علامہ اقبالؒ ایک ماہر فلسفی،مفکر، بہترین سیاسی بصیرت رکھنے والے اور اوجِ کمال کے شاعر تھے- آپؒ کا تمام تر شعری سرمایہ فارسی اور اُردو زبان میں ہے اور ان دونوں زبانوں میں ان کے شعری مجموعے الگ الگ شائع ہوتے رہے ہیں لیکن علامہ اقبالؒ خود اپنے فارسی اشعار میں فرماتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ میں نے دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے لیکن اُردو زبان میں ابھی وہاں نہیں ہے کہ وہ فارسی زبان کی شیرینی اور وسعت کا مقابلہ کر سکے- محمد جان شکوری بخارائی کی کتاب ’’خراسان است اینجا‘‘ پر تقریظ میں معروف تاجک شاعر شیر علی لکھتے ہیں-
’’علامہ اقبالؒ کے ایک ہم عصر دانشمند نے ان سے کہا آپ کے اشعار ہمارے لیے زندگی بخش و آزادی بخش ہیں- آپ ہمارے رہنما ہیں ہم فارسی نہیں جانتے آپ اُردو میں شعر کہیے اقبال نے انگریزی میں یوں جواب دیا یہ اشعار مجھ پر فارسی زبان میں الہام ہوتے ہیں میری رُوح کی زبان فارسی ہے‘‘-
علامہ اقبالؒ کا شعری مجموعہ ’’کلیاتِ اقبال‘‘ کے نام سے موسوم ہے- جس میں آپؒ کی اردو و فار سی دونوں زبانوں میں شاعری موجود ہے-
فارسی شاعری:
’’اسرار خودی (1915ء)، رموز بےخودی (1917ء)، پیامِ مشرق (1923ء)، زبور عجم (1927ء)، جاوید نامہ (1932ء)، پس چہ باید کرد اے اقوام شرق (1936ء)، ارمغان حجاز فارسی(1938ء)‘‘-
اردو شاعری:
’’بانگ درا (1924ء)، بال جبریل (1935ء)، ضرب کلیم (1936)، ارمغان حجاز اردو (1938)‘‘-
اقبال کی شعری کتاب ’جاوید نامہ‘ کی اہمیت و عظمت:
جاوید نامہ علامہ اقبالؒ کی فارسی شاعری کی وہ کتاب ہے جو انہوں نے مثنوی کی شکل میں لکھی جس میں تقریباً 2000 اشعار ہیں اور یہ 1932ء میں شائع ہوئی- اس کتاب کا شمار علامہ صاحب کی بہترین کتب میں ہوتا ہے اور اسے وہ اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے- یہ کتاب دراصل علامہ اقبالؒ کا خیالی سفرنامہ ہے جس میں ان کے راہبر مولانا رومؒ انہیں مختلف سیاروں کی سیر کرواتے ہیں، جہاں علامہ اقبالؒ تاریخ کی کئی نامور ہستیوں کی ارواح سے ملاقات کرتے ہیں- اس مثنوی میں قِسم قِسم کے علمی و فکری، دینی و سیاسی اور اجتماعی حقائق کو پیش کیا گیا ہے-اسی بات کے پیش نظر علامہ اقبالؒ کو بجا طور پر اپنی اس مثنوی کی بے مثل حیثیت کا احساس تھا- چنانچہ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک میرا علم ہے کسی زبان میں اس قسم کی کتاب اس سے پہلے نہیں لکھی گئی‘‘-
اس بات کو اپنے ایک شعر میں یوں کہا:
آنچہ گفتم از جہانے دیگر است |
’’میں نے جو کچھ کہا ہے وہ ایک اور جہان کی بات ہے- اس کتاب کا تعلق ایک اور آسمان سے ہے‘‘-
ایرانی شاعر کاظم رجوی نے علامہ اقبالؒ کی اس کتاب کی تعریف اس انداز میں کی:
’’یوں تو حضرت علامہ کی تمام تصانیف نقوش دوام کا حکم رکھتی ہیں مگر یہ کتاب سب سے ممتاز ہے- یہ وہ تصنیف ہے جس کی تکمیل پر مصنف نے اپنے دل و دماغ کے نچڑ جانے کا ذکر کیا- اس افلاکی ڈرامائی نظم کو لکھنے سے قبل مفکر شاعر نے اس نہج پر لکھی جانے والی تمام دستیاب کتابوں کا مطالعہ کیا کیونکہ اس کتاب کا ایک حصہ حقائق معراج کیلیے مخصوص کیا گیا ہے-حضرت علامہ کا یہ تخیلی سفر فارسی کی نادر اور منفرد کتاب ہے‘‘-[2]
پاکستان کے عظیم فارسی شناس جناب ڈاکٹر عبد الشکور احسن اس کتاب کے متعلق فرماتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ اس میں حقیقت و تخیل کو جس انداز میں ہم آہنگ کیا گیا ہے اور اس میں افکار کے عمق، تخیل کی توانائی و فسوں کاری اور قوتِ بیانیہ کے سحر و اعجاز کے ساتھ ساتھ جرأتِ اظہار کا جو انداز ملتا ہے، اس نے علامہ کے اس شاہکار کو یکتائے روزگار ادبی اور فکری تخلیق بنا دیا ہے- علامہ کی آرزو تھی کہ اس کتاب کو بہ طریق احسن ترجمہ کیا جائے اور اگر ہوسکے تو اس کے مطالب کو مصوّر بھی کیا جائے انہیں یقین تھا کہ یہ کوشش مترجم اور مصوّر کی شہرت کا باعث ہوگی‘‘ -[3]
ڈاکٹر غلام محی الدین صوفی نے اقبال کو ایک خط میں بتایا کہ ان کا ایک دوست ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ کا انگریزی منظوم ترجمہ کررہا ہے اس کے جواب میں 30 مارچ 1933ء کو اقبال نے لکھا:
’’بانگ درا کی بیشتر نظمیں میری طالبِ علمی کے زمانے کی ہیں زیاہ پختہ کلام افسوس کہ فارسی میں ہوا- بانگ درا سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ جاوید نامہ کا ترجمہ کیا جائے- یہ نظم ایک قسم کی ’ڈیوائن کامیڈی‘ ہے- مترجم کا اس سے یورپ میں شہرت حاصل کرلینا یقینی امر ہے اگر وہ ترجمے میں کامیاب ہوجائے اور اگر اس ترجمہ کا کوئی عمدہ مصوّر (السٹریٹ) بھی کردے تو یورپ اور ایشیا میں مقبول تر ہوگا- اس کتاب میں بعض بالکل نئے تخیلات ہیں اور مصوّر کے لیے بہت عمدہ مسالا ہے‘‘ -[4]
تعارف جاوید نامہ بزبان اقبالؒ:
دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر لندن میں انڈیا سوسائٹی کی جانب سے 4نومبر 1931ء کومنعقدہ ایک تقریب میں علامہ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے اپنی فارسی کتب کا تعارف حاضرین سے کروایا- آخر میں جاوید نامہ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’میری تازہ تصنیف جاوید نامہ مطبع ہو چکی ہے اور غالباً ایک دو مہینے میں چھپ جائے گی- یہ حقیقت میں ایشیا کی ڈیوائن کامیڈی ہے- اس کا اسلوب یہ ہے کہ شاعر مختلف ستاروں کی سیر کرتا ہے، مختلف مشاہیر کی روحوں سے مل کر باتیں کرتا ہے پھر جنت میں جاتا ہے اور آخر میں خدا کے سامنے پہنچتا ہے- اس تصنیف میں دورِ حاضر کے تمام جماعتی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اصلاحی مسائل زیر بحث آگئے ہیں- اس میں صرف دو شخصیات یورپ کی آئی ہیں اوّل کچنر، دوم نٹشے باقی تمام شخصیتیں ایشیا کی ہیں دانتے نے اپنا رفیق سفر ’ورجل‘ کو بنایا تھا میرے رفیق سفر خضر طریق مولائے روم ہیں- آپ حیران ہوں گے کہ کچنر اس ضمن میں کیسے آگیا‘‘-
جاوید نامہ میں کچنر اور فرعون آپس میں باتیں کرتے ہیں- فرعون کچنر کو طعنہ دیتا ہے کہ یورپ کے لوگ بڑے بے رحم ہیں اور بے درد ہیں انہوں نے ہماری قبریں تک کھود ڈالیں- کچنر جواب دیتا ہے کہ ہمارا مقصد سائنس کی خدمت اور علم الآثار کی خدمت ہے- قبریں اس لیے کھودی ہیں کہ معلوم ہو آج سے تین چار ہزار قبل دنیا کی حالت کیا تھی فرعون اس تشریح کے جواب میں کہتا ہے:
قبر ما علم و حکمت پر کشود |
’’یعنی ہماری قبر تو تم لوگوں نے علم و حکمت کیلیے کھودیں لیکن مہدی کی قبر میں کیا اشارہ ہے؟
مشہور سوڈانی مجاہد مہدی سوڈانی کی طرف جس کی قبر جنرل کچنر نے کھودی اور اس کی لاش کی ہڈیاں تک جلا دی تھیں-
ایک مقام پر میں نے چار الواح لکھے ہیں لوحِ بدھ، لوحِ مسیح، لوحِ زرطشت اور لوح محمد(ﷺ)- لوحِ مسیح میں ٹالسٹائی کا ایک خواب ہے، لوحِ زرطشت میں اسلامی تصوف کے مشہور مسئلے، فضیلت، نبوت بر ولایت یا ولایت برنبوت کے متعلق بحث ہے- لوح محمد (ﷺ) کا مضمون یہ ہے کہ کعبہ میں بت ٹوٹے پڑے ہیں، ابوجہل کی رُوح گریہ و زاری کر رہی ہے اور رسول اکرم (ﷺ)سے کہہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمارے دین کو برباد کردیا ہماری خاندانی بلند پائیگی زائل کر ڈالی اور مساوات کی تعلیم دینی شروع کردی جو مزد کیوں سے حاصل کی گئی ہے- [5]
جاوید نامہ کا مختصر خلاصہ:
کتاب کا آغاز مناجات سے کیا گیا ہے مگر اصل مطالب تب آتے ہیں جب شاعر (یعنی علامہ اقبالؒ ) شام کے وقت دریا کنارے مولانا رومؒ کے بعض اشعار پڑھ رہا ہوتا ہے کہ مولانا رومی کی رُوح وہاں حاضر ہوجاتی ہے-شاعر رومیؒ کی رُوح سے چند سوال کرتا ہے جس کا جواب رومیؒ کی رُوح دیتی ہے پھر رومی اور شاعر کی رُوح فضا کا سفر کرتی ہے، راستے میں وہ ستاروں کا نغمہ سنتے ہیں جو ان کو خوش آمدید کہتا ہے-
فلکِ قمر:
چاند پر رومی اور شاعر توقف کرتے ہیں، فلک قمر پر ان کی ملاقات ایک جہاں دوست سے ہوتی ہے جہاں دوست دراصل ایک قدیم ہندو رِشی وشوامتر ہے- وشوامتر علامہ اقبالؒ سے چند سوالات کرتا ہے جس کا وہ جواب دیتے ہیں اس گفتگو کا خلاصہ درج ذیل ہے:
v ’’وہ پوچھتے ہیں عقل کی موت کیا ہے؟ فرمایا ترکِ فکر عقل کی موت ہے-
v ’’دل کی موت کیا ہے؟ فرمایا اللہ کا ذکر چھوڑنا دل کی موت ہے‘‘-
v ’’پوچھا تن کیا ہے؟ فرمایا گرد راہ سے پیدا ہونے والی چیز‘‘-
v ’’پوچھا رُوح کیا ہے؟ فرمایا لا الٰہ کی رمز روح ہے‘‘-
v ’’کہا کہ آدم کیا ہے؟ فرمایا اللہ کے رازوں میں سے ایک راز‘‘-
v ’’پوچھا عالم کیا ہے؟ فرمایا اللہ کا سامنے ہونا یعنی اللہ سامنے ہے‘‘-
v ’’پوچھا علم و ہنر کیا ہے؟ فرمایا پوست ہے چھلکا ہے‘‘-
v ’’پھر پوچھا آخری دلیل کیا ہے؟ فرمایا محبوب کا چہرہ‘‘-
v ’’پھر پوچھا عام لوگوں کا مذہب کیا ہے؟ فرمایا سنی سنائی پر بھروسے کا نام‘‘-
v ’’پھر پوچھا عارفین کا دین کیا ہے؟ فرمایا دیکھنا‘‘- [6]
وشوامتر سے باتیں کرکے وہ چاند کی ایک وادی پر غمید کی طرف جاتے ہیں جسے فرشتوں نے وادی طواسین کا نام دے رکھا تھا- طواسین دراصل طاسین کی جمع ہے اور منصور حلاج کی کتاب کا نام ہے- منصور نے طواسین سے مراد تجلیات لیا ہے جب کہ علامہ نے یہاں اس سے مراد تعلیمات لیا ہے- وادی طواسین میں علامہ نے گوتم بدھ، زرطشت، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضور نبی کریم (ﷺ) کی تعلیمات بیان کی ہیں-
فلکِ عطارد:
فلک قمر سے رومی و علامہ فلک عطارد پر پہنچتے ہیں اور وہاں سیّد جمال الدین افغانی اور حلیم سعید پاشا کی ارواح کی زیارت کرتے ہیں- علامہ ان دونوں مصلحان سے اہم اسلامی اور عالمی اُمور پر گفتگو کرتے ہیں خاص کر قرآن مجید پہ جمال الدین افغانی کی زبانی اقبال نے جو اشعار کہے ہیں وہ قاری کی روح اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں -
فلکِ زہرہ:
یہاں پرانی اقوام کے بادشاہوں کی مجلس ہو رہی ہوتی ہے ، یہیں فرعون اور لارڈ کچنر کی روحیں نظر آتی ہیں اور ان کا ایک دلچسپ مکالمہ ہوتا ہے-
فلکِ مریخ:
پھر وہ فلک مریخ پر ایک نام نہاد پیغمبر عورت کو دیکھتے ہیں جس کی اصل یورپ سے ہے اور جسے بچپن میں شیطان اغوا کرکے لے گیا تھا- وہ عورتوں کو ترقی اور آزادی کے نئے اُصول بتاتی ہے اور اس کا پیغام یہ ہے کہ آخر کار عورت کی ہی حکمرانی قائم ہونی ہے- اس عورت کی باتوں پر مولانا رومؒ تہذیب حاضر کے بعض پہلوؤں کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں-
فلکِ مشتری:
فلکِ مشتری پر حلاج، غالب اور ایرانی شاعرہ قرۃ العین طاہرہ کی روحوں سے ملتے ہیں- مرزا غالب سے ادبی اور مذہبی سوالات پوچھے جاتے ہیں، حلاج مسلمان صوفی کے طور پر اپنا مقام واضح کرتا ہے اور رسول اللہ (ﷺ) کے مقام و مرتبہ پہ لاجواب تبصرہ کرتا ہے-اس فلک کی سیر کے اختتام پہ اقبال ابلیس کا احوال بیان کرتے ہیں-
فلکِ زحل:
پھر اقبال اور رومی ایک اور فلک پر جاتے ہیں جس کو منحوس سمجھا جاتا ہے جہاں قلزمِ خونیں میں اسلامی ممالک سے غداری کرنے والی روحیں ملتی ہیں کہ جنہیں دوزخ نے بھی قبول نہیں کیا اور وہ میر جعفر اور میر صادق کی روحیں ہوتی ہیں جنہیں فرشتے آگ کی چکی میں سزا دیتے ہیں-
سوئے افلاک:
پھر شاعر اور رومی سیاروں سے گزرتے ہوئے جنت میں داخل ہوتے ہیں وہاں وہ اولیاء اور اچھے بادشاہوں سے ملتے ہیں-یہاں اقبال کی ملاقات کشمیر میں دعوتِ اسلام لانے والے عظیم صوفی امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ اور کشمیری فارسی شاعر ملا طاہر غنی کشمیری سے ہوتی ہے- بعد ازاں ہندی شاعر برتری ہری سے-بادشاہوں کے محل میں میں نادر شاہ، احمد شاہ ابدالی اور ٹیپو سلطان سے ملاقاتیں ہوتی ہیں، سلطان ٹیپو کا دریائے کاویری کے نام خطاب پڑھنے والا ہے جس میں اقبال نے زندگی اور موت کے فلسفے پہ اشعار لکھے ہیں- جنت سے روانگی کے وقت حوریں اقبال اور رومی کو روک لیتی ہیں اور اقبال کے نام کے نعرے لگاتے ہوئے مطالبہ کرتی ہیں کہ کچھ دیر مزید جنت میں ٹھہر جاؤ اور ہمیں اپنی غزل سناؤ-
پھر اقبال اور رومی آگے بڑھ جاتے ہیں اور رومی ایک مقام پر انہیں تنہا چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اللہ کے حضورسب کو تنہا جانا ہوتا ہے- وہاں شاعر خدا کے صفت و جمال و تجلی سے بعض سوالات پوچھتا ہے- کتاب کے آخری حصے میں شاعر اپنے بیٹے سے خطاب کرتا ہے جو دراصل آنے والی نسل سے ایک خطاب ہے-
حرفِ آخر:
اس کتاب کا مختصر خلاصہ پیش کرنے کا مقصد فقط یہ تھا کہ وہ نوجوان جو علم دوستی رکھتے ہیں لیکن ابھی ان کی نظر سے اقبالؒ کا فارسی کلام نہیں گزرا، ان میں اقبالؒ کے فارسی کلام کو پڑھنے کی طلب اور تڑپ پیدا ہو اور دوسرا مقصد یہ کہ اس کتاب کے حوالے سے علامہ اقبالؒ کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی تھی کہ اس پورے افلاکی سفر کو کوئی مصوری کی شکل میں پیش کرے- اب تو ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے اگر کوئی پروڈکشن ہاؤس اقبال کے اس افلاکی سفر کو ڈرامہ سیریز کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کرےتو علامہ اقبالؒ کے پیغام کو پھیلانے میں یہ یقیناًبہت بڑی کاوش ہوگی-
٭٭٭
[1](جاوید نامہ)
[2](ڈاکٹر محمد اقبال، جاوید نامہ، اقبال اکادمی، 1982)
[3](اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ، ص:42)
[4](ڈاکٹر محمد اقبال، جاوید نامہ، اقبال اکادمی، 1982)
[5](گفتارِ اقبال، انقلاب 22 نومبر 1931ء بحوالہ جاوید نامہ، مقدمہ، حواشی و تعلیقات از پروفیسر ارشاد احمد شاکر، پی ایچ ڈی مقالہ برائے سال 1999 علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد)
[6](شرح جاوید نامہ، ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، 2005، ص:62)