تعارف:
امام ابو جعفر طحاوی تیسری صدی کے عظیم محدث اور بے بدل فقیہہ تھے-محدثین اور فقہاء کے طبقات میں ان کا یکسر شمار کیا جاتا ہے-سلف صالحین میں ایسے جامع حضرات کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں جو عقیدہ، حدیث اور فقہ تینوں شعبوں میں سند کی حیثیت رکھتے ہوں-متکلمین ان کو صاحب منہج کہتے ہیں محدثین ان کو حافظ اور امام کہتے ہیں اور فقہاء ان کو مجتہد قرار دیتے ہیں -آپ کا نام احمد کنیت ابو جعفر اور نسب نامہ یہ ہے: ’’احمد بن محمد بن سلامہ بن سلمہ بن عبد الملک الازدی، الحجری، المصری، الطحاوی‘‘-آپ کی ولادت مشہور روایت کے مطابق 239ھ میں ہوئی؛ 237ھ اور 238ھ کے اقوال بھی بیان کیے جاتے ہیں-[1]
امام طحاوی کا خاندانی تعلق یمن کے مشہور قبیلہ ازد کی شاخ حجر سے تھا-اسلامی فتوحات کے بعد آپ کے خاندان والوں نے مصر میں سکونت اختیار کر لی تھی اور یہیں ایک گاؤں طحا میں امام صاحب کی ولادت ہوئی اسی وجہ سے آپ طحاوی کہلاتے ہیں-اسی طرح آپ ازدی، حجری اور مصری بھی کہلاتے ہیں-
اساتذہ:
امام طحاوی نے ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے ماموں ابو ابراہیم مزنی سے فقہ پڑھنی شروع کی لیکن آپ کی طبیعت سلیمہ میں جو قوت استدلال کی تلاش اور نظر میں باریک بینی تھی اس نے بہت جلد آپ کا رُخ شافعیت سے حنفیت کی طرف موڑ دیا-چنانچہ 268ھ میں آپ نے مصر جا کر اس وقت کے شہرہ آفاق استاد ابو جعفر احمد بن ابی عمران سے فقہ حنفی کی تحصیل شروع کر دی - احمد بن ابی عمران فقہ حنفی میں زبردست دسترس رکھتے تھے اور دو واسطوں سے ان کا سلسلہ حضرت امام اعظم () سے مل جاتا ہے-مصر کے بعد امام طحاوی شام چلے گئے اور وہاں شام کے قاضی القضاۃ ابو حازم سے فقہ کی تحصیل کی ان کے علاوہ مصر کے باقی مشائخ سے علم حدیث میں استفادہ کیا اور جس قدر مشائخ حدیث ان کی زندگی میں مصر آئے ان سب سے امام طحاوی نے علم حدیث میں استفادہ کیا اور ان کے علاوہ جن حضرات سے آپ نے اکتساب علم کیا چند مشہور درج ذیل ہیں:
’’عبد الغنی بن رفاعہ، ہارون بن سعید ایلی، یونس بن عبد الاعلی، بحر بن نصر خولانی، محمد بن عبد اللہ بن عبد الحکم، عیسی بن مثرود، ابراہیم بن منقذ، ربیع بن سلیمان مرادی، بکار بن قتیبہ، مقدام بن داؤد رُعینی، احمد بن عبد اللہ بن برقی، محمد بن عقیل فریابی اور یزید بن سنان بصری‘‘-[2]
تلامذہ:
امام طحاوی کی علمی شہرت دور دراز علاقوں میں پھیل چکی تھی اس لئے آپ سے استفادہ کرنے کیلئے دور دور سے تشنگانِ علم آتے تھے جن میں بے شمار لوگوں نے آپ سے علم حدیث میں سماع کیا-جن حضرات نے آپ سے اکتساب فیض کیا ان میں چند مشہور یہ ہیں:
’’ابو محمد عبد العزیز بن محمد ہیتمی جوہری، حافظ احمد بن قاسم بغدادی، ابو بکر علی بن سعدویہ بروعی، ابو القاسم مسلمہ بن قاسم، عبد اللہ بن علی داؤدی، حسن بن قاسم بن عبد الرحمان مصری، قاضی ابن ابی العوام، محمد بن ابراہیم بن علی مقری، سلیمان بن احمد، عبد الرحمان بن احمد محمد بن جعفر بن حسین بغدادی‘‘-[3]
علمی مقام و مرتبہ اور آئمہ کرام کی آراء:
امام طحاوی کو جملہ اسلامی علوم اور ان کے متعلقات میں مہارت حاصل تھی- مؤرخین اور علمائےسیر نے تفسیر، علم الکلام، ادب، لغت، نحو اور انساب وغیرہ میں ان کی بصیرت کا ذکر کیا ہے- تمام اکابر علماء و محدثین ان کے علمی کمالات کے معترف تھے ابن یونس ، صاحب تاریخ مصر فرماتے ہیں :
’’و کان ثقۃ ثبتا فقیھا عاقلالم یخلف مثلہ‘‘[4]
’’آپ ثقہ ، ثابت اور صاحب فراست فقیہہ تھے اور اس کا جانشین ان کی مثل کوئی نہ ہوسکا‘‘-
مسلمہ بن قاسم اندلسی فرماتے ہیں :
’’کان ثقۃ جلیل القدر‘‘[5]
’’وہ ثقہ اور جلیل القدر عالم تھے‘‘-
امام ابن عبد البر فرماتے ہیں:
’’کان الطحاوی من اعلم الناس‘‘[6]
’’امام طحاوی لوگوں میں سے زیادہ عالم تھے‘‘-
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ:
’’ثقہ و ثابت اور ماہر حفاظ حدیث میں ایک امام طحاوی بھی ہیں‘‘-
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی ثقاہت و دیانت اور فضیلت پر سب کا اتفاق ہے‘‘-
ابن ندیم فرماتے ہیں کہ:
’’وہ علم و فضل میں بے مثال اور یکتائے روزگار تھے‘‘-
الغرض! کوئی واقف کار اور منصف مزاج شخص ان کے علم و فضل اور اوصاف و کمالات کا منکر نہیں ہوسکتا-حضرت شاہ عبد العزیز () فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی تصنیفات ان کی وسعتِ نظر اور علمی تبحر پر شاہد ہیں‘‘[7]
یہی وجہ ہے کہ ابو عمر بن عبد البر کان فرماتے ہیں :
’’و کان عالما بجمیع مذاہب الفقہاء‘‘[8]
’’وہ تمام فقہاء کے مذاہب کے عالم تھے‘‘-
حدیث اورفقہ میں مہارت:
270ھ کے بعد امام طحاوی نے مصر کے قاضی ابو عبد اللہ محمد بن عبد کی نیابت کا عہدہ قبول کر لیا-امام طحاوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب میں قاضی کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور کہنے لگا:
’’ابو عبیدہ بن عبد اللہ نے اپنی والدہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے کون سی حدیث روایت کی ہے-جب شرکاء مجلس میں سے کسی شخص کو جواب نہ آیا تو میں نے اپنی سند کےساتھ حدیث بیان کی جب آپ اس کی مطلوب حدیث کو دو سندوں کے ساتھ مرفوعاً اور موقوفاً بیان کر چکے تو وہ شخص بے ساختہ کہنے لگا شام کو میں نے آپ کو فقہاء کے میدان میں دیکھا تھا اور اب آپ حدیث کے میدان میں ہیں -بہت کم لوگ ہوں گے جو ان دونوں فنون میں آپ کی طرح جامعیت رکھتے ہوں آپ نے یہ سن کر فرمایاکہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا الہام ہے‘‘- [9]
تبدیلیٔ مسلک:
امام ابو جعفر ابتداء میں شافعی المذہب تھے بعد میں شافعیت کو چھوڑ کر حنفی مسلک اختیار کیا- شافعی مسلک کو چھوڑنے کے سبب کے بارے میں مختلف مؤقف ہیں-بعض نے یہ سبب بیان کیا ہے جس کو امام ذہبی نے ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں ذکر کیا ہے:
’’و کان اولا شافعیا یقرء علی المزنی فقال لہ یوم واللہ ماجاء منک شیٔ فغضب من ذالک و انتقل من ابی عمران‘‘[10]
’’امام طحاوی پہلے شافعی المذہب تھے اور امام مزنی کے پاس پڑھتے تھے ایک دن دورانِ تعلیم امام مزنی ناراض ہوئے اور کہا کہ تم سے کچھ نہ ہوسکے گا-امام طحاوی اس بات پر ناراض ہوگئے اور جاکر ابو عمران حنفی سے پڑھنا شروع کردیا‘‘-
لیکن اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو استاد کا شاگرد پر ناراض ہونا کوئی اتنی اہم اور شدید بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے مسلک بدلنا پڑے-اصل بات کیا تھی؟ علامہ عبد العزیز برہاروی اس کا ذکر یوں فرماتے ہیں کہ:
’’ان الطحاوی کان شافعی المذہب فقرء فی کتابہ ان الحاملۃ اذا ماتت و فی بطنھا ولدحی لم یشق فی بطنھا خلا فالابی حنیفۃ کان الطحاوی ولد مشقو قا فقال لا ارضی بمذ ھب رجل یرضی بھلا کی فترک مذہب الشافعی و صار من عظماء المجتہدین علی مذہب ابی حنیفۃ‘‘[11]
’’امام طحاوی ابتداء شافعی المذہب تھے ایک دن انہوں نے شافعیہ کی کتاب میں پڑھا کہ جب حاملہ عورت مر جائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہوتو بچہ نکالنے کے لئے اس کے پیٹ کو چیرا نہیں جائے گا-برخلاف مسلک ابو حنیفہ کے امام طحاوی کو پیٹ چیر کر نکالا گیا تھا کیونکہ آپ کی والدہ فوت ہوگئیں تھیں اور آپ اس وقت اپنی والدہ کے بطن میں تھے-آپ نے اس کو پڑھ کر کہا کہ میں اس شخص کے مذہب سے راضی نہیں جو میری ہلاکت پر راضی ہو پھر انہوں نے شافعیت کو چھوڑ دیا اور حنفی مسلک کو اختیار کیا اور اس مسلک کے عظیم مجتہدین میں سے بن گئے‘‘-
امام برہاروی کی یہ بات قرینِ انصاف لگتی ہے-تبدیلیٔ مسلک کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ محمد بن احمد شروطی فرماتے ہیں:
’’قلت للطحاوی لم خالفت خالک و اخترت مذہب ابی حنیفۃ فقال لانی اری خالی یدیم النظر فی کتب ابی حنیفۃ فلذالک انتقلھت الیہ‘‘[12]
’’میں نے امام طحاوی سے پوچھا کہ آپ نے اپنے ماموں یعنی امام مزنی کا مسلک کیوں ترک کیا تو فرمایا میں نے خود ان کو دیکھا کہ وہ اکثر امام ابو حنیفہ کی کتب کا مطالعہ اور ان کی جانب مراجعت کرتے ہیں اس لئے میں نےامام ابو حنیفہ کا مسلک اختیار کرلیا‘‘-
اعزاز و اکرام:
امام طحاوی کے علم و فضل اور زہد و تقویٰ کے سبب تمام لوگ ان کا احترام کیا کرتے تھے-اکابر سلطنت وغیرہ سب کے دلوں میں ان کی عظمت و عقیدت جاگزین تھی اور عوام و خواص سب ان کا اعزاز واکرام ملحوظ خاطر رکھتے تھے-ابن زولاق بیان کرتے ہیں کہ:
’’جب عبد الرحمان بن اسحاق مصر کے عہدہ قضاء پر متمکن ہوئے تو وہ امام طحاوی کے آداب و احترام کا پورا پورا خیال رکھتے تھے اور سواری پر ہمیشہ ان کے بعد سوار ہوتے تھے اور ان کے بعد اترتے تھے جب ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو کہنے لگے امام طحاوی عمر میں مجھ سے 11 سال بڑے ہیں اور اگر وہ 11 گھنٹے بھی بڑے ہوتے تو مجھ پہ پھر بھی ان کا احترام لازم تھا کیونکہ عہدہ قضا کوئی ایسی بڑی چیز نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے امام طحاوی جیسی شخصیت پر فخر کر سکوں‘‘- [13]
اسی طرح جب ابو عبد اللہ محمد بن زبر نے عہدہ قضا سنبھالا اور امام طحاوی ان سے ملنے آئے تو انہوں نے آپ کا بہت اعزاز و اکرام کیا اور ان سے ایک حدیث املاء کرائی جس کو انہوں نے تیس سال پہلے ایک شخص کے واسطہ سے امام طحاوی سے روایت کیا تھا-[14]
تصنیفات:
امام طحاوی جلیل القدر عالم اور بلند پایہ مصنف تھے ان کو تصنیفات اور اہم علمی خدمات کی بنا پر بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی-علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ وہ نہایت مفید اور بیش بہا تصنیفات کے مالک تھے جن کتابوں کے نام معلوم ہو سکے وہ درج ذیل ہیں:
- کتاب الاشربہ
- کتاب التاریخ الکبیر
- کتاب التسویۃ بین حدثنا واخبرنا
- حکم ارض مکہ
- الرزیہ
- کتاب الشروط الاوسط
- حکم الفی و الغنائم
- کتاب المحاضرہ و السجلات
- کتاب الوصا یا والفرائض
10. اخبار ابی حنیفہ
11. اختلاف الروایات علی مذہب الکوفیین
12. الرد علی عیسی بن ابان
13. النوا در الفقھیہ
14. کتاب النوا در والحکایات
15. کتاب الرد علی ابی عبید: ایک جز پر مشتمل ہے اس میں ابو عبید کی ان غلطیوں کی تردید کی گئی ہے جو انساب کے متعلق نے کی ہیں-
16. سنن شافعی
17. شرح الجامع الصغیر: یہ امام محمد بن حسن الشیبانی کی مشہور و معرکۃ الآراء کتاب الجامع الصغیر کی شرح ہے-
18. شرح جامع الکبیر : یہ بھی امام محمد کی مشہور کتاب الجامع الکبیر کی شرح ہے-
19. کتاب الشروط الصغیر
20. کتاب الشروط الکبیر
21. احکام القرآن
22. اختلاف العلماء
23. کتاب المختصر فی الفقہ یا مختصر الطحاوی: یہ کتاب فقہ حنفی کی فروع و جزئیات پر ایک مختصر اور جامع متن ہے اور اس میں اس مذہب کے اکابر یعنی امام ابو حنیفہ، امام یوسف، امام محمد، امام زفر اور حسن بن زیاد کے اقوال اور آراء نقل کیے گئے ہیں-
24. عقیدۃ الطحاویہ:امام طحاوی کی یہ مختصر کتاب عقائد کے باب میں اُمت کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے –
یہ رسالہ ایک اہم اور جامع متن کی حیثیت رکھتا ہے کہ جس میں اہل سنت و الجماعت کے عقائد کو نہایت مختصر اور جامع انداز کے ساتھ بیان کیا گیا ہے-یہ وہی عقائد ہیں جس پر آقا کریم (ﷺ)، صحابہ کرام ()، تابعین اور سلف صالحین تھے بظاہر یہ ایک چھوٹا سا رسالہ ہے لیکن فائدے کے اعتبار سے عظیم تر ہے کیونکہ اس میں ہر وہ چیز جمع کردی گئی ہے جس کی ہر مسلمان کو ضرورت تھی-رسالہ مذکور کی خوبی یہ ہے کہ تمام اسلامی عقائد کوبیان کرکے باطل فرقوں مرجیہ، جھمیہ، قدریہ، جبریہ، مجسمہ، مشبھہ، معطلہ، رافضہ، خوارج و معتزلہ کے بالمقابل اہل سنت کے افکار و نظریات کی نمائندگی کی گئی ہے-امام طحاوی کیونکہ آئمہ احناف سے بہت گہرا تعلق رکھتے تھے- اس لئے جب آپ نے اس رسالہ کا آغاز کیا؛ تو فرماتے ہیں:
ھذا ذکر بیان عقیدۃ اہل السنۃ و الجماعۃ علی مذہب فقہاء الملۃ ابی حنیفۃ النعمان بن ثابت الکوفی و ابی یوسف یعقوب بن ابراہیم والی عبد اللہ محمد بن الحسن شیبانی و ما یعتقدون من اصول الدین ویدینوں اللہ بہ لرب العالمین
’’یہ اہل سنت و الجماعت کے اس عقیدے کا بیان ہے جو فقہاء ملت آئمہ احناف حضرت امام ابو حنیفہ، امام یوسف اور امام محمد کے مذہب کے مطابق ہے نیز اس میں وہ اصولِ دین بھی ذکر کیے گئے ہیں جن پر آئمہ اعتقاد رکھتے ہیں اور ان کے مطابق اللہ رب العالمین کی اطاعت کرتے ہیں‘‘-
عقائد کے بارے میں جتنی بھی کتب اس رسالہ کے بعد لکھی گئی ہیں یہ رسالہ ان کے لئے ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے-اس کی اہمیت کے پیش نظر کی آئمہ کرام نے اس کی شروحات لکھیں جن میں:
v شرح نجم الدین ابی شجاع بکبرس الناصر البغدادی
v شرح السراج عمر بن اسحاق الغزنوی
v شرح محمد بن احمد بن مسعود القونوی
v شرح الصدر علی بن محمد اذرعی قابل ذکر ہیں-
v اس کے علاوہ اس کے انگلش تراجم بھی میسر ہیں -
25. مشکل الآثار: یہ امام طحاوی کی بڑی مشہور اور اہم کتاب ہے اس کا مقصد تصنیف بیان کرتے ہوئے وہ خود لکھتے ہیں کہ ثقہ و ثابت رواۃ سے مروی مسند و مقبول حدیثوں کی معرفت وغیرہ کے متعلق لوگوں کی ناواقفیت دیکھ کر میں نے ان پر غور کیا اس کے نتیجہ میں جو مشکلات اور حدیثوں سے جو مسائل و احکام اور اہم نکات و حقائق مستنبط ہوئے ان کو بیان کر کے ان پر عائد ہونے والے اعتراضات و اشکالات کو اس میں دفع کرنے کی کوشش کی ہے-
26. شرح معانی الآثار:یہ امام صاحب کی سب سے اہم اور بلند پایہ کتاب سمجھی جاتی ہے اس میں فقہ و حدیث دونوں قسم کی مباحث ہیں-اس کا مقصد تالیف خود امام طحاوی نے یہ بیان کیا ہے کہ :
’’مجھ سے میرے بعض احباب نے رسول اکرم (ﷺ) کی احکامی روایات و آثار کا ایک مجموعہ مرتب کرنے کی فرمائش کی تاکہ ناسخ و منسوخ اور واجب العمل روایات سے قلت واقفیت کی بناء پر ملحدین اور ضعیف الاسلام لوگوں کا یہ وہم دور ہوجائے کہ ان میں تضاد اور اختلاف ہے اس لئے اس کتاب میں ناسخ و منسوخ، مطلق و مقید اور واجب العمل روایات نیز علماء کی تاویل و توجیہ ان کے دلائل و شواہد اور مرجح و مختار مسلک کی تفصیل بیان کی گئی ہے ترجیح کے دلائل و و جوہ بھی نقل کیے گئے ہیں اور ثبوت و تائید میں کتاب و سنت، صحابہ، تابعین کے آثار اور اجماع وغیرہ کو پیش کیا گیا ہے‘‘-
امام طحاوی نے اس کتاب میں مختلف حیثیتوں سے احادیث کا تضاد و اختلاف دور کیا ہے اور ان کے محمل کی ایسی تعین کی ہے جو روایات و قیاس کے عین مطابق معلوم ہوتی ہے- اس کتاب کی اہمیت کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو اس کی تحقیق و استدلالی شان اور فقیہانہ و مجتہدانہ رنگ ہے- امام صاحب حنفی ہونے کے باوجود خود بھی مجتہد اور صاحب فقہ تھے اس لئے انہوں نے مختلف فیہ امور و مسائل میں محاکمہ کر کے مرجوع و مختار مسلک کی نشاندہی کی ہے اور عموماً نہایت تنقیح اور پوری تحقیق کے بعد ہی کسی مسلک کو راجح یا مرجوع قرار دیا ہے‘‘-
وفات:
آپ کا وصال 321ھ کو مصر میں ہوا-[15]
٭٭٭
[1](سیر اعلام النبلاء، جز:11، ص:361)
[2](ایضاً)
[3](ایضاً)
[4](تاریخ ابن یونس مصری، جز:)
[5](لسان المیزان، جز:1، ص:276)
[6](ایضاً)
[7](بستان المحدثین، ص:145)
[8](جواھر المضیہ فی طبقات الحنفیہی، جز:1، ص:102)
[9](لسان المیزان، جز:1، ص:276)
[10](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:211)
[11](تبراس، ص:110)
[12](مرأۃ الجنان و عبرۃ الیقظان، جز:2، ص:211)
[13](لسان المیزان، جز:1، ص:281)
[14](ایضاً)
[15](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:22)