الحافظ المشہورامام ابویعلیٰ الموصلیؒ

الحافظ المشہورامام ابویعلیٰ الموصلیؒ

الحافظ المشہورامام ابویعلیٰ الموصلیؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری مارچ 2021

نام و نسب:

آپ کا نام احمد، کنیت ابو یعلی، نسب نامہ کچھ یوں ہے: احمد بن علی بن مثنی بن یحییٰ بن عیسیٰ بن ھلال- [1]

ولادت و وطن:

مشہور روایت کے مطابق آپ 207ھ میں اپنے وطن موصل میں پیدا ہوئے- امام ذہبیؒ کی روایت کے مطابق ان کی ولادت شوال 210ھ میں ہوئی- ان کا خاندانی تعلق قبیلہ بنی تمیم سے تھا- اس لئے آپ التمیمی کہلاتے ہیں- ان کا وطن موصل ہے جو کہ دجلہ و فرات کے درمیان جزیرہ نما علاقہ تھا- [2]

تحصیل علم:

آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز تو بچپن میں کردیا تھا لیکن باقاعدہ طور پر 15 سال کی عمر میں انہوں نے طلبِ حدیث کے لئے سفر کیا اور اس زمانے کے دستور کے مطابق مختلف مراکزِ حدیث کے ارباب کمال سے استفادہ کیا- امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:

’’لقی الکبار وار تحل فی حداثتہ الی الامصار باعتناء ابیہ و خالہ محمد بن احمد بن ابی المثنی‘‘[3]

’’آپ نے بڑے بڑے علماء سے ملاقات کی اور اپنے باپ اور خالو محمد بن احمد کی خصوصی کاوش و انتظام سے طلبِ حدیث کے لیے مختلف شہروں کاسفر اختیار کیا‘‘-

انہوں نے تحصیل علم کیلیے خاص طور پر مصر، شام، خراسان اور عراق کا سفر اختیار کیا-آپ حنفی المذہب تھے- اس لئے حافظ عبد الغنی الازدی فرماتے ہیں :

’’ابو یعلی احد الثقات الاثبات کان علی رأی ابی حنیفہ ‘‘[4]

’’امام ابو یعلی اثبت اور ثقات آئمہ میں سے ایک تھے- اور وہ امام ابو حنیفہ کے مذہب پر تھے‘‘-

 امام ذہبیؒ ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’قلت نعم لا نہ اخذ الفقہ عن اصحاب ابی یوسف‘‘[5]

’’مَیں کہتا ہوں کہ یہ بات درست ہے کہ آپ حنفی المذہب تھے- کیونکہ آپ نے فقہ امام ابو یوسف کے اصحاب سے حاصل کی تھی‘‘-

 اساتذہ:

آپ نے اس وقت کے مشہور اور جید آئمہ فن سے اکتساب علم کیا-

جن حضرات سے ان کو تحصیل علم کا موقع ملا، ان میں سے چند مشہور یہ ہیں- انہوں نے بغداد میں علی بن جعد، ابو خیثمہ، ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم الھذلی، ابو زکریا یحییٰ بن معین، شریح بن یوسف سے سماع کیا اور بصرہ میں ابوموسی بندار، عباس بن عبدالعظیم ، ھدیہ بن خالد ابراہیم بن محمد، خلیفہ بن خیاط، عبدالاعلی بن حماد اور حوثرہ بن اشرس سے سماع کیا اور کوفہ میں ابو کریب محمد بن العلاء، محمد بن عبد اللہ بن نمیر، سفیان بن وکیع بن جراح، ھناد بن السری، عبداللہ بن عمر وغیرہ سے سماع کیا اور اسی طرح ان کو امام احمد بن حنبل کی صحبت میں بھی بیٹھنے کا شرف نصیب ہوا ہے-

اس کے علاوہ آپ نے احمد بن حاتم الطویل، احمد بن جمیل، احمد بن عیسیٰ التستری، احمد بن منیع، اسحاق بن موسیٰ الخطیمی، حکم بن موسیٰ، ایوب بن یونس البصری، ابراہیم بن الحجاج السامی، علی بن مدینی، ابوبکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن معین، عمرو بن الناقد، عیسیٰ بن سالم، عبدالاعلی بن حماد وغیرہ سے سماع کیا- [6]

تلامذہ:

آپ سے بڑے نامور علماء و مشائخ نے اکتسابِ علم کیا- ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

’’ابو حاتم حبان،ابوالفتح الازدی،امام طبرانی ابو علی حسین بن محمد النیشاپوری، حمزہ بن محمد الکنانی، ابو بکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی، ابواحمد عبد اللہ بن عدی، ابن السنی، ابو عمرو بن حمدان الحیری، ابوبکر محمد بن ابراہیم المقری، قاضی یوسف القاسم المیانجی، محمد بن نضر النحاس، نضر بن احمد بن الخلیل المرجی ‘‘[7]

حفظ و ثقاہت:

امام ابو یعلیٰ الموصلی علمی میدان میں ایک نامور شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں- آپ اپنے عہد کے مشہور محدث اور امامِ فن تھے- ان کا شمار مشہور حفاظِ حدیث اور نامور محدثینِ اسلام میں ہوتا ہے- اپنے غیر معمولی حافظہ کی بنا پر الحافظ اور الحافظ المشہور کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں- ان کی عدالت و ثقافت میں کسی قسم کا کوئی کلام نہیں کیا گیا- اس لیے اصحاب سیر نے مختلف انداز میں آپ کی ثقاہت و علمی شان کو بیان فرمایا ہے- امام حاکمؒ  جیسے عظیم محدث ان کی ثقاہت کو اِس انداز میں بیان کرتے ہیں:

’’ھو ثقۃ مامون ‘‘[8]        

’’وہ ثقہ اور مامون تھے‘‘-

امام ابو المحاسن جمال الدین اپنی کتاب ’’النجوم الزاہرہ‘‘ میں امام صاحب کی علمی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’و کان اماماعالما محدثا فاضلا ‘‘[9]

’’وہ ایک نامور امام، عالم، محدث اور فاضل تھے‘‘-

علامہ ابن العماد الحنبلی اُن کی توثیق کچھ یوں کرتے ہیں:

’’ وکان ثقۃ صالحا متقنا‘‘[10]

’’ وہ ثقہ،صالح اور متقن محدث تھے‘‘-

امام ذہبیؒ آپ کے حفظ وثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’وکان ثقة صالحا متقنا یحفط حدیثه ‘‘[11]

’’وہ ثقہ، صالح، متقن اور حدیث کے حافظ تھے‘‘-

علامہ سُلَمِّی فرماتے ہیں:

’’سألت الدار قطی عن ابی یعلیٰ فقال ثقۃ مأمون‘‘[12]

’’مَیں نے امام دار قطنی سے ابو یعلی کے بارے میں پوچھا کہ حدیث میں ان کا کیا مقام ہے تو انہوں نے جواب ارشاد فرمایا کہ وہ ثقہ و مامون ہیں‘‘-

جس انداز میں حافظ ابن کثیر نے اُن کی ثقاہت اور حفظ و ضبط کو بیان کیا ہے تو اُس سے آپ کی علمی شان نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ آپ واقعی ایک عظیم محدث اور امامِ فن تھے- امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

’’و کان حافظا عدلا فیھا یرویه ضابطا لما یحدث به ‘‘[13]

’’وہ باکمال حافظ اپنی مرویات میں ثقہ و عادل اور احادیث میں حافظ و ضابط تھے‘‘-

امام صاحب علم کے اس درجے پہ فائز تھے کہ علمی میدان میں آپ کی شخصیت متفق علیہ کا درجہ رکھتی تھی؛ اور اُن کی ثقاہت پر زمانے والوں کا اجماع تھا- یہی وجہ ہے امام ابو یعلی الخلیلی کتاب الارشاد میں فرماتے ہیں:

’’ثقۃ متفق علیہ ‘‘[14]

’’وہ ثقہ اور متفق علیہ امام تھے‘‘-

ابو عبداللہ بن مندہؒ نے ابو یعلی موصلی ؒ کی ملاقات کیلئے سفر اختیار کیا اور فرمایا:

’’انمارحلت الیك لاجماع اھل العصر علی ثقتک و اتقانِك ‘‘[15]

’’مَیں نے آپ کی طرف اُس لئے سفر اختیار کیا کہ آپ کی ثقاہت واتقان پر اہلِ عصر کا اجماع ہے‘‘-

حافظ ابو علیؒ  آپ کے حفظ و اتقان کے بڑے معترف تھے اس لیےامام حاکمؒ فرماتے ہیں:

’’کنت اری ابا علی الحافظ متعجبا بابی یعلی اتقانه وحفظه لحدیثه حتی کان لایخفی علیه الاالیسیر ‘‘[16]

’’میں نے حافظ ابو علی کو امام ابو یعلی کے حفظ حدیث اور اتقان پر تعجب کرتے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ ابو علی فرماتے تھے کہ اُن سے بہت کم حدیثیں مخفی تھیں‘‘-

زہد واتقاء:

امام ابو یعلی الموصلی زہد و تقویٰ کی دولت سے بھی مالا مال تھے- وہ دیانت و تقوٰی میں عالی مرتبہ پر فائز اور فضائل اخلاق سے خوب آراستہ تھے- امام ذہبی ’’تذکرة الحفاظ‘‘ میں اُن کے زہد اتقاء کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قال یذید بن محمد الازدی کان ابو یعلی من اھل الصدق و الامانة والدین والحلم‘‘[17]

’’یزید بن محمد ازدی فرماتے ہیں کہ ابو یعلی اہلِ صدق، اہلِ امانت، اہلِ دین اور اہلِ حلم میں سے تھے‘‘-

وہ زیادہ تر ظاہری نمود کو برا سمجھتے تھے ہر کام خالصتاًلوجہ اللہ کرتے تھے- مؤرخین فرماتے ہیں کہ وہ تصنیف و تالیف، تعلیمِ حدیث اور تحصیلِ علوم میں محض رضاء الٰہی اور اخلاص کی بنا پر مشغول ہوتے تھے- ایک مرتبہ ابو عمر حیری نے اُن کو حسن بن سفیان پر ترجیح دی، ایک شخص نے کہا یہ غلط ہے- کیونکہ حسن کی مسند ضخیم ہے اور ان کے شیوخ اعلیٰ ہیں:

’’قال ان ابا یعلیٰ کان یحدث احتسابا و الحسن کان یحدث اکتسابا ‘‘[18]

’’ابو عمر حیری نے جواب دیا کہ ابو یعلی محض رضاءِ الٰہی کیلئے حدیث بیان کرتے تھے اور حسن کا یہ پیشہ تھا-

 امام ابن حبانؒ نے اُن کی توثیق کے ساتھ ساتھ اُن کو تدوین و اتقان کے ساتھ متصف کیا ہے- حافظ ابن کثیرؒ نے اُن کو صاحب خیر اور صاحب شذرات نے صاحب صلاح بیان کیا ہے- یہی وجہ ہے امام ابو یعلی ؒ کو حسن نیت اور اخلاص کی برکت کی وجہ سے بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی- ان کی ذات عوام و خواص کی عقیدت کا مرکز بن گئی- اُن کے انتقال کے دن موصل کے بازار بند ہوگئے تھے اور لوگوں کا جمِ غفیر ان کے جنازے میں شریک تھا-

تصانیف:

امام ابو یعلیؒ ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مایہ ناز مصنف بھی تھے- امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ وہ عمدہ اور بہتر تصنیفات کے مالک تھے-آپ کی دو مشہور کتابوں کا ذکر ملتا ہے-   

مسند: یہ مسند ابو یعلی کے نام سے مشہور ہے- یہ حدیث کی مشہور اور اہم کتابوں میں سمجھی جاتی ہے- اس میں ثلاثی حدیثیں بھی ہیں- شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس کو حدیث کی کتابوں کے تیسرے طبقہ میں شامل کیا ہے- حافظ اسماعیل بن محمدؒ ’’مسند ابو یعلی‘‘ پر خوبصورت تبصرہ کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قرأت المسانید مثل مسند العدنی و احمد بن منیع وھی کا الانھار و مسند ابی یعلی کاالبحر یکون مجتمع الانھار ‘‘[19]

’’میں نے کئی مسانید، مسند عدنی اور مسند احمد بن منیع پڑھیں- ان کی حیثیت نہروں کی ہے اور مسند ابی یعلی بحر زخار کی طرح تمام نہروں کا سنگم ہے‘‘-

اس کی اہمیت کی وجہ سے علمائے فن نے اس کے ساتھ بڑا شغف رکھا- حافظ ابن کثیرؒ  نے ’’جامع المسانید و السنن‘‘ اور محمد بن سلیمانؒ نے ’’جمع الفوائد من جامع الاصول و مجمع الزوائد‘‘ میں اس کی حدیثیں درج کی ہیں- علامہ نور الدین ہیثمیؒ نے اس کے زوائد مرتب کیے اور حافظ ابن حجرؒ نے ’’اتحاف المھرہ‘‘ میں اور شہاب الدین بوصیریؒ  نے ’’اطراف المسانید العشرۃ‘‘  میں اس مسند کی مرویات نقل کی ہیں-

معجم: شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ کتاب اپنے شیوخ کی ترتیب پر لکھی تھی-

وفات:

آپ کا وصال تقریباً سو (100) سال کی عمر میں 307ھ میں اپنے وطن موصل میں ہوا-

٭٭٭


[1](سیر اعلام النبلاء، جز11، ص:107)

[2](ایضاً)

[3](ایضاً)

[4](ایضاً، ص:110)

[5](ایضاً)

[6](التقیید لمعرفة رواة السنن والمسانيد جز1، ص:150)

[7]( سیر اعلام النبلاء، جز11، ص:109)

[8]( النجوم الزاهرة، جز3، ص:197)

[9]( ایضاً)

[10]( شذرات الذهب، جز 4، ص:36)

[11]( العبر، جز 1، ص:452)

[12](سیر اعلام النبلاء، جز11 ، ص:109)

[13]( البدایہ والنہایہ، جُز 14، ص:813)

[14]( الارشاد، جُز 2 ، ص:619)

[15]( سیر اعلام النبلاء، جز11، ص:109)

[16]( تذکرۃ الحفاظ، جُز 2، ص:200)

[17]( ایضاً)

[18]( ایضاً)

[19]( تاریخ الاسلام، جُز 23، ص:201)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر