اقبالؒ کی نظم"مسجدِ قرطبہ"کاتجزیاتی مطالعہ

اقبالؒ کی نظم

اقبالؒ کی نظم"مسجدِ قرطبہ"کاتجزیاتی مطالعہ

مصنف: مجتبیٰ حسن نومبر 2024

نظم کا مرکزی موضوع جسے ایک تحریک کہنا زیادہ مناسب ہوگا ’’مسجد قرطبہ‘‘ ہے- یہ ہسپانوی تاریخ کے ایک اہم دور کی نشاندہی کرتی ہے جو ’’خونِ مسلماں‘‘ کا امین ہے- اسی لئے علامہ اقبالؒکی نظر میں ہسپانیہ کی سرزمین حرم کی مانند پاک ہے اور قرطبہ کی مسجد ایک یادگارہی نہیں خود ایک تاریخ بن جاتی ہے جو سنگ وخشت سے لکھی گئی ہے -

اس مسجد کے نقش ونگار میں ایک پورے تمدّن اور اس کے شعور کی داستان چھپی ہوئی ہے یہی داستان اقبالؒ کی اس نظم میں آہستہ آہستہ اُبھرتی ہے- مسجد قرطبہ در اصل ایک ذریعہ، ایک راستہ بن جاتی ہے، جو ہمیں اس داستان تک پہنچاتی ہے - نظم کے مختلف مدارج تک پہنچنے سے پہلے ہمیں ذرا دیر کے لئے اس بُنیاد کو تلاش کر نا پڑے گاجس پر یہ پوری نظم تعمیر کی گئی ہے چنانچہ بات کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ شاعر کے سامنے یہ مسجد ہے یا شاعر اس مسجد میں پہنچ جاتا ہے ’’اقبال یہاں نماز بھی پڑھ چکے ہیں‘‘، وقت سمجھ لیجئے کہ شام کاہے جیسا کہ اس نظم کے ایک مصرعے سے پتہ چلتا ہے-

لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب

شام کا بڑھتا ہوا اندھیرا- ایک تاریخی مسجد اور ہسپانیہ کی سرزمین - یہ تمام چیزیں اقبالؒ کے لئے ایک شدید تاثر پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں یہی تاثر اس کہانی کا سنگ بنیاد بن جاتا ہے مسجد کی اس فضا میں جو صدیوں سے بے اذاں ہے اقبالؒ کے ذہن میں مختلف نقوش ابھرنے لگتے ہیں اور وہ ایک ایسے دور میں جاپہنچتے ہیں جس میں یہ مسجد تعمیر کی گئی تھی- یہ دور ان کے خیالات اور جذبات کی مہمیز بن جاتا ہے، یادوں کے سلسلے صدیوں کے ورق الٹ دیتے ہیں اور اب یہ مسجد ایک قوم کی جانفشانی، اس کے ذوق عبودیت اور اس کے تصور حیات کی جیتی جاگتی علامت بن جاتی ہے- یہ یادیں اس دور سے وابستہ ہیں جو ماضی بن چکا ہے- ماضی کا یہی احساس، یادوں کا یہی سلسلہ وقت سے جا کر مل جاتا ہے جو اب شاعر کی نگاہ کو مسجد اور اس کے تعمیر کرنے والوں کی تاریخ سے ہٹا دیتا ہے اور صرف اپنے تصور میں گم کر دیتا ہے شاعر کے پیش نظر اب صرف وقت رہ جاتا ہے جس نے تاریخ کو بھی ایک یا دبنادیا ہے- وقت جو ماضی بھی ہے ، حال بھی ہے اور مستقبل بھی- اور جو کچھ بھی نہیں ہے ، صرف وقت ہے ،وقت کے اس بے پایاں دھندلکے میں گرد و پیش گم ہو کہ رہ جاتے ہیں- یہ ایک کبھی نہ ٹوٹنےوالا سلسلہ ہے-

سِلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سِلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
سِلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سِلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دِکھاتی ہے ذات زِیروبمِ ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سِلسلۂ روز و شب، صَیرفیِ کائنات

وقت کا یہ خوفناک تسلسل شہر کو بیابانوں میں اور بیا بانوں کو شہروں میں بدلتا رہتا ہے اور تخریب وتعمیر کی منزلوں سے گزر کے ہمیشہ ایک نئی منزل کی طرف بڑھتا ہے- اس تسلسل سے ہر شے ہے مگر تسلسل کسی شے سے نہیں ہے-نظم وقت کے اسی عظیم اور ایک حد تک مہیب تصور کے ساتھ کھلتی ہے اور ایک ندی کی طرح بہنے لگتی ہے سلسلہِ روز و شب کی تکرار تُند موجوں کے تھپیڑوں میں بدل جاتی ہے جس کی آواز آس پاس کی آوازوں کو ڈبو دیتی ہے ، یہ وقت کی آواز ہے -سلسلہ روز و شب کی تکرار ہمیں یونانی ڈراموں کے کورس کی یاد دلاتی ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ اقبالؒ کے ذہن میں اس نظم کی فنی تشکیل کے وقت یونانی ڈراموں کے کو رس بھی رہے ہوں گے- بہرحال بات کچھ بھی ہو شاعر وقت کی کار فرمائیوں کا ایک تصوّر اور تاثّر پیدا کرنا چاہتا ہے، جسے یہ تکرار شدید سے شدید تر بناتی جاتی ہے- اُردو کی کم ہی نظمیں ایسےاچانک پن کے ساتھ شروع ہوتی ہیں نظم کے پہلے ہی مصرع کے بعد ایسامحسوس ہونے لگتا ہے کہ ہم دفعتاً ایک پُر شور دریا کے کنارے آ کھڑے ہوئے ہیں جس کی روانی ہر آنے والے مصرعہ کے ساتھ تیز تر ہوتی جاتی ہے اورجس کے بہاؤ میں کائنات کی ہرشےبہتی چلی جاتی ہے- نظم کی اس روانی کے ذریعے سے شاعر نے وقت کی روانی کو بڑے فن کارانہ اور مو ثّرانداز میں پیش کیا ہے - وقت کی روانی کا تصوّر تقریباً مجرّد ہے جو دنیا کے ہر تغیّر سے بے نیاز ہے-

ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات

اس سفّاک وقت کے سامنے تمام تدابیر اور افعال بے حقیقت نظر آنے لگتے ہیں-

آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہُنر
کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات!
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزِل آخر فنا

یہاں پہنچ کروقت ایک جبر سابن جاتا ہے جس کی زد میں ہر شے ہے اور جو خود کسی کی زدمیں نہیں ایک ویرانی کا احساس ذہن پرطاری ہونے لگتا ہے -

اب آگے بڑھنے سے قبل ذرا ایک بار پھر نظم کی ان کڑیوں کو ملا لیجئے جنہوں نے ہمیں اس موڑ تک پہنچایا ہے، شاعر کے سامنے پہلے مسجدِ قرطبہ تھی ،پھر مسجد قرطبہ نے ایک تاریخ یادوں کی مخملی تہ میں لپیٹ کر پیش کردی اور یہ تاریخ آگے بڑھ کر وقت کے ویرانے میں کھوگئی- ا ب اور کوئی چیز نہیں رہ گئی ہے- صرف وقت ہے جس سے پوری کائنات عبارت ہے ساری چیزیں اسی وقت کا مظہر ہیں، وقت کے اس مجرّد تصوّر کو پیش کر نا شاعری اور ادر اک دونوں کی بڑی کٹھن منزل تھی -

اقبالؒ ایک منزل شناس کی طرح یہاں سے گزرے ہیں- ہر  لفظ خیال اور خیال لفظ ان کے نظم کو آگے بڑھاتا رہتا ہے اور پھر نظم اس موڑ پر آجاتی ہے جس کے آگے صرف ویرانہ ہے- اس ویرانی میں انسانی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے شاعر کو وقت کی وہ کڑیاں وہ چند لمحے تلاش کرنے پڑتے ہیں جن میں زندگی اب تک مقید ہے اورجن سے ایک تاریخ مرتّب کی جا سکتی ہے-

چنانچہ جب یہ کڑیاں جنہیں وہ ماضی کی یادوں کے ذریعے سے تلاش کرتا ہے مل جاتی ہیں تو وقت کے اس ویرانے میں چند اور تصویریں متحرّک نظر آنے لگتی ہیں اور شاعر کی اس آواز میں جو نا امیدی پر ختم ہوتی نظر آتی ہے ایک یقین اور اعتماد سا نظر آجاتا ہے- جبر و اختیار میں تبدیل ہونے لگتا ہے اور انسانی زندگی اتنی کم مایہ نہیں معلوم ہوتی ہےجتنی پہلے معلوم ہوتی تھی-

ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کِیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام

خواجہ حافظ نے اس موقع کے لئے کیا خوب کہا ہے :

ہرگز نہ میرد آن که دلش زنده شد به عشق
ثبت است بر جَریدهٔ عالم دوامِ ما

’’جس کا دل الله تعالیٰ کے عشق سے زندہ ہو جائے وہ کبھی مرتا نہیں -ہماری ہمیشگی دنیا کی تاریخ میں قائم ہو چکی ہے‘‘-

اقبالؒ کے مردِ خدا کا خمیر بھی عشق سے اٹھا ہے-

مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام

عشق کے’’اصل حیات‘‘ ہو جانے کے بعد کائنات کے جملہ مظاہر لازماً عشق میں ڈھلنے لگتے ہیں اور سرکش اورمہیب وقت بھی عشق کی گرفت میں آکر اپنی قہرمانی کھو دیتا ہے –

تند و سبک سَیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اک سَیل ہے، سَیل کو لیتاہے تھام

اور

عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفٰےؐ
عشق خدا کا رُسولؐ، عشق خدا کا کلام

اب وقت کی جگہ عشق کا ئنات پرمحیط ہو جاتا ہے اور ہر چیز اس کے سانچے میں ڈھل جاتی ہے - چنانچہ مسجد ِ قرطبہ کا وجود بھی عشق ہی کا رہینِ منت ہو جا تا ہے-

اے حَرمِ قُرطُبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود

اس منزل پرآکر نظم وقت کے ویرانے سے یکسرنکل آتی ہے اور فکر و ہیئت دونوں کے خوشگوار اور متوازن امتزاج کے ساتھ تعمیر کی طرف ایک اور قدم بڑھاتی ہے اب اس راہ میں تاریخی عوامل سے شاعر کام لیتا ہے جو عشق کے پابند ہیں اور خودیہ عشق ’’سینہِ آدم‘‘میں پنہاں ہے ، اس لئے :

عرش معلّی ٰ سے کم سینہ آدم نہیں

اس تصویر میں جو شروع میں وقت کے ویرانے سے بنائی گئی تھی اب آدمی حرکت کرنے لگتا ہے اور تصویر ذی روح ہو کہ بول اٹھتی ہے، یہ آدمی اقبالؒ کا وہ تصور حیات ہے جسے  وہ ’’مرد مومن ‘‘کے نام سے پکارتے ہیں- یہ مردِمو من مسجدِ قرطبہ کی خاموش اور افسردہ فضا میں ان کے سامنے تمام جلال و جمال کے ساتھ ایک تمدّن کی داستان کہتا نظر آتا ہے-

تجھ سے ہُوا آشکار بندۂ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپِش، اس کی شبوں کا گداز
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سُرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز

اقبالؒ نے اس مرد مومن کے اوصاف بڑے دلکش انداز میں پیش کئے ہیں:

اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز

وہ اس مردِ مومن کو ’’عقل کی منزل‘‘ اور ’’عشق کا حاصل‘‘ دونوں بتاتے ہیں- مسجد قرطبہ بھی اسی مرد مومن کی کاوشوں اور جذبہ عشق کا ایک نشان ہے- اسی لئے اب ساری تاریخ ساری یادیں مسجد قرطبہ میں سمٹ آتی ہیں- ماضی کی یاد یں شاعر کی فکر کو ایک ایسے شاعرانہ جذبے میں بدل دیتی ہیں جو غزلوں کے پیچھے کار فرما ہوتا ہے، شاعر کو مسجد قرطبہ سے عشق ہو جاتا ہے اور یہ مسجد اس کے لئے سراپا ”غزل“ بن جاتی ہے، یہ غزل اس تمدن کے عشق کی داستان ہے جس کی رازداں یہ ہسپانوی مسجد رہ گئی ہے اور اب شاعر کی نگاہ ایک بار پھر مسجد قرطبہ پر مرکوز ہو جاتی ہے اور باقی تمام چیزیں نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہیں - اس مسجد کی تعمیر میں اب وہ ان لوگوں کے ہاتھ دیکھتا ہے –

جن کے لہُو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں

اور

آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تِیر آج بھی ہیں دل نشیں
بُوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے

یہاں پہنچ کر اقبالؒ کی فکر نظم کے تدریجی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تکمیل کی آخری منزلوں پر آجاتی ہے-

 اس نظم کی فنی صَنّاعی(مہارت) اور فکری تعمیر کو اقبالؒنے خود مسجد قرطبہ کی صناعی اور حسنِ تعمیر سے جس طرح ہم آہنگ کر دیا ہے وہ ہمارے ادب میں موضوع اور فکر کے داخلی اور خارجی ارتباط(میل ملاپ) کی کمیاب مثال ہے، اقبالؒہر لفظ کو اس طرح مصرعوں میں رکھتے گئے ہیں جس طرح ایک ماہر معمار ایک پتھر کے بعد دوسرا پتھر بٹھاتا ہے- نظم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ قاری مسجد کو بھی تعمیر ہوتے ہوئے دیکھنے لگتا ہے- اپنے موضوع ہی کی طرح نظم بھی ارتقائی منزلیں طے کرتی رہتی ہے اور اب وہ اس جگہ آجاتی ہے جہاں شاعر مسجد قرطبہ کو دیکھتے دیکھتے پھر وقت کے بے پایاں دھندلکے میں کھو جاتا ہے- یادوں کا وہ سلسلہ جو اس مسجد سے وابستہ ہے اسے قوموں کے عروج وزوال اور نو بہ نو انقلاب سے دو چار کر دیتا ہے- خیالات کی یہ رو اُسے پھر وقت کے دریا کے کنارے لا کھڑا کرتی ہے - اب ہر چیز پھر وقت بن جاتی ہے، جس کی آغوش میں ماہ وسال انسانی کاوشوں اور کوششوں کو کامیاب اور نا کامیاب بناتے رہتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کیا ہو نے والا ہے -

دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!

یہ ایک سوال ہے جہاں اقبالؒ تاریخی مطالعے اور شاعرانہ بصیرت کے ذریعے سے پہنچتے ہیں- یہ سوال در اصل وقت کے لبوں سے پھوٹا ہے جس کا جواب بھی وقت ہی ہے، یہاں آکر نظم تکمیل تک پہنچ جاتی ہے -

اب ایک بار مڑ کر اس راستے پر نظر دوڑا ئیے جس سے چل کرنظر یہاں تک پہنچی ہے- پوری نظم اس سفرمیں اپنے تین مراحل سے گزرتی ہے- پہلے مرحلے کی ابتدا مسجد قرطبہ سے ہوتی ہے ، جو اپنے ساتھ تاریخ یا تاریخی یا دیں لاتی ہے- یہ مرحلہ اگر چہ نظم میں پیش نہیں کیا گیا لیکن نظم کا پسِ منظرا سی سے تیار ہوا ہے- یہ تاریخ جو مسجد ِقرطبہ پیش کرتی ہے وقت کی تند و تیز موجوں میں کہیں بہہ جاتی ہے -

دوسرے مرحلے کی ابتدا (جہاں سے نظم شروع ہوتی ہے) وقت کے تصور اور اس کی ہمہ گیری سے ہوتی ہے اس وقت کے دامن میں سب کچھ ہے، تمام تاریخیں انسانی زندگی کی تما م سعی وجستجو-چنانچہ وقت ایک مخصوص تاریخ کو جنم دیتا ہے اور مخصوص تاریخ مسجدِ قرطبہ بن کر اُبھرتی ہے جس کے توسّل سے شاعر ان لوگوں کو دیکھ لیتاہے جنہوں نے ہسپانیہ کی سرزمین کو ایک نئے تصوّرِ حیات اور تمدّن سے روشناس کرایا تھا -

آخری مرحلے پر پہنچ کر نظم میں پھر وقت کے سوا اور کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے بس شام کا ایک دھند لکا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے-

وادیِ کُہسار میں غرقِ شفَق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب

اس نیم تاریکی میں وقت کی ندی بہتی ہے-

آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

یہاں بھی خواجہ حافظ بے اختیار یاد آجاتے ہیں:

بنشین بر لبِ جوی و گذرِ عمر ببین

شاعر’’آبِ روانِ کبیر‘‘کے کنارے بیٹھا گزرِ عمردیکھ رہا ہے- تاریخ گزر رہی ہے، وقت گزررہا ہے اور ایک نیا عالم طلوع ہو رہا ہے- اس لئے کہ وقت کا ہر لمحہ ایک نیا پیام ہے- اقبالؒ اس پیام کے لئے گوش بر آواز ہیں، ان کی دیدہ دری مستقبل کے دھندلکوں کو پار کرکے ایک نئی زندگی کو پار ہوتے ہوئے دیکھنے لگتی ہے-

عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحَر بے حجاب

نظم کی یہ آخری منزل ہے جو ایک پُر یقین لہجے پر ختم ہوتی ہے، اس یقین کو حاصل کرنے کیلئے اقبالؒ ماضی، حال اور یہاں تک کہ مستقبل کی پیچیدہ راہوں سے گزر ے ہیں- مستقبل سے وہ اس لئے مایوس نہیں ہیں کہ وہ زمانہ حال میں ایک شدید اضطراب اور کش مکش پاتے ہیں جو آنے والے انقلاب کا پتہ دیتی ہے- اقبال اس انقلاب کیلئے اس لئے چشم براہ ہیں کہ انہوں نے ماضی کی تاریخ میں انسان کو مجبور نہیں مختار پایا ہے اور دیکھا ہے، وہ پرامید ہیں-یہی امید وقت کی بھیانک تاریکی میں روشنی بن جاتی ہے جو پوری نظم میں پائی جاتی ہے جو ہر لفظ سے پھوٹتی ہے اور نظم کو ایک عمل اور روشنی کی تخلیق میں بدل دیتی ہے -

یہ تو ہوئی اس نظم کی فکری اور فنی تشکیل، جو ایک ایسی اکائی بن کر ابھرتی ہے کہ قاری کو ذہن میں کہیں بھی کوئی انتشار یا بے آہنگی کا احساس پیدا نہیں ہوتا- پوری نظم میں ایک مصرع بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے متعینّہ مفموم یا موضوع سے دور جاپڑا ہوا اورقاری کے خیالات اور جذبات کی رو ایک جھٹکے کے ساتھ رک جائے -

اب ایک دو لفظ نظم کی ادبی خوبی کے بارے میں بھی- یہ ادبی خوبی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو شاعر کے فکری اور فنی اتصال سے ہٹ کر ہو- لیکن اپنی آسانی کیلیے ہم اس طرف بھی اگرایک اچٹتی سی نظر(سرسری نگاہ) دوڑا لیں تو اس نظم کی خوبی کو سمجھنے میں اور مدد مل سکتی ہے-نظم کا لب و لہجہ شروع ہی سے بڑے وقار اور سنجیدگی کا حامل ہے- انداز بیاں میں ایک ایسا توازن پایا جاتا ہے جو تنظیم کے مزاج سے کہیں بھی میل نہیں ہونے پاتا-یہ سنجیدگی اور توا زن قاری کو موضوع کی اہمیت اور اس کی بلندی سے آگاہ کرتی رہتی ہے بعض اوقات ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر الفاظ کے در وبَست (جوڑ، ترتیب) سے قصداً ایک کُھردرے پن کا احسا س پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ مسجد کی تعمیر لفظوں کے ذریعے سے نمایاں ہوسکے -بالخصوص نظم کے اس حصے میں جہاں مسجد کی ظاہری شباہت کا ذکر ہے اقبالؒ نے لفظوں سے سنگ تراشی کا کام لیا ہے- اس کے علاوہ اقبالؒنے لفظوں کے استعمال میں بڑی احتیاط اور کفایت شعاری سے کام لیا ہے- اعتدال اور تنا سب کا خیال اس نظم میں اس قدر ہے کہ تشبیہ اور استعاروں کے استعمال میں بھی اقبالؒ نے کسی غیر متوازن تا ثر آفرینی یا مبالغہ آمیزی کو راہ نہیں دی ہے - اس لئے نظم ایک ایسے موضوع پر ہوتے ہوئے بھی جس سے شاعر کو والہانہ عشق ہے نری جذباتیت سے بچ گئی ہے اور پڑھنے والے کو خواہ وہ اقبال کے نقطۂ نظر سے اتفاق کرے یا اختلاف شاعر کے خلوص کا احترا م کرنے پر مجبور کر دیتی ہے- اس توازن،سنجیدگی اور ایک حد تک کھردرے پن سے شعریت میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی بلکہ ہر چیز کو ایک ایسی تقویت پہنچاتی ہے جو نظم کے حسن کو اُردو ادب میں ہمیشہ برقرار رکھے گی- اس میں ایک صلابت کا حسن ہے جو رنگین بیانی کے ذریعے سے ابھارا ہی نہیں جا سکتا تھا- تمدّن کی جو کہانی اس نظم میں بیان کی گئی ہے اس میں غلط قسم کی رنگین بیانی مصرعوں کی فکری نغمگی کو کمزور کر کے اس کہانی کی فضا کو بے اعتبار کر دیتی- اس کہانی کے تین کردار ہیں، شاعر، مسجد قرطبہ اور وقت، جو تا ریخ بھی بن جاتا ہے- ظاہر ہے کہ ان تینوں کر داروں سے کام لینے اور ان میں ربط نہاں پیدا کر کے ایک کا میاب تاثّر پیدا کر نے کے لئے کسی خالص شاعرانہ ’’اُپچ‘‘ سے کام بگڑ جاتا اور نظم سب کچھ بن جاتی مگر مسجد قرطبہ کی لفظی اور معنوی تصویر نہ بن سکتی- اقبالؒ نے پورے شعوری طور پر موضوع کے ان مطالبات کو پیش نظر رکھا ہے اور پھر قلم اٹھایا ہے-اس لئے یہ نظم نہ صرف اقبال کی نظموں بلکہ اردو کی دوسری بلند پایہ نظموں میں سے ایک انفرادی شان رکھتی ہے -

٭٭٭

(ماخوذ از:اقبال کی نظموں کا تجزیاتی مطالعہ/ از ساحل احمد

ناشر: اردو رائیٹرس گلڈ، الٰہ آباد،سالِ طباعت: 1982ء)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر