ایک مرتبہ پھر طاغوتی طاقتوں نے مسلمانوں کی غیرت کا امتحان لینے کے لئے وہی اوچھی اور ذلیل حرکت کی ہے جو ماضی میں بھی وہ کرتے آئے ہیں اور جسے وہ اظہار رائے کی آزادی کا نام دیتے ہیں اگر یہ اظہار رائے ہے تو ایسی سوچ پر ہزار بار لعنت ! ایسی آزادی پہ ہزار بار لعنت ! ایسے حقِّ اِظہار پہ ہزار بار لعنت! -
مغرب کے یہی وہ استعماری ہتھکنڈے ہیں جنہوں نے آج مسلمانوں کے دلوں میں ان کے لئے نفرت پیدا کردی ہے- فرانس میں بے گناہ مارے جانے والے لوگوں کی موت پہ کِس کو دُکھ نہیں ہوا مگر انتہائی افسوس تو اس بات کا ہے کہ کارٹون بنانے والے بدبخت کی موت پر 40 غیر مُسلم ممالک کے سربراہ اکٹھے ہوکر احتجاج کررہے ہیں جبکہ 56 اسلامی ممالک کے سربراہان میں سے صرف ترکی اور پاکستان کو یہ توفیق ملی ہے کہ وہ سیدالانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کو مجروح کرنے والے ان درندوں کے خلاف زبانی کلامی احتجاج کریں باقی تمام مسلم حکمران بے حسی کی نیند سورہے ہیں یا پھر اپنی عیاشیوں میں بدمست ہیں-
دنیا کے 56 اسلامی ملکوں کے حکمران ہوں یا دانشور… اکثر امریکہ اور یورپ کے دبائو میں وہی کچھ کہنے ، لکھنے اور کرنے پر مجبور ہیں کہ جس سے امریکہ اور یورپ راضی رہیں یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں ایسے کالم نگار موجود ہیں کہ جو آقاو مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کو … اظہار رائے کی آزادی سے تعبیر کرتے ہیں-
مسلمانوں کی صفوں میں ایسے اینکر، اینکرنیاں ، دانشور، سیاستدان اور حکمران بھی گھسے ہوئے ہیں کہ جنہیں حرمت رسولؐ سے زیادہ اپنی جان، مال، کاروبار اور عیاشیوں سے پیار ہے-… جو جان بوجھ کر یہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں کہ … عزت رسولؐ عظمت پیغمبر مصطفیؐ … ساری دنیا اور اس کے مال و متاع سے بڑھ کر ہے… اور یہ مرا کہنا نہیں ہے … بلکہ قرآن پاک کی سورہ توبہ میں اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں کہ
{قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖط }(التوبہ:۲۴)
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (A) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے‘‘-
اس سے بڑا جنگلی، وحشی اور گنوار دوسرا کون ہوسکتا ہے کہ جو امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بناتا ہے؟ ان سے بڑا موذی، بدبخت اور ابوجہل اور کون ہوسکتے ہیں کہ جوان گستاخانہ خاکوں کو شائع کرتے ہیں یا پھر جو اسے اظہار رائے کی آزادی قرار دیتے ہیں؟… مسلمانوں کو ایسے کم ظرف گھٹیا لوگوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جن کی ہمدردیاں … نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ ہوں-
مسلمان زندہ رہیں یا مر جائیں… لیکن اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و حرمت پر کٹ مرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں… جب مسلمان حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کرام پر نہ صرف یہ کہ ایمان رکھتے ہیں… بلکہ ان میں سے کسی نبی کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کو جرم اور کفر سمجھتے ہیں تو پھر یہودی دنیا ہو ، ہندو ہوں، بدھ مت ہوں یا عیسائی دنیا کے لیڈران اور ان کے حامی … دانشور… انہیں یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ … ان سب کو بھی …پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و ناموس کا دھیان رکھنا پڑے گا-
انبیاء کرام کا مقام ساری دنیا کے عام انسانوں ، حتیٰ کہ علماء ، اولیاء، اصفیاء اتقیاء سے بلند و بالا ہوتا ہے- عام آدمی کا کارٹون یا کسی بھی نبی کا نعوذ باللہ کارٹون بنانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے… اور پھر نبی بھی وہ کہ جو تمام انبیاء کے امام بنے… رسول بھی وہ کہ جو تمام رسولوں میں اعلیٰ و ارفع ہوئے … محبوب بھی وہ … کہ جو اللہ کے پیارے محبوب کہلائے… اور جن سے محبت اور عشق کا معیار خود خالق کائنات نے قرآن میں مقرر کردیا ہو-اس رسول امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا ان کے خلاف بدنیتی سے گستاخانہ تحریر لکھنا ان کے مقابلے میںمسلیمہ کذاب یا مرزا غلام قادیانی کی طرح جعلی نبوت کا دعویٰ کرنا … یا اُن کے متعلق طنزیّہ لب و لہجہ اختیار کرنا … یا اُن کا اسمِ گرامی توہین آمیز لہجے میں پُکارنا…یا اُن کی جلالتِ شان کے منافی جُملے یا الفاظ بولنا … یا ان کے خلاف گستاخانہ خاکے چھاپنا یہ سب وہ قبیح ترین جرائم ہیں کہ جن کو کوئی بھی سچا عاشق رسول ؐ کسی قیمت پر برداشت کر ہی نہیں سکتا-
