الحافظ البارع شیخ الاسلام امام بدرالدین العینی (رح)

الحافظ البارع  شیخ الاسلام امام بدرالدین العینی (رح)

الحافظ البارع شیخ الاسلام امام بدرالدین العینی (رح)

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جنوری 2024

نام و نسب :

آپ کا نام محمود ،کنیت ابومحمد ،لقب بدرالدین ہے اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے: محمود بن احمد بن موسی بن احمد بن حسین بن یوسف بن محمود -[1]

ولادت و خاندان: 

آپ رمضان المبارک سن 762ھ میں عین تاب شہر میں پیداہوئے-[2]

 یہ حلب سے تقریباً 3 مراحل پر واقع ایک خوبصورت شہر تھا چٹانوں میں تراشا ہُوا مضبوط قلعہ تھا اس میں باغوں اورنہروں کی کثرت تھی- یہ شہر دلوک کے نام سے بھی پہچانا جاتاتھا اسی شہر کی طرف نسبت کرکے عین تابی اور اُس میں تخفیف کرتے ہوۓ اُن کو العینی کہاجاتا ہے -

امام عینی کا خاندان علم، دینداری، صلاح و تقوی میں مشہورتھا- ان کے والد مکرم اور داداجان دونوں قاضی کے عہدے پر بھی فائزرہے- نیز ان کے اجداد میں حسین بن یوسف قرآن مجید کے مفسر تھے -

آپ کے والد محترم شہر عین تاب میں قاضی مقررکیے گئے اور ساتھ ساتھ مسجد کی امامت بھی ان کے سپرد ہُوئی- وہ بہت نیک، خیرپسند،مساکین اور خصوصاً علماء کے ساتھ احسان کا معاملہ فرماتے -

تحصیل علم:

امام صاحب کیونکہ ایک علمی گھرانے میں پیداہُوئے تھے- لہذا اُن کے والد محترم نے سب سےپہلے اس زمانے کے علماء کےطریقہ کے مطابق بچپن ہی سے اپنے بیٹے کو طلب علم اور حفظ قرآن کی طرف متوجہ کیا- سب سے پہلے ان کوشیخ محمود بن احمد القزوینی کی خدمت میں حاضر کیا- شیخ صاحب خط میں بے مثال تھے امام صاحب نے اُن کے ہاں کچھ مدت خط کی مشق کی- قرآن مجید کے حفظ کا آغاز شارح مصابیح محمد بن عبیداللہ سے کیا اور اُن سے قرآن مجید کا کچھ حصہ حفظ کیا- اس کے بعد عین تاب میں حفظ کرنا شروع کیا وہاں انہوں نے حفص کی روایت میں معزالحنفی سے قرآن مجید کا حفظ مکمل کیا[3]

اس کے بعد آپ دیگر علوم کی طرف متوجہ ہُوئے -آپ نے صرف ،عربی زبان اور منطق شیخ محمد الراعی سے پڑھی اسی طرح صرف اور الفرائض السراجیہ (علم المیراث) محمود بن محمدالعنتابی سے حاصل کیا- علامہ زمخشری کی کتاب مفصل نحو میں اور صدرالشریعہ محبوبی کی توضیح علی متن التنقیح علامہ جبریل بن صالح بغدادی سے پڑھی -فقہ حنفی کی مشہور کتاب قدوری میکائیل بن حسین سے پڑھی اسی طرح حسام الدین رہاوی سے ان کی کتاب (البحارالزاخرۃفی الفقہ علی المذاہب الاربعہ) پڑھی اور علم المعانی والبیان اور دیگر علوم عیسی بن الخاص السرماوی سے حاصل کیے -[4]

علمی اسفار :

ہمارے سلف صالحین اور علماء ومحدثین کا یہ طریقہ رہا ہےکہ وہ تحصیل علم و معرفت کیلئے باقاعدہ سفر اختیار کرتے تھے اور ان اسفار میں بڑاہ فائدہ بھی ہوتا ہے اسی لیے توامام شافعی فرماتے ہیں:

ساضرب فی طول البلاد و عرصنھا
انال مرادی او اموت غریبا
فان تلفت نفسی فللہ درھا
و ان سلمت کان الرجوع قریباً

’’میں جلد ملک کے طول وعرض میں سفر کروں گا یا تو مقصد حاصل کروں گا یا توغریب الوطنی مروں گا -اگر میری جان چلی گئی تو زہے نصیب اگر سلامت رہا تو جلد لوٹ آوں گا ‘‘-

یحیی بن معین فرماتے ہیں کہ:

’’ اگر ایک شخص صرف اپنے ہی شہر میں علم حاصل کرتا رہے اور حدیث کی طلب میں کسی دوسری جگہ سفرا ختیار نہ کرے تو اس کی سمجھ اور عقل پختہ نہیں ہوسکتی‘‘-[5]

اسی لیے تو امام عینی نے علم کے حصول کیلئے اپنے شہر وملک کے علماء پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ علمی پیاس بجھانے کیلئے دوسرے شہروں اور ممالک کا سفر بھی اختیا ر کیا

لہٰذا امام صاحب 783ھ میں حلب کا سفر اختیار کیا، وہاں جمال یوسف بن موسی الملطی سےاکتساب علم کیا اور الھدایہ کا کچھ حصہ پڑھا- اس کے بعد بہسنا میں ولی الدین البہسنی سے اور کَختا میں علاء الدین کختاوی سے علم حاصل کیا اور ملطیہ میں بدرالدین الکشانی سے علم حاصل کرکے اپنے وطن لوٹے پھر سن 788ھ میں بیت المقدس کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں شیخ علاءالدین السیرانی سے ملاقات کی اور اس کے بعد آپ نے قاہرہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں کے نامور علماء و محدثین سے حدیث اور اُس کے علوم کا خوب استفادہ کیا-[6]

اساتذہ :

امام عینی نے اپنے وقت کے نامور علماء و محدثین اور آئمہ فن سے اکتساب علم کیا جن حضرات سے اُن کو تحصیل علم کا موقع ملا ہے اُن میں چند مشہور درج ذیل ہیں :

  • المحدث الکبیر تقی الدین محمدبن محمدالدجوی سے صحاح ستہ سمیت مسند دارمی، مسند عبدبن حمیداور مسند احمد کے ثلث اول کا سماع کیا -
  • الحافظ سراج الدین البلقینی ان سے آپ نے اُن کی تصنیف محاسن الاصطلاح کا سماع کیا -
  • حافظ زین الدین عبدالرحیم العراقی سے بھی بخاری شریف پڑھی-
  • علی بن محمد بن عبدالکریم الفوی ، سے السنن الکبری للنسائی اور سنن دارقطنی کا بعض حصہ روایت کیا ہے -حافظ نورالدین الہیثمی سے بہت ساری کتب کا سماع کیا ہے -
  • قطب الدین عبدالکریم الحلبی ،
  • شیخ شرف بن کویک سے الشفاء للقاضی عیاض اور مسند الامام ابی حنیفۃ لابی محمد البخاری الحارثی کا سماع کیا -
  • الشیخ المحدث زین الدین الترکمانی سے شرح معانی الاثار کا سماع کیا –
  • الشیخ المسند قاضی القضاۃ نجم الدین احمد بن عماد الدین -[7]

تلامذہ:

جن نا مور علماء کو اُن سے شرف تلمذ حاصل ہُوا اُن میں سے چند درج ذیل ہیں :

’’الامام المحقق کمال الدین بن الھمام،الحافظ العلامۃ قاسم بن قطلوبغا، حافظ شمس الدین السنحاوی، ابو البقاء محمد بن ابی بکر الصالحی،علامہ محمدبن محمد العوفی،ابواسحاق ابراہیم بن علی القرشی،ابوالوفاء محمدبن خلیل الصالحی -علامہ زین الدین ابوبکر الکختاوی ،احمد بن ابراہیم الکتانی، شیخ کمال الدین المالکی،قاضی نور الدین علی بن داؤد الخطیب، ابو المحاسن جمال الدین یوسف بن تغری (﷭)‘‘-[8]

علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ کرام کی آراء:

امام بدرالدین العینی علمی میدان کے شاہکار تھے آپ ایک نامور محدث فقیہ ،ناقد اور مورخ تھے ،وہ منقول اور معقول اُصول وفروع میں اپنے زمانے کے امام فن تھے اُن کی اسی علمی جاہ و جلالت کی وجہ سے علماء نے انہیں العلامۃ الکبیر، الحافظ البارع ،الفقیہ الناقد، مؤرخ الاکبر ، قاضی القضاۃ،شیخ الاسلام جیسے القابات سے نوازا ہے کیونکہ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اس لیے علماء ومحدثین نے مختلف انداز میں اُن کے علمی کمال کو اجاگر کیا ہے ابوالمعالی الحسینی فرماتےہیں:

’’ھو الامام العالم العلامۃ الحافظ المتقن المنفرد باالروایۃ و الدرایۃ حجۃ اللہ علی المعاندین و آیۃ الکبری علی المبتدعین ‘‘[9]

آپ امام، عالم، علامہ، حافظ، متقن، روایت و درایت میں یکتا،معاندین کے خلاف اللہ کی حجت اور مبتدعین کے خلاف اللہ کی ایک نشانی تھے ‘‘-

امام جلال الدین سیوطی اُن کی علمی وجاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں :

’’کان اماماعالماعارفاباالعربیۃ والتصریف و غیرھا حافظا للتاریح واللغۃ ‘‘[10]

’’وہ امام ،عالم ، صَرف اور عربی زبان اور دیگر علوم کے جاننے والے تاریخ اور لغت کے حافظ تھے‘‘-

 امام صاحب نہ صرف تاریخ اور لغت کے ماہر اور حافظ تھے بلکہ فقہ اور حدیث کے بھی ماہر تھے -

اسی لیے تو ابوالمعالی الحسینی فرماتے ہیں:

’’کان من مشاہیر عصرہ علما وزہدا وممن لہ الید الطولی فی الفقہ و الحدیث ‘‘[11]

’’وہ علم اور زہد میں اپنے زمانے کے مشہور علماء میں سے تھے اور فقہ اور حدیث میں ید طولیٰ رکھتے تھے‘‘-

علامہ ابو المحاسن جمال الدین اُن کی وسعت علمی کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :

’’کان بارعافی عدۃ علوم مفتیا کثیر الاطلاع واسع الباع فی المعقول والمنقول ‘‘[12]

’’وہ بہت سے علوم میں کامل، بہت بڑے مفتی، بہت زیادہ معلومات رکھنے والے معقولات اورمنقولات میں وسیع تجربہ رکھنے والے تھے ‘‘-

ابن خطیب الناصر یہ سے منقول ہے :

’’ھوامام فاضل مشارک فی علوم و عندہ حشمۃ و مروءۃ وعصبیۃ ودیانۃ‘‘[13]

’’وہ ایک فاضل امام کئی علوم کا ذوق رکھنے والے تھے ان میں عزت و وقار ،انسانیت،عصبیت اور دین داری تھی‘‘-

علامہ ابن ایاس الحنفی اُن کی وسعت علمی کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں -

’’کان علامۃ نادرۃ فی عصرہ عالمافاضلا و کان حسن المذاکرۃ جیدالنظم،صحیح النقل فی التواریح‘‘[14]

’’آپ اپنے وقت کے نایاب علامہ ،عالم ،حافظ اور فاضل تھے آپ اچھے مباحث ،عمدہ نظم کہنے والے تاریخ میں صحیح روایت والے تھے ‘‘-

عربی شاعر نواجی نے عربی نظم میں اُن کی شخصیت کی بڑی خوبصورت ترجمانی کی ہے وہ فرماتے ہیں :

لقد حزت یا قاضی القضاۃ مناقبا
یقصر عنھا منطقی و بیانی
و اثنی علیک الناس شرقا و مغربا
فلا زلت محموداً لکل لسانی[15]

’’اے قاضی القضاۃ آپ نے بہت سے مناقب حاصل کر لیے ہیں- جس کے بیان سے میری زبان و بیان قاصرہےمشرق ومغرب میں لوگ آپکی تعریف میں رطب اللسان ہیں،آپ ہر زبان میں ہمیشہ محمود ہیں ‘‘-

منصب و عہد ے :

امام عینی اپنے علم و دیانت داری کی بدولت مختلف سرکاری عہدوں پر بھی فائز رہے-جب مملوک سلطان سیف الدین بر قوق کا انتقال ہوگیا تو ان کے دوستوں نے منصب احتساب پر قائم کروادیا یہ سب سے پہلا سرکاری عہدہ تھا جو اُن کو ملا اس کے علاوہ بھی آپ درج ذیل عہدوں پر فائز رہے-

1-قضا ء القضاۃ :

 یہ ایک ایسا عہدہ تھا جس کا موضوع احکام شرعیہ میں گفتگوکرنا، شرعی فیصلوں کو نافذ کرنا، فریقوں میں شرعی فیصلہ صادرکرنا اور قائم مقام قاضیوں کا تقرر کرنا یہ عہدہ دینی عہدوں میں سب سے بلند مرتبہ تھا -

2-حسبۃ :

یہ ایک عظیم الشان منصب تھا جس کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے سلسلہ میں اور معیشت و کاریگری میں حد سے تجاوز کر نےوالوں سے باز پرس کرناتھا -

3- الاحباس :

یہ بھی ایک شاندار عہدہ تھا جس کا مقصد مساجد، خانقاہوں اور مدارس کی تنخواہوں کو موقوفہ جائیداد سے مقرر کرنایا اوقاف کا صحیح انتظام کرنا تھا -[16]

امام بدرالدین عینی بطور مصنف و شارح اور اُن کی علمی خدمات :

امام صاحب تصنیف و شرح کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں- وہ ایک نامور اور عظیم مصنف و شارح تھے آپ نے اپنی باکمال تصانیف و شروح سے علمی خدمات میں پھرپور حصہ لیا ہے -

علامہ عینی جید الخط اور سریع الکتابت مصنف تھے- یہ بات مشہور ہے کہ انہوں نے فقہ حنفی کی معروف کتاب قدوری ایک رات میں مکمل لکھ ڈالی -

آپ نے حدیث کی مختلف کتابوں کی شرح کرکے نہ صرف علم حدیث کی خدمت کی ہے- بلکہ طبقہ احناف میں بڑا نام پایا ہے -

ذیل میں ہم اُن کی مشہور شروح و تصانیف کا ذکر کریں گے اور اُن میں سے چند ایک پر اُن کے طرز و اسلوب اور ترتیب پر مختصر تبصرہ بھی کریں گے -

v   عمدۃ القاری فی شرح البخاری :

 

 

عمدۃ القاری علامہ عینی کی سب سے بڑی تصنیف اور علمی شاہکار ہے بلکہ بخاری شریف کی تمام شروحات میں یہ سب سے بڑی شرح ہے اس کی تالیف کی ابتداء رجب کے آخر 820ھ میں ہوئی اور پانچ جمادی الاول سن 847ھ کو مکمل ہوئی-امام عینی نے اس کتاب کے مقدمہ میں سنت کی اہمیت اور کتب حدیث میں بخاری کی اہمیت کو پیش کیا ہے-اس شرح میں آپ کا طرز واسلوب اس طرح ہےکہ آپ پہلے ترجمۃ الباب کی تشریح فرماتے ہیں اس کی ترکیب بیان کرکے مابعد کاماقبل کے ساتھ وجہ مناسبت ذکرفرماتے ہیں پھر حدیث ذکر فرماکر ہر موضوع پر عنوان قائم کر کے اُس حدیث کی شرح کا آغاز فرماتے ہیں-

 مثلاً (بیان تعلق الحدیث بالترجمۃ ،بیان رجالہ ،بیان ضبط الرجال، بیان الانساب، بیان فوائدتتعلق بالرجال، بیان لطائف اسنادہ،بیان نوع الحدیث ،بیان تعددا لحدیث فی الصحیح، بیان من اخرجہ غیرہ،بیان اختلاف لفظہ، بیان اللغۃ، بیان الاعراب، بیان الصرف، بیان المعانی، بیان البیان، بیان البدیع، الاسئلۃ و الاجوبۃ ،بیان استنباط الاحکام، فوائدتتعلق باالحدیث )

مگر بعض مواقع پر ضرورت نہ ہونے کے سبب ان عنوانین میں کمی بھی فرما دیتے ہیں اور یہ اسلوب پہلے چار حصوں میں پایا جاتا ہے مگر بعد والے اجزاء میں یہ تفصیلات چھوڑدی ہیں اور چند اہم عنوانوں پر اکتفاء کر لیتے ہیں -اسی طرح بعض جگہوں میں بخاری شریف کے دیگر متقدمین شارحین پر تعقب بھی فرماتے ہیں چونکہ علامہ عینی حنفی المسلک تھے -اس لئے وہ اپنے مسلک کے نکتۂ نظر کو خوب واضح فرماتے ہیں اور جن لوگوں نے امام ابو حنیفہ کی تضعیف کی ہے اس کا رد بھی فرماتے ہیں -

v   مبانی الاخبار فی شرح معانی الآثار:

یہ امام طحاوی کی مشہور کتاب شرح معانی الا ثار کی شرح ہے اس میں بھی جو طرز واسلوب اپنایا ہے وہ عمدۃالقاری کے طرز واسلوب سے ملتا جلتاہے پہلے تر جمۃ الباب کی تشریح، ماقبل سے اُس کا ربط ، طحادی کی عبارت کو قال احمد ؒ کے لفظ سے شروع فرماتے ہیں اورپھر حدیث ذکر کرتے ہیں جب شرح کی ابتداء کرتے ہیں تو قال محمود  عفا اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں پھر حدیث پر مختلف انواع سے کلام کرتے ہیں -

v   شرح سنن ابی داود :

v   العلم الھیب فی شرح الکلم الطیب :

علامہ ابن تیمیہ نے مو منین کے زادراہ آخرت کیلئے اذکارو مسنون دعاوں کا مجموعہ الکلم الطیب کے نام سے مرتب فرمایا تھا تو امام عینی نے اُس موجودہ احادیث مبارکہ کی شرح کی-

v   نخب الافکارفی تنقیح مبانی الاخبار

یہ شرح مبانی الاخبارکا اختصار ہے

v   معانی الاخیار فی رجال معانی الاْثار

v   البنایہ فی شرح للہدایہ

v   غرر الافکار فی شرح دررالبحار

v   رمزالحقائق شرح کنز الدقائق

v   مختصر الفتاوٰی الظہیریۃ

v   تحفۃ الملوک فی المواعظ والرقائق

v   طبقات الحنفیہ

v   عقد الجمان فی تاریخ للزمان

v   طبقات الشعراء

v   مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر

v   تاریخ الاکاسرۃ –

v   السیف المہند فی سیرۃ الملک الموید ،

v   الروض الظاہر فی سیرۃ الملک الظاہر

 

 

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب تالیف فرمائیں -[17]

وفات :

اُن کی وفات ماہ ذوالحجہ سن 855ھ ،میں ہُوئی جامع ازہرمیں نماز جنازہ پڑھی گئی اور اپنے ہی مدرسہ میں مدفون ہُوئے -[18]

٭٭٭



[1]( نظم العقیان فی اعیان الاعیان :جز:1،ص:174)

[2]( البدر الطالع بمحاحسن من بعد القرن السابع، جز:2، ص:294)

[3]( علامہ بدرالدین عینی اور علم حدیث میں اُن کا نقش دوام مترجم ،ص:54)

[4]( الضوء اللامع ،جز:10،-ص:131)

[5]( علامہ بدرالدین عینی اور علم حدیث میں اُن کا نقش دوام مترجم ،ص:55)

[6]( مقدمہ مغانی الاخیار ،ص:3)

[7]( مقدمہ عمدۃ القاری شرح بخاری ،ص:7)

[8]( ایضاً،ص:9)

[9]( ایضاً)

[10]( بغیۃ الوعاۃ ،جز:2،ص:275)

[11]( مقدمہ عمدۃ القاری شرح بخاری ،ص:9)

[12]( ایضاً)

[13]( علامہ بدرالدین عینی اور علم حدیث میں اُن کا نقش دوام مترجم ،ص:70)

[14]( ایضاً)

[15](ایضاً،ص:72)

[16]( علامہ بدرالدین عینی اور علم حدیث میں اُن کا نقش دوام مترجم ،ص:64)

[17]( الاعلام للذرکلی ،جز:7،ص: 163 وعلامہ بدرالدین عینی اور علم حدیث میں اُن کا نقش دوام، ص:157-160)

[18]( بغیۃ الوعاۃ ،جز:2،ص:275)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر