تعارف:
آپ کانام سلیمان، کنیت ابو القاسم اور نسب نامہ کچھ یوں ہے سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر- آپ ؒکی ولادت ماہ صفر 260ھ میں ہوئی-[1]
امام طبرانی لخم کے قبیلہ سے نسبی تعلق رکھتے تھے اس لئے آپ کو لخمی بھی کہا جاتا ہے- لخم در اصل یمن کا ایک قبیلہ ہے اس کی ایک شاخ شام میں آباد ہوگئی تھی اس قبیلہ سے بے شمار نامور لوگ منسوب ہیں ان کا اصلی وطن طبریہ ہے مگر آخر عمر میں انہوں نے اصبہان میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی طبریہ اردن کے قریب واقع ہے اسی نسبت سے وہ طبرانی کہلاتے ہیں-
تحصیلِ علم:
امام طبرانی 273ھ میں علم و فن کی تحصیل میں مشغول ہوئے اس وقت ان کی عمر 13 سال تھی- پہلے انہوں نے اپنے وطن طبریہ کے اصحاب کمال سے استفادہ کیا- 274ھ میں قدس اور 275ھ میں قیساریہ تشریف لے گئے- اس کے بعد انہوں نے دوسرے اسلامی ملکوں، اہم مقامات اور مشہور مراکز حدیث کا رخ کیا- آپ تحصیل علم کے لئے مدائن، شام، مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، یمن، مصر، بغداد، کوفہ، بصرہ، جزیرہ اور اصبہان وغیرہ تشریف لے گئے-[2]اصبہان کی مرکزیت کی وجہ سے یہیں بود و باش بھی اختیار کر لی تھی-علم کی تلاش و جستجو اور احادیث کی تحصیل میں ان کو سخت مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کے ذوق و شوق اور انہماک میں کبھی کمی نہ آئی- شاہ عبدا لعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں 30 سال تک ان کو بستر پر سونا نصیب نہ ہوا مگر وہ آرام و آسائش کا خیال کیے بغیر حدیث کی تحصیل میں مشغول اور بوریا پر سوتے رہے-[3]
اساتذہ:
امام طبرانی نے جن باکمال محدثین سے اکتسابِ علم کیاان کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے –چند مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں:
’’احمد بن عبد اللہ لحیانی، عمر و بن ثور، اسحاق بن ابراہیم دبری، ادریس بن جعفر عطار، بشر بن موسیٰ، علی بن عبد العزیز بغوی مقدام بن داؤد رعینی، یحیی بن ایوب، احمد بن عبد الوہاب الحوطی، احمد بن ابراہیم بالسی، احمد بن اسحاق بن ابراہیم اشجعی، ابراہیم بن سوید شبامی، بکر بن سہل دمیاطی، حبوش بن رزق اللہ، عباس بن فضل اسفاطی، عبد اللہ بن احمد بن حنبل، عبد اللہ بن حسین مصیصی، عبد الرحیم بن عبد اللہ البرقی‘‘-[4]
تلامذہ:
آپؒ کے اساتذہ کی طرح آپؒ سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادبھی بہت زیادہ ہے بلکہ ان میں آپ کے بعض شیوخ بھی شامل ہیں –امام صاحب سے اکتسابِ فیض کرنے والوں میں سے چند مشہور تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں:
’’ابو خلیفہ جمحی، ابن عقدہ، احمد بن محمد الصحاف، ابو بکر بن مردودیہ، ابو عمر محمد بن حسین بسطامی، حسین بن احمد بن مرر زبان، ابو بکر بن ابی علی ذکوانی، ابو الفضل محمد بن احمد جارودی، ابو نعیم الحافظ، ابو الحسین بن فادشاہ، ابو بکر بن ریذہ‘‘-[5]
امام طبرانی کے حلقہ فیض سے دو صاحب کمال وزراء بھی وابستہ تھے-ان میں ابن عمید جو کہ لغت، عربیت اور شعرو ادب میں بڑے مشہور تھے ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ دیلمی حکومت میں اس لیاقت وقابلیت کا کوئی اور وزیر نہیں گزرا اور دوسرا وزیر صاحب بن عباد بھی ممتاز ادیب، و انشا پرداز اور امام طبرانی کا شاگرد اور تربیت یافتہ تھا-
حفظ و ثقاہت:
امام طبرانی علمی میدان میں ایک نامور شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے آپ حفظ و ضبط اور ثقاہت میں اونچے درجے پر فائز تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے معاصرین علماء و محدثین نے اور متاخرین ارباب علم نے ان کے حفظ و ثقاہت کا اعتراف کیا ہے- آئمہ سیر و تراجم نے ان کو الحافظ الکبیر، احد الحفاظ، الحافظ العلم، واسع الحفظ اور الحجۃ وغیرہ لکھا ہے- امام ذہبی آپ کی علمی وجاہت کو اس انداز میں بیان کرتے ہیں:
’’وکان ثقۃ صدوقا واسع الحفظ بصیرا باالعلل و الرجال‘‘[6]
’’وہ ثقہ اور صدوق تھے وسیع حفظ والے اور علل اور علم الرجال میں بڑی بصیرت رکھتے تھے‘‘-
علامہ ابن ناصر الدین فرماتے ہیں:
’’ھو مسند الآفاق ثقۃ‘‘[7]
’’وہ مسند الآفاق اورثقہ تھے‘‘-
علامہ ابو الفلاح آپ کے بارے میں فرماتےہیں :
’’وکان ثقۃ صدوقا‘‘[8]
’’وہ ثقہ اور صدوق تھے‘‘-
علامہ سمعانی فرماتے ہیں:
’’ھو حافظ عصرہ‘‘[9]
’’وہ اپنے زمانے کے حافظ تھے‘‘-
امام صاحب کے حفظ و ثقاہت کو علامہ ابو الحسن جمال الدین یوسف نےاس انداز میں بیان فرمایا:
’’ھو احد الحفاظ المکثرین الرحالین‘‘[10]
’’وہ حدیث کے لئے کثرت کے ساتھ سفر کرنے والے حفاظ میں سے ایک تھے‘‘-
امام طبرانی حفظ حدیث کے اس درجے پر فائز تھے کہ کئی آئمہ حدیث نے آپ سے ہزاروں حدیثوں کا سماع کیا جیسا کہ ابو احمد عسال جوکہ اصبہان کے قاضی تھے وہ فرماتے ہیں :
’’انا سمعت من الطبرانی عشرین الف حدیث و سمع منہ ابراہیم بن محمد ثلاثین الفا وسمع منہ ابو الشیخ اربعین الفا‘‘[11]
’’میں نے امام طبرانی سے بیس ہزار حدیثیں سنیں اور ابو الشیخ نے ان سے چالیس ہزار حدیثیں سنیں‘‘-
امام صاحب کے پاس حدیث کا اتنا ذخیرہ تھا کہ بعض دفعہ لوگ بطور تعجب کثرتِ حدیث کے بارے میں سوال کرتے جیسا کہ ابو بکر بن علی فرماتے ہیں:
’’سأل والدی ابو القاسم الطبرانی عن کثرۃ حدیثہ فقال کنت انام علی البواری ثلاثین سنۃ‘‘[12]
’’میرے والد نے امام طبرانی سے کثرت حدیث کے بارے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں حدیث کی خاطر تیس سال بوریا پر سویا ہوں‘‘-
ابو عبد اللہ بن منذہ فرماتے ہیں:
’’الطبرانی احد الحفاظ‘‘[13]
’’امام طبرانی آئمہ حفاظ میں سے ایک تھے‘‘-
آپ کے علمی کمال کو امام ابو بکر بن علی اس انداز میں بیان فرمایا:
’’الطبرانی اشہر من ان یدل علی فضلہ و علمہ وکان واسع العلم کثیر التصانیف ‘‘[14]
’’امام طبرانی علم وفضل میں بہت زیادہ مشہور تھے وہ وسیع علم والے اور کثیر تصانیف والے تھے‘‘-
حدیث میں مقام:
امام طبرانی حدیث میں گہری بصیرت رکھنے کی وجہ سے پوری دنیائے اسلام میں مشہور تھے ان کی ذات کثرت حدیث اور علوے اسناد نہایت ممتاز تھی-شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ حدیث میں وسعت اور کثرت روایت میں وہ یکتا اور منفرد تھے-[15]حدیث میں اعلیٰ مقام ہونے کی وجہ سے آپ کی ذات مرجع الخلائق تھی ایک دفعہ ابن عقدہ سے ایک اصبہانی شخص نے کوئی مسئلہ دریافت کیا انہوں نے پوچھا کہ تم نے سلیمان بن احمد طبرانی سے سماع کیا ہے اس نے جواب دیا کہ میں ان سے واقف نہیں- ابن عقدہ نے حیرت سے سبحان اللہ کہا اور فرمایا کہ ان کے ہوتے ہوئے تم لوگ ان سے حدیثیں نہیں سنتے اور ہم لوگوں کو خواہ مخواہ کی تکلیف دیتے ہو- میں نے امام طبرانی کا کوئی مثل اور نظیر نہیں دیکھا-[16]حدیث میں امام صاحب کے مقام کا اندازہ اس مناظرہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو ان کے اور ابو بکر چغابی کے درمیان ہوا تھا-صاحب بن عباد بیان کرتے ہیں مجھے دنیا میں وزارت سے زیادہ کوئی چیز مرغوب اور عزیز نہ تھی اور میں اس سے زیادہ کسی منصب کو اعلیٰ اور برتر خیال نہیں کرتا تھا کیونکہ اسی کی بدولت مجھے ہر طرح کا اعزاز اور ہر ہر طبقے میں مقبولیت حاصل تھی-
لیکن ایک روز میرے سامنے مشہور محدث ابو بکر چغابی اور ابو القاسم طبرانی میں حدیث کے بارے ایک مباحثہ ہوا حفظ و ضبط میں طبرانی اور ذہانت و فطانت میں چغابی فائق معلوم ہوتے تھے-یہ مباحثہ دیر تک ہوتا رہا دونوں طرف سے بڑے جوش و خروش کا اظہار اور پر زور آوازیں بلند ہورہی تھیں اسی اثنا میں امام چغابی نے کہا میرے پاس ایک ایسی حدیث ہے جو اور کسی کو معلوم نہیں –طبرانی نے اسے بیان کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے فرمایا:
’’حدثنا ابو خلیفۃ قال حدثنا سلیمان بن ایوب القاسم‘‘
طبرانی نے کہا حضرت سلیمان بن ایوب تو میں ہی ہوں اور ابو خلیفہ میرے شاگرد ہیں اگر آپ اس حدیث کو میرے واسطے سے بیان کریں تو آپ کی سند زیادہ عالی ہوگی اس سے بے چارے ابو بکر چغابی بہت نادم ہوئے ان کی ندامت اور طبرانی کی فتح و مسرت دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ میں طبرانی ہوتا تو آج وہی سرور اور غلبہ و کامرانی جو انہیں حاصل ہوئی ہے مجھے حاصل ہوتی یہ منظر دیکھ کر میرے دل سے وزارت کی اہمیت جاتی رہی-[17]
حضرت شاہ عبد العزیز نے اس پر کتنا دلچسپ اور بہتر تبصرہ فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ:
’’صاحب بن عباد کا اس قسم کی آرزو تمنا کرنا درحقیقت وزارت و ریاست ہی کے اثر کا نتیجہ تھا ورنہ علمائے ربانیین کے اندر اس طرح کی فتح و کامرانی کے بعد بھی کوئی عجیب تبدیلی نہیں آتی اور نہ ہی ان کی طبیعتیں اس قسم کے واقعات سے متاثر ہوتی ہیں مگر آدمی دوسروں کو بھی اپنے ہی اوپر قیاس کر لیتا ہے‘‘-[18]
حدیث میں امتیازی شان کا اندازہ اس قول سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ابو العباس احمد بن منصور شیرازی فرماتے ہیں کہ میں نے طبرانی سےتین لاکھ حدیثیں لکھی ہیں-[19]
اس زمانہ میں زنادقہ یعنی فرقہ قرامطہ اور فرقہ اسماعیلیہ کا بڑا زور اور اثر تھا- یہ لوگ اہل سنت اور محدثین کے دشمن تھےان لوگوں نے امام صاحب کی دینی معاملات میں شدت پسندی کی وجہ سے ان پر سحر کردیا تھا کہ کیونکہ آپ ان کا حدیث سے رد کرتے تھے تو اس سحر کی وجہ سے ان کی آنکھوں کی بصارت ختم ہوگئی تھی-[20]
تصنیفات:
امام طبرانی ایک نامور مصنف اور کثیر تصانیف کے مالک تھے لیکن قدیم مصنفین کی طرح ان کی بھی اکثر کتابیں ناپید ہیں یہاں ان کی چند مشہور کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے:
- کتاب المناسک
- کتاب السنۃ
- کتاب دلائل النبوۃ
- کتاب عشرۃ النساء
- کتاب الطوالات
- کتاب النوادر
- کتاب مسند شعبہ
- کتاب مسند سفیان
- کتاب حدیث الشامیین
10. کتاب الاوائل
11. کتاب الرمی
12. تفسیر کبیر
- کتاب الدعاء
یہ امام طبرانی کی مشہور اور ضخیم کتاب ہے اس کی اہمیت و استناد اورترتیب کی خوبی کا اندازہ ان کے اس بیان سے پوری طرح ہوجاتا ہے وہ فرماتے ہیں کہ میری یہ کتاب رسول اللہ (ﷺ) کی دعاؤں کا مجموعہ ہے چونکہ میں نے دیکھا کہ اکثر لوگوں نے ان دعاؤں کو اختیار کر لیا ہے جو مسجع عبارتوں میں اور روزمرہ کے لئے وضع کی گئی ہیں اور ان کو واعظین نے جمع کیا ہے یہ خود آقا کریم (ﷺ) یا کسی صحابی اورتابعی سے مروی نہیں ہیں اس لئے میں نے یہ کتاب کی تالیف جو ان دعاؤں پر مشتمل ہے جن کی سندیں رسول اللہ (ﷺ) سے منقول ہیں اس لئے پہلے دعا کے فضائل و آداب بیان کیے گئے ہیں پھر آپ جس حال میں جو دعائیں کرتے تھے ان کو علیحدہ علیحدہ ابواب میں درج کیا گیا ہے اس کے آخری باب میں آیت کریمہ ’’ادعونی استجب لکم‘‘ کی تفسیر کی گئی ہے-[21]
- معجم الکبیر: امام صاحب کی معاجم ثلاثہ بڑی مشہور ہیں- یہ کتابیں بڑی اہم اور حدیث کی بلند پایہ کتابیں سمجھی جاتی ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان کو حدیث کےتیسرے طبقہ کی کتابوں میں شامل کیا ہے ان کی بدولت امام طبرانی کو لازوال شہرت ملی-محدثین کی اصطلاح میں معجم ان کتابوں کو کہا جاتا ہے جن میں شیوخ کی ترتیب پر حدیثیں درج کی گئی ہوں اسی طرح بعض کتابوں میں شیوخ کی وفات اور بعض میں ان کے علم و تقویٰ کے تقدم کا لحا ظ کیا گیا ہے لیکن عموما حروف تہجی کی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے-اس لئے ان معاجم میں سے طبرانی کی معجم کبیر بھی ہے-یہ دراصل مسند ہے کیونکہ اس میں صحابہ کی ترتیب پر ان کی مرویات شامل کیے گئے ہیں لیکن اس کی شہرت معجم کے نام سے ہوئی-مشہور اور کثیر الروایت صحابی حضرت ابو ہریرہ () کی حدیثیں اس میں شامل نہیں ہیں –امام صاحب ان کی مرویات کو علیحدہ ایک کتاب میں جمع کرنا چاہتے تھے لیکن یا تو انہیں مرتب کرنے کا موقع نہ مل سکا یا مرتب تو کیا لیکن اس کی شہرت نہ ہوسکی –ابن عابدین فرماتے ہیں کہ یہ بارہ جلدوں میں ہے اس میں ساٹھ ہزار حدیثیں شامل ہیں-[22]
- معجم الاوسط:یہ امام صاحب کی بڑی مشہور کتاب ہے اور یہ کتاب آپ کو بڑی عزیز تھی اسی کتاب کے بارے میں فرماتے تھے کہ یہ کتاب میری روح ہے-اس کو آپ نے شیوخ کے ناموں پر مرتب کیا اس میں طبرانی نے اپنے تقریباً ایک ہزار شیوخ کے افراد و غرائب جمع کیے ہیں- محدثین کے نزدیک افراد و غرائب ان حدیثوں کو کہا جاتا ہے جو ایک ہی شیخ کے پاس ہوں اور دوسرے شیوخ ان سے واقف نہ ہو- یہی وجہ ہے کہ اس مجموعہ میں صحیح اور عزیز کے علاوہ منکر حدیثیں بھی شامل ہوگئیں ہیں لیکن اس کی ترتیب و تالیف میں امام طبرانی نے بڑی کاوش سے کام لیا ہے-[23]
- معجم الصغیر: یہ معاجم میں مختصر ہونے کی وجہ سے زیادہ مقبول و متداول ہے اس کی ترتیب بھی شیوخ کےناموں پر ہے اور اس میں انہوں نے حروف تہجی کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ شیوخ کی ایک ایک حدیث درج کی ہےاس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں روایت اورراوی کے متعلق مختلف قسم کی تصریحات کی گئی ہیں مثلاً حدیث کے ضعف و قوت، رفع و اتصال، تفرد، شہرت اور غرابت راویوں کے ضبط و ثقاہت یا وہم، ضعف، کنیت، نسبت، نام، لقب، قبیلہ، وطن اور بعض کے نسب نامے اور روایتوں میں فرق و اختلاف کی تصریح کی گئی ہے جس سن اور مقام پر جو روایت سنی یا لکھی گئی کہیں کہیں اس کااور بعض راویوں کی صحابیت و تابعیت کا ذکر کیا گیا ہے-بعض شیوخ کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے فلاں شیخ سے کتنی حدیثیں بیا ن کیں یا اس نے اور کن مشہور شیوخ سے سنیں اسی طرح اکثر راویوں کے وہ نمایاں اوصاف بیان کیے جن سے ان کی زیادہ شہرت ہے-[24]
وفات:
امام طبرانی نے بروز شنبہ 28 ذوالقعدہ 360ھ کو سو سال کی عمر میں وصال فرمایا اور حافظ ابو نعیم اصبہانی نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی-[25]
٭٭٭
[1](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:201)
[2](تذکرۃ الحفاظ للذہبی، جز:3، ص:85)
[3](بستان المحدثین،ص:90)
[4](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:202)
[5](تذکرۃ الحفاظ للذہبی، جز:2، ص:85)
[6](العبر، جز:2، ص:106)
[7](شذرات الزہب، جز:4، ص:311)
[8](ایضاً)
[9](کتاب الانساب، جز:9، ص:35)
[10](النجوم الظاہرہ، جز:4، ص:60)
[11](ایضاً)
[12](تاریخ الاسلام، جز:26، ص:149)
[13](ایضاً)
[14](ایضاً)
[15](بستان المحدثین،ص:91)
[16](سیر اعلام النبلاء، جز:12، ص:205)
[17](تذکرۃ الحفاظ للذہبی، جز:3، ص:86-87)
[18](بستان المحدثین،ص:91)
[19](ایضاً)
[20](ایضاً)
[21](ایضاً، ص:89)
[22](تذکرۃ المحدثین، ج:1، ص:496)
[23](ایضاً، ص:497)
[24](ایضاً)
[25](شذرات الزہب، جز:4، ص:310)