گستاخانِ رسولﷺ کے عبرت ناک انجام

گستاخانِ رسولﷺ کے عبرت ناک انجام

گستاخانِ رسولﷺ کے عبرت ناک انجام

مصنف: مفتی محمد شیرالقادری فروری 2021

گستاخِ رسول (ﷺ) کو زمین نے قبول نہ کیا:

صحیح بخاری میں حضرت انس (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے :

’’ایک نصرانی اسلام لایا اور اس نے سورہ بقرہ اورسورہ آل عمران پڑھی، وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کا کاتب بن گیا پھر وہ نصرانی ہو گیا اور وہ کہتا (معاذ اللہ) سیدنا محمد (ﷺ) اتنا ہی جانتے ہیں جتنا میں لکھ دیتا ہوں،اللہ عزوجل نے اس (لعین) کو ہلاک کردیا- پس لوگوں نے اسے دفن کیا جب صبح ہوئی تو(انہوں نے دیکھا کہ) زمین نے اس کی لاش کو باہر پھینک دیا، کہنے لگے یہ حضور نبی کریم(ﷺ) اور آپ (ﷺ) کے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)  کا عمل ہے جنہوں نے ہمارے ساتھی کو (قبر سے نکال کر) پھینک دیا کیونکہ یہ ان سے بھاگ گیاتھا-انہوں نے اس کے لئے خوب گہری قبر کھودی جتنی وہ کھود سکتے تھے مگر جب صبح ہو ئی دیکھا تو زمین نے اسے باہر پھینک دیاتھا تب انہیں یقین آیا کہ یہ لوگوں کا فعل نہیں پھر انہوں نے اس کو زمین پرڈال دیا‘‘-[1]

تاریخ کا انوکھا واقعہ ’’جب کتے نے ناموس رسالت مآب (ﷺ)پہ پہرادیا‘‘:

یہ بات ہر مسلمان کی قلوب و اذہان میں راسخ رہے کہ اللہ پاک کام لینا چاہے تو ابابیلوں کے لشکر بھیج کر کعبہ کو بچا سکتا ہے اسی طرح وہ ذاتِ اقدس اگر چاہے تو جس سے چاہے ناموس رسالت مآب (ﷺ) پہ پہرا دِلوا سکتی ہے- جیساکہ امام ابن حجر عسقلانیؒ رقم طراز ہیں:

’’مغلوں میں سے ایک بڑے امیر نے عیسائیت قبول کی تو عیسائیوں اورمغلوں کی بڑی جماعت اس کے پا س آئی، ان میں سے ایک نے حضورنبی رحمت (ﷺ)کی شانِ اقدس میں گستاخی کی اور وہاں ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا تو جب اس (بدبخت عیسائی )نے حدسے تجاوز کیا تو وہ کتا اس پہ جھپٹا اور اس کو زخمی کر دیا تو وہاں لوگوں نے اس کو بچایا اور ان میں سے ایک نے کہا کہ یہ (کتے کا حملہ) تیرے حضور نبی کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس میں عیب جوئی  کی وجہ سے ہے تو وہ (بدبخت )کہنے لگا ہرگز نہیں بلکہ (معاملہ یہ ہے کہ) یہ کتا بڑا غیرت مند ہے اور جب میں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تو اس نے سمجھاکہ میں اس کو مارنا چاہتا ہوں پھر اس نے دوبارہ پہلے والی (گستاخانہ گفتگو) شروع کردی اورگفتگو کو لمبا کیا تو دوبارہ کتے نے حملہ کیااوراس کو جان سے مار ڈالا-یہ واقعہ دیکھ کر  چالیس ہزار مغلوں نے اسلام قبول کرلیا‘‘-[2]

گستاخ کے خون کو کتا بھی منہ نہیں لگاتا:

امام محمد بن یوسف الصالحی کے علاوہ  قاضی عیاض مالکیؒ ’’الشفا ‘‘ میں اور محمد بن موسیٰ الدمیریؒ نے حیات الحیوان الکبرٰی میں درج کیا ہے -

’’فقہاء قیروان اور سُحْنُوْن والوں نے ابراہیم فزاری کے قتل کا فتوٰی دیا یہ بہت بڑاشاعر اور بہت سے علوم کا ماہر تھا- قاضی ابو العباس بن طالب کے ہاں یہ بھی مناظرے کی مجالس میں شرکت کرتا تھا- ایک مرتبہ دوران مناظرہ اس نے اللہ رب العزت کی شان اقدس، انبیاء کرام (علیھم السلام) اور با لخصوص حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان اقدس میں بے ادبی و گستاخی اور استہزا و تمسخر کا ارتکاب کیا اس کو قاضی یحیٰ بن عمر اور دیگر فقہاء کرام کے پا س لایاگیا تو انہوں نےاس بناء پر اس کے قتل اور سولی کا فتوٰی دیا تو اس کےپیٹ کو چھری سے چاک کیا گیا اور اس کو الٹا لٹکا کر سولی دی گئی پھر اس کو جلا دیا گیا، جس لکڑی پر اسے سولی دی گئی وہ گھومی اس کا رخ سمت قبلہ سے پھر گیا یہ سب کیلئے ایک عبرت ناک نشانی تھی- وہاں موجود سب لوگوں نے با آواز بلند اللہ اکبر کہا پھر ایک کتا آیا اور اس کا خون چاٹنے لگا تو یہ منظر دیکھ کر یحیٰ بن عمر کہنے لگے کہ آقا کریم (ﷺ) نے سچ فرمایا -پھر فرمانِ رسول (ﷺ)  سنایا :

’’لَا يَلَغُ الْكَلْبُ فِي دَمِ مُسْلِمٍ‘‘[3]

’’کتا کسی مسلمان کا خون نہیں چاٹتا‘‘-


[1](بخاری شریف، کتاب المناقب)

[2](الدُّرَر الكامنة لامام ابن حجر عسقلانیؒ)

[3]( سبل الهدى والرشاد، ج:12،ص:23)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر