آپ کا نام فضیل ، کنیت ابو علی ہے جبکہ نسب نامہ کچھ یوں ہے فُضَیْل بن عِیاض بن مسعود بن بشر التمیمی الیربوعی، الخراسانی-
حضرت فُضَیْل بن عِیاضؒ کی ولادت کا وطن کونسا ہے اس کے بارے اصحاب سِیَر میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ آپ سمر قند میں پیدا ہوئے اور ابیورد میں پرورش پائی-بعض نے کہا کہ آپ خراسان میں پیدا ہوئے-ایک قول بخارا کا بھی ملتا ہے-[1]
حضرت فُضَیْل بن عِیاض کا شمار نہ صرف اہل تقویٰ اور اہل ورع میں ہوتا ہے بلکہ آپ مشائخ کے پیشوا، راہ طریقت کے ہادی ولایت و ہدایت کے منبع اور کرامت و ریاضت کے اعتبار سے اپنے دور کے شیخ کامل تھے اور آپ کے ہم عصر آپ کو صادق و مقتدا تصور کرتے تھے-
آپ ابتدائی دور میں اونی ٹوپی پہنتے اور گلے میں تسبیح ڈالے ابیورد اور سرخس (خراسان) کے درمیان ڈاکہ زنی کرتے تھے اور ڈاکوؤں کے سرغنہ تھے- غارت گری کا پورا مال تقسیم کر کے اپنے لئے اپنی پسندیدہ شے رکھ لیا کرتے تھے؛ اس کے باوجود بڑی تعجب کی بات ہے کہ وہ نہ صرف خود پنجگانہ نماز کے عادی تھے بلکہ ڈاکہ زنی کرنے والے ساتھیوں میں سے جو نماز نہ پڑھتا اس کو اپنی جماعت سے نکال دیتے-
یہ بھی کہا گیا ہے آپ بہت بامروت و باہمت تھے جس کارواں میں کوئی عورت ہوتی یا جس کے پاس مال قلیل ہوتا اس کو نہیں لوٹتے تھے جس کو لوٹتے اس کے پاس کچھ نہ کچھ مال چھوڑ دیتے-[2]
آپ کی توبہ کا سبب یہ بنا کہ آپ ایک عورت پر عاشق تھے اس سے ملنے کے لئے رات کو دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ کسی طرف سے تلاوت قرآن پاک کی آواز آئی ، اتفاق سے کوئی شخص یہ آیت مبارکہ تلاوت کر رہا تھا:
’’اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللہِ ‘‘[3]
’’کیا ایمان والوں کیلیے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کیلیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں‘‘-
یہ آیت کریمہ سنتے ہی آپ دیوار سے اتر آئے اور بارگاہِ خداوند میں عرض کی :
’’یا رب قدآن‘‘ ’’اے رب وہ وقت آگیا ہے‘‘-
رات ایک ویرانے میں گزاری وہاں آپ نے ایک قافلہ کے لوگوں کی گفتگو سنی تو ان میں سے ایک نے کہا ہمیں ابھی روانہ ہوجاناچاہیے- دوسرے نے کہاابھی نہیں بلکہ ہم صبح روانہ ہوں گے کیونکہ راستے میں فُضَیْل بن عِیاض ہے وہ ہمیں لوٹ لے گا- فُضَیْل بن عِیاضؒ فرماتے ہیں کہ میں اپنی راتیں گناہوں میں گزار رہا ہوں اور مسلمان مجھ سے خوف زدہ ہیں توآپ نے اسی وقت سچے دل سے توبہ کی-[4]
شیخ فرید الدین عطار نے ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ جب آپ نے توبہ کی تو آپ کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کسی طرح ان لوگوں کو راضی کیا جائے جن کو ہم نے لوٹا اور اذیت دی ہے-چنانچہ آپ رو رو کر اپنے مدعیوں کو راضی کرتے تھے مگر ایک یہودی تھا وہ کسی طرح راضی نہ ہوتا تھا - آخر اس نے کہا کہ میں تب راضی ہوں گا جب آپ یہ تودہ ریت کا یہاں سے اٹھا کر جگہ صاف کردیں اتفاقاً وہ تودہ اس قدر بڑا تھا کہ اس کا اٹھانا طاقتِ بشری سے دشوار تھا - مگر پھر بھی آپ نے اس کو تھوڑا تھوڑا اٹھانا شروع کیا یہاں تک کہ کچھ مدت اس میں مشغول رہے جب آپ نہایت تھک گئے تو ایک رات بہت سخت ہوا چلی تو ہوا نے اس تودے کو اڑا کر ختم کر دیا - یہ معاملہ دیکھ کر یہودی حیران رہ گیا اور آپ کو کہا میرے سرہانے کے نیچے سے کچھ اٹھا لاؤ تا کہ میں تم کو معاف کردوں-آپ نے اس کے سرہانے کے نیچے سے ایک مٹھی سونے کی اٹھا کر اس کو دی جسے دیکھتے ہی اس نے کہا کہ مجھے اسی وقت مسلمان کرو آپ نے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میں نے تورات میں پڑھا ہے کہ جس شخص کی توبہ قبول ہوتی ہے اس کے ہاتھ کی برکت سے مٹی بھی سونا بن جاتی ہے- میرے سرہانے کے نیچے خاک تھی جو سونا ہوگئی ہے اس سے ثابت ہو گیا کہ تمہاری توبہ قبول ہوگئی اور تمہارا دین سچا ہے-[5]
توبہ تائب ہونے کےبعد آپ کو فہ تشریف لائے اور امام اعظم ابو حنیفہؒ کی صحبت میں آکر اکتساب علم کیا-علامہ صیمری فرماتے ہیں:
’’انہ احد من اخذ الفقہ عن ابی حنیفہ و روی عنہ الامام الشافعی فاخذ عن امام عظیم و اخذ عنہ امام عظیم و ھو امام عظیم‘‘[6]
’’امام ابو حنیفہ سے فقہ اخذ کرنے والوں میں سے ایک فُضَیْل بن عِیاض بھی ہیں اور آپ سے امام شافعی نے بھی روایت فرمایا ہے پس امام فُضَیْل بن عِیاض نے ایک عظیم امام سے اخذ کیا-پھر ان سے ایک عظیم امام نے اخذ کیا تو گویا کہ آپ خود بھی ایک عظیم امام ہیں‘‘-
اساتذہ:
آپ نے امام اعظم ابو حنیفہ کے علاوہ بھی کئی نامور علماء و محدثین سے اکتساب علم کیا جن میں سے چند مشہور یہ ہیں:
’’منصور، الاعمش، بیان بن بشر، حصین بن عبدالرحمٰن، لیث، عطاء بن سائب، صفوان بن سلیم،عبد العزیزبن رفیع، ابواسحاق شیبانی، یحیٰ بن سعید انصاری، ہشام بن حسان، ابن ابی لیلی، اشعث بن سوار، حمید الطویل اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علمائے کوفیین اور حجازیینؒ میں سے ہیں جن سے آپ فیض یاب ہوئے-[7]
تلامذہ:
آپ سے فیض یاب ہونےوالے کوئی معمولی افراد نہیں ہیں بلکہ ان کا شمار آئمہ فن اور جلیل القدر علماء و مشائخ میں ہوتا ہے جن حضرات کو آپ سے تلمذ کا شرف نصیب ہوا-ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
امام عبد اللہ بن مبارک، یحیی بن سعید القطان، عبد الرحمٰن بن مہدی، سفیان بن عیینہ، امام عبد الرزاق الصنعانی، امام شافعی، احمد بن یونس، یحیٰ بن یحیٰ تمیمی، ابن وہب مسدد، قتیبہ، بشر الحافی، سری بن مغلس سقطی، احمد بن مقدام، عبید اللہ قواریری، محمد بن زنبور المکی، محمد بن یحیٰ عدنی، حمیدی، عبد الصمد بن یزید، عبدۃ بن عبد الرحیم مروزی، محمد بن ابی سری عسقلانی، محمد بن قدامہ، یحیٰ بن ایوب مقابری-(رحمتہ اللہ علیہ)[8]
آئمہ کرام کی آراء و توثیق:
امام فُضَیْل بن عِیاض کا شمار نہ صرف اکابر صوفیاء میں سے ہوتا ہے بلکہ آپ علم حدیث میں بھی بڑا کمال رکھتے تھے-علماء و محدثین جہاں آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہوتے تھے تو اسی طرح آپ سے سماع اور روایت حدیث کو بھی اپنے لئے سعادت کا باعث سمجھتے- آپ حفظِ حدیث اور ثقاہت کے اس اونچے درجے پر فائز تھے کہ اصحاب صحاح ستہ نے آپ سے تخریج کی ہے اور آپ کا شمار امام بخاری و مسلم کے رجال میں ہوتا ہے-آپ کے حدیث میں علمی مقام و مرتبہ کی وجہ سے آئمہ فن نے مختلف انداز میں آپ کی ثقاہت کمال کو بیان کیا ہے-امام عبداللہ بن مبارک جو کہ بذات خود محدثین کے سر کا تاج ہیں-آپ کی شخصیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’مابقی علی ظھر الارض افضل من الفضیل و کان ثقۃ نبیلا فاضلا عابدا کثیرالحدیث‘‘ [9]
’’زمین پر فضیل سے افضل کوئی نہیں ہے وہ ثقہ، بہت بڑے فاضل، عابد اور کثیر الحدیث تھے‘‘-
امام نسائی امام صاحب کے بارے فرماتے ہیں:
’’ثقۃ مامون‘‘، [10]
’’وہ ثقہ اور مامون تھے‘‘-
ابراہیم بن محمد الشافعی فرماتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے سنا کہ وہ فُضَیْل بن عِیاضؒ کے بارے فرما رہے تھے کہ :
’’فضیل ثقۃ‘‘[11] ’’فضیل ثقہ ہیں‘‘-
امام عجلی الکوفی ’’تاریخ الثقات‘‘ میں امام فُضَیْل بن عِیاض ؒکی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ھو کوفی ثقۃ متعبد رجل صالح سکن مکۃ‘‘[12]
’’وہ کوفی، ثقہ، عبادت گزار، صالح مرد تھے اور مکہ میں قیام پذیر رہے‘‘-
امام ابن شاہین بھی اپنی کتاب ’’الثقات‘‘ میں امام صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فضیل بن عیاض کان ثقۃ صدوقا‘‘[13]
’’فضیل بن عیاض ثقہ اور صدوق تھے‘‘-
امام ابن کثیر ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں آپ کے بارے ارشاد فرماتے ہیں:
’’و کان سید ا جلیلا ثقۃ من آئمۃ الروایۃ‘‘[14]
’’آپ بزرگی والے سردار اور ثقہ آئمہ رواۃ میں سے تھے‘‘-
علامہ ابو الفلاح عبد الحی بن احمد آپ کی علمی شان کو کچھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
’’و کان اماما ربانیا کبیر الشان ثقۃ، عابدا زاہدا جلیلا‘‘[15]
’’آپ امام ربانی، بڑی شان والے ثقہ، عبادت گزار اور زاہد بزرگ تھے‘‘-
جس انداز میں علامہ شریک نے آپ کی ثقاہت کو بیان کیا ہے اس سے ان کی علمی شان اور جلالت نکھر کر سامنے آجاتی ہے-علامہ شریک فرماتے ہیں:
’’لم یزل لکل قوم حجۃ فی زمانھم و ان فضیل بن عیاض حجۃ لاھل زمانہ‘‘[16]
’’ہمیشہ ہر قوم کے لئے ان کے زمانے میں کوئی نہ کوئی صاحب حجت رہا ہے بے شک فضیل بن عیاض اپنے زمانے والوں کیلئے صاحب حجت ہیں‘‘-
شیخ عبد الصمد مردویہ الصائغ فرماتے ہیں کہ مجھے امام عبد اللہ بن مبارک نے کہا:
’’ان الفضیل بن عیاض صدق اللہ فاجری الحکمۃ علی لسانہ فالفضیل ممن نفعہ علمہ‘‘[17]
’’بے شک فضیل بن عیاض نے اللہ تعالیٰ کی ذات کی تصدیق کی تو اللہ نے ان کی زبان پر حکمت جاری فرما دی اور امام فضیل ان حضرات میں سے ہیں کہ جن کےعلم نے لوگوں کو بہت نفع دیا‘‘-
یہی امام عبد اللہ بن مبارک ایک اور مقام پر آپ کی شخصیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ما بقی فی الحجاز احد من الا بدال الا فضیل بن عیاض‘‘[18]
’’ارض حجاز میں ابدالوں میں سے کوئی ایک سوائے فضیل بن عیاض کے نہیں بچا‘‘-
زہد و تقویٰ:
امام فضیل بن عیاض زہد و تقویٰ کے پیکر تھے اسی چیز کے پیش نظر بعض اصحاب سیر نے آپ کو ’’سیدالزہاد‘‘ کا لقب بھی دیا یعنی زاہدوں کے سردار کہ آپ سے بڑھ کر کوئی زاہد نہ تھا -خلیفہ ہارون الرشید نے فرمایا:
’’ما رأیت فی العلماء اھیب من مالک ولا اورع من الفضیل‘‘[19]
’’میں نے علماء میں امام مالک سے بڑھ کر خشیت والا نہیں دیکھا اور نہ ہی امام فضیل سے بڑھ کر تقویٰ والا دیکھا‘‘-
عبد الرحمٰن بن مہدی فرماتے ہیں:
’’فضیل رجل صالح‘‘[20] ’’فضیل صالح مرد تھے‘‘-
ابراہیم بن اشعث آپ کے زہد و تقویٰ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’ما رأیت احد کان اللہ فی صدرہ اعظم من الفضیل کان اذا ذکر اللہ او ذکر عندہ او سمع القرآن، ظھر بہ من الخوف و الحزن وفاضت عیناہ و بکی حتی یرحمہ من یحضرہ، وکان دائم الحزن شدید الفکرۃ ما رأیت رجلا یرید اللہ بعلمہ و عملہ‘‘[21]
’’میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ جس کے سینے میں فضیل سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی عظمت پائی جاتی ہو- جب وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے یا ان کے پاس اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا یا قرآن پاک کو سنتے تو ان پر خوف و حزن ظاہر ہو جاتا اور ان کی آنکھیں بہہ پڑتیں اور اتنے روتے کہ ان کے پاس موجود آدمی ان پر رحم کھاتا وہ ہمیشہ حزن والے اور شدید متفکر انسان تھے- میں نے ان سے بڑھ کر کسی مرد کو نہیں دیکھا جو کہ اپنے علم اور عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات کا ارادہ کرنے والا ہو‘‘-
خشیتِ الٰہی کا یہ عالم تھا کہ ابراہیم ابن اشعث فرماتے ہیں کہ جب ہم ان کے ساتھ کسی جنازہ کیلئے نکلتے تو ہمیں مسلسل وعظ و نصیحت کرتے ہوئے اور روتے ہوئے چلتے-آپ زہد و تقویٰ اور خشیت الٰہی کے اس بلند مرتبے پر فائز تھے کہ شیخ ابو علی الرازی فرماتے ہیں:
’’صحبت الفضیل ثلاثین سنۃ مارایتہ ضاحکا ولا متبسما الایوم مات ابنہ علی فقلت لہ فی ذالک فقال ان اللہ تعالیٰ احب امرا فاحببت ذالک الامر‘‘[22]
’’میں فضیل بن عیاض کی صحبت میں تیس سال رہا میں نے ان کو ہنستے اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا مگر جس دن آپ کا بیٹا علی فوت ہوا تو آپ مسکرائے تو میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کو پسند فرمایا ہے تو میں بھی اس امر کو پسند کرتا ہوں‘‘
دنیا کے مال و متاع سے بے رغبتی کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ جب خلیفہ ہارون الرشید آپ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے اس کو وعظ و نصیحت کی جس کی وجہ سے خلیفہ پرکپکپی طاری ہوگئی- جب وہ واپس ہونے لگا تو اس نے ایک ہزار دینار کی تھیلی بطور نذرانہ پیش کرتے ہوئے عرض کی کہ یہ رقم مجھے اپنی والدہ کے ورثہ سے حاصل ہوئی ہے اس لئے یہ قطعاً حلال ہے آپ رکھ لیں- یہ سن کرآپ نےارشاد فرمایا کہ صد افسوس! میری تمام پندو نصائح بے کار گئیں تم نے ذرا بھی اثر قبول نہیں کیا - میں تو تمہیں دعوتِ نجات دے رہا ہوں اور تم مجھے یہ دینار دے کر ہلاکت میں جھونکنا چاہتے ہو- یہ مال مستحقین کو ملنا چاہیے اس کے بعد ہارون الرشید نے رخصت ہوتے ہوئے اپنے خدمت گار سے کہا کہ یہ واقعی صاحب فضل بزرگوں میں سے ہیں-
حکیمانہ اور صوفیانہ اقوال:
امامفُضَیْل بن عِیاض کا کلام دلنشیں حکمت سے پُر اور تصوف کی چاشنی سے لبریز تھا-آپ کا کلام لوگوں کے ظاہری اور باطنی احوال کو بدلنے کے لئے ایک اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے-انہوں نے لوگوں کے احوال بدلنے کیلئے ایسے حکیمانہ اقوال بیان کئے جو مسلمانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں- یہاں ان کے چند اقوال درج کیے جاتے ہیں:
1-’’من جلس الی صاحب بدعۃ لم یعط الحکمۃ‘‘
’’جو بدعتی شخص کے پاس بیٹھا اس کو حکمت نہیں دی جائے گی-
2-’’ کم یدرک عندنا من ادرک بکثرۃ صیام و لا صلوۃ انما ادرک بسخاء الانفس و سلامۃ الصدور و النصح للامۃ‘‘
’’ہمارے ہاں کسی کی جان پہچان نہ تو زیادہ روز رکھنے سے ہوتی ہے نہ ہی زیادہ نمازیں پڑھنے سے ہمارے ہاں تو جان کا نذرانہ پیش کرنے، دل کی سلامتی اور امت کی خیر خواہی کرنے سے جان پہچان ہوتی ہے‘‘-
3- لم یتزین الناس بافضل من الصدق وطلب الحلال
’’سچائی اور طلبِ حلال سے بڑھ کر ئی ایسی شے نہیں جس سے لوگوں میں خوبصورتی پیدا ہوسکے‘‘-
4-’’من اظہر لاخیہ الود والصفاء بلسانہ واضمر لہ العداوۃ و البغضاء لعنہ اللہ واصمہ واعمی بصر قلبہ‘‘
’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے لئے زبانی تو محبت اور خلوص کا اظہار کرتا ہے لیکن دل میں اس کے خلاف دشمنی اور کینہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر لعنت کرتے ہوئے اس کو کانوں سے بہرا کردیتا ہے اور اس کے دل کی آنکھیں اندھی کر دیتا ہے‘‘-
5-ثلاث خصال یقسین القلب کثرۃ الاکل و کثرۃ النوم و کثرۃ الکلام
’’تین عادتیں ایس ہیں جو دل کو سخت کردیتی ہیں، (1) بہت زیادہ کھانا، (2) بہت زیادہ سونا اور (3) بہت زیادہ کلام کرنا‘‘-
6-’’طوبی لمن استوحش من الناس و انس بربہ و بکی علی خطیئتہ‘‘
’’خوشخبری ہے اس آدمی کیلئے جو لوگوں میں رہنے سے باز آئے اپنے پروردگار سے انس و محبت رکھے اور خطائیں کرنے پر رویا کرے‘‘-
7- ’’خمس من علامات الشقا ء القسوۃ فی القلب و جمود العین وقلۃ الحیاء و الرغبۃ فی الدنیا وطول الامل‘‘
’’پانچ چیزیں بدبختی کی علامات ہیں: دل کا سخت ہوجانا، آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہونا، حیا کا کم ہونا، دنیا میں رغبت اور لمبی امیدیں‘‘-
8- جعل الشرکلہ فی بیت و جعل مفتاحہ الرغبۃ فی الدنیا و جعل الخیر کلہ فی بیت و جعل مفتاحہ الزہد فی الدنیا
’’پوری برائی گھر میں رکھی گئی ہے جو دنیا کی طرف رغبت کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور پوری بھلائی بھی گھر میں رکھی گئی ہے جو دنیا سے کٹ کر زہد اختیار کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے‘‘-
9-’’خیر العمل اخفاہ و امنعہ من الشیطان و ابعدہ من الریاء‘‘
’’بہترین عمل وہ ہوتا ہے جو پوشیدہ کیا جائے جس سے سے انسان خود کو شیطان سے روکے رکھے گا اور وہ عمل انسان کو ریا سے دور رکھے گا‘‘-
10-’’من خاف اللہ لم یضرہ احد ومن خاف غیر اللہ لم ینفعہ احد‘‘[23]
’’جو اللہ سے ڈرتا ہے اس کو کوئی نقصان نہیں دے سکتا اور جو اللہ کے علاوہ کسی سے ڈرتا ہے اس کو کوئی نفع نہیں دے سکتا‘‘-
وفات:
امام فُضَیْل بن عِیاض نے جب تعلیم و تربیت مکمل کر لی تو آپ کوفہ سے مکہ شریف منتقل ہو گئے اور وہاں مجاورت اختیار کر کے بقیہ زندگی وہیں گزاری-آپ کا وصال بھی مکہ شریف میں 187ھ میں ہوا-[24]
٭٭٭
[1](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:393)
[2](تذکرۃ الاولیاء، ص:61)
[3](الحدید:16)
[4](التدوین فی اخبار قزوین، جز:4، ص:32)
[5](تذکرۃ الاولیاء، ص:62)
[6](الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنیفۃ، جز:1، ص:409)
[7](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:393)
[8](ایضاً)
[9](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:180)
[10](ایضاً)
[11](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:394)
[12](تاریخ الثقات، جز:1، ص:384)
[13](تاریخ اسماء الثقات لابن شاہین، جز:1، ص:18)
[14](البدایہ والنہایہ، جز:10، ص:24)
[15](شزرات الزھب، جز:2، ص:399)
[16](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:180)
[17](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:395)
[18](ایضاً)
[19](تذکرۃ الحفاظ، جز:1، ص:180)
[20](سیر اعلام النبلاء، جز:7، ص:394)
[21](ایضاً، ص:395)
[22](مرآۃ الجنان، جز:1، ص:321)
[23](طبقات الاولیاء، جز:1، ص:268)
[24](طبقات الکبری للسعد، جز:5، ص:500)