جب اللہ تعالیٰ کے نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ خلوت سے مظاہر کثرت میں اپنے اَنوار کے اِظہار کا ارادہ فرمایا تو باطنی جذبۂ عشق میں اُس عزمِ صمیم کی تکمیل کیلئے اپنے حُسنِ بے مثال کی جلوہ نمائی فرمائی جس سے نورِ محمدی ﷺ کا ظہور ہوا، جس نے کائنات کے سارے جہان روشن کردیئے اور تمام مخلوق اُس نور سے پیدا ہوئی جیسا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث پاک سے ظاہر ہے کہ:
’’ مَیں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے-‘‘
تمام جہانوں کے ظہور اور ساری مخلوق کی پیدائش کے اس عمل کو مرزا اسد اللہ غالبؔ نے اپنی ایک مثنوی میں اس طرح بیان کیا ہے:
جلوۂ اوّل کہ حق بر خویش کرد
مشعلِ نورِ محمد پیش کرد
شد عیاں زاں نور در بزمِ ظہور
ہر چہ پنہاں بود از نزدیک و دُور
’’ اللہ تعالیٰ نے خود پہلی تجلی فرمائی تو اُس سے نورِ محمد ﷺ کی شمع روشن ہوئی جس کے نور سے نزدیک و دور کی ہر چھپی ہوئی شے بزمِ ظہور میں ظاہر ہوگئی-‘‘
ظہورِ کائنات کا یہ انداز حافظ شیرازیؔ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
در ازل پرتوِ حُسنت ز تجلی دم زد
عشق پیدا شد! و آتش بر ہمہ عالَم زد
’’ ازل میں تیرے حُسن کی جلوہ نمائی سے عشق پیدا ہوا جس نے کائنات کے سارے جہان ظاہر کردیئے-‘‘
’’ پَرتوِ حُسنت ‘‘ سے مراد حق تعالیٰ کے نورِ مقدس کی وہ نورانی شعاع ہے جس کی چمک سے نورِ محمدی ﷺ کا ظہور ہوا اور ’’ عشق پیدا شد‘‘ میں حدیث قدسی { فاحببت ان اعرف} کی طرف اشارہ ہے اور ’’ آتش بر ہمہ عالَم زد‘‘ سے مراد یہ ہے کہ نورِ حق تعالیٰ کی شعاع یعنی نورِ محمدی ﷺ نے اپنی ایک جھلک کے ذریعہ تمام جہان روشن کر دیئے اور یہ ساری کائنات معرضِ وجود میں آگئی-
چنانچہ اس طرح سارے جہان معرضِ وجود میں آگئے مگر یہ سارے جہان ایک دوسرے سے علیحدہ اور الگ الگ تھے ان تمام جہانوں میں کوئی ایسی وِحدَت کی ضرورت تھی جو ان کے درمیان تعلق پیدا کردے کوئی ایسا مظہرِ کامل درکار تھا جو ان تمام جہانوں میں خالقِ کائنات کی قدرتوں کا اظہار کرے ، چنانچہ حق تعالیٰ نے چاہا کہ اپنا ایک خلیفہ بنائوں جو عالمِ ظاہر کو عالمِ غیب سے، عالمِ خلق کو عالمِ اَمر سے، ظلمت کو نور سے اور غم کو سُرور سے ملا دے - لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے سامنے اپنے خلیفہ کی پیدائش کا اعلان کر دیا اور فرمایا :
{ انی جاعل فی الارض خلیفہ}
چنانچہ اس اعلان کے بعد منصبِ خلافت کیلئے اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق میں حضرت آدم ؑ کو منتخب فرمایا جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے حافظ شیرازیؔ اس طرح رقم طراز ہیں:
جلوہ کرد، رُخش دید ملائک ! عشق نہ داشت
عین آتش شد ازیں غیرت ، و بر آدم زد
’’ حق تعالیٰ نے جلوہ نمائی فرمائی جسے فرشتوں نے دیکھا مگر ان میں عشق نہ تھا اس غیرت کی وجہ سے آتشِ عشق کو آدم کے سپرد کردیا-‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے نور مقدس کی جلوہ نمائی فرمائی جس نے نورِ محمدی ﷺ کا ظہور ہوا جس سے خود خلّاقِ کائنات نے محبت فرمائی پھر حق تعالیٰ نے حضرت آدم کا ڈھانچہ تیار کروایا جس میں نغمۂ عشق کے ساز بجانے والا قلب رکھا اور خود اس کے اندر برا جمان ہو کر آدم کی صورت میں فرشتوں سے سجدہ کروایا- اس صورتِ حال کو حضرت امیر خسرو نے یوں بیان فرمایا :
گر نہ بودے ذاتِ حق اندر وجود
آب و گل را کے ملک کردند سجود
’’ اگر حضر ت آدم ؑ کے وجود کے اندر خود ذاتِ حق جلوہ گر نہ ہوتی تو فرشتوں کو صرف مٹی اور پانی کے ڈھانچے کے سامنے سجدہ کرنے کی کیا ضرورت تھی-‘‘
شہبازِ عارفاں حضرت سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ المشھدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ذاتِ حق تعالیٰ کا وجود آدم ؑ کے اندرجلوہ گر ہو کر فرشتوں سے سجدہ کروانے کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا ہے :
پاک پا لباس عبودیت دا
خود ’’یاھُو‘‘ مستور ہویا
سلطان بہادر شاہ پچھاتا جیں
او رموز و نور ضرور ہویا
’’ اللہ تعالیٰ خود عبودیت کا پاکیزہ لباس پہن کر حضرت آدم ؑ کے رُوپ میں پوشیدہ ہوگیا جس نے بھی یہ راز سمجھ کر اسے پہچان لیا وہ بشریت سے نکل کر نورانیت میں آگیا-‘‘
چونکہ اللہ تعالیٰ وجودِ آدمؑ کے چراغ میں روحانیت کا روغن ڈال کر اسرارِ الٰہی کی قندیل روشن فرمانا چاہتا تھا اس لیے حضرت آدمؑ کو خلاصۂ موجودات بنا کر فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ آدم ؑ کے سامنے سجدے میں گرجائو-
فرشتے اب تک رَب کیلئے سجدے کرتے چلے آرہے تھے مگر آج کا سجدہ جداگانہ نوعیت کا تھا - گو کہ تھا تو یہ بھی حُکمِ الٰہی کے سامنے اور اُس وقت حضرت آدم ؑ نورِ الٰہی کی تجلی گاہ کے طور پر جلوہ گر تھے ان کے سامنے کیے جانے والا سجدہ بھی در حقیقت رَب ہی کو سجدہ تھا کیونکہ اُس کا حُکم جو تھا مگر اب یہ سجدہ بواسطۂ آدم ؑ تھا یہ ایک ایسا سجدہ تھا جس نے کروڑوں کے سجدے مقبول بنا دیئے اور ابلیس کے کروڑوں سجدے مردود کرادیئے- چنانچہ حکمِ خداوندی ملتے ہی تمام فرشتے سجدے میں گر گئے مگر ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا- ابلیس نے کیوں انکار کیا ؟ اس کے جواب میں سلطان محمد بہادر شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ثابت ، سمجھ، تامل کر ، جد ’’ اُسجد ‘‘ دا فرمان ہویا
عامل ملائک کُل رہے ، نا فرمان شیطان ہویا
خشم دی چشم توں طین لیا ، ’’ ونفخت‘‘ توں نادان ہویا
بہادر شاہ پناہ اس علم کولوں، از دست اے سب نقصان ہویا
’’ سمجھ اور غور و فکر کر کہ جب ’’اُسجد‘‘ یعنی سجدہ کرنے کا حکم ہوا - جو حکم پہ عمل پیرا ہوئے وہ تو ملائک رہے مگر نافرمانی کرنے والا شیطان بن گیا - کیونکہ وہ وجودِ آدم کے اندر موجود غضب والی آنکھ کو محض خاکی سمجھا اور حضرت آدم ؑ کے اندر پھونکی جانے والی روح مقدسہ کو نہ سمجھ سکا - وہ عالم تھا مگر اس علم سے پناہ جس کی وجہ سے اس کا سارا نقصان ہوا اور وہ ملعون ہوگیا-‘‘
فرمانِ خداوندی کی حکم عدولی کرنے والے ابلیس کے انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے حافظ شیرازیؔ فرماتے ہیں:
مدعی خواست کہ آید بہ تماشہ گہِ راز
دست از غیب آمد، و بر سینۂ نامحرم زد
’’ اپنی فضیلت اور برتری کا دعویٰ کرنے والا ابلیس چاہتا تھا کہ حضرت آدم ؑ کے سامنے کئے جانے والے سجدے کا راز جان سکے تو غیب سے دست قدرت اس کے سینے لگا اور اسے پیچھے دھکیل دیا-‘‘
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب فرشتے سجدے میں گر گئے تو ابلیس حضرت آدم ؑ کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہوگیا فرشتوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ پیٹھ کیے کھڑا تھا تو تمام فرشتے دوبارہ سجدے میں گر گئے اور حکمِ خداوندی کی تعمیل کرنے کی توفیق ملنے پر سجدہ شکر ادا کیا- ابلیس کے سینے پر غیبی ہاتھ لگنے کا تذکرہ فرما کر حافظ شیرازیؔ نے اُسی منظر کی تصویر کشی کی ہے کہ سینے پر ہاتھ لگنے کی وجہ سے اس کا منہ دوسری طرف ہوگیا کیونکہ ذاتِ حق تعالیٰ کو یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ وہ اس سجدہ کا منظر دیکھ سکے- مندرجہ بالا شعر میں حافظ شیرازیؔ نے ابلیس کی مردودیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے لئے ’’نامحرم‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے کیونکہ تمام فرشتے نور سے پیدا کیے گئے مگر ابلیس آگ کی پیداوار ہے ’’نور‘‘ اور ’’نار‘‘ اگرچہ دونوں ہی روشن ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اس لئے ابلیس کو نامحرم گردانتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا سجدہ کرنے والا منظر پوشیدہ رکھا-
ابلیس کا سجدہ نہ کرنے کی ایک اور وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت سید سلطان محمد بہادر شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس طرح اظہارِ خیال فرمایا ہے :
العلم حجاب الاکبر ، ’’طین‘‘ ڈٹھا شیطان میاں
بہادر شاہ ، یقین ہے دین بھائی؛ رب بخشے ایہہ سامان میاں
’’ علم ایک بہت بڑا پردہ ہے اسی وجہ سے شیطان نے حضرت آدم ؑ کو مٹی سے بنا ہوا دیکھا، دین کا دارومدار یقینِ کامل پر ہے اللہ تعالیٰ یہ دولت سب کو نصیب فرمائے-‘‘
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ علم دونوں روپ دِکھاتا ہے یعنی جب تکبر و انانیت پیدا ہو جائے تو یہ حجابِ اکبر بن جاتا ہے لیکن اگر دِل میں عاجزی و انکساری رہے تو یہی علم یقینِ کامل بن جاتا ہے اور یقین کشتی کو ڈوبنے نہیں دیتا - آپ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسا علم جو یقین پیدا کرے وہی اصل دین ہے اور یہی در حقیقت توشۂ آخرت بنتا ہے -
حافظ شیرازیؔ نے اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان عظیم باطنی رشتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی عارفانہ انداز میں فرمایا:
خواست کہ بیند بہ جہاں صورتِ خویش
خیمہ در معرکۂ آب و گلِ آدم زد
’’ حق تعالیٰ نے چاہا کہ بزمِ کائنات میں اپنی صورت دیکھے تو آدم ؑ کی مٹی اور پانی کے میدان میں اپنا خیمہ لگا لیا-‘‘
اس مصرعہ میں حافظ شیرازیؔ نے ظہورِ کائنات؛ تخلیق آدم اور خدا اور بندے کے درمیان اسرار و رموز کی طویل داستان سمیٹ کر رکھ دی ہے - اگرچہ حضرت آدم ؑ کے جسم کی بنیاد اجزائے عنصری پر قائم تھی مگر حضرت آدم ؑ حق تعالیٰ کے جمالِ باکمال کا آئینہ تھے اور انعاماتِ غیر متناہی اور تقربِ الٰہی کی وجہ سے اُن پر روحانیت غالب تھی ، علم کی دولت عطا فرما کر فرشتوں سے اُن کا استحقاقِ خلافت تسلیم کروا لیا گیا مگر فرشتے ابھی تک اُس حکمت سے آگاہ نہ تھے جو تخلیقِ آدم میں پوشیدہ رکھی گئی تھی- ’’ علم‘‘ اور ’’ حکمت‘‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں جیسا کہ ’’ انت العلیم الحکیم‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے اور حضرت آدم ؑ کے سامنے فرشتوں سے سجدہ کروانے میں بھی ’’ حکمت‘‘ کار فرما تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ وجودِ آدم ؑ کے اُس خوبصورت ، ہونہار اور خاکی پودے کو رُوحانیت کا رنگ دے کر کرۂ ارض پر سر زمینِ انسانیت میں کاشت کرنا چاہتا تھا تاکہ مقصودِ کائنات کا وہ ’’ گلِ زیبا‘‘ نمودار ہو جس کی مہک تمام جہانوں کی فضا کو معطر کر دے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین}
فرشتے اگرچہ حکمِ خداوندی کی تعمیل کرتے ہوئے حضرت آدم ؑ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے مگر وہ اس حقیقت سے نا آشنا تھے کہ حق تعالیٰ گلستانِ آدمؑ میں اُس انسانِ کامل کا ظہور چاہتا ہے جو لباسِ عبودیت میں معراجِ روحانیت کا کمال حاصل کرے اور اس کے قائم کیے ہوئے مکتبِ عشق میں عرفانِ الٰہی کا سلیبس مکمل کرنے والے عاشقانِ مولیٰ { الا اللّٰہ} کے بحرِ توحید میں غرق ہو کر قربِ حقیقی کی آتشِ سوزاں میں وصل کی لذت سے گوہرِ مقصود حاصل کریں-
سبحان اللہ ! یہی وہ مراتبِ عشق ہیں جن کی ابتدا اُس عشقِ محمدی ﷺ سے ہوتی ہے جو تخلیقِ کائنات اور آفرینشِ آدم ؑ کا باعث ہوا - یہی عشق انسان کو توحیدِ حقیقی پر یقینِ کامل سے مشرف کرتا ہے اور عاشقوں پر وہ راز کھلتا ہے جس کی حقیقت سمجھنے کے لئے عقل کے ہزاروں قافلے سنگسار ہو گئے-
حضرت مولانا روم ؔ نے کیا خوب فرمایا:
در نہ گنجد عشق در گفت و شنید
عشق دریائیست قعرش نا پدید