تاریخِ عالم شاہد ہے کہ کسی قوم کی ترقی علوم و فنون میں ترقی کی مرہونِ منت ہوتی ہے- انہیں قوموں نے دنیا میں سکہ جمایا جو علم دوست رہیں کیونکہ سائنسی دریافت اور ایجادات علمی اندازِ فکر ہی کے نتیجے میں سامنے آئیں-یہ سبب ہے کہ اسلام کے سنہری دور میں مسلمانوں نے علم پر خاطر خواہ توجہ دی- گود سے گور تک علم حاصل کرنے کا فرمان دین اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے- ہمارے اسلاف نے ہمیں ہمیشہ علم کے حصول کی طرف راغب کیا-ان کا طرزِ زندگی بھی علم کے حصول پر ابھارتا ہے- صرف سائنس ہی نہیں بلکہ دیگر جید علوم جیسے فقہ، علمِ حدیث، علم الکلام یہ بھی دراصل ایک ریاضیاتی و منطقی اندازِ فکر کے سبب پروان چڑھے جہاں بہت سے چھوٹے بڑے مسائل سالہا سال بلکہ صدیوں تک کے اختلافِ رائے کی قبولیت، دلیل اور منطق سے علمی مباحث کے بعد حل کئے گئے- یہی فکر فلسفہ اور سائنس کی ترویج کا سبب بنی جب کسی علمی نکتہ کو بغیر مضبوط دلائل کے قبول نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی کسی اخذ کئے گئے عمومی اصول کے بغیر مضبوط دلیل کا رد کیا جاتا تھا- اس اندازِ فکر نے نِت نئے علوم کو جنم دیا جو مسلم تہذیب کی ترقی کا ضامن بنا-
آج کی دنیا میں جہاں ففتھ جنریشن وار اور مابعد سچائی (post truth) جیسے مسائل کا ہمیں سامنا ہے- حقائق ملاحظہ کئے بنا بیانات کو تسلیم کر لینا، چاہے وہ سیاست سے متعلقہ ہوں، معیشت سے متعلقہ ، سماج سے متعلقہ یا مذہب سے متعلقہ، یہ اس وقت ہمارے اہم ترین قومی مسائل میں سے ہے- ورلڈ اکنامک فورم نے بھی 2024 میں دنیا بھر کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ گمراہ کن معلومات(disinformation) کو قرار دیا ہے- لیکن اس کا بدترین اثر ان معاشروں پہ ہو رہا ہے جہاں منطقی اور سائنسی شعور پستی کی حالت میں ہے- چنانچہ دورِ حاضر میں ہمارے اکثر مسائل کی بنیادی وجہ سائنسی فہم سے دوری اور سوشل میڈیا پہ آنے والی جعلی اور گمراہ کن معلومات کا علمی و منطقی تجزیہ نہ کرنا ہے-
آج دنیا میں وہی قومیں مضبوط ہیں جنہوں نے منطقی علوم کی طرف توجہ دی -وہ گمراہ کن معلومات کا مقابلہ بھی کر رہی ہیں اور سائنسی علوم کو حاصل کرکے انہوں نے ایسی مصنوعات و خدمات(Products and Services) فراہم کیں جن کی باقی دنیا محتاج ہوگئی-نیز اس سے معاشروں کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں، گو کہ وہ کیسے ہی نظریات پہ مبنی ہوں، لیکن ان نظریات کی حفاظت جب علمی اور سائنسی شعور کے ہاتھ میں آتی ہے تو دنیا میں ان کی ترقی اور بالا دستی کا راستہ بہت آسان ہو جاتا ہے اور ایک ایسی قوم جس کے پاس آفاقی نظریات بھی ہوں، روحانی استخلاص کا سامان بھی ہو، اس کے زوال اور ترقی میں حائل یہی امر ہے کہ وہ اپنے نظریات پہ پختہ ہو اور اپنی ملی وحدت کی حفاظت اور قومی ترقی کیلئے علم و منطق اور سائنسی شعور کو پروان نہ چڑھائے- اس ضمن میں علامہ محمد اقبال کی فکر ہمارے لیے مشعل راہ ہے- انہوں نے مغربی تعلیمی اداروں سے خود اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کی اور پھر اسلام کی علمی و فلسفیانہ انداز میں تشریح کی جو موجودہ دور میں اسلامی فکر کی تجدید میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے- اقبال نے جہاں خودی کو بلند کرنے کی بات کی وہیں اپنا علمی ورثہ غیروں کے پاس دیکھ کر افسوس کا بھی اظہار کیا- جہاں اپنی نظموں سے مسلمانوں کا خون گرمایا وہیں انہوں نے اپنے کلام میں علوم و فنون پہ بھی زور دیا اور اپنے خطبات میں سائنسی اور علمی اندازِ فکر کی اہمیت کا کھل کر اظہار کیا-
سائنسی اندازِ فکر کیا ہے؟
سائنسی انداز فکر میں مشاہدہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے- اس فکر میں محض مفروضوں کی بجائے تجربات سے حاصل کیے گئے علم کو اہمیت حاصل ہے- گو کہ تجربات اور ریاضی کی منطق کی ذریعہ علم کی ترویج سائنس کا خاصہ ہے تاہم یہ اندازِ فکر انسانی زندگی اور معاشرے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے-یہی سبب ہے کہ جب سماجی علوم کو بھی مشاہدات اور منطقی انداز کے ذریعہ آگے بڑھایا جاتا ہے تو انہیں بھی سوشل سائنسز کا نام دیا جاتا ہے-سوشیالوجی، نفسیات، سیاسیات اور دیگر شعبہ جات ، یہ سب منطقی اور سائنسی اندازِ فکر پہ قائم ہوئے ہیں-
منطقی اور سائنسی اندازِ فکر کے احکامات قرآن کریم میں جابجا ملتے ہیں- وحدانیت پہ دلائل ہوں یا انبیائے کرام کے واقعات ہوں، حضرت ابراہیمؑ کا سکونِ قلب کیلئے پرندوں کو زندہ کئے جانے کے مشاہدہ کا واقعہ ہو یا زمین و آسمان کی تخلیق میں غور و فکر کی دعوت، یہ تمام احکامات جہاں اپنا روحانی پہلو رکھتے ہیں وہیں سائنسی اندازِ فکر کی جانب ابھارتے ہیں-
اقبال کی سائنس اور سائنسدانوں کیلئے پذیرائی:
علامہ اقبال نے مغرب میں ہونے والی علوم میں ترقی کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی کی- انہوں نے طبیعات میں بیسیویں صدی کے شروع میں ہونے والی انقلابی تبدیلیوں کو قریب سے دیکھا- ان کے اپنے ذاتی مطالعہ میں بھی اکثر سائنس کی کتب شامل ہوتی تھیں-علامہ اقبال کے ذاتی کتب خانے میں انگریزی کی کُل 520 کتب دستیاب ہیں- ان میں زیادہ تر کتب طبیعی علوم (Physical Sciences )پر ہیں-جبکہ 17 کتب آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت (Theory of Relativity) کے موضوع پر ہیں- کسی اور موضوع کو علامہ اقبال نے اتنی اہمیت نہیں دی جتنی نظریہ اضافیت کو دی کیونکہ وہ بیسویں صدی کے طبیعات کے عظیم شاہکاروں میں سے تھا- علامہ اقبال نے اپنے خطبات میں مختلف سائنسی بالخصوص طبیعات اور ریاضی کے نظریات پہ بحث کی ہے اور بہت سے سائنسدانوں کے حوالہ جات پیش کئے ہیں جو ریاضی اور سائنسی علوم کے ساتھ ان کے لگاؤ کا اظہار ہے- انہوں نے مختلف سائنسی نظریات کو بھی زیرِ بحث لایا ہے جیسے زمان و مکاں (time and space)، کوانٹم فزکس، کلاسیکل فزکس، فنکشن (Function)، انترپولیشن (interpolation)، ہائیپرسپیس (Hyperspace)، لامحدود تسلسل (infinite continuum)، نان یوکلیڈئین جیومیٹری(Non Euclidean geometry)، متوازی مفروضے (Parallel postulate) وغیرہ- یہ صرف ان کے فلسفیانہ مباحث میں بطور حوالہ ہی نہیں بیان ہوئے بلکہ ان کی نظر میں سائنسی اور ریاضیاتی علوم کی اہمیت کا بھی مظہر ہیں-
علامہ اقبال جب بیان فرماتے ہیں کہ دین کی حفاظت بے قوت بازو ممکن نہیں، اس سے مراد بھی دراصل سائنسی و منطقی علوم اور ٹیکنالوجی میں مہارت ہے- علامہ اقبال نے اہلیانِ مشرق بالخصوص مسلم دنیا کیلئے جن چیزوں میں مغرب کی تقلید کا کہا ہے ان میں جدید علم و ہنر بنیادی چیز ہے- بلکہ وہ اس کے قائل تھے کہ جدید سائنس کی بنیاد رکھنے والے مسلمان ہی تھے جنہوں نے تجرباتی علوم پہ زور دیا جس کے لئے تحرک انہیں قرآن کریم سے ملا-خطبات میں علامہ اقبال فرماتے ہیں:
“No doubt, the immediate purpose of the Qur’an in this reflective observation of Nature is to awaken in man the consciousness of that of which Nature is regarded a symbol. But the point to note is the general empirical attitude of the Qur’an which engendered in its followers a feeling of reverence for the actual and ultimately made them the founders of modern science. It was a great point to awaken the empirical spirit in an age which renounced the visible as of no value in men’s search after God”.
’’بلا شبہ قرآن کریم نے غور و فکر کے ساتھ فطرت کے مشاہدے کی تلقین کی تو اس لیے کہ ہم اس حقیقت کا شعور پیدا کریں جس کی ایک نشانی عالم فطرت ہے- یہاں توجہ طلب امر قرآن کریم کی وہ حقیقت پسندانہ روش ہے جس سے مسلمانوں کے اندر عالم واقعیت کا احترام پیدا ہوا اور جس کی بنا پر آگے چل کر انہوں نے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی- پھر یہ بات کہ تجربے اور مشاہدے کی اس روح کو اس زمانے میں بیدار کیا گیا جو خالق کائنات کی جستجو میں عالم محسوسات کو بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کر چکا تھا، کوئی معمولی واقعہ نہیں‘‘-
لیکن مسلمانوں نے اپنی علمی میراث چھوڑی جس کے باعث وہ زوال کا شکار ہوئے اور ان کے مقابلے میں دوسرے معاشرے جنہوں نے علمی میراث کو اپنایا وہ آگے نکل گئے- جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی |
علامہ اقبال نے فطرت کے مطالعہ، یعنی سائنسی علوم کو گویا ایک طرح کی عبادت سے تشبیہ دی- وہ خطبات میں فرماتے ہیں:
“The knowledge of Nature is the knowledge of God’s behaviour. In our observation of Nature we are virtually seeking a kind of intimacy with the Absolute Ego; and this is only another form of worship.”
’’فطرت کا علم خدا کی خدائی کا علم ہے- جب ہم فطرت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو گویا انائے مطلق سے قریب تر ہوتے ہیں اور یہ بھی ایک قسم کی عبادت ہے‘‘-
اقوامِ عالم میں سر بلندی کیلئے سائنسی ترقی کی ضرورت:
سائنس اور ٹیکنالوجی کی اہمیت، دفاع اور معیشت کیلئے تو ہے ہی، ساتھ ہی ساتھ یہ قومی تشخص کیلئے بھی اہمیت رکھتے ہیں- بالکل ایسے ہی جیسے کھیل کے میدان قوم کی جسمانی حالت بیان کرتے ہیں، سڑکوں پہ ہونے والی ڈرائیونگ قومی نفسیات کا بھی مظہر ہوتی ہے، ایسے ہی سائنسی میدان میں ترقی قوم کے اندر سائنسی اندازِ فکر کی عکاس ہوتی ہے- دنیا میں سائنس کا سب سے بڑا انعام نوبل پرائز کو جانا جاتا ہے- 1901ء سے لے کر آج تک طبیعات کے میدان میں امریکہ نے 97، جرمنی نے 28، برطانیہ نے 26، فرانس نے 16، روس نے 11 جبکہ جاپان نے 10 نوبل انعام حاصل کئے ہیں اور دیگر کوئی بھی ملک 10 سے زائد انعام حاصل نہیں کر سکا - یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ سائنسی اندازِ فکر مغربی معاشروں میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے جس سبب تسلسل سے وہاں ایسے سائنسدان سامنے آتے ہیں جو دنیا کے بہترین سائنسدانوں میں شامل ہوتے ہیں- چنانچہ قوم کا سافٹ امیج سامنے لانے کیلئے جہاں فنونِ لطیفہ، ادب اور اخلاقیات اہم ہیں وہیں سائنسی اور منطقی اندازِ فکر بھی اہم ہے -
فکرِ اقبال کا کردار:
علامہ محمد اقبال ان شخصیات میں سے ہیں جن کے افکار ہمارے لئے رہنمائی کا باعث ہیں- ہمیں ان کے روحانی، معاشی و سیاسی افکار کے ساتھ ساتھ علمی و منطقی افکار سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے - منطقی فکر ہماری سماجی، سیاسی، مذہبی اور دیگر معاملات میں ہمیں آپس میں احترام کی طرف بھی لاتی ہے- علامہ اقبال کا خطبہ الٰہ آباد، جو ایک سیاسی پارٹی کے سالانہ کنونشن میں دیا گیا تھا، اس خطبہ میں جذباتیت کی بجائے گہرے علمی دلائل اور منطقی اندازِ فکر سے علامہ نے ایک سوچ قوم میں منتقل کی- سیاسی جلسوں میں ایسا منطقی اندازِ فکر آج کے دور میں شرق و غرب میں شاید ہی کہیں نظر آئے- درست ہے کہ جذبات اور احساسات انسانی زندگی کیلئے ایک بنیادی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بعینہٖ یہ بھی اہم ہے کہ باہمی معاملات اور قومی زندگی میں علمی دلائل اور منطقی اندازِ فکر کے ساتھ مستحکم بنیادوں پر اتحاد و یگانگت کو فروغ دیا جائے-
یہاں ایک نکتہ یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ علامہ اقبال کی ظاہری علوم پہ بعض جگہ تنقید دراصل سائنس یا علم کا رد نہیں بلکہ روحانیت سے عاری ہو کر محض سائنس پہ بھروسہ کرنے پہ تنقید ہے- علامہ اقبال خطبات میں ایک اور مقام پہ وضاحت سے سائنس کے معترف نظر آتے ہیں اور مذہب کے طلباء کیلئے واضح فرماتے ہیں کہ کلیت کے مظہر مذہب کو کبھی ایک جز کی مظہر سائنس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے خطبات میں فرماتے ہیں:
“There is no doubt that the theories of science constitute trustworthy knowledge, because they are verifiable and enable us to predict and control the events of Nature. But we must not forget that what is called science is not a single systematic view of Reality….The moment you put the subject of science in the total of human experience it begins to disclose a different character. Thus religion, which demands the whole of Reality and for this reason must occupy a central place in any synthesis of all the data of human experience, has no reason to be afraid of any sectional views of Reality. Natural Science is by nature sectional; it cannot, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality.”
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس کے نظریات قابل اعتماد علم کی تشکیل کرتے ہیں کیونکہ وہ قابل تصدیق ہیں اور ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم فطرت کے بارے میں پیش گوئی کر سکیں اور اسے قابو میں رکھ سکیں- مگر ہمیں یقیناً یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ جسے ہم سائنس کہتے ہیں وہ حقیقت تک رسائی کا کوئی واحد منظم ذریعہ نہیں ہے--- جس لمحے آپ سائنس کے موضوع کو مکمل انسانی تجربے کے پس منظر میں دیکھتے ہیں وہ اپنا ایک بالکل مختلف کردار ظاہر کرنے لگتا ہے- چنانچہ مذہب، جو حقیقت کو کلی طور پر جاننا چاہتا ہے اور جو انسانی تجربے کی کلیت میں یقینی طور پر ایک مرکزی مقام رکھتا ہے، کو حقیقت کے کسی جزوی نقطہ نظر سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے-فطری علوم اپنی فطرت میں جزوی ہیں- اگر یہ علوم اپنی فطرت اور اپنے وظیفے کے بارے میں سچے ہیں تو وہ کلی نہیں ہو سکتے اور نہ کوئی ایسا تصور قائم کر سکتے ہیں جو حقیقت کے کلی تصور پر مشتمل ہو‘‘-
چنانچہ ہمیں ایک توازن کی ضرورت ہے- ظاہری علوم اور باطنی علوم دونوں میں ترقی ہی قومی ترقی کہلا سکتی ہے- چنانچہ اپنی روحانی اساس کے ساتھ منطقی فہم و ادراک اور سائنسی اندازِ فکر ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے-
٭٭٭