شیخ الاسلام امام لیث بن سعد الفہمی (رح)

شیخ الاسلام امام لیث بن سعد الفہمی (رح)

شیخ الاسلام امام لیث بن سعد الفہمی (رح)

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جولائی 2023

نام و نسب:

آپ کا نام لیث، کنیت ابو الحارث ہے اور نسب نامہ کچھ اس طرح ہےلیث بن سعد بن عبد الرحمٰن الفہمی المصری -[1]

ولادت و وطن:

امام صاحب 94ھ میں مصر کی ایک بستی قرقشندہ میں پیدا ہوئے یہ بستی مصر سے چار فرسخ کے فاصلے پر تھی-آپ کے آباؤ اجداد اصبہان کے رہنے والے تھے-قبیلہ قیس علان کا ایک خاندان بنو فہم ہے اس کی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے آپ کو فہمی کہا جاتا ہے اور مصر میں بود و باش اختیار کرنے کی وجہ سے المصری بھی کہا جاتا ہے-[2]

اساتذہ:

امام لیث بن سعد نے اپنے وقت کے نامور آئمہ کرام اور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا-آپ نے جید علماء و محدثین سے تحصیل علم کی خاطر بغداد، عراق اور حجاز مقدس کا سفر اختیار کیا اور ان سے شرفِ تلمذ حاصل کیا-ان سفروں کے دوران جن نامور شخصیات سے ان کو تحصیل علم کا موقع ملا ان میں چند درج ذیل ہیں:

’’عطاء بن ابی رباح، ابن ابی مليكہ، نافع العمری، سعيد بن ابو سعيد المقبری، ابن شہاب الزہری، ابو الزبير المكی، مشرح بن ہاعان، ابو قبيل المعافری، يزيد بن ابو حبيب، جعفر بن ربيعہ، عبيد الله بن ابو جعفر، بكير بن عبد اللہ بن الأشج، عبد الرحمٰن بن القاسم، الحارث بن يعقوب، عقيل بن خالد، يونس بن يزيد، حكيم بن عبد اللہ بن قيس، عامر بن يحيیٰ المعافری، عمران بن ابو أنس، عياش بن عباس، كثير بن فرقد، ہشام بن عروہ، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن ابو حسين، ايوب بن موسى، بكر بن سوادہ ، الحارث بن يزيد الحضرمی، خالد بن يزيد، صفوان بن سليم،خير بن نعيم، ابو الزناد، قتادہ، محمد بن يحيىٰ بن حبان، يزيد بن عبد اللہ بن الهاد -[3]

تلامذہ:

امام صاحب سے بہت سے علماء و محدثین کو علم حاصل کرنے کا موقع ملا ان میں سے چند ممتاز درج ذیل ہیں:

’’ابن عجلان، ابن الهيعہ، هشيم، ابن وهب، ابن المبارك، عطاف بن خالد، سعيد بن شرحبيل، سعيد بن غفير، حجين بن المثنى، سعيد بن ابو مريم، آدم بن ابو اياس، احمد بن يونس، شعيب بن الليث، يحيىٰ بن بكير، عبد اللہ بن عبد الحكم، منصور بن سلمہ، يونس بن محمد، ابو النضر هاشم بن القاسم، يحيى بن يحيى الليثی، يحيى بن يحيى التميمی، ابو الجهم العلاء بن موسى، قتيبہ بن سعيد، محمد بن رمح، يزيد بن موهب الرملی، كامل بن طلحہ، عيسى بن حماد زغبہ، عبد اللہ بن صالح الكاتب، عمرو بن خالد، عبد اللہ بن يوسف التنيسی‘‘-[4]

علم حدیث میں مقام و مرتبہ:

امام لیث بن سعد علم حدیث کے شاہکار تھے ان کو علوم حدیث میں ایک امتیازی شان حاصل تھی اسی بنا پر ان کا شمار علومِ حدیث کے آئمہ فن اور حفاظ حدیث میں ہوتا ہے-وہ ایک جلیل القدر محدث و امام تھے -چنانچہ وہ اپنے زمانے کے مقتدا سمجھے جاتے تھے اور اس فن میں منصب امامت پر فائز تھے-یہی وجہ ہے کہ آپ کو علمی دنیا میں الامام و الحافظ، شیخ الاسلام، عالم الدیار المصریہ جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے-علم حدیث میں ایسا مقام و مرتبہ نصیب ہوا کہ ان کے زمانے میں مصر میں ان سے بڑھ کر اصح الحدیث کوئی نہیں تھا-

امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا انہوں نے فرمایا:

’’لیس فیھم یعنی اھل مصر اصح حدیثا من اللیث بن سعد‘‘[5]

’’اہل مصر میں لیث بن سعد سے بڑھ کر اصح الحدیث والا کوئی نہیں تھا‘‘-

اور ایک موقع پر امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

’’اللیث بن سعد کثیر العلم و صحیح الحدیث‘‘[6]

’’لیث بن سعد کثیر علم والے اور صحیح الحدیث امام تھے‘‘-

کثرت علم کی بنا پر آپ علوم حدیث اور علوم عربیہ کی معراج کو پہنچے ہوئے تھے امام یحیی بن بکیر علوم میں ان کی کاملیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’مارأیت احدا اکمل من اللیث بن سعد کان فقیہ البدن، عربی اللسان، یحسن القرآن و النحو و یحفظ الشعر و الحدیث، حسن المذاکرۃ و ما زال یذکر خصالا جمیلہ‘‘[7]

’’میں نے لیث بن سعد سے اکمل کوئی عالم نہیں دیکھا وہ ایک فقیہ شخصیت عربی زبان والے، خوبصورت قرآن پڑھنے والے نحو میں ماہر احادیث و شعر کے حافظ اچھے مذاکرہ والے تھے اور ان کے اوصاف جمیلہ کا ذکر ہمیشہ رہا ‘‘-

اُن کی علمی جلالت اور حدیث میں بلند پایہ رتبے کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ علامہ ذہبی نے اُن کو حفاظ محدثین کے تذکرہ میں ذکر کیا ہے جو اُن کی محدثانہ شان کو اور قابل رشک بنا دیتا ہے-علامہ ذہبی نے امام صاحب کے کارناموں اور علمی خدمات کو بہت خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے جو قابل رشک ہونے کے ساتھ اُن کے اوصاف کا آئینہ دار بھی ہیں چنانچہ علامہ ذہبی فرماتے ہیں

’’كان الليث فقيه مصر ومحدثها و محتشمها ورئيسها ومن يفتخر بوجوده الاقلیم ‘‘[8]

’’لیث بن سعد مصر کے محدث وفقیہ ، اس شہر کے رئیس و سربراہ اور معزز و با وقار شخص تھے ان کے وجود پر پورا اسلامی قلم رو فخر کرتا ہے ‘‘-

سیدنا امام شافعی امام صاحب کے بڑے مداح تھے فقہ کی طرح حدیث میں بھی اُن کی سیادت کو تسلیم کرتے تھے- علامہ حرملہ بن یحیی فرماتے ہیں:

’’سمعت الشافعی یقول اللیث اتبع للاثر من مالك‘‘[9]

’’میں نے امام شافعی سے سنا انہوں نے فرمایا کہ لیث بن سعد امام مالک سے بھی زیادہ حدیث کی اتباع کرنے والے تھے‘‘-

مذکورہ اقوال کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ لیث بن سعد اپنے وقت کے ایک جلیل القدر حفاظ حدیث اور یگانہ روزگار محدث تھے چونکہ دیار مصر میں اُن کی حیثیت ایک امام و مقتدا کی تھی تو اسی وجہ سے متقدمین میں سے امام حاکم اُن کی سند سے منقول مرویات کو اصح الاسانید کے زمرے میں داخل کرتے ہیں اور مصر میں انہوں نے لیث بن سعد ہی کو معیار اصحت ٹھہرایا ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

’’اثبت اسناد المصریین اللیث بن سعد عن یزید بن ابی حبیب عن ابی الخیر عن عقبۃ بن عامر الجھنی‘‘[10]

’’مصریوں کی سند میں سب سے پختہ سند یہ ہے کہ جب لیث بن سعد یزید بن ابی حبیب سے روایت کریں وہ ابو الخیر سے اور ابو الخیر عقبہ بن عامر الجھنی سے روایت کریں‘‘-

آئمہ کرام کی توثیق و عدالت:

امام لیث بن سعد چونکہ علم کے میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور ان کی شخصیت مسلمہ تھی تو آئمہ فن اور آئمہ جرح و تعدیل نے مختلف انداز میں ان کی ثقاہت و عدالت کی توثیق کی ہے-

امام یحیٰ بن معین فرماتے ہیں:

’’لیث بن سعد ثقۃ‘‘[11]

’’لیث بن سعد ثقہ ہیں‘‘-

امام علی بن مدینی فرماتے ہیں:

’’اللیث بن سعد ثبت‘‘[12]

’’لیث بن سعد مضبوط ’’ثقہ ‘‘ہیں‘‘-

امام احمد بن حنبل ان کی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’اللیث بن سعد ثقۃ‘‘[13]

’لیث بن سعد ثقہ ہیں‘‘-

امام ابن سعد ان کی توثیق کچھ اس انداز میں فرماتے ہیں:

’’و کان ثقۃ کثیر الحدیث صحیحہ‘‘[14]

’’وہ ثقہ اور کثیر احادیث صحیحہ والے تھے‘‘-

علامہ ابن بکیر فرماتے ہیں کہ میں نے بڑے بڑے نامور آئمہ فن کو دیکھا لیکن:

’’فلم ارمثل اللیث‘‘[15]

’’میں نے لیث بن سعد کی مثل کوئی نہیں دیکھا‘‘-

امام ابن شاہین امام صاحب کی توثیق کرنے کے بعد احمد بن صالح کا قول نقل فرماتے ہیں،انہوں نے فرمایا:

’’اللیث بن سعد امام قد اوجب اللہ علینا حقہ‘‘[16]

’’لیث بن سعد امام ہیں اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان کا حق (ادب و احترام ) واجب کر رکھا ہے‘‘-

 

 

امام صاحب کی ثقاہت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نامور آئمہ کرام مثلا ً امام نسائی، امام عجلی، امام ابن حبان خطیب بغدادی نے نہ صرف ان کو ثقات آئمہ کرام میں داخل کیا ہے بلکہ ان کی مدح سرائی کرتے ہوئے قابل رشک اوصاف کے ساتھ ان کو متصف کیا ہے-

فقہی بصیرت: 

لیث بن سعد ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ نامور فقیہ بھی تھے اور فقہی بصیرت میں مہارت تامہ رکھتے تھے ان کی اسی انفرادیت کی بنا پر سیدنا امام شافعی آپ کو امام مالک پر ترجیح دیتے تھے- امام ذہبی’’تذکرۃ الحفاظ ‘‘میں حضرت امام شافعی کا قول نقل فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’هو افقه من مالك الا ان اصحابه لم يقوموا به‘‘[17]

’’ وہ امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے مگر اُن کے اصحاب اُن کے ساتھ کھڑےنہ ہو سکے( یعنی ان کے تلامذہ نے اُن کے مذہب کو مدون نہیں کیا)‘‘-

علامہ یحٰی بن بکیربھی یہی فرماتے ہیں:

’’ھوافقه من مالك لكن الحظوظ لمالك ‘‘[18]

’’وہ امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے لیکن امام مالک کوایک خاص قسم کی خیر و فضیلت عطا ہوئی تھی‘‘-

آپ کی فقہی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ آپ اپنے زمانے میں بحیثیت مفتی مستقل طور پر فتوی دیتے رہے یہی وجہ ہے کہ امام ابن سعد فرماتے ہیں:

’’وکان قد استقل با الفتوى فى زمانہ ‘‘[19]

’’وہ اپنے زمانے میں مستقل فتوی دیتے رہے‘‘-

فقہی مسلک :

ویسے تو امام لیث بن سعد خود مجتہد مطلق تھے اور بعض علماء ان کے مذہب کو بھی نقل کرتے ہیں لیکن آپ حنفی مذہب کے پیرو کار تھے کیونکہ مجتہد مطلق ہونا کسی مذہب کی متابعت کے منافی نہیں ہے جیسا کہ امام ابو یوسف اور امام محمد بھی مجتہد مطلق تھے لیکن حنفی المذہب تھے- چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:

’’وانما عد مذہب ابی حنيفة مع مذهب ابى يوسف و محمد واحدا مع انهما مجتهدان مطلقان مخالفتهما غير قليلةفي الاصول و الفروع ‘‘[20]

’’امام ابو حنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد ان تینوں کا مذہب ایک شمار کیا جاتا ہے حالانکہ وہ دونوں بھی مجتہد مطلق ہیں اور اصول و فروع میں ان دونوں کا اختلاف کوئی کم نہیں ہے‘‘-

لہٰذا چہ جائے آپ مجتہد مطلق تھے  لیکن اس کے باوجود وہ فقہ میں امام ابو حنیفہ کی پیروی پر قائم رہے- اسی چیز کے پیش نظر علامہ ابن خلکان ’’وفیّات الاعیان‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’رأيت في بعض المجاميع ان الليث كان حنفی المذہب‘‘[21]

’’میں نے بعض مجموعوں میں دیکھا ہے کہ لیث بن سعد حنفی المذہب تھے ‘‘-

علامہ ابن بزاز کردری نے ’’مناقب امام اعظم‘‘ میں لیث بن سعد کو امام اعظم کے مصر کے تلامذہ میں شمار کیا ہے-اسی طرح مفتی مکہ علامہ ابن حجر مکی نے ’’الخیرات الحسان‘‘ میں امام لیث کا امام اعظم سے استفادے کو ذکر کیا ہے -[22]

علامہ عبد اللطیف سندھی علامہ عینی کی’’شرح بخاری عمدۃ القاری‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ لیث بن سعد حنفی ہیں-

نیز اسی وجہ سے علمائے احناف نے ان کو کتب طبقات الحنفیہ میں آئمہ احناف میں شمار کیا ہے-

فن ِجرح و تعدیل میں مہارت :

حدیث وفقہ کی طرح فن جرح و تعدیل میں بھی امام صاحب کا قابل ذکر چرچا رہا ہے اور حدیث و رجال کے نامور آئمہ کرام نہ صرف ان کی جرح و تعدیل کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ دیگر آئمہ جرح و تعدیل کی طرح رُواۃحدیث کی چھان بین اور توثیق و تضعیف کے باب میں بھی لیث بن سعد کی رائے قابل حجت مانی جاتی ہے-

 

 

علامہ سخاوی نے ’’اعلان با التوبيخ لمن ذم التاريخ‘‘ میں ان جلیل القدر آئمہ فن کے زمرے میں لیث بن سعد کو شمار کیا ہے جو ر جال پر کلام کرتےہیں اور اس باب میں اُن کی رائے قابل حجت تسلیم کی جاتی ہے-

 اسی طرح علامہ ذہبی نے بھی اپنے رسالے ’’ذکر من يعتمد قولہ فى الجرح و التعدیل‘‘ میں ان کو سفیان ثوری کے بعد ذکر کیا ہے جو اس فن میں ان کے باکمال ہونے کی روشن دلیل ہے -

جو دو سخا:

امام لیث بن سعد جودو سخا میں بے مثال تھے - لوگوں کی مدد کرنا، ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو پورا کرنا اُن کا محبوب مشغلہ تھا- گویا کہ علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ جود و سخا اُن کاطرۂ امتیاز تھا جس کی وجہ سے سخاوت اُن کی پہچان بن گئی-

علامہ ذہبی فرماتے ہیں:

’’ کان واسع العلم سخیا جواد محتشما‘‘[23]

’’وہ وسیع علم والے بہت بڑے سخی اور بڑے جاہ وجلال والے تھے ‘‘-

ان کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ امام قتیبہ فرماتے ہیں:

’’ كان يركب في جميع الصلوت الى الجامع ويتصدق كل يوم على ثلاث ماة مسكين‘‘[24]

وہ تمام نمازوں کے وقت جامع مسجد میں سوار ہو کر جاتے تھے اور ہر دن تین سو مسکینوں پر صدقہ کرتے تھے‘‘-

اُن کی سخاوت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قتیبہ بن سعید فرماتے ہیں کہ:

اُن کی سالانہ آمدنی بیس ہزار دینار تھی لیکن اُن پر کبھی زکوة واجب نہیں ہوئی تھی‘‘-[25]

اس لئے کہ وہ اپنی ساری آمدنی اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے اور اُن کو کھانا وغیرہ کھلانے میں صرف کر دیتے تھے-اسی لیے عبداللہ بن صالح فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے لیث کے ساتھ بیسں سال گزارے انہوں نے ہمیشہ صبح اور شام لوگوں کے ساتھ ہی کھانا کھایا اور سوائے مریض ہونے کے گوشت کے ساتھ کھانا کھانا اُن کامعمول تھا ‘‘-[26]

لوگوں کو کھانا کھلا نے کا اتنا شوق تھا کہ آپ سردیوں اور گرمیوں میں لوگوں کیلئے مختلف کھانوں کا اہتمام کرتے تھے -

امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:

’’وكان یطعم الناس فى الشتاء الہرائس بعسل النحل وسمن البقر وفى الصيف سويق اللوز با السكر ‘‘[27]

’’وہ لوگوں کو سردیوں میں گائے کے گھی اور شہد کے ساتھ ہریسہ کھلاتے تھے-(ہریسں ایک قسم کا کھانا جو گوشت اور کوٹے ہوئے گیہوں کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے ) اور گرمیوں میں وہ بادام کے ستو شکر کے ساتھ کھلاتے تھے‘‘-

 انکے جود و سخا کا جذبہ ایسا تھا کہ ابو صالح فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے اُن سے بطور احسان تھوڑا سا شہد مانگا تو آپ نے اُسے ایک مشک شہد دینے کا حکم دیا تو کسی نے عرض کی کہ امام صاحب! اُس عورت نے تو بطور احسان آپ سے تھوڑا سا شہد مانگا تھا آپ نے اس کو اتنا زیادہ شہد دے دیا تو آپ نے فرمایا اُس نے اپنی حیثیت کے مطابق طلب کیاہم نے اپنی وسعت اور ظرف کے مطابق عطا کیا ہے -[28]

اللہ تعالیٰ نے جو ان کو مال و زر کی نعمت عطا کی ہوئی تھی تو جس طرح وہ اس کو اللہ کی راہ میں لوٹاتے تھے اسی طرح وہ اپنے رہن سہن میں بھی اس نعمت کا اظہار کرتے تھے- آپ بڑے جاہ و جلال کے ساتھ رہتے اور شاہانہ لباس پہنتے تھے- محمد بن معاویہ فرماتے ہیں کہ ایک دن امام لیث ایسے شاہانہ انداز میں نکلے کہ لوگوں نے ان کے کپڑوں، ان کی سواری اور انگوٹھی کی قیمت اٹھارہ ہزار درہم سے بیس ہزار درہم تک لگائی-[29]

تصنیفات:

 

 

امام لیث بن سعد ایک نامور مصنف بھی تھے لیکن افسوس کہ زیادہ تر ان کی تصنیفات منظر عام پر نہ آسکیں-منظر عام پر آنے والی دو کتابوں کا ذکر اصحا ب سیر نے کیا ہے وہ درج ذیل ہیں:

v    کتاب التاریخ

v    کتاب المسائل فی الفقہ[30]

وفات:

امام لیث بن سعد نے ماہ شعبان میں جمعہ کے دن 175ھ میں مصر میں وفات پائی-علامہ موسیٰ بن عیسی الہاشمی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی-

خالد بن عبد السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ ان کے جنازے میں شریک ہوا تو میں نے ان کے جنازے سے بڑا کوئی جنازہ نہیں دیکھا-لوگوں کا یہ حال تھا کہ حزن و غم کی وجہ سے وہ رو رہے تھے اور ایک دوسرے سے تعزیت کر رہے تھے-[31]

٭٭٭



[1](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:204)

[2](اللباب فی تہذیب الانساب، جز:2، ص:448)

[3](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:205)

[4](ایضاً)

[5](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز:24، ص:261)

[6](الجرح و التعدیل، جز:7، ص:179)

[7](تاریخ بغداد، جز:14، ص:524)

[8](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:208)

[9](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:165)

[10](معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص:103)

[11](الجرح و التعدیل، جز:7، ص:179)

[12](ایضاً)

[13](تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جز:24، ص: 261)

[14](ایضاً)

[15](تاریخ بغداد، جز:14، ص:524)

[16](تاریخ اسماء الثقات، جز:1، ص:196)

[17](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:165)

[18](ایضاً)

[19](الطبقات الکبرٰی لابن سعد، جز:7، ص:517)

[20](الانصاف، ص:18)

[21](وفیات الاعیان، جز:4، ص:127)

[22](الخیرات الحسان، ص:117)

[23](العبر، جز:1، ص:206)

[24](تاریخ الاسلام، جز:11، ص:310)

[25](تاریخ بغداد،جز:14، ص:524)

[26](ایضاً)

[27](ایضاً)

[28](ایضاً)

[29](تاریخ الاسلام، جز:11، ص:310)

[30](معجم المؤلفین، جز:8، ص:162)

[31](تاریخ بغداد، جز:14، ص:524)

(تاریخ الاسلام، جز:11، ص:315)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر