آپ کانام سفیان، کنیت ابو محمد اور نسب نامہ یہ ہے سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الھلالی الکوفی- الھلالی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک قبیلہ بنی ھلال بن عامر جو کہ کو فہ میں آباد ہو گیا تھا اس کی طرف ولاء کی نسبت ہونے کی وجہ سے آپ کو الھلالی کہا جاتا ہے اور آپ کی اصل کوفہ سے ہے تو اس لئے آپ کو الکوفی کہا جاتا ہے-
’’آپ کی ولادت 107ھ میں کوفہ میں ہوئی‘‘-[1]
آپ کے والد محترم خالد بن عبد اللہ قسری جو کہ والیٔ عراق تھا اس کے عمال میں سے تھے جب وہ معزول ہوا اور اس کی جگہ یوسف بن عمر ثقفی والی بنا تو اس نے تمام عمال کو طلب کیا تو امام صاحب کے والد حاضر نہ ہوئے بلکہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ مکہ جاکر آباد ہوگئے-[2]
تحصیل علم:
امام سفیان بن عیینہ کی تعلیم تربیت کا سلسلہ بچپن ہی میں شروع ہو گیا تھا-امام شعرانی ’’طبقات الکبریٰ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’حفظ القرآن وھوابن اربع سبعین‘‘[3]
’’آپ نے چار سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیااور سات سال کی عمر میں احادیث کو لکھنا شروع کیا‘‘-
آپ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر 15سال کو پہنچی تو میرے والد نے مجھے کہا کہ اے بیٹے! بچوں کے جتنے بھی طور طریقے ہوتے ہیں اب وہ تجھ سے ختم ہوگئے اب تو اہل خیر سے مل جا اور یاد رکھنا جب تک انسان علماء کی اطاعت نہیں کرتا ہر گز کامیاب نہیں ہوسکتا- لہٰذا علماء کی اطاعت کر کے کامیاب ہو جا ان کی خدمت کر کے ان سے اکتسابِ علم کر-امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس وصیت کے بعد میں باقاعدہ طور پر اکتساب علم میں مشغول ہو گیا اور کبھی بھی باپ کی وصیت سے عدول نہیں کیا-[4]
اس کے بعد آپ نے مختلف آئمہ حدیث سےسماع شروع کیا جس میں عمر وبن دینار اور امام زہری قابل ذکر ہیں-اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جالست الذھری وانا ابن ست عشرۃ سنہ‘‘ [5]
’’میں امام زہری کی خدمت میں 16 سال کی عمر میں بیٹھا‘‘-
امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ:
’’ابھی میری عمر 20 سال نہیں ہوئی تھی کہ میں دوبارہ کوفہ لوٹ آیا اور امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو امام ابو حنیفہ نے آپ کو دیکھ کر اپنے اصحاب اور اہل کوفہ کو فرمایا:
’’جاء کم حافظ علم عمر وبن دینار‘‘[6]
’’تمہارے پاس عمرو بن دینار کے علم کا حافظ آگیا ہے‘‘-
اس کے بعد باقاعدہ طور پر امام ابو حنیفہ نے آپ کو محدث ہونے کی سند عطا فرمائی- ان سے حدیث کا مذاکرہ بھی کیا اور حدیث کی روایت بھی کی- اسی لئے ابن خلکان اپنی کتاب ’’و فیات الاعیان‘‘میں امام صاحب کا قول نقل فرماتے ہیں:
’’فاول من صیرنی محدثا ابو حنیفہ فذاکرتۃ‘‘[7]
’’سب سے پہلے امام حنیفہ نے مجھے محدث بنایا اور ان سے میں نے حدیث کا مذاکرہ کیا‘‘-
اساتذہ:
آپ نے وقت کے جلیل القدر آئمہ فن اور عظیم محدثین سے اکتسابِ علم کیا جن نامور اور مشہور آئمہ سے آپ کو شرف تلمذ حاصل ہوا ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
’’ابن شہاب زہری، عمروبن دینار، ابو اسحاق سبیعی، عبید اللہ بن ابی یزید، عبد اللہ بن دینار، منصور بن معتمر، ابو الزناد، اسماعیل بن ابی خالد، سعد بن ابراہیم، سہیل بن ابی صالح، ایوب سختیانی، صفوان بن سلیم، عبد اللہ بن ابی نجیح، زیاد بن علاقہ، اسود بن قیس، عبد الرحمن بن قاسم، محمد بن المنکدر، حصین بن عبد الرحمن، سالم بن ابی نضر، عبدۃ بن ابی لبابہ، عبد الکریم جزری، عطاء بن سائب ، ہشام بن عروہ، ، ابن عجلان، موسیٰ بن عقبہ، یحیٰ بن سعید انصاری اور اس کے علاوہ اور بھی کثیر آئمہ فن سے اکستابِ علم کیا‘‘-[8]
تلامذہ:
جب ہم آپ کی بارگاہ سے فیض یاب ہونے والے حضرات کی فہرست کو دیکھتے ہیں تو وہ کوئی معمولی شخصیات نہیں ہیں بلکہ وہ اپنے وقت کی جلیل القدر اور مسلمہ شخصیات ہیں جس سے آپ کی علمی جلالت و وجاہت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے-اسی لئے امام ذہبی ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’ولقد کان خلق من طلبۃ الحدیث یتکلفون الحج وما المحرک لھم سوی لقی سفیان بن عیینہ لامامتہ و علو اسنادہ‘‘[9]
’’طالبان حدیث میں سے کثیر تعداد ایسوں کی تھی جن کا حج کرنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ امام سفیان بن عیینہ سے ملاقات بھی ہو جائے گی کیونکہ آپ حدیث کے امام اور علو اسناد کے مالک تھے‘‘-
جن آئمہ کو آپ سےتحصیل علم کا موقع ملا ان میں سے چند نامور یہ ہیں:
’’امام حمیدی، امام ثوری، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، عبد اللہ بن مبارک، وکیع بن جراح، علی بن مدینی، یحیٰ بن معین، اعمش، شعبہ، ہمام بن یحیٰ، یحیٰ بن سعید قطان، عبد الرحمٰن بن مہدی، ابن وہب، ابو نعیم، ابو خیثمہ، ابن نمیر، قتیبہ بن سعید، سعید بن منصور، ابن جریج، حماد بن زید، ابراہیم بن بشار رمادی، ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن راھویہ، ابوکریب، عمروبن علی فلاس، احمد بن منیع، محمد بن عاصم ثقفی اور زکریا بن یحیٰ مروزی‘‘-[10]
حدیث میں علمی مقام اور آئمہ فن کی توثیق:
امام سفیان بن عیینہ ایسی باکمال شخصیت ہیں جو کہ علمی میدان میں العلامہ، الامام الکبیر، حافظ العصر، شیخ الاسلام اور محدث حرم جیسے القابات سے پکارے جاتے ہیں- اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم جیسی عظیم دولت سے مالا مال کیا تھا آپ اپنے وقت کے عظیم محدث اور امام فن تھے اور کیوں نہ ہوتے کیونکہ آپ اس زمانے میں پائے گئے ہیں جو کہ خیر القرون اور صاحبان علم کا زمانہ شمار کیاجاتا ہے-یہی وجہ ہے کہ امام حمیدی آپ سے نقل فرماتے ہیں کہ:
’’ادرکت سبعۃ و ثمانین تابعیا‘‘[11]
’’میں نے ستاسی (87)تابعین کو پایا ہے‘‘-
لہٰذا ان باکمال شخصیات کے زمانہ کو پانے کی وجہ سے آپ علم کے میدان میں بہت بڑا اور ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اسی وجہ سے علماء و آئمہ فن علم حدیث میں آپ کے مقام و مرتبہ کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں-امام عجلی الکوفی ’’کتاب الثقات‘‘ میں فرماتے ہیں :
’’سفیان بن عیینہ الھلالی الکوفی ثقۃ ثبت فی الحدیث‘‘[12]
’’سفیان بن عیینہ الھلالی الکوفی ثقہ اور حدیث میں ثابت تھے‘‘-
امام ابن سعد بھی اسی طرح کے ملے جلے الفاظ سے آپ کی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ:
’’کان ثقۃ ثبتا کثیر الحدیث حجۃ‘‘[13]
’’آپ ثقہ، ثابت، کثیر الحدیث اور صاحب حجت تھے‘‘-
عمرو بن دینار جن کا شمار امام صاحب کے شیوخ میں ہوتا ہے-جن حضرات نے عمر و بن دینار سے سماع کیا تو ان میں سے اثبت جو ہیں وہ سفیان بن عیینہ ہیں-یہی وجہ ہے کہ یحیٰ بن معین فرماتے ہیں:
’’اثبت الناس فی حدیث عمرو بن دینار ابن عیینہ‘‘[14]
’’عمر و بن دینار کی احادیث میں لوگوں میں سے اثبت سفیان بن عیینہ ہیں‘‘-
آپ علم حدیث کے اس اونچے مرتبے پر پہنچے ہیں کہ علماء آپ کو حکماء اصحاب الحدیث میں شمار کرتے ہیں-احمد بن عبد اللہ فرماتے ہیں:
’’کان ابن عیینہ حسن الحدیث و کان یعد من حکماء اصحاب الحدیث‘‘[15]
’’ابن عیینہ حسن الحدیث تھے اور ان کا شمار حکماء اصحاب الحدیث میں کیا جاتا ہے‘‘-
آپ کو علم حدیث میں وہ مقام ملا کہ جتنے حضرات کو اہل حجاز کے محدثین سے اکستاب علم کا موقع ملا ان میں سے اعلم سفیان بن عیینہ ہیں-اسی لئے عبد الرحمٰن بن مہدی فرماتے ہیں:
’’کان سفیان بن عیینہ من اعلم الناس بحدیث الحجاز‘‘[16]
’’امام سفیان بن عیینہ اہل حجاز کی احادیث کے سب سے زیادہ عالم تھے‘‘-
اسی تناظر میں امام شافعی نے جس انداز میں آپ کی ثقاہت کو بیان کیا ہے تو اس سے آپ کی علمی شان و جلالت بالکل نکھرکر سامنے آجاتی ہے کیونکہ امام شافعی خود آئمہ فقہ اور آئمہ حدیث میں ایک مسلمہ شخصیت ہیں جب وہ کسی کی توثیق کریں تو اس کا امام فی الحدیث ہونا ایک امر یقینی ہےاس لئے امام شافعی فرماتے ہیں:
’’لو لا مالک و سفیان لذھب علم الحجاز‘‘[17]
’’اگر امام مالک اور سفیان نہ ہوتے تو حجاز کا علم چلا جاتا‘‘-
ایک اور مقام پر امام شافعی فرماتے ہیں:
’’ما رایت احد من الناس فیہ من الۃ العلم ما فی سفیان بن عیینہ ما رایت احدا احسن لتفسیر الحدیث منہ‘‘[18]
’’علم کا مادہ و صلاحیت جو سفیان بن عیینہ میں ہے وہ میں نے کسی میں نہیں دیکھا اور ان سے بڑھ کر حدیث کی احسن تفسیر کرنے والا نہیں دیکھا‘‘-
امام سفیان بن عیینہ حافظ حدیث اور شارح حدیث ہونے کےساتھ ساتھ فقہ میں بھی کمال رکھتے تھے- آپ کی فقاہت کا عالم یہ تھا کہ آپ کے ہاں احکام کے متعلق احادیث کے ذخیرہ کا خاص اہتمام تھا- اسی لئے امام شافعی فرماتے ہیں:
’’وجدت احادیث الاحکام کلھا عند ابن عیینہ سوی ستۃ احادیث و جدتھا کلھا عند مالک سوی ثلاثین حدیثا‘‘[19]
’’میں نے احکام کے متعلق تمام احادیث کو سوائے چھ حدیثوں کے امام مالک کے پاس پایا ہے- اسی طرح ان تمام احادیث کو سوائے تیس حدیثوں کے امام مالک کے پاس پایا ہے‘‘-
امام ذہبی امام شافعی کا مذکورہ قول نقل کرنے کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے سفیان بن عیینہ کے علمی دائرے کی وسعت واضح ہو جاتی ہے- یہ اس لئے ممکن ہوئی کہ آپ نے سفر کیے خاص کر حجاز مقدس اور عراق میں اور بہت سے علماء و محدثین سے اکتساب علم کیا تو در حقیقت آپ اہل حجاز اور اہل عراق کی احادیث کے جامع ہیں جس کی وجہ سے آپ کو یہ علمی شان ملی-
صرف امام شافعی ہی آپ کی فقاہت کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ امام صاحب کی احکام دانی کا یہ عالم تھا کہ امام الفقہ و الحدیث امام احمد بن حنبل آپ کی فقاہت و ثقاہت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ما رایت احدا علم باالسنن من ابن عیینہ‘‘[20]
’’میں نے ابن عیینہ سے بڑھ کر سنن کو جاننے والا نہیں دیکھا‘‘-
آپ کا علمی دائرہ صرف علم حدیث اور علم فقہ تک محدود نہیں تھا بلکہ مذکورہ علوم میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ علم تفسیر میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے آپ کمال درجے کے مفسر قرآن تھے عبد اللہ بن وہب آپ کی علم تفسیر میں امتیازی شان کو کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
’’لا اعلم احدا اعلم بتفسیر القرآن من ابن عیینہ‘‘[21]
’’میں ابن عیینہ سے بڑھ کر تفسیر قرآن کو جاننے والا کسی کو نہیں جانتا‘‘-
ابن مھدی نے آپ کے بارے جو رائے قائم کی ہے تو اس سے آپ کی تفسیر قرآن اور تفسیر حدیث میں مہارت نکھر کر سامنے آجاتی ہے-ابن مھدی فرماتے ہیں:
’’ما عند ابن عیینہ من معرفتہ بالقرآن و تفسیر الحدیث مالم یکن عند سفیان الثوری‘‘[22]
’’یعنی معرفت قرآن اور تفسیر حدیث کی جو صلاحیت سفیان بن عیینہ کے پاس تھی وہ سفیان ثوری کے پاس نہیں تھی‘‘-
اسی چیز کے پیش نظر خود امام سفیان ثوری بھی آپ کی توثیق فرماتے ہیں- امام عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ جب سفیان ثوری سے ابن عیینہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’ذاک احد الاحدین لیس لہ نظیر‘‘[23]
’’وہ یکتا تھے اور ان کی کوئی نظیر نہیں ہے‘‘-
عثمان بن زائد فرماتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری سے عرض کی کہ ہم حدیث کا سماع کس سے کریں تو آپ نے ارشاد فرمایا:
’’علیک بابن عیینہ وزائدہ‘‘[24]
’’یعنی تجھ پر ابن عیینہ اور زائدہ یعنی اپنے باب سے سماع لازم ہے‘‘-
امام بخاری جیسے عظیم محدث آپ کے حفظ و ضبط کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ابن عیینہ احفظ من حماد بن زید‘‘[25]
’’ابن عیینہ حماد بن زید سے احفظ ہیں ‘‘-
بھز بن اسد فرماتے ہیں:
’’ما رایت مثل سفیان بن عیینہ فقیل لہ ولا شعبہ؟ قال ولا شعبہ‘‘ [26]
’’میں نے سفیان بن عیینہ کی مثل نہیں دیکھا کہا گیا کیا امام شعبہ بھی ان کی مثل نہیں ہیں فرمایا کہ امام شعبہ بھی ان کے ہم پلہ نہیں ہیں‘‘-
الغرض! آئمہ کے ان تمام اقوال و توثیقات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ ایک امام اجل اور مسلمہ شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اس دور کے مروجہ علوم آپ میں بطریق اتم پائے جاتے تھے کہ جن کی وجہ سے امام سفیان بن عیینہ اپنے عم عصر علماء میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے-
زہد و تقویٰ اور آپ کےاقوال:
جس طرح زہد و تقوی ہر امام و محدث کی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے اسی طرح یہ زہد و تقویٰ امام سفیان بن عیینہ کی زندگی کا بھی لازمی جز تھا-آپ میں عبادت و ریاضت کا شوق و جذبہ کامل طور پر پایا جاتا تھا-آپ صاحب سنۃ و اتباع کا عملی نمونہ تھے-
امام ابن حبان فرماتے ہیں:
’’وکان من الحفاظ المتقین و اہل الورع و الدین ممن علم کتاب اللہ و کثر تلاوتہ‘‘[27]
’’وہ متقین حافظ میں سے تھے اور ان اہل ورع اور دین میں سے تھے کہ جنہوں نے کتاب اللہ کو جانا اور کثرت کے ساتھ اس کی تلاوت کی‘‘-
اس لئے آپ بھی کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتے زہد و تقوی کا یہ عالم تھا کہ ہر سال حج کے لئے تشریف لے جاتے اور سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ نے تقریباً ستر حج کیے-احمد بن ابی حواری فرماتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے زہد کے بارے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
’’اذا انعم علیہ فشکر وا ذا ابتلی ہبلیۃ فصیر فذالک الذھد‘‘[28]
’’جب اللہ تعالیٰ کسی پر انعام کرے تو اسے چاہیے کہ وہ شکر ادا کرے اور جب وہ کسی مصیبت سے اس کو آزمائے تو وہ صبر کرے تو یہی زہد ہے‘‘-
آپ نے خلق خدا کی راہنمائی اور کامیابی کیلئے ایسے پر حکمت اقوال بیان کئے جو ہم سب کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کے اقوال میں سے یہاں چند اقوال ذکر کیے جاتے ہیں-آپ فرماتے ہیں:
1-’’العلم اذا لم ینفعک ضرک‘‘
’’یعنی جس علم سے تونفع حاصل نہ کر سکے وہ تجھے نقصان دے گا‘‘-
2-’’من صبر علی البلاء ورضی باالقضاء فقد کمل امرہ‘‘
’’جس نے مصیبت پر صبر کیا اور قضا پر راضی ہوا تو اس کا معاملہ مکمل ہوگیا‘‘-
3-’’لا الہ الا اللہ بمنزلۃ الماء فی الدنیا فمن لم یکن معہ لا الہ الا اللہ فھو میت و من کانت معہ فھوحی‘‘
’’کلمہ طیب دنیا میں پانی کی طرح ہے پس جس کے پاس کلمہ طیب نہیں ہے وہ مردہ ہے اور جس کے پاس ہے وہ زندہ ہے‘‘-
4-’’ماء زمزم بمنزلۃ الطیب لا یرد‘‘
’’ ماء زمزم یہ خوشبو کی طرح ہے اس کو رد نہ کیا جائے‘‘-
5-’’کم من شخص یظھر الذھد فی الدنیا و اللہ مطلع علی قلبہ انہ محب لھا ‘‘
’’کتنے ہی ایسے شخص ہیں جو دنیا میں زہد کو ظاہر کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے دل کی حقیقت حال سے واقف ہے کہ وہ دنیا سے محبت کرتے ہیں‘‘-
6-’’الجھاد عشرۃ فجھاد العدو واحد وجھاد النفس تسعۃ‘‘
’’دس قسم کا جہاد ہے –ظاہری دشمن سے جہاد ایک ہے اور نفس کے ساتھ جہاد نو قسم کا ہے ‘‘-
7-’’ائتوا الصلوٰۃ قبل النداء ولا تکونوا کاالعبد االسوء لایاتی للصلوٰۃ حتی یدعی الیھا‘‘
’’ندا یعنی اذان سے پہلے نماز کے لئے آؤ اور تم اس برے غلام کی طرح نہ ہو جاؤ کہ جب تک اس کو نماز کے لئے نہ بلایا جائے وہ نماز کے لئے نہیں آتا‘‘-
8-’’ما علیک اضرمن علم لا تعمل بہ‘‘
’’اس علم سے بڑھ کر تجھے نقصان دینے والی کوئی چیز نہیں جس علم پر تو عمل نہ کرے‘‘-
9-’’لیس من حب الدنیا طلبک مالا بدمنہ‘‘[29]
’’جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو اس کے لئے تیری طلب دنیا کی محبت میں سے نہیں ہے‘‘-
تصنیفات:
اصحاب سیر نے امام صاحب کی دو تصنیفات کا ذکر فرمایا ہے:
- جز ء سفیان بن عیینہ: یہ کتاب حدیث پاک پر مشتمل ہے جس کو آپ نے تالیف کیا تھا-
- تفسیر ابن عیینہ: یہ قرآن پاک کی تفسیر ہے-[30]
وفات:
آپ کا وصال 198ھ میں مکہ میں ہوا اور آپ کی تدفین مقامِ حجون میں ہوئی-[31]
٭٭٭
[1](تاریخ بغداد، جز:10، ص:244)
[2](المنتظم، جز:10، ص:66)
[3](طبقات الکبری للشعرانی، ص:82)
[4](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:1، ص:225)
[5](تاریخ الکبیر للبخاری، جز:4، ص:94)
[6](وفیات الاعیان، جز:2، ص:393)
[7](ایضاً)
[8](تاریخ بغداد، جز:10، ص:244)
[9](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:414)
[10](تاریخ بغداد، جز:10، ص:244)
[11](تہذیب التہذیب، جز:4، ص:121)
[12]تاریخ الثقات، جز:1، ص:194)
[13](تہذیب التہذیب، جز:4، ص:121)
[14](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:1، ص:224)
[15](ایضاً)
[16](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:193)
[17](ایضاً)
[18](ایضاً)
[19](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:415)
[20](شذرات الذہب، جز:2، ص:466)
[21](الجرح و التعدیل، جز:4، ص:227)
[22]ْْْ(سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:416)
[23](ایضاً، ص:418)
[24](ایضاً)
[25](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:193)
[26](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:416)
[27](الثقات لابن حبان، جز:6، ص:403)
[28]ْْْ(سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:422)
[29](الطبقات للشعرانی، ص:82-83)
[30](ایضاح المکنون، جز:3، ص:303)
[31](طبقات الکبریٰ، جز:5، ص:497)