تعارف:
آپ کا نام عبد اللہ کنیت ابو عبدالرحمٰن جبکہ نسب المروزی ہے کیونکہ آپ مرو کے رہنے والے تھے اس لئے آپ کو مروزی کہا جاتا ہے-آپ کا مکمل نام عبد اللہ بن مبارک بن واضح الحنظلی المروزی ہے- آپ کی ولادت118ھ میں ہوئی-[1]
آپ کی والدہ خوارزمیہ تھی اور آپ کے والد تُرکی النسل تھے آپ کے والد بزرگوار ایک تُرک تاجر کے غلام اور مملوک تھے وہ تاجر بنی حنظلہ میں سے تھا جو بنی تمیم کا ایک قبیلہ ہے تو اس اعتبار سے آپ کو حنظلی بھی کہا جاتا ہے آپ کے والد مبارک بہت متقی اور پرہیز گار تھے آپ کے والد کو ان کے مالک نے اپنے باغ کا دروغہ مقرر کیا -ایک دن اس نے یہ کہا کہ اے مبارک! باغ سے ایک ترش انار لے آؤ وہ گئے اور ایک انار لے آئے جو شیریں نکلا مالک نے کہا کہ میں نے تم کو ترش انار لانے کے لئے کہا تھا مبارک نے جواب دیا کہ میں کس طرح معلوم کر سکتا ہوں کہ کون سے درخت سے انار شیریں اترتے ہیں اور کون سے درخت سے ترش جس کسی نے ان درختوں سے کھایا ہے وہ جانتا ہے مالک نے کہا کہ تم نے اب تک کوئی انار نہیں کھایا؟ مبارک نے کہا کہ آپ نے میرے ذمہ اس باغ کی حفاظت و نگہبانی لازم کی ہے کھانے اور چکھنے کی اجازت نہیں دی میرے ذمہ جو خدمت لازم ہے اس کو بجالاتا ہوں- مالک آپ کی اس دیانت داری پر بڑا خوش ہوا اور کہا کہ تم اس قابل ہو کہ میری مجلس میں رہو اور باغبانی کسی دوسرےشخص کے سپرد کردی- ایک روز مالک نے اپنی نوجوان دختر کے نکاح کے بارے میں ان سے مشورہ کیا تو مبارک نے کہا جاہلیت کے عرب تو اپنی لڑکی کا نکاح حسب و نسب کے اعتبار سے کرتے تھے یہود مال کے عاشق ہیں نصاریٰ جمال پر فریفتہ ہیں مگر اسلام میں دین کا اعتبار ہے ان چاروں میں سے جو پسند خاطر ہو اس پر عمل کرنا چاہیے مالک کو ان کی یہ عاقلانہ بات پسند آئی گھر جا کر اس مشورہ کو اپنی بیوی سے بیان کیااور کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح مبارک سے کردوں اگرچہ غلام ہے مگر پرہیز گاری و تقویٰ اور دین داری کے اعتبار سے وہ اپنے زمانے کا سردار ہے دختر کی ماں نے بھی اس کو پسند کیا تو لڑکی کا نکاح ان سے کردیا گیا اسی لڑکی سے یہ عبد اللہ پیدا ہوئے-[2]
تحصیل علم:
امام عبد اللہ بن مبارکؒ نے بیس سال کی عمر میں تحصیل علم کا آغاز فرمایا اور علم کے لئے دور دراز کے سفر کیے آپ نے اکتسابِ علم کے لئے حرمین شریفین، شام، مصر، عراق، الجزیرہ، خراسان جیسے ممالک جو کہ علم کے مرکز تھے ان کے سفر کیے اور وہاں کے جلیل القدر آئمہ حدیث و فقہ سے فیض یاب ہوئے آپ کے شیوخ کی تعداد بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے چار ہزار شیوخ سے علم کو جمع کیا ہے لیکن روایت صرف ایک ہزار شیوخ سے کرتا ہوں-[3]
اساتذہ:
آپ کے اساتذہ میں بہت بڑے آئمہ و حدیث اور فقہاء کے نام پائےجاتے ہیں جن سے آپ کی علمی وجاہت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے آپ مرو سے بغداد آئے اور وہاں آکر امام ابوحنیفہؒ کی صحبت اختیار کی اور مدت تک ان سے اکتسابِ علم اور ظاہری و باطنی فیض حاصل کیا- ان کے علاوہ آ پؒ نے جن جلیل القدر آئمہ سے اکتسابِ علم کیا ان میں سے چند مشہور یہ ہیں:
’’سلیمان التیمی، عاصم الاحوال، حمید الطویل، ہشام بن عروہ، اسماعیل بن ابی خالد الاعمش، یزید بن عبد اللہ، خالد حزاء، یحیٰ بن سعید الانصاری، عبد اللہ بن عون، موسیٰ بن عقبہ، حسین المعلم، حنظلہ السوسی، حیوۃ بن شریح المصری، اوزاعی، ابن جریج، معمر، سفیان ثوری، شعبہ، ابن ابی ذئب، یونس ایلی، ابن الھیعہ، ھشیم، اسماعیل بن عیاش، ابن عیینہ، بقیہ بن ولید‘‘-[4]
تلامذہ:
جس قدرآپؒ نے بے شمار اور مختلف ائمہ سے اکتسابِ فیض حاصل کیا اسی طرح نامور علماء و فقہاءنے بھی آپؒ سےاستفادہ کیا- یہ آپ کی علمی شان ہے کہ معمر اور سفیان ثوری جو کہ آپ کے اساتذہ میں سے ہیں جیسی شخصیات نےبھی آپؒ سے اخذ کیا ہے –آپ سے جن حضرات کو فیض یاب ہونے کا موقع ملا ان میں سے چند یہ مشہور ہیں:
’’ابن وہب، ابن مہدی، امام عبد الرزاق بن ہمام، القطان، ابن معین، حبان بن موسیٰ، امام ابو بکر بن شیبہ، یحیٰ بن آدم ، ابو اسامہ، ابو سلمہ المنقری، مسلم بن ابراہیم، حسن بن ربیع، احمد بن منیع، علی بن حجر، حسن بن عیسیِ، حسین بن حسن المروزی، حسن بن عرفہ، ابراہیم بن مجشر، یعقوب الدورقی وغیرہ‘‘-[5]
علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ کی آراء:
امام عبد اللہ بن مبارکؒ اپنے عہد کے عدیم المثال محدث و فقیہہ تھے آپ کا دامن علوم ظاہری و باطنی سے بھرا ہوا تھا آپ کی شخصیت جامع العلوم کی مصداق تھی-آپ محدث و فقیہہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادب، نحو، لغت، فصاحت اور شعر میں بھی کمال مہارتے رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار خوبیوں اور کمالات سے نوازا تھا یہی وجہ ہے کہ آئمہ کرام نے آپ کی شخصیت اور آپ کے علمی کمالات کا اعتراف مختلف انداز میں کیا ہے-امام حاکم فرماتے ہیں:
’’ھو امام عصرہ فی الآفاق و اولاھم بذالک علما و زھدا‘‘[6]
’’وہ آفاق میں اپنے عہد کے بہت بڑے امام تھے وہ اپنے زمانے کے علماء سے باعتبارِ علم اور زہد کے اولیٰ تھے‘‘-
امام ابن حجر عسقلانی ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں آپ کے علمی و جاہت کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’وکان ثقۃ مامونا حجۃ کثیر الحدیث‘‘-[7]
ثقہ، مامون، حجت اور کثیر الحدیث تھے‘‘-
امام عجلی نے عبداللہ بن مبارک کی ثقاہت اور جامعیت کو اس انداز میں بیان فرمایا ہے کہ :
’’ثقۃ ثبت فی الحدیث رجل صالح و کان جامعا للعلم‘‘[8]
’’ابن مبارک ثقہ اور ثابت فی الحدیث تھے آپ صالح اور تمام علوم کے جامع تھے‘‘-
عبداللہ بن مبارک کمال درجے کے فصیح و بلیغ تھے یہی وجہ ہے کہ ابن جریح فرماتے ہیں:
’’مارأیت عراقیا افصح منہ‘‘[9]
’’میں نے آپ سے زیادہ فصیح کسی عراقی کو نہیں دیکھا‘‘-
امام خلیلی نے ’’کتاب الارشاد‘‘ میں امام صاحب کی شخصیت کاتعارف اس انداز میں بیان کیا کہ:
’’ابن المبارک الامام المتفق علیہ لہ من الکرامات مالا یحصی یقال انہ من الابدال‘‘-[10]
’’ابن المبارک ’’متفق علیہ‘‘ امام ہیں ان کی اتنی کرامات ہیں کہ ان کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امام صاحب ابدالوں میں سے ہیں‘‘-
امام نسائی آپ کی بزرگی اور شان کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’لا نعلم فی عصرہ ابن المبارک اجل من ابن المبارک اعلیٰ منہ ولا اجمع لکل خصلۃ محمودۃ منہ‘‘[11]
’’ہم عبد اللہ بن مبارک کے زمانہ میں ان سے زیادہ بزرگ اور اعلیٰ نہیں پاتے اور نہ ہی کسی ایسی شخصیت کو جانتے ہیں جن میں بہ نسبت ان کے ہر خصلت محمودہ جمع ہو‘‘-
امام حنبلؒ جیسی شخصیت آپ کی طلبِ علم کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ:
’’لم یکن فی زمان ابن المبارک اطلب العلم منہ‘‘[12]
’’ابن المبارک کے زمانے میں ان سے زیادہ علم کا طلب گار کوئی نہیں تھا‘‘-
ابن معین فرماتے ہیں کہ:
’’کان ثقۃ متثبۃ‘‘[13]
’’ابن مبارک ثقہ اور حدیث میں ثابت تھے‘‘-
اسماعیل بن عیاش فرماتے ہیں کہ:
’’ما علی وجہ الارض مثل ابن مبارک‘‘[14]
’’عبد اللہ بن مبارک جیسا زمین پر کوئی نہیں ہے‘‘-
ابو اسامہ حدیث پاک میں آپ کے مقام کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ھو امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘[15]
’’وہ حدیث میں امیر المؤمنین تھے‘‘-
امام عبداللہ بن مبارک کے علم و فضل کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سفیان ثوری جیسے محدث و فقیہہ آپ کو عالم الآفاق مانتے تھے جیسے کہ ایک روز چند اشخاص ابن المبارک کی خدمت میں بغرض طالب علم حدیث آئے اور کہا کہ ’’یا عالم المشرق حدثنا‘‘یعنی اے مشرق کے عالم حدیث سنائیے سفیان ثوری بھی اس جگہ تشریف فرما تھے-انہوں نے فرمایا:
’’و یحکم عالم المشرق و المغرب و ما بینھما ان کنتم تعقلون‘‘[16]
’’افسوس ہے تم کیا کہتے ہو وہ تو مشرق اور مغرب اور ان کے مابین کے عالم ہیں اگر تم سمجھتے‘‘-
زہد و تقویٰ:
امام عبد اللہ بن مبارک زہد و تقویٰ کی دولت سے بھی مالا مال تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں عبادت و ریاضت کا خاص شوق عطا فرمایا تھا اسی بنا پر راتوں میں ابن مبارک کا عجیب و غریب حال ہوا کرتا آپ راتوں میں اتنا زیادہ روتے کہ ان کی داڑھی مبارک تر ہوجاتی –اسی وجہ سے فضیل بن عیاض جن کاشمار اکابرصوفیاء میں ہوتا ہے آپ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’رب ھذا البیت مارأت عینای مثل ابن المبارک‘‘[17]
’’ قسم ہے بیت اللہ کی میری آنکھ نے ابن مبارک جیسا نہیں دیکھا‘‘-
ابن مبارک کے زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ اسماعیل بن عیاش فرماتے ہیں:
’’ولا اعلم ان اللہ خلق خصلۃ من خصال الخیر الا وقد جعلھا فی عبد اللہ ابن المبارک‘‘[18]
’’یعنی جو بھی اللہ تعالیٰ نے خصلتِ خیر پیدا کی ہے وہ عبد اللہ بن مبارک میں پائی جاتی ہے‘‘-
امام صاحب کے زہد و تقویٰ کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ:
’’نظرت فی امرہ و امر الصحابۃ فما رایتھم یفضلون علیہ الا فی صحبتہم رسول اللہ (ﷺ)‘‘[19]
’’میں نے عبد اللہ بن مبارک اور صحابہ کرام کے معاملات میں تو سوائے صحبت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام کو ابن مبارک پر فضیلت دینے والی کوئی چیز نہیں تھی‘‘-
کثرت عبادات کی وجہ سے ابن مبارک کا آقا کریم (ﷺ) کے ساتھ ایک خاص قسم کا تعلق قائم ہوگیا تھا –آپ خلوت کوپسند فرماتے اور اکثر اپنے گھر میں تنہا رہتےجب ان سے عرض کی گئی کہ تنہا رہنے سے وحشت نہیں ہوتی تو ارشاد فرمایا:
’’کیف استوحش و انا مع النبی (ﷺ) و اصحابہ‘‘[20]
’’مجھے کیسے وحشت ہو جبکہ میں رسول اللہ (ﷺ) اور آپ(ﷺ) کے اصحاب کی معیت میں ہوتا ہوں‘‘-
ابن المبارک کو حق تعالیٰ نے وہ مرتبہ عنایت فرمایا تھا کہ بڑے بڑے بزرگ ان کی محبت سے تقرب الٰہی کے متلاشی رہتے تھے- امام ذہبی جو حدیث کے مشہور مشائخ میں سے ہیں فرماتے ہیں مجھ کو ابن المبارک تک ازراہ اجازت چھ واسطوں سے حدیث پہنچی ہے اور یہ میری انتہائی اونچی سند ہے اس کے بعد فرماتے ہیں چونکہ ابن مبارک تقویٰ، عبادت، اخلاص، جہاد، وسعت علم، دین کی مضبوطی، غم خواری، جوان مردی جیسےاور تمام صفات حمیدہ سے متصف تھے اس وجہ سے قسم اللہ کی میں ان کو اللہ کے واسطے دوست رکھتا ہوں اور ان کی محبت سے مجھ کو بھلائی کی امید ہے-[21]
آپ کے زہد و تقویٰ کی بنا پر تعلق باللہ کا یہ عالم تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مستجاب الدعوات بنایا تھا- ابو وہب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ عبد اللہ بن مبارکؒ اندھے شخص پر گزرے تو اس نے عرض کی کہ آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ پاک میری بینائی لوٹا دے تو آپ نے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی بنیائی لوٹادی ابو وہب فرماتے ہیں کہ میں نے خود اس کو دیکھتے ہوئے دیکھا‘‘-[22]
امام عبداللہ بن مبارک کی زندگی عبادت، تہجد گزاری، شبِ بیداری، کثرت روزہ اور خوف الٰہی کے ساتھ ایسے مزین تھی کہ وقت کے علماء ان کے طریقے پر زندگی گزارنے کی خواہش کرتے سفیان ثوری جو کہ بذات خود ایک باکمال شخصیت تھے وہ فرماتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ میری تمام عمر میں سے ایک سال عبد اللہ بن مبارک کے طریقے پر گزر جائے لیکن اس پر میں قادر نہ ہو سکا-[23]
شعیب بن حرب فرماتے ہیں کہ:
’’بوجھدت جھدی ان اکون فی السنۃ ثلاثۃ ایام علی ماعلیہ ابن المبارک لم اقدر‘‘[24]
’’اگر میں بہت زیادہ ہی کوشش کروں کہ سال میں سے تین دن مبارک کے طریقے پر گزاروں تو اس پر میں قادر نہیں‘‘-
خوف الٰہی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ شام میں ایک قلم عاریۃ لیا کہ وہ پھر اس کو واپس کردے گا اس کے بعد آپ مرو چلے گئے وہاں جاکر دیکھا تو قلم آپ کے پاس رہ گیا ہے تو آپ مرو سے قلم لوٹانے کے لئے شام تشریف لے آئے‘‘-[25]
سخاوت:
عبد اللہ بن مبارک بہت زیادہ سخی اور فیاض تھے جیسے حاتم طائی کی سخاوت مشہور ہوگئی تھی اسی طرح طبقہ علماء میں ابن مبارک کی سخاوت لوگوں کے درمیان بہت مشہور ہے آپ علماء و صلحاء پر بہت خرچ کرتے تھے یہاں تک کہ امام ذہبی فرماتے ہیں :
’’و کان ینفق علی فقراء فی کل سنۃ مائۃ الف درہم‘‘[26]
’’وہ ہرسال فقراء پر ایک لاکھ درہم خرچ کرتے تھے‘‘-
اسی طرح آپ کی سخاوت کو بیان کرتے ہوئے فضیل بن عیاض کو فرمایا:
’’لو لاک واصحابک مااتجرت‘‘[27]
’’اگر آپ اور آپ کے اصحاب نہ ہوتے تو میں تجارت نہ کرتا‘‘-
یہی وجہ ہے کہ عبد اللہ بن مبارک اپنی ذات پر مال بہت کم خرچ کرتے اور ساتھیوں پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرتے اسماعیل بن عیاش فرماتے ہیں کہ:
ابن مبارک عجیب و غریب آدمی ہیں جو ساتھیوں کی تو ضیافت فرماتے ہیں اور خود روزہ رکھتے ہیں –آپ کی سخاوت کا عالم یہ تھا کہ جب حج کا موسم آتا تو ابن مبارک کے ساتھ حج کے لئے مرو کے لوگ جاتے ابن مبارک کہتے کہ تم سب اپنا مال جمع کرو سب لوگ اپنا اپنا خرچ ابن مبارک کے پاس جمع کردیتے آپ اس خرچ کو لے کر صندوق میں ناموں کے ساتھ محفوظ رکھتے اور حج کے لئے چلے جاتے آپ مدینہ اور مکہ میں حاجیوں کی عمدہ کھانے سے ضیافت فرماتے ان حاجیوں کو ان کے اہل و عیال کے لئے اشیاء خرید کر دیتے پھر واپس مرو پہنچتے تو ان سب حاجیوں کی دعوت کرتے اس کے بعد ان کی رقم حاجیوں کو واپس کر دیتے-[28]
الغرض!امام عبداللہ بن مبارک کے پاس جو کچھ مال ہوتا یا تو اس کو فقراء پر خرچ کردیتے یا علم حدیث کی طلب میں خرچ کردیتے- ایک دفعہ ابن المبارک کے والد نے پچاسی ہزار درہم دے کر کہا کہ اس سے تجارت کرو تو امام صاحب نے ان سب درہموں کو علم حدیث کی طلب میں خرچ کردیا واپسی پر والد صاحب نے پوچھا کہ ان درہموں کی کیا جنس لائے ہو اور کس قدر کمایا ہے تو آپ نے اس مدت میں جس قدر دفتروں کو جمع کیا تھا وہ اپنے والد کے سامنے پیش کر کے کہا میں یہ جنس لایا ہوں اور میں نے ایسی تجارت کی ہے جس سے دارین کا نفع حاصل ہو–آپ کے والد گرامی نہایت خوش ہوئے گھر میں لے جاکر 30 ہزار درہم مزید دیے اور کہا ان کو بھی اسی جنس میں صرف کر کے اپنی تجارت کو کامل کرو-[29]
شجاعت و بہادری:
امام عبد اللہ بن مبارک کے اوصاف میں سے ایک نمایاں وصف یہ بھی تھا کہ آپ کمال درجے کے جری اور بہادر تھے- موت سے بے خوف و خطر ہو کر شوقِ شہادت میں میدان جہاد کی طرف رواں دواں ہوتے اور بنفس نفیس جہاد میں شریک ہوتے اور نہایت ہی بہادری کامظاہرہ کرتے-ابن مبارک کی یہ امتیازی خوبی تھی کہ مال و دولت کےڈھیر لگے ہونے اور علم جیسی عظیم ترین نعمت سے ہاتھ آنے کے باوجود میدانِ جنگ سے اپنے آپ کو مستغنی نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ ایک جنگ کا واقعہ ہے کہ دشمنوں کی صفیں تیار ہوگئیں ادھر مسلمان بھی تیار ہو گئے ایک کافر جوان آگے بڑھا اس نے آواز دی آؤ مقابلہ کے لئے مسلمانوں کی صف سے ایک جوان منہ پر کپڑا لپیٹے میدان میں گیا اور اس کافر کا کام تمام کردیا-ایسے ہی پھر دو کافرنکلے جن کا ا س مومن نے کام تمام کردیا اس کے بعد وہ مومن شخص مسلمانوں کے لشکر میں آیا اور اس نے منہ سے کپڑا ہٹایا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ عبد اللہ بن مبارک ہیں-[30]یہ عبد اللہ بن مبارک کی بہادری ہی تھی کہ وہ ہمیشہ جہاد کے لئے کمر بستہ رہتے تھے اور اس کا اہتمام بھی فرماتے-
تصانیف:
امام عبد اللہ بن مبارک بے شمار کتب کے مصنف تھے لیکن زیادہ تر آپ کی کتابیں منظر عام پر نہ آسکیں-آپ کی جو چند کتابیں دستیاب ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1 کتاب الزہد 3 السنن فی الفقہ 5 کتاب البر والصلہ[31] |
2 کتاب التفسیر 4 کتاب التاریخ |
وفات:
آپ کا وصال مبارک ماہ رمضان المبارک 181ھ میں ہوا-آپ کی عمر مبارک 63 برس تھی-[32]
٭٭٭
[1](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:365)
[2](بستان المحدثین، ص:94)
[3](بستان المحدثین، ص:96)
[4](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:366)
[5](ایضاً، ص:366-367)
[6](تہذیب التہذیب، جز:5، ص:386)
[7](ایضاً)
[8](ایضاً)
[9](ایضاً)
[10](ایضاً، ص:387)
[11](ایضاً)
[12](جرح التعدیل، جز:1، ص:263)
[13](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:202)
[14](ایضاً)
[15](ایضاً)
[16](بستان المحدثین، ص:96)
[17](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:203)
[18](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:367)
[19](البدایہ و النہایہ، جز:10، ص:191)
[20](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:368)
[21](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:202)
[22](تہذیب التہذیب، جز:5، ص:386)
[23](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:371)
[24](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:202)
[25](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:374)
[26](ایضاً، ص:369)
[27](ایضاً)
[28](البدایہ و النہایہ، جز:10، ص:178)
[29](بستان المحدثین، ص:96-97)
[30](صفۃ الصفوۃ، ص:774)
[31](معجم المؤلفین، جز:6، ص:106)
[32](جواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ، جز:1، ص:282)