’’اے اہل ِ محشر!اپنی نظریں جھکالو حتی کہ فاطمہ بنت محمد (ﷺ)گزرجائیں ‘‘- [1]
جن شان اور عظمت کا یہ عالَم ہو، اُن کی ذاتِ ستودہ صفات کے بارے نقائص اور تقصیروں سے بھری عقلیں کیا لکھیں-ان کی ذاتِ اقدس پہ کچھ لکھنے یا پڑھنے کے تقاضے پہ اس لئے جسارت کر بیٹھتے ہیں کہ شاید یہی ہمارے لئے آخرت کا توشہ بن جائے ، شاید ان کی ذات پہ کچھ پڑھ کر ہم سچ توبہ کی طرف مائل ہو جائیں، راہِ راست پہ آ جائیں، ہمارے ایمان تقویت پا جائیں، ہماری آنکھیں اور دل دولتِ حیا سے نواز دیئے جائیں، شاید اسی صدقے ہمیں دین پہ استقامت مل جائے، ہدایت کا نُور نصیب ہو جائے، سجدوں میں لذت و گداز مل جائے ، رکوع میں خشوع و خضوع مل جائے ، شاید اسی صدقے ہمارے دل غفلت کی گرد سے پاک ہو جائیں، سینے کے آئینے وسوسوں کی غبار سے صاف ہو جائیں، عقل پہ چڑھا جہالت کا زنگ اتر جائے ، شاید اسی صدقے ہمیں آخری سانس پہ سیدہ پاک کے بابا (ﷺ) کی رسالت کی گواہی نصیب ہو جائے -
وہ سیدہ پاک، خاتون جنت () جنہیں رسول اللہ (ﷺ) اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیتے،جن کی آمد پہ تاجدارِ کائنات، سید دو عالم (ﷺ) اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کا استقبال فرماتے، اپنی جگہ پہ بٹھاتے،پیشانی مبارکہ پہ بوسہ دیتے، فرشتے جن کی گھر کی چار دیواری کے تقدس کا خیال کرتے، جن کی عفت،تطہیر اورعزت و کرامت پر قرآن مجید میں سند نازل کی گئی، جو پروردہ آغوش نبوت اور اُم الائمہ ہیں،جن کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر تاجدارِ فقر (ﷺ) کی چشمان مبارکہ بھر آتیں لیکن صبر کی تلقین فرماتے-حضور شہنشاہِ بغداد() جن کی نسبت پہ فخر کرتے ہیں-
حضور سُلطان العارفین () خود کوآپ () کے فرزندان کے مبارک قدموں کی خاک قرار دیتے اور اس کو اپنے فقر کی معراج قرار دیتے اور اقبال ()جن کے مزار مبارک کے طواف اور چوکھٹ پہ سجدہ کی آرزو کرتے لیکن شریعت کی پاسداری آڑے آتی-بلاشبہ آپ () کے فضائل و کمال لکھنے سے نہ صرف قلم قاصر ہیں بلکہ عقل و خردمیں اتنی وسعت و ہمت ہی نہیں کہ آپ()کے مقام و مرتبے کا ادراک کر سکے-محض سعادت دارین اور خفتہ و خوابیدہ بخت کو سنوارنے کیلئے قرآن و سُنت اور اقوال صالحین کی روشنی چند سرخیوں میں اپنی حیاتِ قلبی کا سامان کرتے ہیں: اس دعا کے ساتھ کہ اللہ عزوجل ہم سب کو درِ زہراء () کی دائمی غلامی عطافرمائے -آمین!
اسم گرامی، ولادت باسعادت اور القاب مبارکہ:
آپ () کا اسم مبارک ’’فاطمہ‘‘ہے، علامہ قسطلانی ()نے لکھا ہےکہ فاطمہ’’فَطَمَ‘‘ سے بنا ہے -’’فَطَمَ‘‘ کے معنی دودھ پینے سے روکنے کے ہیں-اصطلاح میں اس حوالے سے آپ () کا نام ’’فاطمہ‘‘ ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ () کی اولاد اور محبین کو دوزخ سے دور کر دیا ہے-
علامہ ابن اثیر () فرماتے ہیں کہ:
آپ () کا اسم مبارک ’’فاطمہ‘‘ اس لیے رکھا گیا کیونکہ آپ () نے اپنے آپ کو دنیا سے الگ کر کے اللہ عزوجل کی طرف متوجہ کرلیا تھا-[2] سیدۃ النساء، اُم الحسنین کریمین، پروردہ آغوشِ خدیجۃ الکبرٰی، لختِ جگر حضرت محمد مصطفٰے (ﷺ) حضرت فاطمۃ البتول الزہراء () کی ولادت با سعادت مشہور روایت کے مطابق بعثت نبوی (ﷺ) کے ایک سال بعد (بمطابق 20 جمادی الثانی،بروز جمعۃ المبارک بمقام مکہ مکرمہ) ہوئی-آپ () کے القاب مبارکہ میں سے:
’’فاطمہ اور زہرا، سیدہ، سیدۃ النساء العالمین، بتول، زاکیہ، طیبہ، طاہرہ،شافعہ، شافیہ، مشفعہ، عفیفہ، نفیسہ، زاہدہ، صابرہ، شاکرہ، قاسمہ، واہبہ، راضیہ، مرضیہ، ام ابیھا، مخدومۂ کائنات اورخاتون جنت، خاتونِ قیامت معروف القاب ہیں‘‘-
قرآن مجید اور شان ِ سیدہ خاتون جنت ():
آیت تطہیر:
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ‘‘[3]
’’اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دُور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے ‘‘-
حضرت ام سلمہ () ارشادفرماتی ہیں کہ:
’’یہ آیت مبارک میرے گھر میں نازل ہوئی- سیدی رسول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمۃ الزہراء، حضرت امام حسن اورحضرت امام حسین () کو طلب فرمایا اور آپ (ﷺ) ان کے ساتھ خیبرکی بنی ہوئی چادر میں داخل ہوگئے اور ارشاد فرمایا: ’’یہ میرے اہل بیت ہیں‘‘- [4]
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ() فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم(ﷺ)ایک صبح باہر تشریف لے گئے:
’’آپ (ﷺ) کے اوپر اون کی مخلوط چادر مبارک تھی، پس حضرت حسن بن علی ()تشریف لائے، آپ نے انہیں چادر مبارک میں داخل فرمالیا-پھر حضرت حسین () تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرما لیا -پھر حضرت فاطمہ () تشریف لائیں تو آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرمالیا-پھر حضرت علی ()تشریف لائے اور آپ (ﷺ) نے انہیں بھی اپنی چادر مبارک میں داخل فرمالیا-پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
’’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًا ‘‘[5]
نجران کے عیسائیوں سے مباہلے کے وقت نازل ہونے والی آیت:
’’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ‘‘[6]
’’(اے محبوب(ﷺ)!) ان سے فرمادو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مُباہَلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ‘‘-
حضرت سعد بن ابی وقاص ()سے مروی ہے کہ :
’’جب یہ آیت (مباہلہ) نازل ہوئی تو آقا کریم (ﷺ) نے حضرت علی، حضرت فاطمہ،حضرت حسن و حسین () کو بلایا اورآپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: یااللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں ‘‘- [7]
سیدہ خاتون جنت () کا کاشانہ اقدس افضل ترین گھرانوں میں :
’’فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ لا یُسَبِّحُ لَهٗ فِیْهَا بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ‘‘[8]
’’ان گھروں میں جنہیں بلند کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور ان میں اس کا نام لیا جاتا ہے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ان میں صبح اور شام ‘‘-
جب آپ (ﷺ )نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ (ﷺ)!یہ کس کے گھر ہیں؟ حضور نبی رحمت( ﷺ) نےارشاد فرمایا کہ یہ انبیاء کے گھر ہیں -پس آپ (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں حضرت ابو بکر صدیق () کھڑے ہوئے اور عرض گزارہوئے (یارسول اللہ (ﷺ)کیا یہ گھر جس میں حضرت علی ا لمرتضیٰ اور فاطمۃ الزہراء() رہتے ہیں -(یہ گھر مبارک بھی )ان میں شامل ہے تو آقا کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’نعم من افاضلھا‘‘[9]
’’ہاں ! یہ ان بہترین گھروں میں سے ایک ہے ‘‘-
آیتِ مؤدت:
’’ قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی‘‘[10]
’’تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت‘‘-
حضرت عبداللہ بن عباس ()سے مروی ہے کہ :
’’جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام () نے عرض کیا: یا رسول اللہ(ﷺ)! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ (ﷺ) نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین ()‘‘-[11]
جگر گوشئہ مصطفٰے(ﷺ):
’’ترمذی شریف ‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن زبیر () سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’(حضرت) فاطمہ () میرے جگر کا ٹکڑاہے جو بات انہیں تکلیف دیتی ہے وہ مجھے رنج پہنچاتی ہے اور جس بات سےان کو دکھ ہو تا ہے اس سے مجھے بھی دکھ ہو تا ہے‘‘-[12]
سیّدہ زہراء () کی ناراضگی میں اللہ عزوجل کی ناراضگی اور خوشی میں اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی:
حضرت علی المرتضٰی () سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے سید ہ فاطمۃ الزہراء () سے ارشاد فرمایا:
|
’’بے شک تمہارے ناراض ہونے سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اورتمہارے خوش ہونےسے اللہ پاک خوش ہوتاہے‘‘- [13]
حضر ت زید بن ارقم () سے مروی ہے کہ:
’’حضور نبی کریم (ﷺ) نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن و حضرت حسین () سے ارشاد فرمایا: تم جس سے جنگ کرو گے میں اس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرو میں اس سے صلح کر نے والاہوں‘‘-[14]
اہلِ مؤدت و محبت کیلئے بشارت:
سیدہ فاطمۃ الزہراء ()سے عقیدت کادم بھرنے والے صحیح العقیدہ مسلمان ان شاء اللہ روزِ محشر آپ () کی شفاعت سے بہر ہ مند ہونگے-جیساکہ حضرت علی () فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک سب سے پہلے جو جنت میں داخل ہوں گے وہ مَیں، (سیدہ) فاطمہ اور(سیدنا)حسن وحسین () ہوں گے،میں نے عرض کی یارسول اللہ (ﷺ)پس ہم سے محبت کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ تو آپ (ﷺ) نے ارشادفرمایا:وہ تمہارے پیچھے پیچھے ہوں گے ‘‘-[15]
عکس شمائل مصطفٰے(ﷺ):
’صحیح بخاری‘ میں اُم المؤمنین سید ہ عائشہ صدیقہ () سے روایت ہے:
’’ہم رسول اللہ (ﷺ) کی ازواجِ مطہرات (رضی اللہ عنہن)آپ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں بیٹھیں تھیں اور ہم میں سے کوئی بھی غیرحاضرنہ تھیں توسیدہ فاطمۃ الزہراء()چلتی ہوئی آئیں،اللہ کی قسم!ان کی چال حضور نبی کریم (ﷺ) کی چال مبارک کے مشابہ تھی، حضور نبی کریم (ﷺ) نے آپ ()کو دیکھ کرخوش آمدید کہا اور ارشاد فرمایا:’’مَرْحَبًا بِابْنَتِي‘‘-میری بیٹی کو خوش آمدید- پھر رسول اللہ (ﷺ) نے آپ () کو اپنے دائیں یابائیں جانب بٹھایا‘‘- [16]
تما م مؤمن عورتوں کی سرداراور افضل:
’صحیح بخاری‘ میں اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ () سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’اے فاطمہ !کیاتم اس سے راضی نہیں کہ تم تمام مؤمن عورتوں کی سردار ہو یا تم اس امت کی عورتوں کی سردار ہو‘‘- [17]
حضرت انس بن مالک () سےمروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا :
’’تمام جہانوں کی عورتوں میں سے سب سے افضل مریم بنت عمران،آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد(ﷺ) ہیں ‘‘- [18]
’ترمذی شریف‘میں حضرت حذیفہ بن یمان () سے مروی ہےکہ رسول اللہ (ﷺ)نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ایک فرشتہ جو اس رات سے قبل کبھی زمین پہ نہیں اُترا تھا،اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے خوشخبری دےکہ(سیدہ) فاطمہ () جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور (سیدنا) حسن وحسین () جنت کے جوانوں کے سردار ہیں‘‘- [19]
اللہ عزوجل کے حکم سے نکاح:
مخدومۂ کائنات کے سیدنا علی المرتضیٰ () سے نکاح کے واقعہ کو امام طبرانی و دیگر محدثین نے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود () سے روایت ہے کہ سیدی رسول اللہ (ﷺ)نے ارشادفرمایا کہ:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں (حضرت) فاطمہ () کا نکاح (حضرت) علی () سے کر دوں‘‘- [20]
تسبیح فاطمہؓ:
سیّدۃ النساء فاطمۃ الزہراء ()نے ایک دفعہ خادم کی عرض کی تو آقا پاک (ﷺ)تشریف لائے اور سیدہ خاتونِ جنت () اور حضرت علی المرتضیٰ () کے درمیان تشریف فرماہوئے اورارشادفرمایا:
’’جب تم دونوں اپنےاپنے بستر پر جانے لگو تو 34 مرتبہ اللہ اکبر ،33 مرتبہ الحمدللہ اور 33مرتبہ سبحان اللہ پڑھا کرو یہ تمہارے لیے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم دونوں نے سوال کیا‘‘- [21]
آج بھی صلحاء واولیاء کرام کا یہ محبوب عمل ہے کہ وہ ہرنماز بالخصوص فرائض کی ادائیگی کے بعد اپنی انگلیوں کے پوروں یا تسبیح پر اس عمل کو بجا لاتے ہیں -
وصال مبارک:
اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ () سے مروی ہے :
’’سیدہ خاتونِ جنت () کا انتقال مبارک 3 رمضان المبارک کو حضور رسالت مآب (ﷺ) کے وصال مبارک کے چھ ماہ بعد ہوا(اور اس وقت آپ ()کی عمر مبارک 29 برس تھی)‘‘- [22]
حضرت اُم سلمہ ()نے بیان کیا ہے:
’’سیدۃ النساء خاتونِ جنت فاطمۃ الزہراء () کی طبیعت مبارک ناساز تھی آپ () نے اس میں وصال مبارک فرمایا اور میں تیماردار تھی ، ایک دن صبح سویرے میں نے دیکھا کہ آپ () کو افاقہ نظر آرہا تھا اور حضرت علی المرتضیٰ () کسی کام سے باہر تشریف لے گئے تھے کہ سیدہ فاطمۃ الزہراء()نے فرمایا: اے امی جان! میرے لئے پانی انڈیل دو، (بس ) میں نے پانی تیار کر دیا اور جس طرح آپ () تندرستی میں غسل فرماتی تھیں ویسے ہی خوب غسل فرمایا، پھر آپ () نے نئے کپڑے طلب فرمائے، مَیں نے ان کو نئے کپڑے بھی دے دئیے جو انہوں نے خود پہن کر فرمایا : امی جان ! اب آپ ذرا میرے لئے گھر کے وسط میں بچھونا بچھا دیجئے، میں نے یہ بھی کردیا ، پس آپؓ بستر پر استراحت فرما ہوئیں اور قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنا ایک دستِ اقدس اپنے گال کے نیچے رکھ کر کہا: اے امی جان! اب میں اللہ تعالیٰ سے ملنے جا رہی ہوں اور میں نے غسل بھی کر لیا ہے پس اب کو ئی اور مجھ سے کپڑا نہ ہٹائے اور اس کے بعد آپ () کی روح مبارک پرواز کر گئی‘‘- [23]
مزار پرانوار:
مشہور روایت کے مطابق سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ﷺ) کا مزار پر انوار جنت البقیع میں مرکز انوار و تجلیات ہے-
علامہ محمد اقبال () کا نذرانہ عقیدت:
مفکر ِاسلام حضرت علامہ اقبال () سیدہ اُم حسنین () کا مقام اور مرتبہ یوں بیان کرتے ہیں :
رشتہ آئینِ حق زنجیر پا است |
’’اللہ عزوجل کے دین (قرآن وسنت) سے تعلق میرے پاؤں کی زنجیر ہے(یعنی مجھے روک رکھا ہے) اور مجھے رسول اللہ (ﷺ) کے فرمان مبارک کا پا س ولحاظ ہے ورنہ میں سیدہ فاطمۃ الزہراء()کے قبر انور کے گرد طواف کرتا اور اس کی خاک مبار ک پر سجدے کرتا‘‘-
ایک اور مقام پہ لکھتے ہیں :
مزرع تسلیم را حاصل بتول |
’’تسلیم اور عبودیت کی کھیتی کا حاصل سیّدہ بتول () ہیں اور ماؤں کیلئے نمونۂ کاملہ سیّدہ بتول ()ہیں‘‘-
حرف آخر:
بلاشبہ سیدۂ کائنات () کی پاکیزہ تر زندگی مبارک کے ہر پہلو میں انسانیت کی فلاح کا راز مضمر ہے-آج اس پرفتن دور میں عالم اسلام کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کیلیے پیغام ہے کہ وہ سیدہ فاطمۃ الزہراء ()کے دامن سے وابستہ ہو کر آپ () کی پاکیزہ و مصفا سیرت پر عمل پیرا ہوں-آخر میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال () کے اس پیغام کے ساتھ اپنی معروضات کو سمیٹتے ہیں :
اگر پندی ز درویشی پذیری |
’’اگر اس درویش کی نصیحت کو تو یاد رکھے، تو ہزاروں قومیں مر جائیں گی مگر (اے دختر) تیری قوم نہ مرے گی ‘‘-
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر |
’’اسوۂ بتول کو اپنا لے اور اس جہاں کی آلودہ نگاہوں سے اپنے آپ کو چھپالے پھر تیری آغوش میں شبیر (حسین) ()ہوں گے ‘‘-
٭٭٭
[1]حاکم،محمد بن عبداللہؒ، المستدرك على الصحيحين،بابُ ذِكْرِ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)، رقم الحدیث:4728
[2]القسطلانی ، المتوفٰی:923هـ)، المواهب اللدنية ،الفصل الثانى فى ذكر أولاده الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام،ج:01،ص:482-
[3]احزاب:33
[4]القرطبیؒ،الجامع لأحكام القرآ ن،ایڈیشن دوم،( القاهرة: دار الكتب المصرية،1384ھ) زیرِآیت: الاحزاب:33
[5]ابن كثير، (المتوفى: 774هـ)، تفسير القرآن العظيم،زیرِآیت الاحزاب:33،4
[6]آل عمران:61
[7]السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر (المتوفى: 911هـ) ، الدر المنثور - (بیروت : دارالفکر) زیرآیت:آل عمران:61،ج:02،ص:233-
[8]النور:36
[9]السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور - (بیروت : دارالفکر)،زیرِآیت:36،سورۃ النور-ج:06،ص:203-
[10]الشورٰی:23
[11]السیوطی، عبد الرحمن بن ابی بکر ، الدر المنثور - (بیروت : دارالفکر)ج:07،ص:348-ذیرِآیت الشورٰی:23
[12]الترمذی ،محمد بن عيسى (المتوفى: 279هـ)، سنن الترمذی ،ایڈیشن دوم،(الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفےٰ البابي الحلبي–مصر(1395ه)،بَابُ مَاجَاءَفِي فَضْلِ فَاطِمَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،ج05،ص:698- رقم الحدیث:3869-
[13]حاکم،محمد بن عبداللہؒ (المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين،(بيروت ،دار الكتب العلمية 1411ھ)، بابُ ذِكْرِ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)،ج:03،ص:167،رقم الحدیث:4730-
[14]الترمذی ، (المتوفى: 279هـ)، سنن الترمذی ، بَابُ مَاجَاءَفِي فَضْلِ فَاطِمَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، رقم الحدیث:3870-
[15]حاکم، (المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين بابُ ذِكْرِ مَنَاقِبِ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللہ(ﷺ)، رقم الحدیث:4723-
[16]البخاری ، الجامع الصحیح، كِتَابُ المَنَاقِبِ، رقم الحدیث: 3623
[17]ایضاً،رقم الحدیث:3624-
[18]احمد بن حنبلؒ (المتوفى: 241هـ)،فضائل الصحابة ،فَضَائِلُ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ، - رقم الحدیث: 1332-
[19]الترمذی ، (المتوفى: 279هـ)، سنن الترمذی ، أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلہٖ وَسَلَّمَ، رقم الحدیث:3781-
[20]الطبرانی،سليمان بن أحمدؒ، المعجم الکبیر،( مكتبة ابن تيمية،القاهرة الطبعة: الثانية)،ج:10،ص:156،رقم الحدیث:10305-
[21]البخاری، الجامع الصحیح، بَابُ مَنَاقِبِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ القُرَشِيِّ الهَاشِمِيِّ أَبِي الحَسَنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ،رقم الحدیث:3705-
[22]حاکم، (المتوفى: 405هـ)، المستدرك على الصحيحين، ذِكْرُ وَفَاةِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَالِاخْتِلَافُ فِي وَقْتِهَا ، رقم الحدیث:4761-
[23]احمد بن حنبلؒ (المتوفى: 241هـ)،فضائل الصحابة ، کتابُ فَضَائِلُ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، رقم الحدیث: 1074-