آدمیت اور احترام آدمیت (حضرت سلطان باھوؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار کا تقابلی جائزہ)

آدمیت اور احترام آدمیت (حضرت سلطان باھوؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار کا تقابلی جائزہ)

آدمیت اور احترام آدمیت (حضرت سلطان باھوؒ اور علامہ اقبالؒ کے افکار کا تقابلی جائزہ)

مصنف: صاحبزادہ میاں محمد ضیاءالدین نومبر 2014

قدرت کایہ دستورِ ازلی ہے جب بھی انسان اپنے خالق سے دور ہونے لگتا ہے تووہ ذات اپنے محبوب بندو ںکو اس دنیا میںبھیجتی ہے جو انسانیت کی رہنمائی کرتے اور اسے خالق کی طرف بلاتے ہیں-حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ اور حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی انہی ہستیوں میں سے ہیں ۔جنہیںاللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی رہنمائی کے لیے چنا- سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ1039ھ میں پیداہوئے جبکہ علامہ اقبال 1294ھ میں پیداہوئے- یہ دونوںہستیاں الگ الگ ادوار میں آئیں ، اِن کا تعلیمی و تربیّتی پسِ منظر ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا ، ان کی آڈئینس جسے یہ مخاطب کرتے ہیں وہ بھی مختلف ہے - حضرت سُلطان باھُو اسلامی ہندوستان کے بہت خوشحال دور میں آئے جب یہاں سلطنتِ مغلیّہ کو اورنگزیب نے حکومتِ اِسلامی بنا دیا تھا جبکہ اقبال کا عہد انگریز کی سیاسی ، عسکری اور معاشی و معاشرتی غلامی کا زمانہ ہے اس لئے دونوں کا اندازِ بیان اور موضوعات بھی مختلف ہیں اگر روحانی مقامات کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھی یہ ہم جیسے لوگوں کو زیب نہیں دیتا کہ ایسی عظیم المرتب شخصیات کے مراتب کا تعیُّن کریں لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اقبال جس جس راہ کے مسافر رہے حضرت سُلطان باھُو اُس راہ کے راہبرِ کامل تھے ، اقبال بُلند پایہ عارفوں میں سے ایک عارف تھے اور حضرت سُلطان صاحب کو ’’سُلطان العارفین‘‘ یعنی کُل عارفوں کے بادشاہ کا لقب عطا ہوا ہے - لیکن ان کا پیغام ایک ہی تھا-حضرت سخی سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ اوراقبال کی تعلیمات میںعلم ،معرفت ،فقر اور ایسے کئی موضوعات جابجانظر آتے ہیںلیکن حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ اور اقبال کی تعلیمات کا مطالعہ کیاجائے توپتہ چلتاہے کہ ان دونوں ہستیوں نے انسان اور انسانیت کے بارے میں بہت کچھ لکھ رکھاہے اور اہم بات یہ کہ جو پیغام آدمیت کے لیے حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ نے دیاآدمیت کے لیے اقبال کا نظریہ بھی وہی تھا-

انسان کو اللہ تعالی نے اس دنیا میں اپنی معرفت اور پہچان کے لیے بھیجاہے اس لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اپنے مقام سے آگاہی حاصل ہو کیونکہ آدمیت ہے بھی یہی کہ انسان کو اپنی حقیقت کا علم ہو اور اسے جس مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجاگیاہے وہ اپنی توجہ اسی پر ہی رکھے ۔ ظاہری طور انسان کی پیدائش مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ تعالی نے ایسے ذرائع بھی بنائے ہیں جو اس مٹی کو اکسیر بنادیتے ہیں - جس طرح انسان کے ظاہری حواسِ خمسہ ہیںجن کے ذریعے وہ سن ،بول ،سونگھ ،دیکھ اور چھُوسکتاہے اس طرح انسان کے باطنی حواسِ خمسہ اور اسے ان پر توجہ دینی چاہیے مثلاًنفس،قلب ،روح،سرِّخفی اور اخفٰی وغیرہ ۔کیونکہ انسان ظاہری طور پر بھی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتاجب تک وہ اپنے باطن کونہ سنوارے -

 نیابت الٰہی :

اللہ تعالی نے خاص انسان کو اپنے لیے پیدا فرمایا ہے اور منصب خلافت عطاء فرمایا ہے جیساکہ فرمان ہے {انی جاعل فی الارض خلیفۃ } ’’بے شک میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانا چاہتاہوں‘‘ - انسان کوچونکہ اِس زمین پر خلافت عطاء کی گئی ہے اس لیے ہر چیز پر اسکاتصرف واختیار بھی ہے - انسان کو زمین پر ظاہر ی حکمرانی بھی ملتی ہے لیکن باطنی طور پر بھی نائب ِ خداہے اور ہر چیز پر حکمران ہے -حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’یہ مراتب اِس فقیر کے جو دونوں جہانوں کاامیر وروشن ضمیر ہو اورتمام مخلوقات پر غالب امیر قدیرہوکیونکہ عارف صادق نیابتِ الٰہی کی مسندِفقر پر فائز حاکم و عالمگیر ہوتاہے ‘‘-(1)

اسی طرح اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

نائب حق درجہاںبودن خوش است

بر عناصر حکمراں  بودن خوش است

نائب حق ہمچوجانِ عالم است

ہستی اُو  ظل اسِم اعظم است

از رموزِ جزوکل  آگاہ بود

در جہاں قائم باامر اللہ بود

دنیا میں اللہ کا نائب بننا اچھی بات ہے عناصر ِپر حکمرانی کرناکتنا اچھا ہے -خدا کا نائب دنیا کی روح کی مانند ہوتاہے اس کا وجود اسِم اعظم کا سایہ ہوتا ہے وہ اس کائنات کی ہر ہر شے کے بھید جانتا ہے اور وہ دنیا میںاللہ تعالی کی طرف معمور ہوتاہے ‘‘- (2)

یعنی نیابت الٰہی بہت بڑ ا منصب ہے اور انسان کو خلیفۃ اللہ ہونے کے ناطے یہ قوت دی گئی ہے کہ وہ ہر چیز تسخیر کرکے اپنے قبضے میں لاسکے - لیکن انسان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے منصب کو نہ بھولے اور اپنے اصل مقام کوپہچانے -اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں-

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار

کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک (3)

 محرِم قلب  :

اپنے اصل مقام سے آگہی کے لیے انسان پر پہلی بات یہ فرض ہوتی ہے کہ وہ اپنی توجہ صرف اپنے دل پر رکھے کیونکہ دل میں ذات الٰہی جلوہ گر ہے ۔قرآن مجید میں فرمان ہے -

{وفی انفسکم افلا تبصرون }

’’: اور میں تمہارے اندر ہُوں کیا تم دیکھتے نہیں ‘‘(4)

اِس لیے سب سے پہلے اپنے دل کے اندر جھانکنا ضروری ہے کہ جب انسان اپنے دل کے اندر چھپے ہوئے خزائن الٰہی کو دیکھتاہے پھروہ کسی کا محتاج نہیں رہتابلکہ اسے ہر چیز عطاء ہو جاتی ہے -حدیث شریف میں آتاہے کہ اللہ تعالی فرماتاہے :

’’اے ابنِ آدمِ!تُو مجھے تلاش کر میں تمھیں مل جائوں گا اگرتُو نے مجھے پالیاتو ہر چیز کو پالیا اگر تونے مجھے کھو دیا تو ہر چیز کو کھودیا، میں ہر چیزسے زیادہ تجھے محبوب ہوں ِ‘‘- (5)

حضور سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’آدمی کو چاہئیے کہ دل کی آنکھ کھولے ظاہری آنکھ کسی کام کی نہیں عارف باللہ اولیاء اللہ دل کی آنکھ سے دیکھا کرتے ہیں ظاہری آنکھ تو بیل گدھے بھی رکھتے ہیں ‘‘-(6)

علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

مسلماں بندۂ مولا صفات است

قلبِ ِ اُوسرِّازاسرارِذات است

’’مسلماں بندہ ہے لیکن خدا کی صفات رکھتا ہے اس کا دل ذاتِ خداوندی کے بھیدوںمیں سے ایک بھید ہے-‘‘ (۷)

یعنی انسان کا دل اللہ تعالیٰ کا بھید ہے حدیثِ قدسی میں فرمان ہے -

{اَلْاِنْسَانُ سِرّیْ وَاَنَا سِرُّہ}

’’انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں ‘‘- (8)

اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی نظر دل پر رکھے اور دل کی آنکھ سے مُشاہدۂ انوار کرے کیونکہ ظاہری آنکھ کسی کام کی نہیں ہے -جو اپنے دل میں اللہ تعالٰے کے بھید کو دیکھ لیتا ہے وہ عارف باللہ بن جاتا ہے کہ جن کے دل ہر وقت ذاتِ الٰہی کی طرف متوجہ رہتے ہیں -حضرت سُلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں-

’’اِسرارِ خدا تعالٰے سے غافل دل کو دل نہیں کہتے وہ تو محض ایک مشتِ خاک ہے‘‘- (9)

اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں-

تُو می گوئی کہ دل از خاک و خون است

گرفتارِ طلسم کاف و نون است

دل ما گرچہ از سینۂ ماست

ولیکن ازجہان ما برون است

’’ تُو کہتا ہے کہ دل خاک و خون سے بنا ہوا ہے اور اس جہاں کے طلسم میں قید ہے میرا دل اگرچہ میرے سینے میں ہے لیکن اِس کی پہنچ اس جہاں سے بہت آگے ہے یہ اس جہاں سے باہر کا ہے ‘‘-(10)

یعنی دل کی حقیقت یہ نہیں کہ یہ ایک گوشت کا چھوٹا سا لوتھڑا ہے بلکہ دل تو وہ ہے کہ جس میں دونوں جہاں بھی نہ سمائیں-ایک عام آدمی جو اپنے دل پر توجہ نہیں دیتا اور اِسے ذاتِ باری تعالٰے کی طرف متوجہ نہیں کرتا تو ایسے آدمی کے دل کو دل نہیں کہتے بلکہ وہ دل جو اِسرارِ الٰہی سے واقف ہو اِسے دل کہتے ہیں-حضرت سُلطان العارفین رحمۃاللہ علیہ اپنے عارفانہ بیت میں فرماتے ہیں :

چوداں طبق دلے دے اندر جتھے عشق تمبو ونج تانے ھُو

جو دل دا محرم ہووے باھُو سوہی رب پہچانے ھُو

حضرت سلطان باھونے جو دل کے بارے میں فرمایااقبال رحمۃاللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ

سمجھا لہو کی بوند اگر تو اسے تو خیر

دل آدمی کا ہے فقط اک جذبۂ بلند (11)

 اسی طرح حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں-

’’نگاہِ حق ہمیشہ دل پر پڑی رہتی ہے اس لیے اسے دل ہی میں تلاش کر اور غیر اللہ کے ہر نقش کو دل سے مٹادے ‘‘- (12)

حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

جہانِ دل جہانِ رنگ وبو نیست

د رو پست  وبلند و کاخ و کو نیست

زمین وآسمان وچار سو نیست

دریں عالم جزاللہ ھو نیست (13)

’’دل کا جو جہان ہے وہ اس دنیاکی طرح کا نہیں ہے اس میں چھوٹے بڑے گلی کوچے نہیں ہیں بلکہ وہاںتو زمین آسمان اور زمان ومکاںکچھ بھی نہیں ہے لیکن اُس (دل )کے جہان میں ’’اللہ‘‘کے سوا کچھ نہیں ہے ‘‘

اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی نظر اپنے دل پر رکھے کیونکہ اللہ تعالی کی نظر دل پر ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ  ہے :

{ان اللّٰہ لا ینظرالی صورکم ولاینظرالی اعمالکم بل ینظرفی قلوبکم ونیاتکم }

 ’’بے شک اللہ تعالی نہ تمھاری صورتوں کو دیکھتاہے نہ تمھارے اعمال کو دیکھتاہے وہ تمھارے دلوں اور تمھاری نیتوں کو دیکھتا‘‘(14)

اس لیے جب انسان اپنے دل میں کنزِ مخفی کو دیکھ لیتا ہے تو پھر اسے کچھ نظر نہیںآتا بلکہ ہر طرف  اسے ’’اللہ ہی اللہ نظر آتاہے-

عرفان ذات  :

جب آدمی حقیقتِ قلب سے آگاہ ہو جاتا ہے تو پھر اسے ہر طرف ذات حق تعالی کے جلوے نظر آتے ہیںجس طرح حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں -

’’الٰہی !تُو اپنے اس مشتاق پر جلوہ نمائی فرما تاکہ میر انفس فانی ختم ہوجائے اور میں تیری ذات باقی کو پالوں‘‘- (15)

 علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں -

لشکر پیدا کن ازسلطان عشق

جلوہ گر شوبرسر فاران عشق

تاخدائے کعبہ بنو ازد ترا

شرح انی جاعل ساذر ترا

’’عشق کے غلبے سے ایک فوج تیار کر عشق کے فاران کی چوٹی پر جلوہ گرہو جا تاکہ کعبہ کا خداوند تجھ پر نوازش کرے اور تجھے  انی جاعل (میں زمین پر اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں )کی تفسیر بنادے ‘‘-  (16)

انسان چونکہ خلافت الہیہ کا حامل ہے اس لیے جب وہ اپنا لگائو اللہ تعالٰی کی طرف لگاتا ہے تو وہ ذات اپنی طرف آنے کے تمام راستے کھول دیتی ہے -جو آدمی عرفانِ ذات کا مشتاق ہواس کے اندر عشق الٰہی ہو تو اللہ تعالی کی ذات اس پر انوار وتجلیات کی نوازش کرتی ہے جس سے اس کے نفس کی تمام خواہشات ختم ہو جاتی ہیں اور وہ صحیح معنوں میں نائب حق کہلاتاہے-حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ اپنے عارفانہ انداز میں فرماتے ہیں:

’’خدا جب اپنے فضل وکرم سے تجھے اپنا بندہ قرار دیتا ہے تو تیرامعصیت وگناہ میں مبتلا ہونا سراسر ناانصافی ہے خداتو ہر وقت تیرے ساتھ ہے لیکن تجھے چشم بیناکی ضرورت ہے کہ چشم بینا ہی معرفت حق کے قابل ہوتی ہے ۔دنیامردار کے طالب مردہ دل لوگوں کو بھلا کیا معلوم کہ اہل دیدار خودکوفراموش کرکے ہر وقت غرقِ دیدار رہتے ہیں‘‘- (17)

اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی آدمی کویہی نصیحت فرماتے ہیں کہ

توہم از بارفرائض سرمتاب

برخوری ارعندئہ حسن المتاب

’’اے انسان !تو اِن فرضوں کے بوجھ سے سر تابی نہ کر ،منہ نہ موڑ،جوخدانے تیرے ذمے لگائے ہیں تاکہ تو ’’عندہ حسن المتاب ‘‘کاپھل پائے اس طرح تو اس بہترین ٹھکانے پر جائے گا جو خدا کے پاس ہے ‘‘- (18)

جو آدمی اپنے آپ کو نافرمانی کی راہ سے ہٹاکر سیدھے راستے پر لے آتاہے تو اسے دیدار الٰہی کے علاوہ اور کہیںبھی راحت وسکون میسر نہیں آتا- اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

سوزوگدازِزندگی لذت جستجوتو

راہ چو مارمی گزر گرنہ روم لبوے تو (19)

’’اس زندگی میں حوادث وگداز تیری تلاش کے باعث ہے اگر میں تیر ی طرف سفر اختیار نہ کروں تو راستہ مجھے سانپ کی طرح ڈستاہے ‘‘-

حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ ذات حق کو پانے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’دل کی آنکھ کھول اور جی بھر کر اِس کا دیدار کر اللہ کے سوا تجھے جو کچھ دکھائی دیتاہے وہ محض بت کدہ ہے ‘‘- (20)

اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی یہی بات کرتے ہوے فرماتے ہیں :

مرد حق افسون ایں دیر کہن

ازدوحرف رب الاعلی شکن

در رضائے حق فناشو چوںسلف

گوہر خود را بروں آرا ز صدف

’’اے مردحق !تو ’’ سبحان رب الاعلی‘‘ کے دو حرفوںسے پرانے بتکدہ کا جادوتوڑدے ۔تواپنے آباء کی طرح اللہ کی رضامیں فناہوجا اور اپنے گوہر کو سیپی سے باہر نکال لا ‘‘- (21)

انسان کو بہت بلند مقام عطا کیاگیاہے اس لیے چاہیے کہ وہ اپنے مقام کی قدر کرتے ہوئے اپنے اندرسے اس ذات کے جلووں کو ضرور دیکھے  حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’البتہ اس راہ میں صرف انسان ہی چل سکتاہے اگر انسان چشم بصیرت کھول لے تو ہر وقت ذات حق تعالی کے مشاہدے میں غرق رہتاہے- ‘‘(22)

انسان ہی میںیہ طاقت رکھی گئی ہے کہ وہ بصیرتِ قلب کے ذریعے دونوں جہانوںکواپنی مٹھی میں کر لے اور معرفتِ حق میں ہر وقت محو رہے- اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

خنک انسان کہ جانش بیقراراست

سوار راہوار ِ روزگار است

قبائے زندگی در قامتش راست

کہ او نو آفرین وتازہ کار است

’’آدمی کے کیا کہنے کہ جس کی جان کو کہیں قرار نہیں اور وہ زمانے کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہے زندگی کی قباء اسی کے بدن پر ہی موزوں ہے ‘‘- (23)

اسی طرح حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’فقیر عین بین ہوتاہے وہ چشم بصیرت سے عین ذات کو دیکھتاہے جہاں آسمان ہے نہ زمین‘‘ - (24)

ایک اورجگہ پر فرماتے ہیں:

’’پس آدمی وہ ہے جو مرتبہ آدم کا مالک ہو ورنہ محض حیوان ناطق ہے کہ آدمی تو اللہ اور رسول ﷺ کامقرب ولذات دنیوی وشیطانی ونفسانی سے دور ہوتاہے ‘‘ - (25)

علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

زندہ مرد از غیر حق داردفراغ

ازخودی اندروجودِ اُوچراغ

’’خداکا بندہ اللہ کے سوا باقی تمام کائنات سے خودکو دور رکھتاہے اور اس کے وجود کے اندر خودی کاچراغ روشن ہوتاہے ــ‘‘- (26)

یعنی آدمی وہ ہے جو اپنے آپ کو لذات ِدنیامیں مبتلانہ کرے بلکہ اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہے جس طرح حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب ’’اسرارِالقادری ‘‘میںحدیث قدسی نقل فرماتے ہیں:

’’اے میرے !میری نعمتںکھااورمجھ سے انس رکھ کہ میں تیرے لیے ہر غیر ماسوٰی اللہ سے بہترہوں‘‘-

انسان جب اپنے اندر کی کائنات کو دیکھتا ہے اور اُس میں انوار کی برساتِ نو بہ نو کو دیکھتاہے تو پھروہ لایحتاج ہو جاتاہے اوراسے دنیاکی کسی چیز کی طلب نہیں رہتی ۔ حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’جو آدمی ذکر حق تعالی میں غرق ہوکردیوانہ ہو جاتاہے عر ش وکرسی اور طبقات اِس کے زیر قدم آجاتے ہیں ‘‘- (27)

اسی طرح آپ رحمۃاللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:

’’جان لے کہ آدمی کے وجود میں اکتالیس خزانے ہیں جن میںسے اکیس خزانے ظاہرکے ہیں اور بیس خزانے باطن کے ہیں ۔اگر ان خزائن سے گنج جمعیت حاصل کر لی جائے توبندہ لایحتاج ہوکر انسان کامل بن جاتاہے ورنہ بے جمعیت وحیران وپریشان رہتاہے ‘‘- (28)

اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

فروغ خاکیاںازنوریاں افزوںشود روزے

زمین ازکوکب تقدیر ماگردوںشود د روزے

یکی در معنیٔ آدم نگر !ازمن چہ می پرسی

ہنوزازطبعیت می خلد موزوں شود د روزے

’’ایک دن ایساآئے گا کہ خاک کے بنے ہوئے کی روشنی فرشتوںسے بڑھ جائے گی اور یہ زمیں ہماری قسمت کے ستارے سے آسمان بن جائے گی ۔ایک دفعہ تو ’’آدم‘‘ کے معنی پر غور تو کر مجھ سے کیا پوچھتا ہے یہ معنی ابھی تک اس کی طبعیت میں ہلچل مچارہے ہیں اور ایک دن سامنے آجائیںگے ‘‘- (29)

حضرت سلطان باھُو رحمۃاللہ علیہ آدمی کی قوت تسخیر کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’سن اے ناقص وخام !عارف بااللہ مرشدکامل طالب کو رنج وریاضت میںڈالے بغیر ایک ہی ساعت میں ابتداء سے انتہاتک معرفت الااللہ،مجلس محمدی ﷺ کی حضوری اور آرام وجمعیت عطاکرتاہے کیونکہ ایسے صاحب ِگنج مرشدکوضرورت ہی کیاہے کہ وہ منت ورنج کو بروے کار لاتاپھرے ؟وہ ایک ہی ہفتے کے اندر اپنے طالبوں کوان کے ہر ایک ظاہری وباطنی مطالب تک پہنچاکر لایحتاج کر دیتاہے ‘‘- (30)

حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

عقل ِآدم بر جہاںشبخوں زند

عشق اوبر لامکاںشبخوں زند

راہ داں اندیشۂ او بے دلیل

چشم اوبیدار تر از جبرائیل

خاک و در پر واز مانند ملک

یک رباط کُہنہ در رایش فلک

’’آدم کی عقل جہاںپر شب خون مارے گی ،اسکاعشق لامکان پر شنجوںمارے گا ،اسکی عقل جہان کو اور اسکا عشق آسمان کو مسخر کرے گااس کی فکر کسی راہبر کے بغیر بھی صحیح راستہ جاننے والی ہوگی ۔اور اسکی آنکھ جبرائیل سے بھی زیادہ بیدار ہوگی انسان ہے تو مٹی سے بناہوالیکن پرواز میں فرشتے کی مانند ہے آسمان تو اسکے راستے کی پرانی سرائے کی مانند ہے ‘‘- (31)

احترام آدمیت  :

آدمی کو اشرف المخلوقات بنایاگیاہے اور اسے تمام مخلوقات پر فضلیت دی گئی ہے اسلیئے آدمی کو چاہیے کہ وہ دوسرے آدمی کا احترام کرے - حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ احترام آدمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ-

’’کامل فقیر وہ ہے جو ظاہر وباطن میں صاحب گنج،صاحب تصور ،صاحب تصرف اور قوت تمام کا مالک ہو لیکن خلق خدا کو نہ ستائے بلکہ خلق کا بوجھ اور ملامت کو برداشت کرے ‘‘ - (32)

 اقبال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

برتر ازگردوں مقام آدم است

اصل تہذیب احترام آدم است

ـ’’آدم کا مقام آسمان سے بھی بلند تر ہے تہذیب کی اصل آدم کا احترام ہے ‘‘- (33)

قرآن مجید میں فرمان ہے :

{ولقدکرمنابنی آدم}

(ترجمہ )’’تحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت والا بنایا‘‘- (34)

انسان سب سے افضل وبرتر ہے لیکن وہ جب تک خلق خدا پر رحم نہیں کرے گا اس وقت تک وہ مکمل نہیں ہو سکتا۔حدیث نبوی ﷺہے :

’’بیشک بندہ روزے اور نماز کی کثرت سے جنت میں داخل نہ ہوگاوہ ان چار فضائل کی بدولت جنت میں داخل ہوگا (1)ہاتھو ں کی سخاوت (2)دل کی اصلاح(3)احکام الٰہی کی تعظیم (4)خلق خدا پر شفقت ‘‘- (35)

حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :

’’مومن کی دو علامات ہیں (1)دوسروں کی کوتاہیوں کو معاف کردیتاہے-(2)اپنے وجود کوغصے سے پاک رکھتاہے ‘‘-(36)

اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں:

یہی مقصودِ فطرت ہے یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری ، محبت کی فراوانی (37)

آدمیت سے محبت کی تلقین کرتے ہوئے حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

جے کوئی سٹے گودڑ کوڑا وانگ اروڑی سہئے ھُو

جے کوئی کڈھے گالی مندے اس نوں جی جی کہئے ھُو

اقبال رحمۃاللہ علیہ بھی یہی فرماتے ہیں:

عفووعدل وبذل واحسانش عظیم

ہم بغیر اندر مزاج ِ او کریم

ـ’’عفوودرگزر عدل وانصاف اور سخاوت و احسان میں آدمی کا درجہ بہت اونچا ہے بلکہ غصے کی حالت میں بھی اسکے مزاج پر لطف وکرم غالب رہتاہے ‘‘-  (38)

حدیثِ پاک :

حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص ؓسے روایت ہے کہ حضور ہمیں خطبہ دے رہے تھے ایک شخص کھڑاہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ ﷺ!کونساعمل اسلام میںسب سے اچھاہے ؟آپ نے جواباًارشاد فرمایا :(اسلام کا سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ )مسلمانوں کو تیر ی زبان اور ہاتھ سے کوئی تکلیف نہ پہنچے (39)

خُلقِ محمدی  ﷺ:

حضور علیہ الصلوۃوالسلام انسان کامل ہیںجنہیں اللہ تعالی نے تمام عالم کی رہنمائی کے لیے بھیجاتھا اس لیے اگر کوئی آدمی چاہتا ہے کہ بلند مقام حاصل کرے تواسے چاہیے کہ حضور نبی ﷺکے نقش پا پر چلے - حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ۔

خلق باخُلق است بہ خالق تمام

نیک خصلت ہمچونبوی والسلام (40)

’’خلقِ خُدا کے ساتھ اچھے اخلاق سے معیتِ خالق حاصل ہوتی ہے اسی لیے تو حضور ﷺ کی طرح نیک خصلت ہوجاکہ اسی میں سلامتی ہے ‘‘-

حضور نبی کریم ﷺخود بھی اخلاق کریمہ کے مالک تھے اور لوگوں کوبھی آپ نے اسکی تاکید فرمائی ۔ حضور سلطان العارفین رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں -

’’صاحب تصور جو نہی حضور ر علیہ الصلوۃوالسلام کا ہاتھ پکڑتاہے اسکی چشم دل نور معرفت سے روشن ہوجاتی ہے اور وہ لائق ارشاد بن جاتاہے اور پھر حضور اس سے فرماتے ہیں کہ اب تم خلق خدا کی امداد ورہنمائی کیاکرو‘‘- (41)

علامہ اقبال فرماتے ہیں :

درشبستانِِِِِِ حراخلوت گزید

قوم و آئین و حکومت آفرید

ماندشبیہاچشم اُو محرومِ نوم

تابہ تختِ خسروی خوابید قوم

حضور علیہ الصلوۃوالسلام نے غارحراکے شبتان میں خلوت گری اختیار کی اس طرح ایک قوم ایک آئین اور حکومت دنیا کو دی ۔حضور ﷺ کی مبارک آنکھیں کئی کئی راتیں نیند سے محروم رہیں تب کہیں جاکر قوم شام کے تخت پر آرام سے سوئی ‘‘-

اگرہم اپنے اخلاق وکردار کو حضورﷺ کے اخلاق وکردار کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں تو ہمارامعاشرہ جن تاریکیوں کی طرف جارہاہے ان سے نکل سکے گااور انسانیت کو اسکا مقام مل جائے گا-

خُلاصہ:

اگر آدمیت کے بارے میں حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ علیہ اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی تعلیمات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات تو روز ِروشن کی طرح عیان ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو خاص اپنی پہچان کے لیے پیدا فرمایا-

انسا ن خلیفہ اللہ ہے اس لیے اس کا حق بنتا ہے کہ وہ خلافت کی ذمہ داری کو صحیح طرح سے نبھائے اور ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کو بھی پاک کرے-

سب سے پہلے آدمی کو اپنے دل پر توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی ذات کے پوشیدہ جلووں کو دیکھے اور اسے معرفت الٰہی حاصل ہو جائے لیکن وہ جتنے بھی بلند مرتبے پر پہنچ جائے اُسے چاہیے کہ اپنے اخلاق وعادات کو سنوارے اور خلق خدا کا احترام کرے کیونکہ آدمی جب اپنی منزل پالے تو زمین وآسمان اس کے قدموں تلے آجاتے ہیں -اس مقام پر پہنچ کر حضرت سلطان باھُورحمۃاللہ لر حمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

ازعرش بالاجاہ من

 شد وحدت اندر راہ من

اے بشنوی دل خواہ من

 در وحدتش ہم خانہ ام

در عشق او پروانہ ام

ازجان خود بیگانہ ام

’’بالائے عرش میری شان وشوکت کے ڈھنکے بجتے ہیں سُن میرے یار !میری بات غور سے سُن!وحدتِ حق میرا گھر ہے میں اُس کے عشق کا پروانہ ہُوںاپنی جان سے بیگانہ ہوں‘‘- (۴۳)

اقبا ل ر حمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے (۴۴)

آدمی جب سے اس دنیا میں آیا ہے وہ رنج و الم اور مصیبت کا شکار رہا ہے اگر اب بھی وہ اپنی منزل کو پانے کی کوشش کرے تو اسے ضرور اپنی منزل حاصل ہو جائے گی-

آدم کو ثبات کی طلب ہے

دستورِ حیات کی طلب ہے

_________________________________________________________________________________________________________

حوالہ جات :

(1امیرالکونین ص301)       (2اسرارِ خودی )    (3)ارمغانِ حجاز اُردو)     (4)(پارہ 26۔ق۔16) (5)(تفسیر ابنِ کثیر۔جلد دوم،ص 59)

 (6) (کلیدالتوحیدکلاں59)       (7)(ارمغانِ حجاز)(فارسی)      (8)( عقل ِ بیدار ص 219)         (9)(کلیدالتوحید کلاں ص 113)        

(10) (ارمغانِ حجاز فارسی )      (11)ارمغانِ حجاز)(اُردو )     (12)(کلیدالتوحید کلاں ص 565)     (13)ارمغانِ حجاز)(فارسی ) 

 (14)(عین الفقر ۔ ص 54 )       (۱۵- اسرار القادری ص ۹۵)  (۱۶ - اسرارِ خودی )   (۱۷- عین الفقر ص ۲۴۵)     (18)  (اسرارِ خودی )             (19)(زبورِعجم ) (21)(پس چہ باید کرداے اقوام ِمشرق )    (22)(عین الفقر ص76)    (23)(پیامِ مشرق)     (24)(امیرالکونین ص ۔419)    (25)(عین الفقر ص۔145)  (26)( مسافر( مثنوی)   (27)(شمس العارفین ص71)          (28)(اسرار القادری ۔ص 169)    (29) (زبورِعجم ) (30کلیدالتوحیدکلاں ص421)         (31)(جاوید نامہ )   (32)(کلیدالتوحیدکلاں ص459)      (33)(جاوید نامہ)   (۳۴- بنی اسرائیل ۷۰)  (۳۵- کلید التوحید ص ۱۲۱)  (۳۶- ایضاً ص ۴۶۵)  (۳۷- بانگِ درا)   (۳۸- رموزِ بیخودی)  (۳۹- المستدرک للحاکم کتاب الایمان ج اوّل)    (۴۰- امیر الکونین ص ۳۴۷) (۴۱- کلید التوحید کلاں ص ۸۵)    (۴۲- اسرارِ خودی)     (۴۳- عین الفقر )    (۴۴- بالِ جبریل)

٭٭٭٭

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر