تعارف:
آپ کا نام محمد، کنیت ابو حاتم اور ابن حبان لقب تھا جبکہ سلسلہ نسب یوں بیان کیا جاتا ہے:
’’محمد بن حبان بن احمد بن حبان بن معاذ بن معبد بن شہید بن ہدبہ بن مرۃ بن سعد بن یزید بن مرہ بن زید بن عبد اللہ بن دارم بن حنظلہ بن مالک بن زید بن مناۃ بن تمیم‘‘-[1]
امام ابن حبان عربی النسل تھے جیسا کہ نسب نامہ سے واضح ہے عرب کے مشہور قبیلہ تمیم کی شاخ دارم سے ان کا نسبی تعلق تھا اسی لیے دارمی اور تمیمی کہلاتے ہیں –
ولادت وطن:
مؤرخین نے آپ کی ولادت کے بارے میں کوئی حتمی قول ذکر نہیں فرمایا لیکن امام ذہبی کے اس بیان کے مطابق ان کی عمر وفات کے وقت تقریباً اسّی (80) سال تھی اور آپ کی وفات 354ھ میں ہوئی ہے تو اس حساب سے لگ بھگ 275ھ میں پیدا ہوئے ہوں گے-[2]
امام ابن حبان کی جائے پیدائش بست ہے یہ سجستان میں درمیان دریائے ہلمند کے کنارے واقع تھا بست صوبہ سجستان کا ایک اہم پر رونق اور سر سبزو شاداب مقام سمجھا جاتا تھا خرما اور انگور کی پیداوار کیلئے مشہور تھا غالبا باغوں کی کثرت کی بنا پر اس کا نام بست پڑگیا تھا جو کہ بوستان یا بستان سے تبدیل شدہ معلوم ہوتا ہے-
تحصیل علم:
امام ابن حبان نے 300ھ میں تحصیل علم کا آغاز کیا آپ نے اکتسابِ علم کیلئے شام، حجاز، مصر، عراق، جزیرہ، خراسان، نیشا پور اور بصرہ کا سفر کیا-[3]
امام صاحب کا خود اپنا بیان ہے کہ:
’’لعلنا قد کتبنا عن الفی شیخ مابین الشاش والا سکندریہ‘‘[4]
’’شاید ہم نے شاش اور اسکندریہ کے درمیان کے دو ہزار بزرگوں سے حدیثیں لکھیں ‘‘-
اگر ان کی مختلف علوم میں جامعیت اور رحلت اور سفر کی کثرت کو مدنظر رکھا جائے تو اس بیان میں کوئی مبالغہ معلوم نہ ہوگا-
اساتذہ:
امام ابن حبان نے بے شمار علماء و شیوخ سے اکتساب فیض کیا ان میں سے چند مشہور درج ذیل ہیں:
’’امام ابن خزیمہ، ابو خلیفہ ہمجی، ابو عبد الرحمٰن نسائی، ابو یعلیٰ موصلی، احمد بن حسن صوفی، قاضی ابو احمد اسحاق بن ابراہیم بستی جعفری، احمد دمشقی، حسن بن سفیان شیبانی، حسین بن ادریسی ہروی، ابو یعلیٰ زکریا ساجی، عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمٰن بن شیرویہ ازدی، ابو القاسم عبد اللہ بن محمد بن عبد العزیز بغوی، عمر بن محمد، عمران بن موسیٰ بن مجاشع، محمد بن ابراہیم خلدی ہروی، محمد بن اسحاق بن ابراہیم سراج ثقفی، ابو الحسن محمد بن عبد اللہ بن جنید بستی، محمد بن عثمان بن سعد دارمی، محمد بن یحیٰ مدینی، محمد بن یزید دورتی، ابو عوانہ یعقوب بن اسحاق وغیرہ‘‘-
امام صاحب کا امام ابن خزیمہ سے غیر معمولی تعلق تھا، سفر ہو یا حضر ہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے اور جو کچھ فرماتے تھے اسے قلم بند کر لیتے تھے-فقہ حدیث، اصول اور فرائض وغیرہ کی ان ہی سے تعلیم حاصل کی تھی-[5]
تلامذہ:
’’آپ سے اکستابِ علم کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ان میں سے ابو عبد اللہ امام حاکم، ابو عبد اللہ بن منذہ اصبہانی، جعفر بن شعیب بن محمد سمرقندی، حسن بن منصور، ابو عبد اللہ محمد بن احمد بخاری، ابو معاذ عبد الرحمٰن محمد بن رزق اللہ سجستانی، محمد بن احمد بن منصور نوقاتی، ابو الحسن محمد بن احمد بن ہارون عبدون زوزنی، ابو سلمہ محمد بن محمد بن داؤد شافی ابو علی منصور بن عبد اللہ خالد ذہلی وغیرہ قابل ذکر ہیں‘‘-[6]
علمی مقام و مرتبہ:
امام ابن حبان علمی میدان میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے آپ کے علم و فضل اور جامعیت و کمال کی بنا پر اطرافِ عالم میں ان کی شہرت ہوگئی تھی وہ بالاتفاق آئمہ امت میں شمار کیے جاتے تھے علامہ سمعانی نے ان کو امام العصر اور حافظ ذہبی نے ان کو آئمہ زمانہ میں شمار کیا ہے حدیث میں ان کو زیادہ امتیاز اور برتری حاصل تھی اور وہ اس فن کے باکمال آئمہ میں شمار کیے جاتے تھے متون و اسانیدِ حدیث پر ان کی نظر وسیع اور گہری تھی حدیث میں ان کے کارنامے غیر معمولی ہیں- انہوں نے علوم حدیث کی حیرت انگیز خدمات انجام دیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ارباب سیر نے ان کو حدیث میں مکثر اور معرفت حدیث میں امام قرا ر دیا ہے-امام ابن العماد فرماتے ہیں:
’’کان حافظ ثبتا اماما حجۃ‘‘[7]
’’آپ حدیث میں حافظ و ثابت اور امامِ حجت تھے‘‘-
ابو عبد اللہ شہاب الدین یا قوت اپنی کتاب معجم البلدان میں امام صاحب کے علمی مقام کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
’’الامام العلامہ الفاضل المتقن کان مکثراً من الحدیث‘‘[8]
’’ابن حبان ایک عظیم امام، علامہ، فاضل، متقن اور مکثر الحدیث تھے‘‘-
ابن ماکولا نے آپ کی علمی شان کو اس انداز میں بیان فرمایا:
’’وکان من الحفاظ الاثبات‘‘[9]
’’آپ ثابت حفاظ میں سے تھے‘‘-
ان کو غیر معمولی ذکاوت اور بے نظیر حافظہ ملاتھا ابو سعد ادریسی صاحب تاریخ سمر قند فرماتے ہیں کہ وہ آثار و حدیث کے نامور حفاظ میں سے تھے-امام ابن حبان حفظ و ثقاہت میں بھی نمایاں مقام رکھتے تھے تمام مؤرخین نے خطیب کے حوالہ سے ان کو ثقہ و متفق لکھا ہے-
خطیب بغدادی فرماتے ہیں :
’’کان ثقۃ نبیلاً فھما‘‘[10]
’’امام ابن حبان ثقہ اور فہم میں عظیم تھے‘‘-
حدیث میں ان کی مہارت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے امام تھے اور اس فن میں ان کی تصنیفات بڑی اہم خیال کی جاتی ہیں-
ابن حبان اپنے استاد امام ابن خزیمہ کی طرح فقہ و حدیث دونوں میں ممتاز تھےاور انہیں سے اس فن کی تکمیل و تحصیل کی تھی اربابِ سیر فرماتے ہیں کہ امام ابن حبان فقہ کےبھی عالم و عارف تھے-اسی لیے امام حاکم فرماتے ہیں کہ:
’’وہ علم فقہ کا خزانہ تھے‘‘-
علامہ ابن صلاح آپ کو تمام علوم کا جامع قرار دیتے ہیں فرماتے ہیں :
’’کان ابو حاتم و اسع العلم جامعا بین فنون منہ‘‘[11]
’’ابو حاتم یعنی ابن حبان علم میں وسعت والے اور تمام علوم کے جامع تھے‘‘-
یہی وجہ ہےکہ آپ کی وسعت علمی کو دیکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کان من اوعیۃ العلم لغۃ و فقہا و حدیثا و وعظا‘‘[12]
’’آپ باعتبار لغت، فقہ، حدیث اور وعظ کے علم کا خزانہ تھے‘‘-
دینی علوم کی طرح وہ اس زمانہ کے مروجہ علوم اور جدید فنون سے بھی اچھی طرح واقف تھے شاہ عبد العزیزؒ بستان المحدثین میں فرماتے ہیں:
’’سوائے علم حدیث علوم دیگر ہم داشت فقہہ و لغت، طب ونجوم فلک و ہندسہ را نیک می دانست‘‘[13]
’’وہ علم حدیث کے علاوہ دوسرے علوم میں بھی مہارت رکھتےتھے-فقہ، لغت، طب، نجوم، فلکیات و ہندسہ سے خوب واقف تھے‘‘-
دینی علوم میں بصیرت اور پختگی کی وجہ سے انہیں قضا کا منصب بھی تفویض کیا گیا – وہ ایک عرصہ تک سمر قند، نسا، نیشاپور اور خراسان کے بعض شہروں کے قاضی رہے-امام ابن حبان کا جامع العلوم ہونا یہ ان کے علمی ذوق کے عکاسی کرتا ہے-سفر کی زیادتی اس علمی دلچسپی کا آئینہ دار تھی-علم سے تعلق اور دلچسپی کا یہ حال تھا کہ اپنے وطن بست میں ایک مدرسہ اور کتب خانہ قائم کیا تھا اور اپنی زندگی ہی میں اپنا مکان ان دونوں پر وقف کردیا تھا یہ مدرسہ اہل علم، محدثین اور فقہاء سے معمور رہتا تھا اور کتب خانے کا نہایت معقول انتظام کیا گیا تھا اس کی نگرانی باقاعدہ ایک شخص کے متعلق کردی گئی تھی-اس کی کشش لوگوں کو دور دراز سے یہاں کھینچ لائی تھی ان کو قیام اور کتب خانہ سے استفادہ اور کتابوں کی نقل کی پوری سہولت بہم پہنچائی جاتی تھی کتابوں کی حفاظت کا بھی معقول انتظام تھا چنانچہ کتب خانہ سے باہر کتابیں لے جانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاتی تھی اس مدرسہ اور کتب خانہ کا فیض ابن حبان کے بعد جاری رہا-
ایک طعن اور اس کا ازالہ:
امام ابن حبان پر ان کی ایک عبارت کی وجہ سے طعن کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
’’النبوۃ العلم و العمل ‘‘
’’نبوت علم و عمل کا نام ہے‘‘-
آپ اس قول کی وجہ سے سخت مصیبت میں مبتلا ہوئے اس زمانہ کے آدمیوں نے اس کا انکار کیا ان کو زندیق بنادیا اور اس سے ملاقات وغیرہ ترک کردی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بعض علماء بھی ان کے بارے کہنے لگے کہ ’’ذالک نفس فلسفی‘‘ یہ فلسفی ہے-
اس طعن کا آئمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے محققین اور علمائے حق کا یہ معمول رہا ہے کہ جب بھی کفر و ایمان کا معاملہ ہوتا ہے وہ اس میں ہمیشہ توقف اور تامل سے کام لیتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ بڑا نازک ہوتا ہے لہذا وہ پوری تحقیق کے بغیر الزام عائد نہیں کرتے اور جہاں تک ممکن ہوتا ہے-توجیہ و تاویل سے کام لیتے ہیں محدثین اور نقادانِ فن نے ابن حبان کے بارے بھی اسی اصول کو مدنظر رکھا ہے ان کی توجیہ و تاویل سے یہ الزام پوری طرح رفع ہوجاتا ہے- علامہ ذہبی اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ھذا لہ محل حسن ولم یرد حصر المبتداء فی الخبر و مثلہ الحج عرفۃ فمعلوم ان الرجل لایعیر جامعالمجرد الوقوف بعرفۃ و انما ذکر فھم الحج‘‘[14]
امام ابن حبان کا قول نقل کرکے فرماتے ہیں کہ اس پر اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ اس کی عمدہ توجیہ ممکن ہے در حقیقت ابن حبان کی مراد مبتداء کو خبر میں محصور و محدود کرنا نہیں ہے جس طرح حضور اکرم (ﷺ) کا ارشاد مبارک ہے:
(الحج عرفۃ ) یعنی حج عرفہ ہے آپ (ﷺ) کے اس فرمان کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ حج کی ادائیگی کے لئے صرف عرفہ میں قیام کر لینا کافی ہے کیونکہ صرف عرفہ میں قیام کر لینے سے حج کے دوسرے ارکان و مناسک تو ادا نہیں ہوجاتے بلکہ آپ (ﷺ) کے فرمان کا مقصد حج کے اہم اور ضروری رکن کو بیان کرنا ہے-اسی طرح ابن حبان کے قول :’’النبوۃ العلم والعمل ‘‘، ’’یعنی نبوت علم و عمل ہے‘‘کا منشا یہ ہے کہ نبوت میں اہم اور ضروری جز علم و عمل ہے جس سے نبی کو کمال اور امتیاز حاصل ہوتا ہے-اور کوئی شخص ان میں درجہ کمال کو پہنچے بغیر نبی نہیں ہوسکتا اور یہ بات صحیح ہے کہ نبوت عطیہ ربانی ہے جس کے لئے اللہ اپنے علم و عمل والے بندے کا انتخاب کرتا ہے اس میں آدمی کے کسب اور حیلہ و تدبیر کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ریاضت اور محنت شاقہ سے حاصل کی جاسکتی ہے اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ابن حبان کے مذکورہ بالاقول میں کوئی خرابی اور قباحت نظر نہیں آتی-علامہ ابن حجر عسقلانی لسان المیزان میں امام صاحب کے اسی قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام ابن حبان کے اس قول ’’النبوۃ العلم و العمل‘‘ کی ایک مناسب توجیہ یہ ہے کہ امام صاحب کی مراد کچھ یوں تھی کہ نبوت کا دارو مدار علم و عمل پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نبوت اوروحی سے اسی شخص کو سرفراز کرتا ہے جو ان دونوں اوصاف سے متصف ہو اور نبی وحی کی وجہ سے علم والاہوتا ہے اور علم الٰہی عمل صالح کو مستلزم ہے تو اس عبارت سے ان کا قول صحیح ہے کیونکہ نبوت علم لدنی اور اعمال کا نام ہے جو قربت الٰہی کا ذریعہ ہے پس نبوت ان دونوں چیزوں کے بتمام و کمال پائے جانے کا نام ہے اور وحی الٰہی کے بغیر ان دونوں کا بدرجہ کمال حصول نہیں ہوسکتا کیونکہ وحی الٰہی ایسا یقینی علم ہے جس میں ظن و تخمین کو دخل نہیں ہوتا مگر غیر انبیاء کا علم یقینی کم اور ظنی ہوتا ہے پھر نبوت عصمت کو مستلزم ہے اور انبیاء (علیھم السلام) کے علاوہ کسی شخص کیلئے عصمت نہیں ہے خواہ وہ علم و عمل کے کتنے ہی اعلیٰ مدارج اور بلند مراتب کیوں نہ طے کر لے دوسری بات یہ ہےکہ جب کسی چیز کے بارے میں خبر دی جاتی ہے تو وہ اس کے ضروری مقاصد اور اہم اجزا کے لحاظ سے دی جاتی ہے-جس طرح کہ رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے الحج عرفہ حج تو عرفہ ہے-[15]
شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ ابن حبان کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام ابن حبان کا یہ قول ’’النبوۃ العلم و العمل‘‘ عقائد صحیح کے بالکل خلاف نہیں ہے کیونکہ ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ نبوت کوئی کسبی چیز ہے جو علم و عمل کی ریاضت سے حاصل ہو سکتی ہے بلکہ ان کی غرض یہ ہےکہ نبوت کے لئے انسان میں اس نفس ناطقہ کاپایا جانا لازمی ہے جو علم و عمل میں نمایاں زیادتی رکھتا ہو اس کے بعد ہی اس کو وہبی طور پر نبوت عطا کی جاتی ہے-
قرآن و مجید کی اسی آیت میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
’’اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘
’’اللہ خوب جانتاہےجہاں اپنی رسالت ونبوت سے کس کو سرفراز کرے‘‘-
اس کلام کا یہ مطلب ہے کہ انبیاء (علیھم السلام) کو نبوت ملنے کے بعد علم و عمل کے ہر دونوں جانب میں فوقیت حاصل ہوجاتی ہے اور اس وجہ سے وہ خطا و گناہ سے محفوظ رہتے ہیں-[16]
ان آئمہ کرام کی توجیہات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ابن حبان کے قول میں کسی قسم کے الزام و اعتراض اور الحاد و بد عقیدگی کی کوئی بات نہیں ہے-زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس مفہوم کو تعبیر کرنے میں خطا کر گئے البتہ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے بڑے محدث اور جلیل القدر شخصیت پر محض خطائے تعبیر کی وجہ سے اتنا بڑا اور ناروا الزام کیوں عائد کیا گیا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ ابن حبان علم و فن میں نہایت ممتاز اور بڑے ذہین و طباع شخص تھے ان کے غیرمعمولی کمالات کی وجہ سے بعض لوگ ان سے حسد کرتے تھے اور وہ ان کو مطعون و مہتم کرنے کی فکر میں رہتے تھے ان کے اس قول نے ان کےلئے اس کا موقع فراہم کردیا اور انہوں نے ان کی تعبیری خطا سے فائدہ اٹھا کر اور اس کو سیاق و سباق سے جدا کر کے اسے ان کا الحاد و زندقہ قرار دیا –
امام حاکم فرماتے ہیں ابو حاتم نہایت عالی مرتبت تھے اس بنا پر ان سے حسد کیا جاتا تھا-[17]
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں بجز عناد و تعصب کے ان پر اس الزام کے عائد کرنےکی اور کوئی وجہ نہیں ہوسکتی وہ یگانہ روزگار اور غیر معمولی ذہن و طباع تھے ان کا حافظہ بے مثال تھا-[18]
تصانیف:
امام ابن حبان ان علمائے اسلام میں سے تھے جن سے بے شمار کتابیں یادگار ہیں ان کی تصنیفات کیفیت و کمیت دونوں اعتبار سے اہم اور علمائے فن اور محدثین کا عمدہ ماخذ و مرجع ہیں علامہ سمعانی فرماتے ہیں کہ ابن حبان نے فن حدیث وغیرہ میں عدیم الامثال کتابیں لکھی تھیں مگر افسوس کہ چند کتب کے علاوہ اکثر تصنیفات اب ناپید ہیں جن کتابوں کا علم ہو سکا ہے وہ درج ذیل ہیں:
- علل اوھام المؤرخین (1 جلد)
- علل مناقب الزھری (20 جز)
- علل حدیث مالک (10 جز)
- علل ما اسند ابو حنیفہ (10 جز)
- ماخالف فیہ سفیان شعبۃ (3 جز)
- ما خالف فیہ شعبۃ سفیان (2 جز)
- ما انفرد بہ اہل المدینہ فن السنن (1 جلد)
- ما انفرد بہ المکیون (1 جلد)
- ما انفرد اہل العراق (1 جلد)
10. ما انفرد بہ اہل خراسان (1 جلد)
11. غرائب الاخبار (1 جلد)
12. غرائب الکوفیین (10 جز)
13. غرائب اہل البصرہ (8 جز)
14. الفصل و الوصل (1 جلد)
15. الفصل بین حدیث اشعت بن عبد الملک و اشعت بن سوار
16. مناقب مالک
17. مناقب الشافعی
18. کتاب المعجم علی المدن (10 جز)
- کتاب الہدایہ علم السنن: یہ حدیث و فقہ دونوں کی جامع اور عمدہ تصنیف ہے اس میں ترجمۃ الباب کے بعد حدیث نقل کر کے اس کے اسناد کے تمام ناموں (صحابہ سے لے کر اپنے شیخ تک) کے حالات، فضل و کمالات، نسبتوں، کنیتوں اورقبائل، اوتان اور سن ولادت و وفات وغیرہ تحریر کیے گئے ہیں پھر حدیث کی فقہی تشریح کی گئی ہے متضاد اور متعارض حدیثوں میں جمع و تطبیق کی صورتیں اور روایات میں کمی بیشی اور فرق و اختلاف کی صراحت بھی کی گئی ہے-
- کتاب الجرح و التعدیل: بعض لوگوں نے اس کو اور کتاب الضغفاء کو جس کا ذکر آگے آرہا ہے ایک ہی کتاب قرار دیا ہے اس میں روایت کے درجہ و مرتبہ کو واضح کرنے کے لئےوہ تمام اقوال درج کیے گئے ہیں جو ان کے ضعف و جرح یا ضبط ، عدل کے بارے میں اصحاب فن سے منقول ہیں-
- کتاب الثقات: یہ رجال کی مبسوط اہم اور شہرۂ آفاق کتاب ہے اس کی اہمیت کیلئے یہ بات کافی ہے کہ اس کے بعد جو اسماء الرجال میں جو کتابیں لکھی گئیں ان سب میں اس کے حوالے ملتے ہیں اس کی ابتداء میں سنت و اتباع کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور مقدمہ میں راویوں کی 32 قسمیں بیان کی ہیں اس میں پہلے رسالت مآب (ﷺ) اور خلفائے راشدین کا تذکرہ ہے اس کے بعد عام صحابہ، تابعین و تبع تابعین سے لے کر اپنے عہد تک کے علمائے حدیث کا حروف کی ترتیب کے مطابق ذکر کیا گیا ہے-
- کتاب الضعفاء: یہ بھی رجال کی مشہور اور ضخیم کتاب ہے اور اس کو حروف معجم پر مرتب کیا گیا ہے-
- صحیح ابن حبان: اس کا نام التقاسیم و الانواع بھی ہے یہ پانچ جلدوں میں ہے اس کو حدیث کی مشہور اور اہم کتاب خیال کیا جاتا ہے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حدیث کے تیسرے طبقہ کی کتابوں میں اس کا بھی نام لیا ہے-
اس کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
- صحیح ابن حبان کی سب سے اہم خصوصیت اس کی صحت ہے صحیح میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ابن خریمہ کی کتاب کے بعد اسی کا درجہ ہے-
- اس کو نہایت دلچسپ انداز اور نرالے ڈھنگ پر مرتب کیا گیا ہے-
- ہر حدیث کے آخر میں رجال و اسناد کی تحقیق حدیث کے مفہوم کی تعیین و وضاحت اور اسناد و متون کی فنی بحثیں اور دوسرے مفید و لطیف معلومات بیان کی گئی ہیں-
- کتاب کے عنوانات سے ابن حبان کی فقہی بصیرت اور سنت و اثر سے مکمل واقفیت کا اندازہ ہوتا ہے-
وفات:
آپ کا وصال ماہ شوال 354ھ میں اپنے وطن بست میں ہوا انہوں نے اپنے مکان کے قریب ایک چبوترہ بنایا تھا اسی میں دفن کیے گئے-[19]
٭٭٭
[1](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:89)
[2](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:183)
[3](میزان الاعتدال، جز:3، ص:506)
[4](شذرات الذہب، جز:1، ص:34)
[5](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:183)
[6](ایضاً)
[7](شذرات الذہب، جز:1، ص:34)
[8](مجم البلدان، جز:1، ص:405)
[9](طبقات الفقہاء الشافعیہ، جز:1، ص:116)
[10](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:90)
[11](طبقات الفقہاء الشافعیہ، جز:1، ص:116)
[12](ایضاً)
[13](بستان المحدثین، ص:68)
[14](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:90)
[15](لسان المیزان، جز:5، ص:113-114)
[16](بستان المحدثین، ص:68)
[17](لسان المیزان، جز:5، ص:115)
[18](لسان المیزان، جز:5، ص:114)
[19](شذرات الذہب، جز:1، ص:34)