اقبال:سماجی ومعاشی تناظر (فکری خطاب)

اقبال:سماجی ومعاشی تناظر (فکری خطاب)

اقبال:سماجی ومعاشی تناظر (فکری خطاب)

مصنف: صاحبزادہ سلطان احمد علی اپریل 2019

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْن، وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی سید الانبیاء والمرسلین وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن:

قابلِ احترام ڈاکٹر محمد حنیف صاحب،قابل احترام ڈاکٹر مسعود الحسن صاحب،قابل احترام ڈاکٹر ابن حسن صاحب، قابل احترام ڈاکٹر صادق شاہد صا حب، جناب مظہر اقبال صاحب، جناب اے ڈی خان صاحب قابل احترام ڈاکٹر جنید صاحب، معزز فیکلٹی ممبرز سٹوڈنٹس السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یونیورسٹی انتظامیہ کا، اس شعبہ کا بہت بہت شکریّہ جنہوں نے مجھے یہ موقع فراہم کیا کہ میں ’’اقبال: سماجی و معاشی تناظر ‘‘ (Iqbal in Socio-Economic Perspective) پہ اپنے خیالات کا اظہار کرسکوں-ڈاکٹر ابن حسن صاحب نے اپنی تمہید میں جو کچھ کہا میں سب سے پہلے اُسے Endorse کرنا چاہتا ہوں کہ وہ واقعی ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے- جب ہم پاکستان کی بات کرتے ہیں تو میں سب مکاتب ِ فکر؛ سیاسی و مذہبی ؛ اُن کا احترام کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان کا سادہ سا مطلب اقبال ہے - اگر اقبال نہیں، اقبال کی فکر نہیں، توپاکستان لفظ کو، پاکستان جغرافیہ کو کوئی معنیٰ نہیں دیا جاسکتا- میں اس سےپہلےکہ موضوعِ گفتگو کی طرف آؤں آپ کوبتادوں کہ میں اکانومسٹ نہیں ہوں، نہ ہی وادیٔ معاشیات کی پیچا پیچ گھاٹیوں کے صبح و شام سے واقف ہوں اِس لئے میری گفتگو موضوع کے نسبتاً سطحی پہلؤں پہ رہے گی - لاعلمی کا اعتراف کر لینے سے آپ بہت سی مصیبتوں سے بچ جاتے ہیں اور بڑے دعوے اپنے ساتھ بڑی مصیبتیں بھی لاتے ہیں - مَیں موضوع کو اس طریقےسےبیان کروں گا جیسے ایک عام انسان اپنی ڈے ٹو ڈے اکنامکس میں اس کوسمجھنے کی کوشش کرتا ہے یا اقبالؒ کے تاریخی تناظر میں یا آپ اقبالؒ سے اکنامکس کے تصورات کا تھیم کیسے سیکھ سکتے ہیں-

علامہ اقبالؒ کے بارے میں ابتدائی بات کردوں کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں اقبال سے نسبت رکھتا ہوں مجھے یہ بڑا فخر محسوس ہوتا ہے-اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کے قد کے برابر پاکستان کا کوئی اور شاعر، ادیب، تجزیہ نگار اور سیاسی مفکر نہیں ہے جس کو اتنی عالمی پذیرائی ملی ہو جتنی علامہ اقبال کو ملی ہے- آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے اندر اشتراکی ادبی تحاریک کا پچاس کی دہائی سے لے کر اَسّی کی نصف دہائی تک بڑا زور تھا جنہیں اُس وقت کے بائیں بازو کی تحاریک کہا جاتا تھا- اُن کا پاکستان میں بڑا چرچا اور اجارہ تھا ان کے پاس بڑے ذرائع، روابط، فنڈنگ اور عالمی امداد تھی یعنی کوئی انہیں تسلیم کرے یا نہ کرے اُن کے نام لینن ایوارڈ تو پکا تھا-لیکن اس کے باوجود پاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شاعر کے دنیا میں اتنے تراجم نہیں ہوئے جتنے علامہ اقبال کی شاعری کے ہوئے ہیں-یورپ کی ہر بڑی زبان میں اقبال کے تراجم ہوئے ہیں- پولسکی ہو، پرتگالی ہو، سپینش ہو، اطالوی ہو، انگلش ہو، انگلش میں تو بذات خود اقبال نے لکھا ہے، جرمن ہو، فرانسیسی ہو، لاطینی ہو، پھر اسی طرح آپ ایشیاء میں دیکھیں روسی،چینی، جاپانی، کوریئن، ملائ، انڈونیشیائ، عربی، فارسی میں تراجم موجود ہیں بلکہ فارسی میں تو اُنہوں نے خود بھی لکھا اور آپ خطہ بہ خطہ تحقیق کریں، نظر دوڑائیں آپ ہر زبان میں اقبال کو پائیں گے -

اقبال وہ واحد شاعر ہے جس کےپیغام کا سرائیکی، پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، تامِل، بنگالی اور ہندوستان میں بولی جانے والی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا- جس سے اقبال کی فکر کی پذیرائی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے-فکرِاقبال کی آفاقیت اور عالمگیریت کے؛ لوگ قائل بھی ہیں اور اس سےاستفادہ بھی کرتے ہیں-

پاکستان میں جتنی بھی غیر ملکی شخصیات آتی ہیں؛ جن میں حالیہ رجب طیب اردگان (ترکی کےصدر)، شی جن پنگ (چائنہ کے صدر) نے پاکستانی پارلیمنٹ سےخطاب کیا انہوں نے اپنی گفتگو کا آغاز کلام اقبال سے کیا-اسی طرح عالمی لیڈر؛ جب بھی پاکستان پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہیں اقبال کے کلام سے اپنی بات شروع کرتے ہیں- سوال یہ ہے کہ ڈپلومیٹک زبان میں اس کا کیا مطلب و تعبیر ہےکہ ایک غیر ملکی سفیر اور وفد پارلیمنٹ کو خطاب کرتے ہوئے اپنی گفتگو کا آغاز کلامِ اقبال سے کرتا ہے؟

میرے نزدیک ڈپلومیٹک زبان میں اس کی تاویل و تعبیر یہ ہے کہ وہ لیڈر اس قوم کو بتا رہا ہے کہ :

’’ہمیں معلوم ہےکہ آپ نے اپنے نزدیک جو ثقافتی و سیاسی تاریخ میں درجہ بندی بنائی ہیں اُن میں درجۂ اول پر اقبالؒ کا اسم ہے- ہم یہ جانتے ہیں کہ اقبال سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ اقبا ل نے آپ کو آئیڈیالوجی اور فکر دی، نظریہ اور ملک کا تصور دیا ہے‘‘-

اس کے علاوہ دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں جن کے ہاں اقبال پہ بڑا سنجیدہ علمی و تحقیقی کام ہوا ہے-

’’اقبال ز گلوبل رکگنیشن‘‘ ایک الگ موضوع ہےجس کے لئے بہت طویل وقت درکار ہے- میں اس پہ صرف تعارفی الفاظ کہنا چاہتا تھا تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ہم کسی عام آدمی کی بات نہیں کر رہے بلکہ ایک ایسی شخصیت کے تصورات و نظریات کا تذکرہ کر رہے ہیں جس کو دنیا تسلیم کرتی ہے-

اقبال کے تصورِ معیشت پہ روشنی ڈالی جائے تو اقبال کے ذوقِ معاشیات کے متعلق علمی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ عوام میں تعلیمی نصاب کے ذریعے یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ اقبالؒ مغرب گئے، وہاں اُنہوں نے سیکھا اور پڑھا، پھر وہاں سے جو سیکھا واپس آ کر یہاں پڑھانا شروع کیا تو وہ اقبال کے معاشی تصورات بن گئے-

آپ کامرس سے ، اکنامکس کی ایک برانچ سے تعلق رکھتے ہیں آپ کویہ جان کر خوشی اور حیرت ہوگی کہ علامہ اقبال اس خطہ کے وہ پہلے مصنف ہیں جس نے از خود اکنامکس اور اقتصاد پر اُردو زبان میں پہلی کتاب لکھی- جس کا نام ’’علم الاقتصاد‘‘ہے جوکہ 1900ءمیں شائع ہوئی- کچھ عرصہ قبل اس کو دوبارہ شائع کیا گیا ہے-الغرض! اردو زبان میں اکنامکس پہ لکھی گئی یہ پہلی کتاب تھی جو علامہ اقبال نے لکھی تھی-

لہٰذا اقبال نے ویسٹ میں جانے سے پہلے اقتصادیات کا مطالعہ کرنا شروع کیا-حالانکہ اس کتاب میں اقبالؒ کے آئیڈیاز اتنے مشہور نہیں تھے لیکن میرے اپنے لیے حیرت کی بات تھی کہ اقبالؒ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس کتاب میں اکنامکس کو ڈسکس کرتے ہوئے خاندانی منصوبہ بندی کی تائید کی- اگر آپ اپنے معاشی مسئلہ کوحل کرنا چاہتے ہیں توآپ کو اپنے معاشرتی پہلو پہ غور کرنا پڑےگا- ’’مسدس ِ حالی‘‘ میں الطاف حسین حالی نے بھی اس نقطہ ٔنظر کو سپورٹ کیا ہے - بہرحال یہ اقبال کی تحقیق ہے اور یہ حالی کا نقطہ نظر ہے جس کو ایک حوالہ کے طور پہ بیان کیا گیا ہے-

چونکہ 1900ء اقبالؒ کا ابتدائی دورتھا لیکن اقبال کا کئی اعتبارات سے اصل دور 1908ء کےبعد شروع ہوتا ہے جو اکثریت کیلئے سورس آف انسپائریشن ہے؛ جس سے عوام بہت کچھ سیکھتی اور اخذ کرتی ہے- لیکن اس کتاب کےدیباچہ میں اکنامکس کی اہمیت پرروشنی ڈالتے ہوئے علامہ نے کہا کہ موجودہ زمانےمیں جو اقوام اپنی اجتماعی معیشت بہتر بنانے کے لئے سوچ بچار نہیں کرتیں وہ دنیا میں بہت پیچھے رہ جائیں گی حتی ٰ کہ اُن کا زندہ رہنا بھی محال ہوجائے گا-حالانکہ علامہ اقبال شاعری، فارسی، اردو، عربی ادب کے طالب علم تھے لیکن اُن کی زیادہ دلچسپی کا موضوعِ سیاست بھی اُس طرح سے دلچسپی کا حامل نہ تھا جس طرح سےمعیشت کا تھا- اقبال کے نزدیک معیشت کو پڑھے اور اسے اپنی اجتماعی زندگی کا حصہ بنائے بغیر آپ ترقی نہیں کر سکتے- کیونکہ علامہ اقبال جس عہد میں زندہ تھے اس دور میں دُنیا میں دو معاشی تصورات کا زبردست ٹکراؤ تھا- ایک مغربی سرمایہ دارانہ معاشی نظریہ تھا اور دوسرا کارل مارکس کا نظریہ جو کہ ایک ’’Revolution‘‘ کی صورت میں روس میں برپا ہوا جسے لینن نے لیڈ کیا اور وہ دنیا میں آگے پھیلا- جس کی زد میں انڈیا کے بہت بڑے بڑے لیڈرز آتے ہیں جو اسےتسلیم بھی کرتے ہیں اور اس پر یقین بھی رکھتے ہیں- الغرض! دنیا کا کوئی خطہ اس سے بچا نہیں ہے-

زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سُرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وُسعتِ اَفلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار

یہ اشعارابلیس کی مجلس شوریٰ سے ہیں جن میں ابلیس کا مشیر دوسرے مشیر کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہم تو اشتراکیت کو ایک قلیل سے مشتِ غبار سمجھتے تھے لیکن یہ تو وسعتِ افلاک پہ چھا گئی ہے جس نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے- آپ کے علم میں ہوگا کہ چند سال پہلے 2008ء میں جب اکنامک ’’Recession‘‘ شروع ہوا تویہ تحریک ’’Occupy wall street‘‘امریکہ کے گلی کوچوں میں پھیل گئی اور ابھی بھی امریکہ، یوکے اور دیگر ممالک میں اس تحریک کے سرگرم کارکن موجودہیں- مجھے حال ہی میں لندن میں کارل مارکس کی قبر دیکھنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہاں عیسائیوں کے قبرستان میں باقی لوگوں کی قبروں پر صرف عیسائی لوگ اس وقت ہی آتے ہیں جب وہاں کوئی ان کا مذہبی تہوار ہوتا ہے اس کے علاوہ بہت کم لوگ ہیں جو یہاں آتے ہیں-لیکن واحد قبر کارل مارکس کی ہےجس کے لیےروزانہ گیٹ کھولنا اور بند کرنا پڑتا ہے کیونکہ اتنی کثیر تعداد میں لوگ اس کی قبر دیکھنے آتے ہیں- بات کا مقصد یہ ہےکہ معیشت کی دنیا میں آج بھی اُس کا تاثر زندہ اور تابندہ ہے- یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہاں جو مارکسسٹ تحاریک ہیں بلکہ تھیں وہ دم توڑ چکی ہیں اور اُن کا اثر باقی نہیں رہا -

اقبال کے نزدیک سرمایہ داری کی بحث بڑی دلچسپ ہے - اولاً آپ کےعلم میں ہے کہ اقبالؒ نے سرمایہ دارانہ نظام کو بڑے پُر زور طریقہ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے- جس کا ادراک ہمیں اقبال کی کچھ مشہور نظموں سے ہوتا ہے- اقبال کی مشہور فارسی کتاب ’’پیام ِ مشرق‘‘ میں اقبال کے اس نقطۂ نگاہ پہ ایک پورا باب ’’نقشِ فرنگ‘‘ کے نام سے ہے- اُس میں بالخصوص ایک نظم جس کا عنوان ’’صحبتِ رفتاگان در عالمِ بالا‘‘، ’’عالمِ بالا میں کچھ ارواح آپس میں ملاقات کرتی ہیں‘‘-یعنی اقبال کی دنیامیں جو کچھ ہو رہا ہے ان حالات و واقعات پروہ ارواح کے درمیان مکمل ایک مکالمہ ہے جس میں فرانسیسی فلاسفرز اگسٹس کومٹ، لینن اور قیصرولیم شامل ہیں- اسی طرح قسمت نامہ سرمایہ دار اورنوائے مزدور ہے اور اس کے علاوہ دیگر نظمیں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں - جاوید نامہ میں بھی یہ موضوع جا بجا پھیلا ہوا ہے ، خاص کر فلکِ عطّارد کی سیر کے دوران گفتگو کا زیادہ تر رُجحان اِسی جانب ہے- زبورِ عجم کی کئی غزلیں اِن تصورات سے لبریز ہیں-یوں تو اُردو کلیّات بھی بھری پڑی ہے لیکن ان افکار سے خاص طور پہ ارمغان حجاز اردو میں ابلیس کی مجلس ِ شوریٰ اس سلسلے میں سرِ فہرست اہمیت کی حامل ہے - اسی طرح بالِ جبریل میں تین نظمیں ایک تسلسل سے ہیں - پہلی نظم کا عنوان ہے ’’لینن خدا کےحضور‘‘ دوسری ’’فرشتوں کا گیت‘‘ اور تیسری ’’فرمان ِ خدا فرشتوں کے نام‘‘ سے موسوم ہے- پہلی نظم میں لینن اللہ تعالیٰ کےحضور دُنیائے کُہنہ کی یہ شکایت کرتاہےکہ:

یہ علم یہ حکمت یہ حکومت یہ تدبر
پیتے ہیں لہُو، دیتے ہیں تعلیمِ مُساوات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تیری منتظرِ روز مکافات

یہ نظم اس قدر حقیقت کی عکاس ہے کہ اس کے اختتام کرتے ہی آپ کو شاعر کی کیفیت محسوس ہوتی ہے-اس کے بعد نظم ’’فرشتوں کا گیت‘‘کی بات کرتے ہیں جس میں فرشتے اللہ تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ :

تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی

اِسی میں آگے اتنی زوردار ضرب ہے اقبال کی کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے ، سرمایہ دارانہ مادیت کے پرخچے اُڑا دیئے اقبال نے :

دانش و دین و علم و فن، بندگیٔ ہوس تمام
عشق گرہ کُشائے کا فیض نہیں ہے عام ابھی

تیسری نظم فرمانِ خُدا ہے اس میں اقبال اظہار کرتے ہیں لینن کی دعا اور فرشتوں کا گیت سُن کے اللہ رب العزت اپنے جلال کا اظہار کرتے ہیں- اس کے علاوہ یہ اقبال کی بڑی خطرناک نظم سمجھی جاتی ہے جوکہ اس خوف سے کافی عرصہ تک سرکاری نشریات پر بند رہی کہ کہیں یہ کسی انقلاب کو لانے کا پیش خیمہ نہ بن جائے-

اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ اُمَرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے
کنجشک ِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سُلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کُہن تم کو نظر آئے، مِٹا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

اقبال نے اپنی ان نظموں کے ذریعےجاگیرداری اور سرمایہ داری نظام پہ بڑی زور دار ضرب لگا ئی ہے- پھر اس کے بعد اقبال کی ایک اہم نظم ’’خضرِ راہ‘‘ ہے جو اقبال کے معاشی تصورات کو سمجھنے کے لئے بڑی ممد و معاون ہے- جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میری خواجہ خضر علیہ السلام سےبرسرِ راہ ملاقات ہوئی تو میں نے خضر علیہ السلام سے پوچھا زندگی کیا ہے؟ سلطنت کیاہے؟ سرمایہ داری کیا ہے؟ خضر علیہ السلام کے جواب کو اقبال یوں بیان کرتے ہیں کہ :

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری
ہے وہی سازِ کُہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

قیصری کیا ہے؟ رومن امپائر یعنی بادشاہت کا نظام-اقبال کہتے ہیں جو تم مغرب میں جمہوریت دیکھتے ہو، بنیادی طور پر یہ قیصر ہی کا نظریہ ہے، آمریت ہی کی ایک شکل ہے، اگرتم اسے جھٹلاؤ گے تو مار دیے جاؤ گے- اگر یہ جمہوریت ہے تو اس کو جھٹلانے کا حق ہونا چاہیئے لیکن اگرتم اسےتسلیم نہیں کروگےتو تم ایک غیر مہذّب آدمی کہلاؤ گے جس کو اس زمین پہ زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں دیا جائے گا-

یہ اقبال کاتصورِجمہوریت ہے جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ ’’دیو ‘‘یعنی بھیانک جن ہے - یہ جن استبداد کا ہے لیکن اُس نے جو لباس پہنا ہواہے وہ جمہوریت کی نیلم پری کا ہے- یعنی دیکھنے میں وہ نیلم پری ہےلیکن اندر سےاس کو کھول کردیکھا جائے تو وہ استبداد کا جن ہے-بقول خضر بزبانِ اقبال :

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا؟ ہے یہ پیام کائنات!
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مُسکرات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

یعنی مزدور طبقہ کے لئے یہ پیغامِ خضر بیان کیا جارہا ہے جو کہ اقبال کی سرمایہ دارانہ نظام پر نہ صرف تنقید تھی بلکہ ایک کاری ضرب تھی-اقبال کی ان نظموں سے اِس تاثر نے جنم لیا کہ اقبال اشتراکیت کےقائل تھے-اس پر اقبال کو اس تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا کہ ’’اقبالؒ تو اُس عہد میں تھے جب مارکسسٹ انقلاب برپا ہو رہے تھے لہٰذا اقبال تو مارکسسٹ تھے اور یہ ساری اشتراکی اپروچ ہےجس کےتحت علامہ اقبال یہ ساری باتیں کررہے ہیں‘‘-

اِنقلاب کے متعلق بھی اقبال کے اشعار پہ سُرخوں نے خوب حاشیے چڑھائے اور اُنہیں اپنے نُقطۂ نظر کے حق میں خوب استعمال کیا- فکرِ اِقبال کے ساتھ یہ المیّہ ہر سمت سے پیش آتا رہا ، مذہبی سیاسی جماعتوں کے تربیّت یافتہ محققین نے پہلے اقبال کو کافر ثابت کرنے کی کوشش کی، پھر شکست کھانے کے بعد اقبال کی بھر پور ’’طالبانائزیشن‘‘ کی ، انقلابِ ایران کے بعد اقبال کو پاسدارِ انقلاب کے طور پہ پیش کیا گیا، صُوفیوں نے اقبال کو متولّی ثابت کیا، اشتراکیوں نے اقبال کو مارکس کا پیرو کار بتایا-

یہ المیے اپنی جگہ، حسبِ موضوع مَیں آپ کو یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ علامہ اقبال قطعاً مارکسسٹ نہیں تھے - انہوں نے کارل مارکس کو پڑھا اور دیگر فلاسفرز اور ماہرینِ معاشیات سےزیادہ کارل مارکس کا فہم رکھتے تھے- لیکن اس کا يہ مطلب ہرگزنہیں ہے کہ علامہ اقبال کارل ماکس کے قائل تھےیا علامہ اقبال نے کارل ماکس کو بطور اپنے آئیڈیل کے لیا ہے-ہم وہ لمحہ بھول جاتے ہیں جہاں سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت بھی علامہ اقبال کے ہدفِ تنقید پہ ہے-کئی حوالوں سے اقبال ان دونوں کو ایک ہی ٹہنی کے دو بد ذائقہ پھل سمجھتے ہیں-اقبال بتاتے ہیں کہ اشتراکیّت اور سرمایہ داری میں صرف اصطلاحات اور نعروں کے الفاظ کا فرق ہے حقیقت میں یہ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں- اشتراکیّت اور سرمایہ داری دونوں کا مقصود طاقت کے بل بوتے پہ دوسروں کی دولت چرانا اور ہتھیانا ہے (اُسی طلسمِ کُہن میں اسیر ہے آدم )-نعرہ مزدور کا لگایا جائے یا کسی ایمپائر کا؛ یہ معنیٰ نہیں رکھتا-

کاروبارِ شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجُودِ میر و سُلطاں پر نہیں ہے مُنحصر

مجلسِ مِلّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

اِن دونوں نے اقوام کو روندا، لوٹا اور برباد کیا ہے ، کمزوروں کی دولت ہتھیائی اور اُن کا استحصال کیا، قتلِ عام کیا، بنی نوعِ انسان کو ذلیل و رُسوا کیا- بقول اقبالؒ سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام دونوں مخصوص طبقہ کا تحفظ ہے ، دونوں کا اصل الاصول زر پرستی اور ہوسِ دولت ہے - کیونکہ جس طرح سرمایہ دار، حقدار سے رقم چھین کر بینک کے ذریعے سرمایہ دار پارٹی کے لیڈر کو دیتا ہے اسی طرح اقبال کے نزدیک اشتراکی نظام بھی حقدار سے رقم چھین کے مزدور پارٹی کے لیڈر کو دیتا ہےجس سے حقدار کا حق دونوں ہی چھین کھاتے ہیں - ان دونوں کا نقص اور مرض یہ ہے کہ دونوں انسان کی انسانیت کا احترام سکھانے کی بجائے شکم کی پرورش سکھاتے ہیں - اس لیے ان دونوں میں صفتِ ہوس پرستی کا اُبال اور وبال دیکھتے ہوئے اقبال سرمایہ داری کی طرح اشتراکیت کو بھی ردّ کرتے ہیں، اس کا ابطال کرتے ہیں -جس کو اقبال نے اپنے کلام میں یوں بیان کیا ہے:

راز دان جزو و کل از خویش نا محرم شد است
آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

یعنی آدم اپنے سرمائےکی دوڑکے پیچھے آدمیت کا قاتل بن چکا ہے اور یہ شعر لوگوں کو تب سمجھ آیا جب’’اسٹالین آف یو ایس ایس آر‘‘نے سنٹرل ایشیاء کے انسانوں جن کی تعداد کچھ کے نزدیک تیس ملین سے زائد ہے؛کے خون سے ندیاں بہادیں- تیس ملین کا مطلب تین کروڑ ہے اس سے زائد انسان سنٹرل ایشیاء میں سٹالین کی ملٹری نے کچلے ہیں جس میں پورا قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان شامل ہے- اس پورے قہر آلودہ ماحول کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سب سنٹرل ایشین اور تیموری ترکوں نے ’’یو ایس ایس آر‘‘ کوپلیٹ میں رکھ کر دیا تھا ؟ اور کیوں’’ یو ایس ایس آر‘‘ ان پرقبضہ کرنا چاہتا تھا ؟ کیا اپنے جی ڈی پی، اپنی بینکنگ گروتھ اور معاشی طاقت کے لیےکیا تھا؟ اگر نہیں --! تو پھر اس کے علاوہ کیا وجہ تھی؟

آدم از سرمایہ داری قاتل آدم شد است

اگر سرمایہ دارانہ نظام اسکندریت ہے تو اشتراکیّت بھی چنگیزیّت ہے ، بلکہ اسٹالن خود چنگیزیّت سے بد تر استعارہ ہے انسانی قتلِ عام کا- اب یہ شعر پڑھیں اقبال کا :

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قُبا چاک

جاوید نامہ میں سیّد جمال الدین افغانی کی زبان سے’’اشتراک و ملوکیّت‘‘ والے حصہ میں جو کچھ اقبال نے کہلوایا ہے وہ بھی اِسی تقابل و موازنہ پہ دالّ ہے کہ ملوکانہ لسّی اور اشتراکی مکھن ایک ہی برتن کے خراب دودھ سے بر آمد ہوئے ہیں-

ہر دو را جاں ناصبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس، آدم فریب

زندگی ایں را خروج، آں را خراج
درمیانِ ایں دو سنگ آدم زُجاج

غرق دیدم ہر دو را در آب و گِل
ہر دو را تن روشن و تاریک دِل

’’اِن دونوں میں رُوح بے قراری اور بے سکونی کا شکار رہتی ہے ، یہ دونوں خُدا کے منکر اور انسانیت کیلئے دھوکہ ہیں- اشتراکیّت کا مقصدِ زندگی ہر چیز میں فساد بپا کرنا ہے جبکہ ملوکیت کا ہر چیز میں ٹیکس وصولنا، اِن دو پتھروں کے درمیان انسان شیشہ کی طرح پِس رہا ہے- میں نے ان دونوں کو مادہ پرستی میں غرق دیکھا ہے ، ان دونوں کا ظاہر روشن جبکہ دِل سیاہ ہیں‘‘ -

اسی طرح ’’پیام مشرق‘‘میں لینن اور قیصر کے درمیان جو مکالمہ ہے اس میں لینن مارکسسٹ اپروچ یعنی اشتراکیت کا نمائندہ ہے اور قیصر روایتی سرمایہ دارانہ اپروچ کا نمائندہ ہے- یہ مکالماتی نظم اقبال کے تصورات کی بھر پور اور بہترین عکّاس ہے -

لینن بڑے فاتحانہ اور متفاخرانہ لہجے میں اپنی بڑائی جتلاتے ہوئے قیصر کو کہتا ہے  کہ ہم نے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے انسانوں کو بچا لیا ہے، زارِ روس اور قیصرِ روم کا فریب کچلا جا چکا ہے- مزدوروں نے سرمایہ داروں کی قمیص نوچ ڈالی ہے ، پیرِ کلیسا کی چادر اور شاہوں کی قبا بھی پھاڑ ڈالی ہے -

جسے اُردو میں اقبال نے کہا تھا کہ :

اس سے بڑھ کہ اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب

لینن کی گفتگو کے بعد اقبال قیصرکے کردار کو سامنے رکھ کر اشتراکیّت پہ تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں :

گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست!
طواف اندر سرشتِ برہمن ہست

بے جان بتوں کے ناز و عشوہ کا کیا گناہ؟ طواف تو برہمن کی سرشت میں شامل و داخل ہے - اسی جواب میں آگے چل کر اقبال کہتے ہیں کہ نئے خُدا تراشنے کا جنون جس کے ذہن میں ہو تو وہ یہی کرتا رہے گا -

دما دم نو خداونداں تراشد
کہ بیزار از خدایانِ کہن ہست

یعنی انسان کی فطرت ہے کہ وہ نئے سے نئے بت تراشتا رہتا ہے-پہلےسرمایہ داری کا بت تھا اب انسان نے اشتراکیت کا بت بھی تراش لیا ہے؛ کوئی زیادہ فرق نہیں پڑا وہ بھی بت ہے، یہ بھی بت ہے- پھر آگے کہتے ہیں کہ:

اگر تاجِ کئی جمہور پوشد
ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست

جمہور یعنی اگر مزدور خسرو بادشاہ کا تاج پہن لےتو پھر بھی انجمن میں سرمائے کی ہوس تو اسی طرح موجود ہے- مزدور بھی اسی ہوس میں لڑ رہاہےجس ہوس میں سرمایہ دارلڑرہاتھا-

نماند نازِ شیریں بے خریدار
اگر خسرو نباشد کوہکن ہست

یہاں پر اقبال ناز شیریں کااستعارہ استعمال کرتے ہیں جس سے مراد محبوبہ ہے اور اس کے عاشق کون کون ہیں؟ ایک اس کا عاشق خسرو بادشاہ ہے دوسرا اس کا عاشق کوہکن (مزدور)ہے- اب اقبال یہ کَہ رہےہیں کہ شیریں سے مراد زر پرستی ہے، دولت و سرمائے کی ہوس ہے، مزہ تو تب تھا کہ اشتراکیت سرمائے کی ہوس کوختم کرتی- لیکن افسوس! سرمائے کی ہوس نہ سرمایہ دارانہ نظام ختم کرسکا اورنہ اشتراکی نظام- لہٰذا برائی اپنی جگہ موجود ہے چاہے سرمایہ داری ہو چاہے اشتراکیت- یہی بات اقبال نے اردو میں کی کہ:

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا!
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

یعنی مزدوروں کا طریقہ (اشتراکیت) بھی بادشاہوں اور سٹالن والا ہےاس کے علاوہ باقی اشتراکی ریاستوں میں جوظلم کیا گیا علامہ کے نزدیک وہ بھی بادشاہت والی ہوسِ زر کا ہی مصداق ہے -اس لئےعلامہ اقبالؒ نے ان دونوں کومسترد کیا-

اقبالؒ نے اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کو رد کیا، اپنی معجز بیانی سے سرمایہ داری، جاگیر داری کی جڑیں اکھیڑ دیں- پھر اشتراکیت پہ بھی وہی تنقید کی جوانہوں نےسر مایہ دارانہ نظام پر کی-

اب یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اقبال کا معاشی آیئڈیل کیا ہے؟ اس پر گفتگو کرتے ہوئے اقبال کی ایک نظم جس میں بڑے کمال کا تغزل ہے؛ اس کے تین اشعار پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ اس نظم میں علامہ نے دونوں (اشتراکیت اور سرمایہ داری)پہ تنقید کی ہے-بقول اقبالؒ:

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہرِ یاری ہے
قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے
نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگرجھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بِنا سرمایہ کاری ہے

یہاں سرمایہ داری سے مراد سرمایہ دارانہ نظام نہیں بلکہ سرمایہ داری سےمراد نازِشیریں ہے اور نازِ شیریں سے مراد ہوسِ دولت ہے- اقبال اپنے آ یئڈ یل کی بات کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک متبادل خیال موجود ہے یعنی ان دونوں میں جو اچھائی ہےوہ اس اچھائی کوچن لیتاہے- اس پہ اقبال کا ایک وضاحتی خط ہے جس میں اقبال یہ کہتے ہیں کہ:

’’مجھ پہ یہ الزام لگا کہ میں اشتراکیت پسند ہوں تو میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں- یعنی کسی صاحب نے کسی اخبا رمیں میری طرف بالشویک خیالات منسوب کئے چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے مترادف ہے؛[1]اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے- مَیں مسلمان ہوں میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل اور براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن مجید نے تجویز کیا ہے - اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب اعتدال سے تجاوز کر جائے تو وہ دنیا کیلئے ایک قسم کی لعنت ہے - لیکن دنیا کو اس مضمرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں-قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کیلئے قانونِ میراث ، حرمتِ ربا اور زکوٰۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے- فطرتِ انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابلِ عمل بھی ہے- روسی با لشوازم یورپ کے عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبر دست ردِعمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی با لشو ازم دونوں افراط اورتفر یط کا نتیجہ ہیں- اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہمیں بتائی ہے جس کا مَیں اوپر اشارۃً ذکر کر چکا ہوں ‘‘-

اقبال علیہ الرحمہ کی اِس جامع تحریر کے بعد کسی قسم کی غلط فہمی کی گنجائش نہیں رہتی  اور یہ سمجھنا از حد آسان ہو جاتا ہے کہ اقبال کا ’’اکنامک آئیڈئیل‘‘ کیا ہے - ضربِ کلیم کے حصہ ’’سیاسیاتِ مشرق و مغرب ‘‘ کی پہلی نظم ہی اشتراکیّت پہ تبصرہ کی صورت میں ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کو اشتراکیّت کے سامنے دامنِ خیرات پھیلانے کی بجائے قرآن میں ڈوبنے کی دعوت دی ہے اور بتایا ہے کہ جس معاشی مساوات کا غوغہ روس نے آج بپا کیا ہوا ہے معاشی مُساوات کا اِس سے بہت عظیم ماڈل 1300 سال قبل اسلام نے عطا کیا ہے :

قراں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مُسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
جو حرفِ ’’قُل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمو دار

اِقبالؒ کا آئیڈیل؛ اسلام کا تصورِ معیشت ہے اور اقبالؒ کا اپنا علی گڑھ میں دیا گیا مشہور لیکچر ’’ملتِ بیضاء پہ ایک عمرانی نظر‘‘امت مسلمہ کے عمرانی مطالعہ کے تناظرمیں ہے- جس کا اردو ترجمہ مولانا ظفر علی خان نے بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے؛ جسےاقبال اکیڈمی نے شائع کیا ہے- بالخصوص اکنامکس کے طالب علم کو یہ ضرور پڑھنا چاہیے- اس کے علاوہ اقبال نے اسلام کے اصُولِ معیشت کو بہت زیادہ نہیں لیکن اشاروں کنایوں میں اپنے باقی لیکچرز میں بھی بیان کیا ہے-کلام اور مکاتیب میں کئی جگہ پہ اقبال سرمایہ دارانہ اور اشتراکیت کی بجائے اسلام کے متوازی نظام کو آئیڈیل بتاتے ہیں کیونکہ وہ انسان کے وجود میں بنیادی طور پہ دولت کی ہوس کو ختم کرکے قناعت اور تطہیر پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے انسان خود کو دولت کی پرورش میں اُس سطح تک نہیں لےجاتا جہاں دولت کی ہوس مٹانے کیلئے بنی نوعِ انسان کو ایک بالکل فضول قسم کی چیز سمجھا جائے کہ جہاں انسان مر رہے ہوں تو آپ کیلئے آپ کی معاشی ضروریات کے مقابلے میں وہ ظلم کی چکی میں پستے انسان کوئی معنی نہیں رکھتےہوں -

میں اس پہ مختصراً! عصرِ حاضر سے دو تین مثالیں دینا چاہوں گا کہ کشمیر میں پچھلے ستر سال سے جو کچھ ہو رہا ہے اسے ساری دنیا جانتی ہے لیکن اس مسئلہ پر انڈیا کو مغربی تجارتی بلاک کچھ نہیں کہتا، اقوام ِمتحدہ میں سے کچھ لوگ بولتے رہتے ہیں کیونکہ انسانی حقوق پہ بات کرنا ان کی ڈیوٹی ہے- اس کے علاوہ دیگر ممالک انڈیا کو کیوں کچھ نہیں کہتے؟؟؟ اس لئے کہ انڈیا کے ساتھ اُن کا معاشی مفاد (Economic Interest) ہے-کیونکہ سرمایہ دار انہ نظام ہویا اشتراکیت ہو اس میں بھی بنیاد آپ کے معاشی تعلقات کی ہے جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اگرہم انڈیا سے یہ بات کریں گےتوہماری معیشت اورتجارت ہندوستان کے ساتھ متاثر ہوگی-

اسرائیل کےساتھ بھی یہی مسئلہ ہے، اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے ساری دنیا کو ہم سے زیادہ اس کی خبر ہے، لیکن کوئی بھی اسرائیل کے ساتھ تجارتی مراسم رکھنے والا ملک، فلسطین کےمسئلےپہ بات نہیں کرتا-  کسی بھی عرب ملک سے زیادہ اور کسی بھی مسلمان ملک سے زیادہ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کے خلاف ایکشن لئے ہیں-جنوبی افریقہ وہ واحد ملک ہے جس نے اسرائیل پہ(Arms Embargo ) لگا یا ہے - ہمیں ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے لیکن باقی دنیا اس لئےخاموش ہے کہ اسرائیل میں ان کامعاشی مفاد (Economic Interest) ہے -

برما میں بھی یہی صورت حال ہے؛ میرے حواس ساتھ نہیں دیتے اس کی صورتحال کو بیان کر سکوں کیونکہ جو ویڈیوز برمی روہنگیا مسلمانوں پہ تشدد کی منظرعام پرآئی ہوئی ہیں زبان اس درندگی کو بیان کرنے سے قاصر ہے- یعنی انسانوں کے ٹکڑے کرنا ؛ واضح نظر آرہا ہے کہ وہ تڑپ رہے ہیں اور ایک ایک ٹکڑا جسم کا الگ کر رہے ہیں، یوٹیوب اور ہر جگہ پہ یہ مواد موجود ہے - چین بھی برما میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر رہا ہے ؛ میرے چائنہ میں چینی دانشوروں کے ساتھ اس پہ مباحثے ہوئے ہیں کہ اگر چین برما میں ا تنی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے تو اسے برمی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے- لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہم اس لئے بات نہیں کرتے کہ برما میں ہماری بہت بڑی انویسٹ منٹ ہے، ہمارا معاشی مفاد مجروح ہوگا جو ہم کسی صورت نہیں چاہتے - اس لئے تو حکیم الامت اس کی ترجمانی یوں کرتے ہیں کہ: (زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا! - طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی)

یعنی ہوسِ دولت تو اپنی جگہ پر موجود ہے؛ کیونکہ جس قدر معیشت روپے، پیسے، ڈالر، پونڈ اور یورو کا وقار بلند ہوتا گیا اسی قدر انسان کا وقار پست ہوتا گیا- اس لئے اقبال اسلام کے معاشی اصول کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے کہتے ہیں اسلام کا معاشی اصول دینار، درہم، روپے، سونا اور چاندی کو ترجیح نہیں دیتا بلکہ اسلام کے معاشی اصول کی اولین ترجیح انسانی حرمت و توقیر ہے - یہی نظریہ قائد اعظمؒ نے یکم جولائی1948ء کو ’’سٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ کا افتتاح کرتے ہوئے بیان کیا کہ:

’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کیلئے نہ حل ہونے والے مسائل پیدا کردیے اورہم میں سےاکثریت کی رائے میں مغرب کواس تباہی سے جو اس وقت ساری دنیا کے سرپہ مغرب ہی کی وجہ سے منڈلارہی ہے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے -[2]مغربی معاشی نظام انسانوں کے مابین عدل اور بین الاقو امی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے بلکہ گزشتہ نصف صدی میں بپاہونے والی دو عالمی جنگوں کی ذمہ داری سراسر اِسی نظام پہ عائد ہوتی ہے -دنیا ئے مغرب مشینوں کی دولت صنعتی فوائد رکھنے کے باوجود انسانی تاریخ کے بد ترین باطنی بحران سے دو چار ہے-اگر ہم نے مغرب کا معاشی تصور اور نظام اختیار کر لیا تو عوام کی پر سکون خوشحالی حاصل کرنے یعنی کہ اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہیں ملے گی‘‘-

قائد اعظم کا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے- میرے نزدیک یہ پاکستان کی معاشی پالیسی کا اصول ہے جسے قائد اعظمؒ نےواضح کیا-کیونکہ قائد اعظم ؒ نے اس کے بعد یہ کہا تھا کہ:

’’میں یہ چاہتا ہوں کہ سٹیٹ بینک مغرب کی معاشی تقلید نہ کرے بلکہ اسلام کے وہ اُصول ڈھونڈیں اور ان کو نافذ کریں تاکہ ہم مخلوق کو اس کرب سے بچا سکیں جو مغرب کے معاشی نظریات کی وجہ سے یہاں پہ جاری و ساری ہے‘‘-

علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ کا اسلام کے معاشی آئیڈیئل پہ اعتقاد بھی تھا اور اصراربھی -کیونکہ یہاں واضح ہوتا ہے کہ اقبال کا آئیڈیل نظام سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکیت نہیں بلکہ اسلامی معاشی نظام ہے جو کہ قرآن و سنت کی تعلیمات ہیں-

علامہ اقبال کی ایک مشہور ڈرامائی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ ہے جس میں شیطان کے پانچ مشیر اس کے ہمراہ بیٹھ کر دنیا بھر کی سیاست اور حالات و واقعات کو بیان کر رہے ہیں- اس میں سب سے پہلے شیطان اپنا افتتاحی بیان دیتا ہے اور پھر اس کے بعد پہلا مشیر، دوسرا مشیر، تیسرا مشیر، چوتھا مشیر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں-پانچواں مشیر مارکسسٹ انقلاب کی بات کرتا ہے کہ یہ مارکسسٹ انقلاب دنیا بھر میں پھیل گیا ہے جس کی وجہ سے ہمارا ڈوبنا طے ہے، ہم نہیں بچ سکتے-ابلیس یہ بات سن کر جلال میں آجاتا ہے اور سارے مشیروں کو چپ کروا کے اپنی لمبی چوڑی باتیں چھوڑتا ہے- اس کے بعد یہ کہتا ہے کہ تم مجھے مزدکیت سےڈراتےہو، اقبال کی زبان میں مزدکیت[3] بھی اشتراکیت کو کہتے ہیں وہ کہتا ہے کہ:

کار گاہ ِ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!
دستِ فطرت نے کِیا ہو جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو

یعنی جن گریبانوں کوفطرت نے چاک کیا ہو، کارل مارکس کی سوئی اور دھاگہ سے ان کو رفو نہیں کیا جاسکتا-

کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کُوچہ گرد
یہ پریشاں روز گار، آشفتہ مغز، آشُفتہ مُو

ابلیس کہتاہے کہ میں کارل مارکس، اشتراکیوں اور مغرب کے جمہوری نظام سے نہیں ڈرتا-مجھے خدشہ اور ڈر اس بات کا ہے کہ:

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو ا ُس اُمّت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشکِ سحرگاہی سے جو ظالم وضُو

پھر اس کے بعد کہتا ہے کہ :

جانتا ہے، جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکِیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!

جس پہ ایام،تاریخ اور تاریخ کے آنے والے واقعات کا دروازہ کھلا ہے اور جو قدرت کےان رازوں کو جانتا ہے اس بندےکو یہ معلوم ہے کہ کل ابلیسی نظام کیلئےخطرہ اشتراکیت نہیں ہوگی بلکہ اسلام ہوگا- پھر اس کے بعد کہتا ہے کہ :

جانتا ہوں مَیں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دِیں
جانتا ہوں مَیں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِبیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں
عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں

اِس کے باوجود کہ اُمّت میں کئی خرابیاں، خامیاں اور کمزوریاں موجود ہیں لیکن ابلیس کہتا ہے کہ دنیا جس طرح گلوبل ویلج بن رہی ہے، علم جس قدر اپنی شدت سے واضح ہو رہا ہے مجھے یہ خطرہ ہےکہ کہیں اسلام کی حقیقت کادنیا کو پتہ نہ چل جائے-

الحذر! آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظِ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں

’’الحذر‘‘کا مطلب گریز کرنا ہے ، بچ کے رہنا ہے خوف کھانا ہے ، کانپنا بھی ہوتاہے-بجلی کی کڑک سے جب بچہ کانپتا ہےتو اس کو بھی الحذر کہتے ہیں- شیطان کہتا ہےمیں اسلام کی حقیقت کے کھل جانے کے تصور سےہی کانپ جاتا ہوں-

موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لئے
نے کوئی فُغفور و خاقاں، نے فقیرِ رہ نشیں

اسلام غلامی کی ہرقسم اور ہرفرق کومٹا دیتاہے-یعنی اس کی نظر میں بادشاہ بھی اتنا ہی قابلِ احتساب ہے جتنا ا یک گدا-لیکن افسوس! ہمارے حکمران گھبراتے ہی اس لیے ہیں کہ ان کو احتساب کیلئے عدالتوں میں بلایا جاتا ہے- بقول اسلام کوئی غلام ہے یا آقا، کوئی بادشاہ یا فقیر جب احتساب ہو گا تو سب کا ہوگااور برابری کی بنیادپہ ہوگا-

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
مُنعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے اَمیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!

آج مغربی ادارے جو اسلامی نصاب کوختم کرنے کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک تو یہ ابلیس کا ایجنڈا ہے وجہ یہ ہے:

چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئِیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
ہے یہی بہتر الٰہیات میں الجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے

میرے دوستو! اقبال اشتراکیت اورسرمایہ داری نظام کی بجائے اسلام کےاصولِ معیشت کی بات کرتے ہیں -

اقبال 1926ء میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے- اپنے ’’لیجیسلیٹو کیرئر‘‘ میں اقبال نے جو سب سے اہم کارنامے سرانجام دیے ہیں ان میں ایک اقبال کی فلور آف دی ہاؤس پہ قرار داد ہے جس سے بڑے بڑے کانپتے ہیں-کیونکہ وہ زرعی اصلاحات اور جاگیر دارانہ تسلط کے خاتمے کی ہے- اقبالؒ اپنے خطوط میں یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ یہ زمینیں جاگیرداروں نے تاریخی طورپہ کیسےحاصل کیں ؟ خواتین و حضرات اس پر بھی تحقیق کریں - آپ کومختصراً بھی عرض کروں کہ اقبالؒ یہ کہتے ہیں :

خدا آن ملتی را سروری داد
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت
بہ آن ملت سروکاری ندارد
کہ دہقانش برای دیگران کشت

پاکستان کی معیشت کا دارو مدار زراعت پر ہے اور پاکستان میں زراعت کی ترقی نہ کرنےکی وجہ جاگیردارانہ نظام اور زمین کی غیر منصفانہ تقسیم ہے-اس لئے اقبال کہتے ہیں کہ اللہ ان قوموں کو دنیا میں سرخرو کرتا ہے جواپنی تقدیر اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں-خدا ان قوموں کو دُنیا کی حکمرانی نہیں بخشتا جس قوم کے دہقان اپنا حق حاصل کرنے کی بجائے دوسروں کے پیٹ بھرنے کے لئے اپنی زندگیاں کاشت کاری میں ختم کردیں-اسی لئے اقبال فرماتے ہیں کہ:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشئہ گندم کو جلا دو

یعنی گندم کے خوشے پہ اُسی کا حق ہے جو اُسے کاشت کرتا ہے- ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان نے بھی یہی اصلاحات لانے کی کوشش کی جس کے مقابلے میں جاگیردار اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کو اپنے حق میں بہت سارے فتوے بھی مل گئے- جس کی وجہ سے انہوں نے یہاں پہ اقبال کا تصور رائج نہیں ہونے دیا-مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے معرضِ وجود میں آ جانے کے بعد بھی زمین کی غیر منصفانہ تقسیم (یعنی جاگیر دارانہ نظام) کا برقرار رہنا اقبال کے نظریۂ پاکستان سے انکار اور غداری کے مترادف ہے-

’’زمین کا مالک اللہ ہے‘‘ اس موضوع پہ اقبال کا کلام کلیات میں کئی جگہ پھیلا ہوا ہے ، فارسی میں بھی اُردو میں بھی- بالِ جبریل میں اقبال کی ایک نظم جس کا عنوان ’’اَلاَرْضُ لِلہ‘‘، ہے- جس کا ترجمہ ہے ’’زمین اللہ کیلئے‘‘-اس نظم میں جتنے سوالات ہیں ان کا ایک ہی جواب ہے-

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ ساز گار؟
خاک یہ کس کی ہے،کس کا ہے یہ نُورِ آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشئہ گندم کی جیب؟
موسموں کو کِس نے سکھلائی ہے خُوئے انقلاب؟
دِہ خُدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں

v     مٹی کی تاریکی میں کسان بیج بوتا ہے اسے پالتا کون ہے؟ ’’اللہ‘‘-

v     دریا کی موجوں سے یہ بخارات کی صورت میں بادل کون اٹھاتا ہے؟ ’’اللہ‘‘-

v     کسان بیج بوتا ہے لیکن گندم کے پودے پہ گندم کے دانے کون اگاتا ہے؟’’اللہ‘‘-

v    یہ موسموں کی تبدیلی، رات اور دن، شبنم اور پانی، روشنی اور ہوا قدرتی طورپہ کون مہیا کرتا ہے؟’’اللہ‘‘-

v    دِہ خدایا! اے دیہات کے جاگیر دار!یہ زمین اللہ کی ہے-

اس لئے اقبال نے اس کا نام ’’اَلاَرْضُ لِلہ‘‘رکھا -

اسی نظم سے دو نظمیں پیچھے نظم ’’گدائی‘‘ہے وہ بھی اقبال کے تصور معیشت پر بڑی معنی خیز ہے - اس کے بعد ’’پیامِ مشرق‘‘ میں ’’قسمت نامہ سرمایہ دار اور جوابِ مزدور‘‘ نہایت قابلِ مطالعہ ہے-کیونکہ اس میں اقبال نے اس بات پہ بصیرت افروز بحث کی ہےکہ کس طریقے سے سرمایہ دار اور جاگیر دار کسان اور مزدورکو اپنے شکنجے میں گرفتار کرتا ہے-

گفتگو کا اختتامیہ یہ ہےکہ اقبال نے سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت؛ ان دونوں سے اتفاق نہیں کیا- اقبال کا آئیڈیل اسلام کا معاشی اصول ِ ہےجس پہ اس وقت دنیا میں بڑا کام ہورہا ہے - مَیں بھی چاہتا ہوں کہ اس پر کام ہو بلکہ اس عظیم تعلیمی و تحقیقی ادارے سے گزارش بھی کروں گا کہ ہمارا ادارہ مسلم انسٹی ٹیوٹ وہ بھی اسلام کے معاشی تصور پر کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے ؛ اگر ہم مل کر اس پہ کوئی کام کرسکیں تو ہمارے لئے اعزاز ہوگا- اقبالؒ نے زرعی اصلاحات کا جو مطالبہ کیا تھا بہت اہمیت کا حامل ہے - میرے نزدیک پاکستان تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک یہاں کےکسان کامسئلہ حل نہیں ہوتا - کسان کامسئلہ صرف دو وقت کی روٹی نہیں ہے بلکہ کسان کا اصل مسئلہ وہ زمین ہے جسے وہ کاشت کرتا ہے، وہ خوشئہ گندم ہے جسے وہ اُگاتا ہے - اس لئے اقبال نے اِسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں جو معاشی آئیڈیل اور اصول دیا ہے ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیے- اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو؛آمین!

٭٭٭


[1](یہ جومارکسسٹ آیئڈ یالوجی ہےآخر میں آپ کوایک طرح کی دہریت کی طرف لےجاتی ہے گوکہ مارکسسٹوں میں بڑے بڑے مذہبی لوگ بھی تھے لیکن اقبال نےاس سےعمومی طورپر یہ خیال لیا کہ آپ کو خارج از اسلام کردیتی ہے-)

[2](یہ وہ وقت ہے 1948ء،جب دوسری جنگِ عظیم باقاعدہ ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے اثرات ابھی تک پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں-)

[3](تاریخی حوالےسے جونظریاتِ مزدکیت ہیں ان پرتفصیلی بات پھر کبھی زندگی نے ساتھ دیا تو ہو گی، ابھی موضوع اور وقت کی مناسبت ساتھ نہیں دیتی کہ اس پر بات کی جائے-)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر