بلوچی ادب اور فکرِ اقبال

بلوچی ادب اور فکرِ اقبال

بلوچی ادب اور فکرِ اقبال

مصنف: محمد اشفاق گورچانی نومبر 2024

ادب کسی بھی معاشرے میں روح کی حیثیت رکھتا ہے-ڈاکٹر جمیل جالبی کہتے ہیں ،ادب معاشرے کی روح کا ترجمان ہوتا ہے- کسی معاشرے میں ادب پیدا نہیں ہو رہا ہو تو عام آدمی بھی ادب کو بے معنی سر گرمی سمجھتا ہے اس کا مطلب ہے معاشرہ اندر سے بیمار ہے- یہ حقیقت ہے کہ ادب معاشرہ کی تہذیب و ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے - سر فلپ سڈنی نے کہا تھا شاعری وہ پہلی دایہ تھی جس کے دودھ نے انسان کو رفتہ رفتہ دقیق چیزوں کو ہضم کرنے کا اہل بنایا - اس لیے سماجی سائنسدان ادب اور معاشرے کے مابین ہموار تعلق پر زور دیتا ہے -

 فکر اقبال ؒ نے بھی پاکستانی معاشرت اور سماج کی تشکیل میں گہرا کردار ادا کیا - مشہور خطبہ الہ آباد میں آپ نے فرمایا مسلمانان ہندوستان کو اپنی روایات و تمدن کےلئے اس ملک میں آزادانہ نشو ونما کا حق حاصل ہو تو وہ وطن کی آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے دریغ نہیں کریں گے-

بلو چی ادب کی انفرادیت:

 مسٹر ڈیمز نے’’The Popular Poetry of the Baluch‘‘میں کہا ہے کہ بلوچی ادب خالصتاً عوامی ہے- بلوچی شاعری اپنی ہیت اور مواد کے لحاظ سے سیدھی سادی ہے -اس میں ہر بات نہایت صاف اور اچھے انداز سے کی گئی ہے -[1] ماحول کی عکاسی بڑی خوش اسلوبی سے کی گئی ہے - فردوسی اپنے شاہنامہ میں لکھتا ہے بلوچوں میں اگر ادب ہے وہ تلوار اور ڈھال کا ادب ہے، شجاعت کا ادب ہے گھوڑوں اور ان کی نسل کا ادب ہے-[2] ایچ -ٹی سورلے لکھتے ہیں: بلوچ مہمان نواز، حقیقت شناس،با ادب، دلیری اور سخاوت کے اعلیٰ نظریات اپنی روایات کے مطابق رکھتے ہیں- [3]

بلوچ ادباء  وشعراء نے اپنی روایات ، ثقافت اور اجتماعی شجاعت پسندانہ فکر کے عین موافق پا کر علامہ محمد اقبال کے کلام کو اپنی قوم کیلئے مفید اور زندگی بخش قرار دیا ہے -  اقبال کی اہمیت کو تسلیم کرنا در اصل بلوچ قوم کی طرف سے اقبال کے لیے عقیدت کا بھی اظہار ہے -  یہ علامہ محمد اقبال ہی تھے جنہوں نے سرزمینِ بلوچستان کو دِلّی اور بخارا سے بھی عظیم تر قرار دیا تھا (آگے اس نظم کا ذکر آئے گا)- 

بزم اقبال کوئٹہ:

پاکستان بننے سے چھ سال قبل جنوری 1941 ء میں کوئٹہ میں بزم اقبال کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ لوگوں کو اقبال کی فکر سے آگاہی دی جائے اور اس سرزمین کی روایات کے تابندہ مفکر کی تازہ فکر سے دلوں کے چمن آباد کئے جائیں - 

گو شہ اقبال جامعہ بلوچستان کو ئٹہ:

ستمبر 1966ء میں جامعہ بلوچستان کوئٹہ کی لائبریری میں گوشہ اقبال قائم کیا گیا  تاکہ بلوچستان کے لوگ تعلیمات اقبال ؒ سے آشنا ہوں -[4]

جس طرح بلوچ قوم اقبال سے متاثر ہے، ان کو عقیدت اور محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں -بعین ہی اقبال ؒ بھی بلوچ قوم کو محبت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں -جیسا کہ اپنے شاہکار کتاب ضرب کلیم میں بلوچستان کے بلند پہاڑوں اور اُن میں رہنے والے بلوچوں کے متعلق فرماتے ہیں -جن کو آج بھی بلوچی زبان میں کوہی  یعنی مردِ کہستانی کہتے ہیں -

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا  مردِ کہستانی
دنیا میں محاسب ہے تہذیب فسوں گر کا
ہے اس کی فقیری میں سر مایہءِ سلطانی

حضرت علامہ اقبال ؒ نے میر عبد العزیز کُرد کو بتایا کہ میں نے بلوچ قوم کی فطرت کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کے بارے میں انگریزی کتب میں بھی پڑھا- بلوچوں کی شجاعت بے نظیر ہے مگر افسوس وہ اپنی بہادری کو خانہ جنگی میں ضائع کر رہے ہیں -

علامہ اقبال ؒ کا ایک 32 سطری انگریزی مکتوب بنام سردار احمد خان لغاری محررہ 10 فروری 1914 کولکھا- یہ اقبال کے ابتدا ئی مکاتیب میں سے ایک ہے جو کسی بلوچ شخصیات کو لکھا گیا اب وہ لاہور عجائب گھر میں مو جود ہے -[5]

اس وقت تک قبائلی علاقہ کوہ سلیمان تُمن قیصرانی میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ علامہ اقبال ؒ کی ملاقات کوہ سلیمان کے مشہور بلوچ شاعر علی محمد خانٹک سے ہوئی تھی- ان دونوں شاعروں نے ایک دوسرے کو اپنا کلام سنایا - علامہ اقبال ؒ نے علی محمد خانٹک بلوچ شاعر کی دل کھول کر تحسین کی -[6] اقبال ؒ بھی بلوچی لٹریچر کلچر سے والہانہ محبت ر کھتے تھے -

ا قبال ؒ نے بلوچ قوم پر ایک نظم بھی لکھی ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘- بلوچ شعراء نے اس کا منظوم بلوچی ترجمہ بھی کیا- نظم کے چند ایک شعر ملاحظہ ہوں :

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سمت میں چاہے صفَتِ سیلِ رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا

منظوم بلوچی ترجمہ :

تھرا گواث بیوانی سا چیت شا اللہ،
کہ اشی ءَ شہ گہتر نئیں دلی بخارا،
ھمانگر کہ لوٹھے برو ہیر و حاراں،
کہ اے دشت مے غیں داں آ ریگزارا،
مزن چھی یئں گر ِو دار زند ء من غیرت،
 کہ درویش ءَ پہرایئنی آ تاج دارا[7]

بلوچی ادب میں اقبال ؒ کے الفاظ و تراکیب کا استعمال :

 اقبال ؒکے الفاظ و تراکیب و تلمیحات نے بلوچی ادب میں ایک خوبصورت اضافہ کیا - میر گل خان نصیر نے اپنے کلام میں’’کم عیار ‘‘کی تراکیب استعمال کی-

ما کم عیار و کم سیال
مے سنگ چے فسان چے[8]

اقبال ؒنے نظم مسجد قرطبہ میں ’’کم عیار ‘‘استعمال فرمایا :

تُو ہو اگر کم عیار، مَیں ہُوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات

ڈاکٹر محمد حیات مری نے اپنی کتاب ’’گاریں گوہر ‘‘ میں ترکیب (ہمت و توکل) استعمال کی ہے - غوث بخش صابر نے اپنی کتاب ’’ڈیہی دستانغ ‘‘میں اقبال سے مستعار اصطلاحیں استعمال کی ہیں - شیر محمد مری بلوچ نے اپنی کتاب ’’بلوچی زبان و ادبِ تاریخ‘‘ میں (خودی)کا لفظ استعمال کیا ہے -

بلوچی ادب میں علامہ اقبال ؒپرکام:

بلوچی ادب کو علامہ اقبال ؒ کے فکری اثرات نے بھر پور انداز سے مزین کیا -اقبال کے فکری گلستان نظم و نثر سے بلو چ ادبا ءو شعراء نے اپنے اپنےذوق کے مطابق گل چینی کر کے بلوچی ادب کو زیبائش دی- اقبال ؒ کے نظم و نثر میں پیش کردہ خیا لات، لفظیات، تلمیحات، اسلوب ِ نگارش،فن، فلسفہ اور فکر ونظریات نے بلوچی اصناف نظم و نثر کو ایک نئے شعور سے آشنا کیا- بلوچی ادب میں اقبالیاتی الفاظ و تراکیب کا استعمال، منثور و منظوم تراجم، اقبال پر مدحی نظمیں، تضمین نگاری، اقبالیاتی ڈیہی(بلوچی لفظ مطلب وطن، اقبال کی وطن سے متعلق شاعری)، مضمون اور اقبالیاتی کتب ظہور پذیر ہوئیں - بلوچی نثر میں اشعارِ اقبال کی تعبیہ کاری اور اقبالیاتی اقتباس نگاری سے بلوچی ادب کا رخ ایک نئے رنگ میں ابھر کر سامنے آیا- اقبال کا آغاز ِ جوانی سے بلوچ قوم اور بلو چستان کے ساتھ رابطہ رہا - اقبال ؒکے افکار مختلف ذرائع سے بلوچ ادبا ءاور شعراء تک پہنچتے رہے- اس طرح بلوچی ادیب اقبال سے متاثر ہونا شروع ہوا-

پیغام اقبال کا بلوچی ادب پر اثر:

جس طرح بڑے ذہن بڑے افکار سے اثر قبول کرتے ہیں اُسی طرح بہت سارے مفکرین کے نظریے کو بلوچی ادب نے قبول کیا ہے،  لیکن سب سے زیادہ اقبال کے نظریے نے اس پر اثر کیا- اقبال ؒ سے قبل بھی بلوچی شاعری میں نظریات کا دائرہ محدود تو نہ تھا مگر اس کے بعد اور وسیع نظر آتا ہے-پہلے صرف قومیت اور وطنیت تھی اب پورے عالم اسلام کے لیے بھر پور آواز ابھرتی نظر آتی ہے - بلوچ اہل علم و دانش واہل قلم نے اسلوبِ اقبال سے متاثر ہو کر وہی اسلوب اپنایا اور اپنی تخلیقات میں اسی انداز فکر کو اپنایا -بلوچی ادب کے صنف’’مضمون‘‘ میں اقبال کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی - اقبال ؒ کے بارے ’’ماہتاک اُولس بلوچی کوئٹہ‘‘ میں سب سے زیادہ مضامین شائع ہوئے-

تقابلی لحاظ سے اگر بلوچی ادب پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری نصاب کے زیرِ اثر ہر سکول کالج میں انگریزی ادب پڑھایا جاتا ہے ، لیکن بلوچ ادبا کی طبیعتوں نے اس سے اتنا اثر نہیں لیا جتنا اثر علامہ اقبال کے حیات آفرین افکار سے لیا ہے - 

یہ ادب نہ صرف اسلوب اقبال سے متاثر ہوا بلکہ اقبال کے افکار و نظریات نے بھی اسے متا ثر کیا - بلوچی ادب کو اقبال سے متا ثر کرنے میں اقبال کی بے نیازانہ اسلوب نگارش اور درویشی و خود آگاہی کا ہے -  اس کے علاوہ اقبالیاتی کتب، رسائل و اخبارات،ریڈیو ،ٹیلی ویژن ،سیاسی ومذہبی شخصیات ، طلباء و اساتذہ ادبا ءو شعرا ءحتیٰ کہ گائیکوں نے بھی اہم کردار ادا کیا- اقبال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے بلوچ ادباء و شعرا ءجیسے میر مٹھا خان مری،  میر گل خان نصیر ملک محمد رمضان، غوث بخش صابر ، عطا شاد ، حاجی محمود مومن بزدار، ڈاکٹر ملک طوقی، پروفیسر عبد الخالق بلوچ، پروفیسر عبد اللہ جان جمال دینی، نذیر احمد صوفی، محمد حسین عنقا و دیگر بہت سے بلوچ اہل قلم شامل ہیں-فکر اقبال سے نہ صرف مرد بلوچ ادباء و شعراء متاثر ہوئے بلکہ بلوچ خواتین نے بھی اقبال ؒ پر قلم اٹھا یا ہے-

نظریاتی اعتبار سے بلوچی ادب اقبال کے نظریہ توحید ، آرزو، جوش نمود، تخلیق، رسالت (ﷺ)، اسلام، انسانیت، سکون، خوف، بے ہمتی، شیطان، فرنگ، اشتراکیت و جمہوریت، ملوکیت، مزدور و سرمایہ، غلامی، فن، تاریخ، قومیت، خودی ، مرد کامل، ملت و خلافت، عشق و عقل وغیرہ سے متاثر نظر آتا ہے-  شاہین کے تصور نے بھی اقبال کو بلوچوں کے دل کے اس لئے قریب کر دیا کہ بلوچ یہ سمجھتے ہیں کہ شاہین کی جو صفات اقبال کی شاعری میں بیان ہوئی ہیں وہ صدیوں سے بلوچ تہذیب و تمدن میں موجود رہی ہیں - 

اقبالؒ کے بلوچی مضمون پر اثرات :

اقبالؒ کے بارے میں طبع شدہ بلوچی مضامین کا سب سے بڑا سرمایا ’’ماھتاک اولس بلوچی کوئٹہ‘‘میں شامل ہے- نثری اعتبار سے بلوچی ادب سب سے زیادہ ’’مضمون‘‘کے حوالے سے تعلیمات اقبال ؒ سےمتا ثر ہوا- چند اہم مضامین کی فہرست حسب ذیل ہے:

  • وش گشیں اقبال بشیر احمد ایم -اے اپریل 1962 ء
  • اقبال ءِ گوانک صورت خان مری اپریل 1970 ء
  • اقبال زند ءِ شاعر ایس -اے -بلوچ اپریل 1971 ء
  • مئے قومی شاعر میر محمد خان مری اپریل 1977 ء
  • اقبال و قومیت ظہور احمد نومبر 1978 ء
  • اقبال و خدی غنی پرواز مارچ 1979
  • تاریخ ٹاھینوک پروفیسر عبد الخالق بلوچ اکتوبر 1987 ء

کلام اقبال کی تطابق کاری :

میر مٹھا خان مری کی کتاب ’’دُر گالِ اقبال‘‘میں علامہ اقبال اور جوانسال بگٹی کے اشعار میں واضح تطابق کاری نظر آتی ہے :

پر تو حسن می افتند بروں ماند رنگ
 صورت ِ مے َ پردہ از دیوار مینا ساختی
 تھئ قذرتاں روش و شف گند غایاں
 تھئی جندا نہ گنداں کہ چھماں بغایاں

عبد الغفور بلوچ کی اس تحریر میں اشعار ِ اقبال کی خوبصورت تطابق کاری نظر آتی ہے:

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نہ ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
دھانہے در آتکو دفترے
راست گشاں ڈیری
سرے[9]

مدح اقبال :

اقبالؒ کی شخصیات و شاعری اور افکار نے بلوچ شعراء کو اس حد تک متاثر کیا کہ انہوں نے اقبال کی شان میں مدحی نظمیں لکھیں- اس طرح اقبالیاتی حوالے سے منظوم بلوچی ادب میں گراں قدر اضافہ ہوا-خدائے رحیم بیتاب با دینی رِند بلوچ نے بلوچی میں اقبال ؒپر نظم لکھی :

شاعر مشر ق علامہ اقبال
 بر منی نا قصیں عقل و خیال
مومن خدا رسیدہ نیک اعمال
عاشق بہ رسول عربی ءِ جمال
آئی حد نظر و فکرانی بال
خدمت خلق و اسلام احوال
نظریہ پاکستانِ بانیٔ
علم و فضل تاحد درجہ کمال
یورپٔ گشت و کرتے جال
فلسفہ و تہذیب چارت باز سال
دانش مغرب بنیاد تباہی و زوال
آئی تہذیب وت انت آئی قتال
مغرب ءَ نیست در اصل ءَ حال
فلسفہ و فکروت انت آئی زوال ؔ

’’شاعر مشرق علامہ اقبال، ؒ میری ناقص رائے کے مطابق نیک اعمال مومن خدا رسیدہ شخص تھے- وہ رسول عربی (ﷺ) کے جمال کے شیدا تھے -ان کی پرواز فکر کی منتہی خدمت خلق اور خدمت اسلام تھا - وہ نظریہ پاکستان کے بانی تھے- علم و فضل میں حد درجہ کمال رکھتے تھے - وہ یورپ گئے اور غور وفکر کیا -کئی سال وہاں کی تہذیب و فلسفہ کا مطالعہ کیا - دیکھا کہ مغربی علم و دانش کی بنیاد تباہی پر رکھی گی ہے، مغرب کی تہذیب خود ہی اس کی قاتل ہے اس کو خبر ہی نہیں کہ یہی فکر و فلسفہ اس کی زوال کا سبب بنیں گے‘‘-

اقبال ؒ کی تائید میں اور بھی کافی بلوچی نظمیں لکھی گئی ہیں، مثلا قومی سَر شاعر اقبال (قومی شاعر اقبال)،بنگویں اقبال (پیارااقبال)وغیرہ -[10]

حرف آخر:

 بلوچ ادباءو شعراء قلم نگار اقبال ؒ کی شخصیت و عظمت سے بہت متاثر ہوئے-فکر ِ اقبال بلوچی ادب میں روح کی حیثیت اختیار کر چکی ہے-بلوچ اہل علم نے اقبال ؒکے فیض سے  بلوچی ادب کو بھر پور انداز سے مستفیض کیا -جس کا بر ملا اظہار بلوچ سماج اور بلوچی نگار شات میں ملتا ہے -

٭٭٭


[1]The popular poetry of the Baluch ,M.L Dames

[2]ابو القاسم منصور فردوسی ، شاہنامہ فردوسی

[3]Shah Abdul Latif of Bhit P .143 H.T .sorely

[4]ڈاکٹر انعام الحق کوثر ،کتاب علامہ اقبال اور بلوچستان، ص: 10

[5]روز نامہ نواے وقت ،ملتان سنڈے میگزین 21 دسمبر 1997ء

[6]حاجی محمود مومن بزدار ،رُتگیں لال

[7]محمد رمضان بلوچ ،بلوچی دنیا ملتان، اکتوبر 1967ء، ص: 39

[8]گل خان نصیر ،کتاب شپ گروک

[9]عبدالغفور بلوچ ،کتاب میئں گشین

[10]ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ ،بلوچی ادب پر اقبال ؒکے اثرات

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر