فکرِ انسانی کے ارتقاء اور اُس کی تربیت کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہےکہ ہر دور میں ادب اور خاص طور پر شاعری نے انسانی فکری تربیت اور ذہن انسانی کے ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کیا ہے -فکر اور عمل دونوں لازم ملزوم ہیں-فکرعمل پر مقدم ہے - دنیا کے جتنے دماغ تھے یا ہیں اُن کے پاس فکر اور سوچ ہے کسی بھی شاعر کے پاس اُس کا کل اثاثہ اُس کی فکر ہوتی ہے - اگر فکر کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے تو وہ مجرد خیال بن کر رہ جاتا ہے اور اسی طرح اگر عمل کی پشت پر فکر نہ ہو تو ایسا عمل دیوانگی کہلاتا ہے- جب انفرادی فکر اجتماعی فکر کا روپ دھار لیتی ہے اور اجتماعی عمل بھی اُس فکر کے مطابق ہوتا ہے تو اقوام کی تقدیر تبدیل ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا-
علامہ محمد اقبالؒ اردو اور فارسی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں- دونوں زبانوں میں بے شمار شاعر گزرے ہیں شاید جن کی حتمی تعداد کا ہمیں علم بھی نہ ہو مگر جو مقام و مرتبہ علامہ محمد اقبالؒ کو حاصل ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے-
اس وقت پوری دنیا میں تین مسلمان مفکرین کو سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے جو ابنِ عربی، مولانا رومی اور علامہ محمد اقبال ہیں-
فکرِ اقبال بہت وسیع ہے- علامہ محمد اقبال نے مشرق و مغرب کے علوم کا گہرا مطالعہ کیا-آپ نے قرآن، اسلام، اسلامی تاریخ ، فقہ اور حدیث کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ عربی ادب، فارسی ادب، انگریزی ادب، مشرقی، مغربی فلسفہ، قانون، سیاسیاتِ عالم، عالمی تاریخ اور دیگر کئی علوم کا عمیق مطالعہ کیا اور اُس مطالعہ کی روشنی میں فکرِ انسانی کی تربیت کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا-
فکرِ اقبال کا ماخذ کیا ہے؟
اس کا سیدھا سادہ جواب ہے فکرِ اقبال کا ماخذ قرآن پاک ہے-
کئی محققین نے علامہ اقبال کی ابتدائی زندگی کا ایک واقعہ بیان کیا ہے اور یہی واقعہ فکرِ اقبال کی اساس ہے- علامہ محمد اقبال نے ذکر کیا ہے کہ جب میں سیالکوٹ میں پڑھتا تھا تو صبح اُٹھ کر روزانہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا تھا والد مرحوم اپنے اوراد و وظائف سے فارغ ہو کر آتے اور مجھے دیکھ کر گزر جاتے ایک دن صبح کو میرے پاس سے گزرے تو مسکرا کر فرمایا:’’کبھی فرصت ملی تو میں تم کو ایک بات بتاؤں گا‘‘-کافی وقت گزرنے کے بعد ایک دن حسب ِ دستور مَیں قرآن پاک کی تلاوت کررہاتھاتو وہ میرے پاس آئے اور فرمایا :
’’جب تم قرآن پڑھو تویہ سمجھو کےقرآن تم پر اُتر رہا ہے‘‘-
یعنی اللہ تعالیٰ خود تم سے ہم کلام ہےاس واقعہ کو اقبال نے یوں الفاظ کا روپ دیا-
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب |
شیخ نور محمد کی علامہ محمد اقبالؒ کو یہ وصیت وہ تخم تھا جو اقبال کے دل میں بویا گیا اورجس کی تن آور اور پھلوں سے لدی ہوئی شاخیں تمام دنیا میں اُن کے کلام کی شکل میں پھیلی ہوئی ہیں-
علی بخش راوی لکھتے ہیں کہ جب علامہ محمد اقبال تلاوت کلام پاک سے فارغ ہوتے تھے تو میں اُس قرآن پاک کو دھوپ میں خشک ہونے کے لیے چھوڑ دیتا تھا کیونکہ اوراقِ قرآن مجید حضرت اقبال کے آنسوؤں سے تر ہوجاتے تھے- یہ مفہوم ہے دل پہ نزول کتاب کا، جس کا عملی اظہار اُنہوں نے اپنی زندگی میں کیا- اقبال نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے - میں تو ان اشعار کو پڑھ کر لرزجاتا ہوں - ایسی بات کہنا آسان نہیں ہے فرماتے ہیں:
گر دلم آئینۂ بے جوہر استؔ |
’’اگر میرے دل کا آئینہ جوہر کے بغیر ہے اگر میرے اشعارمیں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے‘‘-
پردہ ناموسِ فکرم چاک کن |
’’(اگر میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور کہہ رہا ہوں) تو آپ (ﷺ) میرے فکر کے شرف کا پردہ چاک کر دیجیے اور خیابان (دنیا) کو میرے کانٹے سے پاک کر دیجئے‘‘-
خشک گرداں بادہ در انگورِ من |
’’میرے انگور کے اندر جو شراب ہے اسے خشک کر دیجئے میری کافوری شراب کے اندر زہر ڈال دیجئے‘‘-
روز محشر خوار و رسوا کن مرا |
’’مجھے روزِ محشر خوار و رسوا کیجئے یعنی اپنے بوسۂ پا سے محروم رکھیئے‘‘-
قرآن پاک فکر ِ اقبال کی بنیادی اساس ہے اور اس فکر کا سرچشمہ ہے - جو بھی شخص اقبال کو پڑھے گا وہ لازمی طورپر قرآن پاک کی طرف رجوع کرے گا- گویا ہم اُس وقت تک فکر اقبال کا حقیقی ادراک نہیں کرسکتے جب تک ہم کلام اللہ کو نہیں سمجھیں گے- ہمارے کردار میں جدت اور افکار میں ندرت تب پیدا ہوگی جب ہم قرآن میں غوطہ زن ہوں گے -
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان |
علامہ محمد اقبال ؒ نےساری زندگی قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے میں گزاری- اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ قرآن ِ حکیم ہے- فکرِ اقبال میں قرآن مجید سے نور ہدایت حاصل کرنے کا درس واضح طورپر موجود ہے-علامہ اقبال اکبر الہ آبادی کو ایک خط میں تحریر کرتے ہیں-
’’واعظِ قرآن بننے کی اہلیت تو مجھ میں نہیں ہے- ہاں! اس مطالعے سے اپنا اطمینانِ خاطر روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے‘‘-
علامہ محمد اقبال ؒ بچپن ہی سے بلند آواز سے قرآن پاک پڑھنے کے عادی تھے- آخری عمر میں علامہ محمد اقبال کی آواز بیٹھ گئی تھی اور بینا ئی بھی کمزور ہوگئی تھی-آواز بیٹھ جانے کا اُنھیں بہت زیادہ افسوس تھا کہ وہ قرآن پاک باآواز بلندنہیں پڑھ سکتے تھے- بیماری کے دنوں میں بھی اگر کوئی خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا تو بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے-
مرزا جلال الدین لکھتے ہیں:
’’مطالب ِ قرآنی پر ہمیشہ اُن کی نظر رہتی تھی- جب وہ کلام پاک کو پڑھتے تو اُس کے ایک ایک لفظ پر غور کرتے بلکہ نماز کے دوران جب بہ آواز بلند پڑھتے تو وہ آیات ِ قرآنی پر فکر کرتے اور اُن سے متاثر ہوکر رو پڑتے- ڈاکٹر صاحب کی آواز میں ایک خاص کشش تھی جب وہ قرآن پاک بہ آواز بلند پڑھتے تو سننے والے کا دل پگھل جاتا ‘‘-
زندگی کے آخری سالوں میں اقبال کی یہ خواہش تھی کہ وہ قرآن پاک کی شرح لکھیں اور مطالبِ قرآن کو ایک نئے انداز اور جدید علمی اور فکری اسلوب میں پیش کریں-اگرچہ اس کام کےلیے انہوں نے کچھ مواد بھی عہدِ حاضر اور قرآن کریم کے حوالے سے جمع کیا مگر اُن کی زندگی نے وفا نہ کی اور اُن کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا-
ایک دفعہ ایک نئے ملاقاتی علامہ محمد اقبال سے ملنے کے لیے اُن کے گھر تشریف لائے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہی - پھر اُس ملاقاتی نے علامہ اقبال سے سوال کیا کہ :
’’آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں اُن میں سے بلندپایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کونسی گزری ہے-علامہ اقبال اپنی کرسی سے اُٹھے، گھر کے اندر داخل ہوئے- واپس آئے تو اُن کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی - اُس کتاب کو اُنہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا قرآن مجید‘‘-
قرآن مجید فکرِ اقبال کی بنیادی اساس ہے اور اس فکر کی دوسری بنیاد حبِ رسول (ﷺ) ہے- یہ دونوں ایسے موضوعات ہیں جن پر پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں- علامہ محمد اقبال کی پوری زندگی عشقِ رسول(ﷺ) میں ڈوبی ہوئی تھی-
جاوید اقبال لکھتے ہیں:
’’میں نے اماں جان کی موت پر بھی اُنھیں آنسو بہاتے نہ دیکھا تھا مگر قرآن کریم سنتے وقت یا رسول پاک (ﷺ) کا اسم مبارک آپ کی نوک زبان پر آتے ہی اُن کی آنکھیں تر ہوجاتی تھیں‘‘-
جب کوئی حاجی سفرِ حج سے واپس آتا تو علامہ اقبال اس سے بغل گیر ہوکر بچوں کی طرح زار وقطار رونے لگتے اور اکثر اپنا یہ شعر پڑھتے :
اے کہ دادی گرد را سوزِ عرب |
’’اے کہ تونے گرد کو بھی سوزِ عرب عطاکیا تو اپنے غلام کو اپنے دربار میں طلب فرما ‘‘-
علامہ محمد اقبال کی بہن زینب بی بی بیان کرتی ہیں:
’’ایک دفعہ علامہ محمد اقبالؒ مسکراتے ہوئےزنانہ میں داخل ہوئے اُنہوں نے بتا یا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور مجھ سے پوچھا کہ آپ حکیم الامت کیسے بن گئے-میں پہلے تو اُسے ٹالتا رہا لیکن جب وہ بہت ضد کرنے لگا تو میں نے اُسے حکیم الامت بننے کا نسخہ بتادیا میں نے اُسے بتایا کہ میں نے اپنی زندگی میں ایک کروڑ دفعہ درود شریف پڑھا تو میرے ذہن کے دروازے کھل گے- یہ ایک راز تھا جو میں نے غلطی سے اُس کے سامنے فاش کر دیا‘‘-
اقبال کی زندگی اس طرح کے ایسے اور عشق ِ رسول (ﷺ) کے واقعات سے بھری پڑی ہے-
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھیں، سمجھیں اور اُس پر عمل کریں ہماری فلاح صرف اور صرف قرآنی تعلیمات میں مضمر ہے-جب ہم قرآنی فکر کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گے تو لازمی طور پر فکر اقبال کی طرف ہم رجوع کریں گے اور جب عملی طور پر فکرِ اقبال ہماری زندگی کا حصہ بنے گی تو ہماری ذہنی اور فکری زندگی میں انقلاب آسکتا ہے-
٭٭٭