اسلام کی عظیم روایات کے امین تُرک، قوت ِ ایمانی، جذبہ عشقِ مصطفےٰ(ﷺ)، اُولو العز می،فہم و فراست،سخت کوشی، جہد و تحرّک، جہاں بانی و انصاف پسندی میں اپنی مثال آپ تھے- رضائے الٰہی کی خاطر شہادت ان کا مطلوب و مقصود تھا اور پوری دنیا میں اسلام اور اسلامی سلطنت کے پھیلاؤ کیلئے توسیع پسندی کا جذبہ انہیں ورثے میں ملاتھا یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ہر ظالم اور وحشی قوم کو للکارا اور ظالمانِ جہاں کے محلات کے در و دیوار ہلا کر رکھ دیئے اور ایسے ایسے محیر العقول کارنامے سر انجام دیئے جو اسلامی تاریخ کے اَن مٹ نقوش ہیں- تاریخ وہ لمحات فراموش نہیں کر سکتی جب بھیڑوں کی گَلّہ بانی کرنے والے ترکوں نے دنیا کی سب سے مضبوط اور طویل عرصے تک قائم رہنے والی اسلامی سلطنت (عُثمانیہ) کی بنیاد رکھی اور یوں مرکزیت ِاسلامی کے یہ علمبردار پوری دنیا میں نورِ اسلام کی روشنی پھیلاتے چلے گئے- ابتدائی دور میں اسے سلطنتِ عثمانیہ کہتے تھے لیکن سلطان محمد الفاتح کے پوتے سلیم اول (سلیمان عالیشان کے والد) کے1517ء میں حجاز فتح کرنے کے بعد اسے سلطنت کی بجائے ’’خلافتِ عثمانیہ‘‘ کا نام دیا گیا- سلیم اول اس خلافت کے پہلے خلیفہ کہلائے ، ان سے قبل کے عثمانی حکمرانوں کو سلطان یا بادشاہ کہا جاتا تھا -
اسلام، شعارِ اسلام اور شعائرِ اسلام سے خصوصی محبت عثمانیوں کے قلب و روح میں شامل تھی- بانی خِلافتِ عُثمانیّہ (عثمان خان غازی) نے بسترِ مرگ پر اپنے بیٹے (اورخان غازی) کو جو وصیت کی اس میں اسلامی روح کا عکس نمایاں نظر آتاہے:
’’اے میرے بیٹے! ہم ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنی سلطنت قائم کرنے یا انسانوں کو غلام بنانے کیلئے جنگیں لڑتے ہیں-پس ہم تو اسلام کیلئے جیتے اور اسلام کیلئے مرتے ہیں - اے میرے بیٹے !یہی ہمارا طریقہ ہے تم اِسی پر کا ربند رہنا‘‘[1]
غازی عثمان خان کی رِحلت (1326ء بمطابق 726 ھ) اور خِلافتِ عُثمانیّہ کے قیام کے بعد بھی خاندانِ عثُمانی کی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اور ترکوں نے بہت سی عظیم فتوحات حاصل کیں- یہ عظیم خِلافت دُنیا کے تین بر اعظموں (جنوب مشرقی یورپ، ایشیائے کوچک و مشرقِ وُسطیٰ اور شمالی افریقہ) پہ پھیلی ہوئی تھی، اگر اس کے جُغرافیّہ میں نظر دوڑائیں تو مشرق میں بحیرۂ قزوین (کیسپئن سی) اور خلیجِ فارس تک، مغرب میں آبنائے جبرالٹر (جہاں بحرِ اوقیانوس اور بحیرۂ روم ملتے ہیں)، شمال میں آسٹریا سے لےکر سلواکیہ اور یوکرائن تک، جنوب میں سوڈان صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی- ایک وقت میں عراق، شام فلسطین، اردن، مصر ، حجاز اور جزیرہ نما عرب پہ عثمانی خلافت قائم تھی، خلافتِ عُثمانیّہ کی انتہائی مشرقی سرحد انڈونیشیا کے ساحلی صوبہ آچے تک پھیلی رہی ہے-اس دوران ایسے علاقے بھی فتح ہوئے جن کی فتح کا تصور بھی ممکن نہ تھا جن میں ایک اہم ترین کارنامہ بازنطینی دارالسلطنت قسطنطنیہ (استنبول) کی فتح تھا-
عثمانیوں کے ہاتھوں قسطنطنیہ کی فتح محض اتفاق نہ تھا بلکہ یہ اوائل اسلام سے ہی ایک طویل عرصے پر محیط(تقریبا ً 7 صدیاں) مسلمانوں کی مسلسل جدو جہد کا نتیجہ تھا-ایک طرح سے آقا کریم (ﷺ) کی اُس عظیم بشارت کو پورا کرنے کیلئے کہ:
’’تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرکے رہو گے، وہ فاتح بھی کیا خوب ہوگا اور (فتح کرنے والی ) وہ فوج بھی کیا خوب ہوگی‘‘-[2]
مسلمانوں کی کئی نسلوں نے کوشش کی بلکہ ہر مسلمان حکمران کی دیرینہ آرزو تھی کہ قسطنطنیہ فتح کرے مگر خلافت ِ عثمانی کے دوران اس کی فتح کیلئے کوششوں میں مزید تیزی آئی اور بالآخر یہ سعادت ابدی عظیم سلطان مراد ثانی کے فرزند سلطان محمدثانی (جسے فتح قسطنطنیہ کی وجہ سے فاتح کا لقب ملا) کے حصے میں آئی اور نبی اکرم (ﷺ) نے جو بشارت دی تھی کہ ’’جو لشکر اس شہر کو فتح کرے گا وہ جنتی ہوگا‘‘-[3]محمد ثانی قسطنطنیہ (استنبول) فتح کرکے اس بشارت کا مصداق ٹھہرا-
سلطان محمد فاتح ہمہ جہت اوصاف کا مالک تھا جن میں عزم و استقلال، فہم و دانش،جواں مردی،عاجزی اور یقین محکم اس کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے- سلطان محمد فاتح نے 9 سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا ، 14برس کی عمر میں تختِ سلطنت پہ بیٹھا، 19برس کی عمر میں دُنیا کی سات زبانوں پہ عبور رکھتا تھا اور محض 21 برس کی کم عمر میں استنبول فتح کر کے بشارتِ مصطفےٰ (ﷺ) کا حقیقی پہریدار بن گیا - سلطان کے ہم عصر مولانا کورانی جو ایک شاعر بھی تھے؛ نے سلطان محمد فاتح کی شخصیت کو سمندر سے تشبیہ دیتے ہوئے ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:
هو الشمس الا انه الليث باسلا |
’’میرا ممدوح سورج ہے لیکن وہ ایک بہادر شیر بھی ہے-وہ سمندر ہے لیکن وہ خشکی کا مالک ہے‘‘-[4]
ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) دنیا کے اہم اور عظیم ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا جس کی ثقافتی و جغرافیائی اہمیت کے پیشِ نظر فرانسیسی حکمران نپولین نے کہا تھا کہ:
“If the World were a single state, Istanbul would be its capital”.[5]
’’اگر پوری دنیا ایک ملک ہوتی تو استنبول اس کا دارالحکومت بنتا‘‘-
قسطنطنیہ کا قدیم نام بازنطین تھا لیکن 330ء میں رومن شہنشاہ قسطنطین اوّل (قسطنطین اعظم) نے اسے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو اپنے نام کی نسبت سے اسے کونسٹینٹیونپل (Constantinople) رکھ دیا بعد میں عربوں کے ہاں پہنچ کر اس کا نام قسطنطنیہ رائج ہوگیا-جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا اور اسے عثمانی سلطنت کا دارالحکومت بنایا تو اس کا نام ’’اسلام بول‘‘ رکھا جو بعد میں استنبول مشہور ہوگیا-
فتح قسطنطنیہ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس لئے کہ :
’’قسطنطنیہ یورپ میں اسلام کی اشاعت کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہواتھا اس لئے اس کے سقوط کا مطلب تھا یورپ میں مسلمانوں کی پہلے سے کہیں زیادہ طاقت اور سلامتی کے ساتھ اسلام متعارف کروانے میں کامیابی ‘‘-[6]
جب سلطان محمد فاتح تخت نشین ہوا تو بازنطینی دار السلطنت (قسطنطنیہ) جو ایک طویل عرصہ سے اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھا، سُلطان کی نظروں کا ہدف بن گیا-سلطان محمد فاتح نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں تاکہ بازنطینی شہنشاہت کو مغلوب کر کے قسطنطنیہ کو اسلام کا قلعہ بناتے ہوئے وہ عظیم کارنامہ سر انجام دے جس کیلئے مسلمان ایک طویل عرصے سے کوشش کرتے چلے آرہے ہیں-
چونکہ عدل و انصاف اور رحمدلی میں بھی سلطان محمد فاتح کا کوئی ثانی نہ تھا اس لئے فتح قسطنطنیہ سے قبل سلطان نے بازنطینی شہنشاہ کو خط لکھا کہ وہ شہر(قسطنطنیہ) مسلمانوں کے حوالے کر دے تاکہ خون ریزی نہ ہو اور لوگ مکمل آزادی سے زندگی بسر کر سکیں-سلطان محمد فاتح کے شاہِ قسطنطنیہ کے نام خط کا متن کچھ اس طرح ہے:
’’اگر تم شہر(قسطنطنیہ) میرے حوالے کر دو گے تو کسی کو کسی طرح کی تکلیف اور اذیت نہیں ہوگی-جو شہر میں رہنا چاہیں گے انہیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہوگی اور جو شہر سے جانا چاہیں گے ان سے تعرض نہیں کیا جائے گا لیکن قسطنطین نے جب شہر سلطان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تو سلطان نے پر عزم لہجے میں کہا کہ:ٹھیک ہے! عنقریب قسطنطنیہ میرا تخت ہوگا یا پھر اس میں میری قبر ہو گی‘‘-[7]
جب سلطان محمد فاتح کو یقین ہو گیا کہ بازنطینی شہنشاہ شہر (قسطنطنیہ ) حوالے نہیں کرے گا تو اس نے حملوں کا حکم دیا اور پھر فتح قسطنطنیہ تک یہ حملے جاری رہے-
سلطان محمد فاتح کی فتح قسطنطنیہ کیلئے جنگی منصوبہ بندی و حکمت عملی، سپاہیوں کی تربیت اور جنگی ساز و سامان سے متعلق مختصر بیان ذیل میں دیا گیا ہے:
سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرنے کیلئے پوری منصوبہ بندی کی اور اس میں اپنی پوری کوششیں صرف کردیں حتٰی کہ اسے جو لشکر فراہم ہوا اس کی تعداد تقریباً چوتھائی ملین سپاہی تھے -یہ اس دور کے لحاظ سے مختلف اقوام کے لشکروں کی نسبت ایک بہت بڑا لشکر تھا-سلطان نے لشکر کی تدریب و ٹریننگ میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا -طرح طرح کے سپاہیانہ فنون کی تعلیم دی گئی اور انواع و اقسام کے اسلحہ کا بندو بست کیا گیا جو آنے والی جہادی کاروائی کا انہیں اہل بناسکتا تھا-اس ظاہری تیاری کے ساتھ ساتھ محمد فاتح نے سپاہوں کی معنوی تیاری (روحانی) کا بھی خصوصی اہتمام کیا -ان میں جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے قسطنطنیہ کے فاتح لشکر کی تعریف فرمائی ہے اور ہو سکتا ہے یہی لشکر آپ(ﷺ) کا مقصود ہو- [8]
ربیع الاوّل و ربیع الآخر 857ھ/اپریل 1453ء میں عثمانیوں نے خشکی اور سمندر کی طرف سے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا-اس محاصرے میں عثمانیوں کی 400 جہازوں پر سوار 20 ہزار بحری فوج شریک تھی اور ان کی بری فوج کی تعداد 80 ہزار تھی- سلطان نے شہر کے ارد گرد توپخانہ لگا دیا جس میں توپوں کی 14 بیٹریاں تھیں-وہ پتر کے گولے ایک میل تک پھینکتی تھیں-بیران کارڈیف (Baran Cardiff) نے اپنی کتاب Thinkers of Islam (مفکرینِ اسلام) میں لکھا ہے کہ محمد فاتح نے توپوں میں جو گولے استعمال کئے ان میں سے ہر ایک کا وزن 300 کلو گرام تھا اور ان کی مار ایک میل سے زیادہ تھی-ایک توپ چلانے کیلئے 700 افراد کی ضرورت پڑتی تھی،اس کی نال بھرنے میں دو گھنٹے لگتے تھےجبکہ توپخانہ 200 توپوں پر مشتمل تھا-
سلطان محمد فاتح نے جس چیز کی طرف خصوصی توجہ مرکوز رکھی وہ تھی عثمانی بحریہ کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانا اور اس میں کشتیوں کا اضافہ کرنا تاکہ وہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کے اہل بن سکے-قسطنطنیہ تھا بھی ایک ایسا سمندری شہر جس کا محاصرہ طاقتور بحریہ کے بغیر نامکمل تھا -[9]
اگرچہ تینوں اطراف سے پانی میں گھرے اور بڑی بڑی فصیلوں والے اس شہر کو فتح کرنا ایک مشکل ترین کام تھا لیکن سلطان محمد فاتح اور اس کے جانباز سپاہیوں نے قسطنطنیہ لینے کیلئے خشکی پہ ایسا راستہ تیار کیا جہاں سے طاقتور جانوروں کی مدد سے بحری بیڑے گھسیٹ کے صحرا عبور کیا جا سکے - تختوں کی مدد سے بیڑے خشکی پہ رکھے گئے، بیلوں، گھوڑوں اور دیگر مال کَش جانوروں کی مدد سے بیڑے صحرا سے پار نکلوا کر سمندر کی دوسری جانب ڈال دیئے گئے- جب رومیوں کو خبر ہوئی تو اُن کے پہلے سے ٹوٹے ہوئے حوصلوں میں باقی ماندہ جان بھی ختم ہو گئی - آخری مزاحمت کے بعد تیرہ سو سالہ بازنطینی تخت کے پائے کٹ گئے اور سلطان محمد کو فاتح کے لقبِ عظیم سے ملقب ہونے کا شرف حاصل ہوا - بالآخر انہوں نے 29 مئی 1453ء کو 54 روز کے طویل محاصرے کے بعد قسطنطنیہ فتح کرلیا -
مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب سلطان محمد نے آخری حملہ کی تیاری کی تو کسی مشیر وزیر نے پوچھا کہ ’’سُلطان! اگر یہ حملہ بھی ناکام ہوا تو ہماری کیا حکمتِ عملی ہو گی‘‘؟ تو اُس عظیم فاتحِ اسلام نے تاریخی جواب دیا کہ :
’’یہ فیصلہ کُن حملہ ہے، آج یا قسطنطنیہ مجھے لے لے گا یا میں قسطنطنیہ کو لے لوں گا‘‘-
اللہ کی مدد آ گئی تو سلطان نے قسطنطنیہ لے لیا -
جب قسطنطنیہ فتح ہو گیا تو سلطان نے اپنے لشکر کو مبارک باد دی اور کہا کہ وہ شہر میں بسنے والے لوگوں سےحسنِ سلوک کریں، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں،قتل و غارت نہ کریں پھر گھوڑے سے نیچے اترا اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر بجا لایا-
مؤرخین نے قسطنطنیہ کی فتح کو تاریخ ِعالم کے اہم ترین واقعات میں شمار کیا ہے-یلماز اوز نتونا اپنی تصنیف تاریخ الدولہ العثمانیہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’بالخصوص یورپ کی تاریخ و اسلام کے ساتھ اس کے تعلق کے حوالے سے یہ واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے-حتیٰ کہ یورپی مؤرخین اور ان کے بعد آنے والے تاریخ نگاروں نے اسے از منہ وسطیٰ کا اختتام و عہد ہائے جدید کی ابتداء شمار کیا ہے‘‘-
ظفر سید فتح قسطنطنیہ کے حوالے سے بی بی سی میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:
’’1453ء ہی وہ سال ہے (جس میں قسطنطنیہ فتح ہوا) جسے قرونِ وسطیٰ(Middle Ages) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز سمجھا جاتا ہے-قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک بادشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا-اس واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی ایک تاریخ کا باب ختم ہوا اور دوسرے کی ابتدا ہوئی-فتح قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد ثابت ہو گیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد فصیلیں کسی شہر کے تحفظ کیلئے نا کافی ہیں- [10]
قسطنطنیہ کی فتح سےجہاں عثمانی ایک طرف عظیم قوت بن کر ابھرے تو دوسری طرف یورپ میں فروغ و اشاعتِ اسلام کے راستے بھی ہموار ہوئے-
’’فتح قسطنطنیہ نے ایک طرف عثمانیوں کو عالمِ اسلام میں ایک برتری دلادی تو دوسری طرف انہیں ایک عظیم قوت بنا دیا جو ایشیاء کے ساتھ یورپ کی بھی سب سے بڑی طاقت بن گئی-اس فتح نے یورپ کی تسخیر کے دروازے کھول دیے اور عثمانیوں کو رومیوں کی عظمت کا جا نشین بنا دیا‘‘[11]
ترکوں کی عظیم فتوحات اور ان کے سنہری کارناموں کو مختلف مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے جن میں شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ سرِ فہرست ہیں-
حکیم الامّتؒ کو ترکوں سے گہری عقیدت تھی اور انہوں نے اپنے کلام میں کافی جگہ ترکوں کے عظیم کارناموں کا تذکرہ بھی کیا ہے- ’’بلادِ اسلامیہ‘‘ میں قسطنطنیہ (استنبول) سے علامہ اقبالؒ نے اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے:
خطۂ قسطنطنیّہ یعنی قیصر کا دیار |
یہ تھا سلطان محمد فاتح کا عظیم کارنامہ( فتح قسطنطنیہ) جسے پوری دنیا (بالخصوص یورپ ) آج تک نہیں بھول پائے اور یہ کارنامہ اوراقِ تاریخ میں ایک نایاب پہلو کے طور پر ہمیشہ محفوظ رہے گا- آج جب عالمِ اسلام کو طرح طرح کے مسائل(سیاسی، سماجی، دفاعی،نظریاتی،معاشی) کا سامنا ہے ہمیں اپنے اسلاف کی زندگیوں سےرہنمائی لیتے اور ان کے طریق پرعمل پیرا ہوتے ہوئے بشاراتِ سیّدنا رسول اللہ (ﷺ) سے روشنی حاصل کرنی چاہئے - ہمیں نا امیدی اور مایوسی سے نکل کر اسلام کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے - جس طرح ہمارے اسلاف نے دین اسلام کی سر بلند ی کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردیں اسی طرح ہمارا جینا مرنا بھی صرف اسلام کیلئے ہونا چاہئے تاکہ ہم حقیقی معنوں میں فرزندِ اسلام کا کردار ادا کرسکیں-
٭٭٭
[1](اٹلس فتوحاتِ اسلامیہ ،احمد عادل کمال،مترجم محسن فارانی،دارُلسّلام پبلشرز لاہور،ص: 313)
[2]( مسند احمد بن حنبل،ج:4، ص:335)
[3](صحیح البخاری،لجہاد و السیر،ما قیل فی قتال الروم،حدیث:2924)
[4](سلطنتِ عثمانیہ،ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی،مترجم علامہ محمد ظفر اقبال کلیار، ضیاءالقرآن پبلیکیشنز، لاہور، ص:195،اگست 2008ء)
[5]https://journals.worldnomads.com/constantinople/photo/38458/929780/Turkey/If-the-Earth-were-a-single-state-Istanbul-would-be-its-capital-Napoleon-My
[6](سلطنتِ عثمانیہ،ڈاکٹر علی محمد الصلابی،مترجم علامہ محمد ظفر اقبال کلیار، ضیاءالقرآن پبلیکیشنز، لاہور، ص:170،اگست 2008ء)
[7](الفتوح السلامیہ عبر لعصور،ص: 376)
[8]http://s595909773.online-home.ca/KB/Saltanaty%20Usmania/WQB.pdf
[9](سلاطین آل عثمان ،ص:26)
[10]https://www.bbc.com/urdu/world-44281943
[11](سیرِ ِ ِ نا تمام،ابویحییٰ،انزار پبلشرز ،ص:102،101)