امام ابوبکرخطیب بغدادیؒ

امام ابوبکرخطیب بغدادیؒ

آپ کا نام احمد کنیت ابوبکر اور لقب  خطیب تھا اور سلسلہ نسب یوں  ہے احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت-[1]امام ابو بکر خطیبؒ کی ولادت 24 جمادی الاخریٰ  392ھ کو عراق کے قریہ درزیجان میں ہوئی یہ بغداد کے قریب اس کے مغرب جانب دریائے دجلہ کے کنارے ایک بڑا گاؤں تھا-[2] لیکن امام صاحب کی اصل نشوونما دنیائے اسلام کے مشہور شہر دارالسلام بغداد میں ہوئی اس لئے وہ بغدادی کہلاتے ہیں ان کے والد بزرگوار کو علم و فن خصوصاً حدیث سے اشتغال و مناسبت تھی اور وه  د رزیجان میں خطیب تھے اس لئے لقب خطیب ان کے اور ان کے فرزند کے نام کا جز ہو گیا تھا- امام سمعانی فرماتے ہیں کہ خطیب کی نسبت منبر پر خطبہ دینے کی طرف ہے اس نسبت سے جو علماء و محدثین منسوب ہیں ان میں امام ابو بکر احمد بن علی زیادہ مشہور ہیں-

تحصیلِ علم:

امام صاحب علم و فن کے دلدادہ اپنے والد ماجد کی ترغیب و تشویق سے بچپن ہی میں تحصیل علم میں مشغول ہو گئے-403ھ میں 11سال کے ہوئے تو ان کے والد نے باقاعدہ حدیث کا سماع شروع کرایا اس کے بعد 20 سال کی عمر تک وہ اپنے ہی وطن  کے علماء و آئمہ فن سے کسبِ فیض کرتے رہے اس کے  بعد بصرہ، کوفہ، نیشاپور اصفہان دینور، ہمدان مکہ و مدینہ اور دمشق تشریف لے گئے-خطیبِ بغدادی کو علم و فن سے اشتغال اور مطالعہ حدیث کا شوق اتنا زیادہ تھا کہ راستہ پر چلتے تھے تو ان کے ہاتھ میں کسی نہ کسی کتاب کا جز ضرور ہوتا تھا وہ اس کو پڑھتے رہتے تھے-[3]

اساتذہ:

آپ نے جن آئمہ فن سے اکتسابِ علم کیا ان میں سے چند مشہور یہ ہیں :

’’ابو الحسن بن صلت، ابو عمر بن مہدی، ابو الحسین بن متیم، حسین بن حسن جوالیقی، ابراہیم بن مخلد، ابو عمر قاسم بن جعفر ہاشمی ، حسن بن علی نیشاپوری، ابو القاسم عبد الرحمٰن بن محمد سراج، قاضی ابو بکر الحیری، ابو الحسن بن عبد کویہ،محمد بن عبد اللہ بن  شہریار ، ابو نصر کسار، محمد بن عیسیٰ ابو نعیم احمد بن عبد اللہ اصفہانی-[4]

علومِ فقہ کی تحصیل ابو الحسن محاملی اور قاضی ابو اللطیب طاہر بن عبدا للہ طبری سے کی-

تلامذہ:

جن علماء نے آپ  سے اکتسابِ فیض کیا ان کی تعداد تو بہت زیادہ ہے  ان میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ جن سے خطیب بغدادی کو شرفِ تلمذ حاصل ہوا ہے-آپ کے چند مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں:

’’ابو بکر احمد بن محمد برقانی، ابو الفضل بن خیرون، ابو عبد اللہ حمیدی، عبد العزیز کتانی، ابو نصر بن ماکولا، عبد اللہ بن احمد سمر قندی، محمد بن مرذوق زعفرانی، ابو بکر بن خاضیہ، مبارک بن طیوری، عبد الکریم بن حمزہ، علی بن احمد غسانی، ابو الفتح نصر اللہ بن  محمد مصیصی، طاہر بن سہل اسفرائی، محمد بن علی مصیصی، ھبۃ اللہ بن عبد اللہ شروطی، ابو السعادات احمد بن احمد متوکلی، عبد الرحمٰن بن محمد شیبانی، یوسف بن ایوب ہمدانی-[5]

حفظ و ثقاہت و آئمہ کرام کی آراء:

خطیب بغدادی علمی میدان میں ایک باکمال شخصیت کے نام سےپہچانے جاتے ہیں آپ حفظ و ثقاہت میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آئمہ کرام نے آپؒ کے  علمی کمال اور ثقاہت کو مختلف انداز میں بیان کیا، امام ابو سعد سمعانی فرماتے ہیں:

’’کان الخطیب ثقۃ حجۃ حسن الحفظ کثیر الضبط فصیحا ختم بہ الحفاظ‘‘[6]

’’خطیب بغدای ثقہ، حجت ، اچھے خط والے، کثیر ضبط والے، فصیح ہیں اور ان پر حفاظ کا اختتام ہوگیاہے‘‘-

آپ کے نامور شاگرد ابن ماکولا جو علم حدیث و رجال میں بہت ممتاز تھے آپ کے علمی مقام و مرتبہ کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:

’’کان ابو بکر آخر الاعیان ممن شاہد ناہ معرفۃ و حفظا واتقانا و ضبطا لحدیث رسول (ﷺ) و تفننا فی عللہ و اسانیدہ و علما بصحیحہ  و غریبہ و فردہ، منکرہ مطروحہ، و لم یکن للبغداد بن بعد ابی الحسن الدار قطنی مثلہ‘‘[7]

’’حدیثِ رسول کی معرفت حفظ و ضبط، اتقان اور فنون علل و اسناد، صحیح غریب، فرد و منکر اور سقیم وغیرہ نیز روایتوں کی شناخت اور تمیز میں وہ آخری اور نامور محدث تھے جن کو ہم نے دیکھا درحقیقت اہل بغداد میں امام دار قطنی کے بعد ان جیسا صاحبِ کمال محدث پیدا ہوا ہی نہیں‘‘-

یہی ابن ماکولا ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

’’سالت ابا عبد اللہ الصوری عن الخظیب و ابی نصری السجزی ایھما، احفظ فضل الخطیب تفضیلا بینا‘‘[8]

’’میں  نے عبد اللہ صوری سے خطیب بغدادی اور ابو نصر سجزی کے متعلق دریافت کیا کہ ان میں سے کون احفظ ہے تو انہوں نے واضح طور پر خطیب کو افضل و برتر قرار دیا‘‘-

موتمن ساجی فرماتے ہیں:

’’ما اخرجت بغداد بعد الدار قطنی مثل الخطیب‘‘[9]

’’امام دار قطنی کے بعد بغداد میں خطیب بغدادی کی مثل کوئی نہیں آیا‘‘-

ابو علی بردانی آپ کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:

’’لعل الخظیب لم یر مثل نفسہ‘‘[10]

’’شاید خطیب نے بھی اپنے جیسا صاحبِ فن نہ دیکھا ہو‘‘-

ابو اسحاق شیرازی جو مشہور فقہ تھے آپ کی علمی  وجاہت کو اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:

’’’ابو بکر الخطیب یشبہ، بالدار قطنی و نظرائہ فی معرفۃ الحدیث و حفظہ‘‘[11]

ابو بکر خطیب معرفتِ حدیث اور حفظ حدیث میں امام دار قطنی اور ان کے ہم پایہ لوگوں کے برابر تھے-

امام صاحب کو اللہ پاک نے ایسا تبحر علمی عطا کیا ہوا تھا ان کے اساتذہ  بھی ان کی تعریف کرتے تھے-ابو اسحاق شیرازی خطیب کے اساتذہ میں سے تھے لیکن وہ ان کی مہارتِ فن اور مہارتِ حدیث میں بلند پائیگی کی وجہ سےان کے نہایت مداح و معترف تھے-

’’ ایک دفعہ امام صاحب ان کے درس میں حاضر ہوئے تو شیخ نے ایک حدیث  بحر بن کثیر سقاء کے واسطے سے بیان کر کے کہا کہ ان کے بارے میں کیا کہتے ہو خطیب نے ادب سے ان کا حال بیان کرنے کی استاد سے اجازت لی اور شیخ کے سامنے سنبھل کر نہایت ادب سے شاگرد کی طرح بیٹھ گئے جب خطیب نے شرح و بسط سے ان کا حال بیان کیا اور شیخ ابو اسحاق نے بے اختیار آفرین کہا اور فرمایا کہ خطیب اپنے وقت کے دارِ قطنی ہیں‘‘-[12]

حافظ ابو الفتیان فرماتے ہیں کہ:

’’کان الخطیب امام ھذا الصنعۃ ما رایت مثلہ‘‘[13]

’’خطیب اس فن کے امام تھے میں نے ان کی مثل نہیں دیکھا‘‘-

شجاع ذہلی آپ کی علمی شان کو یوں بیان کرتے ہیں:

’’امام مصنف حافظ  لم ندرک مثلہ‘‘[14]

وہ ایک جلیل القدر امام ومصنف اور حافظ تھے اور ہم ان کی مثل نہیں پاتے-

حدیث میں مقام و مرتبہ:

 خطیب بغدادی  حدیث میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے تھے جس کی وجہ سے آئمہ فن نے آ پ کو مختلف القابات سے نوازا ہے-امام  ذہبی آپ کو الحافظ الکبیر، الامام، محدث الشام و العراق کے القابات سے ذکر کرتے ہیں- علامہ ابن خلکان آپ کا ذکر ان الفاظ سے کرتے ہیں:

’’کان من الحفاظ المتقنین، العلماء المتبحرین‘‘

’’یعنی آپ متقنین حفاظ اور متبحر علماء میں سے تھے‘‘-

علامہ ابن کثیر آ پ کو مشاہیر محدثین میں شمار کرتے ہیں علامہ ابن صلاح اور امام نووی نے آئمہ صحاح کے بعد جن سات اکابر محدثین کا ذکر کر کے ان کی تصنیفات کو بیش قیمت اور پُر منفعت قرار دیا ہے ان میں طبقہ ثانیہ کے لوگوں میں خطیب کا بھی نام لیا ہے- علامہ ابن سبکی اور ابو بکر بن ہیبۃ اللہ نے بھی ان کی مہارت فن و عظمت  شان اور حدیث میں امامت و جلالت کا ذکر کیا ہے-خطیب کی حدیث میں عظمت و بلند پائیگی کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے فن میں یکتا اور روایت و احادیث کی شناخت و  تمیز میں ماہر تھے-حدیثِ رجال ، جرح و تعدیل اور اصول اسناد و روایات میں ان کی کئی کتابیں  ہیں- حدیث کے متعلقہ علوم میں شاید ہی کوئی ایسا  فن ہو جس میں انہوں نے کتابیں نہ لکھی ہوں حدیث  میں ان کے ذوق و اعتبار کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ بادشاہ وقت نے یہ فرمان جاری کردیا تھا کہ واعظین اور علماء کوئی حدیث ان کےسامنے پیش کیے بغیر بیان نہ کریں جس  حدیث کی روایت کی خطیب اجازت دیں  وہ بیان کی جائے اور جس کی ممانعت کریں لوگ اس کو بیان کرنے سے باز رہیں- حدیث میں ان کی غیر معمولی بصیرت، گہری تحقیق اور وسیع نقطۂ نظر کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ کچھ یہودیوں نے جو خیبر میں رہتے تھے اور حضرت عمر فاروق کے زمانے میں شام کے اطراف، جوانب  میں آباد ہو گئے تھے، خلیفہ کے سامنے ایک خط پیش کیا اور اس  کے متعلق یہ دعوی کیا کہ وہ رسول اللہ (ﷺ) کا ہے جس کو  حضرت علی (رضی اللہ عنہ)نے لکھا ہے جس پر آپ (ﷺ) کی مہر اور بعض صحابہ کرام کی شہادتیں بھی ثبت تھیں- اس خط کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے یہود کے فلاں فلاں قبیلے سے جزیہ معاف کردیا خلیفہ نے خط کی اصلیت پتا لگانے کے لئے اس کو خطیب کے پاس بھیجا انہوں نے اس کو بالکل جعلی اور من گھڑت قرار دیا-وجہ دریافت کرنے پر بتا یا کہ اس میں حضرت امیر معاویہ اور حضرت سعد بن معاذ کی گواہیاں بھی درج ہیں- حالانکہ فتح خیبر کے وقت حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) مسلمان نہیں ہوئے تھے اور حضرت سعد کو غزوہ خندق میں ایسا کاری زخم لگا کہ وہ جانبرد نہ ہوسکے اور ان کی وفات  غزوہ بنو قریظہ کے قریبی زمانہ میں ہو گئی تھی اس لئے وہ فتح خیبر کے وقت زندہ ہی نہ تھے-[15]

تاریخ اور دیگر علوم میں کمال:

حدیث کی طرح تذکرہ و تراجم اور تاریخ بهی ان کا خاص موضوع تھا ان پر ان کی تصنیفات شاہد ہیں ان کے سوانح نگاروں نے ان کو بلند پایا-مؤرخ بتاتا ہے اس طرح امام صاحب نامور فقیہ بھی تھے-علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں:

’’و کان فقیھا فغلب علیہ الحدیث و التاریخ‘‘[16]

’’وہ اصلا فقیہ تھے لیکن فنِ حدیث اور تاریخ ان پرغالب آگئی‘‘-

علامہ ابن سبکی فرماتے ہیں:

’’وکان من کبار الفقہاء تفقہ علی ابی الحسن بن محاملی و القاضی ابی الطیب الطبری‘‘[17]

’’وہ اکابر فقہاء میں سے تھے انہوں نے  ابی الحسن محاملی اور قاضی ابو طیب طبری سے تفقہ کیا‘‘-

خطیب بغدادی حدیث و تاریخ  ا ور فقہ میں ماہرہونے کے ساتھ ساتھ  دیگر علوم یعنی فنِ قرأت و تجوید علوم قرآنی اور  شعر و ادب میں بھی کمال رکھتے تھے-بڑے خوش الحان تھے اور قرآن مجید نہایت ترتیل  کے ساتھ پڑھتے تھے مؤرخین نے ان کے حسن ِ قرأت اور فصیح اللہجہ ہونے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے-حافظ ابن کثیر ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ:

’’و قد  کان الخطیب حسن القرأت فصیح اللفظ  عارفا بالادب یقول الشعر‘‘[18]

’’خطیب اچھی قرأت والے، فصیح لفظ والے، ادب کو جاننے والے اور شعر  بھی کہتے تھے‘‘-

ان کی  تصنیفات ادبی  شکوہ، حسنِ تحریر، لطافت بیان سے معمور ہیں- تذکرہ اور تراجم کی کتابوں  میں ان کے متعدد اشعار درج ہیں- ان مذکورہ کمالات کے ساتھ ساتھ وہ خطاطی اور خوش نویسی میں بڑے مشہور تھے-ان کا خط نہایت عمدہ و پاکیزہ تھا، بڑے فصیح البیان تھے آواز اتنی بلند تھی کہ جامع منصور میں حدیث پاک بیان کرتے تو آخری کونے تک سنائی دیتی تھی-

زہد و تقویٰ:

آپ  میں زہد و تقویٰ جیسا وصف بھی کامل طور پایا جاتا تھا عبادات و تلاوت قرآن مجید کا  بڑا شغف تھا-تصنیف و تالیف درس و تدریس اور مطالعہ حدیث سے  جو وقت بچتا عبادات اور تلا وتِ قرآن میں بسر ہوتا  حتی کہ عبادات کے ان معمولات کو سفر وغیرہ میں بھی جاری رکھتے-ابو الفرج اسفرانی فرماتے ہیں کہ:

’’کان الخطیب معنافی الحج فکان یختم کل یوم ختمہ قرأۃ ترتیل‘‘[19]

’’خطیب حج میں ہمارے ساتھ تھے تو وہ ہرروز قرأت ترتیل کے ساتھ قرآن مجید کا ختم کرتے تھے‘‘-

زہد و تقویٰ کے اس مرتبہ پر فائز تھے کہ وہ مستجاب الدعوات تھے-ایک دفعہ حج کے موقع پر زم زم کا پانی پی کر اللہ تعالیٰ سے تین باتوں کی دعا مانگی اول یہ کہ میری کتاب تاریخ بغداد کو شرفِ قبول اور حسن اعتبار حاصل ہو دوسری کہ بغداد کی جامع منصور میں حدیث کی تعلیم  و املاء میں  مشغول رہنے کی مجھ کو توفیق و سعادت میسر آئے اور تیسری کہ بشر حافی کی قبر کے متصل ان کے پہلو میں دفن کیا جاؤں تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تینوں دعاؤں کو شرفِ قبولیت بخشا-[20]

اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ قلبی تعلق کا یہ عالم تھا کہ آپ ہمیشہ جاہ و مرتبہ کی طلب  اور مال و دولت کی حرص سے بے نیاز تھے- فضل بن عمر نسوی فرماتے ہیں کہ ایک روز میری موجودگی میں جامع منصور کےاندر ایک علوی شخص ان کے  پاس کچھ دینار لے آیا اور کہا کہ فلاں شخص نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ ہدیہ دیا ہے تا کہ آپ اس کو اپنی ضرورت میں صرف کریں خطیب نے کہا مجھے اس کی ضرورت نہیں اس  نے کہا کہ غالباً آپ اس کو کم سمجھ رہے  ہیں اس لئے اس نے تھیلی کھول کر مصلیٰ پر بکھیر دی اس میں تین سو دنیار تھے خطیب بغدادی غصہ میں آگئے اور مصلیٰ اٹھا کر نہایت بے نیازی میں دیناروں کو زمین پر جھٹک دیا اور خود مسجد سے باہر چلے گئے-[21]

اللہ تعالیٰ نے ان پر مال و دولت کی وسعت کی ہوئی تھی لیکن ان کا مال غریبوں اور ناداروں کیلئے وقف تھا -اصحابِ علم اور محدثین کی خدمت کے لئے کثیر رقم خرچ کرتے تھے-حافظ ابن سبکی فرماتے ہیں کہ وہ حدیث  کے طلباء کو زر و جواہر سے نوازتے تھے –وفات سے پہلے بیماری کے زمانے میں اپنا سارا مال و اثاثہ محدثین، فقہاء اور فقراء میں تقسیم کردیا اور اپنا کتب خانہ مسلمانوں کے لئے وقف  کر گئے اور یہ وصیت بھی کہ میرے  مرنے کے بعد جسم کا کپڑا بھی صدقہ و خیرات کر دیا جائے-

تصنیفات:

خطیب بغدادی ایک نامور اور مشہور مصنف تھے آپ کی تصنیفات کی تعداد 100کے قریب بتائی جاتی ہے ان میں بہت سی معدوم اور نایاب ہیں ان کی اکثر کتابیں فنون  حدیث کے متعلق گونا گوں مسائل و مباحث اور مفید معلومات پر مشتمل ہیں- حافظ ابن جوزی ان کی تصنیفات گنانے کے بعد لکھتے ہیں کہ جو شخص ان کا  بغور مطالعہ کرے گا وہ خطیب کی قدر و عظمت اور عدیم المثال  کارنامے کا اعتراف کرے گا انہوں نے ایسا عظیم الشان علمی ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہے جو ان سے پہلے  کے ان سے  کہیں  فائق محدثین و آئمہ مثلا دار قطنی وغیرہ بھی نہیں انجام دے سکے-

ذیل میں آپ کی چند کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے-

  1. شرف اصحاب الحدیث
  2. السابق و الاحق
  3. المتفق و  المفترق
  4. الفصل و الوصل
  5. کتاب البسملہ
  6. غنیۃ المقتبس فی تمییز الملتبس
  7. تمییز متصل الاسانید
  8. المؤتنف لتکملۃ المؤتلف و المختلف
  9. کتاب الرحلہ

10.  افتضاء العلم

11.  الاحتجاج بالشافی

12.  مبھم المراسیل

13.  مقلوب الاسماء

14.  العمل بشاہد و یمین

15.  اسماء المدلسین

16.  القول فی النجوم

17.  ماروی الصحابۃ عن التابعین

18.  اجازۃ المجھول

19.  کتاب تقید العلم

20.  کتاب الحیل

21.  کتاب الفقیہ و المتفقہ

22.  المکمل فی المھمل

23.  الاسماء المھمہ

24.  کتاب الموضح

25.  کتاب تلخیص المتشابہ

26.  کتاب الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع:

 یہ امام صاحب کی بہت مفید کتاب ہے اس میں اصول  حدیث کی مباحث اور راوی و سامع کے آداب و شرائط کا ذکر ہے-

27. کتاب الکفایہ:

 اصطلاحاتِ حدیث  خطیب بغدادی کی یہ بڑی اہم کتاب ہے اس میں روایات اور حدیث کے  اصول وضوابط کے متعلق اصحاب فن اور محدثین کے اقوال سندا بیان کیےگئے ہیں جن مباحث میں علمائے جرح و تعدیل کے اختلافات منقول ہیں ان کو درج کر کے ان کے  متعلق اپنی ترجیحی رائے تحریر کی  اور بعض مبہم اقوال کا مفہوم اور دقیق استدلال کی  تشریح بھی کردی ہے-

28.  تاریخ  بغداد:

یہ امام صاحب کی سب سے ضخیم، عظیم الشان اورشہر الآفاق کتاب ہے-علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں کہ اگر ان کی اور تصنیفات نہ بھی ہوتیں تو تنہا یہ کتاب ان کے فخرو شرف اور فضل و  کمال  کے لئے کافی تھی  اس کتاب سے ان کے علمی تبحر، وسعت مطالعہ اور دقتِ نظرکا پورا اندازہ ہوجاتا ہے- خطیب کو بھی اس کتاب پر بجاطورپر فخر تھا کیونکہ انہوں نے اس کی مقبولیت  کیلئے دعا مانگی تھی اور وہ قبول ہوئی اور تاریخ بغداد کو بے نظیر اور حیرت انگیز حسنِ قبول حاصل  ہوا-خطیب بغدادی اس کے موضوع اور محتوبات کے بارے خود لکھتے ہیں کہ یہ کتاب مدینۃ السلام یعنی بغداد کی تاریخ ہے اس میں اس  کی آبادی و تعمیر کا اور یہاں کے مشاہر علماء، فقہاء، محدثین، زہاد، صلحاء، قضات، خلفاء، اشراف اور اربابِ شعر و ادب کا ذکر ہے- جو لوگ یہاں پیدا ہوئے   یا پیداتو کسی دوسری جگہ ہوئے لیکن جہاں سکونت اختیار کی یا جو یہاں کی سکونت ترک کرکے دوسری جگہ فوت ہوئے یا دوسرے مقامات کے لوگ یہاں آئے ان سب کا تذکرہ ہے نیز ان کی کنیت، حسب و نسب، ان کے مشہور واقعات،  مناقب و فضائل مدتِ عمر تاریخ وفات وغیرہ کا ذکر ہے-نیز بغداد کے مضافات اور نواح میں رہنے والوں کا  بھی اس میں تذکرہ  موجود ہے- ترتیب حروف معجم کے مطابق ہے لیکن جن لوگوں کا نام محمد ہے ان کا تبرک کے خیال  سے میں نے پہلے ذکر کیا ہے-تاریخ بغداد میں صرف رجال بغداد کا  ترجمہ و تذکرہ ہی نہیں ہے بلکہ رجال کے حالات  کے ضمن میں علمی دقائق اور مجتہدانہ مباحث بھی محدثانہ قوت کے ساتھ حل کیے گئے-

وفات:

آپ کا وصال 7 ذی الحج 463 ھ میں ہوا- ابو الحسین بن مہتدی باللہ نے نمازِ جنارہ پڑھائی اور ان کی آرزو کے مطابق باب حرب میں بشر حافی کے قبر کے پہلو میں دفن کیے گئے-[22]

٭٭٭


[1]( وفیا ت الاعیان، جز:1، ص:92)

[2]( تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:221)

[3](سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:424)

[4](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:221)

[5](ایضاً، ص:22)

[6](ایضاً)

[7]( سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:422)

[8](ایضاً)

[9](طبقات الشافعیہ الکبری للسبکی، جز:4، ص:31)

[10](ایضاً، ص:32)

[11](ایضاً)

[12]( سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:424)

[13]( ایضاً، ص:422)

[14]( ایضاً)

[15]( البدایہ و النہایہ، ج:12، ص:124)

[16](وفیات الاعیان،جز:1، ص:92)

[17]( طبقات الشافعیہ الکبری للسبکی، جز:4، ص:30)

[18](البدایہ و النہایہ، ج:12، ص:126)

[19]( سیر اعلام النبلاء، جز:13، ص:423)

[20]( ایضاً)

[21]( طبقات الشافعیہ الکبری للسبکی، جز:4، ص:34)

[22]( تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:226)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر