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سائنس میں ہمیشہ سے جدت اور تحرک رہا ہے -اسی طرح روحانیت میں بھی انسان منازل طے کرتا ہے اور طالب مولیٰ کیلئے کسی مقام کی کوئی قید نہیں البتہ یہ فرق واضح ہے کہ ابھی تک جس طرز پر جدید سائنس پروان چڑھی ہے ، اس کا تعلق صرف مادی دنیا سے ہے اور اس کے تجربات ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں اور حواسِ خمسہ تک محدود ہیں جبکہ مذہب میں روحانی تجربات اور مشاہدات کا تعلق ظاہر و باطن دونوں سے ہے جس کی اس دنیا میں ابتدا وحی سے ہوئی- اکثر روحانی مشاہدات و تجربات فرد کے اپنے آپ تک کیلئے ہوتے ہیں- یہاں بھی اس پہلو کو سائنسی بنیادوں پر پرکھنے کیلئے کھلے ذہن کے ساتھ حقائق کا مطالعہ درکار ہے اور جس بھی انسان نے اس پہلو کو سمجھنے اور اس کی حقیقت جاننے کی کوشش کی ہے اسے حقیقت نصیب ہوئی ہے- جو شخص بھی اُس حقیقی روحانی مشاہدہ سے گزرنا چاہتا ہے اسے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پاسداری کے ساتھ روحانی لیبارٹری میں داخلہ لینا پڑتا ہے اور اس کے بعد تجربات و مشاہدات کی کسوٹی ہاتھ میں لینے سے قبل اس لیبارٹری کے بنیادی اصولوں کے مطابق قدم آگے بڑھانا پڑتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسے کسی بھی سائنسی لیبارٹری میں مخصوص طریقہ کار سے تجربات کئے جاتے ہیں- ان اصولوں پر عمل درآمد کرنے والے کیلئے مشاہدات کی دنیا کھلتی ہے اور وہ اسی حقیقت تک پہنچتا ہے جس کا ادراک اس سے قبل لوگوں نے کیا ہوتا ہے-یہی وجہ ہے کہ صوفیاء دنیا کے کسی کونے یا کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، ان کی تعلیمات کا مرکزی خیال ایک جیسا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے روحانی تجربات پر مبنی ہوتی ہیں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہر کوئی اپنے مقامات کے مطابق مشاہدات کو بیان کرتا ہے مگر دوسروں کے مقامات کا انکار نہیں کرتا-

پچھلی چند صدیوں سے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ تأثر ابھارا گیا ہے کہ سائنس مذہب کی نفی کرتی ہے- حالانکہ ایسا کسی بھی سائنسی تجزیہ سے ثابت نہیں- البتہ یہ ضرور ہے کہ سائنسی طریقہ کار انسان کو منطق اور مشاہدات کی بنیاد پر نظریات تعمیر کرنے کا درس دیتا ہے لیکن ایسے میں ایک دلچسپ صورتحال تب پیدا ہوتی ہے جب ان عوامل کا سائنسی تجزیہ کیا جائے جہاں ظاہر و باطن کا تعلق ملتا ہے اور موجودہ دور کے جدید علوم میں ایسا قریب ترین تعلق نفسیات کا مطالعہ ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نفسیات کی  mathematical modeling تو بہت دور کی بات، ابھی ایک نیوران کے کام کرنے کے عمل کو بیان کرنے کیلئے طبیعات کے اصولوں پر مبنی صحیح طریقے سے ماڈل نہیں بنایا جا سکا تو اربوں نیوران کے باہمی ربط سے جنم لینے والے دماغ اور پھر نفسیات تک کے اصول درست طریقے سے مرتب کرنا بہت دور کی بات ہے- تاہم روحانی مشاہدات کرنے والوں کے نفسیاتی مطالعہ سے یقیناً علم و تحقیق کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں اور جدید دور اس کا تقاضا بھی کرتا ہے- ایسے میں کچھ ایسے سوال جن کا سائنس کو ضروری جواب تلاش کرنا ہے وہ اُن طالبانِ مولیٰ کی نفسیاتی و ذہنی صورتحال ہے جو توکل کے درس پر نکلتے ہیں اور ہر تکلیف، پریشانی ، بھوک ، پیاس کے باوجود ایک تندرست و توانا انسان سے بہت زیادہ طاقت اور کارکردگی سے کام کرتے ہیںاور یہ واقعات آج کے نہیں بلکہ انسان کے اس دنیا میں ابتدا سے چل رہے ہیں- اسی طرح اصلاحی جماعت و عالمی تنظٰیم العارفین کے اراکین کے انفرادی یا اجتماعی وسائل کو پرکھا جائے تو کسی طور بھی یہ ادراک نہیں کیا جا سکتا کہ ان محدود وسائل میں اس جماعت نے ملک کے کونے کونے اور کئی بیرونِ ممالک میں صوفیاء کرام کا پیغام پہنچایا ہے- تاریخ کے آئینہ میں جھانکا جائے تو ایسی مثالیں چودہ سو سال پہلے بھی موجود ہیں جب بے سرو سامانی اور انتہائی محدود وسائل کے ساتھ سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیغام کو مسلمانوں نے اپنا جان و مال قربان کرتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلایا- اگر اس دور کے ان حالات و واقعات کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا ہوتا تو آج یقیناً دنیا بھر کے لوگ اصلاحی جماعت کی بنیاد ، اس کے اغراض و مقاصد اور اس کی منزلِ مقصود سمجھنے میں ذرا برابر بھی دیر نہ کرتے- مگر آج اس امر کی ضرورت ہے کہ جدید پیرائے میں فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نظریات اور افراد کا سائنسی بنیادوں پر مطالعہ کیا جائے تا کہ سائنس اس بات کو سمجھ لے کہ کائنات کا محرک مادی نہیں بلکہ روحانی ہے اور اس کا سفر روحانی و مادی طاقت کے ایک ہونے پر اختتام پذیر ہو گا-جب تک روحانی مشاہدات اور تجربات کو سامنے رکھ کر سائنسی تجربات تشکیل نہیں دیئے جائیں گے، اس وقت تک مذہب کا سائنسی تجزیہ مکمل کرنا آسان نہیں- دیگر صُوفیا کی طرح علّامہ اقبال کے نزدیک بھی انسانی شعور کی حقیقت روحانی ہے اور اِس کا مُدّعا بنی نوعِ اِنسان کی تنظیم ہے - مُلاحظہ ہو ریکنسٹرکشن کے دوسرے لیکچر کا ایک مختصر اقتباس :

"Consciousness is a variety of the purely spiritual principle of life which is not a substance, but an organizing principle."

’’شعُور زندگی کے خالص رُوحانی اصُول کی ایک قسم ہے ، یہ محض جوہر نہیں بلکہ ایک ترتیب میں مُنظّم کرنے والا اصُول ہے ‘‘-

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر