عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا |
اقبال نےاپنے کلام میں عقل اور عشق میں جو رشتہ دریافت کیا ہے اسے سمجھنے کیلئے نظم ’’عقل و دل‘‘ ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے-اس میں نہ صرف عقل اور دل کے امتیازی اوصاف پر روشنی ڈالی گئی ہے بلکہ ان دونوں کے ربطِ باہم کو بھی اجاگر کر دیا گیا ہے- عقل کی لاف زنی در اصل مغرب کے اس انسان کی لاف زنی ہے جس نے عقلی اندازِ فکر کے ذریعہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے اندازہ ترقی کی اور اس وہم میں مبتلا ہوکر وہ عقل کے ذریعہ اس کائنات کے جملہ را ز ہائے سر بستہ کو فاش کر سکے گا-اس لاف زنی کا اظہار متعدد دعاوی سے ہوا مثلاً عقل نے کہا کہ وہ رہنما ہے- پھر یہ کہ عقل ہی پر بھروسہ کر کے آدمِ خاکی نے آسمانی پنہائیوں میں جھانکا اور بہت سے راز معلوم کر لئے-علاوہ ازیں یہ بات کہ عقل مفسرِ ہستی ہے یعنی زندگی کے بیشتر مادی علوم عقل ہی کے مرہون منت ہیں-بالخصوص مغرب میں طبیعات، علم الحیات، نفسیات، طب اور دوسرے شعبوں میں جو حیرت انگیز ترقی ہوئی وہ عقل کے استقرائی اور سائنسی انداز ہی کے باعث تھی-
چنانچہ جب اقبال نے اپنی نظم میں عقل کو ایک کردار بنا کر پیش کیا تو یہ کردار دراصل مغرب کے اس انسان ہی کے لئے ایک علامت تھا جس نے عقل و خرد کو واحد رہنما اصول کے طور پر تسلیم کر کے مادی دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا مگر اقبال کو اس بات کا بڑی شدت سے احساس تھا کہ مغرب کے انسان نے عقل کی کشت کو سیراب کرنے میں بڑی مستعدی(تیزی) دکھائی مگر اس نے اپنے گھر کے ’’پائیں باغ‘‘ کو فراموش کر دیا ہے-اس قدر کہ اب اسے یاد بھی نہیں کہ اس کا کوئی پائیں باغ تھا بھی کہ نہیں-
اقبال کافی عرصہ یورپ میں رہے اور اپنے سامنے عقل کی اساس پر استوار ہونے والی تہذیب کو زوال آمادہ ہوتے دیکھااور اس تہذیب کے کارکنوں کو ایک عجیب سے نفسیاتی اور ذہنی خلفشار میں مبتلا دیکھتے رہے اور ہمہ وقت ان کے ذہن میں یہ خیال جڑیں پکڑتا رہا کہ مغرب کے انسان کے ذہنی عوارض کا علاج مغربی طب یا مغربی نفسیات کے بس کا روگ نہیں-بلکہ اس کا علاج فقط یہ ہے کہ مغرب والوں کو ان کے ’’پائیں باغ‘‘ کے وجود کا احساس دلایا جائے اور بتایا جائے کہ انہوں نے استقرائی یلغار میں ذات کے پورے منطقے سے صرفِ نظر کر لیا ہے-یہ نہیں کہ مغرب کے مفکرین اس بات سے آگاہ ہی نہیں تھے بلکہ ان میں برگساں اور ژُنگ ایسے لوگ بھی تھے جو مادی ترقی کو روحانی بنجرپن کا باعث قرار دیتے تھے-
برگساں عقل کے مقابلے میں وجدان کو اور ژنگ اجتماعی لاشعور کے حوالے سے ’’ذات‘‘ کو مجتمع کرنے پر زور دیتا رہا لیکن بحیثیت مجموعی مغرب کا انسان دل کی دنیا سے منقطع ہو چکا تھا-چنانچہ اقبال نے عقل کے مقابلے میں دل کو بطور ایک کردار پیش کیا اور پھر عقلی رویے کے مقابلے میں وہبی رویے کی یوں توضیح کی کہ جہاں عقل کا کام سمجھنا اور پرکھنا، تجزیہ کرنا اور تعقلات قائم کرنا ہے-وہاں دل کا کام دیکھنا ہے یعنی سنی سنائی باتوں پر ایمان لانا نہیں بلکہ تجربے یا واردات سے گزرنا ہے-اسی بات کو ایک تشبیہ کے ذریعہ کمال خوبصورتی سے بیان بھی کیا ہے کہ عقل محفلِ صداقت کی شمع ہے یعنی سچائی کی دریافت کے لئے وہ گہرے اندھیروں میں شمع بدست نکلتی ہے-دوسری طرف دل حسن کی بزم کا دیا ہے اور حسن ہمیشہ نورانی متصور ہوا ہے -گویا دل کا دیا حسن کی روشنی کے ہالے میں اس طرح جگمگاتا ہے جیسے ماہ دو ہفتہ کے ہالے میں کوئی ستارہ!مراد یہ کہ ستارہ کی روشنی چاند کی بیکراں روشنی میں ضم ہونے کے باوجود اپنے وجود کو باقی رکھتی ہے-اسی طرح دل حسن کا نظارہ کرنے پر قادر ہے مگر یہ جرأت رندانہ عقل کے بس کا روگ نہیں-اسی طرح علم کی انتہا بیتابی ہے اور بیتابی اس دکھ کا باعث ہے جو خواہشوں کے اژدہام سے پیدا ہوتا ہے مگر یہی سوچ یکتائی کی ان منازل تک لے جاتی ہے جہاں خواہشات کی بے قراری باقی نہیں رہتی-
آخری یہ کہ عقل زمان و مکاں میں مقید ہے اور اس لئے مرور زماں کی بجائے وقت کے سلاسل میں جکڑ ی ہوئی ہے جبکہ دل زمان و مکاں سے ماورٰی ہے بلکہ وہ تو رب جلیل کا عرش ہے -مختصراً یہ کہ عقل کی تگ و تاز (جد و جہد )صرف ایک خاص حد تک ہے-اس مقام سےآگے عقل کے پر جلنے لگتے ہیں مگر عشق کی جست بیکراں ہے اور وہ آنِ واحد میں ہر شے پر محیط ہو جاتا ہے-
عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام |
بظاہراقبال نے اپنی نظم ’’عقل و دل‘‘ میں عشق کا ذکر نہیں کیا مگر دل مزاجاً عشق کے جذبے ہی سے لیس ہوتا ہے-دل کا کام یہ ہے کہ وہ ’’حسن‘‘ کا ادراک کرے-مگر حسن تک رسائی پانے کے لئے خود دل کو ایک حرکی قوت بھی تو درکار ہے-عشق ہی وہ قوت ہے جس سے لیس ہو کر آزادی حاصل کرتا ہے یعنی زمان و مکاں کی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر حقیقت کی جھلک پانے میں کامیاب ہوتا ہے-
بے شک اقبال کی اس نظم میں ابھی عشق بطور ایک کردار ظاہر نہیں ہوا مگر دل کے غرفے میں اس کی پرچھائیں ضرور نمودار ہوگئی ہیں-اس اعتبار سے دیکھئے تو اقبال کی فکری جہت کا باقاعدہ آغاز ان کی نظم ’’عقل و دل‘‘ ہی سے ہوتا ہے-لہذا کلامِ اقبال میں یہ نظم ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے-
٭٭٭
(ماخوذ از:اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ/ از ساحل احمد
ناشر: اردو رائیٹرس گلڈ، الٰہ آباد،سالِ طباعت: 1982ء)