بال جبریل نہ صرف بہترین طویل نظموں کا مجموعہ ہے جن میں ’’مسجد قرطبہ‘‘، ’’ذوق و شوق‘‘ اور ’’ساقی نامہ‘‘شامل ہیں بلکہ اس کتاب میں زیادہ تر ایسی غزلیات شامل ہیں جنہیں حضرت علامہ اقبال کے اردو کلام کا بہترین نمونہ اورغزل کی نمائندہ تخلیق سمجھا جاتا ہے جن میں ہر ایک غزل سے مضامین، وارداتِ شعری اور فن کے نئے سے نئے زاویوں نے جنم لیا- اہلِ علم و ادب کے نزدیک بالِ جبریل کی غزلیات اقبال کو ’’جدید غزل کا بانی‘‘ بناتی ہیں- ان غزلیات میں جو استعاراتی زبان ہے، جو ابلاغ اور قدرتِ لسان ہے، سبحان اللہ! یہی وہ محاسن ہیں جو اقبال کو اردو زبان کے تین بڑے شعراء میں شامل کرتے ہیں اور فارسی کے جملہ نابغۂ روزگار اساتذہ کی صفِ اوّل میں لا کھڑا کرتے ہیں -
آیئے ! اس ذخیرہ غزلیات سے ایک غزل میں جھانکتے ہیں شاید اس مردِ خود آگاہ کا کوئی لفظ ہماری زندگی کا زاویہ بدل دے اور مقاصد کو رفعت میں ہمدوشِ ثُریّا کر دے -
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر |
’’(اے میرے محبوب!) اپنے حسین گیسؤں کو اور بھی دلکش بنا کر (میری طرف متوجہ ہو، تاکہ) میرا ہوش اور عقل، میرا قلب اور نظر (یہ سب) تیرے (ہی دامِ محبت کے) اسیر ہو جائیں ‘‘-
ان غزلیات میں اقبال کا مکالمہ ذاتِ حق تعالیٰ سے ہے اِس لئے یہاں مخاطب مجازی محبوب نہیں بلکہ حقیقی محبوب ہے - اس شعر کا مضمون بنیادی طور پہ عارفانہ ہے اور انداز التجائیہ ہے- گیسوئے تابدار کا لفظ اگر مجازی محبوب کیلئے ہو تو معنیٰ ہوگا گھنگریالی چکمدار زلفیں-لیکن جب اسے محبوب حقیقی کیلئے کہیں گے تو معنیٰ ہوگا اس کے جمال کے وہ انوار و تجلیّات جو اپنی شان کے لائق ظاہر ہیں - ’’اور بھی تابدار کر‘‘ میں التجا کی گئی ہے کہ ان ( تابدار زلفوں/ انوارِ جمال) کو مجھ پہ اور بھی زیادہ منکشف کر دے - کیا ہی لطافت اور باریکی ہے کہ تیری بارگاہِ صمدیت میں میری کیا مجال کہ میں تیرے اسرار یا انوار کو از خود کھول سکوں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کاشف (کھولنے والا) بھی تو ہے اور اس کشف کے نتیجے میں مکشوف (کھلنے والا) بھی تو ہے میری حیثیت تو محض اتنی ہے کہ (اے میرے کاشف و مکشوف) میں عاجز بندہ تیری بارگاہِ ناز میں التجائے نیاز کرتا رہوں کہ ’’اور بھی تابدار کر --- اور بھی تابدار کر--- اور بھی تابدار کر‘‘-ھل من مزید -
مصرعہ ثانی میں چار چیزیں شمار کیں کہ میرے ظاہر میں تونے جو ہوش عطا کیا ہے اس کا حاصل میری عقلِ سلیم ہے، میرے باطن میں تونے جو دل عطا کیا ہے اس کا حاصل میری بصیرت ہے یا دیدۂ حیران ہے اب التجا یہ ہے کہ ہوش،عقل، دل اور نظر جو دشتِ ما سویٰ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں ان پہ اپنے عشق کا جال پھینک کہ ماسویٰ کے دشت کی آزادی نما آوارگی سے تیرے عشق کی اسیری برتر ہے - مجھے ظاہر و باطن میں حتیٰ کہ میرے ہونے کی ہر ایک جہت میں اپنا بنا لےاور اپنا بھی اس شدت سے بنا کہ جس طرح شکار کے بعد صید اپنا ہر اختیار کھو بیٹھتا ہے اور صیّاد کی رضا کی حدود سے ایک قدم باہر نہیں رکھ سکتا اسی طرح مجھ پہ نہ تو میرا اختیار باقی رہے نہ مجھ میں ’’میں‘‘ باقی رہے - اس صوفیانہ کہاوت کے مصداق کہ:
’’ نہ دم باقی نہ غم باقی ، ھُو الباقی‘‘-
قومی و ملی مفہوم: اپنے دینِ بر حق کی حقانیّت کو میرے سینے پہ اور زیادہ منکشف فرما یہاں تک کہ اس تشکیک بھرے عہد میں مجھے یقین کی منزل نصیب ہو جائے ، ہوش و خرد کا ہر زاویہ اور قلب و نظر کی ہر صلاحیت اِس دین اور اس کے سنہری اصولوں کی ترویج کیلئے صرف ہو -
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں |
’’(اے محبوب!اس قدر مستوری کیوں کہ میرا) عشق بھی پردوں میں چھپا رکھا ہے اور حسنِ (مطلق) بھی حجاب میں ہے (جس عہدِ تشکیک میں مَیں زندہ ہوں اس کا تقاضا ہے کہ) یا تو خود (اپنے حسنِ ازلی کے ساتھ) ظاہر ہو جا ،یا مجھے میرے عشق کے ساتھ ظاہر کر دے ‘‘-
پہلا مصرعہ حیرت اور دوسرا اس حیرت کی طرف سے مطالبہ ہے - پہلے مصرعے میں اقبال حیرت سے کہہ رہے ہیں کہ یہ کیا بات ہوئی کہ تونے عشق (یعنی اپنے نائب و طالب) کو بھی چھپا رکھا ہے اور حسن (یعنی اپنے آپ) کو بھی چھپا رکھا ہے؟ نہ میرا راز کھلنے دیا کہ انسان کون ہے؟ نہ اپنا راز کھولا کہ تو کون ہے؟ مجھے اپنا راز فرمایا اور خود کو میرا راز کہا اور رازوں کو پردۂ اخفا میں رکھ دیا - اقبال کہتے ہیں چونکہ عشق و حسن دونوں مستور ہیں اور تشکیک زدہ ذہنیت جہاں حسنِ مطلق کی منکر ہے وہیں وارداتِ عشق و جنون کی بھی منکر ہے-لہٰذا میرا سوزِ دروں تیری بارگاہ میں مجھے اس التجا پہ مجبور کرتا ہے کہ ایک کو تو آشکار کر دے ، یا خود آشکار ہو جا یا مجھے آشکارا کر - اس میں کمالِ حکمت یہ ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کا آشکار ہونا دوسرے کو بھی مستور نہیں رہنے دے گا-اگر حسن ظاہر ہوتا بھی ہے تو کس پہ ہوگا؟ ظاہر ہے کہ عشق پہ ، دوسری طرح سے بھی دیکھیں تو اگر عشق ظاہر ہوتا ہے تو عشق کس کا راز چھپائے ہوئے ہے؟ جیسے کئی عرفاء نے پھول کے ہونے اور بلبل کی آنکھوں میں اسی پھول کے عکس/پرتو کے ہونے سے اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر پھول خود نظر نہ آئے تو بلبل کی آنکھوں میں جھانکیں کیونکہ وہاں اسی پھول کا پرتو موجود ہے جو حسن کا راز، راز نہیں رہنے دیتیں -
اس شعر میں یہ عارفانہ مفہوم بھی موجود ہے کہ ’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا‘‘- اگر مجھ پہ اپنا آپ کھل جائے تو بھی معرفت کو پالوں گا اگر تیرے اسرار کھل جائیں تو بھی تیرے وصل تک رسائی کی راہیں وا ہو جائیں گی - پیامِ مشرق میں اقبال کی اپنی رباعی کا جزو ثانی دیکھیں:
تلاشِ اُو کنی جز خود نہ بینی |
’’اس کی تلاش کرو گے تو اپنے سوا اور کچھ نہیں دیکھو گے - اپنی تلاش کرو گے تو اس کے سوا کسی اور کو نہیں پاؤ گے‘‘- (یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر)
ایک شبہ کا ازالہ: مطلع میں پہلے سے تابدار گیسؤں کو مزید تابدار کرنے کا سوال تھا ، اس شعر میں محبوب سے شکایت کی کہ تو حجاب میں کیوں ہے ؟ پھر خواہش کی کہ خود کو آشکار کر دے- بایں معنیٰ مطلع اور اس شعر میں تضاد کا شبہ پیدا ہو سکتا ہے- اس کا جواب قرآن پاک میں موجود ہے ’’هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ‘‘ وہ ہر ابتدا سے پہلے ہے اور ہر انتہا کے بعد بھی ، وہ ایسا ظاہر ہے کہ موجودات میں سے ہر شئے کو اپنی نشانی فرماتا ہے-وہ ایسا مخفی ہے کہ اس کے بتائے بغیر کوئی جان نہ سکے اور اس کے دکھائے بغیر کوئی دیکھ نہ سکے-
قومی و ملی مفہوم: حسن کا ڈنکا دو طرح سے بجتا ہے ، حسن کے اپنے ظاہر ہو جانے سے جیسا کہ حضرت یوسفؑ زنانِ مصر کے دستر خوان کے پاس سے گزرے(آفتاب آمد دلیلِ آفتاب)، یا عاشقِ صادق کی دیوانگی سے جیسا کہ بی بی زلیخا کی وارفتگی سے حسنِ یوسف کا چرچا ہوا - اقبال کی بارگاِہ حق میں عرض گزاری کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ تیری ذاتِ صمدیت تو بے نیاز و بے پروا ہے ہی کہ کوئی تیرا ذکر کرے یا نہ کرے تیری قدرت کو ذرہ بھر فرق نہیں، معاصر دنیا میں مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ بھی اس امر سے بے پروا لگ رہے ہیں کہ کوئی حق کی تلاش و جستجو والا ہو یا نہ ہو- اس صورتحال میں اپنے غیب کے لشکروں کے ذریعے دینِ حق کی نصرت و تائید کیلئے ’’یا خود آشکار ہو‘‘نہیں تو پھر میرے بازوئے ہمت کو توفیق اور میرے فنِّ سخن میں تاثیر دے تاکہ متلاشیانِ حق کی نگاہوں سےسحرِ فرنگیانہ توڑ سکوں ’’یا مجھے آشکار کر‘‘-
تو ہے مُحیطِ بیکراں، میں ہوں ذرا سی آبجو |
’’(اے لا انتہا ) تیرا (نور اور تیری رحمت) ایسا سمندر ہے جس کی نہ کوئی حد نہ اَنت، (جبکہ میں قیود کا قیدی اور حدود کا پابند) ایک حقیر سی ندّی ہوں- (اب) یا تو (میری محدودیّت کو )اپنی لامحدود آغوشِ (نور و رحمت میں لے لے اور اس طرح بیکراں) کر دے ، یا پھر (میری فنائیت اور مٹ جانے جیسی حدود و قیود کو مٹا کر لافانیّت و بقا کی) بے کرانی عطا کر دے‘‘ -
اس شعر میں انسان اپنی دو حیثیتوں کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہے ؛ ایک یہ کہ ’’بے حدمحدود‘‘کی ’’بے حد و لا محدود‘‘ سے کیا نسبت؟ دوسری حیثیت میں ایک نسبت قائم بھی کر لیتا ہے کہ ندّی گو کہ محدود ہے مگر ہے تو پانی ! شاید اس کا اشارہ روحِ انسانی کے نوری جوہر کی طرف ہو (واللہ اعلم) - دوسرے مصرعے کے لفظوں میں جھانکیں تو ہمکنار کا لفظ وصال کا معنیٰ رکھتا ہے اور بے کنار کا لفظ بقا با اللہ کا معنیٰ رکھتا ہے ، ترتیبِ درجات کے اعتبار سے بھی مصرعے میں کمال لطافت ہے -
عرفانی نقطۂ نظر سے اس شعر میں اظہار کی گئی تمنا اس راہ کی آخری تمنا ہے اس سے بہتر یا برتر کوئی اور تمنا نہیں ہے- محبوب کے ہر رنگ میں رنگے جانا ہی عاشق کی تمام جستجو ہے (بقول حضرت سلطان باھُو: جیں دریا ونج نوش نہ کیتا رہسی جان پیاسی ھُو) اور بے کرانی و لا متناہیت بھی محبوب کے رنگوں میں سے ہے اس لئے اس پوشاک کو اوڑھنا عاشق کی تمناؤں میں سے ہے -اس تمنا میں کامیابی کا پیمانہ رسائی یا نا رسائی نہیں بلکہ اس کے حصول کیلئے صدق و استقامت کا مظاہرہ ہی سب سے بڑا معیار ہے (نام فقیر تدوں ہوندا باھُو ، جَد وچ طلب دے مریئے ھُو) - اقبال کے ہاں صفات سے متصف ہونے کے اس جذبے کی موجودگی اردو و فارسی کلام میں بکثرت ملتی ہے اپنے لئے بھی اور بطور تلقین اپنے قارئین کے لئے بھی- جیسے ’’رموز بیخودی‘‘ میں شرح سورہ اخلاص یوں تو ساری ہی اسی تصور کی بہترین مثال ہے، مگر اس کے آغاز میں خاص تلقین فرماتے ہیں :
رنگِ اُو بر کن مثالِ اُو شوِی |
’’اس کا رنگ خود پہ اوڑھ لو تو اس کی مثال ہو جاؤ گے (یعنی اس رنگ کی صفت حاصل کر لو گے) - جہان میں اس کے جمال کا عکس بن جاؤ گے‘‘-
قومی و ملی مفہوم: زندگی کو ادنیٰ خواہشات کی تکمیل اور ان خواہشات سے حاصل ہونے والی محض مادی تسکین میں ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ زندگی کا ہر لمحہ غنیمت شمارکرتے ہوئے اسے اعلیٰ ترین مقاصد کیلئے گزارنا چاہئے جن میں سب سے ارفع و بلند مقصد اپنی خودی کو لافانیت کی بیکرانی تک پہنچانا ہے -
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو |
’’(اے خالق!) اگر میرا (وجود ایک) سیپی کی مانند ہے تو میرے گوہرِ (فکر و پیام) کی (قبولیّتِ عام اور اس کی) آبرو تیرے ہاتھ میں ہے- (لیکن اگر میری حیثیت محض ایک) کنکر کی ہے (جو گوہر کی پرورش سے بانجھ ہوتا ہے ) تو بھی تُو (اپنی عطا) سے مجھے (سلیمان کی) بادشاہی (انگشتری) میں سجنے والا موتی بنا دے ‘‘-
قدیم حکماء اور داناؤں کا خیال تھا کہ سیپی سمندر کے اندر یا کناروں پہ رہتی ہے اس میں شبنم یا بارش کا قطرہ گرتا ہے تو قدرتی طور پہ وہ منہ بند کر لیتی ہے اگر اس کا بطن صاف ہو یعنی اس میں ریت یا کسی اور چیز کے ذرات نہ ہوں تو اس صورت میں اس کے بطن میں شبنم یا بارش کا قطرہ ایک مرحلہ طے کر کے سُچّا موتی بن جاتا ہے - (گوکہ جدید سائنسی تحقیق اس بارے مختلف ہے لیکن کلاسیکی شاعری اور حتیٰ کہ اس روایت سے جڑی جدید شاعری میں بھی صدف و گہر سے متعلقہ مضامین روایت کے تحت ہی آتے ہیں )- صدف و گہر کے استعاروں میں اتریں تو اقبال کا یہ شعر ایک الگ شان سے نمایاں ہوتا ہے ؛ اقبال خود کو صدف سے تشبیہ دیتے ہیں جس کا باطن صرف آسمان سے اترنے والے پاکیزہ پانی کیلئے صفا رکھاگیاہے - اس کے بطن میں سے جس پیغام نے اظہار کیا یعنی گوہرِ خالص وہ آسمان سے اترنے والی چیز (دینِ برحق جو رسول اللہ (ﷺ) کے ذریعے ہم تک پہنچا) ہی سے تشکیل پایا ہے - مفہوماً ہم یوں بھی لے سکتے ہیں کہ :
’’اے خُدا! میرا پیغام تیرا پیغام ہے (حدیثِ صحیح کے مطابق) تائید و منادیِ جبرائیل سے اہلِ زمین میں اس کی قبولیّت پیدا فرما دے ‘‘-
یا یوں کہیئے کہ اگر میرا جسم ایک سیپی ہے تو میری خودی کی لافانیّت اور نورانیّت کی لاج تیری توفیق پہ منحصر ہے- اس مصرعے سے اس بات کا اثبات ہوتا ہے کہ جیسے سیپی میں گہر پیدا ہو سکتا ہے ویسے ہی انسان کے اس مادی وجود میں انوار پیدا ہو سکتے ہیں - اگر جسم غفلت اور عدمِ اطاعت کی وجہ سے سیپی کے درجے سے تنزل کر کے محض ایک کنکر بن جائے وہ بھی ساحل پہ پھینکا ہوا ، تو ایسا کنکر بانجھ بھی ہوتا ہے اور ناکارہ بھی ، لہٰذا وہ کسی صورت اپنی بے وُقعتی و ناکارگی کو بدل نہیں سکتا سوائے اس کے کہ خالق اس کی باطنی صلاحیّت کو کنکر سے بدل کر ایسا تابندہ موتی بنا دے جو بادشاہوں کے ہاتھ کی انگشتری اور سر کے تاج میں جڑے جانے کے شایاں ہوتا ہے -
پہلے مصرعے میں ایک لطیف سا دعویٰ صادر ہوا اقبال سے، جو کہ محض شاعرانہ تعلّی نہیں بلکہ بیانِ حقیقت بھی ہے کہ میں بحرِ وحدت کی ایک سیپی ہوں جس کا بطن علم و فقر کے تابندہ موتی سے بہرہ مند کیا گیا ہے - جیسے ہی یہ دعویٰ جو کہ بیانِ حقیقت ہے صادر ہوا تو معاً یہ خیال گزرا کہ بے نیاز سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے بارے ایسا خیالِ تفاخر؟ تو ساتھ ہی اگلے مصرعے میں عجز اپنے کمال کو پہنچ گیا کہ نہیں تیرے رُوبرو سیپی و گہر کی مثال میں کیا دوں میں ایک تو ٹھیکری ہوں کیا مجال کہ کسی گہر کی پرورش کر سکوں ، البتّہ اگر تو عطا کرنے پہ آئے تو ٹھیکری کو بادشاہوں کے قابل موتی بنا دے-’’گوہرِ شہوار‘‘کا عموماً معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ ایسا موتی جسے بادشاہ اپنے تاج یا انگوٹھی میں لگاتے ہیں ، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ میری ادنیٰ مساعی کو دنیائے اسلام کی شان و شوکت اور نشاۃِ ثانیہ کے اسباب میں سے کر دے (جو کہ اس سے اگلے شعر کی مناسبت میں درست ہے) - اقبال نے اپنے فکر و پیام کیلئے کئی جگہ اپنے کلام کو موتی کہہ کر اس تشبیہ کو استعمال کیا ہے ، مثلاً زبورِ عجم کی مشہور غزل کا آخری شعر ہے:
لختِ دلِ پُر خونے از دیدہ فرو ریزم |
’’میرے اشعار در اصل میرے دل کے وہ ٹکڑے ہیں جو اَشک بن کر میرے آنکھوں سے بہے ہیں- میرے بدخشان کا یہ لعل (میرے دل کے خونی اشک یعنی میرا پیغام) اُٹھا اور اسے اپنی انگوٹھی میں جَڑ لے ‘‘-
اس کا اشارہ مختلف تفاسیر میں درج اسرائیلیات کی اس روایت کی جانب بھی ہے کہ جس کے مطابق حضرت سلیمانؑ کے پاس انگوٹھی کا ایک نگین تھا جس کی وجہ سے ان کے پاس بادشاہی تھی جب ایک مرتبہ وہ نگین ابلیس کی شرارت سے گم ہو گیا تو اتنی مدت کیلئے تخت و تاج بھی سلیمانؑ کے پاس نہ رہا پھر جب آپ نے وہ نگین حاصل کر لیا تو شاہی و سلطنت بحال ہو گئی - فارسی و اردو روایت کے تقریباً تمام اساتذہ شعراء نے اسے مختلف مضامین میں باندھا ہے ، مثلاً مولانا رومی کا شعر ہے:
امروز سلیمانم کانگشتریم دادی |
یا جس طرح خواجہ امیر خسرو نے کہا ہے :
زُلف کاید بر لبت گوئی کہ دیو |
’’آپ کے ہونٹوں پر زلف یوں لہراتی ہے کہ گویا دیو (جنّ) نے سلیمان سے انگوٹھی چھین لی ہو ‘‘-
قومی و ملی مفہوم:اقبال کا پیغام بھی ایسا گوہرِ شہوار یعنی سلیمانی نگینہ ہے کہ جس قوم کی انگوٹھی میں جَڑ جائے گا اسے تاج و تخت مل جائے گا اور جو قوم اِسے گم کر بیٹھے گی وہ اپنا اوج و عروج گنوا بیٹھے گی -
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو |
’’اےخُدا! (امتِ اسلامی کی نشاۃِ ثانیہ کی جس بہار کا میں خواب دیکھتا ہوں) اگر (اس دو روزہ زندگی میں نشاۃِ ثانیہ کی) وہ بہار دیکھنا میرے نصیب میں نہیں لکھی تو پھر (اقبال جو کہ ) آدھی زندگی گزار چکا ہے (اس ) کو اُس کی بہار کی (آمد کا اعلان کرنے والا) پرندہ بنا دے ‘‘-
نغمہء نو بہار: نو بہارسے مراد دنیائے اسلام کا وہ تابناک مستقبل ہے جس کا خواب اقبال دیکھتے تھے اور جو نو آبادیات کے خاتمے کے بعد ظاہر ہونے جا رہا تھا ، اس نو بہار کے نغمے سے مراد ہے کہ چمنِ اسلام میں آزادی، فتح اور نئے دور کی پر جوش بہار میں کامرانی و مسرت کے نغمے ایک عندلیب کی مانند گائیں گے کہ اقبال خود کو ’’عندلیبِ باغِ حجاز‘‘بھی کہتے تھے – ’’دمِ نیم سوز‘‘کی ترکیب کا جواب نہیں سبحان اللہ ! اس کا سادہ مطلب تو ہے آدھی جلی ہوئی سانس، لیکن یہاں استعمال سے اس کا مصداق اقبال خود ہیں کہ جو آدھی عمر گزار بیٹھے ہیں- طائرکِ بہار ایسے چھوٹے پرندوں کو کہتے ہیں جو بہار آنے سے پہلے آ جاتے ہیں ان کا آنا بہار کی آمد کی نوید و بشارت ہوتا ہے - (یہ شعر اقبال کی ان دعاؤں میں ہے جو بلا شبہ قبول ہوئیں) اقبال نے اپنی ساری زندگی اس شعر میں سمو کے بلکہ پرو کے رکھ دی ہے کہ انہیں نو آبادیات کا مکمل خاتمہ اور اس کے نتیجے میں 57 آزاد اسلامی ممالک تو دیکھنا نصیب نہ ہوئے لیکن ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘، اس جیسی اپنی دیگر نظموں اور اپنے خطبات و مکاتیب میں جو پیشین گویاں کر گئے وہ ’’طائرکِ بہار‘‘ کے استعمال کئے گئے کنایہ کے مصداق ہی ٹھہرے – 70ءکی دہائی میں اسلامی بلاک کی تیاریاں جس جوش و ولولے سے عرب و عجم کی قیادت نے کیں وہ بھی انہیں مبشّراتِ اقبال کا حصہ تھیں جو انہوں نے آمدِ بہار کی نوید کے طور پہ فرمائیں -
مگر اس کے بعد جس طرح استعمار نے اسلامی دنیا کو بے رحمی سے کچلا اور بحیثیت مجموعی ہم سب نے اس کچلے جانے کا جس بے حمیّتی سے افتخارانہ جشن منایا ہے اس پہ اقبال ہی کا یہ دردناک شعر کافی ہے کہ:
آنچہ با تو خویش کر دی کس نہ کرد |
’’مسلمانو! تم نے اپنے آپ سے جو کیا وہ آج تک کسی نے نہیں کیا (تمہاری اپنی بنائی گئی اس حالت پہ) حضور نبی کریم (ﷺ)کی روحِ پاک درد میں ہے )‘‘-
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں؟ |
’’(یا اللہ! )تو نے مجھے جنّت سے (اس عالمِ ناسوت میں) سفر (و ہجرت) کا حکم کیونکر دیا تھا؟ (یہ مقام ِ ناز ہے ) (تیری تکوینی حکمتوں میں تدبر و تفکر سے لگ رہا ہے کہ) دنیا میں کام ابھی بہت لمبا پڑا ہے تب تک میرا انتظار کر‘‘
غزل کی ابتدا جس عجز سے ہوئی یہاں وہ عجز ایک شاعرانہ شوخی میں بدل جاتا ہے - پہلے مصرعے میں تلمیح ہے حضرت آدمؑ کے واقعہ کی طرف، اگر اس مصرعے کو اُسی واقعہ پہ ہی دیکھا جائے تو مفہوم ہوگا کہ انہیں تونے حکم دیا کہ جنت سے زمین پہ ہبوط کر جاؤ تب سے بنی آدم زمین پہ بس رہے ہیں - اب صحفِ سماوی اور کتبِ سماوی سے انسانوں کو بار بار یاد دلاتا ہے کہ لوٹ کر اللہ ہی کی بارگاہ میں جانا ہے، ہاں ہاں ہم جان گئے کہ تیری ہی طرف آئیں گے مگر ابھی دنیا میں بہت کام پڑے ہیں - اگر تلمیح والے واقعہ کی بجائے اِسے خود اقبال پہ محمول کیا جائے تو بھی اس کا مضمون بہت بے تکلفانہ بنتا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ میں نے آدھی زندگی تو گزار لی ہے (شاید گزشتہ شعر کی ترکیب ’’دمِ نیم سوز‘‘ کی مناسبت سے یہ کہا ہو) مگر جلدی کیا، میرے حصے کا ابھی بہت سا کام پڑا ہے جو تونے میرے لئے اپنی مشیّت میں مقرر کر رکھا ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ مختصر نہیں بلکہ میرے ذمے کا ’’کارِ جہاں دراز ہے‘‘ لہٰذا میرا انتظار فرما- اگر اِس کا یہ معنیٰ لیا جائے تو انتظار کا لفظ متوجہ ہونے کا فائدہ بھی دیتا ہے کیونکہ جس کا انتظار کیا جا رہا ہوتا ہے اس کی طرف توجہ ہوتی ہے تو اس کا انتظار ہوتا ہے- لفظ کا برتاؤ اگرچہ شوخ ہے مگر معنیٰ لطیف ہے کہ میرے ذمے کئے گئے مشکل فریضے پر میری طرف اپنے فضل سے توجّہ کرتا رِہ -
روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل |
’’قیامت کے دن جب میرا نامۂ اعمال پیش کیا جائے گا تو خود قدرت بھی شرمسار ہوگی اور میں بھی شرمسار ہوں گا‘‘-
اس شعر کے بھی دو مصداقات ہیں، اگر اس کا مصداق عموم کے ساتھ بنی نوعِ انسان کو ٹھہرایا جائے تو اس میں مناسبت پائی جاتی ہے گزشتہ شعر میں تلمیحِ آدم سے، کہ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو بناتے ہوئے جب اپنے خلیفے و نائب کے طور پہ متعارف کروایا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ تو زمین میں فتنہ فساد اور خون ریزی کرے گا- جب انسان حساب کیلئے پیش ہوں گے تو یہ تو اپنے اعمالِ بد پہ شرمسار ہونگے ہی ہونگے اللہ تعالیٰ بھی اپنے نائب کی وعدہ خلافی پہ خوش نہیں ہوگا، بندے کیلئے شرمساری بمعنیٰ ندامت کے ہے اور جب اسے حقیقت کیلئے کہیں گے تو یہ بمعنیٰ ناراضی و ناخوشی کے ہوگا- بعض بندوں سے اللہ تعالیٰ حیا فرمائے گا، حیا فرما کر بخش دینے کی مناسبت سے شیخ سعدیؒ نے بھی شرمساری کی ترکیب استعمال کی ہے-
کرم بین و لُطفِ خداوند گار |
دوسرے مصداق کے طور پہ اگر خود اقبال کو لیا جائے تو مفہوم ہوگا کہ اے مالک ! تو نے جو عظیم فریضہ میرے ذمے کیا تھا میں اسے ویسا ادا نہ کرسکا جیسا کہ کرنے کا حق تھا، جب تیری بارگاہ میں آؤں گا تو بہتر ہے میرا حساب نہ کرنا کہ مجھے شرمساری ہوگی اپنے آقا کریم محمد الرسول اللہ (ﷺ) کا سامنا کرتے ہوئے (از نگاہِ مصطفےٰ پنہاں بگیر) اور جب میرے کریم (ﷺ) کی طرف تو دیکھے گا تو تُو ان سے اپنے وعدہ (ہم آپ کو عنقریب اتنا دیں گے کہ آپ راضی ہو جائیں گے) کہ پیشِ نظر میری بخشش فرما دے گا - یہاں وقت اور مقام نہیں کہ اقبال کے تمام کلام کا مجموعی تجزیّہ کیا جائے کہ کس کس طرح وہ کہیں باندازِ عجز اور کہیں باندازِ شوخی حق تعالیٰ سے مخاطب ہوتا ہے ، اُس سارے کو سامنے رکھ کے اگر تفصیلی تجزیہ کریں تو اس کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اقبال کی عاجزی کو قبولیت بخشتے ہوئے (انشاء اللہ) اس پہ راضی ہوگا اور شوخی پہ معاف فرماتے ہوئے ملائکہ کی طرف دیکھ کر تبسم فرمائے گا -
تبسّمے بہ لبِ اُو رسید و ہیچ نہ گفت |
اور
من بہ حضورِ تُو رَسَم روزِ شُمار ایں چنیں |
اختتامیہ:
اس غزل کا اسلوب بہت ذومعنی ہے، ابتدا اپنے روحانی مدارج میں ترقی کی دعا سے ہوئی جس میں عاجزی اور التجا کا رنگ بہت نمایاں ہے - وسط میں اپنی کاوشوں کو امتِ اسلامی کی خاطر وقف کرنے کی آرزو کرتے ہیں، جس میں امید اور روشن مستقبل کی نوید ہے- اقبال کا مجموعی پیغام دیکھیں تو اس کی ترتیب بھی یہی ہے کہ نشہ ٔدرویشی میں کمال حاصل کیا جائے اس کے بعد ملی خدمت کیلئے کمر بستہ ہوا جائے کیونکہ بے تزکیہ قیادت کو بے لوث نہ ہونے کی بِنا پر اقبال ’’فتنہ ٔملتِ بیضا‘‘ قرار دیتے ہیں- اختتام کی طرف جاتے ہوئے ذرا شاعرانہ شوخی سے کام لیتے ہیں اور دنیا سے کوچ کی بات کرتے ہیں اور آخری شعر حسابِ آخرت پہ ہے-
٭٭٭