خاتم النبیّین (ﷺ) کی محبت اور تکریم ہر مسلمان کے لیے سرمایہ حیات ہے اور اس کے بغیر کوئی مسلمان ایمان کاتصور ہی نہیں کرسکتا؛اور یہی چیز اہلِ اسلام کو دنیا کی دیگر مذہبی روایات سے ممتاز کرتی ہے -اہلِ اسلام کا یہ تہذیبی سرمایہ ہمیں اندھیروں میں روشنی دکھاتا ہے اور مایوسیوں سے نجات دلاتا ہے ، جب تک مسلمان کا دل اس جذبہ سے سر شار اور آباد رہتا ہے وہ کبھی اغیار سے مغلوب نہیں ہوتا- اِسی تہذیبی دولت و سرمایہ کی تپش و حرارت سے مسلمانوں نے ہزار برس سے زائد تک دنیا کے سامنے علمی، عملی، معاشی و ریاستی اور فکری و فنی محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے -عالمِ کفر نے اسی بات کو مسلمانوں کی کمزوری بنانا چاہا ہے اور پچھلے 200 سال میں ایسے ایسے فتنے اور فرقے عالمِ اسلام میں پھیلا دیئے جن کی کاوشوں کا مقصد اولین یہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کے قلوب و اذہان سے عشق و ادبِ رسول (ﷺ) کے والہانہ جذبوں کو کم کیاجائے- حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ نے ان کی اس بدنیتی کو یوں بے نقاب کیا:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا |
مسلمان جب بھی اپنے آقا کریم (ﷺ)سے والہانہ تعلق کی بات کرتاہے تو غیرمسلم اور عملی و فکری طور پہ مغلوب و مفلوج نام نہاد روشن خیال بنیاد پرستی کا طعنہ دے کر اس جذبے کو سرد کرنے اور خود مصلح بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں - اسی سے ملتی جلتی بات آج سے 1400سال پہلے منافقین نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کو مصلح بن کرکہی تھی تو اللہ پاک نے ان منافقوں کےبارے میں ارشاد فرمایا:
’’اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ‘‘[1]
’’خبردار! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں‘‘-
خاتم النبیّین (ﷺ) کی اطاعت ہی اسلام ہے، قرآن مجید میں اطاعت و اتباع کے ساتھ ساتھ آپ (ﷺ) کی تعظیم ، تکریم اور ادب کی بھی تاکید کی گئی ہے-قرآن کریم میں تعظیم و ادب بجا لانے والوں کی تحسین کی گئی، انہیں اجرِ عظیم اور بخشش کی نوید سنائی گئی جبکہ اس کے بر عکس آداب و تعظیم سے غفلت برتنے والوں کو تنبیہ بھی کی گئی اور درد ناک عذاب کا انجام بھی سنایا گیا-آپ (ﷺ) کو ایذا پہنچانے والوں اور گستاخی کرنے والوں کیلئے سخت احکامات نازل ہوئے - یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی زندگیاں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) اور ادبِ مصطفےٰ (ﷺ) سے عبارت ہیں ، مثلاً آپ (ﷺ) کا خون مبارک زمین پہ نہ گرانا، وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دینا بلکہ اسے اپنے اجسام پہ ملنا ، موئے مبارک سنبھال کر رکھنا حتیٰ کہ آقا کریم (ﷺ) کے لعاب شریف سے شفا اور برکت حاصل کرنا - اما م احمد رضا خان قادریؒ نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) کی حیات مبارکہ کانقشہ یوں بیان کیا:
حسن یوسفؑ پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں |
ویسے تو کئی مقامات پہ قرآن مجید میں خاتم النبیّین (ﷺ) کی تعظیم و توقیر کے احکامات ہیں ، آئیے! اُن میں سے چند ایک مقامات پہ نظر ڈالتے ہیں :
1-’’اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا لا لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ‘‘ [2]
’’بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو ‘‘-
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ اس آیت کی تفسیر میں محی السنۃ امام بغوی خراسانیؒ کا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ضَمِيْرُ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ رَاجِعَانِ اِلىَ رَسُوْلِهٖ‘‘[3]
’’تُعَزِّرُوْهُ‘‘ اور ’’تُوَقِّرُوْهُ‘‘ کی دونوں ضمائر (واؤ کے بعد آنے والی ’’ہ‘‘) رسول اللہ (ﷺ) کی طرف راجع ہیں‘‘-
یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ الفاظ کی زیادتی معانی کی زیادتی پہ دلالت کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ میرے محبوب کریم (ﷺ) کی حد درجہ تعظیم و توقیر کرو-
