علامہ اقبال کی شاعری اور بصیرت میں فکر کا کردار

علامہ اقبال کی شاعری اور بصیرت میں فکر کا کردار

علامہ اقبال کی شاعری اور بصیرت میں فکر کا کردار

مصنف: سبینہ عمر اپریل 2025

علامہ محمد اقبال کا فلسفہ ٔبصیرت آپ کے پورے فلسفیانہ نظام کا ایک اہم جزو ہے، جو خودی، حرکت، اور مذہبی و روحانی تجربے سے جڑا ہوا ہے- اقبال کے نزدیک بصیرت عقل و شعور سے بڑھ کر ایک روحانی کیفیت ہے جس کے ذریعے انسان حقیقتِ مطلقہ (Ultimate Reality) کو سمجھ سکتا ہے اوریہ انسانی زندگی میں روحانی اور فکری ترقی کا ناصرف بنیادی ذریعہ بھی ہے بلکہ اس کے مابین ایک توازن کو بھی فروغ دیتا ہے-آپ کے تخیلات جو شاعری اورمقالات کی صورت میں وقتاًفوقتاً مختلف موضوعات کی صورت میں منظر عام پر آئے، ان میں مردِ کامل، نفس، تصوف، اشرف المخلوقات کا کردار، عظمتِ انسان، وحدت الوجود، وحدت الشہود، یورپ کی مادیت پرستی، الارض للہ کی تفسیر، انسانیت، مناظرِفطرت، فلسفہ خودی، نظریہ خود آفاقیت، سماجی جمہوریت ، غیر استحصالی معاشی نظام،سیاسی وطنیت، مسلم امہ کی حالتِ زار شامل ہیں- غرضیکہ نظریہ انسان دوستی کے تحت اقبال نے ان گنت ایسے تشکیلی عناصرپیش کئے ہیں جو ان کے تخیلات کی عکاسی کرتے ہیں- آپ کے کلام میں مابعد الطبیعیات پیوست نظرآتی ہے-جیسا کہ آپ  ضرب کلیم میں فرماتے ہیں:

اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا

میٹا فزکس' یا 'مابعد الطبیعیات' کا علم ہے کیا؟

میٹا فزکس فلسفہ کی ایک اہم ترین شاخ ہے جس میں ایسے سوالات و حقائق زیر بحث آتے ہیں جن کے شافی جوابات دینے سے فزکس یعنی طبیعیاتی علوم تا حال قاصر نظر آتے ہیں-جیسے کائنات کا اولین محرک ؟ موت کے بعد شعور کا معاملہ؟ وقت کی حقیقت؟ زمان و مکان میں اصل ربط؟ ذہن کیا ہے؟ ذہن اور دماغ میں فرق ؟ ذہن اور جسم کا رشتہ ؟ کائنات کا مقصد؟ یہ اور ان جیسے بے شمار موضوعات جن کے جواب دینے سے یا تو سائنس بالکل عاجز نظر آتی ہے کہ یہ اس کے دائرہ کار سے ہی باہر ہیں یا پھر ایسے جوابات دیتی ہے جو کسی طرح بھی شافی نہیں مانے جاسکتے-مادیت پسندی کے سیلاب میں کثیر تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو خود کو ایک محدود حسی ادراک یا 'امپیریکل ایویڈنس' تک کے خول میں قید رکھنا پسند کرتی ہے- اگرچہ اس کی اہمیت اپنی جگہ مصمم ہے اور دنیا میں سربلندی کیلئے حسی علوم کی اہمیت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حسی ادراک سے آگے بھی بہت سے جہان ہیں- اسی لئے علامہ اقبال کے کلام کا محور میٹا فزکس کے گرد گھومتا نظر آتا ہے-

علامہ اقبال کی میٹا فزکس سے دلچسپی کی ایک اہم وجہ تصوف بھی ہے -ڈاکٹر ابو سعید نورالدین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ :

’’علامہ محمد اقبال کی بیعت ان کے والد کے وسیلہ سے تھی- ان کے والد کے پاس ایک مجذوب صفت درویش آیا کرتے تھے، جن کا سلسلہ قادریہ تھا وہ انہی سے بیعت تھے‘‘-[1]

