سیشن اول
مسلم انسٹیٹیوٹ نے گورنر ہاؤس خیبرپختونخوا کے اشتراک سے منگل 13 اگست 2024 کو گورنر ہاؤس پشاور میں کانفرنس کا انعقاد کیا- گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا، جس کے بعد مسلم انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین صاحبزادہ سلطان احمد علی نے افتتاحی کلمات ادا کئے- کانفرنس نے متنوع سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا، جس میں مختلف جامعات کے وائس چانسلرز اور فیکلٹی، اراکین پارلیمنٹ، ادباء، دانشور شخصیات، میڈیا کے نمائندگان اور معاشرے کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے- پہلے سیشن کی نظامت اسامہ بن اشرف نے کی-
مقررین کے اظہا ر خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
فیصل کریم کنڈی (گورنر خیبر پختونخوا)
پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر اور موجودہ حالات کے پس منظر میں یہ کانفرنس پاکستان کی دو انتہائی قابل احترام شخصیات: شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال اور پشتو کے ممتاز شاعر اور دانشور خوشحال خان خٹک کے گہرے افکار و نظریات پر روشنی ڈالتی ہے- دونوں شخصیات کے فلسفے، زندگی کے قریباً تمام پہلوؤں میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں- علامہ اقبال کی شاہین کی تعریف کی بنیاد دراصل اس پرندے کا خود پر قابو اور غیرت جیسی خصوصیات ہیں، جبکہ خوشحال خان خٹک کا فلسفہ بھی آزادی کی زندگی گزارنے پر زور دیتا ہے- علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں ایک فکری انقلاب برپا کیا، جس نے ان میں برطانوی استعمار سے آزادی کی گہری تڑپ پیدا کی- اسی طرح خوشحال خان خٹک کی شاعری نے لوگوں میں وقار اور بہادری کا جذبہ پیدا کیا-آج نوجوان نسل کو علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک کے تصور کردہ عقاب کی خوبیوں کو مجسم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے -
صاحبزادہ سلطان احمد علی(چئیر مین مسلم انسٹیٹیوٹ)
قبائل، ان کی روایات اور ان کے امید افزا مستقبل کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات پشتون قبائل سے ان کی گہری محبت کو اجاگر کرتے ہیں- ان کا ماننا تھا کہ کسی بھی قوم کیلئے بنیادی خوبی قبائلی لوگوں کی فطرت ہے، اس خوبی کو وہ خاص طور پر مسلمانوں میں مجسم دیکھنا چاہتے تھے- اقبال کی نظر میں غیرت و حمیّت، ہمت اور خود انحصاری جیسے اوصاف ضروری تھے-
علامہ اقبال قرآن کریم میں سے آزادی کے استعاروں کی نشاندہی کرنے والے اور قوم میں آزادی کے جذبے کو بیدار کرنے والے تھے- اقبال نے حضور نبی اکرم (ﷺ) سے تحریک حاصل کی، خاص طور پر آزادی کے نظریات، وحی اور خدا کی وحدانیت پر یقین- اقبال نے اصحاب رسول (رضی اللہ عنھم) میں بھی ان نظریات کا عکس پایا اور اسی جذبہ حریت کو حضرت امام حسینؑ ، صلاح الدین ایوبی اور سلطان ٹیپو جیسی شخصیاتؒ میں بھی دریافت کیا- اپنی جستجو میں اقبال کا سامنا خوشحال خان خٹک سے ہوا، جن کی شناخت انہوں نے آزادی، غیرت، دیانت، شرافت، قومی یکجہتی اور جذبے کی مشترکہ اقدار کے ذریعے کی- پشاور، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا ایک مرکز ہے، جس کی اپنی قدیم ثقافتی اقدار ہیں- خوشحال خان خٹک اسی تہذیب کے نمائندہ ہیں- اقبال نے احمد شاہ ابدالی کو بھی اسی وراثت کا حصہ سمجھا جس نے خوشحال خان کی پیروی کی- جبکہ بھارت میں سرحد پار سے افغان عوام کی ثقافتی خصوصیات اور شناخت کو کمتر دکھانے کے لیے فلمیں بنائی جاتی ہیں- ششی تھَرور نے اپنی کتاب ’’ An Era of Darkness: The British Empire in India ‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ ہندوستان نے عالمی جی ڈی پی میں 29 فیصد تک حصہ ڈالا جبکہ اُس دور میں ترکوں اور افغانوں کی ہندوستان پر حکومت تھی- ہمارے آباؤ اجداد نے ہندوستان کو ایک بڑی معاشی طاقت بنایا- ہمیں بھارتی کی طرف سے بھارتی یلغار پر خاموش نہیں رہنا چاہیے- ہمیں اس کا نظریاتی، تعلیمی اور فکری جواب اور مؤقف دینا چاہیے-
پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر
(ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد)
اقبال نے خوشحال خان کے ترجمہ شدہ کاموں سے تحریک حاصل کی- یہ خوشحال خان کے فکری کمال کو نمایاں کرتا ہے کہ علامہ اقبال کے قد کاٹھ کے ایک عالم نے بھی ان کی تحریروں میں قدر پائی- خوشحال خان نہ صرف ایک آزادی پسند بلکہ اپنی تہذیب کے اخلاقی ضابطوں کے بھی محافظ تھے- چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود وہ اپنی اقدار میں غیر متزلزل رہے- آزادی اور غلامی کے خلاف مزاحمت کے مشترکہ نظریات علامہ اقبال میں پائے جاتے ہیں- شاعری ان دونوں عظیم شخصیات کو ایک مشترکہ مقصد میں مزید جوڑتی ہے-
خوشحال خان خٹک اور علامہ اقبال کے درمیان ایک اور مماثلت غیر معمولی انسانی اور روحانی خصوصیات کے حامل افراد کو تلاش کرنے اور ان سے سیکھنے کی اہمیت پر ان کا زور ہے-علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک دونوں کی ادبی تخلیقات انمول بصیرت پر مشتمل ہیں-خوشحال خان کی ادبی خدمات عام لوگوں تک وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں ہیں- اس لیے خوشحال خان کی تخلیقات کو صحیح طریقے سے مرتب کرنے اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کی اشد ضرورت ہے- جامعات اور لسانی شعبہ جات کو یہ کام کرنا چاہیے جو بلاشبہ انسانیت کیلئے ایک فلاحی کام ہو گا-
سینیٹر فرحت اللہ بابر (ممبر سینیٹ آف پاکستان)
اس کانفرنس کے عنوان نے فیڈریشن اور اس کی اتحادی اکائیوں کے درمیان فرق کو مؤثر طریقے سے پُر کیا ہے- اس طرح کے پروگرام گورنر ہاؤس میں باقاعدگی سے ہونے چاہئیں تاکہ وفاق اور اس کی اکائیوں کے درمیان سمجھی جانے والی دوری کو کم کیا جا سکے- اقبال اور خوشحال خان خٹک دونوں عظیم دماغ تھے اور جیسا کہ کہاوت ہے کہ ’’عظیم ذہن ایک جیسا سوچتے ہیں‘‘- ہر عظیم شخص کے خیالات اعلیٰ اہداف کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جو خود غرضی کی بجائے اعلیٰ امنگوں سے چلتے ہیں- علامہ اقبال کو پاکستان کا قومی شاعر مانا جائے تو خوشحال خان خٹک افغانستان کے قومی شاعر ہیں- اقبال نے ایک انگریز کی تحریر (1862ء میں شائع ہوئی) کو پڑھ کر 1928ء میں خوشحال خان پر ایک مقالہ لکھا- خوشحال خان کے ادب کو انگریزی میں شائع کرنے کی ضرورت ہے-
پروفیسر ڈاکٹر اعجاز خٹک( وائس چانسلر گندھارا یونیورسٹی پشاور)
خوشحال خان خٹک اور علامہ اقبال محض شاعر نہیں تھے جنہوں نے محض خوبصورت اشعار تیار کیے تھے بلکہ وہ گہرے مفکرین تھے جنہوں نے ایسے تصورات کو بیان کیا جو آج بھی گونجتے رہتے ہیں- اقبال نے اپنی فارسی شاعری میں خوشحال خان کو زبردست حکمت والا شاعر تسلیم کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا- اقبال کا یہ اعتراف خوشحال خان کے افکار کے نہ صرف اپنے زمانے میں بلکہ اس کے بعد کی صدیوں میں بھی دیرپا اثرات کی نشاندہی کرتا ہے- اقبال نے محسوس کیا کہ کسی قوم کی طاقت مغربی نظریات کو اپنانے میں نہیں بلکہ اس کی روحانی اور ثقافتی اساس سے جڑے رہنے میں ہے- بہادری اور آزادی وہ اقدار تھیں جنہیں خوشحال خان اور علامہ اقبال دونوں نے سب سے زیادہ اہمیت دی تھی- خوشحال خان نے بہادری کی ایک ناگزیر صفت کے طور پر بات کی، جبکہ اقبال نے اس جذبے کی بازگشت کرتے ہوئے دوسروں کو عزم کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے کی ترغیب دی، کیونکہ یہ چیلنجز بالآخر انسانی روحانیت کو بلند کرتے ہیں-
پروفیسر ڈاکٹر نوشاد خان (سابق وائس چانسلر اسلامیہ کالج پشاور)
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ایک یادگار شخصیت تھے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو تبدیل کیا- جہاں ان کو شاعر مشرق اور پاکستان کے قومی شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، وہیں ہندوستان میں ان کی سیاسی شمولیت ( 1926ء اور 1938ء) اور مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد میں کردار کو بہت کم جانا جاتا ہے- اقبال کی اہم سیاسی کاوشوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی الگ شناخت کی وکالت، نہرو کے متحدہ ہندوستانی قومیت کے تصور کی مخالفت، دو قومی نظریہ کو بیان کرنا اور محمد علی جناح کی رہنمائی شامل ہے- اقبال نے یورپ میں تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد 1908ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی- وقت گزرنے کے ساتھ، وہ ہندوستان میں مسلم حقوق کی وکالت کرنے والی ایک مرکزی شخصیت بن گئے، جنہوں نے لیگ کے نظریہ کو نمایاں طور پر متاثر کیا- 1927ء میں، اقبال نے ہندوستان میں مختلف قوموں کے درمیان بنیادی تنازعات پر بات کرتے ہوئے متحدہ قومیت کے نظریے کو مسترد کر دیا- 1930ء میں، الہ آباد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 21ویں سالانہ اجلاس کے دوران، اقبال نے ایک اہم خطاب کیا- انہوں نے ایک مضبوط شمال مغربی ہندوستانی مسلم ریاست کے قیام کی وکالت کی، ایک ایسا نظریہ جس نے مسلم لیگ کی سیاسی حکمت عملی میں انقلاب برپا کیا اور پاکستان کی تخلیق کی بنیاد رکھی-
پروفیسر ڈاکٹر عبد الرؤف رفیقی(ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی پاکستان)
بیرون ملک رہتے ہوئے علامہ اقبال کا جرمنی میں جارج سے سامنا ہوا جنہوں نے انہیں ترجمے کے ذریعے خوشحال خان سے متعارف کروایا- 1926ء میں علامہ اقبال نے حیدرآباد دکن اسلامک کلچر ریسرچ جرنل میں ’’The Great Afghan Warrior Poet‘‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں خوشحال خان خٹک کو دنیا سے متعارف کرایا-خوشحال کے کاموں کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اقبال نے افغان وزیر تعلیم پر زور دیا کہ وہ خوشحال کے کام کا انگریزی میں مکمل ترجمہ کریں، یہ مانتے ہوئے کہ دنیا کو انسانی عقل کے اس گہرے ماخذ سے آگاہ ہونا چاہیے-جالندھر میں رہنے والے اپنے دوست نیاز الدین خان کو لکھے ایک خط میں اقبال نے خوشحال کی زبان کو براہِ راست نہ سمجھنے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور خوشحال کی دانشمندی کو پوری طرح سمجھنے کے موقع سے محروم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا- 1936ء میں، جب خدیجہ فیروز الدین نے اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ان سے مشورہ طلب کیا تو حضرت اقبال نے انہیں خوشحال خان خٹک کی زندگی اور کاموں پر توجہ مرکوز کرنے کی ترغیب دی- اقبال، جو علمی دیانت کا سرچشمہ اور افغانوں کے محسن ہیں، انہوں نے ’’محراب گل افغان کے افکار‘‘ نظم کے ذریعے افغان عوام کے مختلف کرداروں کو خراج تحسین پیش کیا-
سیشن دوم
کانفرنس کے دوسرے سیشن میں گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے اظہارِتشکر ادا کیا جبکہ مسلم انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کانفرنس کے اختتامی کلمات ادا کیے- دوسرے سیشن کی نظامت جناب بابر جان خوازی خیل نے کی-
مقررین کے اظہا ر خیال کا خلاصہ درج ذیل ہے:
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال ( چیئرمین شعبہ پشتو اسلامیہ کالج، پشاور)
علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک کا شمار دنیا کی ممتاز ادبی اور سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے- آپ دونوں کے ادوار میں 264 سال کا فاصلہ ہے- دونوں نے اپنی ثقافت پر گہرا اثر ڈالا- خوشحال خان خٹک نثر نگار، محقق، مفکر، عالم، جغرافیہ دان، مورخ، جنگجو، خطاط اور تیر انداز تھے- لیکن آپ نے کسی بھی یونیورسٹی سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی- اس کے علاوہ آپ کو فارسی اور عربی زبانوں پر بھی زبردست عبور حاصل تھا- خوشحال خان خٹک قریباً 250 کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں ایک کتاب ’’دستار نامہ‘‘ 6 دنوں میں اور 5دنوں میں ایک سیاسی کتاب لکھی- آپ نے پشتو ادب میں نئے موضوعات کو متعارف کروایا اور اپنے گھر میں ایک اکیڈمی کی بنیاد رکھی، جہاں انہوں نے اپنے بیٹوں اور پوتوں کو پشتو ادب سکھایا، جس نے پشتو ادب کی بنیادوں کو مزید مربوط کیا-
علامہ اقبال بیسویں صدی کے شاعر، مفکر اور سیاست دان تھے- آپ کی شاعری عالمی ادب کا قیمتی اثاثہ ہے- آپ اردو اور فارسی درس و تدریس سے بھی وابستہ تھے اور بطور پیشہ قانون دان تھے- بعد ازاں سیاست میں بھی حصہ لیا- اقبال کی شاعری نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے- آپ کی شاعری روحانیت، خود شناسی اور آزادی کی وکالت، فرد اور الٰہی کے درمیان تعلق، وجود کی وحدت اور جدوجہد جیسے موضوعات پر مرکوز ہے-
اقبال اور خوشحال کی شاعری کا سرچشمہ قرآن پاک ہے- آپ دونوں کی شاعری خدا کے افعال کی ترجمانی ہے- شعری اور فکری علوم پر مکمل گرفت کی وجہ سے آپ دونوں کو اسلام کا شاعر بھی کہا جاتا ہے-
ڈاکٹر سلمہ ٰ شاہین(سابقہ ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی یونیورسٹی آف پشاور)
خوشحال خان کے شاعرانہ کلام کی آرزو اس سطح تک بڑھ گئی کہ اقبال، خوشحال خان کو براہ راست سمجھنے کی خواہش رکھتے تھے- انہوں نے حاجی امان اللہ افغانی سے گزارش کی کہ وہ خوشحال خان کی شاعری کا ترجمہ کریں- انہوں نے خوشحال خان کی شاعری پڑھنے کے لیے سجید گل کی خدمات بھی حاصل کی- کچھ تفہیم کے بعد علامہ اقبال نے خوشحال خان کو افغانستان کا ایک عظیم جنگجوشاعر قرار دیا- مزید برآں یہ علامہ اقبال کا پشتونوں پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے خوشحال خان کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کروایا- ہم اقبال سے محبت کرتے ہیں کیونکہ ہم ان کے کلام کو پڑھ کر خوشحال سے بھی واقف ہوتے ہیں- تاہم، ہم خوشحال خان خٹک کو ابھی تک صحیح طرح سمجھنے سے قاصر ہیں-
ڈاکٹر محمد حنیف خلیل
(ڈائریکٹر، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد)
خوشحال خان خٹک کے بارے میں اقبال کا علم خود بہت سے پشتونوں سے بھی زیادہ ہے- یہ ضروری ہے کہ ہم تحقیق کریں کہ اقبال کی پشتون علماء سے کتنی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کے بارے میں ان کے خیالات کیا تھے، خاص طور پر خوشحال خان کے بارے میں- اقبال نے جب بھی خوشحال کے اشعار کا حوالہ دیا، اس کا اعتراف کیا، حالانکہ ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ان کے خیالات میں مماثلت نمایاں ہے- اس ہم آہنگی کو ان کے مشترکہ ذریعہ الہام سے منسوب کیا جاسکتا ہے-اقبال نے پشتون جغرافیہ کی تزویراتی اہمیت کے بارے میں بھی بات کی اور آپ کا ایک مشہور شعر ہے کہ اگر ایشیا کا دل افغانستان پریشان ہوا تو یہ پورے خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے- ہمیں خوشحال خان اور اقبال کے درمیان مماثلت کو تلاش کرنے اور اجاگر کرنے کیلئے جدید تحقیقی طریقوں کو بروئے کار لانا چاہیے-
1924ء میں، اقبال نے ترک حکومت کو ایک خط لکھا، جس میں ان پر زور دیا کہ وہ خوشحال خان اور دیگر قابل ذکر پشتون شخصیات کا جامع مطالعہ کریں- یہاں تک کہ آپ نے ان کے لیے چھے لیکچرز کا خاکہ پیش کیا، جن میں خوشحال خان سے پہلے کی تاریخ بھی شامل تھی- ان لیکچرز میں اقبال نے پشتون قوم کی ثقافت اور رسم و رواج پر گفتگو کی-
جناب عادل خٹک (سی ای او، اٹک ریفائنری ، خانوادہ خوشحال خان خٹک)
افسوس خوشحال خان کی عمیق اور ہمہ جہت شخصیت کو وہ پذیرائی نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھی- علامہ محمد اقبال، جو ان سے بہت متاثر تھے، انہوں نے خوشحال خان کو ’’افغان عالم‘‘ اور ’’افغان قوم کا بابا‘‘ کہا- اقبال نے اپنی شاعری میں خوشحال کی فکر اور فلسفہ کو تفصیل سے بیان کیا ہے- جہاں اقبال نے مثالی مومن، یا مردِ مومن کا تصور پیش کیا، خوشحال خان خٹک نے ایک مثالی شخصیت کا تصور علم و عمل، قول و فعل کے درمیان کامل توازن کے طور پر پیش کیا- ان کا مثالی کردار اسلامی اصولوں اور اعلیٰ ترین انسانی اقدار کا مجموعہ تھا-
خوشحال بابا کےنزدیک حقیقی رہنما وہ ہے جو ظلم پر انصاف، تنازعات پر امن اور یکطرفہ فیصلہ سازی پر مشاورت کو فروغ دیتا ہے- ایسے رہنما کو اپنے ظاہری طرز عمل اور اندرونی عقائد کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے اور تکبر کی بجائے عاجزی اور سخاوت کا مظاہرہ کرنا چاہیے- قابل ذکر بات یہ ہے کہ دست نامہ خوشحال خان نے قید کے دوران لکھا تھا، جس میں حوالہ جاتی مواد تک رسائی نہیں تھی، پھر بھی یہ قرآن کریم، حدیث مبارکہ، تاریخی واقعات اور افلاطون جیسے فلسفیوں کے حوالہ جات سے بھرا ہوا ہے- انہوں نے اقتصادی انتظام، زراعت اور تجارت کی اہمیت پر بھی زور دیا- مزید برآں، خوشحال خان نے ایک اچھے رہنما کیلئے کھیلوں، مصوری، موسیقی اور سفر کی اہمیت پر روشنی ڈالی-
جناب احمد کریم کنڈی
(رکن صوبائی اسمبلی ، خیبر پختونخوا)
اپنی بصیرت کی جستجو میں، میں نے علامہ اقبال کی تخلیقات، خاص طور پر ان کی مثنوی مسافر کا مطالعہ کیا- اس ادبی شاہکار کا، اگرچہ مختلف ذریعوں سے حوالہ دیا گیا ہے، لیکن اس کی وہ وسیع تحقیق نہیں ہوئی جس کی یہ واقعی مستحق ہے- اس کے ابیات کے اندر خیالات کا ایک بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے جو افغانستان کے ثقافتی اور تاریخی ورثے کے بارے میں ہمارے ادراک کو وسعت عطا کر سکتا ہے-
افغانستان کے اپنے دورے کے دوران، اقبال نے خوشحال خان کے تعلیمی فلسفے کی تعریف کی، خوشحال کے کاموں کو افغان یونیورسٹی کے نصاب میں شامل کرنے کی اہمیت پر زور دیا- اقبال اور خوشحال خان دونوں کیلئے تعلیم محض علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں تھی- یہ سماجی ترقی اور بااختیار بننے کا ایک اہم ذریعہ تھا-
آج ہم جن چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں ان کا تقاضا ہے کہ ہم حکمت اور دور اندیشی دونوں کے ساتھ کام کریں- جیسا کہ علامہ اقبال نے دانشمندی سے کہا تھا کہ ’’مستقبل سے غافل ہونا خود فراموشی کا یقینی راستہ ہے‘‘-
صاحبزادہ سلطان احمد علی ( چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ)
علامہ اقبال اور خوشحال خان خٹک ایسے شاعر نہیں ہیں جن کا محض مطالعہ کیا جائے- وہ ایسے مفکرین ہیں جن کا جوہر ہمارے کردار میں داخل ہونا اور جھلکنا چاہیے- جس طرح قرآن کریم، سنت مبارکہ اور ہماری تاریخ سے ہمارا تعلق عمل سے جڑا ہونا چاہیے، اسی طرح ان کے افکار آزادی، عزت، سچائی، انصاف، جرأت اور اعلیٰ ترین انسانی نظریات جیسی اقدار کو مجسم کرنے کی دعوت دیتے ہیں- ان عظیم ہستیوں نے محض حفظ یا رسمی تلاوت کیلیے اپنا کلام نہیں لکھا بلکہ انہوں نے اپنے کلام سے ہمارے دلوں میں ایسی آگ بھڑکائی ہے جو بامعنی تبدیلی لاتی ہے اور وقار کو برقرار رکھتی ہے-
فیصل کریم کنڈی (گورنر خیبر پختونخوا)
یہ اپنی نوعیت کی پہلی اور آخری کانفرنس نہیں ہے، ہمیں اس کے تسلسل کو یقینی بنانا ہوگا- ہمیں علامہ اقبال، خوشحال خان خٹک اور دیگر اہم شخصیات پر توجہ مرکوز کرنے والی کانفرنسز کا انعقاد کرنے کیلئے پاکستان اور افغانستان کے اسکالرز کو بلانا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ اپنے وسطی ایشیائی پڑوسیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے- دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں، اس طرح کی تقریبات پاکستان اور اس خطے کی ایک مثبت تصویر پیش کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں-
گندھارا تہذیب کا گہوارہ خیبر پختونخوا ایک غیر معمولی ورثے کا گھر ہے اور طویل عرصے سے مذہبی سیاحت کا مرکز رہا ہے- اس پہلو کو فروغ دے کر، ہم صوبے کی بھرپور تاریخی ٹیپسٹری کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں، جہاں 7 سے 8 مختلف مذاہب کے پیروکار کبھی امن کے ساتھ رہتے تھے-
٭٭٭