شیخ السلام امام جمال الدین زیلعی الحنفیؒ

شیخ السلام امام جمال الدین زیلعی الحنفیؒ

شیخ السلام امام جمال الدین زیلعی الحنفیؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جولائی 2021

نام و نسب:

آپ کا نام عبد اللہ، کنیت ابو محمد اور لقب جمال الدین ہے اور نسب نامہ کچھ یوں ہے عبد اللہ بن یوسف بن محمد بن ایوب بن موسیٰ-[1]آپ کے نام میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض نے والد کا  نام عبد اللہ اور ان کا نام یوسف ذکر کیا ہے-[2]

ولادت و وطن:

امام زیلعی کی ولادت کے سن کا تذکرہ تو نہیں ملتا مگر ان کا وطن زیلع ہے-یہ ایک ایسا گاؤں ہے جو بحر حبشہ کے ساحل پر ایک بندرگاہ کی صورت میں ہے-اس گاؤں کو دوسرے اکابر علماءفن کا وطن ہونے کا اعزاز بھی ہے-امام فخر الدین زیلعی جو کہ شارح کنز ہیں ان کا وطن بھی یہی سرزمین ہے-[3]

اساتذہ وشیوخ:

امام صاحب نے بڑے نامور آئمہ فن سے اکتسابِ علم کیا جن علماء و محدثین سے آپ نے شرفِ تلمذ  حاصل کیا ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

ابن عقیل، شہاب احمد بن محمد بن فتوح تجیبی، شہاب احمد بن محمد بن قیس  الانصاری، محمد بن احمد بن عثمان، جلال الدین علی بن عبدا لوہاب الجریری، تقی الدین بن عبد الرزاق  لخمی، تاج الدین محمد بن عثمان، جمال الدین عبد اللہ بن احمد بوری، ابو محمد فخر الدین عثمان بن علی شارح کنز، قاضی علاؤ الدین بن ترکمانی-[4]

علمی مقام و مرتبہ:

امام جمال الدین زیلعی ایک باکمال علمی شخصیت تھے آپ کا شمار نامور علماء محدثین اور فقہاء میں ہوتا ہے-اصحاب سیر نے نہ صرف ان کے علمی کمالات کا اعتراف کیا ہے بلکہ انہوں نے  آپ  کو ’’الامام الحافظ، الشیخ الامام البارع، المحدث،  العلامہ‘‘ جیسے القابات سے نوازا ہے-وہ حدیث میں ایک نامور اور باکمال شخصیت تھے یہی وجہ ہے کہ علمائے فن نے امام زیلعی کے حفظ و ضبط اور ثقاہت و اتقان کو بہت سراہا ہے-فن حدیث کی طلب و تحصیل اور ہدایہ و کشاف کی حدیثوں کی تخریج سے ان کے علمی تبحر، وسعتِ نظر حدیث میں کثرتِ اشتغال کا اندازہ ہوجاتا ہے-

وہ حدیثوں کے متون و مطالب کی طرح ان کے طرق و اسناد پر بھی اچھی نظر رکھتے تھے اور  فن جرح و تعدیل اور اسماء الرجال کے ماہر تھے-اس پر ان کی تخریج شاہد ہے یہی وجہ ہے کہ مولانا عبد الحیی لکھنوی ’’الفوائد البھیہ‘‘ میں آپ کے علمی کمال کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’و تخریج شاہد علی تبحرہ فی فن الحدیث و اسماء الرجال و وسعۃ نظرہ فی فروع الحدیث الی الکمال‘‘[5]

’’زیلعی کی تخریج ان کے فن حدیث اوراسماء الرجال میں ان کے تبحر پر اور حدیث کی جزئیات  و فروع میں ان کی وسعتِ نظر پر شاہد ہے‘‘-

اسی چیز کےپیش نظر علامہ سیوطی نے مصر کے حفاظِ حدیث اور نقادانِ فن میں ان کا ذکر کیا ہے-

امام زیلعی اصلاً حدیث و فقہ میں زیادہ ممتاز تھے مگر دوسرے علوم سے بھی ان کی دلچسپی کم نہ تھی وہ  دوسرے علوم میں بھی بڑی مہارت رکھتے تھے-

علامہ ابو المحاسن جمال الدین اپنی کتاب ’’النجوم الزاہرہ‘‘ میں ارشاد فرماتے ہیں:

’’وکان فاضلا بارعا فی الفقہ والاصول و الحدیث و النحو و العربیہ و غیر ذالک‘‘[6]

’’وہ فقہ، اصول، حدیث، نحو اور دیگر عربی علوم میں فاضل اور کامل تھے‘‘-

یہی وجہ ہے کہ آپ کے علمی اشتغال و انہماک کا ذکر تمام ارباب سیر نے کیا ہے-

فقہی مہارت:

امام جمال الدین زیلعی نہ صرف ایک عظیم محدث تھے بلکہ فقہ میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتے تھے-وہ مسلکاً حنفی تھے ان کا شمار آئمہ احناف میں ہوتا ہے-اسی بنا پر وہ حنفی کی نسبت سے بھی مشہور ہیں-اصحابِ سیر نے ان کی فقہی بصیرت کا اعتراف کیا ہے-

علامہ خیر الدین زرکلی فرماتے ہیں:

’’ھو فقیہ عالم باالحدیث‘‘[7]

’’وہ فقیہ اور حدیث کے عالم تھے‘‘-

علامہ عبد الحیی لکھنوی ان کے فقہی مقام کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کان من اعلام العلماء و برع فی الفقہ و الحدیث‘‘[8]

’’وہ علماء کے سرداروں میں سے تھے-آپ  فقہ اور حدیث میں کامل تھے‘‘-

آپ کی فقاہت  کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نصب الرایہ کے مقدمے میں یہ بات مذکور ہے-

’’ان الشیخ ابن الھمام کل ماذکرہ فی فتح القدیر من ادلۃ مذھبنا مستفاد من تخریج الام الزیلعی‘‘[9]

’’شیخ ابن ھمام نے ہدایہ کی شرح ’’الفتح القدیر‘‘ میں حنفی مذہب کے جو دلائل تحریر کئے ہیں وہ زیادہ تر زیلعی کی تخریج سے مستفاد ہیں‘‘-

علامہ ابن فہد ان کو الفقیہ الامام کے لقب سے یاد کرتے ہیں-آپ کی تخریج سے بھی آپ کے فقہی کمال اور علمی جلالت کا اندازہ ہوجاتا ہے-

اخلاق و عادات:

آپ بڑے اچھے اخلاق و عادات کے مالک تھے-طبیعت میں نرمی، مروت اور شرافت تھی-اس لئے دوسرے مسلک کے لوگوں کے لئے بھی ان کے قلب میں نہ صرف گنجائش تھی بلکہ وہ ان سے میل جول بھی رکھتے تھے-تواضع اور خاکساری کا یہ حال تھا کہ اپنے سے  کمتر درجہ کے لوگوں کے ساتھ مل کر حدیث کی کتابوں کا مطالعہ کرنے میں ان کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتی تھی-انصاف پسندی  کایہ عالم تھا کہ حدیثوں کی شرح و توجیہ اور ان کے مباحث و مسائل کی تحقیق میں فقہی اور مسلکی عصبیت کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے تھے آپ نہایت حق گو اور انصاف پسند تھے- ہر باب میں اپنے مذہب کے مخالفین کے دلائل بھی نہایت فراخ دلی سے بیان کرتے ہیں ان کو جو کچھ معلوم ہوتا تھا بغیر کسی تردد کے نقل کر دیتے تھے-اپنی اسی شرافت، حسن و اخلاق، میانہ روی اور عدل پسندی کی وجہ سے ہر طبقہ و مسلک کے لوگوں میں بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھے-

علمی کمال کی طرح عبادت و ریاضت اور تقویٰ میں بھی ممتاز تھے- کہا جاتا ہے کہ وہ مشائخ صوفیاء میں سے تھے عبادت و ریاضت اور مجاہدات سے بڑا شغف رکھتے تھے اور ان کا دل رذائل سے پاک صاف تھا-[10]

تصنیفات:

امام زیلعی محدث و فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور مصنف بھی تھے ان کی چند کتابوں کے بارے معلوم ہو سکا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:

v    مختصر معانی الآثار: یہ امام طحاوی کی مشہور اور بے نظیر کتاب  معانی الآثار کا مختصر ہے-

v    تخریج احادیث الکشاف: اس میں علامہ زمخشری کی مشہور تفسیر کشاف کی حدیثوں اور آثار کی تخریج کی گئی ہے-لیکن ابو عبد اللہ محمد بن ابی الفیض الکتانی فرماتے ہیں:

’’لکنہ فاتہ کثیر من الاحادیٹ المرفوعیۃ التی یذکرھا الذمخشری بطریق الاشارہ و لم یتعرض‘‘[11]

’’لیکن بہت ساری احادیث مرفوعہ ایسی تھیں جن کا علامہ زمخشری نے بطریق اشارہ ذکر کیا تھا وہ ان سے رہ گئیں اور انہوں نے اس کا تعرض نہیں کیا‘‘-

اس کمی کے باوجود علامہ ابن حجر عسقلانی اس کے استیعاب کے نہ صرف معترف ہیں بلکہ فرماتے ہیں کہ مرفوع حدیثوں کی تخریج اور ان کےاسناد و طرق کی وضاحت میں خصوصیت سے اہتمام کیا گیا ہے اور نہایت دقتِ نظر سے کام لیا گیا ہے-پھر علامہ  ابن حجر نے امام زیلعی کی تخریج احادیث الکشاف کا ملخص تیار کیا جس کا نام الکافی الشاف فی تخریج احادیث الکشاف رکھا-اس میں علامہ ابن حجر نے وہ تمام احادیث مرفوعہ اور آثار موقوفہ درج کردیے جن کو علامہ زمخشری نے بطریق اشارہ ذکر کیا تھا اور امام زیلعی نے ان کی تخریج نہیں کی تھی-[12]

v    نصب الرایہ فی تخریج  احادیث الھدایہ: یہ امام زیلعی کی بڑی مفید اور مشہور کتاب ہے اگر انہوں نے کوئی اور کتاب نہ بھی لکھی ہو تی تو تنہا یہ کتاب ہی ان کے فضل و کمال اور شہرت و مقولیت کے لئے کافی تھی-اس میں  انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور اورمعرکۃ الآرا کتاب الہدایہ کی حدیثوں کی تخریج کی ہے اس کی بعض نمایاں  اور اہم خصوصیات یہ ہیں:

1-یہ ہدایہ کی سب سے اہم اور پہلی  تخریج ہے اس کی اس سے عمدہ اور بہتر کوئی تخریج نہیں لکھی گئی لہذا اس کو ہدایہ کی تمام تخریجات میں اولیت کا شرف حاصل ہے- بعض لوگوں نے علاؤ الدین ترکمانی جو امام زیلعی سے پہلے گزرے ہیں ان کی بھی ایک تخریج ہدایہ کا ذکر کیا گیا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے-انہوں نے ہدایہ کی تخریج کی بجائے اس کی شرح اور خلاصہ لکھا تھا-البتہ ان کے ہم عصر حافظ عبد القادر قرشی صاحب جواہر مضیہ کی تخریج کا ثبوت ملتا ہے مگر یہ تو نہ متداول ہے اور نہ  اس کا کوئی مکمل نسخہ موجود ہے-علاوہ ازیں قرشی کا طبقہ زیلعی سے متاخر ہے اس لئے ان کی تخریج بھی زیلعی کے بعد لکھی گئی ہوگی اسی طرح حافظ ابن حجر کا زمانہ بھی زیلعی کے بعد کا ہے ان کی کتاب الدرایہ دراصل نصب الرایہ کا ملحض ہے-

2-یہ تخریج لکھ کر مصنف نے جس طرح حنفی مذہب کی عظیم الشان خدمت انجام دی ہے اسی طرح دوسرے فقہی مذاہب کی بھی غیر معمولی خدمت سر انجام دی ہے کیونکہ اس تخریج میں انہوں نے صرف حنفی مسلک اور اس کے دلائل بیان کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دوسرے آئمہ کے مذاہب اور ان کے دلائل، تخریجات، تفریعات بھی تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں-

اس اعتبار سے یہ محض حنفی مذہب و مسلک ہی کا عمدہ اور بیش قیمت ذخیرہ نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت دائرۃ المعارف اور انسائیکلوپیڈیا کی ہے جس میں تمام آئمہ مجتہدین  و فقہائے امصار کے مسالک و دلائل کی مکمل تفصیل موجود ہے-

امام زیلعی نے جہاں اس میں حنفی آئمہ کی امہات کتب سے معلومات و سائل نقل کئے ہیں وہیں شوافع میں امام بیہقی، امام نووی اور ابن دقیق العید مالکیہ میں ابن عبد البر اور حنابلہ میں ابن جوزی اور ابن عبد الہادی وغیرہ اساطین مذہب کی کتابوں  کے مباحث و مندرجات کا بھی منتخب حصہ شامل کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ علمائے احناف کی طرح دوسرے مذاہب کے علما بھی اس سے نقل و استفادہ کر رہے ہیں-

3-اس میں فقہ و حدیث اور رجال کی اکثر کتابوں کے مباحث و مطالب درج ہیں اس لئے اس کو دیکھنے کے بعد ان کتابوں کی احتیاج باقی نہیں رہتی-متعدد ایسی کتابوں کے مندرجات بھی جمع کئے گئے ہیں جو اب نایاب اور معدوم ہیں-

4-احکامی احادیث و روایات کے لحاظ سے یہ بے نظیر کتاب ہے علاوہ ازیں حدیثوں سے مستنبط مسائل اور فقہی فوائد و مطالب پر مصنف نے بڑی عالمانہ گفتگو کی ہے اور بحث و تحقیق کا حق ادا کر دیا ہے-

5-اس کی اہم خصوصیت امام صاحب کی انصاف پسندی اور غیر جانبداری ہے ان کا اصل مقصد ہدایہ کی حدیثوں کی تخریج اور حنفیہ کےنقطۂ نظر کے دلائل و شواہد پیش کرنا ہے مگر انہوں نے دوسرے فقہی مذاہب اور آئمہ مجتہدین کے اقوال و دلائل بھی نہایت  دیانتداری کے ساتھ بیان کئے ہیں نہ کسی طرح کی عصبیت اور جانبداری  سے کام لیا ہے اور نہ ہی اپنے مذہب و مسلک کی بے جا حمایت اور تائید کی ہے-

صرف فقہی حیثیت سے ہی اس کتاب کی اہمیت نہیں ہے بلکہ یہ حدیث نبوی (ﷺ) کی بھی نہایت مفید اور عظیم الشان  خدمت ہے کیونکہ یہ حدیث کے مباحث و مطالب، متون و اسناد اور اصول حدیث کے بعض مسائل پر نادر تحقیقات اور پُر مغز معلومات کا بھی ایک خزانہ ہے چنانچہ حدیثوں کی صحت و عدم صحت اور اسناد  و رجال کی قوت و ضعف کا اس سے مکمل اندازہ ہوجاتا ہے کیونکہ امام صاحب نے یہ تصریح کر دی ہے کہ اس سند میں فلاں راوی مجروح یا متکلم فیہ ہے-اسی طرح اگر کسی حدیث کے ہم معنی دوسری حدیثیں بھی ہوتی ہیں تو وہ ان کو بھی مع سندو  متن ذکر کر دیتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ جرح و تعدیل کے موضوع پر آئمہ فن اورعلم رجال و اسناد کے ماہرین کے اقوال کا ایک عظیم الشان ذخیرہ ہے-اگر ان بحثوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو یہ فنِ جرح تعدیل کا ایک ضخیم مجموعہ بن جائے گا-

7- اس کتاب سے حدیثوں کے ماخذ و مرجع کا علم ہو جاتا ہے کیونکہ زیلعی نے ہر ہر حدیث کے بارے یہ تحریر کر دیا ہے کہ اس کو کس محدث نے اپنی کس کتاب میں نقل کیا ہے-

ان تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے  نہ صرف نصب الرایہ کی اہمیت و افادیت کا پتہ چلتا ہے بلکہ امام زیلعی کے علمی تبحر و شان کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے- در حقیقت یہ کتاب فقہ و حدیث، اصولِ حدیث اور رجال کا ایسا مفید اور مستند ذخیرہ  ہےجس کے مطالعہ سے کوئی محدث و فقیہ بے نیاز نہیں رہ سکتا-[13]

وفات:

آپ کا وصال 762ھ میں قاہرہ میں ہوا اور وہیں آپ کی تدفین کی گئی -[14]

٭٭٭


[1](لحظ الالحاظ بذیل طبقات الحفاظ، جز:1، ص:88)

[2](الرسالۃ المستطرفۃ، جز:1، ص:186)

[3](ایضاً)

[4](لحظ الالحاظ بذیل طبقات الحفاظ، جز:1، ص:88)

[5](الفوائد البھیۃ، ص:95)

[6](النجوم الزاھرہ، جز:11، ص:10)

[7](الاعلام، جز:4، ص:147)

[8](الفوائد البھیۃ، ص:95)

[9](مقدمہ نصب الرایہ، ص:36)

[10](تذکرۃ المحدثین، ج:2، ص:248)

[11](الرسالۃ المستطرفہ، جز:1، ص:186)

[12](ایضاً)

[13](تذکرۃ المحدثین، ج:2، ص:249-252)

[14](الدرر الکامنۃ، جز:3، ص:95)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر