نوعِ انسان را پیامِ آخرین

نوعِ انسان را پیامِ آخرین

نوعِ انسان را پیامِ آخرین

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز اپریل 2023

عنوانِ بحث حکیم الاُمّت علامہ محمد اقبا لؒ کی معروف فارسی تصنیف ’’رموزِ بیخودی ‘‘کی نظم ’’در معنی اینکه نظام ملت غیر از آئین صورت نبندد و آئین ملت محمدیه قرآن است‘‘ سے  ماخوذ ہے : مکمل شعر کچھ اس طرح ہے:

نوع انسان را پیام آخرین
حامل او رحمة للعالمین

یہ شعر اپنے اندر گہرے معنی و مفاہیم سموئے ہوئے ہے:

 اوّل : قرآن مجید ایک آفاقی کتاب ہے جس کا پیغام پوری نوعِ انسانی کیلئے ہے-

 دوم : قرآن مجید آخری آسمانی کتاب اور خدا کا آخری پیغام ہے جس کے بعد وحی( کسی آسمانی کتاب) کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اختتام کو پہنچ چکا ہے-نیز قرآن کی دلیل قطعی اور برہان مبین ہے- یہ آخری پیغام آخری نبی مکرّم (ﷺ) کی وساطت سے انسانیت تک پہنچا ہے جن پر دین کی تکمیل ہوچکی ہے -اب اگر کوئی نبوت کا دعویٰ بھی کرتا ہے تو وہ کاذب اور لافزن ہے-

 سوم: اس کتاب (قرآن مجید) کی حامل عظیم ہستی (آقا پاک(ﷺ) کی ذاتِ مبارکہ ) بلا تخصیص تمام عالمین کیلئے رحمت اور جو د و کرم کا منبع ہے جن کی نبوت و رسالت کا دائرہ کار لامحدود ہے-

مذکورہ تحریر میں زیادہ تر اقبالیاتی فکر سے استفادہ کرتے ہوئے قرآن مجید اور رسالتِ محمدی(ﷺ) کی عالمگیریت، موضوع ومقصدیت ِقرآن،قرآن مجید کی عصری معنویت و مطابقت (Relevance) اور بنی نوع انسان کیلئے پیغام ِ قرآن کے چند لازمی پہلو بیان کیے گئے ہیں-

پیغام ِقرآن اور رسالت ِ محمدی () کی عالمگیریت و آفاقیت:

بلاشبہ قرآن مجید خاتم النبیین حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ)  کا سب سے بڑا معجزہ ،دین اسلام کا بنیادی مآخذ اور ہر زمانے میں یکساں قابلِ عمل ہونے کا لاریب دستو رہے- قرآن مجید کا تمام انسانیت کیلئے ہدایت و رہنمائی کا منبع ہونا اسلام کی آفاقیت اور رسالت ِ محمدی (ﷺ) کے عموم و شمول پر برہانِ قطعی ہے- بالفاظِ دیگریہ اس بات کی صداقت ہے کہ آپ (ﷺ) جملہ نوعِ انسانی کے کامل رہبر و پیشو ا اور قرآن ساری انسانیت کیلئے پیغام برحق ہے –ابو الاثر حفیظ جالندھر ی نے ’’شاہنامہ اسلام‘‘ میں بعثِ نبوی(ﷺ) کے مقصد اور پیغامِ قرآن کی عالمگیریت کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:

وہ مقصد جس کی خاطر آپ اس دنیا میں آئے تھے
وہ قرآں جس کو انسانوں کی خاطر آپ لائے تھے
وہ پیغامِ محبت، وہ نجات اولادِ آدم کی
زمینِ صدق پر رکھنا نئی بنیاد عالم کی

یہ تاجدا ر ِ کائنات (ﷺ) کی ہی ذاتِ مقدسہ تھی جس نے روئے زمین پر سب سے پہلے نسلی، لسانی ،علاقائی اور قبائلی تفاخر و تعصبات کی بنا پر ا نسانی تقسیم اور تفریق کا قلع قمع کرکے اسلام کے آفاقی و روحانی نظام کی بنیاد رکھی جس سے اسلامی قومیت کا تصور جنم لیتا ہے-ہادی اکرم (ﷺ) نے پریکٹیکل کرکے دکھایا کہ اسلام قاطع ملک ونسب کا تصور لے کر دنیا میں آیا ہے جو تفریق ِ اقوام و مِلل کی بجائے جمعیتِ آدم و فلاحِ آدم کا علمبردار ہے -اس ضمن میں آقاپاک (ﷺ) نے سب سے بڑی مثال قریش کی عرب پر فضیلت کا خاتمہ کرکےپیش فرمائی جب آپ(ﷺ) اپنے حبشی غلام (سیدنا حضرت بلال رضی اللہ عنہ) کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر تشریف فرماہوئے اور دنیا کو واضح پیغام دیا کہ آج اسلام نے بتان ِ رنگ و خوں کو پاش پاش کردیا ہے-علامہ اقبال ؒنے اس تاریخی واقعہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

مذہب او قاطع ملک و نسب
از قریش و منکر از فضل عرب
در نگاہ او یکے بالا و پست
با غلام خویش بر یک خواں نشست

اسی طرح حضور نبی کریم(ﷺ) نے خطبہ حجتہ الوداع میں آئندہ کیلئے مساواتِ انسانی کا عالمگیر اسلامی اصول وضع فرما دیا جس میں فضیلت کا معیار رنگ ونسل کی بجائے تقویٰ ’’اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘‘ مقررہوا- یہ کہا جاسکتا ہے کہ خطبہ حجتہ الوداع وہ بنیادی دستاویز ہے جس سے مسلم قومیت کا اصول طے ہوتا ہےجو مغربی قومیت سے صریحاً مغائرت رکھتا ہے-اسلامی قومیت اور مغربی قومیت میں بنیادی فرق ہی یہی ہے کہ مسلم قومیت کی استوار ی’’ لآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحمدُ رَّسُولُ اللہ‘‘ پر ہے جس میں وحدتِ آدمیت وتکریم آدمیت کا درس ہے جبکہ مغربی قومیت (جس کے بھیانک اثرات سے آج انسانیت خائف ہے) رنگ ونسل اور مذہب وجغرافیہ پر قائم ہے - علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں کئی مقامات پر اسلامی قومیت کی تحسین جبکہ فرنگی قومیت کی تردید اور اس پر سخت تنقید کی ہے کیونکہ مغربی ذہنیت نسلی بنیادوں پر انسانیت کو تقسیم کرتی ہے جب کہ اسلام جمعیتِ آدم کی بات کرتا ہے،جیسا کہ اقبال ضربِ کلیم میں لکھتے ہیں:

تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم

قرآن مجید اور رسالتِ محمدی() کی آفاقیت بہ زبانِ قرآن:

 قرآن مجید میں حضور نبی کریم(ﷺ) کی رسالت اور پیغام ِ قرآن کے عالمگیر ہونے کو صراحتاً بیان کیا گیا ہے – چند آیات ملاحظہ ہوں:

پیغام ِ قرآن کے عموم کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’هٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ ‘‘[1]

” یہ (قرآن) تمام لوگوں کیلئے پیغام ہے- “

مزید ارشادِ ربانی ہے:

’’یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘[2]

” اے لوگو! بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اتارا- “

اسی طرح رسالت محمدی(ﷺ) عالمگیریت کا بیان ہے کہ:

’’وَمَآ  اَرْسَلْنٰکَ  اِلَّا کَآفَّۃً  لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا‘‘[3]

” (اے رسولِ مکرمﷺ!) ہم نے آپ کو (قیامت تک کے) تمام لوگوں کیلئے ہی خوشخبری سنانے والا اور (عذاب سے) ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے“-

ایک اور مقام پر ارشادِ ربّانی ہے:

’’قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا‘‘[4]

” (اے رسولِ مکرّمﷺ!) آپ کہیے، میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں“-

اقبال ؒ کے نزدیک قرآن مجید کا مقصود تمام انسانیت کی فلاح و اصلاح ہے:

قرآن مجید اور رسالتِ محمدی (ﷺ) کی آفاقیت، عظمت اور  پیغامِ قرآن کو جس قدر جامع اور فصیح انداز میں حکیم الاُمت علامہ اقبالؒ نے بیان کیا ہے شاید ہی دورِ جدید کے کسی مفکر، محقق یا شاعر نے بیان کیا ہو -

معروف اقبال شناس غلام صابر اپنی تصنیف ’’اقبال شاعرِ فردا ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:

”علامہ اقبالؒ کے کلام میں جگہ جگہ ہمیں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ قرآن پوری عالمِ انسانیت کی اصلاح کیلئے نازل ہوا تھا -قرآن کسی خاص قوم ،ملک یا نسل کیلئے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ عالمِ انسانیت کیلئے ہدایتِ ابدی ہے، جس کا صاف اظہار قرآنی الفاظ ’’ھوالناس‘‘ اور ’’یایھا الناس‘‘ میں ہوتا ہے اور ہمیں بتادیا گیا ہے کہ تمام انسان آدم کی نسل ہیں اور سب کی روح کا منبع ایک ہے ،یعنی سب کے سب ایک ہی سرچشمہ حیات سے روحانی طور پر منسلک ہیں “-

حکمتِ قرآن لازوال ہے:

 بقول پروفیسر محمد منور صاحب:

” حضرت علامہ اقبالؒ کے نزدیک حکمتِ قرآن لازوال اور قدیم ہے جسے تاقیامت کار فرما رہنا ہے-یہ حکمت کسی خاص وطن کے باشندوں کی خاطر نہیں ،کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والو ں کیلئے نہیں ،کسی خاص زبان کے وابستگان سے بھی نہیں -یہ حکمت سب کیلئے ہے اس لیے کہ اصل آدم ایک ہے -مادی اعتبار سے بھی ایک کہ سب مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں اور روحانی اعتبار سے بھی ایک کہ ایک ہی ’’نفخ روح‘‘کے مالک ہیں -بنو آدم کا رشتہ ایک آفا ق و انفس سے ہے “-[5]

مزید بیان ہے :

” قرآن کے پیشِ نظر جغرافیہ ، نسل اور زبان نہیں ہے بلکہ قرآن کے پیشِ نظر انسان ہے اور اسلام جس کو اخوت کہتا ہے وہی اپنے ہمہ نوعی معنوں میں قرآنی تعلیم کا مغز ہے،یہ اخوت در حقیقت انسانیت کے شفقت آموز ،محبت آمیز رویے کا نام ہے “ -[6]

قرآن مجید ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے تمام شعبہ ہائے زندگی میں قابلِ عمل ہے:

”علامہ اقبال قرآن کو وہ آئین اور ضابطہ حیات سمجھتےہیں جو ہماری اخروی زندگی ہی نہیں،دنیاوی زندگی کےبھی تمام شعبوں میں مکمل طور پر رہنمائی کا ضامن ہے-جتنے اصول، قوانین ،ضابطے اورآئین انسان اپنی عقل و فہم سے بناتا ہے یا بنائے گا یقیناًوہ قطع و بریدکے محتاج اور ترمیم و تردید کے مستحق ہوتے ہیں-لیکن وحی الٰہی ہی وہ چیز ہے جو ایسا اٹل اور کبھی تبدیل نہ ہوسکنے والا اور ہر دور میں صادق آنے والا قانون و ضابطہ اور آئین عطا کرتاہے جو بنی نوع انسان کیلئے ہر ملک،ہر دور،ہر زمانہ  اورہر قوم میں اس کی زندگی کے تمام گوشوں اور سارے شعبوں میں رہنمائی کا ضامن ہے-قرآن حکیم ایسا ہی ضابطہ حیات اور آئینِ زندگی ہے جو ابد الآباد تک جاری رہے گا “ -[7]

سطورِ بالا سے بخوبی عیاں ہے کہ حضور نبی کریم (ﷺ) کی رسالت و تعلیمات اور قرآن مجید کا تخاطب پوری انسانیت ہے جو رنگ،نسل ،قوم، علاقہ یا مذہب کی بنیاد پر جڑے ہر امتیاز کی تردید کرتا ہے اور انسانیت کو ایک لازوال آفاقی و روحانی رشتے میں پروتا ہے-

قرآن مجید کا موضوع ہی انسانیت ہے:

 در حقیقت قرآن کریم کا موضوع ہی انسانیت ہے کیونکہ قرآن مجید کے سارے مضامین، قوانین، احکامات، ممنوعات، تذکرہ اقوامِ سابقہ،غرضیکہ تمام کے تمام جو ایک مرکز پر آکر منتج ہوتے ہیں وہ ہے تعمیر انسانیت وتکمیلِ انسانیت-[8] اسی لیے قرآن مجید کے دعوٰی ’’ بَیَانٌ لِّلنَّاسِ، ہُدًی لِّلنَّاسِ اور بلغ اللناس‘‘ میں اتنی ہی ہدایت غیر مسلم کے لئے موجود ہے جتنی کہ اہل اسلام کے لئے-

” ایک انصاف پسند غیر مسلم اگر قرآن مجید پر نظر ڈالے گا اور قرآن مجید کی تاریخ اورانسانیت پر اس کتاب کے اثرات کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کا مطالعہ اس کے لئے بھی شاید اتناہی ضروری ہے جتنا ایک مسلمان کے لئے  ضروری ہے-اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور کتاب ایسی

نہیں ہیں جس نے انسانیت کی تاریخ پر اتنا گہرا اثر ڈالاہو جتنا قرآن مجید نے ڈالا ہے “ -[9]

قرآن کریم نے استقرائی طرزِ استدلا ل اپنایا ہے تاکہ روئے زمین پر بسنے والا ہر انسان جو ظلمت و گمراہی میں گھرا ہے وہ محض سنی سنائی یا افسانوی باتوں کی بجائے حقائق و تجربات (جو قرآن نے کھول کھول کر بیان کردیے ہیں ) کی بنا پر فہمِ قرآن کے ذریعے نورِ قرآن سے ہدایت و استفادہ کرسکے -

قرآن مجید کا اوّلین مقصد:

قرآن مجید کی مقصدیت و پیغام کی کئی جہات و ابعاد ہیں (جن کا احاطہ مختصر تحریر میں ناممکن ہے) جسے قرآن نے معاشی، معاشرتی، اخلاقی، تاریخی اور تہذیبی پیرائے میں سمجھانے کی کوشش کی ہے -اگر باطنِ قرآن اور روح ِ قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن مجید کا بنیادی اور حتمی مقصد انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرنا ہے ،جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ اپنے لیکچر ’’علم اور مذہبی مشاہدہ‘‘ میں رقم طراز ہیں:

The main purpose of the Quran is to awaken in man the higher consciousness of his manifold relations with God and the universe.” 

’’قرآن حکیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ خدا اور کائنات سے انسان کے مختلف الجہات روابط کا بلند تر شعور اجاگر کرے‘‘ -[10]

قرآن کریم کا یہ مقصد ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو فقط ظاہر قرآن پر اکتفا کرنے کی بجائے باطن قرآن اور اسرارِ قرآن تک رسائی کیلئے سعی کاملہ کرتے رہتے ہیں تاکہ ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کرسکیں-

پیغام ِقرآن کی عصری ناگزیریت و مطابقت:

عصرِ ی تقاضوں کے پیشِ نظر بنی نوع انسان کو درپیش مسائل اورحوائج و ضروریات کا بنظرِ عمیق مطالعہ کیا جائے تو قرآن کریم نے انسانیت کی رہنمائی کیلئے( انفرادی و اجتماعی سطح پر) عقائد و عبادات اور اوامر ونواہی (گرچہ ان تمام کی حکمتِ بیان اور مقصود بھی کسی نہ کسی طرح انسانی فلاح و اصلاح اور انسانیت کی خیرو بھلائی کا سامان کرنا ہے) کے بعد مذکورہ چند عناصر پر زور دیا ہے -

حصولِ علم و حکمت کی ترغیب:

علم کی فضیلت و عظمت، ترغیب و تاکید مذہب اسلام میں جس بلیغ و دل آویز انداز میں پائی جاتی ہے اس کی نظیر اور کہیں نہیں ملتی، تعلیم و تربیت، درس وتدریس تو گویا اس دین برحق کا جزو لاینفک ہو-[11] علم کا حصول قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں انسانی غایتِ اولیٰ کےطور پر بیان ہوا ہے- قرآن کے تقریباً 78 ہزار الفاظ میں سب سے پہلا لفظ جو اللہ تعالیٰ حضورنبی کریم (ﷺ) کے قلب اقدس پہ نازل فرمایا وہ ’’اِقْرَاْ‘‘ ہے، یعنی پڑھیئے-مزید قرآن پاک کی 6ہزار آیتوں میں سب سے پہلے جو 5 آیتیں نازل فرمائی گئیں ان سے بھی قلم کی اہمیت اور علم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے-[12] اسی طرح قرآن کریم میں مختلف صورتوں میں علم کی طرف انسان کی توجہ دلائی گئی ہے-علم انسان کو مکمل شعور حیات عطا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اہلِ علم کو باقیوں (بے علموں ) کے برابرکھڑا نہیں کیا - مزید علم کی عظمت اور قدر ومنزلت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ)نے جس چیز میں زیادتی طلب کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہ علم کی دولت ہے-قرآن کریم میں ہم سب کو یہ دعا مانگنے کا حکم ہوا ہے:

’’وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِىْ عِلْمًا‘‘[13]

” اور عرض کرو کہ اے میرے رب! مجھے علم زیادہ دے“-

اسی طرح حکمت کو علم کی روح قرارد یا جاتا ہے-علم محض جاننا جبکہ حکمت علم میں تفکر کے ذریعے علم کے حقائق اور گہرائیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے -اس لیے علم حکمت کیلئے (Knowledge for Wisdom) حاصل کیا جانا چاہیے- حکمت کا مضمون قرآن مجید کی کئی آیاتِ مبارکہ میں بیان ہوا ہے –مثلاً حکمت کی فضیلت کا تذکرہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ‘‘[14]

” اور جسے حکمت ملی اسے بہت بھلائی ملی “-

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعثِ نبوی(ﷺ) کا ایک مقصد یہ بھی بیان ہوا کہ آپ (ﷺ) کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں – سورۃ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ‘‘[15]

” بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے “-

تسخیر فطرت و تسخیر ذات :

قرآن مجید میں لفظ’’سَخَّرَ‘‘ تکرار کے ساتھ آیا ہے جو انسان کو دعوت ہے کہ وہ زمین پر نائب ِ الہی کی حیثیت سے حصولِ علم اور تفکر و تدبر کے ذریعے تسخیر فطرت کا کام کرے- قرآن کا یہ تصور در اصل انسانی عظمت و رفعت کو اجاگر کرتا ہے-اس وقت دنیا میں جتنی بھی ترقی ہورہی ہے اور انسان ’’The Sky’s the Limit‘‘کی سوچ رکھتا ہے یہ بنیادی طور پر قرآن مجید کا ہی دیا ہوا تصور ہے جسے تسخیر ِ فطرت یا تسخیرِ کائنات کہا جاتا ہے لیکن قرآن مجید نے اس سے بھی آگے ایک چیز بتائی ہے جو تسخیرِ ذات کہلاتی ہے-

اگرچہ انسان نے تاریخ میں بالعموم اور اکیسویں صدی میں بالخصوص تسخیر ِ کائنات کے قرآنی فلسفے پر عمل کرکے محیر العقول کارنامے سر انجام دیے ہیں لیکن دوسری طرف انسان نے قرآن مجید کے اہم ترین پیغام (تسخیرِ ذات)، جس کا تعلق براہِ راست انسان کی روحانی زندگی سے ہےجس کو  زیادہ تر نظر انداز کیا گیا ہے -شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ صدی کا انسان اپنے اصل مقاصد حیات سے کوسوں دو ر روحانی تاریکی میں بھٹک رہا ہے– اقبالؒ نے عصرِ حاضر کے انسان سے اس بات کا شکوہ یوں کیا ہے :

جس نے سورج کی شُعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا!

” سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرنے والا اپنے اندر کی دنیا کا کھوج نہ لگا سکا ۔ اپنی معرفت حاصل نہیں کر سکا اس لیے وہ انسان نما حیوان بن گیا“-

مذکورہ شعر میں سورج کی شعاعوں کو گرفتا ر (مسخر) کرنا تسخیر فطرت ہے جبکہ زندگی کی شب ِ تاریک (نفسانی وشیطانی خطرات و مادیت پرستی ) سےچھٹکارا نہ پانے کی اصل وجہ تسخیرِ ذات (معرفتِ خودی کا حصول) کے قرآنی پیغام سے بے اعتنائی ہے- تسخیرِ ذات کے ذریعے قرآن کریم نے انسانی خودی کی حقانیت و لافانیت سے پردہ اٹھایا ہے-تسخیر ذات کیلئے قرآن نے ضبطِ نفس اور تزکیہ نفس کا درس دیا ہے جو انسان کی دائمی اُجالے (عرفان ِ خودی کے ذریعے نورِ معرفت کا حصول) تک رسائی ممکن بناتا ہے جس کے بعد انسان خدائے لم یزل کے دست و زباں کی حیثیت رکھتا اور کائنات کی ہر شئے انسان کے تابع امر ٹھہر تی ہے - یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیےکہ تسخیر ذات کے بغیر تسخیرِ کائنات کا سفر ادھورا ہے لیکن جب یہ باہم تکمیل کو پہنچیں تو انسان زمین پر خدا کے نائب کی حیثیت سے اپنی فطری و روحانی ذمہ داری (بہ تقاضائے عصِرجدید) پوری کرلیتا ہے -

قرآن مجید کی سائنسی جہات سے رہنمائی:

چاہے مذہبی علوم ہوں، سماجی علوم ہوں، طبعی علوم ہوں، حکمت و فلسفہ ہو، زبان و ادب ہو یا دیگر علوم ان میں انسان قرآن مجید سے رہنمائی کا محتاج ہے کیونکہ قرآن مجید تمام علوم ومعارف کامنبع ہے جس میں ارض و سماء کے تمام علوم سمو دیے گئے ہیں- قاضی ابو بکر بن عربیؒ نے اپنی کتاب قانون التأويل میں لکھا ہے کہ :

” علومِ حدیث کی تعداد ساٹھ (60) ہے اور علوم قرآن بے شمار ہیں “ -[16]

قرآن مجید کی ایک ہزار سے زائد آیات سائنسی علوم کے بارے میں بتاتی ہیں اور سائنسی معلومات فراہم کرتی ہیں-[17]بلاشبہ آج کا دور وسیع تر معنوں میں سائنسی دور ہے لیکن تجربے اور مشاہدے کا جو میلان سائنس نے دیا ہے وہ قرآنی ثقافت کا زندہ و جاوید اصول ہے-[18]

 آج دنیا کے سائنسدان تحقیق کےذریعے کثیرالانواع تجربات و دریافت کے بعد جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کیلئے رہنمائی قرآن کریم نے 1400 سال پہلے عطا کردی تھی اور قرآن جدید سائنس کی بھی صحیح سمت رہنمائی کررہا ہے جس کا واضح اعتراف دورِ جدید کے سائنسدان کررہے ہیں-صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

 امریکہ کی تھامس جیفرسن یونیورسٹی(Thomas Jefferson University) کے شعبہ تشریح الاعضاء و تدریجی حیاتیاتAnatomy and Developmental Biology) کے پروفیسر ایم مارشل جانسن انسانی ایمبریو Foetus)) کی نشو و نما پر تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:

” قرآن محض ایمبریو کی بیرونی نشوونما کا ذکر نہیں کرتا بلکہ اس کے اندرونی مراحل پر بھی زور دیتا ہے،اس کی تخلیق اور نشو ونما کے ان بڑے بڑے پہلوؤں پر زورد یتا ہے جو جدید سائنس نے تسلیم کرلیے ہیں- “[19]

جاپان سے تعلق رکھنے والے ماہرِ فلکیات (Astronomer) ’’یوشیدی کسان‘‘ نے قرآن مجید مذکور خلائی حقائق پر حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

” میں قرآن میں سچے خلائی حقائق پاکر بہت متاثر ہوا ہوں اور ہم جدید خلاباز اس کائنات کے ایک چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑے کا مطالعہ کررہے ہیں-ہم نے اپنی کوششیں اس بہت چھوٹے حصے کو سمجھنے کیلئے مرکوز کررکھی ہیں،کیوں کہ دور بین کے استعمال سے ہم اس آسمان کے صرف چند حصے ہی دیکھ سکتے ہیں اورساری کائنات کاخیال نہیں کرتے-مطالعہ قرآن سےمیں اس کائنات کی تحقیق کیلئے اپنے مستقبل کی راہ تلاش کرسکتا ہوں ‘‘-[20]

اقبالؒ کے نزدیک آقا پاک (ﷺ) کی بعث کا زمانہ در اصل انسان کا سائنسی دور میں داخلہ تھا اور قرآن مجید جدید سائنسی حقائق کا داعی ہے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ موجودہ سائنسی ترقی نے انسانی طرزِ فکر اور انسانی سماج کی کایاپلٹ دی ہے-اقبالؒ اپنے لیکچر”مسلم ثقافت کی روح “میں فرماتے ہیں:

“The Prophet of Islam seems to stand between the ancient and the modern world. In so far as the source of his revelation is concerned he belongs to the ancient world; in so far as the spirit of his revelation is concerned he belongs to the modern world.”

” پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے(ﷺ)قدیم اور جدید دنیاؤں کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں-جہاں تک آپ (ﷺ) کی وحی کے منابع کا تعلق ہےآپ (ﷺ) کا تعلق قدیم دنیا سے ہے-جہاں تک اس وحی کی روح کا تعلق ہے آپ (ﷺ) کا تعلق دنیائے جدید سے ہے‘‘-

بالفاظِ دیگر ڈاکٹر طالب حسین سیال نے اسے یوں بیان کیا ہے :

’’علامہ محمداقبال کا خیال ہے کہ پیغمبر (ﷺ) کی بعثت اس وقت ہوئی جب قافلہ انسانیت ذہنی لحاظ سے سائنسی دور میں داخل ہونے کیلئے تیار تھا- گویا پیغمبر اسلام (ﷺ) قدیم اور جدید دنیا کے سنگم پر کھڑے نظر آتے ہیں- اس لئےقر آ نِ حکیم ایک طرف ماضی کی روایات کا تسلسل اور دوسری طرف جدیدسائنسی حقائق کا داعی ہے‘‘- [21]

خدمت ِخلق کا آفاقی تصور:

’’خِدْمَۃٌ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دوسروں کی دینی اور دنیوی ضروریات میں کام آنا-[22] اسلام’’الخلق عیال اللہ‘‘ اور ’’ہمہ خلق خدا است‘‘ کے نظریے پر یقین رکھتے ہوئےانسانی بہبود اور خدمتِ خلق کو عبادت کا درجہ دیتا ہے-مولانا الطاف حسین حالی نے کہاتھا :

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

قرآن کریم و سنتِ نبوی(ﷺ) میں انسانیت کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی و تعاون کا پہلو بدرجہ اتم نظر آتا ہے-قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اِنفاق(خرچ کرنا) کا لفظ آیا ہے جو انسانیت کی بھلائی اور تعاون کی طرف اشارہ ہے-

قرآن مجید نے مسکینوں، محتاجوں، معذوروں اور وسائل سے محروم انسانوں کی خدمت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا عام حکم دیا ہے،کہیں بھی قرآن نے یہ ہدایت نہیں کی کہ صرف مسلمانوں یا انسانوں کے کسی خاص گروہ اور جماعت کی خدمت کی جائے اور دوسروں کی نہ کی جائے-قرآن کے نزدیک نوعِ انسانی کا ہرفرد اس بات کاحق رکھتا ہے کہ آلام و مصائب میں اسے تنہا نہ چھوڑا جائے بلکہ اس کے درد و کرب کو محسوس کرکے اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے- [23]

قرآن کریم نے خدمتِ انسانی کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے:

’’لَيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ ‘‘[24]

” کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں اور نماز قائم رکھے اور زکوٰة دے- “

اسی طرح سورۃ المائدہ میں ارشادِ ربانی ہے:

’’وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى صلے وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ‘‘[25]

” اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو “-

اخلاقی و روحانی سماج کی تشکیل:

پاکیزہ اخلاق کے حامل افراد کی تشکیل کے بغیر کوئی بھی معاشرہ فلاح یافتہ معاشرہ نہیں کہلاسکتا اور نہ ہی ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے-معاشرے کے افراد کی اخلاقی و روحانی تربیت ہی سماج کے عروج و تنزل کا تعین کرتی ہے ،اس مقصد کیلئے قرآن مجید میں شریعت سے زیادہ اخلاقی موضوعات پر تفصیل موجودہے ،نیز سیرت النبی(ﷺ) میں بھی یہ پہلو نمایاں نظر آتا ہے کہ حضور نبی کریم(ﷺ) نے محاسن ِ اخلاقی کی تعلیم و ترویج کو اولین ترجیح دی اور لوگوں کی اخلاقی وروحانی تربیت فرمائی تاکہ معاشرےسے وہ تمام خصائل ِ رذیلہ ختم ہوں جو فساد اور شر کا باعث بنتے ہیں - [26]

گرچہ موجودہ صدی کا انسان مادی ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے بام عروج پر ہے لیکن وہ اپنی مذہبی و روحانی اور سماجی واخلاقی اقدار سے محروم ہوتا جارہا ہے- فقط مادیت پر انحصارنے اسے خود غرضی و مفاد پرستی تک محدود کردیا ہے جس کے نتیجے میں موجودہ معاشرہ انسان دوستی و ہمدردی، مساوات، رواداری، امن و آشتی ، احترامِ آدمیت ، عدل و انصاف اور حسن ِ سلوک جیسی عظیم اخلاقی و روحانی اقدار سے تہی دامن ہوچکا ہے-

قرآن کریم نے حسن ِ معاشرت اور مثالی سماج کی تشکیل کیلئے جامع اخلاقی و روحانی فلسفہ پیش کیا ہے جس کا مقصد انسانیت کو مادیت اور ہواوہوس سے نکال کر اخلاقی و روحانی سماج کا قیام عمل میں لانا ہے جس کیلئے قرآن نے اجتماعی سطح پر تزکیہ نفس و اصلاحِ باطن(جو فلاحی معاشرے کی ضمانت ہے) کی تاکید کی ہے تاکہ معاشرہ سماجی برائیوں اور خصائلِ رذیلہ سے پاک ہوکر اپنی اخلاقی و روحانی ہیئت برقرار رکھ سکے-مثلاً قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ‘‘[27]

’’بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا‘‘-

حافظ ابن کثیرؒ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں مذکورہ آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ:

’’أَيْ: طَهَّرَ نَفْسَهٗ مِنَ الْأَخْلَاقِ الرَّذِيْلَةِ‘‘

’’یعنی اس نے اپنے نفس کو اخلا قِ رذیلہ سے پا ک کر لیا‘‘-

اسی طرح قرآن مجید میں اقوامِ سابقہ پر اللہ تعالیٰ کے انعام و عذاب کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے جو موجودہ اقوام کی اخلاقی تربیت کیلئے پندو نصیحت ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو احکامِ الہی کے تابع کریں اور ان انسانی و اخلاقی اور سماجی اقدار سے انحراف نہ کریں جن سے انحراف ماضی میں اقوام کی تباہی کا سبب بنا لیکن اگر دیکھا جائے تو موجودہ معاشروں میں بھی اقوامِ سابقہ کی طرح ان اخلاقی وسماجی برائیوں (جیسے ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی، جھوٹ، بے حیائی، بد دیانتی و خیانت وغیرہ) کی روش عام ہے جو معاشرے کی بنیادیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں -

مزید اس وقت دنیا میں انسانی حقوق کی پامالی ،انسانیت پر ظلم اور نسل پرستی و نسل کشی کی صورت میں جوانسانی بحران تیزی سے جنم لے رہا ہے یہ ہمیں بحیثیتِ انسان اپنی ذمہ داریوں پہ اکساتا ہے کہ ہم ایک عالمی فلاحی سماج کے قیام کیلئے اپنا کردار ادا کریں جس کیلئے قرآن مجید کی تعلیمات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں-

حاصلِ بحث:

موجودہ دنیا کا ایک عالمی اکائی (Global Village) میں تبدیل ہو جانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اقوامِ عالم معاشی وتجارتی اور سیاسی و اقتصادی لحاظ سے باہم منحصر ہیں ،اس دوران دنیا میں قیامِ امن، انسانی مفاد ،مذہبی ہم آہنگی،پر امن بقائے باہمی اور روحانی سماجی اقدار کی پریکٹس کیلئے قرآن مجید کا تصور ’’عالمگیر اخوت و محبت‘‘ بہترین لائحہ عمل ہے- علاوہ ازیں اس حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں ہے کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کرلے بالآخر اس کی فکر و منطق اور علم و دانش کا بنیادی محور و مرکز قرآن حکیم اور تعلیماتِ نبوی (ﷺ)  ہی ہوتا ہے-

مزید برآں ! عصرِ حاضر میں بالخصوص اُمتِ مسلمہ کی تعلیماتِ قرآن سے رہنمائی کی بات کی جائے تو حالات دگرگوں نظرآتے ہیں - بدقسمتی سے مسلمانوں نے جب سے علومِ قرآن (Quranic Sciences) سے فکری و عملی استفادہ کا ذوق و شوق اور اپنے ہر طرح کے مسائل کے حل کیلئے کتاب اللہ سے رہنمائی لینی ترک کی ہے تب سے زوال و انحطاط کاشکا ر ہے، ایسے میں قرآن مجید اور صاحب ِ قرآن (آقاپاک (ﷺ) کا پیغام ہی نجات ِامت کا سبب ہے- الغرض! قرآن مجید کے آفاقی نظریہ حیات کے تحت پوری انسانیت بہ تقاضائے وقت ہر دور میں فیضان ِ قرآن وپیغام ِ قرآن سے ہدایت پاتی رہے گی بشرطیکہ وہ تعلیمات ِ قرآن پر عمل پیرا ہو کیونکہ :

The Qur’an is a book which emphasizes ‘deed’ rather than ‘idea.” [28]

” قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے“-

٭٭٭



[1](آل عمران:138)

[2](النساء:174)

[3](السبا:28)

[4](الاعراف،158)

[5](پروفیسر محمد منور،برہان ِ اقبال،ص:151،اقبال اکادمی پاکستان)

[6](پروفیسر محمد منور،برہان ِ اقبال،ص:157،اقبال اکادمی پاکستان)

[7](ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی ،اقبال اور محبتِ رسول(ﷺ) ،ص:93)

[8] (غلام صابر،اقبال شاعرِ فردا،،ص:137،اقبال اکادمی پاکستان)                 

[9](ڈاکٹر محمود احمد غازی،محاضراتِ قرآنی،ص: 16،اشاعت اگست 2009)

[10](تجدید فکریاتِ اسلام، مترجم، ڈاکٹر وحید عشرت،ص:22، اقبال اکادمی پاکستان )

[11]https://www.mirrat.com/article/70/1140

[12]ایضاً

[13](طٰہ:114)

[14](البقرہ:269)

[15](آل عمران:164)

[16](ابوبکر بن عربی،قانون التاویل،ص:516)

[17]http://religion.asianindexing.com/images_religion/d/da/Al-I%CA%BFjaz_Research_Journal_of_Islamic_Studies_and_Humanities_2_2_3.pdf

[18]https://ia801002.us.archive.org/32/items/BESTUBOOKSQSI/QURAN_KAY_SCIENCEI_INKISHAFAT.pdf

[19](انور بن اختر،قرآن کے سائنسی انکشافات،ص:68،ادارہ اشاعت اسلام کراچی، اکتوبر 2003)

[20](ایضاً،ص:71)

[21](تصوف اور عمرانی مسائل اقبال کی نظر میں(تحقیقی و تنقیدی جائزہ)،ڈاکٹر طالب حسین سیال،اقبال اکادمی پاکستان ،ص: 101، 2012ء)

[22]https://faizahmadchishti.blogspot.com/2018/02/blog-post_34.html

[23](اسلام میں خدمتِ خلق کا تصور،مولانا سید جلال الدین عمری،اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی، دسمبر 2005،ص:42)

[24]( البقرہ،آیت 177)

[25](المائدہ:2)

[26]http://religion.asianindexing.com/images_religion/1/1f/Al-Milal-_Journal_of_Religion_and_Thought_1_1_2.pdf

[27](الاعلیٰ:14)

[28]http://www.archipress.org/docs/pdf/iqbalreconstruction.pdf

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر