دہائی اَسی(۸۰)کے اواخراوردہائی نوے(۹۰)کے اوائل میں اس خطے کی عامۃ الناس کے درماندہ حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں-خطۂ پاکستان دشمنانانِ اسلام کی آماج گاہ بن رہاتھا-بعداز مطلب براری عالمی استعمار ہمیں ٹشوپیپرکی طرح استعمال کے بعددہکتے آتش فشاں میں پھینک چکا تھا - مذہبی منافرت سبک رفتاری سے عصرحاضرکے انتہائی درجہ کی جانب رواں دواں تھی-مذہب بیزارتحاریک کابول بالاتھا-گوناگوں تعصبات پھن پھیلائے ہمیں نگلنے کوبے قرارتھے-خانقاہی نظام کی درماندگی حالات کی نزاکت کامُنہ بولتاثبوت تھی-دریں حالات اس خطے کی آبادی کے حرکی حصہ(نوجوانانِ ملت)کویاس اورقنوطیت سے بچانے کے لئے کسی ’’خضرِراہ‘‘اور’’مردِخودآگاہ‘‘کی اشدضرورت تھی-ان کٹھن حالات کے پیشِ نظر سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس خطے کے مسلمانوں کوایک رُوحانی پلیٹ فارم بصورت اصلاحی جماعت فراہم کیا-
حضرت سخی سلطان محمداصغرعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والدبزرگوارشہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پہ بیعت کی اور بعدازاں والدبزرگوار سے محض صُلبی نسبت پراکتفاء نہ کیابلکہ والد(مرشد)سے رُوحانی نسبت کوغنیمت جانا-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پوری حیات مبارکہ بطورطالب مولیٰ بسرفرمائی اوراپنے مرشدکی اطاعت وخدمت کا ہرتقاضہ حُسن اسلوب سے پورافرمایا-آپ رحمۃ اللہ علیہ درگاۂ مرشد کی معمولی خدمت بھی گراں قدرجانتے تھے اورمرشدکی خوشنودی کو ہمیشہ حرزِجان بنائے رکھا-بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :
٭کسی ایسے شررسے پھونک اپنے خرمنِ دل کو
کہ خورشیدِ قیامت بھی ہوتیرے خوشہ چینوں میں
٭ حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
٭ تمنّا دردِ دِل کی ہو تو خِدمت کر فقیروں کی
نہیں مِلتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
بعدازفیض یابی آپ رحمۃ اللہ علیہ حکمِ مرشد سے رُوحانی تفکر کے لئے معتکف ہوئے-مراقبہ کے دوران آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قلبِ اطہرانواروتجلیات کی آماج گاہ بنارہا-بایں ہمہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ملتِ اسلامیہ اورارضِ پاکستان کے دگرگوں حالات سے صرفِ نظرنہ کرسکے -اِسی تفکراورسوچ وبچارمیں شب وروزگزرنے کااحساس بھی نہ ہواتاآنکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ملت اسلامیہ کے اصلاحِ احوال کافریضہ ازخودنبھانے کافیصلہ برحق فرمایا-تفکر میں تحریکی وتنظیمی خدوخال آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قلبِ اطہرپہ ازخودواردہوئے اوربعدازاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں خطوط پہ ۱۹۸۷ء اصلاحی جماعت تشکیل دی-قبل ازیں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مرکزی اورضلعی سطح پہ ’’انجمن غوثیہ عزیزیہ حق باھوسلطان پاکستان وعالمِ اسلام‘‘ کی تنظیم سازی فرمائی-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاحی جماعت کی تربیت کے لئے تمام مریدین کومدعوفرمایا-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت نبویﷺ کی پاسداری،توکل علی اللہ ،اسم اللہ ذات کے قلبی ذکراورففروالی اللہ کے سلوگن کواصلاحی جماعت کاتربیتی نصب العین مقررفرمایا-آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خانقاہی نظام کے مخدوش حالات کے پیش نظر اصلاحِ خانقاہی نظام کافریضہ بھی سرانجام دیا-ضرب المثل ’’درخت اپنے پھل سے پہچاناجاتاہے‘‘کے مترادف آج دربارِگوہریاب حضرت سخی سلطان محمدعبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کانظم خانقاہی نظام میں دُریکتااورمرجع خلائق ہے -
آج ہم بطور مسلما ن اپنے آپ کا جائزہ لیں اور اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں اور{ استفت قلبک }کے تحت اپنے دل سے فتویٰ لیں اور پوچھیں کہ اللہ رب العزت نے انسان ہونے کے ناطے اور مسلمان ہونے کے ناطے جو فضیلت اور شرف بخشا کیا وہ ہمارے عملی کردار سے ہمیں نظر آتا ہے یا نہیں ؟ اور ان دونوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:بطورِ انسان جو فضیلت عطا فرمائی:
{ولقد کرمنا بنی اٰدم و حملنھم فی البر والبحر ورزقنھم من الطیبت و فضلنھم علٰی کثیر ممن خلقنا تفضیلا}(۱)
’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا-‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے انسان کی تمام مخلوقات پر فضیلت کو ظاہر فرما کر واضح فرما دیا کہ انسان کی فضیلت تمام مخلوقات پر ہے اور تمام مخلوقات کو حضرتِ انسان کے نفع کیلئے تخلیق فرمایا اور دوسرے مقام پر بطورِ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسلمان ہونے کے ناطے جو باقی اُمتوں پر اس اُمت کو فضیلت بخشی اُس کا بڑے خوبصورت انداز میں ذکر فرمایا:
{کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تؤ منون باللّٰہ ولو اٰمن اھل الکتب لکان خیرا لھم منھم المؤ منون واکثرھم الفسقون}(۲)
’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لیے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقینا ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں-‘‘
اُمت مسلمہ ہونے کے ناطے اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو خیر امت کے لقب سے ملقب فرمایا اور اس کی فضیلت کا اظہار فرمایا-
آج ہمارے ہاں تعلیمی اداروں ،سکولز ، کالجز ، یونیورسٹیز، جامعات، مدارس ، مساجد اور درس گاہوں کے باوجود ہمارے اندر سے وہ عملی کردار نظر نہیں آتا جس کا تقاضا قرآن و سنت کرتے ہیں-بقولِ اقبال
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین آج اس دعوت کو عام کر رہی ہیں کہ ہم اپنے آپ کا جائزہ لیں کہ آخر اپنے اس شرف کو کس طریقے سے حاصل کر سکتے ہیں جس کو اپنا کر ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو پھر سے پاسکتے ہیں تو اس کیلئے ہمارے ہاں قرآن و سنت موجود ہیں جو ہماری رہنمائی کرتے ہیں ، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا :
’’ اے لوگو! بے شک مَیں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہاہوں اگر تم اسے پکڑے رکھو گے تو ہمیشہ کیلئے گمراہی سے بچ جائو گے ایک کتاب اللہ یعنی قرآن مجید اور دوسری نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت مبارکہ-‘‘
اس حدیث پاک میں ہماری نجات ، کامیابی و کامرانی کا قاعدہ اور کلیہ بیان فرمایا گیا ہے کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنائو گے تو ہدایت پائو گے-اگر قرآن و سنت کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ دونوں ہمیں اس کی ذات کی طرف ایڈریس کرتے ہیں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقِ عمل بھی یہی ہے کہ لوگوں کا تعلق اس کی ذات سے قائم کرنا اور قرآن کریم بھی ہماری اسی طرف رہنمائی کرتا ہے-فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللّٰہ علٰی بصیرۃ انا ومن اتبعنی وسبحن اللّٰہ وما انا من المشرکین}(۳)
’’(اے حبیبِ مکرم!) فرما دیجیے: یہی میری راہ ہے- میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں-‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دعوت خاص کا تذکرہ فرمایا کہ میرے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا راستہ ادعوا الی اللہ یعنی دعوت الی اللہ ہے اسی آیت پاک کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ سید محمود آلوسی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :
{ادعوا الیٰ اللّٰہ الیٰ ادعوا لناس الیٰ معرفتہ}
’’ دعوت الیٰ اللہ سے مراد لوگوں کو اس کی ذات کی معرفت و پہچان کی طرف دعوت دینا ہے-‘‘
اور یاد رکھیں کہ کسی کی بھی معرفت سے پہلے اس کی عظمت و بزرگی کا کامل اندازہ نہیں لگایا جا سکتا اور پھر اللہ رب العزت کی ذات کی معرفت و پہچان سے پہلے نہ اس کی کامل خشیت نصیب ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس کی کامل بندگی ہو سکتی ہے کیونکہ جس قدر اس کی معرفت بندے کو نصیب ہوتی جائے گی اسی قدر خوفِ خداوندی میں اضافہ ہوتا جائے گا جس قدر معرفتِ الٰہی میں اضافہ ہوگا اسی قدر اسی کی عظمت ، جلال، بزرگی، قدرت اور طاقت جس کا وہ مالک ہے اس کا اندازہ ہوتا جائے گا-تبھی تو قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
{اذا الخشیۃ لا تکون الا بعد المعرفۃ}(۴)
’’خشیتِ الٰہی نہیں نصیب ہوئی جب تک معرفتِ الٰہی نصیب نہیں ہوگی-‘‘
پیرانِ پیر غوث الاعظم دستگیر سیّد نا شیخ عبدالقادر گیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
{من لم یعرفہ کیف یعبدہ}
’’جو شخص س ذات کی معرفت و پہچان نہیں رکھتا وہ اس کی کامل عبادت کیسے کر سکتا ہے-‘‘
ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فقہ اکبر جو امام اعظم ابو حنیفہ کی تصنیف لطیف ہے کی شرح میں مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
{ان اول ما یحب علی العبد معرفۃ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ}(۵)
’’بے شک بندے پر سب سے پہلا وجوب اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی معرفت کا ہے کیونکہ اس کی معرفت و پہچان کے بغیر اس کی کامل طور پر بندگی بج نہیں لا سکتا-‘‘
امام فخرا لدین رازی علیہ الرحمۃ نے تو معرفتِ الٰہی کی تاکید اس حد تک کردی ہے آپ اس آیت مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں:
{فقال یا قوم اعبدوا اللّٰہ ما لکم من الٰہ غیرہ افلا تتبعون}(۶)
قد دعاھم الیٰ معرفتہ اولا لان عبادۃ من لا یکون معلوما غیر جائزۃ انما یجوز و یحب بعد المعرفۃ
’’ انہوں نے فرمایا: اے لوگو! تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تو کیا تم نہیں ڈرتے؟
تحقیق انہیں اولا اس کی ذات کی معرفت و پہچاان کی طرف دعوت دی کیونکہ جسے اس کی ذات کے بارے میں معلوم نہیں اس پر اس کی بندگی بھی جائز نہیں-بے شک اس کی عبادت کا جواز اور وجوب اس کی معرفت کے بعد ہوتا ہے-‘‘
ان تمام اقوال کی تائید صحیح بخاری و صحیح مسلم کی اس روایت سے ہوتی ہے-
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو فرمایا:
{اول ما تدعوھم الیہ عبادۃ اللّٰہ فاذا عرفوا اللّٰہ فاخبرھم ان اللّٰہ فرض علیھم خمس صلوٰت فی یومھم ولیلتھم فاذا فعلوا فاخبرھم ان اللّٰہ فرض علیھم الزکاۃ من اموالھم و ترد علی فقرائھم فاذا اطاعو بھا فخذ منھم }
’’سب سے پہلے تم انہیں دعوت دینا اس کے حضور اس کی عبادت کا (جب وہ جمع ہوجائیں تو دیگر اعمال سے قبل) پس جب اللہ کی معرفت حاصل کر لیں پس انہیں خبر دینا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے رات اور دن میں پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں پس جب وہ ادا کر لیں پھر انہیں خبر دینا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ کو بھی فرض فرما یا ہے ان کے مال میں سے اور س اپنے فقرأ کو دیں پس جب اس پر کامل طور پر کار بند ہوجائیں تو ان سے ان کی زکوٰۃ کا مال پکڑنا-‘‘(۷)
اس حدیث پاک میں عبادت پر معرفت کو مقدم رکھا گیا ہے کیونکہ جس قدر معرفتِ الٰہی میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اسی قدر عبادت کی چاشنی بڑھتی جائے گی- مگر یہ بات لازماً ذہن نشین رہے کہ جس طرح معرفت میں غفلت روا نہیں اِسی طرح عبادت میں بھی ذرہ بھر غفلت روا نہیں - اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اس کی معرفت کیسے نصیب ہوگی اس سوال کا جواب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان مبارک میں موجود ہے-
{من عرف نفسہ فقد عرف ربہ}(۸)
’’جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے رب کو پہچان لیا-‘‘
انسان کی اپنی پہچان پر اس کی پہچان کا انحصار ہے تبھی تو امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
{فان من لم یعرف فکا نہ لم یعرف نفسہ ومن لم یعرف نفسہ فکیف یعرف ربہ}(۹ )
’’ پس بے شک جو اپنی روح کی معرفت نہیں رکھتا گو یا اسے اپنے نفس کی بھی پہچان نہیں اور جو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا وہ اپنے رب کو کیسے پہچان سکتا ہے؟-
اپنے آپ کی پہچان سے مراد یہ ہے کہ تیرا خالق کون ہے؟ اور اس نے تجھے کس مقصد کیلئے تخلیق فرمایا؟
ہم سب کا خالق و مالک اللہ ہے اور اس نے ہمیں اپنی معرفت و پہچان اور اپنی بندگی کیلئے اس دنیا میں بھیجا جو انسان کی اپنی معرفت پر موقوف ہے اس بات کو آسان لفظوں میں سمجھنے کیلئے اتنا جان لینا کافی ہو جاتا ہے کہ انسان کا جسم ، عقل، قلب اور روح - جسم کو انسان اس کی بندگی میں لگا دے، عقل کو علم میں ، قلب کو ذکر میں اور روح کو اس کی معرفت میں لگا دے تب جاکر انسان کی انسانیت کی تکمیل ہوگی-
قاضی بیضاوی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :
{لان القلوب تطمئن بذکرہ والا رواح تسکن الیٰ معرفتہ}
’’بے شک دلوں کا اطمینان اس کے ذکر میں ہے اور روحوں کی تسکین اس ذات کی معرفت میں ہے-‘‘ (۱۰)
جب انسان کو اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے تو انسان کیلئے اس کے قرب کے راستے ہموار ہوجاتے ہیں اور یہ اس کی جستجو کرنے لگتا ہے اور اس کا متلاشی ہو جاتا ہے اور اس کی تلاش میں اپنے اندر سے کھوج شروع کردیتا ہے-سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
الف ایہہ تن رب سچے دا حجرا وچ پا فقیرا جھاتی ھو
ناں کر منت خواج خضر دی تیرے اندر آب حیاتی ھو
شوق دا دیوا بال ہنیرے متاں لبھی وست کھڑاتی ھو
مرن تھیں اگے مر رہے باھوؒؔ جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھو
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
انسان کو اپنے اندر کی کھوج کیلئے {الرفیق ثم الطریق} (۱۱)کے تحت مرشد کامل کی ضرورت پیش آتی ہے جو انسانی وسیع و عریض ملک میں اس کی رہنمائی کرے کیونکہ انسانی ملک کی وسعت -------کے بقول {وسع کرسیہ السموات والارض وھی قلب العارف}تفسیر روح المعانی ، للسید مھمود الوسی
؎ دل دریا سمندروں ڈونگھے کون دلاں دیاں جانڑے ھُو
دورانِ سفر زادِ راہ اور راہبر کی ضرورت ہوتی ہے اس راستے میں راہبر مرشد اکمل ہے اور زادِ راہ حضرت سلطان باھُو اور دیگر اولیائِ کاملین کی تعلیمات میں اسم اعظم یعنی تصورِ اسم اللہ ذات ہے جن کو اپنائے بغیر آدمی منزلِ مقصود تک نہیں پہنچ سکتا-
آئیں اللہ رب العزت کے اس فرمان اقدس کے تحت {ومن احسن قولا ممن دعا الی اللّٰہ} اور اس سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے-
اصلاحی جماعت وعالمی تنظیم العارفین کی یہی دعوت ہے کہ آئیں اپنی عظمتِ رفتہ کے حصول کیلئے انسانیت کی تکمیل کیلئے، معراجِ انسانی کیلئے، تزکیہ ٔ نفس کیلئے، تصفیۂ قلب کیلئے، تجلیۂ روح کیلئے اور معرفتِ الٰہی کے حصول کیلئے اصلاحی جماعت کی اس دعوت کو اپنائیں اور عملی جامہ پہنائیں اسی میں ہمار ا شرف بھی ہے اور فضیلت بھی جیسا کہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
{فان شرف الانسان وکرامتہ بالمعرفۃ والطاعۃ والا فھو کا لانعام بل ھو اضل سبیلا}
’’ پس بے شک انسان کا شرف اور کرامت معرفت (الٰہی) اور فرمانبرداری میں ہے ورنہ جانوروں کی مثل بلکہ وہ راہِ راست سے گمراہ ہے-‘‘(۱۲)
اس لئے ظا ہر کیساتھ ساتھ باطن کی اِصلاح ، نماز کے ساتھ قلبی ذکر ، شریعت کے ساتھ طریقت کو اپنا نے کی دعوت بھی ہے اور ضرورت بھی ہے-
حوالہ جات:
(۱)(الاسراء: ۷۰)
(۲)(اٰل عمران:۱۱۰)
(۳)(یوسف: ۱۰۸)
(۴)( تفسیر بیضاوی ،للقاضی بیضاوی جلد ۵ ص ۳۶۷)، تفسیر روح المعانی،للسید محمود آلوسی جلد ۱۱ ص ۱۳۶)، تفسیر ابی السعود، للمحمد بن محمد العمادی جلد ۹ ص ۹۹)
(۵)(ملا علی القاری فی الشرح علی الفقہ الاکبر للامام ابوحنیفہ)
(۶)(المومنون: ۲۳)
(۷)(الصحیح للامام بخاری ، کتاب الزکوٰۃ) (الصحیح للامام مسلم کتاب الایمان)
(۸)تفسیر البحر المدید ،للاحمد بن محمدبن مہدی ابن عجیبہ )
(۹) احیاء علوم الدین ، للا مام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ
(۱۰)(تفسیر بیضاوی ، للقاضی بیضاوی ،جلد ۱ ص ۲)
(۱۱) الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللّٰہ ،صفحہ ۱۰۴)
(۱۲)(تفسیر مظھری، للقاضی ثناء اللّٰہ پانی پتی)
(بقیہ حوالہ جات:( شہباز ِ من )شہباز عارفاں سلطان محمد عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ )
(۴) (عین الفقر،للسلطان باھُو ص:۲۷۸، ایڈیشن ۲۰۱۴ء ، العارفین پبلیکیشنز لاہور)
(۵) (انٹرویو: حافظ ولی محمد ، ضلع خوشاب کے علاقے ’’آدھی سرگل‘‘ کے رہائشی، سلطان محمد عبد العزیز صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مرید تھے- قرآن پاک انتہائی اچھا پڑھتے تھے- جہاں بھی رمضان شریف آتا آپ انہیں تراویح کے لیے بلاوا لیتے- انہیں دربار حضور پیر صاحب پر بھی تراویح پڑھانے کی سعادت حاصل ہے- ان کا تفصیلی انٹرویو ادارہ ’’مرأۃ العارفین انٹرنیشنل‘‘ کے پاس آڈیو فائل میں محفوظ ہے-
(۶) (البلد:۹۰ ، آیات ۱تا۴) (۷) (انٹرویو: غلام محی الدین خان عرف بابا دُھنو فقیر، آپ کا تعلق کابل (افغانستان) سے تھا- آپ اپنے چچا جرمن کے ساتھ سلطان محمد عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت سلطان الفقر ششم سلطان محمد اصغر علی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی عمر مبارک اڑھائی تین سال تھی- عمر بھر یہیں رہے ، انہیں سلطان الفقر ششم کے تینوں شہزادگان کی خدمت کی سعادت بھی حاصل ہے- ان کے انٹرویو کی آڈیو فائل ادارہ ہذا میں محفوظ ہے-) (۸) (ایضاً)
(۹) (انٹرویو: محمد اشرف خان بلوچ ولد حاجی علی خان، علاقہ: مڈ شریف تحصیل احمد پور سیال ، ضلع جھنگ، انہیں بچپن میں سلطان محمد عبد العزیز صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے وصال سے تین سال قبل آپ کی نسبت نصیب ہوئی- ان کی گفتگو بھی آڈیو کی صورت میں ادارہ ہذا میں محفوظ ہے-) (۱۰) (علامہ محمد اقبال، ’’ارمغانِ حجاز‘‘ فارسی)