پاکستان کی قومی اسمبلی نے فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کی ہے-قرارداد میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے- ریاستوں کو عالمی کنونشن پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کے جذبات اور مذہب پر حملے کی اجازت نہیں دینا چاہئے - حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کرنا تشدد کو ہوا دینے کی دانستہ کوشش ہے ، کسی کو بھی اسلام کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے- وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے سینٹ سے بھی منظور کرایا جائے گا، قومی اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد ارکان پارلیمان نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا-
فرانس کے جریدے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاکے کی اشاعت دراصل آزادی اظہار کے نام پر ایسی گھنائونی سازش ہے جس کا ہدف دنیا بھر کے معاشروں کو تہذیبی ، سماجی، نظریاتی اور مذہبی بنیادوں پر خونریز تصادم کی راہ پر ڈالنا ہے- پیرس سے شائع ہونے والا جریدہ ’’چارلی ایبڈو‘‘ چار دہائیوں سے اس سازش کو ہوا دے رہا ہے- ڈنمارک، جرمنی اور بعض دوسرے ممالک کے رسائل و جرائد بھی آزادی اظہارکے نام پر اسلام اور مذاہب عالم کی توہین کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں، صحافت کی اس نام نہاد آزادی اور یورپی حکومت کی منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ یورپ کے مختلف ممالک میں اسلام کے حق اور مخالفت میں ریلیاں نکل رہی ہیں چند روز پہلے’’چارلی ایبڈو‘‘ پر حملے اور اس کے نتیجے میں 17 افراد کی ہلاکت کے بعد بھی پیرس میں دنیا بھر سے 40ممالک کی قیادت نے ’’ میں چارلی ہوں‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے یونٹی مارچ کیا جس میں آزادی اظہار کے نام نہاد ایجنڈے کو تحفظ دینے کا اعلان کیا-امریکہ نے اعلیٰ سطح پراس ریلی میں شریک نہ ہوسکنے پر افسوس کا اظہار کیا- غالباً اسی تاسف کااثر ہے کہ گزشتہ روز ایک امریکی اخبار میں صدر اوباما اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا مشترکہ مضمون بھی شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو بھی اظہار رائے کی آزادی کو دبانے کی اجازت نہیںدی جائیگی- اس مضمون میں امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے فرانسیسی جریدے پر حملے کی مذمت بھی کی ہے اور حملہ آوروں کو وحشی قاتل قرار دیتے ہوئے دنیا میں صحافت کی آزادی کے تحفظ کا عزم کا اظہار کیا ہے- ہم سمجھتے ہیں کہ رائے کی آزادی ہو یا صحافت کا آزادانہ کردار اس سے دنیا کے کسی ملک کو اختلاف نہیں- ہر مہذب معاشرہ اور قوم رائے کی آزادی پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے- تاہم سوال یہ ہے کہ رائے کی آزادی سے دنیا کیا مراد لیتی ہے؟اپنے خیالات ، نظریات، فلسفہ حیات کو مہذب انداز میں سامنے لانا اور دوسروں کی سوچ کا احترام کرتے ہوئے اپنے مؤقف پر آواز بلند کرنا توآزادی اظہار کے زمرے میں آتا ہے اور ہر مہذب فرد اس آزادی کا احترام بھی کرتا ہے- اس کے مقابلے میں آزادی رائے کو محض اپنے مفادات اور مخصوص سوچ کو ہر قیمت پر آگے بڑھانے کا نام نہیں دیا جاسکتا- فرانس کے جس جریدے پر حملہ کیا گیا اس کی انتظامیہ 40 سال سے آزادی اظہارکے نام پر جس طرح سے دنیا کے مذاہب خاص طور پر اسلام کا تمسخر اڑا رہی تھی کم از کم اسے کسی صورت آزادی اظہار کا نام نہیں دیا جاسکتا- دنیا بھر کے مہذب حلقے اس بات کو مانتے ہیں کہ جس طرح ’’چارلی ابیڈو‘‘ پر حملہ سفاکانہ عمل تھا اس سے بھی بڑھ کر سفاکیت کا مظاہرہ یہ جریدہ توہین مذہب کے ذریعے ایک عرصے سے کرتا آرہا تھا، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ہولناک حملے کے بعد بھی اس جریدے نے اپنی انتہاپسندانہ روش کو ترک نہ کیا- ایسے میں امریکہ اور برطانیہ سمیت جن ممالک کی قیادت فرانسیسی جریدے کی آزادی اظہار رائے کے نام پر اندھی حمایت کررہی ہے اسے سوچنا ہوگا کہ ایسی صحافتی روش جس سے تہذیبوں میں تصادم کی راہ ہموار ہورہی ہو ، کس طرح آزادی اظہار رائے کے دائرے میں آسکتی ہے-