تعارف:
آپ کا نام احمد کنیت ابو بکر ہے-نسب نامہ یہ ہے احمد بن حسین بن علی بن عبد اللہ بن موسیٰ-آپ شعبان المعظم 384ھ میں بیہق میں پیدا ہوئے-[1] بیہق نیشاپور کے مضا فات میں 60 میل کے فاصلہ پر واقع ہے-بڑا زرخیز نہایت آباد اور وسیع مقام ہے-شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ بیہق چند گاؤں کا نام ہے جو با ہم متصل اور نیشا پور سے 30 کوس کے فاصلہ پر واقع ہے ان دیہاتوں میں سب سے بڑا گاؤں خسرو جرد ہے-[2] امام ابوبکر ان مقامات کی نسبت سے بیہقی، خسر و جردی اور نیشا پوری کہلاتے ہیں لیکن ان کی مشہور نسبت بیہقی ہے-
تحصیل علم:
امام بیہقی بچپن ہی سے حدیث مبارکہ کے علم کی تحصیل و تکمیل اور اس کی جمع و تحریر میں مشغول ہوگئے تھے آپ نے اکتساب علم کے لئے متعدد و مقامات اور علمی مراکز کا سفر بھی کیا-پہلے بیہق سے نیشا پورتشریف لے گئے پھر خراسان کے اکابر علماء و محدثین سے استفادہ کرنے کے بعد آپ نے عراق، جبال اور حجاز کے مختلف اہم شہروں بغداد، مکہ اور کوفہ وغیرہ کا سفر کیا-
فقہ کی تعلیم و تحصیل مشہور فقیہہ ابو سہل صعلوکی اور ابو الفتح ناصر سے کی تھی-
اساتذہ:
آپ کو اپنے اساتذہ میں ابو الحسن محمد بن حسین علوی اور ابو عبد اللہ حاکم سے زیادہ استفادہ کا موقع ملا خصوصا آپ امام حاکم کے جلیل القدر تلامذہ میں شمار کیے جاتے ہیں آپ نے علم حدیث سب سے زیادہ انہی سے حاصل کیا کیونکہ امام حاکم اپنے وقت کے بہت بڑے محدث تھے اور نیشاپور میں علم حدیث میں ان کا سب سے اونچا مقام تھا اس لئے آپ کو عرصہ دراز تک ان کی صحبت میں رہنے کا اتفاق ہوا-ا ن کے علاوہ جن آئمہ سے آپ نے اکتسابِ علم کیا وہ درج ذیل ہیں:
’’ابو طاہر زیادی، عبد اللہ بن یوسف، یحیٰ بن ابراہیم مزکی، ہلال بن محمد جفار، محمد بن فضل قطان، علی بن محمد، ابو علی بن شاذ ان اور ابو القاسم زید بن ابی ہاشم علوی‘‘-[3]
تلامذہ:
آپ سے بے شمار علماء نے اکتسابِ علم کیا ان میں سے بعض مشہور حضرات یہ ہیں:
’’ابو الحسن عبید اللہ بن محمداور آپ کے بیٹے اسماعیل بن احمد، ابو عبد اللہ فرادی، ابو القاسم شحامی، محمد بن اسماعیل فا رسی، عبد الجبا ر بن عبد الوہاب، عبد الجبار بن محمد خواری‘‘-[4]
حفظ و ثقاہت اور حدیث میں درجہ:
امام بیہقی کے حفظ و ضبط اور ثقاہت و اتقان پر آئمہ فن اور محدثین کا اتفاق ہے-ابو الحسن عبد الغافر فارسی کا بیان ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں حفظ میں یکتا اور اپنے تمام معاصرین میں ضبط و اتقان میں یگانہ تھے حافظ ذہبی نے ان کو حافظہ میں قوی بتایا ہے- ابن ناصر الدین فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ اور قابل اعتماد تھے- اہل سیر اور ارباب تذکرہ نے ان کو ’’الحافظ الکبیر المشہور ‘‘کے لقب سے موسوم کیا ہے-
حفظ و ضبط کی طرح معرفتِ حدیث میں بھی عدیم المثال تھے احادیث کے علل اور اسقام کی تمیز میں غیر معمولی مہارت رکھتے تھے حدیث اور اس کے متعلقات میں اس درجہ عبور ہونے کی بناء پر ان کا شمار نامور محدثین اور اکابرین میں ہوتا ہے علامہ ابن عساکر نے ان کو ’’شیخ السنہ‘‘ اور ابن عمادنے’’شیخِ خراسان‘‘ لکھاہے:
’’ظہیر الدین بیہقی لکھتے ہیں کہ فن حدیث میں ان کا کوئی ہمسر اور ثانی نہ تھا-ان کے زمانہ میں خراسان کے اندر کسی کو ان کی مرضی و سند کے بغیر کوئی حدیث بیان کرنے یا اس میں کسی قسم کا تصرف کرنے کی مجال نہ تھی وہ ایک روز اپنے استاد امام حاکم کی مجلس میں جہاں متعدد علماء و اصحاب فضل و کمال موجود تھے حاضر ہوئے امام حاکم نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے اس کےکسی راوی کا نام ترک کر دیا امام بیہقی نے فوراً اعتراض کیا امام حاکم کو غصہ آگیا لیکن جب اصل سے مقابلہ کیا گیا تو امام بیہقی کی بات درست نکلی‘‘-[5]
گو کہ حدیث کے علاوہ دوسرے فنون میں بھی ان کو دسترس حاصل تھی تاہم فن حدیث میں ان کو زیادہ نمایاں مقام حاصل تھا اسی لیے علامہ ابن خلکان فرماتے ہیں:
’’غلب علیہ علم الحدیث و اشتھریہ‘‘[6]
’’ان پر علم حدیث خاص طور پر غالب تھا اور وہ اسی کے ساتھ مشہور ہوگئے‘‘-
یہ عجیب اتفاق ہے کہ نہ تو امام بیہقی کے شیوخ کی تعداد اور محدثین کے مقابلہ میں زیادہ تھی اور نہ ہی حدیث کی اہم اور بلند پایہ کتب ان کی نظر سے گزری تھیں لیکن اس کے باوجود اس فن میں یکتائے زمانہ تھے اور ان سے بے شمار حدیثیں مروی ہیں نیز اس فن میں ان سے متعدد بے نظیر کتابیں بھی یادگار ہیں-آپ کے شیوخ کی تعداد تقریباً 100ہے اور یہ تعداد در حقیقت بیہقی کے علوم و کمالات کے اعتبار سے زیادہ نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں خاص برکت عطا کی تھی گو کہ آپ کو متعدد کتب حدیث کے سماع کا شرف حاصل تھا تاہم وہ بعض اہم کتب کے استفادہ سے محروم بھی رہ گئے تھے-علامہ ذہبی ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’و لم یکن عندہ سنن النسائی و لا جامع الترمذی و لاسنن ابن ماجہ‘‘[7]
’’ان کے پاس سنن نسائی، جامع الترمذی اور ابن ماجہ جیسی اہم کتب حدیث نہیں تھیں‘‘-
شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی ()فرماتے ہیں باوجود اس تبحر علمی اور علو اسناد کے امام بیہقی کے پاس سنن نسائی جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ نہیں تھیں اس لئے ان تینوں پر جیسی اطلاع ہونی چاہیے تھی ان کو نہیں تھی مگر حق تعالیٰ نے ان کے علم میں غیر معمولی برکت اور فہم میں نہایت بصیرت عطا کی تھی- ان کی یاد گار ایسی عجب تصنیفات ہیں جو ان سے پہلے کے لوگ نہیں لکھ سکے تھے‘‘-[8]
اعترافِ کمالات:
امام بیہقی کے گو ناگوں کمالات نے ان کی ذات کو مسلمانوں کے امام و مقتدیٰ اور اصحابِ علم و فن کا مرجع بنا دیا تھا تمام ارباب سیر و تذکرہ نے ان کی امامت فن کا اعتراف کیا ہے- امام بیہقی کے علم و فضل اور مقبولیت کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جب وہ علوم کی تحصیل سے فارغ ہو کر اپنے وطن بیہق میں درس اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہوئے تو بڑے بڑے آئمہ فن اور نامور اصحاب کمال نے ان سے نیشا پور تشریف لانے کی فرمائش کی تاکہ اس مرکزی مقام میں لوگوں کو ان سے استفادہ میں سہولت اور ان کی کتابوں کے سماع کا زیادہ موقع ملے لوگوں کے اس طلب و خواہش کو دیکھ کر آپ ناحیہ سے 441ھ میں نیشا پور پہنچے وہاں کے شائقین نے امام صاحب کے شایانِ شان استقبال کیا اور جب مجلس درس آراستہ کی گئی تو اس میں نامور اصحابِ کمال شریک ہو کر آپ کی کتابوں کا سماع کرتے اور آپ سے استفادہ کرتے تھے اور آپ کے لئے دعائے خیر و برکت کرتے تھے یہ تمام لوگ آپ کے ذوق علم اور کثرت استحضار کے معترف تھے-[9]
علامہ سبکی فرماتے ہیں:
’’کان الامام البیہقی احد آئمہ المسلمین و ھداۃ المؤمنین والد عاۃ الی حبل اللہ المتین‘‘[10]
’’امام بیہقی مسلمانوں کے آئمہ ھداۃ اور دین متین کے داعیوں میں تھے‘‘-
وہ علم و فضل کا پہاڑ اور اپنے پورے دور میں عدیم المثال یکتائے روزگار، میدان علم کے شہ سوار، حازق الفن محدث تھے-امام حاکم کے اجل تلامذہ میں ہونے کے باوجود بعض حیثیتوں سے ان سے فائق و برتر سمجھے جاتے تھے-امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں فرماتے ہیں:
’’ھو من کبار اصحاب الحاکم و یزید علیہ بانواع من العلوم‘‘[11]
’’وہ امام حاکم کے بڑے اصحاب میں سے تھے تاہم بعض علوم میں ان سے فائق ہوتے گئے‘‘-
فقہ اور فقہی مسلک:
امام بیہقی جس طرح علم حدیث میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اسی طرح فقہ و اصول میں بھی پورا ادراک رکھتے تھے فقیہ جلیل اور اصولی ان کے نام کا جز بن گیا تھا ان کی تصنیفات حدیث میں گوناگوں فقہی معلومات و مسائل موجود ہیں اسی لئے ان کوعلم حدیث و فقہ کا جامع کہا جاتا ہے ابو سعد سمعانی فرماتے ہیں:
’’انہ کان جامعا بین علم الحدیث و الفقہ‘‘[12]
’’آپ علم حدیث اور فقہ کے جامع تھے‘‘-
مسلک کے اعتبار سے آپ شافعی المذہب تھے ان کو اس مسلک سے غیر معمولی شغف تھا اس کی نشر و اشاعت اور تہذیب و تنقیح میں انہوں نے اہم اور نمایاں کارنامے انجام دیے اس مسلک کو ان کی ذات سے بڑا فائدہ پہنچا-یہی وجہ ہے کہ امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں امام الحرمین ابو المعالی کا قول نقل فرماتے ہیں:
’’ما من شافعی الا وللشافعی علیہ منۃ الا با بکر البیہقی فان لہ المنۃ علی الشافعی لتصانیفہ فی نصرۃ مذھبہ‘‘[13]
’’امام بیہقی کے علاوہ کوئی ایسا شافعی المذہب نہیں ہے جس پر امام شافعی کے احسانات نہ ہوں لیکن امام بیہقی کا خود امام شافعی پر احسان ہے کیوں کہ ان کی تصانیف سے ان کے مذہب و مسلک کی بڑی تائید و اشاعت ہوئی ہے وہ تمام شوافع میں اس مذہب کے اصول و فروع کی حمایت میں نہایت پیش پیش رہے‘‘-
زہد و ورع:
امام بیہقی زہد و ورع میں بھی ممتاز تھے- تذکرہ نگاروں نے ان کو دین دار، صاحب ورع، زاہد اور عفیف وغیرہ لکھا ہے حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوئے تھے ان کے متعلق یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وفات سے 30 سال پہلے انہوں نے مسلسل روزے رکھنا شروع کر دیے تھے آپ کے عادات و خصائل نہایت پاکیزہ تھے- عفت و قناعت ان کی سیرت کا اہم جو ہر تھی وہ اوصاف و اخلاق میں سلف صالحین اور علمائے ربانیین کے نقش قدم پر تھے علامہ ابن عبد الغافر فرماتے ہیں :
’’کان البیہقی علی سیرۃ العلماء قانعا من الدنیا باالیسیر متجملا فی زہدہ و ورعہ‘‘[14]
’’امام بیہقی علمائے سلف کی طرح معمولی اور تھوڑی چیز پر قانع اور زہد و ورع میں ممتاز تھے‘‘-
تصنیفات:
امام بیہقی مایہ ناز مصنف تھے ان کے فضل و کمال کا سب سے بڑا ثبوت ان کی تصانیف ہیں جو ایک ہزار جز کے بقدر ہوں گی ان کے علمی کاموں میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت دی تھی اس لئے ان کی تصانیف کی تعداد زیادہ ہے- مؤرخین فرماتے ہیں کہ ان کی تمام تصنیفات نہایت جامع، پر مغز، بے نظیر اور عدیم المثال ہیں- امام بیہقی کا شمار ان علمائے اسلام میں ہوتا ہے جن کی کتابوں سے مسلمانوں کو بہت فائدہ پہنچا ہے کتب صحاح کی شہرت و علو منزلت کے بعد جن محدثین کی تصنیفات کو عالم اسلام میں بقائے دوام حاصل ہوا اور جن کی علمی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ان میں امام الحدیث و شیخ السنہ ابو بکر بیہقی بھی ہیں ان کا شمار ان آئمہ حفاظ میں ہوتا ہے جن کے متعلق حافظ ابن صلاح فرماتے ہیں کہ انہوں نے عمدہ اور مفید کتابیں لکھی ہیں-
آپ نے جو شہرہ آفاق کتابیں تصنیف فرمائیں وہ درج ذیل ہیں :
- کتاب الاسماء و الصفات
- کتاب المعتقد
- کتاب البعث
- کتاب الترغیب و الترہیب
- کتاب الدعوات
- کتاب الزہد
- کتاب الخلافیات
- کتاب نصوص الشافعی
- دلائل النبوۃ:اس کتاب مستطاب میں امام بیہقیؒ نے رسولِ پاک (ﷺ) کے معجزات ، فضائل اور دلائل نبوت کو نہایت عمدگی سے جمع کیا ہے ، میلاد ، اسما و صفات اور حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلوں کا احاطہ کیا ہے- امام تاج الدین سبکی اور حافظ ابن کثیر سمیت کثیر آئمہ و علماء نے اس کتاب کو سیرت پاک میں سر چشمۂ کتب کا درجہ دیا ہے-
- کتاب الآداب
- کتاب فضائل الاوقات
- کتاب الرؤیہ
- کتاب مناقب الشافعی
- کتاب فضائل الصحابہ
- کتاب المدخل:یہ دراصل کتاب السنن الکبیر کا مقدمہ ہے-
(اسی لئے اس کا پورا نام المدخل الی السنن ہے اس میں امام بیہقی نے فن حدیث کے نکات اور ضروری اصولی مباحث کی تشریح کی ہے تاکہ سنن سے استفادہ کرنے والوں کو سہولت ہو- یہ مقدمہ بعض حیثیتوں سے خود ایک مستقل کتا ب ہے جو کئی ابواب پر مشتمل ہے)-
- کتاب الاربعین: یہ اخلاق سے متعلق سو حدیثوں کا مجموعہ اور چالیس ابواب پر مرتب کی گئی ہے-
- شعب الایمان: اس کتاب کا پورا نام الجامع المصنف فی شعب الایمان ہے یہ امام بیہقی کی مفید اور مشہور کتاب ہے جو2 جلدوں اور 170 ابواب پر مشتمل ہے- اس میں امام صاحب نے صحیحین وغیرہ کی مشہور حدیث الایمان بضغ و سبعون شعبہ کے مطابق ایمان کے 70 شعبوں کی تفصیل تحریر کی ہے نیز ہر شعبہ کے متعلق دوسری روایتیں اور قرآنی آیتیں بھی اشتہاد میں پیش کر کے ان کی شرح و توضیح کی ہے-
- کتاب معرفۃ السنن و الاآثار: یہ امام بیہقی کی معرکۃ الآراء کتاب ہے اس کے شروع میں حدیث و سنت کی اہمیت روایت و اسناد میں احتیاط اور بعض ضروری فنی مباحث، اجماع، اجتہاد، قیاس، عام و خاص ، امر و نہی اور ناسخ و منسوخ وغیرہ کی نوعیت، امام شافعی کے حالات و کمالات اور اجتہادی مرتبہ پر لطیف بحث کی گئی ہے-اس کے بعد فقہی ابواب کی ترتیب پر احکام و مسائل سے متعلق روایات جمع کی گئی ہیں-
- کتاب السنن: امام بیہقی کی سنن میں دو کتابیں ایک سنن الکبیر یا سنن کبریٰ اور دوسری السنن الصغیر یا سنن صغریٰ کے نام سے موسوم ہیں- یہ احکامی احادیث پر مشتمل ہیں جن کو فقہی ابواب پر مرتب کیا گیا ہے-
- سنن الکبریٰ:یہ امام بیہقی کی مایہ ناز اور شہرہ آفاق تصنیف ہے- اس کی عظمت اور اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے بعد جن کتابوں کو غیر معمولی شہرت نصیب ہوئی ان میں یہ بھی ہے- حافظ ابن صلاح نے صحاح ستہ کے بعد کی عمدہ اور پر منفعت اور علامہ سیوطی نے معتبر و مستند کتابوں میں اس کو شمار کیا ہے- آپ کے استاد امام عبد اللہ بن یوسف نہ صرف اس کا نسخہ حاصل کر کے بڑے شوق سے ملاحظہ فرمایا بلکہ اپنی مسرت اور اطمینان کا اظہار فرمایا- امام بیہقی نے اس کی ترتیب و تالیف اور متون و اسناد کی صحت وجودت میں بڑی احتیاط اور نہایت چھان بین سے کام لیا-
وفات:
آپ کا وصال 74 سال کی عمر میں 10 جمادی الاولیٰ 458ھ کو نیشا پور میں ہوا آپ کی نعش مبارک وہاں سے بیہق لائی گئی اور یہیں سپرد خاک کیے گئے-[15]
٭٭٭
[1](کتاب لانساب، جز:2، ص:413)
[2](بستان المحدثین، ص:51)
[3](طبقات الفقہاء الشافعیہ، جز:1، ص:333)
[4](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:221)
[5](تاریخ بیہق، جز:1، ص:345)
[6](وفیات الاعیان، جز:1، ص:76)
[7](تذکرۃ الحفاط، جز:3، ص:219)
[8](بستان المحدثین، جز:3، ص:220)
[9](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:220)
[10](طبقات الشافعیہ الکبری، جز:4، ص:8)
[11](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:220)
[12](طبقات الفقہاء و الشافعیہ، جز:1، ص:333)
[13](تذکرۃ الحفاظ، جز:3، ص:220)
[14](ایضاً)
[15](وفیات الاعیان، جز:1، ص:76)