نام و نسب:
آپ کا نام بقی، کنیت ابو عبد الرحمٰن ،لقب شیخ الاسلام اور نسب نامہ یہ ہے بقی بن مخلد بن یزید-
ولادت و وطن:
آپ اندلس کے مشہور شہر اور اسلامی علوم وفنون اور تہذیب و ثقافت کے مرکز قرطبہ میں201ھ میں پیدا ہوئے[1]
تحصیل علم کے لئے سفر:
انہوں نے علم کی تحصیل و تکمیل کیلئے مغرب و مشرق کے اکثر شہروں کا سفر اختیار کیا مؤرخین نے ان کو ’’ذو راحلۃ واسعۃ‘‘ یعنی کثیر الاسفار بتایا ہے-ابن منذہ اور امام حمیدی فرماتے ہیں کہ رحلت اور طلب حدیث کیلئے ان کے سفر مشہور ہیں-آپ نے تحصیل علم کیلئے مکہ، مدینہ، مصر، شام، بغداد، عراق کا سفر اختیار کیا-
علم کی طلب و تحصیل میں تن آسانی کونا پسند کرتے تھے اپنے شاگردوں سے کہتے تھے کہ کیا ایسے بھی علم کی طلب کی جاتی ہے کہ جب تم فارغ ہوتے ہو اور تم کو کوئی ضرورت نہیں ہوتی تو حصول علم کے لئے نکلتے ہو- میں نے ایسے جانباز اور شوقین طالب علم دیکھے ہیں جن کے پاس کھانے کیلئے درخت کے پتوں کے سوا کچھ نہ تھا اور انہوں نے کاغذ خریدنے کے لئے اپنے کپڑے تک بیچ دیے-
شوق علم:
آپ کے شوقِ علم کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ:
’’ انہوں نے اندلس سے بغداد تک کاسفر پیدل چل کر طے کیا-مقصد امام احمد بن حنبل کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حدیث حاصل کرنا تھا-جب آپ بغداد پہنچے تو معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل سے ملنے اور ان سے حدیث سننے کی سرکاری طور پر پابندی ہے-امام بقی فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا تو مجھ پر غم و الم کے پہاڑ ٹوٹ پرے-میں وہیں رک گیا اور سامان ایک سرائے میں رکھ کر بغداد کی عظیم الشان جامع مسجد میں گیا تاکہ لوگوں کے پاس جا کر یہ دیکھوں کہ وہ آپس میں امام احمد بن حنبل کے بارے کیا رائے رکھتے ہیں-اتفاق سے وہاں بہت ہی عمدہ اور مہذب حلقہ لگا ہوا تھا اور ایک شخص راویانِ حدیث کے حالات بیان کر رہا تھا وہ بعض کو ضعیف اور بعض کو قوی قرار دیتا-میں نے ایک آدمی سے پوچھا یہ کون صاحب ہیں-اس نے کہا یہ یحیٰ بن معین ہیں–مجھے ان کے قریب خالی جگہ نظر آئی میں وہاں جاکر کھڑا ہوگیا اور عرض کی کہ اے شیخ میں ایک پردیسی آدمی ہوں جس کا وطن یہاں سے بہت دور ہے میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں آپ میری خستہ حالی کی بنا پر مجھے جواب سے محروم نہ کیجئے گا-شیخ نے فرمایا پوچھو کیا پوچھنا ہے-میں نے چند ایسے محدثین کے بارے میں دریافت کیا جن سے میری ملاقات ہو چکی تھی انہوں نے بعض کو صحیح اور بعض کو مجروح بتایا آخر میں ہشام بن عمار کے متعلق پوچھا کیونکہ ان کے پاس میری حاضری بار بار ہوئی ہے انہوں نے ان کا نام سن کر فرمایا کہ ابو الولید ہشام بن عمار دمشق کے رہنے والے بہت بڑے نمازی، ثقہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں-میرا اتنا پوچھنا تھاکہ حلقہ والے چیخ پڑے اور کہا کہ جناب بس کیجئے دوسروں کو موقع دیں میں نے کھڑے کھڑے عرض کیا کہ میں نے آپ سے امام احمد بن حنبل کے بارے میں پوچھنا ہے یہ سن کر امام یحیٰ بن معین نے بڑی حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہم امام احمد بن حنبل کے بارے تنقید کریں گے وہ مسلمانوں کے امام، ان کے مسلمہ عالم اور صاحب فضل و کمال نیز ان میں سے سب سے بہتر شخص ہیں-اس کے بعد میں وہاں سے چلا آیا اور پوچھتے پوچھتے امام احمد بن حنبل کےمکان پر پہنچ گیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا آپ باہر تشریف لائے میں نے عرض کی کہ اے امام صاحب میں ایک پردیسی آدمی ہوں اس شہر میں پہلی بار آیا ہوں طالب حدیث ہوں اور یہ سفر محض آپ کی خدمت میں حاضری کی وجہ سے کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ اندر آجاؤ کہیں تمہیں کوئی دیکھ نہ لے-جب میں اندر آگیا تو انہوں نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو میں نے عرض کی کہ مغرب بعید میں انہوں نے کہا کہ کیا افریقہ میں-میں نے عرض کہ اس سے بھی دور ہمیں اپنے ملک سے افریقہ جانے کے لئے سمندر پار کرنا پڑتا ہے-میں اندلس کا رہنے والا ہوں انہوں نے کہا کہ واقعی تمہارا وطن بہت دور ہے تمہارے جیسے شخص کے مقصد کو پورا کرنا اور اس پر ہر ممکن تعاون کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے-لیکن کیا کروں اس وقت آزمائش میں گرفتا ر ہوں شاید تمہیں اس کے بارے معلوم ہوگیا ہوگا- میں نے عرض کی اے ابو عبد اللہ میں پہلی بار اس شہر میں آیا ہوں مجھے یہاں کوئی نہیں جانتا اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ آپ کے پاس فقیرانہ بھیس میں آجایا کروں اور دروازے پر وہی صدا لگایا کروں جیسی فقیر لوگ لگاتے ہیں تو پھر آپ باہر تشریف لانا-اگر آپ نے روزانہ ایک حدیث بھی سنادی تو وہ میرے لئے کافی ہے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تم لوگوں کے پاس آمد و رفت نہیں رکھو گے اور نہ ہی محدثین کے حلقوں میں جاؤ گے-میں نے عرض کی کہ آپ کی شرط منظور ہے-الغرض میں روزانہ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیتا سر پر بھیکاریوں کا سا کپڑا باندھتا اور کاغذ دوات آستین میں رکھ کر آپ کے دروازے پر جاکر صدا لگاتا آپ تشریف لاتے اور جب میں اندر ہوجاتا تو دروازہ بند کر کے کبھی دو کبھی تین یا اس سے زیادہ حدیثیں بیان فرماتے-یہاں تک کہ میرے پاس قریب 300 کے حدیثیں جمع ہوگئیں-اس کے بعد امام احمد سے ابتلاء کا دور ختم ہوگیا جب میں ان کے پاس جاتا تو وہ مجھے اپنے پاس بٹھاتے اور طلباء سے کہتے کہ دیکھو اسے کہتے ہیں طالب علم-[2]
اساتذہ:
امام بقی بن مخلد نے تقریباً300اساتذہ سے کسبِ فیض کیا تھا- ان کا شمار امام احمد بن حنبل کے خاص اور مایۂ ناز شاگردوں میں ہوتا ہے آپ کے اکثر شیوخ وہ ہیں جن کو امام مالک، سفیان بن عیینہ، امام شافعی اور حماد بن زید جیسے جلیل القدر محدثین و فقہاء سے شرف تلمذ حاصل تھا-آپ کو جن حضرات سے اکتساب علم کا موقع ملا ان میں سے چند ممتاز مشائخ درج ذیل ہیں:
’’یحیٰ بن یحیٰ اللیثی، یحیٰ بن عبد اللہ بن بکیر، محمد بن عیسی، ابو مصعب الذھری، صفوان بن صالح، ابراہیم بن منذر، ہشام بن عمار، زہیر بن عباد، یحیٰ بن عبد الحمید الحمانی، محمد بن عبد اللہ بن نمیر، امام احمد بن حنبل، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، یحیٰ بن بشر الحریری، شیبان بن فروخ، سوید بن سعید، ھدبہ بن خالد، محمد بن ابان الواسطی، حرملۃ بن یحیٰ، اسماعیل بن عبید الحرانی، یعقوب بن حمید، عیسیٰ بن حماد، سحنون بن سعید الفقیہ، عثمان بن ابی شیبہ، عبد اللہ قواریری، ابوکریب، امام بندار، امام فلاس، کثیربن عبید ، ابراہیم بن محمد شافعی، احمد بن ابراہیم دورقی‘‘-[3]
تلامذہ:
آپ سے مستفید ہونے والے بے شمار علماء و محدثین ہیں ان میں سے چند مشہور اصحاب کے نام یہ ہیں:
’’احمد بن بقی یہ ان کے بیٹے ہیں، ایوب بن سلیمان المری، احمد بن عبد اللہ اموی، اسلم بن عبد العزیز، محمد بن وزیر، محمد بن عمر بن لبابہ، حسن بن سعد الکنانی، عبد اللہ بن یونس، عبد الواحد بن حمدون، ہشام بن ولید الغافقی‘‘-[4]
حدیث میں علمی مقام و مرتبہ:
امام بقی بن مخلد نے اس زمانے کے دستور کے مطابق علم حدیث کی جانب زیادہ توجہ کی اور اس میں اتنا کمال پیدا کیا کہ ان کا شمار اکابر محدثین میں ہوتا ہے –مؤرخٰین اور علمائے سیر نے لکھا ہے کہ :
بالغ فی الجمع والروایۃ یعنی حدیث کی روایت و تحریر میں ان کو بڑا انہماک تھا-حفظ و ضبط اور صدق و ثقاہت میں بھی ممتاز تھے-علامہ ذہبی نے ان کو ثقہ، حجت، ثبت اور حافظ ابن عساکر نے الحافظ اور امام حمیدی نے من الحفاظ المحدثین لکھا ہے-حدیث کے ضبط و نقل میں ان کی احتیاط اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ ان کو کم سنی میں سفیان ثوری کےبعض تلامذہ سے ملاقات و استفادہ کا موقع ملا تھا مگر ان سے روایت کرنے سے احتراز کیا-
علم و فضل اور آئمہ کرام کی آراء:
آپ علم کے میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اس لئے محدثین اور ارباب علم نے ان کے دینی و علمی کمالات کا اعتراف کیا ہے-علامہ ذہبی نے ان کو امام القدوۃ، احد الائمۃ الاعلام، عدیم المثال اور یکتائے روزگار لکھا ہے-
علامہ احمد بن ابی خیثمہ فرماتے ہیں:
’’ھل یحتاج بلد فیہ بقی ان یاتی منہ الینا احد‘‘[5]
’’جس شہر میں امام بقی جلوہ گر ہوں وہاں کے کسی آدمی کو ہم لوگوں کے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے‘‘-
علامہ طاہر بن عبد العزیز فرماتے ہیں:
’’حملت مع نفسی جزاء من مسند ابی عبد الرحمٰن بقی بن مخلد الی المشرق فاریتہ محمد بن اسماعیل الصائغ فقال ما اغترف ھذا الامن بحر علم و عجب من کثرۃ علمہ‘‘[6]
’’میں مسند بقی کا ایک جزلے کر مشرق کی طرف گیا اور محمد بن اسماعیل صائغ کو دکھایا تو انہوں نے فرمایا یہ شخص علم کا سمندر ہے اور انہوں نے آپ کے کثرت علم پر تعجب کیا‘‘-
حافظ ابن لبابہ فرماتے ہیں:
’’کان بقی من عقلاء الناس و افاضلھم‘‘[7]
’’امام بقی عقلاء اور افاضل علماء میں سے تھے‘‘-
امام ذہبی آپ کی علمی وجاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’کان اماماثقة حجۃ عدیم النظیر فی زمانہ‘‘[8]
’’آپ ثقہ، حجت اور اپنے زمانے میں بے مثال امام تھے‘‘-
تفقہ و اجتہاد:
آپ ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ و اجتہاد میں بھی نمایاں مقام رکھتے تھے –انہوں نے فقہ افریقہ میں علامہ سحنون بن سعید سے حاصل کی وہ کسی خاص امام یا مذہب کے پابند نہیں تھے بلکہ خود فقیہ و مجتہد اور صاحب اختیارات تھے-
اس لئے امام ذہبی اور علامہ ابن عساکر فرماتے ہیں:
’’وکان مجتھدا متخیرا لا یقلد احدا‘‘[9]
’’وہ مجتہد، صاحب اختیارات اور کسی امام کے مقلد نہ تھے‘‘-
کیونکہ آپ مجتہدین اور فقہاء کی تقلید کی بجائے براہ راست احادیث و آثار کی پیروی کرتے تھے اس لئے آپ کو علماء و فقہاء کی ایک جماعت کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا-اس زمانہ میں اندلس میں فقہ مالکی کا غلبہ تھا اس لئے عموماً لوگوں کو مؤطا امام مالک اور اہل مدینہ کی حدیثوں سے زیادہ واقفیت تھی اور اس کے مقابلے میں اہل عراق کے متعلق یہ بدگمانی تھی کہ وہ قلیل الاحادیث ہیں- چنانچہ امام بقی نے جب مصنف ابن ابی شیبہ کا جس کو وہ اپنے ساتھ لائے تھے درس دینا شروع کیا اور احادیث کی نشر و اشاعت شروع کی توفقہاء کی ایک جماعت مسائل میں اختلاف کو برداشت نہ کرسکی اور امام صاحب کی مخالفت شروع کردی عوام کو بھی ان کے خلاف بھڑکا دیا ان کو مخالفت کے اس طوفان سے مجبور ہو کر درس و تدریس کا مشغلہ ترک کر دینا پڑا- جب فرمانروائے اندلس محمد بن عبد الرحمٰن بن حکم اموی کو جو خود بھی صاحب علم اور علم و فن اور علماء کا بڑا قدر شناس تھا اس ہنگامہ کی خبر ہوئی تو اس نے شیخ الاسلام اور ان کے مخالفین کو طلب کیا اور مصنف ابن ابی شیبہ کو منگوا کر خود اس کا مطالعہ کیا اور اس قدر پسند کیا کہ اپنے کتب خانہ کیلئے اس کی نقل فراہم کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہمارا کتب خانہ ایسی اہم کتاب سے خالی نہیں ہونا چاہیے اور امام بقی سے کہا کہ آپ علم کی نشرواشاعت جاری رکھیں اور احادیث رسول (ﷺ) کا جو ذخیرہ آپ کے پاس ہے اس سے لوگوں کو فیض یاب فرمائیں اور مخالفین کو بھی تنبیہ فرمائی کہ ان سے آئندہ کسی قسم کا تعرض نہ کریں-[10]
علوم کی نشرو اشاعت:
آپ کا ایک بہت بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مشرقی ممالک سے واپسی کے بعد اندلس کی سرزمین کو احادیث و روایات کی نشرواشاعت سے معمور کر دیا حافظ ابن عساکر فرماتے ہیں:
’’رجع الی الاندلس فملا ھا علماجما‘‘[11]
’’جب آپ اندلس لوٹے تو اس کو علوم سے بھر دیا‘‘-
آپ نے متعدد اہم اور امہات کتب کو لکھا اور ان کو اندلس میں متعارف فرمایا مؤرخین فرماتے ہیں:
’’کتب المصنفات الکبار و ادخلھا الاندلس و نشر بھا علم الحدیث‘‘[12]
’’وہ بڑی اور بلند پایہ کتابوں کو نقل کر کے اندلس لائے اور یہاں علم حدیث کی اشاعت کی‘‘-
علامہ ابو الولید بن فرضی فرماتے ہیں کہ:
مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الام للامام الشافعی، کتاب التاریخ، و کتاب الطبقات لخلیفہ بن خیاط اور سیر عمر بن عبد العزیز کو وہی اندلس لائے اور اہل اندلس کو اس سے متعارف کروایا-[13]
زھد و تقویٰ:
آپ زہد و تقویٰ میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتے تھے وہ شب بیدار اور نوافل و تہجد کے پابند تھے-علامہ ذہبی آپ کے زھد و تقویٰ کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
’’و کان اماما مجتھدا صالحا ربانیا صادقا مخلصا رأسا فی العلم و العمل‘‘[14]
’’وہ مجتہد، صالح عالم ربانی، صادق، مخلص اور علم و عمل میں انتہائی درجے کو پہنچے ہوئے امام تھے‘‘-
’’تذکرۃ الحفاظ ‘‘میں امام ذہبی فرماتے ہیں کہ:
’’وہ صالح، عابد اور تہجد گزار تھے‘‘-
علامہ ابو الولید ابن الفرضی فرماتے ہیں:
’’وکان بقی و رعا فاضلا زاھدا‘‘[15]
’’امام بقی صاحب تقویٰ، فاضل اور زاہد تھے‘‘-
آپ کے اسی زہد وتقویٰ کی بنا پر مؤرخین اور آئمہ سیر نے لکھا ہے کہ وہ آئمہ محدثین اور زہاد صالحین میں سے تھے-تلاوتِ قرآن مجید کی کثرت آپ کا معمول تھا رمضان شریف کے علاوہ بھی اکثر مسلسل روزے رکھتے تھے لیکن جمعہ کو افطار کرتے تھے-حج بیت اللہ کا اہتمام بھی آپ کا معمول رہا-
علامہ شہاب الدین الحموی فرماتے ہیں:
’’انہ کان یطوف فی الامصار علی اھل الحدیث فاذا اتی وقت الحج اتی الی مکۃ فحج ھذا کان فعلہ کل عام فی رحلتیہ جمیعا‘‘[16]
’’وہ سال بھر مختلف شہروں کے علمائے محدثین کی خدمت میں حاضر ہوکر علم و فن کی تحصیل کرتے تھے جب حج کا وقت آتا تو مکہ جاکر حج ادا کرتے اور آپ کے تمام سفروں میں ہر سال ان کا یہی معمول رہا‘‘-
آپ بڑے متواضع اور بااخلاق تھے لوگوں کے درد و غم میں شریک رہتے ان کی حاجت روائی کرتے-مریضوں کی عیادت اور جنازوں میں شرکت بڑے شوق سے کرتے ہر نیک کام میں رغبت تھی کبھی کسی سائل کو خالی واپس نہ کرتے-اگر کچھ نہ ہوتا تو کپڑے تک دے دیتے،مستجاب الدعوات تھے-اکثر لوگ ان کی دعا کی برکت و تاثیر کی وجہ سے ان سے دعا کی فرمائش کرتے تھے ان میں ایک امتیازی وصف یہ بھی تھا کہ ان میں جہاد کا جذبہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا چنانچہ وہ کئی جنگوں میں شریک ہوئے-
تصانیف:
امام بقی کثیرالتصانیف اور صاحب کمال مصنف تھے -ابن عساکر نے لکھا ہے کہ انہوں نے نہایت عمدہ کتابیں لکھیں جو ان کی جامعیت، دقت نظر، کثرت مطالعہ اور وسعت معلومات پر شاہد ہیں ان کی تصنیفات بے نظیر اور اسلام کی اہم اور بنیادی کتب میں شمار کی جاتی ہیں-مگر افسوس ہے کہ بہت سے قدماء کی طرح ان کی کتابیں ناپید ہوگئیں جن کتابوں کے نام معلوم ہوسکے ہیں-
وہ درج ذیل ہیں:
v کتاب التفسیر: یہ بڑی عمدہ تفسیر ہے اس کی اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوجاتی ہے کہ امام ذہبی اور امام یافعی نے اس کو جلیل القدر بیان کیا ہے-علامہ ابن حزم کے خیال میں یہ ایک لاجواب اور عدیم المثال تفسیر ہے وہ اس کوتفسیر ابن جریر پر بھی ترجیح دیتے تھے-
v مسند الکبیر: یہ ان کی سب سے اہم اور عظیم الشان تصنیف ہے جو 1300سے زائد صحابہ کرام کی حدیثوں پر مشتمل ہے-اس کتاب کو انہوں نے صحابہ کے ناموں پر مرتب کیا ہے ہر صحابی کی حدیث کو فقہ و احکام کے ابواب و عنوانات کے تحت نقل کیا ہے-اس اعتبار سے یہ مسند بھی ہے اور مصنف بھی-علامہ ابو محمد علی بن احمد اس مسند کی اہمیت و عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’وما اعلم لاحد ھذہ الرتبۃ قبلہ مع ثقتہ و ضبطہ و اتقانہ فی الحدیث و جودۃ شیوخہ فانہ روی عن مأتی رجل و اربعۃ و ثمانین رجلا لیس فیھم عشرۃ ضعفاء و سائرھم اعلام مشاہیر‘‘-[17]
’’میرے علم میں اس مرتبہ و اہمیت کی اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں لکھی گئی انہوں نے اپنی ثقاہت، ضبط، اتقان حدیث میں جامعیت اور جودتِ شیوخ کے باوجود 284 راویوں سے اس کی روایت کی ہے جو قریب قریب سب مشہور اور بلند پایہ محدث ہیں‘‘-
v فتاوائے صحابہ و تابعین ومن دونہم-[18]
وفات:
مشہور اور صحیح روایت کے مطابق انہوں نے 29 جمادی الثانی 276ھ کو اندلس میں وفات پائی-محمد بن یزید نے نماز جنازہ پڑھائی اور بنو عباس کی جانب منسوب ایک قبرستان میں دفن کئے گئے-[19]
٭٭٭
[1](تاریخ علماء الاندلس، جزـ1، ص:109)
[2](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:292-293)
[3](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:285)
[4](ایضاً، ص:286)
[5](تذکرۃ الحفاظ، جز:2، ص:152)
[6](تاریخ علماء الاندلس، جزـ1، ص:108)
[7](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:292)
[8](تذکرۃ الحفاظ، جز:2، ص:152)
[9](تاریخ دمشق، جز:10، ص:358)
[10](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:288)
[11](تاریخ دمشق، جز:10، ص:358)
[12](الاکمال فی رفع الارتیاب: جز:1، ص:344)
[13](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:287)
[14](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:286)
[15](تاریخ علماء الاندلس، جزـ1، ص:109)
[16](معجم الادباء، جز:2، ص:748)
[17](جذوۃ المقتبس فی ذکر ولاۃ الاندلس، جز:1، ص:177)
[18](ایضاً)
[19](تاریخ علماء الاندلس، جزـ1، ص:109)