نام و نسب :
آپ کا نام حسین، کنیت ابومحمد، لقب محی السنہ و رکن الدین ہے اور نسب نامہ کچھ اس طرح ہے :حسین بن مسعود بن محمد بن الفراء-[1]
ولادت و وطن :
امام بغوی سنہ 436ھ یا اس سے کچھ پہلے بغ میں پیدا ہوئے،یہ ہرات اور مرو کے درمیان خراسان کا ایک مقام ہے-امام صاحب کو اسی شہر کی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے بغوی کہا جاتاہے اس شہر کو جن اکابر علماء اسلام کا مولد ہونے کا شرف حاصل ہے ان میں فراء بغوی بھی ممتاز اور قابلِ ذکر ہیں - آپکے والد پوستین سینے اور فروخت کرنے کا کام کرتے تھے تو اس لیے امام صاحب کو فراء او رابن الفراء بھی کہا جاتا ہے-[2]
اساتذہ :
امام بغوی نے اپنے وقت کے نامور اور جید علماء و محدثین سے اکتساب علم کیا ، جن حضرات سے اُن کو شرف تلمذحاصل ہُوا اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :
’’ابوعمر عبدالواحد بن احمد الملیحی ،ابوالحسن محمد بن محمد الشیرازی ،جمال الاسلام ابوالحسن عبد الرحمن بن محمد، یعقوب بن احمد ،ابوالحسن علی بن یوسف الجوینی ،ابو الفضل زیاد بن محمد الحنفی، احمد بن ابی نصر،ابوبکر محمد بن ابی الھیثم الترابی، قاضی حسین بن محمد جو کہ فقہ میں بڑے صاحب کمال تھے ان کا شمار اکابر علمائے شوافع میں ہوتا ہے- امام بغوی ان کے خاص تلامذہ میں سے تھے اور فقہ کی تعلیم انہیں سے حاصل کی تھی ‘‘-[3]
تلامذہ :
امام صاحب سے بے شمار لوگوں نے اکتساب علم کیا اُن میں سے چند قابل ذکر درج ذیل ہیں:
’’ابو منصور محمد بن اسعد العطاری المعروف ابن حفدہ، ابو الفتوح محمد طائی ان کے مشہور شاگردہیں امام بغوی کے آخری شاگرد جن کو اُن سے روایت کی اجازت حاصل تھی وہ ابو المکارم فضل اللہ بن محمد توقانی تھے ‘‘-[4]
علِم حدیث میں مقام اور آئمہ کرام کی تو ثیقا ت وآراء :
امام بغوی علم کے میدان کے شاہکار تھے وہ اپنے زمانے میں آئمہ فن میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے، علم حدیث میں اُن کا مقام مسلم ہے، وہ بے مثال محدث اور معتبر و معتمد شارحین حدیث میں سے تھے - شوافع میں احادیث کی شرح و توجیہ کیلئے جو علماءممتاز سمجھے جاتے ہیں اُن میں ایک یہ بھی ہیں اُن کے القا ب محی السنہ، رکن الدین، الامام الحافظ،الفقیہ المجتہد اُن کی عظمت و کمال کا ثبوت ہیں -
اُن کی اسی امتیازی شان کی بناپر آئمہ سیر نے نہ صرف اُن کی تو ثیق کی ہے بلکہ مختلف انداز میں اپنی آراء کے ذریعے اُن کے علمی مقام و مرتبہ کو اجاگر کیا ہے- علامہ ابن نقطہ الحنبلی فرماتے ہیں :
’’امام حافظ ثقۃ صالح‘‘[5]
’’وہ ایک بہت بڑے امام ،حافظ ،ثقہ اور صالح تھے‘‘-
علامہ ابن خلکان فرماتےہیں :
’’کان بحرًا فی العلوم‘‘[6]
’’وہ علوم کے سمندر تھے ‘‘-
ابو المحاسن علامہ جمال الدین، النجوم الزاھر ہ میں اُن کی امامت و جلالت کو بیان کرتے ہُو ئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’کان اماماحافظا رحل الی البلاد و سمع الکثیر ‘‘[7]
’’وہ امام اور حدیث کے حافظ تھے انہوں نے علم کیلئے مختلف شہروں کا سفر اختیا ر کیا اور بہت سےعلماء سے احادیث کا سماع کیا ‘‘-
علامہ ذہبی اُن کے علمی مقام کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’کان سیدااماماعالماعلامۃ‘‘[8]
’’وہ سردار،امام ، عالم اور بہت بڑے علامہ تھے ‘‘-
امام بغوی بحیثیت مفسر :
امام بغوی ایک مایہ ناز مفسر تھے وہ کلام رسول (ﷺ)کی طرح کلام الٰہی سے بھی خاص شغف رکھتے تھے چنانچہ حدیث کی طرح قرآن مجید کی تشریح و تفسیر میں بھی وہ ممتاز مانے جاتے تھے ، امام قزوینی امام صاحب کو علم التفسیر میں بے مثال مانتے ہیں وہ فرماتے ہیں:
’’کا ن عدیم النظیر فی علم التفسیر ‘‘[9]
’’وہ علم تفسیر میں بے مثال تھے ‘‘-
ابو الفلاح علامہ عبدالحیی فرماتے ہیں:
’’المحدث المفسر صاحب التصانیف و عالم اھل خراسان ‘‘[10]
’’آپ ایک بہت بڑے محدث، مفسر اور صاحب تصانیف تھے اور اہل خراسان کے عظیم عالم تھے‘‘-
علمائے کرام کی توثیقات کی صداقت کا اندازہ امام بغوی کی تفسیر پڑھ کر بھی ہو جاتا ہے ۔ امام صاحب کلام اللہ کے سلسلے میں قرات و تجوید کے فن کے بھی ماہر تھے اپنی تفسیر میں انہوں نے قرأت کے متعلق مفید بحثیں کی ہیں-
فنِ فقہ میں مہارت :
امام صاحب علم حدیث اور تفسیر کی طرح فن فقہ کے ماہر اور مرتبہ اجتہاد پر فائز تھے-یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی اُن کو المجتہد جیسے لقب سے یا د کرتے ہیں -
علامہ تاج الدین سبکی اُن کی فقاہت کو بیا ن کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’کان اماما جلیلا فقیھا جامعابین العلم و العمل سالکا سبیل السلف لہ فی الفقہ الیدالباسطہ ‘‘[11]
’’وہ بہت بڑے امام، فقیہ، علم و عمل کے جامع اور سلف صالحین کے طریقے پر چلنے والے تھے اور اُن کو فقہ میں ید طولیٰ حاصل تھا ‘‘-
امام ابن خلکان اُن کو الفقیہ الشافعی کہہ کر یا د کرتے ہیں-امام قزوینی نے انہیں علم الفقہ میں بے مثال قراردیا ہے-الغرض! امام بغوی قرآن و سنت اور فقہ ان تینوں علوم کے جامع تھے اسی بنا پر حافظ ابن کثیر ’’البدایہ و النھایہ ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’وکان عالما عاملا علی طریقۃ السلف و منھجھم و برع فی ھذہ العلوم و کان علامۃ زمانہ فیھا ‘‘
’’وہ سلف صالحین کے طریق و منہج کے باعمل عالم تھے اور ان تینوں علوم کے ماہر تھے اور اپنے زمانہ میں ان علوم کے بہت بڑے علامہ تھے‘‘-
شاہ عبدالعز یز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ وہ ان تینوں علوم کے جامع اور ہرایک میں مرتبہ کمال پر فائز تھے اُن کی پوری زندگی انہی علوم کے پڑھنے اور پڑھانے اور ان سے متعلق کتابیں لکھنے میں بسر ہُوئی -[12]
امام صاحب مجتہد انہ اوصاف کے باوجود امام شافعی کے مقلد تھے اور ان کا شمار اکابر شوافع میں ہوتا ہے-
تصنیفات :
امام بغوی ایک عظیم مفسر،محدث اور فقیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ نامور مصنف بھی تھے انہوں نے تفسیر، حدیث اور فقہ جیسے اسلامی علوم میں بڑی مفید اور بلند پایہ کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو اُن کے فن ِ تصنیف کا منہ بولتا ثبوت ہیں- ذیل میں اُن کی چند مشہور کتب کا ذکر کیا جاتاہے:
v معالم التنزیل: یہ امام صاحب کی تفسیر میں بڑی مشہور اور متداول کتا ب ہے- اس میں صحابہ و تابعین اور متقد مین علمائے تفسیر کے اقوال و آراء نقل کرنے کا زیادہ اہتمام کیا گیا ہے اس لیے اِس کی حیثیت ماثوری تفسیر وں کی ہے، مصنف نے مقدمہ میں کلام مجید کی اہمیت، اس کے نزول کا مقصد، اُس کی تفسیر و تاویل کی ضرورت اور آئمہ سلف کے تفسیری خدمات وغیرہ کا ذکر کیا ہے-
اس تفسیر میں اسباب نزول کی تعین ،ناسخ و منسوخ کی تصریح فقہا ء کے احکام شرعی کے استنباط کا ذکر اور اعراب و قرات کے اختلاف اور نحوی و صرفی اشکالات کو حل کرنے پر خاص توجہ دی گئی ہے ان مباحث کی توضیح کیلئے احادیث اور صحابہ و تابعین کے آثار سے مددلی گئی ہے -
مشہور مفسر امام خازن تفسیر خازن کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ علم تفسیر میں امام بغوی کی ’’معالم التنزیل ‘‘ بڑی اہم اور بلند پایہ کتاب ہے- یہ صحیح اقوال کا مجموعہ، شکوک و شبہات سے پاک، احادیث و آثار سےمزین اور عجیب واقعات پر مشتمل ہے-
مصابیح السنہ:یہ حدیث کی اہم اور مشہور کتاب ہے جو بڑی معتبراور مستند خیال کی جاتی ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتاہے کہ خطیب تبریزی کی مشہور و متداول کتاب مشکوۃ المصابیح کا تکملہ(تکمیل) ہے -
یہ کتاب ابواب و فصول میں منقسم ہے ہر باب کی حدیثیں دو فصلوں میں صحا ح و حسان کے عنوان کے تحت شامل کی گئی ہیں- صحا ح میں ’’بخاری و مسلم‘‘ اور حسان میں ’’ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ اور دارمی‘‘ وغیرہ کی حدیثیں درج ہیں -
مصابیح میں لگ بھگ ساڑھے چار ہزار حدیثیں ہیں ان میں نصف سے کچھ کم صحاح (صحیحین کی) اور نصف سے کچھ زیادہ حسان (سنن ) کی ہے-
شرح السنہ: یہ بھی امام بغوی کی مشہور اور اہم تصنیفات میں سے ہے اس میں مشکلات و غرائبِ حدیث اور فقہی مسائل وغیرہ کا مفصل ذکر ہے مصنف خود اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں -
یہ اخبار و روایات کے گوناگوں علوم و فوائد پر مشتمل ہے اس میں حدیثوں کی مشکلات کا حل کیا گیا ہے -نیز ان سے مستنبط ہو نے والےفقہی احکام اور ان کے سلسلہ میں علماء و فقہا کے اختلافات بیان کیے گئے ہیں ، یہ شرح احکام کے سلسلہ میں مرجع اور ایسی اہم باتوں اور ضروری نکتوں پر مشتمل ہے جن سے واقفیت نہایت ضروری ہے -
التہذیب فی الفقہ: اس میں امام شافعی کے مذہب کے فقہی فروع وجزئیات کی تہذیب کی ہے-
صاحب کشف الظنون کا بیان ہے کہ اس میں دلائل نہیں بیان کیے گئے غالباً اس میں اپنے شیخ قاضی حسین کے تعلیقہ میں کچھ کمی بیشی کر کے اس کی تلخیص کی ہے –
ان معروف کتب کے علاوہ بھی امام بغویؒ کی درج ذیل کتب ہیں:
v ارشاد الانوار فی شمائل النبی المختار
v ترجمۃ الاحکام فی الفروع
v الجمع بین الصحیحین
v الکفایہ فی الفقہ
v الکفایہ فی القراءت
v معجم الشیوخ[13]
وفات :
آپ نے شوال سنہ 516ھ میں مروروذ میں جو کہ خراسان کا ایک شہر ہے اُس میں وفات پائی اور اپنے استاد قاضی حسین کے پاس مقبرہ طالقان میں دفن ہُوئے -بعض حضرات نے آپ کی وفات 510ھ بھی لکھی ہے-[14]
٭٭٭
[1](تذکرۃ الحفاظ،ج:4،ص:37)
(سیر اعلام النبلاء ،جز:14، ص:329)
[2](تاریخ ابن الوردی، جز:2،ص:23)
(بستان المحدثین، ص:52)
(تذکرۃ المحدثین ،ص:131)
[3](سیر اعلام النبلاء،جز:14،ص:329)
[4](ایضاً)
[5](اکمال الاکمال ،جز:1،ص :420)
[6](وفیات الاعیان ،جز:2،ص:136)
[7](النجوم الز اہرہ ،جز: 5،ص:223)
[8](سیراعلام النبلاء،جز:14،ص:329)
[9](آثار البلاد و اخبار العباد ،جز:1،ص:330)
[10](شذرات الذھب ،جز :6،ص:79)
[11](طبقات الشافعیہ الکبریٰ، جز:7، ص:75)
[12](البدایہ و النھایہ ،جز:12،ص:238)
[13](ہدیۃ العارفین،جز:1،ص:312 )
(تذکرۃ المحدثین از ضیاء الدین اصلاحی، ص:135- 146)
[14](وفیات الاعیان، جز:2، ص:136 )
(سیراعلام النبلاء ،جز:14،ص:329)