حلب کی ممتاز شخصیت شیخ عبداللہ سراج الدین کی زندگی پر طائرانہ نظر

حلب کی ممتاز شخصیت شیخ عبداللہ سراج الدین کی زندگی پر طائرانہ نظر

حلب کی ممتاز شخصیت شیخ عبداللہ سراج الدین کی زندگی پر طائرانہ نظر

مصنف: ذیشان القادری جون 2024

حلب(Aleppo)شام کاقدیم، ثقافتی، جغرافیائی اور تجارتی اہمیت کا حامل شہر ہے-ایک روایت کے مطابق اس شہر کا نام حضرت ابراہیم کا یہاں مہمانوں کی میزبانی بکریوں کے دودھ سےکرنے کی وجہ سے پڑا- اس شہر کی جغرافیائی و تجارتی اہمیت یہ رہی کہ یہ شاہراہِ ریشم کا ایک سرا تھا - حلب استنبول اور قاہرہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کا تیسرا بڑا شہر تھا- ماضی میں یہاں مختلف طاقتوں بشمول عربوں، بازنطینیوں، فاطمیوں، سلجوقوں، ترکوں، منگولوں اور تیمور کی مہم جوئی رہی،  کئی تاریخی مقامات جنگ کی نذر ہو گئے- اس تمام کے باوجود یہ شہر عزم و استقامت کی چٹان بنا رہا اور مختلف تہذیبوں، مذاہب اور زبانوں کے امتزاج کی وجہ سے ثقافتی طور پر مضبوط (Culturally Rich) بن کر اُبھرا-[1] حلب کی زرخیز زمین علمِ دین کی خدمت میں پیش پیش رہی - آئیے اس ضمن میں عصر حاضر کی ایک ممتاز دینی شخصیت کی زندگی کا جائزہ لیں-

زندگی:

شیخ عبد اللہ سراج الدین کی پیدائش 1343ھ (٫1924)  میں حلب کے ایک علم و تقویٰ کے حامل گھرانے میں ہوئی-[2] آپ کا شجرہ نسب حضرت امام حسین(رضی اللہ عنہ)سے ملتا ہے-آپ کے والد محمد نجیب سراج الدین حلب شہرکے ممتاز مفسر، محدث، فقیہ اور صوفی تھے- پچپن ہی میں گھر میں آنے والے علماء و صلحاء سےفیض یاب ہونے کا موقع ملا- آپ نے تلاوت و تجوید جامع مسجد سلیمان الایوبی میں شیخ عثمان المصری کے ہاں سیکھی-[3] 13 برس کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا- خسرویہ مدرسہ میں 15 برس سے کم عمر طلباء کو داخلہ کی اجازت نہ تھی مگر اپنی قابلیت کے بل بوتے پر آپ کو 13 برس کی عمر ہی میں داخلہ دے دیا گیا- آپ نے محمد ابراہیم السلقینی، احمد الکردی، عیسیٰ البیانونی، محمد سعید الادلبی، عمر مسعود الحریری، فیض اللہ الایوبی الکردی احمد الشمع اور راغب الطباخ سے علم حاصل کیا -شیخ صاحب کی خسرویہ مدرسہ میں تعلیم کےآخری برسوں میں وزارت تعلیم نے پرانے پروگرام کو ختم کر کے نیا پروگرام شروع کیاجس میں دینی تعلیم کی مقدار بہت کم تھی- باوجود اس کے  کہ آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے قریب تھے آپ نے یہ مدرسہ چھوڑااور اپنے والد شیخ محمد نجیب سراج الدین کے زیرِ سایہ تعلیم کو جاری رکھا-[4] والد صاحب کے ساتھ رہ کرآپ کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے کا مزید موقع ملا- ایک قول کے مطابق آپ کوصحاح ستہ سمیت ایک لاکھ حدیث حفظ تھی یوں آپ کو الحافظ کہا گیا- ایک محدث و مفسر اور صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کو مجدد سنت کا لقب بھی دیا گیا-آپ رفاعی طریقہ کے شیخ جبکہ فقہ حنفیہ کی بھی ممتاز شخصیت تھے- [5]تین مرتبہ حج کی سعادت ملی اور کئی مرتبہ دمشق، حمص، حماہ، بغداد اور یروشلم گئے جہاں کئی علماء سے ملاقاتیں کیں- آپ بہت بااصول تھے اور مشتبہ چیز اختیار نہ کرتے- آپ سخی تھے اور غریبوں کی مدد کرتے- عجز و انکساری میں مشہور تھے اور طلباء سے نرمی سے پیش آتے-آپ کا وصال 4 مارچ2002ء بمطابق 20 ذوالحجۃ 1422 کوہوا اور مدرسہ شعبانیہ کے احاطہ میں تدفین کی گئی-

تدریس و خدمات:

22 برس کی عمر ہی میں اپنے والد کی ضعیف العمری کے باعث ان کے تمام تر تدریسی معاملات سنبھالےاور مساجد میں پڑھانا شروع کر دیا- ہفتے میں 4 مرتبہ حموی مسجدصبح ایک گھنٹہ پڑھاتےاور جمعہ کا خطبہ جامع مسجد سلیمان الایوبی میں دیا کرتے- آپ کو دیگر مدارس اورحلب کے مشہور مدرسہ شعبانیہ میں پڑھانے کی درخواست کی گئی- آپ نے تعلیم و تدریس کا سلسلہ بغیر کسی معاوضہ کے جاری رکھا- شعبانیہ مدرسہ بند ہونے کے بعد آپ نے مستقبل کے علماء و مبلغین تیار کرنےاور مذہبی تعلیم کی تجدید کے لیے 1958ء میں ایک بڑے اسلامی مدرسے کی بنیادرکھی جس میں فقہ و تصوف، سیرت و شمائل مبارکہ سمیت دیگر کئی علوم پڑھائے جاتے تھے-[6] اس کے علاوہ آپ نے قرآن کریم کی تعلیم کےلیے بھی مدرسہ قائم کیا-

عشق رسول

آپ ایک سچے عاشقِ رسول تھے اور حضور سے محبت و وارفتگی میں مشہور تھے- آپ نے لوگوں کے دلوں میں عشقِ رسول کو راسخ کیا اور سنت سے محبت کی ترویج کی- حضور کی ذات کے متعلق آپ کے ہر جملے سے محبت جھلکتی ہے-[7] شیخ عبد الرحمان شاغوری نے آپ کو ’محبتِ نبی کا قطب‘ کا خطاب دیا-[8] آپ کی شاہکار تصنیف (Magnum Opus) سیدنا محمد رسول اللہ (Our Master Muhammad P.B.U.H) ہے-[9] اس میں آقا  کریم (ﷺ) کے شمائل و خصائل مبارکہ کو محبت بھرے انداز میں بیان کیا گیا ہے جو حضور (ﷺ) سے آپ کے عشق کا مظہر ہے- [10]

تلامذہ:

آپ کےبہت سے شاگرد ہیں جو اپنے عہد کے مشہور عالم ہیں جن میں نور الدین عتر، شیخ وہبی سلیمان غاوجی، سامرالنص  اور محمد نینوی قابلِ ذکر ہیں-

تصانیف:

آپ نے لگ بھگ 30 کتب تحریر کیں جن میں تفسیر، ارکانِ ایمانیہ، تصوف، عقیدہ، اخلاق اور سیرت و شمائل مبارکہ کوموضوعِ بحث بنایا گیا ہے:

  • هدي القرآن الكريم إلى الحجة والبرهان
  • هدي القرآن الكريم إلى معرفة العوالم والتفكر في الأكوان
  • سيدنا محمد رسول الله
  • التقرب إلى الله تعالیٰ
  • الصلاة على النبي
  • الصلاة في الإسلام
  • صعود الأقوال ورفع الأعمال إلى الكبير المتعال ذي العزة والجلال
  • الإيمان بعوالم الآخرة ومواقفها
  • الإيمان بالملائکة علیھم السلام
  • شرح المنظومة البيقونية في مصطلح الحديث
  • الأدعية و الأذکار الواردۃ آناء الليل و أطراف النھار

اقتسابات:

ذیل میں آپ کی تصنیفات میں سے  کچھ موتی سمیٹتے ہوئے چند عبارات نقل کی گئی ہیں:

شمائل و خصائل مبارکہ کے متعلق:

آپ کے شمائل مبارکہ کا تذکرہ کرتے ہوئے شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ :

’’تمام لوگوں سے حضور نبی کریم (ﷺ) کا چہرۂ انور حسین ترین اور تابناک تھا-تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے حضور نبی کریم (ﷺ) کے چہرہ اقدس کو روشن و تاباں اور جمیل و منور بیان کیا- کچھ نے آپ روئےزیبا کی ضو فشانیوں کو سورج اور چاند سے تمثیل دی‘‘- [11]

آپ کی ایک خصلت مبارکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

آقا نے مبہم (Ambiguous) یا منفی مفہوم (Negative Connotations) پر مشتمل الفاظ کے استعمال سےاجتناب کرنے کا حکم فرمایا- اس ضمن میں حدیث مبارکہ نقل فرمائی کہ تم میں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ میرا نفس پلید(خبثت نفسی) ہوگیا ہے بلکہ یہ کہے کہ میرا دل خراب یا پریشان (لقست نفسی) ہوگیا-[12] اسی طرح نفس نے جوش مارا (جاشت نفسی) کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے کیونکہ دینِ اسلام نے گفتگو کے اسلوب و محاورات کو بھی پاکیزہ بنایاہے-اسی طرح حدیث مبارکہ کے مطابق لوگوں کو تباہ حال کہنے والا خود سب سے زیادہ تباہ حال ہے-

امام نووی کے مطابق اس حدیث کو یوں بھی روایت کیا گیا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے دوسروں کو تباہ کیا ہے- جو شخص مسلسل دوسروں کے عیب تلاش کرتا ہے اور ان کی ناکامیاں بتاتا ہے کہ لوگ خراب و برباد ہو گئے ہیں وہ خود سب سے زیادہ تباہ حال ہے کیونکہ وہ ان میں غلطیاں تلاش کرنے کا گناہ سرزدکرتا ہےاور ان کے معاملات کی ٹوہ میں لگا رہتا ہے- جس وجہ سے وہ خود مطمئن ہو کر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے جس میں اس کی اپنی تباہی پوشیدہ ہے- یہ بات اگر لوگوں کے دینی معاملات کمزور دیکھ کر افسردگی کی وجہ سے ہو تو ٹھیک ہے وگرنہ اگر اس میں خود پرستی کا جذبہ ہو تو بری ہے- [13]

صلوٰۃ وسلام کے متعلق:

آیتِ درود کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

”ملائکہ کا صلوٰۃ رب العالمین کےصلوٰۃ کی مانند نہیں بلکہ ان کے درمیان مشابہت بھی نہیں ہو سکتی- الغرض! اللہ تعالیٰ تمام بندوں پر حضور کے اس فضل، شرف، منزلت اور مقام کا اعلان فرما رہا ہے جو آپ کو وہاں حاصل ہے اس نےپہلے اس کا اعلان ملاء اعلیٰ میں فرمایا پھر یہ اعلان عالم سموٰت میں اور پھر عالم زمین پر- تو تمام کائنات میں اس مقدس اعلان کا ظہور ہو گیا، صفحات کائنات میں ان آیات نے یہ اطلاع دیتے ہوئے اس بات پر مہر لگا دی کہ ربِ عرش عظیم کے ہاں حضور نبی کریم (ﷺ) کو شانِ عظیم حاصل ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بزرگی و شرف، تکریم، فضیلت و تعظیم عطا فرمانے کےلیے درود بھیج رہا ہے اور اس کے ملائکہ آپ (ﷺ) پر درود پڑھ کر شرف و تبرک حاصل کر کے اس کے انوار و اسرار میں غوطہ زن ہیں جب ملاء ادنیٰ کی مخلوق نے یہ بات سنی تو ان کے دلوں میں انس پیدا ہوا، ان کے عزائم میں چاہت ہوئی کہ ہم بھی حضور نبی کریم (ﷺ) پر درود شریف کا شرف پائیں اور درود و سلام کے فضائل و کمالات اور اس کے انوار و اسرار سے مالا مال ہوں تو انہوں نے بھی زبانِ حال سے عرض کیا یا اللہ! ہمیں بھی اپنے حبیب (ﷺ)پر درود پڑھ کر شرف و برکت حاصل کرنے کی اجازت دے جیسے کہ ملائکہ کو حاصل ہے تو ” یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا“کے ساتھ اس اجازت کا نزول ہوا“ -[14]

کلمہ شریف کی فضیلت کے متعلق:

کلمہ شریف کی فضیلت کے متعلق حدیث شریف بیان کرتے ہیں کہ”لا الہ الا اللہ“ بندوں کو اللہ کے غضب سے محفوظ رکھتا ہے جب تک کہ وہ دین پر دنیوی منفعت کو ترجیح نہ دیں اور جب وہ دنیوی منفعت کو دین پر ترجیح دے کر کلمہ شریف پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے واپس لوٹا کر فرماتا ہے کہ تم نے جھوٹ کہا(یعنی تمہارے قول و فعل میں تضاد ہے)- [15]

حرفِ آخر:

آپؒ کی زندگی کئی علومِ دینیہ کےحصول و تبلیغ میں نظر آتی ہے جس میں عشقِ رسول (ﷺ)  غالب عنصر ہے جس وجہ سے آپ کی تعلیمات میں رعنائی محسوس ہوتی ہے- ہمیں اسی طرح مختلف علومِ دینیہ کےحصول پرتوجہ مرکوز کرنی چاہیئے-جبکہ اپنے آباء کی وراثت کاصحیح طور پر اہل بن کر علمِ دین حاصل کر کے دوسروں تک پہنچاننے کے ساتھ ساتھ عشقِ رسول  (ﷺ) کا پیغام بھی عام کرنا چاہیئےتا کہ ہم سب جوہرِ دین سے بھی مستفید ہو سکیں-

٭٭٭


[1]https://medium.com/@obada/ancient-aleppo-and-its-timeless-treasure-of-history-and-culture-424340bbc0a2

[2]A Believer’s Guide to Fasting by Shaykh ‘Abd-Allah Siraj al-Din and Shaykh Hisham Burhani, Page No. XI, Heritage Press, 2014

[3]https://www.srajalden.com/index.php?page=cGFnZXM=&op=ZGlzcGxheV9wYWdlcw==&id=MzI=&lan=YXI=

[4]https://aalequtub.com/shaykh-abdullah-sirajuddin-r-a

[5]Sending Prayers upon the Prophet: Its Rulings, Virtues & Benefits, Page No. 11, Imam 'Abdallah Sirajuddin al-Husayni Translator: Abdul Aziz Suraqah, Sunni Publications, 2015

[6]Sending Prayers upon the Prophet: Its Rulings, Virtues & Benefits, Page No. 12, Imam 'Abdallah Sirajuddin al-Husayni Translator: Abdul Aziz Suraqah, Sunni Publications, 2015

[7]https://aalequtub.com/shaykh-abdullah-sirajuddin-r-a

[8]Our Master Muhammad, The Messenger of Allah, His Sublime Character & Exalted Attributes, Vol. 2, Page No. 5, Imam 'Abdallah Sirajuddin al-Husayni, Sunni Publications, 2008

[9]https://seekerofthesacredknowledge.wordpress.com/2012/11/27/the-maqam-of-shaykh-abdullah-sirajuddin-from-halab

[10]https://oneworldonepage.com/shaykh-abdullah-ibn-muhammad-najib-sirajuddin-al-hussaini

[11]سیدنا محمد رسول اللہ (ﷺ)، شمائل الحمیدۃخصالہ المجیدۃ، ص: 19-20 ، عبداللہ سراج الدین الحسینی، مکتبہ دارالفلاح

[12]بخاری شریف، حدیث نمبر: 6179

[13]Our Master Muhammad, The Messenger of Allah, His Sublime Character & Exalted Attributes, Vol. 2, Page No. 66-67, Imam 'Abdallah Sirajuddin al-Husayni, Sunni Publications, 2008

[14]الصلوۃ علی النبی(ﷺ)، شیخ عبداللہ سراج الدین شامی ،ص:18-19، مترجم: مفتی محمد خان قادری، مرکز تحقیقات اسلامیہ لاہور، 2006ء

[15]The Testimony of Faith, There is no God but God and Muhammad is the Messenger of God, Its Merits, Meanings, Requirements, and Effects, Page No. 21, Imam 'Abdallah Sirajuddin al-Husayni, Sunni Publications, 2010

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر