حجازِ مقدسہ کی روایات کے امین سید محمد علوی الحسنی الملکی المالکی

حجازِ مقدسہ کی روایات کے امین سید محمد علوی الحسنی الملکی المالکی

حجازِ مقدسہ کی روایات کے امین سید محمد علوی الحسنی الملکی المالکی

مصنف: ذیشان القادری اکتوبر 2024

”ا ٓپ کا شمار مکہ مکرمہ کے ان اکابر علماء کرام میں سے تھا جنہوں نے مکہ مکرمہ کے در و دیوار اور معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے- آپ نے محبت کا پیغام عام کیا، اندازِ بیاں دل نواز تھا اور خدا داد صلاحیتوں کے حامل تھےجو خود سے حاصل نہیں کی جا سکتیں- آپ کی وفات سے مکہ مکرمہ کی مقامی و خالص ثقافت کا ایک بہت بڑا باب ختم ہو گیا“ -[1]

یہ رائے تھی سعودی عرب کے ایک مصنف کی بیسویں صدی میں حجاز مقدسہ کے اُس گوہر نایاب کے متعلق جو محدث حرم اور محدث اعظم کہلوائے - آج کل کے دور جس میں حقیقت ، خالص اور اصل پن موہوم ہو کررہ گئے ہیں ایسی شخصیت کا تذکرہ یقیناً حقیقی اور روایتی عرب کی اسلامی شناخت متعارف کروانے میں ممدودثابت ہو گا- آپ دینِ اسلام کی جامع تعلیمات کے پیکر، نسل در نسل اعلیٰ نسبی و پاکیزگی کے حامل اور ظلماتِ باطل میں مینارہ نور تھے - آپ کی شخصیت حضور پر وارفتہ، انقلابی، وجدانی اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل تھی-آپ نے سیرۃ النبی (ﷺ)کا پرچار کیا اور حضور (ﷺ)سے محبت و تعظیم پرقرآن و حدیث اور منطق پر مبنی دلائل دیئے- آپ مختلف علوم پر دسترس رکھنے والے ایک عظیم عالم (A Great Polymath Scholar)تھے جنہوں نے تفسیر، حدیث، سیرت، عقیدہ، فقہ، تاریخ اورتصوف پر 100 سے زائد تصانیف تحریر کیں- دنیا آپ کی شخصیت کو شیخ الحجاز، محدث ِحرمین شریفین، فخر المالکیہ سید محمد علوی الحسنی الادریسی المکی المالکی کے نام سے جانتی ہے -

آئیے آپ کی زندگی کے دریچوں میں جھانکنے کی سعی کرتے ہیں:

پس منظر خاندان:

جیسے’’باعلوی“ خاندان امام عالی مقام حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی نسل پاک سے ہے، اسی طرح ”ادریسی“ خاندان حضرت امام حسن (رضی اللہ عنہ) کی نسل پاک سے ہے- امام ادریس (رضی اللہ عنہ) اول حضرت امام حسن(رضی اللہ عنہ) کےپڑپوتے ہیں جنہوں نے عراق سے مراکش دوسری صدی ہجری میں ہجرت کی اور ادریسی سلطنت قائم کی-[2] آپ کے صاحبزادے ادریس دوم نے مراکش کے مشہور شہر فاس (Fez) جسے صوفیا کا شہر (City of Saints)بھی کہا جاتاہے، کی بنیاد رکھی-[3] ان کی اولاد ادریسی شریف کہلائی جس سے علماء و صوفیا کی ا یک بڑی تعداد نے جنم لیاجن میں سے سید محمد علوی الحسنی المالکی المکی کے آباء  و اجداد نے مراکش سے مکہ ہجرت کی-[4] آپ کے اجداد شمالی افریقہ سےتعلق کی بنیاد پر مالکی فقہ کے پیروی کی وجہ سے مالکی کہلوائے- سید محمد علوی کا سلسلہ نسب 29 واسطوں سے حضور نبی کریم (ﷺ)سے جا ملتا ہے- قریشی و ہاشمی قبیلے کی اِس آلِ المالکی والحسنی سے مسجد الحرام کے کثیر علماء نے جنم لیا-[5] آپ کے اجداد میں سےپانچ بزرگ مسجد الحرام کے خطیب و معلم رہے- آپ کے والدِ گرامی سید علوی اور دادا جان سید عباس بھی مکہ کے مشہور و معروف عالم تھے- سید عباس مکہ مکرمہ کے قاضی اور حرم شریف کے امام رہے-[6] ان کے ہاں اولادِ نرینہ نہ تھی جس پر انہوں نےیمن کے مشہور بزرگ حبیب احمد ابن حسن العطاس العلوی الحسینی سے دعا کروائی جس کے بعد آپ کے صاحبزادے پیدا ہوئے جن کا نام ان باعلوی سادات کی وجہ سے علوی رکھا گیا- [7]سید محمد علوی کے والدِ گرامی نے دس سال کی عمر ہی میں مسجد الحرام میں تراویح کی نماز پڑھانا شروع کر دی تھی-[8] والدِ محترم قریباً40 برس تک مسجد الحرام میں درس و تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے- یوں محدثِ حجاز کا گھرانہ علمی و روحانی میراث کا حامل ہے-مملکتِ عربیہ سعودیہ کی حکومت آپ کے گھرانے کی بہت عزت کیا کرتی تھی- شاہ فیصل ہمیشہ آپ کے والد سے اہم معاملات میں مشاورت کیا کرتےتھے- [9]

ابتدائی ایام و تعلیم :

سید محمد علوی کی ولادت 1943ء میں مکۃ المکرمہ میں مسجد الحرام کے باب السلام کے قریب ہوئی- [10]آپ حرم میں منعقد حلقوں(مدرسہ الفلاح) میں علوم ِ دیینہ حاصل کرتے رہے- زیادہ تر تعلیم اپنے والدِ گرامی اور پھر مکہ، مدینہ اور جدہ کے نامور علماء سےحاصل کی- اپنے گھرانے کی روایت کے مطابق اپنے عہد کے نامور صوفیا حبیب عبد القادر الثقاف،  حبیب احمد مشہور الحداد، سید حسن فداق اور سید امین قطبی سے منسلک ہوئے-حبیب احمد مشہور الحداد اور مفتی اعظم مصر شیخ حسنین مخلوف اور دیگر سے آپ نے اجازت حاصل کی- تشنگی علم بجھانے کےلیے مصر تشریف لے گئے- قاہرہ میں آپ نے شیخ صالح الجعفری، شیخ الحافظ التیجانی اورشیخ الاظہر جامعہ الازہر ڈاکٹر شیخ عبدالحلیم اور دیگر سے تعلیم حاصل کی- جامعہ الازہر سے اصولِ دین میں ایم اے کیا- جامعہ الازہر کی فیکلٹی آف فنڈامینٹلز آف ریلیجن سے”امام مالک اور حدیث شریف کےلیے ان کی خدمات“ کے موضوع پر محض 25 برس کی عمر میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی-[11] آپ کے مقالے کی علماء خاص کر مشہور مصری مفکر و محقق امام ابو زہرہ نے تعریف کی- آپ الازہر سے پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اور نوجوان ترین سعودی طالب علم قرار پائے-سلسلۂ عالیہ قادریہ میں اپنے والدِ محترم سے بیعت ہوئےاور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں قادری اور قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین مدنی سے خلافت حاصل کی- امام عبد اللہ ابن علوی الحداد کے اوراد پڑھنا آپ کے معمول میں شامل تھا- یمن، شام، لبنان، عراق، مصر، مراکش، الجیریا، لیبیا، تیونس سمیت دنیا بھر کے کثیر تعداد  میں جید علماء سے آپ نے سند و اجازت حاصل کی-[12] گو کہ آپ فقہ میں مالکیہ تھے لیکن کہا کرتےکہ ”أنا ابن المذاهب الأربعة“- کلام میں آپ نے اشعریہ کا دفاع کیا- [13]

تدریس:

حصولِ علم کی خاطر دنیابھر سے درخشاں طلباء کا مکہ مکرمہ آ نا ایک روایت تھی اورسید محمدعلوی کو علم و تدریس کا فطری طور پر شغف تھا-کم عمری سے ہی آپ حرم شریف میں درس دیا کرتے تھے- آپ کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت جھلکتی تھی جو سامعین کا دل موہ لیتی تھی-حرمین شریفین میں مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے علماء کیلیے سرکاری سطح کے علاوہ تدریس کافی مشکل ہو گئی جو کہ 13 صدیوں سےحرمین شریفین میں بلا تعطل رائج رہی-[14] حرم شریف کے علاوہ آپ نے کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ اور اُمّ القرٰی یونیورسٹی مکہ میں حدیث اور اصولِ دین پڑھایا- 1971ء میں والد صاحب کی وفات کے بعد مکہ کے جید علماء شیخ حسن مشاط، شیخ محمد نور سیف اور دیگر نے آپ کو ان کا جانشین مقرر کیا- مغرب اور عشاء کے درمیان مکہ کی تحصیل رصيفہ (Rusayfa) میں واقع مالکی محلے میں اپنے گھر پر درس دیا کرتے جس میں روزانہ سینکڑوں افراد شامل ہوتے- مکہ، جدہ، یمن اورجنوب مشرقی ایشیا کے طلباء کی ایک کثیر تعداد آپ کے علم سے سیراب ہوئی- بڑی تعدادمیں طلباء آپ کے گھر پہ ہی رہائش پذیر تھے جن کے قیام و طعام کا بندوبست آپ نے کر رکھا تھا اور ان سے صرف پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنے کی توقع تھی-آپ مکہ کے ریڈیو”نداالاسلام“ پر بھی درس دیا کرتے تھے-[15] جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جاتے تو مدینہ کے لوگ ہر رات اپنی محافل میں آپ کو مدعو کرتے اورروزانہ آپ کا درس منعقد ہوتا- رمضان المبارک میں حبیب محمد صالح المحضار کےمسجد نبوی میں درسِ بخاری شریف کےاختتامی پروگرام میں ضرور شامل ہوتے- آپ نے جنوب مشرقی ایشیا میں کئی مدارس قائم کیے- آپ کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل تھی ، علماء کرام آپ کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے اور لیکچرز اور مذہبی موقعوں پر مدعو کرتے- اس حوالے سے آپ یمن، مصر، شام، مراکش، انڈونیشیا،ملائشیا، سنگاپور، پاکستان، ہندوستان، مشرقی افریقہ ، یورپ اور شمالی امریکہ تشریف لے گئے - آپ تادمِ وصال 34 برس تک درس و تدریس میں مشغول رہے-

سیرت و کردار:

آپ کی طلمساتی شخصیت ملنسار، شائستہ، حلیم، بردبار، صابر، باوقار اور آسانی سے قابلِ رسا تھی- اختلاف میں بھی آپ ہمیشہ شائستگی اور شگفتگی کو برقرار رکھتے- آپ نے حق کی غیر متزلزل حمایت جاری رکھی اور اپنے مخالفین کےلیے کبھی عامیانہ انداز استعمال نہیں کیے- اساتذ ہ سے سیکھے ہوئے روایتی آداب کو ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو غصے سے ہمیشہ دور رکھا- حجاز کے چھوٹے بڑےسبھی آپ کی شخصیت پر فخر کرتے اور اپنے سماج کے زعما میں گردانتے- مکہ میں انٹرنیشنل قرأت کے مقابلے میں آپ کو مسلسل تین مرتبہ ہیڈ جج مقرر کیا گیا- عشق ِ رسول آپ کے قول و فعل اور کردار سے مترشح تھا اورآپ نے لوگوں کو اس کی دعوت بھی دی- کثیر تعداد میں غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا-

سعی اتحاد امت:

 آپ نے فکریاتِ اسلامی کی تجدیدکےلیے ہمیشہ مختلف مسالک کے لیےدروازہ کھلا رکھنے کی سعی کی- آپ نے دورِ حاضر کے تقاضوں کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتے ہوئے دینِ اسلام کو درپیش چیلنجز کے حل کےلیے نقطۂ نظر پیش کیا- آپ کی خواہش تھی کہ ایک ایسے دینی پیغام کی تشکیل ہوجو عصر ِحاضرکی اچھی خصوصیات کو بروئے کار لاتے ہوئے امت کے تمام طبقاتِ فکر تک پہنچے ، نسلی و مذہبی تعصب سے پاک ہو اور ہم آہنگی کی دعوت دے- یہ پیغام دین کو اختلاف اور فرقہ واریت کی بجائے ملاقات اور محبت کا راستہ سمجھے - [16]

تصانیف:

آپ نے 100 سے زائد تصانیف لکھیں جن میں عام قاری کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھا- آپ کی کتب تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ تفسیر، اصولِ حدیث، اصولِ فقہ، عقائد، حضور نبی کریم (ﷺ)کے اخلاق و شمائل، فضائل و خصائص، سیرت و معجزات، مسجد نبوی کیلیے سفر کی رغبت ، زیارتِ روضہ ٔاطہر کی فضیلت، شفاعت و توسل، اذان و اقامت میں آپ کا ذکر سن کر انگوٹھےچومنا، جشن ولادت منانے کے جواز، میت کے لیے ایصالِ ثواب کے جواز، مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کے جواز و رغبت، حج و عمرہ کے احکامات، اسانید، روایات اور درایات، مذاہبِ اربعہ، فقہ مقارن اور امام مالک (رضی اللہ عنہ) کی سوانح و سیرت جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں-[17] آپ کی کتب کا اردو، انگریزی، انڈونیشیائی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے-

اقتسابات:

ذیل میں آپ کی کتب سے مستفیض ہونے کی غرض سے چند اقتباس نقل کیے گئے ہیں-

تعظیمِ مصطفےٰ():

حضورنبی کریم  (ﷺ) کی تعظیم میں درج ذیل مشہور حدیث مبارکہ نقل کرتے ہیں:

’’عروہ بن مسعود نے بڑے غور سے حدیبیہ میں صحابہ کرام کو دیکھا اور پھر اپنے یہ مشاہدات و تاثرات بیان کیے (آپ ا بھی مشرف بہ اسلام نہ تھے)- واللہ جب رسول اللہ (ﷺ)لعابِ دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اپنے ہاتھ میں لے لیتا اور اپنے چہرہ و جسم پر مل لیتا -آپ جب حکم دیتے تو اس کی تعمیل کے لیے صحابہ دوڑ پڑتے-جب آپ وضو فرماتے تو آبِ وضوحاصل کرنے کے لیے ایسا معلوم ہوتا کہ آپس میں لڑ پڑیں گے- آپ کے حضور جب وہ بات کرتے تو بہت آہستہ بولتے- آپ کی تعظیم و تکریم کا یہ حال تھا کہ نظر اٹھا کر آپ کی طرف نہیں دیکھتے-عروہ بن مسعود نےمکہ مکرمہ واپس آ کر قریش سے کہا- اے لوگو! واللہ میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں- میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کا دربار دیکھا ہے- واللہ! میں نے کہیں نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے رفقاء و ہم نشین اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی صحابہ اپنے محمد (ﷺ)کی تعظیم کرتے ہیں- واللہ! جب وہ لعابِ دہن پھینکتے ہیں تو کسی نہ کسی صحابی کے ہاتھ میں پڑتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے- جب وہ حکم دیتے ہیں تو دوڑ کر صحابہ اس کی تعمیل کرتے ہیں- جب وہ وضو کرتے ہیں تو آبِ وضو حاصل کرنے کے لیے ایسا لگتا ہے کہ صحابہ آپس میں لڑ پڑیں گے جب وہ آپ کے حضور بات کرتے ہیں تو اپنی آواز بہت آہستہ نکالتے ہیں- آپ کی تعظیم کی وجہ سے نظر اٹھا کر آپ کو نہیں دیکھتے‘‘- [18]

روضۂ انور کی زیارت:

روضۂ انور کی زیارت کے حوالے سے رقم طراز ہیں:

’’آپ (ﷺ) کے کاشانۂِ نبوت میں زائرین فرحت حاصل کرتے ہیں، آپ کی پناہ میں آنے والے مستفیض ہوتے ہیں، وہاں قیام کرنے والے کرم پاتے ہیں اور وہاں آنے والے شفاعت سے بہرہ ور ہوتے ہیں- آپ کے سامنے دست بستہ حاضر ہو کر آپ کے توسل سے حاجات پوری ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں- ان روحانی لمحات میں سلام بھیجنے پر عاشقین لطف اندوز ہوتے ہیں اور محبین تازگی محسوس کرتے ہیں اور ان پر سلام کے جواب میں زائرین شرف پاتے ہیں اور عارفین و ربانیین کو فرحت نصیب ہوتی ہے- (یہی وہ شراب ہے جس کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لینی چاہیے )[19]

شوق صرف وہی جانتا ہے جس کا واسطہ پڑے
عشق صرف وہی سمجھتا ہے جو برداشت کرے

’’جان لو! اللہ تعالیٰ مجھے اور تمہیں اپنی اطاعت اور نبی کے خصائص کو سمجھنے اور اس کی رضا حاصل کرنے میں جلدی کی توفیق دے کہ روضہ نبوی کی زیارت از روئے قرآن وسنت، اجماع امت اور قیاس جائز اور مطلوب ہے-قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے‘‘- [20]

’’یہ آیت امت کے آپ کے پاس آنے اور آپ کے حضور اللہ سے معافی مانگنے پر دلالت کرتی ہے، آپ کی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں اور یہ امر آپ کے وصال کے بعد بھی جاری و ساری ہے- یہ بھی ظاہرہوا کہ وہ لوگ بلا شک و شبہ اللہ کو تواب و رحیم پائیں گے- جب وہ آپ کے پاس آئیں گے اور اللہ سے مغفرت طلب کریں گے تو آپ اللہ سے ان کے لیے معافی مانگیں گے- جہاں تک آپ کی مغفرت طلبی کا تعلق ہے تو وہ تمام مومنین کو حاصل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی طلبِ مغفرت (یعنی ان کی شفاعت) فرماتے رہا کریں (یہی ان کا سامان بخشش ہے)‘‘[21]

دعوت کا طریقہ کار:

’’اگر ہم لوگوں کی تین اقسام کو دیکھیں تو ’’اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ‘‘[22]والی آیت ہر ایک گروہ کےلیے منفرد طرزِ عمل اختیار کرتی ہے-

پہلا گروہ دانشور اشرافیہ(Intellectual Elite) کا ہے جن کو دانائی سے دعوت دینے کی ضرورت ہے- یعنی دانائی کے وزنی الفاظ اور حق کاصریح ثبوت جس میں شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو- ایسا اس لیے ہے کہ وہ واضح دلیل کے علاوہ قائل نہیں ہوتے جو ان کے تمام شکوک و شبہات کو ختم کر دے اور دانا الفاظ جو انہیں رب کی راہ کی طرف بلائیں-

دوسرا گروہ عوام الناس کا ہےجنہیں احسن نصیحت کرنی چاہیئے- یعنی قائل کرنے والی گفتگو اور مفید اظہار سے اس طرح دعوت دے کہ عوام الناس کو داعی کے اخلاص اور ان کےلیے بہترین کی طلب میں شبہ نہ ر ہے- انہیں دانائی پر مبنی مخصوص وزنی الفاظ کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ دانشور ہونے کی بجائے عام لوگ ہیں - انہیں ثبوتوں کی زیادہ ضرورت نہیں کیونکہ وہ ایسے شکوک میں مبتلا نہیں جن کی اصلاح ضروری ہو-

تیسرے وہ لوگ جو ضدی حریف ہیں، ان سےان کے مطابق بہترین انداز میں مباحثہ کیا جا سکتا ہے جو کہ نرمی، آسانی اور معروف تمہید کا راستہ ہے- تا کہ ان کا غصہ ختم ہو ، دلوں میں لگی آگ بجھے اور پھر وہ اللہ کے رستے کی طرف رجوع کر سکیں‘‘- [23]

میت کا سننا:

’’یہ دعوی کرنا کہ میت کسی بھی چیز پر قادر نہیں ہوتا، باطل ہے -کیونکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ میت مٹی ہو جاتا ہے، حضور نبی کریم (ﷺ)کے ارشاد سے بالکل جہالت کی وجہ سے ہے- بلکہ اجسام سے جدا ہونے کے بعد ارواح کی حیات و بقا کے ثبوت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا جو ارشاد ہے ،اس سے بھی جہالت کی وجہ سے ہے-اس سے بھی جہالت ہے کہ  حضور نبی کریم (ﷺ) نے غزوۂ بدر کے دن ارواح کو پکار کر فرمایا: ا ے عتبہ بن ربیعہ! اے عمرو بن ہشام! اےفلاں! اے فلاں! ہمارے رب نے جو ہم سے وعدہ کیا تھا ہم نے وہ حق و سچ پایا- کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدے کو حق و سچ پایا- تو حضور نبی کریم (ﷺ) سے عرض کیا گیا یہ کیا فرما رہے ہیں -آپ نے فرمایا: تم لوگ میری بات کوان سے زیادہ نہیں سنتے اور اسی قبیل سے اہل قبور کو سلام کرنا اور ان کو اس طرح ندا ءدینا ’’السلام علیکم یا اھل القبور‘‘ بھی ہے- عذابِ قبر اور قبر کی نعمتوں اور ارواح کی آنے جانے وغیرہ کے اثبات کی اسلام میں بےشمار دلیلیں ہیں اور اہل فلسفہ نے ہر زمانہ میں قدیماً و حدیثا ًاس کو ثابت کیا ہے‘‘- [24]

تصانیف کی فہرست:

آپ کی دستیاب تصانیف کی ایک فہرست ذیل میں دی گئی ہے:

  • مفاہیم یجب ان تصحع

یہ آپ کی سب سے مشہور اور شاہکار کتاب (Magnum Opus) ہے- اس کتاب میں آپ نے عمومی عقائد پر پائے جانے والے ابہامات کی انتہائی احسن انداز میں تشریح و توضیح کی-اس میں خصائص نبوی، تبرکاتِ نبوی، حیات النبی (ﷺ)، زیارت روضہ رسول اور توسل پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کی گئی ہے-اس کتاب کو دنیا بھر میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء سے پذیرائی ملی- اس کتاب کے اردو زبان میں(اصلاح مفاہیم اور اصلاحِ فکر و اعتقاد کے نام سے) تراجم کیے گئے ہیں جب کہ اس کا انگریزی ترجمہ (Notions that must be Corrected) بھی دستیاب ہے-

  • شفا الفؤاد بزیارۃ خیر العباد
  •  الزیارۃ النبویة بین الشریعةو البدعیة

یہ دو تصانیف زیارتِ روضہ اقدس کے حوالے سے تالیف کیں- [25]

  • ما لا عین رات (What No Eye Has Seen)

قرآن و حدیث کی روشنی میں جنت کی منظر کشی کی جبکہ قربِ الہیہ کےلیے جنت کے استعاروں کو بھی بیان کیا - [26]

  • المدح النبوي بین الغلو و الإ نصاف

اس کتاب سے آپ نے مسلمانوں کو حضور نبی کریم (ﷺ) کی مدح سرائی کی رغبت دلائی- [27]

  • تحقیق الآمال فیما ینفع المیت من الأعمال

اس میں میت کو ایصال ثواب کرنے کے مسئلے پر بات کی-

  • حول الاحتفال بذکری المولد النبوي الشریف
  • البیان و التعریف فی ذکری المولد النبوی الشریف

یہ دو کتب میلاد النبی (ﷺ)کے موضو ع پر تحریر کی گئی ہیں- آپ کے مطابق حضور نبی کریم (ﷺ) کا یومِ ولادت باسعادت عید سے بھی عظیم و اکبر ہے، دیگر عیدیں اور خوشیاں اسی دن کے صدقے نصیب ہوئیں-جشن میلاد النبی، آپ (ﷺ) کا ذکرِ خیر اور سیرت مبارکہ کا تذکرہ دائمی ہونا چاہیئے ، یہ زمان و مکان کا مقید نہیں - [28]

  • منھج السلف في فھم النصوص بین النظریة و التطبیق

اس کتاب میں دین کے مختلف پہلوؤں عقیدہ، کتاب و سنت، حدیث اور اسلامی ثقافت کے حوالے سے افراط و تفریط کے بغیر اسلام کا معتدل منہج بیان کیا گیا ہے- [29]

  • التحذیر من المجازفة بالتکفیر

 یہ کتاب انتہا پسندی کے اسباب، مظاہر، امکانات اور سدِ باب کے طریقوں کو اجاگر کرتی ہے-

  • ھو اللہ

مسئلہ استواء، توحید الوہیت و ربوبیت، اسماء، صفات، خالق و مخلوق کے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے -

  • فی سبیل الھدی و الرشاد

یہ آپ کی مختلف تقاریر کا مجموعہ ہے-

  • شرح منظومة الورقات في أصول الفقه

اصول فقہ پر امام جوینی کی مختصر كتاب الورقات کی شرح کی-

  • خصائص الأمة المحمدیة

اس میں امتِ محمدیہ کے خصائص و فضائل کا ذکر ہے-

  • شریعة اللہ الخالدۃ

اس کتاب کا موضوع تاريخ تشريع اسلامی ہے اوریہ بنیادی طور پر شیخ محمد بن الحسن الحجوی الثعالبی کی کتاب الفکر السامی فی تاریخ الاسلامی سےاخذ کی گئی ہے-

  • قل ھذہٖ سبیلي

یہ عقیدہ اور ارکان دین، اعلیٰ صفات اورقلبی بیماریوں کے متعلق ہے-

  • جلاء الأفهام شرح عقیدۃ العوام

احمد المرزوقی المالکی کی عقیدۃ العوام کی شرح کی-

  • زبدۃ الإتقان في علوم القرآن

اس کتاب میں قواعد قرآنی، ترجمہ قرآن، تفسیر ِ قرآن،   نزولِ قرآن، قرآت و تجوید ، محکم و متشابہات اور دیگر قرآنی موضوعات پر گفتگو کی- [30]

  • وھو بالأفق الأعلیٰ

مختلف علماء کرام نے معراج شریف پر جو کچھ لکھا اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ نے معراج شریف پر یہ کتاب تحریر کی - [31]

  • التعلیق علی أحاسن المحاسن
  • التعلیق علی ألفیة السیرة النبویة للإمام العراقي
  • التعلیق علی المنھل الروي علی منظومة المجد اللغوي
  • التعلیق علی جالیة الکدر بذکر أسماء أھل بدر و شھداء أحد السادۃ الغرر
  • التعلیق علی فتح القریب المجیب علی تھذیب الترغیب والترھیب لوالدہ
  • التعلیق علی موطأ الإمام مالک بروایةابن القاسم و تلخیص القابسي
  • التعلیق علی مولد الحافظ ابن الدیبع الشیبانی – التعلیق علی مولد الملا علي قاري
  • التعلیق والتحقیق علی جوھرۃ التاج علی تبصرۃ المحتاج إلی بعوث صاحب المعراج
  • الفقه المالکي وأحواله في ظل الفقه الحنبلي بمکة المکرمة في القرن الرابع عشر
  • القواعد الاساسیة في علوم القرآن
  • حول خصائص القرآن

اس میں قرآن کریم کے خصائص و فضائل بیان کیے گئے ہیں جن میں منہجِ علمی و اسلوب، احترامِ حروف و اوراق، تبرک اور ایصالِ ثواب جیسے موضوعات شامل ہیں- [32]

  • المنھل اللطیف في أصول الحدیث الشریف

مصطلح الحديث کے مباحث پرمبنی یہ کتاب حدیث شریف کے اصول، تاریخ ، روایت، طبقاتِ کتب حدیث اورآئمہ حدیث کے متعلق لکھی گئی ہے- [33]

  • القواعد الاساسیة في علم مصطلح الحدیث

یہ مبتدیوں (Beginners) کےلیےمصطلح الحدیث پر ایک مختصر اور جامع کتاب ہے-

  • إتحاف ذوی الھمم العلیة برفع أسانید والدي السنیة
  • أدب الإسلام في نظام الأسرۃ

یہ ازدواجی زندگی کے آداب اور مسائل کے حل پر مبنی ہے-

  • الإعلام بفتاوى أئمة الإسلام حول مولده عليه الصلاة والسلام

اس میں میلاد مصطفیٰ منانے کے حکم اور آئمہ کرام کی اس بارے میں آراء دی گئی ہیں- [34]

  • إمام دار الھجرۃ مالک بن أنس

اس میں امام مالک کی زندگی کے مختلف حالات و واقعات کو ان کے اقوال و افعال سے اخذکیا گیا ہے-[35]

  • أنوار مسالک في روایات الموطأ الإمام مالک

اس میں موطا امام مالک کی روایات، راویوں کی تفصیل، ان کا موازنہ ، موطا کے حوالے سے لکھی گئی کتب کے مصنفین کے منہج و تفصیل بیان کی گئی ہے- [36]

  • البشری في مناقب السیدۃ خدیجة الکبری
  • محمد الإنسان الکامل (Muhammad PBUH The Perfect Man)

یہ کتاب شمائل وخصائل ِمحمدی اور سیرت طیبہ پر لکھی گئی ہے-

  • تاريخ الحوادث والأحوال النبوية

(Muhammad PBUH The Best of Creation)

اس کتاب میں سیرت النبی پر کیے گئے مستند اور ضخیم کام کو جامع انداز میں پیش کیاگیا ہے-

  • الأنوار البھیۃ فی إسراء والمعراج خیر البریة

اس میں معراج النبی کوجامع طور پہ ترتیب وار بیان کیا گیا ہے- اس کا انگریزی ترجمہ (The Prophet's Night Journey and Heavenly Ascent) بھی موجود ہے-

  • الذخائر المحمدیة
  • ذکریات و مناسبات
  • القواعد الاساسیة في أصول الفقه
  • کشف الغمة في اصطناع المعروف و الرحمة بالأمة

اس میں ان احادیث کو جمع کیا گیا ہے جن میں معروف کاموں کی ترغیب دی گئی ہے - اس میں ملت اسلامیہ کے افراد کا آپس میں مضبوط روابط رکھنے اور ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھنے کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے- [37]

  • مفھوم التطور والتجدید في الشریعة الإسلامیة
  • الرسالت الاسلامیہ کمالہ و خلودھا و عالمیتہا

سید محمد علوی کے دروس پر مشتمل اس کتاب میں شریعتِ مطہرہ کے سنہری اصولوں اور امت مسلمہ کے خصائص کو بیان کیا گیا ہے- [38]

  • لبیک اللھم لبیک (جدید عنوان: الحج و أحکامه)

مقاماتِ مقدسہ اور حج کےاحکامات اور فضائل و محاسن کا بیان کیا گیاہے- [39]

  • المختار من کلام الأخیار

اس میں صالحین و اہل اللہ کے اقوال کو جمع کیا گیا ہے-

  • ماذا في شعبان؟

اس میں ماہ شعبان کی فضیلت اور اس میں کی جانے والی عبادات، دعاو استغفار وغیرہ پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے- [40]

  • شوارق الأنوار من أدعیة السادۃ الأخیار (الشوارق الكبير)

اس کتاب میں حضور اور اسلاف کے دعا و اذکار درج کیے گئے ہیں- [41]

  • خلاصة شوارق الأنوار من أدعية السادة الأخيار دروع الوقایة بأحزاب الحمایة

The Most Protecting Supplications And Prayers

اس میں سلف کے احزاب واوراد جمع کیے گئے ہیں- [42]

  • صلة الرياضة بالدين و دورها في تنشئة الشباب المسلم

اسلام میں کھیلوں کے حوالے سے گفتگو کی ہے کہ یہ سرگرمیاں اچھے مقاصد سامنے رکھ کر کی جائیں تو یہ نوجوانوں کی تربیت، اصلاح اور اسلامی معاشرے کی ترقی میں مددگار ثابت ہوتی ہیں-[43] اس میں آپ نے گھوڑوں کے متعلق علماء کرام کی تصانیف بھی گنوائی ہیں-

  • نفحات الإسلام من البلد الحرام

یہ متفرق موضوعات پر آپ کے دروس و محاضرات کا مجموعہ ہے-

  • فی رحاب البیت الحرم

اس میں مکہ مکرمہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے-

  • المستشرقون بین الإنصاف و العصبیة
  • المسلمون بین الواقع والتجربة
  • القدوۃ الحسنة في منہج الدعوۃ إلی اللہ

اس میں آپ نے دعوت کے منہج کو بیان کیا ہے - اس میں آپ کہتے ہیں کہ پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہیے کیونکہ یہ دوسروں کو دعوت دینے کا ایک بڑا جزو ہے- [44]

  • الدعوۃ الإصلاحیة
  • شرف الأمة المحمدية
  • اصول التربیت النبویۃ
  • الغلو واثره في الإرهاب وإفساد المجتمع

یہ کتاب غلو اور اس کے مضمرات پر مکہ مکرمہ میں منعقد قومی مباحثے میں سید محمد علوی کی پیش کردہ تحقیق پر مشتمل ہے- [45]

  • فضل الموطأ وعنایة الأمة الإسلامیة به

اس میں موطا پر تحقیق کی گئی ہے اور امت ِ مسلمہ میں اس کتاب کی اہمیت اور علمِ حدیث پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے- [46]

  • مجموع فتاوی ورسائل الإمام السید علوي المالکي
  • فھرست الشیوخ والأسانید للإمام السید علوي المالکي

 آپ پر لکھی گئی کتب:

آپ کی شخصیت کے حوالے سے لکھی گئی درج ذیل کتب دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی آپ کی شخصیت کا احاطہ کرتا ہے-

  • المالكي عالم الحجاز، زهير محمد جميل كتبي
  • امام دارالبعثه السید محمد بن علوی المالکی الحسنی و آثاره فی الفکر الاسلامی، السيد الدكتور حمد عبد الكريم دواح الحسيني
  • محدث الحجاز السيد محمد علوي المالكي وجهوده الكلامية، أسرار ثامر العبيدي
  • محدثِ اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت، عبد الحق انصاری
    • A Sublime Way – The Sufi Path of the Sages of Makka by Seraj Hendricks, H.A. Hellyer & Ahmad Hendricks
    • سماحة الشيخ محمد بن علوي المالكي حياته شخصيته وآثاره في العلم والدين، محمد حیدرعلي خان، رسالة الدكتوراه (PhD Dissertation)

وصال :

سید محمد علوی کی شخصیت کا اس دنیا سے جانا بھی ایسے ہی معلوم ہوتا ہے کہ عرب دنیا میں علمِ دین کی روح جاگزیں کرنے کا ایک عہد تھا جو تمام ہوا- اس بات کا اظہار مشہور سعودی مصنف، مؤرخ اور ادیب ڈاکٹر عاصم حمدان نے ان الفاظ میں کیا کہ سید محمدعلوی کی وفات سے ان کا ملک مفید علمِ شریعت اور روشن خیال اعتدال پسند فکر کے حامل عالم سے محروم ہو گیا- [47]

سید محمد علوی نے وفات سے قبل مسلسل 2 سال مراکش میں اپنے بزرگ امام ادریسؒ کے مزار پر حاضری دی اور ان کے بارے میں ایک طویل منقبت لکھی- [48]آپ کا وصال رمضان المبارک کی انتہائی بابرکت ساعتوں میں جمعۃ المبارک 15 رمضان المبارک1425ھ بمطابق 29 اکتوبر  2004ء مکہ مکرمہ میں علی الصبح روزے کی حالت میں ہوا- جنازے  میں اتنی کثیر تعداد میں لوگ شامل ہوئےکہ حجِ اکبر کا سا سماں بندھ گیا-[49] آپ کے جنازے کا شمار مکہ مکرمہ کے بڑے جنازوں میں ہوتا ہے- آپ کو جنت المعلیٰ میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؒ کی قبرِ اطہر کے قریب سپرد خاک کیا گیا- اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ عبد الله بن عبدالعزيز آپ کے گھر تشریف لائے اور کہا کہ مرحوم اپنے دین اور ریاست کے وفادار فرزندانِ اسلام میں سے تھے-[50]آپ کے صاحبزادے احمد آپ کے جانشین ٹھہرے-

حرفِ آخر:

سید محمد علوی الحسنی نے مکۃ المکرمہ کی روایات اور اپنے اسلاف کی علمی وراثت کی حفاظت کی اور کڑے حالات اور سخت پابندیوں کے باوجود بھی دینِ متین کی خدمت سر انجام دی- آپ نے اعلیٰ اخلاق، شائستگی اور شگفتگی کو برقرار رکھ کر بغیر کسی تصادم (confrontation) کے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے حق کی ترویج کی اور لوگوں کو محبت و تعظیمِ مصطفےٰ (ﷺ)کا درس دیا- آپ کا سعی اتحاد امت کا نظریہ بہت اعلیٰ ہے جس کے تحت حق کا پیغام بلا تفریق پھیلانا چاہیئے-

٭٭٭


[1]محدث اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت ،عبد الحق انصاری، فقیہ اعظم پبلی کیشنز بصیر پور، ص :89

[2]https://www.mirrat.com/article/11/770

[3]https://www.britannica.com/topic/Idrisid-dynasty

[4]Muhammad the Perfect Man, Sayyid Muḥammad ibn ʿAlawī al-Mālikī al-Ḥasanī, Page No. xviii

[5]الأسر القرشية أعيان مكة المحمية، أبو هاشم عبد الله بن صديق، الناشر: تھامة – جدۃ، 1983م، ص:127

[6]https://islamictext.wordpress.com/sayyid-muhammad-ibn-alawi-abbas-ibn-abd-al-aziz-al-malik

[7]https://www.theislamicmonthly.com/obituaries-sayyid-muhammad-alawi-al-maliki

[8]سماحة الشيخ محمد بن علوي المالكي حياته شخصيته وآثاره في العلم والدين، محمد حیدرعلي خان، رسالة الدكتوراه، جامعة العثمانیة، حیدرآباد،2018م، ص42

[9]https://www.imamghazali.org/resources/muhammad-alawi-al-maliki-biography

[10] ذكرى-حياة-السيد-محمد-علوي-المالكي-الحسني-وحديث-لا-ينتهي

https://makkawi.azurewebsites.net/Article/1110/

[11]محدث اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت ،عبد الحق انصاری، فقیہ اعظم پبلی کیشنز بصیر پور، ص: 181

[12]https://islamictext.wordpress.com/sayyid-muhammad-ibn-alawi-abbas-ibn-abd-al-aziz-al-malik

[13]https://sunnah.org/2008/07/18/the-ashari-school-sayyid-alawi-al-maliki

[14]Muhammad the Perfect Man, Sayyid Muḥammad ibn ʿAlawī al-Mālikī al-Ḥasanī, Page No. xix

[15]زبدۃ الاتقان فی علوم القرآن اصول ترجمہ و تفسیرالقرآن،تصنیف: السید محمد بن علوی المالکی الحسنی،  ترجمہ: غلام نصیرالدین (جامعہ نعیمیہ لاہور)، فرید بک سٹال لاہور، 2009، ص:13

[16]سماحة الشيخ محمد بن علوي المالكي حياته شخصيته وآثاره في العلم والدين، محمد حیدرعلي خان، رسالة الدكتوراه، جامعة العثمانیة، حیدرآباد،2018م،ص: 89

[17]ایضاً، ص:292

[18]اصلاح فکر و اعتقاد، یٰس اختر مصباحی، رضوی کتاب گھر۔ جامع مسجد دہلی، 1995ء،  ص:287

[19](المطففین:26)

[20]( النساء: 64)

[21]( محمد: 19)/أبواب الفرج، تالیف : السید محمد بن علوی المالکی الحسنی، دار الكتب العلمية– بیروت، 2007م، ص :211-212

[22](النحل: 125)

[23]Muhammad the Perfect Man, Sayyid Muḥammad ibn ʿAlawī al-Mālikī al-Ḥasanī, Page No. 269-70

[24]اصلاحِ مفاہیم، تالیف:فضیلة الشیخ سید محمد بن علوی، مترجم: الحاج انیس احمد، مدرس دارالعلوم الاسلامیہ، لاہور،  ص:186

[25]محدث اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت ،عبد الحق انصاری، فقیہ اعظم پبلی کیشنز بصیر پور، ص:353– 352

[26]https://imamghazali.co/products/heaven-explored-a-description-of-jannah

[27]محدث اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت ،عبد الحق انصاری، فقیہ اعظم پبلی کیشنز بصیر پور، ص 353

[28]سماحة الشيخ محمد بن علوي المالكي حياته شخصيته وآثاره في العلم والدين، محمد حیدرعلي خان، رسالة الدكتوراه، جامعة العثمانیة، حیدرآباد، 2018م،ص:300

[29]https://www.noor-book.com/en/book/review/527369

[30]زبدۃ الاتقان فی علوم القرآن اصول ترجمہ و تفسیرالقرآن،تصنیف: السید محمد بن علوی المالکی الحسنی،  ترجمہ: غلام نصیرالدین (جامعہ نعیمیہ لاہور)، فرید بک سٹال لاہور، 2009، ص:9-3

[31]https://www.noor-book.com/en/book/review/511240

[32]حول خصائص القران،  محمد بن علوي المالكي الحسني، ص:71

[33]المنھل اللطیف في أصول الحدیث الشریف، مكتبة الملك فهد الوطنية، 1421ھ،ص:5-6

[34]https://books.google.com.pk/books/about/ الإعلام_بفتاوى_أئمة_ا.html?id=uodxDwAAQBAJ

[35]إمام دار الهجرة مالك بن إنس رضي الله عنه، العلامة السيد محمد بن علوي المالكي الحسني، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، ص:9

[36]أنوار مسالک في روایات الموطأ الإمام مالک، العلامة محمد بن علوي المالكي الحسني، دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، ص:5

[37]كشف الغمة في اصطناع المعروف ورحمة الأمة، محمد بن علوي عباس المالكي الحسني، ص:82-83

[38]الرسالت الاسلامیہ کمالہ و خلودھا و عالمیتہا، محمد بن علوي عباس المالكي الحسني، ص:115-116

[39]لبیک اللھم لبیک،محمد بن علوي عباس المالكي الحسني،ص:228-231

[40]ماذا في شعبان؟ محمد بن علوي عباس المالكي الحسني،ص:14-152

[41]https://www.noor-book.com/en/book/review/388263

[42]https://www.noor-book.com/en/book/review/530133

[43]صلة الرياضة بالدين ودورها في تنشئة الشباب المسلم، محمد بن علوي عباس المالكي الحسني، ص:127

[44]القدوۃ الحسنة في منہج الدعوۃ إلی اللہ، محمد بن علوي عباس المالكي الحسني، ص:23

[45]الغلو وأثره في الإرهاب وإفساد المجتمع، التأليف : السيد محمد بن علوي المالكي الحسني، ص:78

[46]https://books.google.com.pk/books?id=H_1sDwAAQBAJ

[47] رسالة الدكتوراه، جامعة العثمانیة، حیدرآباد، 2018م، ص:90

[48]Muhammad the Perfect Man, Sayyid Muḥammad ibn ʿAlawī al-Mālikī al-Ḥasanī, Page No. xxi

[49]محدث اعظم حجاز کی وفات اور سعودی صحافت ،عبد الحق انصاری، فقیہ اعظم پبلی کیشنز بصیر پور، ص: 30

[50]https://www.alyaum.com/articles/219572

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر