نام و نسب:
آپ کا نام حماد ،کنیت ابو سلمہ اور نسب نامہ کچھ اس طرح سے ہے-حماد بن سلمۃ بن دینار [1]
ولادت و وطن :
امام صاحب کی ولادت بصرہ میں ہُوئی کب ہوئی اس بارے اصحاب سیر خاموش ہیں چونکہ آپ نے بصرہ میں بود و باش اختیار کیے رکھی اسی نسبت کی وجہ سے اُن کوالبصری بھی کہا جاتا ہے -
آپ مشہور امام حمید الطویل کی بہن کے بیٹے ہیں اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ایک علمی گھر انے سے تعلق رکھتے تھے -آپ کے والد بھی ایک علمی شخصیت تھے -
اساتذہ :
اما م صاحب ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لہذا آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے خاندان کے صاحب علم لوگوں سے حاصل کی اس کے بعد جب بڑے ہُوئے تو انہوں نے اپنے وقت کے نامور علماءو آئمہ فن سے اکتساب علم کیا جن حضرات سے آپ کو شرف تلمذ حاصل ہُوا ہے اُن میں چند مشہور درج ذیل ہیں:
’’اما م ابن ابی ملیکۃ ، انس بن سیرین ،حمید الطویل ،محمد بن زیاد القرشی ،علامہ ثابت البنانی ،عماربن ابی عمار ،عبداللہ بن کثیر الداری ،قتادہ بن دعامۃ، سماک بن حرب، حمادبن ابی سلیمان الفقیہ ، یعلی بن عطاء،سہیل بن ابی صالح ،اسحاق بن عبداللہ ،علی بن زید ، خالد بن ذکوان، ایوب سختیانی ،یونس بن عبید ،عمر بن دینار ،محمد بن واسع، عطاء بن عجلان ،عطاءبن السائب ،مطربن طہمان، ابو الذبیر المکی، ایاس بن معاویہ ، بشربن حرب ، سعدبن جمہانؒ ‘‘[2]
تلامذہ :
امام حماد کیونکہ ایک مایہ ناز محدث اور علمی شخصیت تھے اس لیے نامور علماء اُن کی علمی شان کو دیکھتے ہُوئے تحصیل علم کےلئے اُن کی بارگاہ میں کھچے چلے آئے، جن احباب کو اُن سے اکتساب علم کا موقع ملا ہے اُن میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں :
’’امام ابن جریج ،عبداللہ بن مبارک ، یحیی بن سعید القطان، حرمی بن عمارۃ، ابن مہدی، ابو نعیم، علامہ عفان، موسی بن اسماعیل ،شیبان بن فروخ، ہدبہ بن خالد، عبداللہ بن معاویہ ، عبد الواحد بن غیاث، عبدالاعلی بن حماد،ابراھیم بن الحجاج السامی، یحیی بن اسحاق، اسودبن عامر،ھیثم بن جمیل،سعید بن سلیمانؒ ‘‘-[3]
اما م حماد اور آئمہ کرام کی تو ثیقات و آراء:
امام حماد ایک مایہ ناز علمی شخصیت تھے آپ اپنے وقت کے ایک عظیم محدث اور امام فن تھے علمی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھنے کی وجہ سے اصحاب سیر اُن کو الامام القدوۃ،شیخ الاسلام جیسے القابات سے یاد کرتے ہیں- اُن کی علمی جلالت کو دیکھتے ہُوئے آئمہ کرام نے نہ صرف اُن کی توثیق کی ہے بلکہ مختلف اقوال و آراء کے ساتھ اُن کی علمی شان کو بھی بیان کیا ہے- نامور امام الجرح و التعدیل امام ابو حاتم الرازی اُن کی توثیق کرتے ہُوئے امام یحیی بن معین کا قول نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’حماد بن سلمۃ ثقہ ہیں ‘‘-[4]
امام عجلی اُن کی ثقاہت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’وہ ثقہ ،صالح مرد اور بہترین حدیث والے تھے ‘‘-[5]
’’علامہ الساجی آپ کے حفظ و ثقاہت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتےہیں :
’’وہ حافظ ،ثقہ اور مامون تھے ‘‘-[6]
امام ابن سعد نہ صرف اُن کے کثیر الحدیث ہونے کے قائل ہیں بلکہ اُن کی ثقاہت کو بھی تسلیم کرتےہیں، وہ فرماتے ہیں:
’’وہ ثقہ اور کثیر حدیث والے تھے اور کبھی کبھار منکر حدیث بھی بیان کرجاتے تھے ‘‘-[7]
امام علی بن مدینی اُن کی علمی شان کو کچھ یوں بیان کرتے ہُوئے نظر آتے ہیں :
’’وہ حدیث کے رجال میں میرے نزدیک حجت ہیں ‘‘-[8]
آئمہ کرام کے مذکورہ بالا اقوال سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام صاحب کو ئی معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ وہ ایک حافظ، ثقہ،کثیر الحدیث والے اور صاحب حجت تھے انہی اوصاف و کمالات نے اُن کو بصرہ میں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کردیا اور اُن کا شمار آئمہ دین میں ہوتا تھا -اسی لئے تو علامہ حجاج بن المنھال اُن کے بارے فرماتے ہیں :
’’وہ دین کے آئمہ میں سے تھے‘‘-[9]
جس انداز میں علامہ ابن حبان نے اُن کی انفرادیت اور امتیازی شان کو بیان کیا ہے اُس سے تو اُن کی علمی شخصیت مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہے وہ فرماتے ہیں :
’’بصر ہ میں امام حماد کے ہم عصروں میں سے کوئی بھی فضیلت، دین وعلم ،قربانی دینے، جمع حدیث اور سنت پر عمل کرنے کے لحاظ سے سختی کرنے میں اور اہل بدعت کے قلع قمع کرنے میں اُن کے برابر کو ئی نہ تھا‘‘-[10]
امام وھیب بھی اسی طرح کے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ اُن کی انفرادیت کو بیان کرتے ہیں:
’’حماد بن سلمۃ ہمارے سردار اور علم کے لحاظ سے ہم سے زیادہ جاننے والے تھے ‘‘-[11]
علوم حدیث میں امامِ حماد کا مقام و مرتبہ:
امام حماد علوم حدیث میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے ایک عظیم محدث ہونے کی وجہ سے مرجع العلماء تھے، آئمہ کرام حدیث میں اُن کے علمی مقام ومرتبہ کے معترف نظر آتے ہیں -
امام عجلی حدیث میں اُن کے علمی مقام کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’اُن کے پاس ایک ہزار حسن ایسی احادیث تھیں جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں وہ حدیث اُس وقت تک بیان نہ کرتے جب تک وہ سو آیات قرآن مجید سے دیکھ کر پڑھ نہ لیتے ‘‘-[12]
حدیث میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ اسحاق بن سیار عمروبن عاصم سے بیان کرتےہیں کہ :
’’ میں نےحماد بن سلمۃ سے دس ہزار سے زائد احادیث لکھیں ‘‘-[13]
نامور آئمہ فن اما م علی بن مدینی اور امام یحیی بن معین امام صاحب کو امام ثابت البنانی سے روایت کرنے والوں میں اثبت مانتے ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’ثابت البنانی سے روایت کرنے والوں میں سے حماد بن سلمۃ اثبت تھے ‘‘-[14]
آپ اس پائے کے محدث تھے کہ ایک دن کچھ لوگوں نے علامہ یحیی بن ضریس سے پوچھا کہ :
’’حدیث میں حمادبن سلمۃ احسن ہیں یا امام ثوری؟ تو انہوں نے کہا کہ امام حماد حدیث میں احسن ہیں‘‘-[15]
امام حماد فن حدیث میں چونکہ امام حمید الطویل جو کہ آپ کے ماموں ہیں اُن کے ابتدائی تلامذہ میں سےہیں اس لیے آپ امام حمید الطویل سے روایت کرنے والوں میں سے اعلم اور اصح ہیں، اسی بنا پر علامہ یوسف مزی زکریا بن یحیی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:
’’امام حمید سے حدیث روایت کرنے والوں میں امام حماد زیادہ جاننے والے اور اصح تھے‘‘-[16]
جس طرح آئمہ کرام کی مذکورہ بالا تصریحات سے امام حماد کا حدیث میں علمی مقام و مرتبہ واضح ہو جاتا ہے تواسی طرح خاص طور پر امام عجلی اور امام ابن حبان کا اُن کو الثقات میں اور امام ذہبی کا تذکرۃالحفاظ میں اُن کو جلیل القدر اور آئمہ اعلام میں شمار کرنا مزید حدیث میں اُن کے علمی مقام ومرتبہ کو چار چاند لگا دیتا ہے-
تدوین حدیث اور امام حماد:
جس طرح امام صاحب حدیث کے میدان میں ایک بہت بڑا مقام رکھتے تھے جیسا کہ ماقبل آئمہ کرام کی تو ثیقات و آراء سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے تو اسی طرح اُن کو یہ بھی اعزاز اور خصوصیت حاصل ہے کہ اُن کا شمار اُن نامور متقدمین آئمہ میں ہوتا ہے- جنہوں نے تدوین حدیث میں بھر پور کردار اداکیا ہے-اس لیے اُن کا شمار محدثین کی نظر میں اپنے وقت کے جامعین حدیث میں ہوتا ہے- چنانچہ علامہ ابو محمد حسن بن عبد الرحمٰن نے اپنی کتاب المحدث الفاصل میں جہاں مختلف شہروں کی اُن شخصیات کا ذکر فرمایا کہ جنہوں نے اکابر تابعین کے بعد سب سے پہلے ابواب کی صورت میں کتب حدیث تصنیف فرمائیں اُن میں بصرہ میں سب سے پہلے احادیث کو جمع کرنے والے امام حماد بن سلمۃ کا بھی ذکر فرمایا ہے-[17]
امام حماد بحیثیت فقیہہ:
امام حماد ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے، اُن کی فقاہت بے مثال تھی- امام ذہبی اُن کی فقہی بصیرت کو بیان کرتے ہُوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’وہ عربی علوم کے ماہر، فقیہ،فصیح اور صاحب سنت تھے‘‘-[18]
امام ابن حجر نہ صرف حدیث میں اُن کی خدمات کے معترف ہیں بلکہ اُن کی فقہی شان کے بھی قائل نظر آتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ امام ابن عدی نے کتاب الکامل میں حمادبن سلمۃ کی بعض ایسی روایات کا تذکرہ کیا ہے جن کے متن یا سند میں وہ منفرد ہیں پھر وہ مزید فرماتےہیں :
’’حماد بن سلمۃ عظیم الشان مسلمانوں میں سے ہیں اور وہ بصرہ کے مفتی ہیں ‘‘-[19]
علامہ ابو عمر الجرمی النحوی بڑے خوبصورت انداز کے ساتھ اُن کی فقہی بصیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتےہیں :
’’میں نے عبدالوارث سے زیادہ فصیح کو ئی فقیہہ نہیں دیکھا لیکن حماد بن سلمۃ اُن سے بھی زیادہ فصیح ہیں‘‘-[20]
فقہی مسلک :
آپ مسلکاً حنفی ہیں آپ کا شمار امام ابو حنیفہ کے بصری تلامذہ میں ہوتا ہے،اس بات کی وضاحت علامہ بدرالدین نے کی ہے آپ فرماتےہیں :
’’میں کہتا ہوں کہ انہوں نے امام ابوحنیفہ سے بھی روایت کیا ہے وہ آپ کے جملہ اصحاب میں سے ہیں اور ہمارے اصحاب نے اُن کو طبقہ احناف میں ذکر فرمایا ہے‘‘-[21]
اسی طرح عبد القادر قرشی الحنفی نے آپ کو الجواہر المضیۃ میں اور علامہ تقی الدین نے طبقات السنیۃ فی تراجم الحنفیۃ میں ذکر کرکے اُن کے حنفی ہونے کی وضاحت کردی ہے -
امام حماد اور فن جرح وتعدیل :
امام حماد بن سلمۃ اپنے وقت کے نامور آئمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں کبار آئمہ فن اس باب میں موصوف کی آراء و اقوال پر اعتماد کرتےہیں چنانچہ امام مسلم نے بھی ان کو اس فن کے حاملین میں سے قرار دیا ہے-نیز انہوں نے مقدمہ صحیح مسلم میں صالح المری پر حمادبن سلمۃ کی جرح کو بھی نقل کیا ہے -
اسی طرح علامہ سخاوی نے ’’اعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ میں حماد بن سلمۃ کو المتکلمون فی الرجال‘‘ میں شمار کیا ہے کہ موصوف اس باب میں کسی راوی حدیث کی تو ثیق یا تضعیف کر سکتے ہیں اور ان کے اسم گرامی کو سفیان ثوری اور ابن الما جشون کے بعد ذکرکیا ہے-
علامہ ذہبی نے اپنے رسالے ’’ذکرمن یعتمد قولہ فی الجرح و التعدیل‘‘ میں ان کو جلیل القدر آئمہ جرح و تعدیل میں شمارکیا ہے لیکن علامہ ذہبی نے ان کو لیث بن سعد اور زائدہ بن قدامہ کے بعد ذکرکیا ہے جبکہ علامہ سخاوی نے ان کو لیث بن سعد سے پہلے ذکرکیا ہے-[22]
امام حماد بحیثیت مصنف:
امام صاحب ایک محدث و فقیہ ہونے کے ساتھ نامور مصنف بھی تھے اس بات کا اظہار بہت سے علماء نے کیا ہے علامہ ذہبی فرماتے ہیں :
’’میں کہتا ہوں کہ وہ پہلے ہیں جنہوں نے ابن ابی عروبہ کے ساتھ تصانیف تصنیف فرمائیں ‘‘-[23]
اسی طرح علامہ صلاح الدین الصفدی اُن کو بہت سی کتابوں کے مصنف مانتے ہیں، فرماتے ہیں:
’’وہ بڑی شان والے امام اور صاحب اثر و سنت تھے اور اُن کی بہت سی تصانیف ہیں ‘‘-[24]
علامہ ذہبی اور علامہ صفدی کے بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ بہت سی کتب کے مصنف تھے لیکن بد قسمتی سے آپ کی تصنیفات منظر عام پر نہ آسکیں -ہاں البتہ علماء نے حدیث میں اُن کی کتاب مُصَنف کا ذکرکیا ہے -جیسا کہ علامہ محمد بن ابی الفیض نے کتاب ’’الرسالۃ المستطرفۃ‘‘ میں جہاں دیگر علماء کی مصنفات کا ذکرفرمایا تو وہیں امام حماد بن سلمۃ کی حدیث میں کتاب مُصَنف حماد بن سلمۃ کا بھی خصوصی طور پر ذکر کیا ہے-[25]
وفات :
آپ کی وفات سن 167ھ میں ہوئی ہے اور بعض علماء نے یہ بھی کہا ہے کہ اُن کی وفات حالتِ نماز میں ہُوئی -[26]
٭٭٭
[1]( سیراعلام النبلاء، جز:7،ص:444)
[2](ایضًا ،ص: 445)
[3](ایضًا)
[4](الجرح و التعدیل ،جز:3،ص:141)
[5](تاریخ الثقات، جز:1،ص:131)
[6](تہذیب التہذیب ،جز:3،ص:15)
[7](ایضًا)
[8](سیراعلام النبلاء، جز:7، ص:446)
[9]( تہذیب الکمال فی اسماءِالرجال ،جز:7،ص:263)
[10](الثقات ،جز:6،ص:217)
[11](الجرح و التعدیل ،جز:3،ص142)
[12](تاریخ الثقات ،جز:1،ص:131)
[13]( تہذیب الکمال فی اسماءِ الرجال، جز:7،ص:264)
[14](ایضًا، و الجرح و التعدیل، جز:3، ص:142)
[15](ایضًا)
[16](ایضًا، ص:261)
[17](المحدث الفاصل ،جز:1،ص:611)
[18](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:151)
[19](تہذیب التہذیب ،جز:3،ص:15)
[20](تہذیب الکمال ،جز:7،ص:264 )
[21]( مغانی الاخیار ،جز:1،ص:241)
[22](احناف حفاظ حدیث کی فن جرح و تعدیل میں خدمات، ص:145،146)
[23](تذکرۃ الحفاظ ،جز:1،ص:151)
[24](الوافی بالوفیات ،جز 13،ص:90)
[25](الرسالۃ المستطرفۃ ،جز:1ص:40 )
[26]( التاریخ الکبیر للبخاری ،جز :3،ص:22)