گو کہ آپ روحانی اعتبار سے حضرت مولاناروم ؒ کو اپنا روحانی استاد بھی مانتے تھے - تصوف چونکہ ابتدا ہی سے آپ کی رگ و جان سے پیوست رہاہے کیونکہ اس میں درحقیقت ما بعد الطبیعیاتی حقائق ہیں، اگر ان کو منطقی پیرائےمیں منطقی استدلال کے ساتھ بیان کیا جائے تو وہ فلسفہ ہی ہے لیکن اگر ان حقائق کو جذباتی طور پر شعور ووجدان کی اساس پر ثابت کیا جائے تو یہ تصوّف ہے-اسی بنا پر آپ کے لیکچرز علم الکلام یا فلسفہ کے ماتحت آتے ہیں، لیکن آپ کی شاعری،خصوصًا مثنویوں کا ہیولیٰ اعلیٰ درجے کے تصوّف سے مزین ہے-

ما ز تخلیقِ مقاصد زنده ایم
از شعاعِ آرزو تا بنده ایم

گویا نت نئے مقاصد کی تخلیق ہی ہماری زندگی ہے آرزوؤں ہی کی کرن سے ہمیں چمک دمک نصیب ہے- تصّوف اسلام سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ وہ عین اسلام ہے جس کےطفیل چشم بصیرت پہ حقیقت عیاں ہوتی ہے-جیسا کہ علامہ اقبال ارمغان حجاز میں فرماتےہیں:

بچشم من نگہ آوردہءِ تست
فروغِ لَا اِلہ آوردہءِ تست
دوچارم کن بہ صبحِ من رآنی
شبم را تابِ مہ آوردہءِ تست

’’گویا میری آنکھوں میں بصیرت تیری ہی لائی ہوئی ہے، لَااِلہ کی روشنی تیری ہی لائی ہوئی ہے، مجھے"مَن رآنی" کی صبح کےروبروکردے،میری رات کے لیے چاند کا نور تیرا ہی لایا ہوا ہے‘‘-

 بصیرت عربی لغت میں قلبی عقیدہ، شناخت، یقین، ہوشیاری اور عبرت کے معنوں میں آتا ہے-[2]بصیرت لغت میں علم کے معنی میں بھی ا ٓتا ہے لیکن یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہر علم بصیرت ایجاد نہیں کرسکتا اور اسی طرح، ہر عالم دین کو بصیر نہیں کہا جاسکتامحض جوشِ خطابت، معلومات اور رٹہ انسان کو بصیر نہیں بناتے بلکہ وہ علم و عرفان و آگہی جو انسان کے شعور کو بیدار کرکے حق و باطل میں فرق اور حقیقت کوسمجھنے کی صلاحیت عطا کرے، وہ شعور و ذکاوت، بصیرت کے زمرے میں آتی ہے اور ایسی شناخت کی صلاحیت کے حامل انسان کو بصیر کہا جائے گا-ارشاد ربانی ہے:

’’وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ زصلے لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا ز وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا ز وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا ط اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ‘[3]

’’اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہّنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں ہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میں غافل ہیں‘‘-

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَآ  اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَاج فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ‘[4]

کیا وہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں تو ان کے ایسے دل ہوتے جن سے سمجھتے اور ایسے کان ہوتے جن سے سنتے، پس بیشک آنکھیں نہیں اندھی ہوتی ہیں بلکہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں پائے جاتے ہیں‘‘-

یعنی یہ اندھاپن جو دین کیلئے ضرر رساں ہے، درحقیقت یہ حق کی بابت قلب کا اندھا پن ہے، جیسے بصارت کا اندھا مرئیات کا مشاہدہ نہیں کرسکتا اسی طرح بصیرت کا اندھا حق کا مشاہدہ کرنے سے عاری رہتاہے - اقبال کا فلسفہ بصیرت ان کے کلام اور فلسفیانہ افکارمیں ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے- بصیرت کو اقبال نے ایک ایسی روحانی قوت کے طور پر پیش کیا جو انسان کو کائنات کی حقیقتوں اور خالق کی اصل حقیقت تک رسائی فراہم کرتی ہے، جو صرف عقل یا مادی تجربات سے ممکن نہیں- اقبال کے اس فلسفے کو اگر مابعد الطبیعیات اور جدید کوانٹم فزکس کے تناظر میں سمجھا جائے تو ایک جدید اور عمیق فکری میدان سامنے آتا ہے-

 مابعد الطبیعیات،بصیرت اور عقل:

نظریات و عقائد میں تعقل کا کلیدی کردار ہے- عقائد کی روشنی میں انسانی عقل اپنی ایک رائے رکھتی ہے جو کہ تمام تر تھیوریز کے پریکٹیکل کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرنے کی اہل ہوتی ہے-عصر حاضر میں جدید ترین ٹیکنالوجی ،اختراعات یہ سب انسانی تعقل کی غماز ہیں -فلسفہ کی شاخوں میں ماوراء الطبیعیات (Metaphysics) ایک اہم شاخ ہے- یہ عالم کے داخلی و غیر مادی امور سے بحث کرتی ہے-اس کی ذیلی شاخوں میں الٰہیات و کونیات وجودیت کو شامل بحث کیا جاتا ہے-خدا، غایت، علت، وقت اور ممکنات جیسے اہم موضوعات اس کا اہم جز ہیں- ہستی و وجود کے ہونےکی وجہ اور فہم و ادراک کے مسائل میں الجھ کر کون (being) کی تلاش اس کے خاص موضوعات ہیں-

اقبال کے فلسفہ میں بصیرت اور عقل کے درمیان ایک واضح فرق موجود ہے- عقل کا دائرہ محدود ہے اور یہ مادی دنیا تک محدود رہتی ہے، جبکہ بصیرت وہ روحانی طاقت ہے جو انسان کو مابعد الطبیعیاتی (Metaphysical) حقائق تک رسائی دیتی ہے ، اقبال دونوں کو اجاگر کرنے کی دعوت دیتے ہیں - مابعد الطبیعیات میں وہ حقائق شامل ہیں جو مادی دنیا سے باہر ہیں اور جو خالق، روح اور کائنات کے بنیادی اصولوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں-اقبال نے اپنی کتاب ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ میں اس بات پر زور دیا کہ بذریعہ عقل ہمیں مادی دنیا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، لیکن چشم بصیرت وہ طاقت ہے جو مابعد الطبیعیاتی حقائق کے ادراک کا واحد ذریعہ ہے- کوانٹم فزکس کے تناظر میں اس کی مزید اہمیت اجاگر ہو تی ہے، کیونکہ جدید فزکس کے اصول بھی مادی دنیا سے آگے کے حقائق کا اشارہ دیتے ہیں- مثلاً، کوانٹم فزکس کی Wave-Particle Duality اور Quantum Entanglement  جیسے نظریات ہمیں اس فہم سےا ٓشنا کرتے ہیں کہ کائنات محض ایک مادی جسم نہیں بلکہ ایک پیچیدہ اور غیر مادی حقیقتوں کا مجموعہ ہے-اقبال فرماتے ہیں:

’’زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہمارے محسوسات و مدرکات میں ماده، حیات، نفس اور شعوراور علی الترتیب طبیعیات،حیاتیات اور نفسیات کا موضوعات شامل ہوتے ہیں- جدید طبیعیات کو صحیح سمت میں سمجھنے کے لیے یہ جان لینا ضروری ہے کہ ماده کیا ہے؟چونکہ طبیعیات ایک اختیاری علم ہے اور اس کا تعلق موجودات خارجی یعنی ان حقائق کے مطالعے سے جن کا ادراک ہم اپنے حواس کے ذریعے کرتے ہیں - گویا یہ محسوس مظاہر جن کی ابتدا اور اختتام مطالعہ پر آکر رک جاتی ہے - ماوراء علمائے طبیعیات کے پاس اپنے نظریوں کی تائید کا کوئی ذریعہ ہےاور نہ ہی تصدیق کا- انہیں یہ حق تو پہنچتا ہے کہ بعض غير مدرک اشيا مثلاً جواهر کا وجود تسلیم کر لیں مگر اس لیے کہ مدرکات جس کی توجیہ ہو سکے -لہذا طبیعیات میں ہم مادی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں تو صرف اس حیثیت سے جس حیثیت سے حواس کی بدولت اس کا انکشاف ہوتا ہے‘‘-[5]

 کوانٹم فزکس کا غیر مادی پہلو:

کوانٹم فزکس نے مادی دنیا کے بارے میں ہماری روایتی انداز فہم کو تبدیل کیا- اس نظریے کے مطابق، ذرات نہ صرف اپنی موجودہ حالت میں ہوتے ہیں بلکہ مختلف ممکنات کی حالتوں میں بھی ہو سکتے ہیں، جو اس بات پر منحصر ہوتی ہیں کہ انہیں کیسے مشاہدہ کیا جاتا ہے- کوانٹم فزکس کے بنیادی نظریات جیسے کہ سپرپوزیشن اور انٹینگلمنٹ ظاہر کرتے ہیں کہ کائنات میں موجود ذرات کے درمیان غیر مرئی تعلقات موجود ہیں، جو فاصلے اور وقت سے آزاد ہوتے ہیں-جیسا کہ ہیزنبرگ  نے اپنی کتاب Physics and Philosophy میں بیان کیا کہ؟’’ کوانٹم نظریات کے تحت، مادہ کی حالتیں مادی مشاہدے کے بغیر غیر متعین اور غیر مادی رہتی ہیں ‘‘-

اسی پہلو کواقبال کا فلسفہ عیاں کرتا ہے کہ انسان کی خودی مادی کائنات کے اصولوں سے بالاتر ہے اور وہ اپنے شعور اور ارادے سے کائنات کو تخلیق اور تشکیل دینے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے-

فلسفہ اقبال نے نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اہم اثرات مرتب کیے ہیں- آپ کی شاعری میں یہ پیغام بار بار ملتا ہے کہ انسان کو غیر یقینی اور ان دیکھے امکانات کو اپنانا چاہیے-آپ کے کلام میں انسان کے روحانی ارتقاء اور غیر مادی کائنات کا تصور بار بار ابھرتا ہے، جو آپ کی فکری بنیادوں کا اہم جز ہے-

 20ویں صدی کے اوائل میں کوانٹم فزکس کا ظہور ایک اہم سائنسی انقلاب تھا، جس نے مادے کی روایتی تفہیم کو چیلنج کیا نیز غیر مادی حقیقتوں کو اجاگر کیا-کوانٹم فزکس بھی کائنات کی غیر متعین حالتوں کو اہمیت دیتی ہے- دونوں فلسفے غیر مرئی اور غیر مادی حقیقتوں کی موجودگی پر زور دیتے ہیں- کائنات چونکہ ایک غیر مادی حقیقت کا مظہر ہے، جسے انسان اپنے شعور کے ذریعے دریافت کرتا ہے-علامہ اقبال کے کائناتی تصور اور کوانٹم فزکس کے نظریات کے درمیان مماثلت اور ہم آہنگی آپ کے فلسفے سے واضح ہوتی ہے-

بصیرت، خودی اور کوانٹم فزکس:

اقبال کی نظر میں خودی وہ مرکز ہے جہاں انسان کی حقیقت پوشیدہ ہوتی ہے اور بصیرت ہی وہ طاقت ہے جو انسان کو اس خودی کا ادراک عطا کرنے کی اہل ہوتی ہے- خودی کا یہ تصور بھی کوانٹم فزکس کے حوالے سے Observer Effect اور Consciousness کے درمیان ایک اہم ربط عیاں کرتا ہے-کوانٹم فزکس میں، Observer Effect کے مطابق، کسی بھی نظام کا مشاہدہ اس کے نتائج پر اثر انداز ہوتا ہے، یعنی مشاہدہ کرنے والے کی موجودگی حقیقت کو بدل سکتی ہے- اقبال کا فلسفہ خودی بھی اسی طرح انسانی شعور کی طاقت کو کائنات کے حقائق پر اثر انداز ہونے کا ذریعہ سمجھتا ہے-

یہاں بصیرت اور خودی کا ربط کوانٹم فزکس کے Observer اور حقیقت کے درمیان تعلق سے ملتا ہے- انسان اپنی بصیرت کے ذریعے نہ صرف اپنی حقیقت کو سمجھتا ہے، بلکہ کائنات کی حقیقت کو بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے-

 عشق، بصیرت اور کوانٹم فزکس کی غیر متعینیت:

اقبال کے فلسفے میں عشق کو بصیرت کا لازمی جزو قرار دیا گیا ہے نیز عشق کو عقل پر بایں معنیٰ فوقیت دی گئی ہے کہ عشق عقل ہی کی نہایت ترقی یافتہ نوع ہے - اقبال عشق کو وہ روحانی قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو کائنات کے حقیقی اسرار تک پہنچانے کا وسیلہ ہے-یوں تو محبّت کے ہزاروں مقام اور ہزاروں رنگ ہیں لیکن تکمیل خودی میں محبت کا جو عنصر غالب آتا ہے وہ کسی ایک کامل کی محبت اور اس کے ساتھ عشق ہے تاکہ سیرت اور کردار اس کے سانچے میں ڈھل جائے-

 کوانٹم فزکس میں ہیزنبرگ  کے Uncertainty Principle مطابق، کسی بھی ذرے کی رفتار اور مقام کو بیک وقت درست طور پر معلوم کرنا ممکن نہیں ، جو کائنات کی غیر متعینیت کی طرف اشارہ کرتا ہے-اقبال کا عشق کا تصور بھی کائنات کی اسی غیر متعینیت کو سمجھنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے- وہ اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ انسان کی عقل محدود ہے اور انسان کائنات کی پیچیدگیوں کو مکمل طور پر سمجھنے کے قابل نہیں، جبکہ عشق اور بصیرت وہ ذرائع ہیں جو انسان کو ان غیر متعین حقائق کا ادراک مہیا کرتے ہیں- اقبال کہتے ہیں:

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

یہاں اقبال عشق (ترقی یافتہ عقل جو ماوریٰ سے جڑ جاتی ہے) سے حاصل کردہ بصیرت کو وہ قوت سمجھتے ہیں جو انسان کو ان غیر متعین اور پیچیدہ حقائق کی طرف لے جاتی ہے، جن کو (مادی جدلیت زدہ) تنزل پذیر عقل نہیں سمجھ سکتی-

اقبال کا تصور کائنات:

اقبال کی شاعری میں کائنات کی غیر مادیت اور لامحدودیت کے حوالے سے گہری فلسفیانہ بصیرت ملتی ہے -اقبال کے مطابق کائنات صرف مادے تک محدود نہیں، بلکہ روحانی اور ماورائی حقیقتوں سے مزین ہے-جیسا کہ آپ فرماتے ہیں:

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

یہ شعر اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ کائنات محض مادی اجسام تک محدود نہیں بلکہ اس کے آگے لامحدود امکانات اور غیر مادی حقیقتیں موجود ہیں، جنہیں انسان شعور کے ذریعے دریافت کرسکتا ہے-اقبال کا نظریہ ثابت کرتا ہےکہ انسان محض ایک جسمانی وجود نہیں، بلکہ ایک شعوری اور روحانی طاقت بھی رکھتاہے جو کائنات کی حقیقت کو اپنے شعور اور ارادے کے ذریعے تشکیل دینےکی اہلیت رکھتا ہے-

 بصیرت، مذہبی تجربہ اور کائنات کی وحدت:

فلسفہ اقبال میں مذہبی تجربہ ایک اعلیٰ درجہ کی حیثیت رکھتا ہے- وہ مذہبی تجربہ ہو یا اس سے حاصل شدہ چشم بصیرت کو کائنات کے حقائق اور خدا کی وحدانیت تک رسائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں- یہ بات کوانٹم فزکس کے اس نظریے سے بھی بیان ہو سکتی ہے کہ کائنات ایک وحدت پر مبنی ہے اور تمام ذرات ایک دوسرے سے مربوط ہیں، جیسے Quantum Entanglement کا نظریہ بتاتا ہے کہ دو ذرات دوری کے باوجود ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں-اقبال کی شاعری بھی اسی وحدت کی طرف اشارہ کرتی ہے، جہاں انسان اور کائنات کے درمیان ایک روحانی ربط موجود ہے- جیسا کہ اقبال فرماتے ہیں:

یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون

یہ شعر اس بات کا اظہار ہے کہ کائنات مسلسل ارتقاء پذیر ہے-ہمارے داخل اور باطن میں کوئی چیز بھی ساکن نہیں- جو کچھ ہے ایک مسلسل حرکت، کیفیات کا باہم ایک رد و بدل ہے، ایک دوامی بہاؤ ہے، جس کی کوئی منزل ہے نہ مقام- علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ پروفیسر وائٹ ھیڈ کے نزدیک ’’کائنات کوئی ساکن وجود نہیں، بلکہ حوادث کی ایک ترکیب ہے جس کی نوعیت ایک مسلسل اور تخلیقی روانی ہے‘‘-[6]

علامہ اقبال کا فلسفہ ایک گہری روحانی اور فکری بنیاد فراہم کرتا ہے جو نہ صرف مابعد الطبیعیاتی حقائق کے ادراک میں مدد دیتا ہے، بلکہ کوانٹم فزکس کے جدید نظریات کے ساتھ بھی ہم آہنگ نظر آتا ہے- چشم بصیرت اقبال کے نزدیک، انسان کی روحانی ترقی اور کائنات کی حقیقتوں کو سمجھنے کا ایک لازمی جزہے- بصیرت اور کوانٹم فزکس کے درمیان پائے جانے والے متوازی تصورات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کی فکری دنیا جدید سائنس کے نظریات کے ساتھ بھی ایک گہری مطابقت رکھتی ہے جو انسان کیلیے ایک نئی راہنمائی ہموارکرتی ہے، جس میں بذریعہ بصیرت مابعد الطبیعیات اور کائنات کی غیر متعین حقیقتیں واضح ہوتی ہیں-

٭٭٭


[1](اسلامی تصوف اور اقبال،ص:230)

[2](لسان العرب، ناشر، دارالصادر: ج‏:4، ص:64)

[3](اعراف:179)

[4](الحج:46)

[5](تشکیل جدید الہیات اسلامیہ، ص:48)

[6](تشکیل جدید الہیات اسلامیہ ،ص:70)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر