سید الحفاظ ، فقیہ العصر امام سفیان بن سعید الثوریؒ

سید الحفاظ ، فقیہ العصر امام سفیان بن سعید الثوریؒ

سید الحفاظ ، فقیہ العصر امام سفیان بن سعید الثوریؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری ستمبر 2022

تعارف:

آپ کا نام سفیان،کنیت ابو عبداللہ اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے -سفیان بن سعید بن مسروق بن حبیب بن رافع بن عبداللہ بن موہبۃ بن ابی بن عبداللہ بن منقذ بن نصر بن حارث بن ثعلبہ بن عامر بن ملکان بن ثوربن عبدمناۃ-

آپ سن 97ھ میں سلیمان بن عبد الملک کی خلافت کے زمانے میں کوفہ میں پیداہُوئے-[1]

اُن کو ثوربن عبدمناۃ کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے الثوری کہا جاتاہے کیونکہ آپ کوفہ میں پیدا ہوئے اور یہیں انہوں نے نشوونما پائی تو اس لحاظ سے اُن کو الکوفی بھی کہاجاتاہے -

انہوں نے اپنی تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم سعید بن مسروق سے کیا آپ کے والد امام شعبی اور خیثمہ بن عبد الرحمٰن کے اصحاب میں سے تھے اور اُن کا شمار کوفہ کے ثقات محدثین میں ہوتاتھا -[2]

اساتذہ: 

آپ نے اپنے والد کے علاوہ بھی بہت سارے آئمہ فن اور محدثین سے اکتساب علم کیا اُن میں سے چند درج ذیل ہیں:

’’ابو اسحاق السبیعی،عمر بن مرۃ ،منصور بن معتمر، سلمہ بن کہیل، حبیب بن ابی ثابت، عبد الملک بن عمیر، ابو حصین، الاعمش اسماعیل ابی خالد، حصین بن عبد الرحمٰن، ایوب السنحتیانی یونس بن عبید ، سلیمان التیمی ، عمربن دینار، عبد اللہ بن دینار ابو الزناد، العلاءبن عبد الرحمٰن، سہیل بن ابی صالح‘‘(رحمۃ اللہ علیھم)-[3]

تلامذہ: 

آپ سے شرف تلمذ پانے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :

محمد بن عجلان،معمربن راشد، امام اوزاعی، ابن جریج، محمد بن اسحاق، امام مالک، امام شعبہ، ابن عیینہ، زھیربن معاویہ، ابراھیم بن سعد ،سلیمان بن بلال ، ابوالا حوص سلام بن سلیم، حماد بن سلمہ، عبثربن القاسم، فضیل بن عیاض، زائدہ بن قدامہ یحی بن سعید القطان، عبد الرحمٰن بن مہدی، امام وکیع ، عبداللہ بن مبارک ، عبید اللہ اشجعی ،محمد بن یوسف الفریابی ابو نعیم اور قبیصہ بن عقبہ(رحمۃ اللہ علیھم)-[4]

حدیث میں علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ فن کی توثیقات و آراء: 

امام سفیان ثوری اپنے عہد کی ایک مایہ ناز علمی شخصیت تھے -اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی دولت سے خوب مالامال کیا تھا-آپ علمی میدان کے شاہکار اور علماء و آئمہ کے سر خیل تھے وہ علوم دینیہ میں نہ صرف نمایاں مقام رکھتے تھے بلکہ اُن کی معراج کو پہنچے ہُوئے تھے-آپ ایک ہمہ جہت شخصیت ہونے کی وجہ سے وہ ایک عظیم صوفی، مفسر ، محدث، فقیہ اور مصنف تھے- اس لیے تمام علماء وآئمہ فن اور اصحاب سیر آپ کی علمی امامت وثقاہت پر متفق ہیں اور انہوں نے مختلف انداز میں اُن کے علمی کمال اور شان کو بیان کیا ہے -

امام شعبہ فرماتے ہیں:

’’سفیان امیرالمؤمنین فی الحدیث ‘‘[5]

امام سفیان ثوری امیر المؤمنین فی الحدیث تھے -

 علامہ ابن خلکان اُن کے علمی کمال کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’کان امامافی علم الحدیث و غیرہ من العلوم و اجمع الناس علی دینہ وثقتہ و ہو احد الائمۃ المجتہدین‘‘[6]

و ہ علِم حدیث اور دیگر علوم دینیہ کے امام تھے اور علماء کااُن کی دیانت و ثقاہت پراجماع ہے وہ آئمہ مجتہدین میں سے ایک تھے ‘‘-

یونس بن عبید فرماتے ہیں کہ:

’’ مارایت کو فیاافضل من سفیان ‘‘

’’میں نے امام سفیان سے افضل کو ئی کوفی نہیں دیکھا‘‘-[7]

امام صاحب علم کے بحِر بے کنارتھے -اس لیے بشربن حارث فرماتے ہیں:

’’کان سفیان الثوری کان العلم بین عینیہ یا خذ منہ مایر ید ویدع منہ مایرید‘‘[8]

’’امام ثوری اس شان کے مالک تھے کہ گویاعلم اُن کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا اور جس کو لینے کا ارادہ کرتے تھے اُس کو لے لیتے اور جس کو چھوڑنا چاہتے اُس کو چھوڑ دیتے تھے‘‘-

امام وکیع بن جراح فرماتے ہیں :

’’ و کان سفیان بحرا‘‘[9]

’’وہ علم کے سمندر تھے ‘‘-

یہ آپ کا علمی کمال ہی تھا کہ آئمہ فن نہ صرف علمی میدان میں اُن کو بے مثال قراردیتے تھے بلکہ بڑے بڑے نامور علماء و فقہاء کی آراء کے مقابلےمیں اُن کی رائے کو فوقیت دیتے تھے -

جیسا کہ علی بن مدینی فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے یحیی بن سعید سے سوال کیا آپ امام مالک اور امام سفیان ثوری کی آراء میں سے کس کو زیادہ پسند کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں امام سفیان ثوری کی رائے کو زیادہ پسند اور فوقیت دیتاہوں پھر یحیی بن سعید نے مزید کہا کہ سفیان ثوری امام مالک سے ہر معاملے میں فائق ہیں‘‘-[10]

ابو اسامہ آپ کے بے مثال ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’من اخبرک انہ رای مثل سفیان فلاتصدقہ‘‘

’’جو کوئی تجھے اس بات کی خبرد ے کہ اُس نے امام سفیان ثوری جیسا دیکھا ہے تو اُس کی بات کی تصدیق نہ کر‘‘-[11]

علامہ ورقاء فرماتے ہیں:

’’ لم یری الثوری مثل نفسہ ‘‘[12]

’’امام ثوری نے اپناجیسا نہیں دیکھا‘‘-

 

 

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مجھے امام ابن عیینہ نے کہا:

’’لن تری بعینک مثل سفیان الثوری‘‘[13]

’’تیری آنکھیں سفیان ثوری جیسا ہر گز نہیں دیکھیں گی‘‘-

جس انداز میں طبقاتِ صوفیہ میں سے بشر حافی نے اُن کی علمی وجاہت کو بیان کیا ہے تو اس سے اُن کا علمی مقام نکھر کر سامنے آجاتا ہے -آپؒ فرماتے ہیں :

’’کان الثوری عندناامام الناس وسفیان فی زمانہ کا بی بکر و عمر فی زمانھما‘‘

’’امام ثوری ہمارے نزدیک لوگوں کے امام تھے اور وہ اپنے زمانے میں ایسے تھے جیسے حضرت ابوبکرصدیق اور عمر (رضی اللہ عنھم)اپنے زمانے میں تھے‘‘-[14]

امام عبداللہ بن مبارک آپ کی علمی توثیق کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’لانعلم علی وجہ الارض اعلم من سفیان‘‘

’’ہم زمین پر سفیان سے زیادہ عالم نہیں جانتے ‘‘-[15]

اما م ثوری کا حفظ و ضبط 

حفظ و ضبط ایک نامور اور عظیم محدث کا لازمی جز ہوتاہے یہ ایک ایسا وصف ہے کہ جس کی وجہ سےعلم کے میدان میں ایک نمایاں اور امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے تو امام صاحب بھی اس اہم وصف کے ساتھ نہ صرف متصف تھے بلکہ ایک نمایاں مقام رکھتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ تذکرہ نگاروں نے جہاں اُن کی امامت و ثقاہت کا تذکرہ کیا ہے وہیں اُن کے حفظ و ضبط کابھی تذکرہ کیا ہے -

علامہ ابن مہدی فرماتےہیں:

 ’’مارایت احفظ للحدیث من الثوری ‘‘[16]

’’میں نے ثوری سے بڑھ کر حدیث کا حافظ نہیں دیکھا‘‘-

آپ کا حفظ و ضبط اتنا کمال کا تھا کہ امام شعبہ جیسا ایک عظیم محدث و حافظ کہتاہے کہ:

’’سفیان احفظ منی‘‘[17]

’’سفیان ثوری مجھ سے زیادہ حدیث کا حافظ ہے ‘‘-

علامہ ابو معاویہ آپ کے حفظ و ضبط کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’مارایت قط احفظ لحدیث الاعمش من الثوری کان یاتی فیذاکرنی بحدیث الاعمش فمارایت احدااعلم منہ بھا‘‘[18]

’’میں نے امام اعمش کی احادیث کا امام سفیان سے بڑھ کر کو ئی حافظ نہیں دیکھا وہ میرے ساتھ امام اعمش کی احادیث کا مذاکرہ کرتے تو میں دیکھتا کہ اُن کی احادیث کا امام صاحب سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں ہے‘‘-

حفظ و ضبط کا یہ عالم تھا کہ امام قطان فرماتے ہیں :

’’مارایت احفظ منہ کنت اذاسالتہ عن مسالۃ اوعن حدیث لیس عندہ اشتد علیہ‘‘[19]

’’میں نے اُن سے زیادہ کوئی حافظ نہیں دیکھا میں نے جب بھی اُن سے کسی مسئلے اور حدیث کے بارے سوال کیا تو انہیں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی یعنی وہ فورًابتا دیتے تھے ‘‘-

امام عبدالرزاق فرما تے ہیں کہ میں نے امام ثوری سے سنا آپ فرماتے ہیں :

’’ما استودعت قلبی شیاًفخاننی قط‘‘[20]

’’میں نے اپنے دل میں جو بھی شی ودیعت رکھی تو میرے دل نے اس پر خیانت نہیں کی ‘‘-

اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے جو بھی شی حفظ کی وہ مجھے بھولی نہیں -اُن کے اسی حفظ و ضبط کی بنا پر امام ابن سعد اُن کو کثیر الحدیث اور صاحب حجت شمار کرتے ہیں -

آپؒ فرماتے ہیں:

’’ وکان ثقۃ مامونا ثبتا کثیر الحدیث حجۃ‘‘[21]

’’وہ ثقہ، مامون،کثیرالحدیث اور صاحب حجت امام تھے‘‘-

امام ایوب سختیانی فرماتے ہیں:

’’ماقدم علینامن الکوفۃ احد افضل من سفیان الثوری ‘‘[22]

’’کوفہ سے ہم پر سفیان ثوری سے افضل کوئی نہیں آیا‘‘-

امام ثوری بحیثیت فقیہہ : 

امام ثوری ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور فقیہہ بھی تھے -آپ علِم فقہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے اور اپنے ہم عصر علماء سے فقہ اور اجتہاد میں فوقیت رکھتے تھے -

اس لیے علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں :

’’ھواحد الائمۃالمجتھدین ‘‘[23]

’’وہ آئمہ مجتہدین میں سے ایک تھے ‘‘-

آپ کی فقہ قرن خامس تک معمول بہ رہی ہے اور اُن کے مقلدین کو ثوری کہاجاتاتھا ،علماء و آئمہ فن نے مختلف انداز میں اُن کی فقاہت کو بیان کیاہے- امام سفیان بن عیینہ اُن کی فقہی مہارت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’مارایت رجلا اعلم بالحلال و الحرام من سفیان الثوری‘‘[24]

میں نے سفیان ثوری سے بڑھ کر حلال و حرام کو جاننے والانہیں دیکھا :

علامہ عباس الدوری فرماتے ہیں کہ میں نے یحی بن معین کو دیکھا کہ وہ

’’لایقدم علی سفیان احدافی زمانہ فی الفقہ و الحدیث‘‘[25]

’’وہ اپنے زمانے میں فقہ اور حدیث میں کسی کو بھی سفیان ثوری پر مقدم نہیں کرتے تھے‘‘-

علامہ الخریبی فرماتے ہیں کہ:

’’ما رایت افقہ من سفیان‘‘[26]

’’میں نے سفیان سے زیادہ فقیہہ کسی کو نہیں دیکھا‘‘-

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ:

’’ایک دفعہ علامہ الفریابی نے امام ابن عیینہ سے ایک فقہی مسئلہ کے بارے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا تو علامہ فریابی نے کہا کہ امام ثوری تو اس مسئلے میں آپ کی رائے کے خلاف رائے رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تیری آنکھیں سفیان ثوری جیسا کبھی بھی نہیں دیکھیں گی‘‘-[27]

علامہ حسن بن ربیع فرماتے ہیں کہ:

 میں نے عبداللہ بن مبارک سے اُن کی وفات سے چند دن پہلے سنا کہ آپ فرمارہے تھے :

’’وما احد عندی من الفقھاء افضل من سفیان بن سعید ‘‘[28]

’’میرے نزدیک سفیان بن سعید سے افضل فقہاءمیں سے کوئی نہیں ہے ‘‘-

امام اوزاعی جو کہ ایک مشہور محدث و فقیہہ ہیں، وہ فرماتے ہیں :

’’لوقیل لی اختر لھذہ الامۃ مااختر ت الاسفیان الثوری ‘‘

’’اگر مجھے کہا جائے کہ آپ اس امت کے علماء میں سے کسی کو اختیار کریں تو میں سفیان ثوری کو اختیار کروں گا‘‘-[29]

 

 

امام ثوری بحیثیت مفسر:

امام ثوری ایک مایہ ناز مفسر بھی تھے اُن کا شمار اپنے زمانے کے اکابر مفسر ین میں ہوتاتھا -اُن کا علم باالقرآن بہت وسیع اور گہرا تھا- قرآن مجید کو اُٹھاتے اور اُس کی تفسیر کرنا شروع کردیتے تھے-

اُن کے علم باالقرآن کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ آپ فرمایاکرتے تھے کہ :

’’سلونی عن المناسک و القرآن فانی بھما عالم‘‘[30]

’’تم مجھے سے مناسک اور قرآن کے بارے سوال کرو کہ میں ان دونوں کا عالم ہو ں-

امام صاحب قرآن کی تفسیربالرائے نہیں کرتے تھے بلکہ صحابہ اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں کرتے تھے-

اُن کی تفسیر کا اسلوب و نہج یہ تھا کہ ہر ہر لفظ اور آیت کی تفسیر نہیں کرتے تھے بلکہ جو مشکل مقامات ہوتے تھے اُ ن کی تفسیرکرتے تھے-

زہد و تقویٰ: 

امام سفیان ثوری میں زہد و تقوی انتہادرجے کا پایاجاتاتھا اُن کا شمار زھادمیں ہوتاتھا -آپ اللہ کی ذات سے اس طرح ڈرتے تھے جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے ،یہی وجہ ہے کہ آپ اہل ورع کے سردارتھے -امام شعبہ فرماتے ہیں :

’’ساد سفیان الناس باالورع والعلم ‘‘[31]

’’سفیان ثوری ورع اور علم میں لوگوں کے سردارتھے‘‘-

آپ کا زھد و تقوی اس درجے کا تھا کہ علماء کا اُن کے زھد و تقویٰ پر اجماع تھا -

علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں کہ:

’’اجمع الناس علی دینہ وورعہ وزھدہ ‘‘[32]

’’لوگوں کا اُن کی دیانت ،ورع اور زھد پر اجماع تھا ‘‘-

آپ فرمایا کرتے تھے:

’’افضل الاعمال الذھد فی الدنیا‘‘[33]

’’سب سے افضل عمل دنیامیں زھد اختیاکرنا ہے‘‘-

اُن کی خشیت الٰہی کا یہ عالم تھا کہ جب موت کا ذکر کرتے تو کئی کئی دن خاموش رہتے تھے جب اُن سے کسی چیز کے بارے سوال کیا جاتاتو فرماتے کہ میں نہیں جانتا اور آپ اکثر یہ دعا کرتے تھے کہ باری تعالیٰ تو ہمیں سلامتی عطاکر اور میری موت میں اور موت کے بعد تمام معاملات میں خیر و برکت عطافرما-

آپ قیام اللیل کے بڑے شائق تھے اس لیے وہ خود فرماتے ہیں کہ جب رات آتی ہے تومیں خوش ہوجاتاہوں اور جب دن آتاہے تو غمگین ہوجاتاہوں -

تلاوتِ قرآن مجید بھی آپ باقاعدگی سے کرتے تھے علامہ ابو خالد فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اُن کے ساتھ مکہ کے سفر میں تھا وہ روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اگر کسی وجہ سے تلاوت نہ کرسکتے تو ایک دفعہ ضرور قرآن مجید کو کھول کرزیارت کرتے اور پھر بند کردیتے تھے -

آپ لوگوں کی اصلاح و بھلائی کیلئے طرح طرح کی نصیحتیں بھی کرتے تھے -

اُ ن کا فرمان ہے کہ جاھل عابد اور فاجرعالم کے فتنوں سے بچوکہ اِن کا فتنہ بہت بڑافتنہ ہے -

آپ فرمایاکرتے تھے کہ اگر یقین دلوں میں قرار پکڑ لے تو پھر دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا شوق طاری ہو جاتاہے -علامہ محمد بن یوسف فرماتے ہیں:

’’امام سفیان ثوری نے ہمارے ساتھ قیام اللیل کیا تو انہوں نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ اے نوجوانو قیام اللیل اختیار کرو اور نمازیں اداکرتے رہو ‘‘-[34]

تصنیفات: 

امام سفیان ثوری ایک عظیم مفسر، محدث اور فقیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور مصنف بھی تھے-اصحاب سیر و تاریخ نے اُن کی چند کتابوں کا ذکر کیا ہے وہ درج ذیل ہیں :

  1. تفسیر سفیان الثوری
  2. الجامع الکبیر
  3.  

    الجامع الصغیر (یہ دونو ں کتابیں حدیث پاک پر مشتمل ہیں )
  1. کتاب الفرائض[35]

وفات : 

آپ کا وصال شعبان المعظم سن 161ھ میں بصرہ میں ہُوا-[36]

٭٭٭



[1](طبقات الکبٰری ،ج: 6،ص:350)

[2](سیراعلام النبلاء، ج:7 ،ص:230)

[3]( تاریخ بغداد،ج:10،ص:219)

[4](ایضاً)

[5](الجرح والتعدیل ،ج:1،ص:118)

[6](وفیات الاعیان،ج:2،ص:386)

[7](ایضاً)

[8](ایضاً،ص:387)

[9](تذکرۃ الحفاظ،ج:1،ص:152)

[10](طبقات الفقھاء،ج:1،ص:85)

[11](تذکرۃالحفاظ،ج:1،ص:152)

[12](ایضاً)

[13](سیراعلام النبلاء،ج:7،ص:240)

[14](ایضاً)

[15](طبقات الفقہاء،ج:1،ص:85)

[16](تہذیب الاسماءواللغات ،ج:1،ص:222)

[17](تذکرۃالحفاظ،ج:1،ص:152)

[18](سیراعلام النبلاء ،ج:7،ص:240)

[19](تذکرۃالحفاظ،ج؛1،ص:152)

[20](تہذیب الاسماءواللغات،ج:1،ص:222)

[21](طبقات الکبری ،ج:6،ص:350)

[22](سیراعلام النبلاء ،ج :7،ص:237)

[23](وفیات الاعیان،ج:2،ص:386)

[24](طبقات الفقہاء،ج:1،ص:85)

[25](سیراعلام النبلاء،ج:7،ص:237)

[26](سیراعلام النبلاء،ج:7،ص:240)

[27](تاریخ بغداد ،ج:9،ص:156)

[28](ایضاً)

[29](مقدمہ تفسیرسفیان الثوری ،ص:11)

[30](التقدمہ، ص:117)

[31](سیراعلام النبلاء،ج:7،ص:240)

[32](وفیات الاعیان ،ج:2،ص:386)

[33](الجرح والتعدیل،ج:1،ص:82)

[34](ایضاً)

[35](اعلام للزرکلی، ج:3،ص:104)

(معجم المؤلفین ،ج:4،ص:334)

[36](الطبقات الکبریٰ ،ج:6،ص:350)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر