نام و نسب:
آپ کا نام عبدالباقی،کنیت ابوالحسین اور نسب نامہ کچھ اس طرح ہے:
’’عبد الباقی بن قانع بن مرزوق بن واثق‘‘-[1]
ولادت و وطن:
امام صاحب کی ولادت 265ھ میں ہوئی امام ابن قانع بنوامیہ کے موالی تھے اور بغداد اُن کا وطن تھا اس لیے اُن کو الاموی اورالبغدادی کہا جاتاہے -[2]
اساتذہ:
انہوں نے اپنے وقت کے نامور اور جید علمائے کرام سے علم حاصل کیا اور اکتساب علم کی خاطر بڑے سفر کیے- اسی لیے امام ذہبی فرماتے ہیں :
’’وکان واسع الرحلۃ‘‘[3]
’’ وہ کثیر سفر کرنے والے تھے‘‘-
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بھی اُن کی کثرت رحلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ورحلت بسیا رکرد‘‘[4]
’’انہوں نے تحصیل علم کی خاطر بہت سفر کیے ‘‘-
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے مختلف علماء و محدثین سے اکتساب علم کی خاطر متعدد مقامات کے علمی سفر اختیا ر کیے جس سے اُن کے علمی ذوق کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے آپ نے جن آئمہ حدیث سے تحصیل علم کیا اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہے:
حارث بن ابی اُسامہ،ابراہیم بن ہیثم البلدی، ابرہیم بن اسحاق الحربی، محمد بن مسلمۃ الواسطی، اسماعیل بن فضل البلخی، بشربن موسیٰ، احمد بن موسی، عبید بن شریک البزار، احمد بن اسحاق الوزان، محمد بن یونس، ابو مسلم،علی بن محمد بن ابی الشوارب، عبید بن غنام،معاذبن المثنی،احمد بن ابراہیم بن ملحان(رح) -[5]
تلامذہ:
آپ سے بے شمار نامور آئمہ کرام نے اکتساب علم کیا جن حضرات کو اُن سے شرف تلمذ حاصل ہُوا ہے اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :
امام دارقطنی، امام حاکم، ابوالحسن بن رزقویہ ، ابوالحسین بن الفضل القسطان، احمد بن علی البادی، ابوعلی بن شاذان، ابوالحسن الحمامی،ابوالقاسم بن بشران، ابو الحسن بن الفرات (رح)-[6]
علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ کرام کی آراء:
امام عبدالباقی بن قانع ایک نامور محدث اور امام فن تھے اُن کا شمار بغداد کے مشہور حفاظ حدیث میں ہوتا تھا-کثیرالحدیث اورکثیر الحفظ کی وجہ سے اُن کا لقب الحافظ پڑگیا تھا-یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی نے ’’تذکرۃ الحفاظ ‘‘میں اُن کا تعارف الحافظ العالم جیسے القابات سے کیا ہے -
علوم حدیث میں امام صاحب کا ایک نمایاں مقام ہونے کی وجہ سے آئمہ فن نے مختلف انداز میں اپنی آراء پیش کرکے اُن کے علمی مقام و مرتبہ کو اجاگر کیاہے -
علامہ ذہبی اُن کے علمی مقام کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’وکان کثیرالحدیث بصیرابہ ‘‘[7]
’’وہ کثیر حدیث والے اور حدیث کی معرفت رکھنے والے تھے ‘‘-
حافظ ابن کثیر ’’البدایہ والنھایہ ‘‘ میں اُن کی ثقاہت کو بیان کرتے ہُوے ارشاد فرماتے ہیں:
’’وکان ثقۃ امینا حافظا‘‘[8]
’’وہ ثقہ ،امین اور حافظ الحدیث تھے ‘‘-
علامہ ابن ناصر الدین فرماتے ہیں کہ:
’’علماء کی ایک جماعت نے اُن کی تو ثیق کی ہے‘‘-[9]
جس طرح علماء کی ایک جماعت نے اُن کی توثیق کی ہے تو بعض حضرات نے اُن پر کلام بھی کیا ہے جس طرح خطیب بغدادی نے علامہ برقانی کا ایک قول نقل فرمایا ہے :
’’فقال اماالبغداد یون فیوثقون و ھو عند نا ضعیف ‘‘[10]
’’علامہ برقانی فرماتےہیں کہ بہر حال علماء بغداد اُن کی توثیق کرتے ہیں اور وہ میرے نزدیک ضعیف ہیں‘‘-
یہاں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے ،کہ علامہ برقانی نے امام صاحب پر جو ضعف کا الزام لگایاہے وہ جرح مبہم کے قبیل سے ہے جو جمہور اصولیین کے ضابطے کے مطابق غیر معتبر ہے کیونکہ جمہور اصولیین کا یہ مؤقف ہے کہ جرح مبہم قبول نہیں ہے-علامہ عبدالحی لکھنوی الرفع و التکمیل فی الجرح و التعدیل میں امام ابن الہمام کا قول نقل فرماتے ہیں:
’’اکثر الفقہاء ومنھم الحنفیہ و المحدثین علی انہ لا یقیل الجرح الامبینا لا التعدیل‘‘[11]
’’اکثر فقہاء و محدثین جن میں حنفیہ بھی شامل ہیں وہ اس بات پر ہیں کہ وہی جرح قبول ہوگی جس میں سبب جرح بیان کیاگیا ہو تعدیل میں یہ شرط نہیں ہے ‘‘-
علامہ علاءالدین الحنفی کشف الاسرار شرح اصول بزدوی میں فرماتے ہیں
’’اماالطعن من آئمۃ الحدیث فلایقبل مجملا ای مبھما من غیران یذکر سبب الطعن و ھو مذہب عامۃ الفقہاء و المحدثین ‘‘[12]
’’آئمہ حدیث کی جرح مبہم بالکل قبول نہیں کی جائے گی جب تک جرح کا سبب بیان نہ کیا جائے اور یہی فقہاء و محدثین کا مذہب ہے ‘‘-
چونکہ علامہ برقانی کی جرح مفسرنہیں ہے لہٰذاوہ قابل قبول نہیں ہے-اِس جرح سے امام صاحب کی ثقاہت میں کوئی فرق نہیں پڑے گا،لیکن اس کے مقابلے میں خطیب بغدادی نے امام صاحب کی تعدیل مفسر بیان کرتے ہوئے مدلل توثیق کی ہے-
البتہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آخر عمر میں بعض عوارض کی وجہ سے اُن کے حافظے میں مسئلہ پیداہوگیا تھا اور وہ اختلاط عقل میں مبتلا ہوگئے تھے -
جیسا کہ امام ابن جوزی فرماتے ہیں:
’’وان کان من اھل العلم والفھم و الثقۃ غیرانہ تغیرفی آخر عمرہ‘‘[13]
’’اگرچہ وہ صاحب علم و فہم اور ثقہ تھے لیکن آخر عمر میں اُن کے حافظے میں تغیر پیداہوگیا تھا ‘‘-
جس کے حافظے میں تغیر پیدا ہوجائے تواُس کے بارے اصولیین کا ضابطہ یہ ہے کہ اختلاط سے پہلے روایات مقبول اور قابل استدلال سمجھی جاتی ہیں بعد والی روایات قابل حجت نہ ہوگی-
جیسا کہ علامہ امام نووی نے اِس اُصول کو تقریب میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور ایسے محدثین کا بھی ذکر کیا ہے جن کے حافظے میں وفات سے قبل اختلاط پیدا ہوگیا تھا مگر پھر بھی آئمہ فن ان کی روایات کو قابل استدلال سمجھتے ہیں- علامہ نووی اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’فیقبل ماروی عنھم قبل الاختلاط ولا یقبل مابعد‘‘[14]
’’پس وہ روایات جو اُن سے اختلاط سےپہلے روایت کی گئی ہیں وہ قبول کی جائیں گیں اور اختلاط کے بعد کی قبول نہیں کی جائیں گیں ‘‘-
فقہ و قضا:
امام ابن قانع محدث ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور فقیہ بھی تھے اسی فقہی مہارت کی وجہ سے وہ منصب قضاء پر فائز کیے گئے-احکام و مسائل پر اُن کی وسعت نظر کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ابوبکر جصاص الرازی نے اپنی تفسیر احکام القرآن میں ان سے بے شمار روایتیں نقل کی ہیں-[15]
عبدالباقی بن قانع کا مسلک
امام صاحب مسلکاً حنفی تھے اُن کا شمار احناف محدثین و فقہاء میں ہوتاہے حافظ ابن حجر نے اُن کے حنفی اور اصحاب رائے ہونے کا ذکر کیا ہے -
فرماتے ہیں :
’’وکان من اصحاب الرای‘‘[16]
’’وہ اصحاب رائے(احناف) میں سے تھے‘‘-
اسی طرح عبد القادرقرشی اور صاحب تاج التراجم نے اُن کو طبقات الحنفیہ میں ذکر کیا -
امام عبدالباقی بن قانع اور فنِ جرح و تعدیل :
امام صاحب حافظ حدیث ہونے کے ساتھ علم اسماء الرجال میں بھی گہری بصیرت رکھتے تھے ،چھان بین کے بعد رواۃ حدیث کی ثقاہت و ضعف کو بھی بیان کرتے تھے-اس لیے نامور آئمہ فن نےاُن کی تحقیق وآراء کونقل بھی کیا ہے -
جیسا کہ علامہ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں کئی مقامات پر اُن کی آراء نقل کی ہیں-اسی طرح علامہ یوسف مزی نے بعض رواۃ حدیث کی وفیات میں امام صاحب کے اقوال ذکر کیے ہیں -
علم رجال میں مہارت ہونے کی وجہ سے امام ذہبی اُن کو جرح و تعدیل کا امام مانتے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنےرسالہ ’’ذکرمن یعتمد قولہ فی الجرح و التعدیل ‘‘میں طبقہ تاسعہ کے مایہ ناز آئمہ جرح و تعدیل امام ابن حبان اور ابن عدی کے ساتھ اُن کا بھی نام ذکرکیاہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ امام صاحب کی آراء بھی اِن دونوں کی طرح رواۃ حدیث کی توثیق و تضعیف میں قابل حجت ہیں -
اسی طرح علامہ سخاوی نے بھی الاعلان باالتوبیخ لمن ذم التاریخ میں اُن کو قرن رابع کے نامور آئمہ جرح و تعدیل میں شمار کیا ہے -[17]
تصنیفات :
امام صاحب ایک نامور مصنف بھی تھے،اصحاب سیر نے اُن کی درج ذیل کتب کا ذکر کیا ہے :
v معجم الصحابہ
v کتاب التاریخ
v کتاب یوم و لیلۃ [18]
وفات :
اُن کا وصال سن 351 ھ میں بغداد میں ہُوا-
٭٭٭
[1]( تذکرۃ الحفاظ ،جز : 3 ،ص:66)
[2]( ایضاً،وسیراعلام النبلاء،جز:12،ص:93)
[3](تذکرۃ الحفاظ ،جز:3،ص:66)
[4]( بستان المحدثین ،ص:86)
[5](سیراعلام النبلاء،جز:12،ص:97)
[6](ایضاً)
[7](ایضاً)
[8](البدایہ والنھایہ ،جز:11،ص:242)
[9]( شذارت الذھب،جز:4،ص:271)
[10]( تاریخ بغداد،جز:12،ص:375)
[11]( الرفع والتکمیل،جز:1،ص:100)
[12]( کشف الا سرار،جز:3،ص:68)
[13]( المنتظم ،جز:14،ص:147)
[14](التقریب و التیسیر للنووی، جز:1، ص:120)
[15](الجواہر المضیہ ، جز:1، ص:293)
[16]( لسان المیزان ،جز:3،ص:384)
[17]( احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات،ص 288)
[18]( الاکمال فی رفع الارتیاب،جز:7، ص:71)