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور نبی رحمت(ﷺ) کی تعظیم وتوقیر آپ کی حیات مبارک میں اور وصال مبارک کے بعد بھی لازم ہے- جیسا کہ عظیم مفسرِ قرآن علامہ اسماعیل حقیؒ رقم طرازہیں:
’’يجب على الامة ان يعظموه عليه السلام و يوقروه فى جميع الأحوال فى حال حياته و بعد وفاته فانه بقدر ازدياد تعظيمه و توقيره فى القلوب يزداد نور الايمان فيها‘‘[4]
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کی ظاہری حیات مبارکہ اور وصال مبارک کے بعد تمام احوال میں آپ(ﷺ) کی تعظیم و توقیر بجا لانا امت پر واجب ہے کیونکہ دلوں میں حضور نبی رحمت (ﷺ) کی جتنی تعظیم بڑھے گی اسی قدر ایمان بڑھے گا‘‘-
2-’’یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًطذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُ‘‘ [5]
’’اے ایمان والو جب تم رسول اللہ (ﷺ)سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے‘‘-
سبحان اللہ! کیاتعظیمِ مصطفٰے (ﷺ) کی تعلیم دی جا رہی ہے کہ میرے حبیب مکرم (ﷺ) سے بات کرنی ہوایسے نہ آجایاکرو بلکہ پہلے کچھ صدقے کا اہتمام کرو-اس پہ سیدنا علی المرتضیٰ شیرِخدا (رضی اللہ عنہ) نے عمل فرمایا اورصدقہ دے کرکچھ مسائل عرض کرکے ان کا جواب طلب کیا،تو بعدمیں صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم)کی غربت وتنگدستی کی وجہ سے یہ حکم منسوخ ہو گیا-
ان جیسی متعدد آیات مبارکہ تعظیم و تکریمِ رسول (ﷺ) و ادبِ رسول (ﷺ) کو روزِ روشن کی طرح عیاں کرتی ہیں -
اگرچہ اس موضوع کی نزاکت کی وجہ سے آئمہ دین نے جہاں کئی کتب مرقوم کی ہیں وہاں محدثین ومفسرین نے بھی اس پہ سیرحاصل گفتگو فرمائی ہے -
بے ادبی یا گستاخی کرنے والوں کو قرآن پاک کی تنبیہہ:
1-’’ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ‘‘ [6]
’’اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘-
جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی توحضرت ثابت بن قیس بن شماس(رضی اللہ عنہ) اپنے گھر میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر کے اشک بار ہوگئے-جب رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں اپنے پاس حاضر نہ پایا تو فرمایا: ثابت کو کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے عرض کی کہ بس اتنا معلوم ہے کہ انہوں نے اپنے اوپر گھر کا دروازہ بند کیا ہوا ہے اور وہ رو رہے ہیں-تو رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں بلاوا بھیجا اور پوچھا: تجھے کیا ہوا؟ عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ) جب اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) پر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور مَیں تو اونچی اور زوردار آواز والا ہوں، پس میں ڈرتا ہوں کہ میرے عمل ضائع ہو گئے- آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’لَسْتَ مِنْهُمْ ،بَلْ تَعِيْشُ بِخَيْرٍ وَّتَمُوْتُ بِخَيْرٍ‘‘[7]
’’تُو ان میں سے نہیں ہے بلکہ تو خیرکےساتھ زندہ رہے گا اورخیر کے ساتھ مرے گا‘‘-
ادب و تعظیم کی مثال بن جانے والے صحابہ و صحابیات کی تحسین میں قرآن پاک میں یہ حکم نازل ہوا :
2- ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰیط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ‘‘[8]
’’بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کیلئے پرکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے‘‘-
اور بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ)کاادب کالحاظ نہ رکھنے والوں کے بارے میں ارشادفرمایا:
3- ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ ‘‘[9]
’’بیشک وہ جو آپ (ﷺ) کو حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں‘‘-
ان آیات مبارکہ میں غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت حضور نبی کریم(ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں آوازوں کو پست رکھنے کا حکم ارشاد فرماتا ہے اور کاشانہ اقدس کے باہر بلند آواز سے بلانے کو بھی بے عقلی کے دائرہ میں شمارفرماتا ہے- اب سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ احکام تو حضور نبی کریم (ﷺ) کی حیات مبارک کے ہیں-اب 14 صدیاں گزرنے کے بعد ان کی وہ حیثیت نہیں رہتی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن کثیرؒ سورۂ حجرات کی انہی آیات مبارکہ کی تفسیر میں روایت نقل فرماتے ہیں:
’’امیر المومنین حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) نے دو آدمیوں کو بآوازِ بلند مسجد نبوی (ﷺ) میں گفتگو کرتے سنا، آپ (رضی اللہ عنہ) تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ کہاں ہو؟پھر پوچھا تم کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم طائف سے ہیں- آپ (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: اگر تم اہل مدینہ سے ہوتے تو مَیں تمہیں سخت سزا دیتا‘‘-[10]
علامہ ابن کثیرؒ مزیدلکھتے ہیں کہ اسلاف کا کہنا ہے:
’’يُكْرَهُ رَفْعُ الصَّوْتِ عِنْدَ قَبْرِہٖ، كَمَا كَانَ يُكْرَهُ فِيْ حَيَاتِهٖ لِأَنَّہٗ مُحْتَرَمٌ حَيًّا وَفِيْ قَبْرِهٖ، صَلَوَاتُ اللهِ وَ سَلَامُهٗ عَلَيْهِ دَائِمًا‘‘
’’آپ (ﷺ) کی قبر اطہر کے پاس آواز بلند کرنا اسی طرح منع ہےجس طرح آپ (ﷺ) کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں ممنوع تھا-کیونکہ ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی آپ (ﷺ) محترم ہیں اور اپنی قبر میں بھی ہمیشہ آپ (ﷺ) کا احترام لازمی ہے آپ (ﷺ) کی ذاتِ بابرکات پر ہمیشہ صلوٰۃ و سلام ہو‘‘-
اللہ تعالیٰ کے فرمان مبارک’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ أَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ‘‘کی تفسیر میں علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے کہ ہم نے آپ (ﷺ)کی بارگاہ ِ اقدس میں رفعِ صوت سے اس لیے منع فرمایا کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ آپ (ﷺ) اس سے رنجیدہ خاطر ہوں کیونکہ اللہ رب العزت آپ (ﷺ) کے ناراض ہونے سے ناراض ہوتاہے اور اللہ تعالیٰ اس کے اعمال ضائع فرما دیتا ہے جس پہ ناراض ہوتاہے اس حال میں کہ اس کو علم بھی نہیں ہوتا‘‘-[11]
4-’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا‘‘[12]
’’اے محبوب(ﷺ) تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تم حکم فرمادو اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں اور جی سے مان لیں‘‘-
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدیؒ نے دو روایات مبارکہ (بحوالہ بخاری شریف اور جامع البیان) رقم فرمائی ہیں:
1-ایک انصاری اورحضرت زبیر (رضی اللہ عنہ) کا پانی پہ جھگڑا ہوا، معاملہ آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں پیش ہو ا-آپ (ﷺ) نے فیصلہ حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) کے حق میں فرما دیا-انصاری اس فیصلہ پہ رضامند نہیں ہوا تو حضرت زبیر(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے یہ آیت مبارک ’’فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ---‘‘نازل فرمائی‘‘-[13]
2- ایک یہودی اور منافق کے جھگڑے کا معاملہ آقا کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں پیش ہوا- آپ (ﷺ) نے معاملہ کی سماعت کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں فرما دیا تو اس منافق نےا فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کیا اور کہا کہ کعب بن اشرف سے فیصلہ کروانا ہے تو حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ)نے اس کا سرقلم فرما دیا تو اللہ پا ک نے (اس منافق کا خون رائیگاں فرماتے ہوئ )یہ آیت مبارک نازل فرمائی ‘‘-
ان روایات کو رقم کرنے کے بعد علامہ غلام رسول سعیدیؒ فرماتے ہیں:
’’اس آیت سے معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کے فیصلہ کونہ ماننے والا مومن نہیں ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان ایک فیصلہ کو بظاہرمان لیتا ہے لیکن دل سے قبول نہیں کرتا اس لیے ارشاد فرمایا کہ وہ آپ(ﷺ) کے کیے ہوئے فیصلہ کے خلاف دل میں بھی تنگی نہ پائیں بعض اوقات ایک عدالت سے فیصلہ کے بعد اس سے اوپر کی عدالت میں اس فیصلہ کے خلاف رٹ کرنے کا اختیار ہوتا ہے جیسے ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ کی جاسکتی ہے لیکن حضور نبی کریم (ﷺ) کے فیصلہ کرنے کے بعد پھر کسی عدالت میں اس فیصلہ کے خلاف رٹ نہیں کی جا سکتی، اس لیے بعد میں فرمایا اس فیصلہ کو خوشی سے مان لواس آیت سے یہ بھی معلو م ہواکہ حضور نبی کریم (ﷺ) جو فیصلہ فرما دیں وہ خطا سے مامون اورمحفوظ بلکہ معصوم ہوتا ہے- یہ حکم قیامت تک ہے اگر کوئی شخص کتنا ہی عبادت گزار ہو لیکن اس کے دل میں یہ خیال آئے کہ اگر حضور نبی کریم (ﷺ) ایسا نہ کرتے اور ایسا کرتے تو وہ مومن نہیں رہے گا‘‘- [14]
5-اللہ عزوجل اور اس کے حبیب (ﷺ) کی مخالفت کی سزا دینے کے لیے تو اللہ پاک نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ان کے ٹکڑے کریں اور ساتھ اس کی وجہ بھی ارشاد فرمائی جیسا کہ فرمان ِ باری تعالیٰ ہے :
’’اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاطسَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ‘‘[15]
’’جب اے محبوب(ﷺ) تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت رکھو عنقریب میں کافروں کے دلوں میں ہیبت ڈالوں گا تو کافروں کی گردنوں سے اوپر مارو اور ان کی ایک ایک پور(جوڑ) پر ضرب لگاؤ ‘‘-
’’ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ شَآقُّوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ج وَ مَنْ یُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘[16]
’’یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے مخالفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) سے مخالفت کرے تو بے شک اللہ کا عذاب سخت ہے‘‘-
6- ’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا‘‘
’’بیشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘-
’’حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)ارشادفرماتے ہیں کہ یہ آیت مبارک ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضورنبی کریم (ﷺ) کی بارگاہ اقدس میں طعن(بے ادبی وگستاخی ) کی اورگویا یہ جواب ہے اس کو جس نے سوال کیا کہ ہمیں اللہ عزوجل کے حبیب مکرم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس پہ صلوٰۃ و سلام کاحکم دیا گیا ہے تو جس نے آپ (ﷺ) کو ایذاء دی ا س کے بارے میں کیاحکم ہے تو اللہ پاک نے یہ آیت نازل فرمائی- [17]
7- ’’یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْاط وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘[18]
’’اے ایمان والو ’’رَاعِنَا‘‘ نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور(ﷺ) ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور (رسول اللہ (ﷺ) کا مذاق اڑانے والے گستاخ) کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ‘‘-
امام رازیؒ حضرت سعد بن عبادہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ :
’’آپ (رضی اللہ عنہ) نے اس آیت مبارک سے ان سے (یعنی یہودیوں کو اس آیت مبارک کا غلط معانی و مفہوم لیتے ہوئے) سنا تو فرمایا:اے اللہ کے دشمنو! تم پر اللہ عزوجل کی لعنت ہو (مزید ارشاد فرمایا)
’’وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ سَمِعْتُهَا مِنْ رَجُلٍ مِنْكُمْ يَقُولُهَا لِرَسُولِ اللَّهِ لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ‘‘[19]
’’اورقسم ہے اس ذات اقدس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں نے کسی کو سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے بارےیہ بات کہتے ہوئےسنا تو میں اس کی گردن اڑادوں گا‘‘-
احادیث مبارکہ کی روشنی میں :
1- حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے مروی ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’ مَنْ آذَى شَعْرَةً مِنِّي فَقَدْ آذَانِي وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى الله ‘‘[20]
’’ جس نے میرے ایک بال کو ایذا پہنچائی اس نے مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی یقیناً اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی‘‘-
2: حضرت شعبی (رضی اللہ عنہ) حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا (رضی اللہ عنہ) سے روایت بیان فرماتے ہیں:
’’أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ (ﷺ) وَتَقَعُ فِيْهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ النَّبِيُّ (ﷺ) دَمَهَا‘‘[21]
’’ایک یہودیہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو سب و شتم کرتی تھی اور آپ (ﷺ) کی ذاتِ اقد س میں عیب تلاش کرتی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتی کہ وہ مر گئی تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے اس کے خون کو رائیگاں قرار دیا (یعنی بدلہ قصاص و دیت کی صورت میں بدلہ نہیں دلوایا)‘‘-
3-حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ)سےروایت ہے:
’’ایک آدمی کی لونڈی تھی جس سے اس کے موتیوں جیسے دو بیٹے تھے اور وہ حضور نبی کریم (ﷺ) کو (معاذ اللہ) بُرا بھلا کہتی -وہ اسے منع کرتا اور جھڑکتا لیکن وہ نہ رکتی اور نہ باز آتی- ایک رات وہ اسی طرح رحمتِ کائنات (ﷺ) کا (نا مناسب الفاظ میں) ذکرکرنے لگی جس پر اس صحابی رسول (ﷺ) کو صبر نہ ہوا تو اس نے ایک خنجر اٹھا کر اس کے پیٹ میں مارا اور اس پرٹیک لگائی یہاں تک وہ اس (ملعونہ) کے آرپار ہوگیا تو رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا:
’’أَشْهَدُ أَنَّ دَمَهَا هَدَرٌ‘‘[22]
’’میں گواہی دیتاہوں کہ اس کا خون رائیگاں ہے‘‘ -
(بالفاظِ دیگر خاتم النبیّین (ﷺ) نے عملِ صحابی کی تائید فرمائی ) -
4-حضرت كعب بن زُہَير (رضی اللہ عنہ) نے (قبول ِ اسلام سے پہلے) جب حضور رسالت مآب(ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں بے ادبی وگستاخی کی توآپ(ﷺ) نے ارشادفرمایا:
’’مَنْ لَقِيَ كَعْبًا فَلْيَقْتُلْهُ‘‘[23]
’’جس کو کعب ملے وہ اس کو قتل کردے ‘‘-
’’حضرت کعب بن زُہَیْر (رضی اللہ عنہ) نے معافی مانگی اور اللہ پاک نے ان کو اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا پھر حضرت زہیر(رضی اللہ عنہ) کو حضور نبی رحمت (ﷺ) کی شان میں نعتیں لکھنے کا شرف حاصل ہوا،آپ (رضی اللہ عنہ) کا ایک مشہور شعر یہ ہے :
إِنَّ الرَّسُولَ لَنُورٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ |
|
’’بیشک رسول اللہ (ﷺ)(اللہ عزوجل) کے نور ہیں اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی شمشیروں میں تنی ہوئی تلوار ہیں ‘‘-
5- امام نسائی نے روایت کیا ہے حضرت مصعب (رضی اللہ عنہ) اپنے والد محترم سے بیان کرتے ہیں کہ:
’’فتح مکہ کے دن حضور نبی کریم(ﷺ)نے تما م لوگوں کیلئے عام معافی کا اعلان فرمایاسوائے چار (گستاخ) مردوں اور دو عورتوں کے- (ان کے بارے میں)آپ (ﷺ) نے اپنی زبان گوہرفشاں سے ارشادفرمایا:
’’اُقْتُلُوهُمْ، وَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمْ مُتَعَلِّقِينَ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ‘
’’( وہ جہاں کہیں بھی ملیں ) انہیں قتل کر دو اگرچہ انہیں کعبہ شریف کے پردوں سے ہی چمٹے ہوئے پاؤ‘‘
(انہی چارمردوں میں سے )ابن اخطل[25] کعبہ کے پردوں میں لپٹاہوا پایا گیا-اسے قتل کرنے کیلئے حضرت عمار بن یاسر (رضی اللہ عنہ) اور حضرت سعید بن حریث (رضی اللہ عنہ) اس کی طرف بڑھے-حضرت سعید بن حریث (رضی اللہ عنہ) حضرت عمار (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ نوجوان تھے آپ (حضرت سعید بن حریث (رضی اللہ عنہ) نے آگے بڑھ کر اسے قتل کر دیا اسی طرح ’’مَقِيسُ بْنُ صُبَابَةَ‘‘ کو صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے بازار میں پایا اور قتل کر دیا ‘‘-[26]
یاد رہے کہ اس دن مکہ میں گستاخوں کے ساتھ ساتھ اسلام کے بدترین دشمن موجود تھے، سب کو معافی ملی لیکن ابن اخطل ملعون کو کعبہ کے پردوں میں چھپنے کے باوجود واصلِ جہنم کیا گیا-حالانکہ عقلاً تو اسے حرم پاک سے دور واصلِ جہنم کیا جاتا لیکن حضور رسالت مآب (ﷺ) کی بارگاہ ِ اقدس سے حکم مبارک ملتا ہے کہ ا س کو وہیں قتل کر دو- ہمارے قلوب و اذہان میں یہ بات راسخ رہے کہ حضورنبی کریم (ﷺ)کے اقوال و افعال مبارکہ منشاء خداوند ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے خود ارشاد فرمایا:
’’وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ط اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى‘‘[27]
’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتےوہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے‘‘-
6-حضرت عبد اللہ ابن عباس (رضی اللہ عنہ) روایت بیان فرماتے ہیں کہ :
’’سیدنا رسول اللہ (ﷺ) نے ایک شخص کواپنا خط مبارک عطا فرما کر روانہ فرمایا اور اس کو حکم فرمایا کہ وہ بحرین کے امیر کو دے، بحرین کے امیر نے وہ خط کسرٰی کو دے دیا-جب کسرٰی نے اس کو پڑھا تو اس (بدبخت) نے اس کو پھاڑ دیا- ابن شہاب (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں: میراگمان ہے کہ ابن المسیب (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ( ﷺ) نے ان کے خلاف دعا ضرر فرمائی کہ:
’’أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ‘‘[28]
’’ وہ بالکل ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں‘‘-
علامہ ابن حجر عسقلانی(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :
’’اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی اس دعا کو قبول فرمایا اور کسرٰی کے بیٹے شيرویہ کو اس پر مسلط فرمایا اس نے اپنے باپ کوقتل کردیا‘‘-[29]
7-حضرت حُصَين بن عبدالرحمٰن (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) ایک راہب کے پاس سے گزرے تو آپ (رضی اللہ عنہ) کوعرض کی گئی کہ یہ(بدبخت) حضور نبی کریم (ﷺ) کو سب و شتم کرتا تھا اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا:
’’لَوْ سَمِعْتُهُ لَقَتَلْتُهُ إِنَّا لَمْ نُعْطِهِمُ الذِّمَّةَ لِيَسُبُّوا نَبِيَّنَا (ﷺ)[30]
’’اگر میں اس سے حضور نبی کریم (ﷺ) کے حق میں سب و شتم سنتا تو اسے قتل کر دیتا کیونکہ ہم نے ذمیوں کو اس بات پر عہد و اماں نہیں دیا کہ وہ حضور (ﷺ) کی گستاخی و بے ادبی کرتے پھریں ‘‘-
8-حضرت ابونوفل(رضی اللہ عنہ) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’لھب بن ابولھب حضور نبی کریم (ﷺ) کی شانِ اقدس میں نازیبا کلمات کہتا تو حضور نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’اَللَّهُمَّ سَلِّطْ عَلَيْهِ كَلْبَكَ‘‘
’’الٰہی اپنے درندوں میں سے ایک درندہ اس پر مسلط کر دے‘‘-
’’ایک دن اس نے ایک قافلے میں ملک شام جانے کا ارادہ کیا اورایک مقام پہ پڑاؤ کر کے کہنے لگا کہ میں حضور نبی کریم (ﷺ) کی دعا (ضرر) سے ڈرتاہوں تو قافلے والوں نے کہا ہرگز ایسانہیں ہوگا تو انہوں نے اپنا سامان اس کے اردگرد رکھ دیا اور اس کی حفاظت کرنے کیلئے بیٹھ گئے (لیکن اللہ عزوجل کو کچھ اور منظور تھا کہ اچانک) ایک شیر آیا اور اس کو (جم غفیر میں سے) چھینا اور لے کر چلا گیا‘‘-[31]
مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں گستاخِ رسول (ﷺ) کا ملعون و مردود ہونا تو اظہر من الشمس ہے ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگوں کا دنیوی و اخروی انجام بھی بتا دیا گیا ہے -
آئمہ کرام وفقہاء کرام کی آراء میں شاتم رسول اللہ (ﷺ) کی سزا:
امام تقی الدین السبکی الشافعیؒ نے اپنے فتاویٰ میں فرمایا:
’’مَنْ سَبَّ نَبِيًّا فَاقْتُلُوهُ‘‘[32]
’’جوکسی بھی نبی(علیہ السلام)کی گستاخی کرے اس کو قتل کر دو‘‘-
گستاخِ رسول (ﷺ) واجب القتل ہے اس پر اجماع امت ہے-یہ صدرِ اول کے مسلمانوں یعنی صحابہ و تابعین(رضی اللہ عنھم)کا اجماع ہے-جیساکہ ذیل میں ائمہ کرام اور فقہاء کرام کی عبارات سے ظاہر ہے –
خاتمۃ المجتہدین امام ابن عابدین شامی ؒ نے فرمایا :
1-’’وَكُلُّ مُسْلِمٍ ارْتَدَّ فَتَوْبَتُهٗ مَقْبُولَةٌ إلَّا الْكَافِرُ بِسَبِّ نَبِيٍّ مِنْ الْأَنْبِيَاءِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّا وَ لَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهٗ مُطْلَقًا ‘‘[33]
’’جو مسلمان مرتد ہوا اس کی توبہ قبول کی جائے گی سوائے اس کافر و مرتد کے جو انبیاء (علیھم السلام)میں سے کسی بھی نبی کو سب و شتم کرنے کے سبب کافرہوا تو اسے حدًا قتل کر دیا جائے گا اور اس کی توبہ بالکل قبول نہیں کی جائے گی‘‘-
2-’’مَنْ نَقَصَ مَقَامَ الرِّسَالَةِ بِقَوْلِهٖ بِأَنْ سَبَّهٗ (ﷺ)أَوْ بِفِعْلِهٖ بِأَنْ بَغَضَهُ بِقَلْبِهِ قُتِلَ حَدًّا‘‘[34]
’’جس شخص نے مقامِ رسالت مآب (ﷺ)کی تنقیص و تحقیر اپنے قول کے ذریعے بایں صورت کی کہ حضور (ﷺ) کو سب و شتم کیا یا اپنے فعل سے اس طرح کہ دل سے حضور (ﷺ) سے بغض رکھا تو وہ شخص بطور حدًا قتل کیا جائے گا‘‘-
امام الاحناف ابن نجیم المصریؒ کا فرمان ہے :
3-’’مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَوْ بَغَضَهُ كَانَ ذَلِكَ مِنْهُ رِدَّةً وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّينَ‘‘[35]
’’جس شخص نے حضور نبی کریم (ﷺ) کی گستاخی کی اور آپ (ﷺ )کے ساتھ بغض اختیار کیا اس کا یہ عمل ارتداد ہے- اس شخص کا حکم مرتدین کی طرح ہے ‘‘-
شارحِ بخاری امام ابن بطال القرطبی المالکی ؒ نے فرمایا:
4-’’مَنْ شَتَمَ نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، أَوْ تَنْقُصُهٗ قُتِلَ وَلَمْ يُسْتَتَب، كَمَنْ شَتَمَ نَبِيَّنَا) لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ [الأحقاف:35] وَكَذٰلِكَ حُكْمُ الذِّمِّىْ إِذَا شَتَمَ أَحَدًا مِّنْهُمْ يُقْتَلُ إِلَّا أَنْ يُّسْلِمَ‘‘[36]
’’جس نے کسی نبی (علیھم السلام)کو گالی دی یااس کی تنقیص کی تو اس کو قتل کردیاجائے گا اوراس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کیا جائے گاجس طرح اس نے ہمارے نبی مکرم (ﷺ) کو سب وشتم کیا (ہم رسل کے درمیان فرق نہیں کرتے (الاحقاف: 35) اوریہی حکم اس ذمی کا ہے جب وہ ان (انبیاء کرام(علیھم السلام) میں سے کسی کو گالی دے تو اس کو قتل کردیاجائے مگر یہ کہ وہ اسلام قبول کرلے‘‘-
5-یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ صرف آقا کریم (ﷺ) کی ذاتِ اقدس کی محض بلاواسطہ تنقیص بے ادبی و گستاخی میں شمار نہیں بلکہ اس کا دائر ہ وسیع ہے جیساکہ علامہ قاضی عیاض مالکیؒ لکھتے ہیں:
’’ہر وہ شخص جو رسول اللہ (ﷺ) کی توہین کرے یا آپ (ﷺ)پر کوئی عیب لگائے یا آپ (ﷺ)کی ذات، آپ (ﷺ) کے نسب، آپ (ﷺ) کے دین یا آپ (ﷺ) کی عادات مبارکہ میں سے کسی عادت کی طرف کوئی نقص منسوب کرے یا ان میں سے کسی عیب کا آپ (ﷺ) کی طرف اشارہ کرے یا توہین کرتے ہوئے کسی ایسی چیز سے آپ (ﷺ) کو تشبیہ دے یا آپ (ﷺ) کی تحقیر کرے یا آپ (ﷺ) کی شان کو کم کرے آپ (ﷺ) کا استخفاف کرے یا آپ (ﷺ) کی طرف کسی عیب کی نسبت کرے تو آپ (ﷺْ)کی توہین کرنے والا شمار ہو گا- اس کا حکم وہی ہوگا جو توہین کرنے والے کا ہوتا ہے- اسے قتل کر دیا جائے گا- دور صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) سے لے کر آج تک اسی پر تمام علماء اور اصحابِ فتوی کا اجماع ہے‘‘-[37]
امام قاضی عیاض مالکی اندلسی ؒ مزید اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
6-’’امام مالکؒ نے فرمایا جس شخص نے رسول اللہ (ﷺ) کو سب و شتم کیا یا عیب لگایا یا آپ (ﷺ) کی تنقیص کی تو وہ قتل کیا جائے گا خواہ وہ مسلمان ہو یا کافر اور اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی-
7-امام ابو سلیمان خطابیؒ (شارحِ بخاری و سنن ابی داؤد) نے فرمایا کہ میں مسلمانوں میں سے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے گستاخ کے واجب القتل ہونے میں اختلاف کیا ہو -
8-امام محمد بن سحنون المغربیؒ فرماتے ہیں: اس پر علماء کا اجماع ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی (کسی بھی حوالے سے) توہین و تنقیص کرنے والا کافر ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی وعید ہے اور پوری امت کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے گا وہ خود کافر ہو جائے گایہاں تک کہ امام محمد بن سحنون المغربیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’مَنْ قَالَ إِنَّ النَّبِيَّ (ﷺ) أسْوَدُ قُتِلَ‘‘[38]
’’جس نے کہا کہ حضور نبی کریم (ﷺ) (معاذ اللہ) سیاہ ہیں اس کو قتل کیا جائے گا‘‘-
9-صاحبِ تفسیرشارحِ صحیحین محققِ عصر علامہ غلام رسول سعیدیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’فقہاء اسلام کی عبارات کا تقاضا یہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کی گستاخی کرنے والا مرتد ہے اور واجب القتل ہے ، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ مرتد وہ شخص ہو گا جو پہلے مسلمان ہو، اگر کوئی غیر مسلم حضور نبی کریم (ﷺ) کی شان میں گستاخی کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ سو اس کا حکم بھی یہ ہے کہ اس کو قتل کیا جائے گا اور گستاخی کا معنی یہ ہے کہ سیدنا محمد (ﷺ)یا انبیاء سابقین میں سے کسی نبی (علیھم السلام) کے متعلق ایسا لفظ بولے یا ایسا لفظ لکھے جو عرف میں توہین کیلئے متعین ہو تو ایسے شخص کو قتل کر دیا جائے گا خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم (انبیاء سابقین سے مراد وہ نبی ہیں جن کی نبوت تمام سچے مذاہب میں مسلم ہو)‘‘-[39]
حرفِ آخر:
سیدنا امام مالکؒ نے ارشادفرمایا:
’’مَا بَقَاءُ الْأُمَّةِ بَعْدَ شَتْمِ نَبِيِّهَا؟‘‘[40]
’’حضور نبی کریم (ﷺ) کوسب وشتم (گستاخی) کے بعد امتِ مسلمہ کی بقاء وزندہ رہنے کا کیاجواز رہ جاتاہے ؟‘‘
اللہ عزوجل ہم سب کو اپنے فضل و کرم کے صدقے عزت و حرمتِ رسالت مآب (ﷺ) سمجھنے اور آپ (ﷺ) کے قدموں میں سب کچھ قربان کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے-آمین!
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجۂ بطحا کی حرمت پر |
٭٭٭
[1](البقرۃ:13)
[2](الفتح:09)
[3]( تفسیر مظہری،زیرآیت،النساء:65)
[4](روح البیان ج:7، ص:216، الناشر: دار الفكر- بيروت)
[5](المجادلہ:12)
[6](الحجرات:2)
[7](تفسیر درمنثور، زیر آیت الحجرات:02)
[8](الحجرات:03)
[9](الحجرات:04)
[10](یہ روایت مبارک باختلاف الفاظ احادیث مبارکہ کی مستند کتب بخاری شریف وغیرہ میں بھی ہے)
[11](تفسیر ابن کثیر زیر آیت،الحجرات:1-4)
[12](النساء:65)
[13](تبیان القرآن ج:1،ص:718، فرید بک سٹال لاہور)
[14](ایضاً)
[15](الانفال:15)
[16](الانفال:13)
[17](تفسیر مظہری، زیرِ آیت، الاحزاب:57)
[18](البقرۃ:104)
[19]( تفسير الكبير،زیرآیت،البقرۃ:104)
[20](الفتح الكبير،رقم الحدیث: 11181)
[21](سنن ابی داؤد،كِتاب الحدود)
[22](المستدرك على الصحيحين،کتاب الحدود)
[23](المستدرك على الصحيحين،کتاب معرفۃ الصحابہ ؓ)
[24](السنن الکبرٰی للبیہقیؒ،کتاب الشھادات)
[25](یہ پرلے درجے کا گستاخ تھا اس نے دوگانے والی (معاذاللہ)حضورنبی رحمت(ﷺ)کی ہجو کیلیے رکھی ہوئی تھی)
[26](سنن النسائی، کتاب تحریم الدم)
[27](النجم:03)
[28](صحیح البخاری، کتاب العلم)
[29](فتح الباری شرح صحيح البخاری، قَوْلُهُ بَابُ مَا كَانَ يَبْعَثُ النَّبِيُّ (ﷺ) من الْأُمَرَاء وَالرسل وَاحِدًا بَعْدَ وَاحِدٍ)
[30](المطالب العالیۃ لابن حجر العسقلانی (ؒ)، بَابُ هَدْ رِدَمِ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ (ﷺ) مِنْ أَهْلِ الْعَهْدِ)
[31](مستدرک للحاکم علی الصحیحین، تفسیر سورۃ ابی لھب)
[32](فتاوى السبكی، باب الجامع، فصل سب النبی(ﷺ)
[33](رد المحتار على الدر المختار، ج:4، ص:231-232)
[34](رد المحتار على الدر المختار، ج:4، ص:232،)
[35](البحرالرائق شرح کنزالدقائق،کتاب الصلوٰۃ)
[36](شرح صحيح البخارى لابن بطال، ج:8، ص:583،)
[37](الشفا بتعريف حقوق المصطفٰے (ﷺ)، الْقَسَم الرابع)
[38](ایضاً)
[39]( تبیان القران، ج:4، ص:358 فرید بک سٹال اردو بازار لاہور )
[40]( الشفاء بحقوق المصطفٰے(ﷺ)،ج:2،الناشر: دار الفكر)