امام الرجل و العلل امام علی بن المدینی السعدیؒ

امام الرجل و العلل امام علی بن المدینی السعدیؒ

امام الرجل و العلل امام علی بن المدینی السعدیؒ

مصنف: مفتی محمد صدیق خان قادری جنوری 2021

تعارف:

آپ کا نام علی، کنیت ابو الحسن ہے اور نسب نامہ کچھ اس طرح ہے علی  بن عبد اللہ بن جعفر بن نحیج-آپ کا خاندان قبیلہ بنو سعد کے ایک شخص عروہ بن عطیہ السعدی کا غلام تھا اس لئے اس کی طرف ولاء کی نسبت ہونے کی وجہ سے آپ کو السعدی بھی کہا جاتا ہے- آپ کا آبائی وطن مدینہ منورہ ہے اس نسبت سے آپ المدینی کے نام سے مشہور ہیں-بعد میں آپ کا خاندان مدینہ سے ہجرت کر کے بصرہ میں آباد ہو گیا تھا اور یہیں 161ھ میں آپ کی ولادت ہوئی-[1] اسی بصرہ میں آپ کی نشوونما ہوئی اور ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا آپ کا شمار زمرہ تبع تابعین کے مشہور محدثین میں ہوتا ہے-

تحصیل  علم:

امام علی بن مدینی کی ابتدائی تعلیم کا آغاز آپ کے خاندان سے  ہوا کیونکہ ان کے والد  اور دادا دونوں صاحب علم و فضل تھے-آپ کے والد کے بارے امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:

’’ابوه محدث مشہور‘‘[2]’’ان کے والد مشہور محدث تھے‘‘-

اس لئے تعلیم و تربیت کا آغاز انہی کی زیر نگرانی ہوا اور اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ اختتام تعلیم سے پہلے ہی ان کے والد کا انتقال  ہو گیا تھا اس لئے جب آپ نے سماع حدیث کے لئے یمن کا سفر اختیار کیا تو اس وقت کے اخراجات کی ساری ذمہ داری ان کی والدہ کے سپرد تھی-کیونکہ آپ کو علم حدیث میں خصوصی لگاؤ تھا اور یہ علم بطور وراثت بھی آپ کے حصے میں آیا تھاتو مزیدسماعِ حدیث اور تحصیل علم کے لئے آپ نے مختلف منبعِ علم کے شہروں کا سفر اختیار کیا جس میں مکہ، مدینہ، بغداد، کوفہ قابل ذکر ہیں-خاص طور پر یمن میں سماعِ حدیث کے لئے تین سال مقیم رہے-

جب آپ نے یمن کا سفر اختیار فرمایا تو اپنے حفظ و سماع سے حدیث کا اچھا خاصا ذخیرہ اپنے پاس جمع کر چکے تھے-خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں ان کا قول نقل فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ایک مسند تصنیف فرمائی جب میں یمن جانے لگا تو اس کو حفاظت کے طور پر ایک صندوق میں بند کر گیا تو جب تین برس بعد واپس لوٹا تو یہ سارا ذخیرہ مٹی کا ڈھیر ہو چکا تھا-[3]

آپ فرماتے ہیں کہ جب میں یمن میں تحصیل علم کے سلسلے میں قیام پذیر تھا تو میری والدہ گھر میں تنہا تھیں  انہوں  نے بڑی تنگ دستی اور مشکلات کا سامنا کیا-یہاں تک کہ میرے  بعض دوستوں نے میری والدہ کو مشورہ دیا کہ آپ اپنی مشکلات کے بارے میں اپنے بیٹے کو آگاہ کریں تو میری والدہ نے نہ صرف میری تعلیم میں خلل ڈالنے کو ناپسند کیا بلکہ اس قسم کا مشورہ دینے والوں کو میرا دشمن سمجھا-[4]

اساتذہ:

آپ کو جن نامور آئمہ فن سے اکتساب علم کا موقع ملا ان میں سے چند قابل ذکر یہ ہیں:

’’حماد بن زید، جعفر بن سلیمان، عبد العزیز الدراوردی، معتمر بن سلیمان، ہشیم بن بشیر، سفیان بن عیینہ، جریر بن عبد الحمید، ولید بن مسلم، بشر بن مغفل، یحیٰ بن سعید القطان، عبد الرحمٰن بن مہدی، یذید بن زریع، ابن علیہ، خالد بن حارث، معاذ بن معاذ، عبد الوہاب الثقفی، حرمی بن عمارہ، ابوداؤد طیالسی، ہشام بن یوسف، عبد الرزاق بن ہمام، اسی طرح انہوں نے اپنے والد محترم اور اپنے دادا جعفر بن نحیج سے بھی حدیث کا سماع کیا ہے‘‘-[5]

تلامذہ:

جن حضرات کو آپ سے شرف تلمذ حاصل ہوا ہے ان میں بڑے نامور محدثین کا ذکر ملتا ہے ، عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیا حسین زمانہ انہیں نصیب تھا-امام علی بن المدینی کے چند تلامذہ کے اسما گرامی درج ذیل ہیں:

’’امام احمد بن حنبل، محمد بن اسماعیل البخاری، ابو حاتم رازی، حسن بن محمد زعفرانی، احمد بن منصور رمادی، اسماعیل بن اسحاق، ابو قلابہ رقاشی، محمد بن یحیٰ الذھلی، ابویحیٰ صاعقۃ، فضل بن سہل الاعرج، محمد بن اسحاق صاغانی، علی بن احمد، ابو شعیب حرانی، محمد بن احمد بن البراء، ابو علی عمری‘‘-[6]

علم و فضل اور آئمہ کرام کی آراء:

امام علی بن المدینی متحبر علماء و محدثین اور آئمہ فن سے تھے یہی وجہ ہے کہ آ پ کو علمی دنیا میں، الحافظ، امام اہل  الحدیث، قائد علم الرجال و العلل، الواسع المعرفۃ جیسے القابات سے یاد کیا جاتا ہے-وہ اپنے وقت کے محدثین میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے آپ کے علم و فضل کا چرچا ہر طرف تھا اس لئے بڑے بڑے نامور علماء اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر سماعِ حدیث کرتے اس لئے آئمہ فن نے نہ صرف آپ کے علم و فضل کا اعتراف کیا بلکہ مختلف اندازمیں ان کی علمی شان کا تذکرہ بھی کیا ہے جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تبحر علمی جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا تھا-

امام نسائیؒ آپ کی ثقاہت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’ثقۃ مامون احد الائمۃ فی الحدیث‘‘[7]

’’وہ ثقہ، مامون اور آئمہ حدیث میں سے ایک تھے‘‘-

ابن ابی حاتمؒ فرماتے ہیں :

’’قال ابوزرعہ لایرتاب فی صدقہ‘‘[8]

’’ابوزرعہ نے فرمایا کہ امام علی مدینی کے صدق میں شک نہ کیا جائے‘‘-

امام عبد الرحمٰن بن مہدی ان کی علمی شان کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں:

’’ابن المدینی اعلم الناس بحدیث رسول اللہ (ﷺ) و خاصۃ بحدیث ابن عیینہ‘‘[9]

’’امام ابن المدینی لوگوں میں سے حدیث رسول کے زیادہ عالم تھے اور خاص طور پر وہ سفیان بن عیینہ سے روایت کردہ حدیثوں کے سب سے زیادہ عالم تھے‘‘-

امام داؤدؒ سے پوچھا گیا:

’’احمد اعلم امر علی قال علی اعلم باختلاف الحدیث من احمد‘‘[10]

’’کیا امام احمد بن حنبل زیادہ عالم ہیں یا علی تو انہوں نے جواب ارشاد فرمایا کہ علی بن مدینی اختلاف حدیث کے اعتبار سے امام احمد سے زیادہ عالم ہیں‘‘-

آپ علم حدیث کے باب میں اس مقام پر فائز تھے کہ  معرفت حدیث اور علل میں علامت کے طور پر سمجھے جاتے تھے اس لئے امام ابو حاتم علم حدیث میں آپ کے تبحر علمی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’کان ابن المدینی علما فی الناس فی معرفۃ الحدیث و العلل وما سمعت احمد سماۂ قط انما کان یکنیہ تبجیلا لہ‘‘[11]

’’علی بن مدینی لوگوں میں معرفتِ حدیث اورعلل کے باب میں نشانی تھے میں نے امام احمد کو کبھی بھی ان کا نام لیتا ہوا نہیں سنا وہ ان کی عزت و احترام کی خاطر ان کو کنیت سے یاد کرتے تھے‘‘-

علامہ عبد الغنی بن سعید المصری آپ کے علمی مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

’’احسن الناس کلاما علی حدیث رسول اللہ (ﷺ) ثلاثہ علی بن مدینی فی وقتہ، وموسی بن ہارون فی وقتہ و الدار قطنی فی وقتہ‘‘[12]

’’حدیث رسول پر لوگوں میں سے احسن کلام تین حضرات کا ہے ایک علی بن مدینی کا اپنے وقت میں دوسرا موسی بن ہارون کا اپنے وقت میں اور تیسرا امام دار قطنی کا اپنے وقت میں‘‘-

علامہ اعین فرماتے ہیں:

’’رأیت ابن المدینی  مستلقیا و احمد بن حنبل عن یمینہ، ویحیی بن معین عن بسارہ و ھو یملی علیھما‘‘[13]

’’میں نے ابن المدینی کو دیکھا کہ وہ لپٹے ہوئے تھے امام احمد بن حنبل ان کے دائیں طرف تھے اور یحیٰ بن معین ان کے بائیں طرف تھے اور امام صاحب ان دونوں کو احادیث مبارکہ لکھوا رہے تھے‘‘-

ابو قدامہ سرخسی فرماتے ہیں کہ :

’’میں نے علی بن مدینی سے سنا کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں ثریا کو پکڑا ہے تو ابو قدامہ نے کہا  کہ اللہ نے آپ کے خواب کو سچا کر دیکھایا کہ  آپ حدیث میں اس مرتبہ پر پہنچے ہیں جہاں کوئی بڑا بھی نہیں پہنچ سکا‘‘-[14]

امام صاحب واقعی علم حدیث کے باب میں اس نمایاں مقام پر تھے کہ امام نسائی فرماتے ہیں:

’’کان اللہ خلق علی بن المدینی لھذا الشان‘‘[15]

’’گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم حدیث کے لئے ہی پیدا کیا تھا‘‘-

آپ کی یہ علمی شان تھی کہ آپ جہاں جاتے وہاں باطل عقائد کا قلع قمع ہو جاتا اور سنت زندہ ہوجاتی تھی اسی لئے امام یحیٰ بن معین فرماتے ہیں:

’’کان علی بن المدینی اذا قدم علینا اظہر السنۃ و اذا ذہب الی البصرۃ اظہر التشیع‘‘[16]

’’امام علی بن مدینی اس شان کے مالک تھے کہ جب وہ ہمارے پاس آئے تو سنت زندہ ہوگئی اور جب وہ بصرہ چلے گئے تو تشیع ظاہر ہوگیا‘‘-

اساتذہ و شیوخ کی نگاہ میں آپ کا مقام :

آپ ایسے عظیم شاگرد تھے کہ آپ کے اساتذہ و شیوخ برملا اعتراف کرتے کہ جتنا شاگرد نے ہم سے سیکھا ہے اتنا ہم نے بھی اس سے سیکھا ہے- امام یحیٰ بن سعید القطان کہ جن کا شمار نامور محدثین میں اور امام علی بن المدینی کے شیوخ میں ہوتا ہے وہ فرماتے ہیں:

’’نحن نستفید من ابن المدینی اکثر مما یستفید منا‘‘[17]

’’علی بن مدینی نے جتنا ہم سے استفادہ کیا ہے اس سے کہیں زیادہ ہم نے اس سے استفادہ کیا ہے‘‘-

امام سفیان بن عیینہ آپ سے محبت زیادہ کرتے تھے اور علی بن مدینی امام سفیان بن عیینہ کے خاص محبوب شاگرد تھے تو بعض لوگوں نے سفیان بن عیینہ کو علی بن مدینی سے محبت پر ملامت کی تو آپ نے جواباًارشاد فرمایا:

’’و اللہ لما اتعلم منہ اکثر مما یتعلم منی‘‘[18]

’’خدا کی قسم انہوں نے جتنا مجھ سے سیکھا ہے اس سے کہیں زیادہ میں نے استفادہ کیا ہے‘‘-

امام بخاری کی نگاہ میں آپ کا مقام :

امام علی بن المدینی کی علمی وجاہت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ سیدنا امام بخاریؒ جیسے عظیم محدث جنہیں  ’’امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ کا درجہ حاصل ہے، جن کی کتاب کو ’’کتاب اللہ‘‘ کے بعد سب سے افضل مانا جاتا ہے وہ فرماتے ہیں  کہ:

’’مااستتصفرت نفسی عند احد قط الا عند علی بن مدینی‘‘[19]

میں نے علی بن مدینی کے علاوہ کسی کے سامنے اپنے آپ کو حقیر نہیں سمجھا-

آپ کے وصال کے  بعد امام سراج نے امام بخاری سے پوچھا کہ آپ کے دل میں کوئی خواہش باقی ہے؛تو امام بخاری ؒنے فرمایا:

’’ان اقدم العراق و علی بن عبد اللہ حی فاجالسہ‘‘[20]

’’ایک خواہش ہے کہ علی بن مدینی زندہ ہوتے تو میں عراق جاکر ان کی صحبت میں بیٹھتا‘‘-

عللِ حدیث میں مہارت:

امام علی بن مدینی نہ صرف ایک عظیم محدث اور راوی تھے بلکہ عللِ حدیث کی معرفت میں بھی  کمال مہارت رکھتے تھے اسی بنا پر امام عجلی الثقات میں ’’قائد علم الرجال و العلل‘‘ کے لقب سے آپ کا تذکرہ فرماتے ہیں-

علم حدیث میں آپ کا امتیازی پہلو یہ بھی تھا  کہ آپ  اپنے عہد میں علل حدیث کو زیادہ جاننے والے تھے-اس لئے امام ابن حبان فرماتے ہیں:

’’وکان من اعلم اہل زمانہ بعلل حدیث رسول اللہ (ﷺ)‘‘

آپ کا شمار اپنے زمانے میں علل حدیث کو زیادہ جاننے والوں میں سے ہوتا تھا-[21]

امام ابوبکر اسماعیلی فرماتے ہیں کہ علامہ فرھیانی سے یحیٰ بن معین، علی بن مدینی، امام احمد بن حنبل کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواباً ارشادفرمایا:

’’اما علی فاعلمھم بالحدیث و العلل ویحی اعلمھم باالرجال و احمد باالفقہ‘‘[22]

’’بہر حال علی بن مدینی حدیث اور علل میں ان سے زیادہ عالم ہیں اور یحیٰ بن معین بہ نسبت ان کے علم الرجال کے زیادہ عالم ہیں اور امام احمد بن حنبل فقہ میں ان سے زیادہ عالم ہیں‘‘-

امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں:

’’وساد الحفاظ فی معرفۃ العلل‘‘[23]

’’وہ علل کی معرفت میں حفاظ کے سردار تھے‘‘-

تصانیف:

امام علی بن مدینی ایک عظیم محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے مصنف بھی تھے-اصحاب سیر نے آپ کو صاحب تصانیف کثیرۃ ذکر فرمایا ہے-یہاں تک کہ امام شمس الدین ذہبی  فرماتے ہیں:

’’یقال ان تصانیفہ بلغت مأیتی مصنف‘‘[24]

’’کہا گیا ہے کہ ان کی تصانیف کی تعداد 200 تک پہنچی ہے‘‘-

مگر افسوس کہ ان میں سے اکثر ناپید اور ضائع ہو گئی ہیں اور آپ کی چند کتابوں کا ذکر ملتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

v     الاسامی و الکنی: یہ آٹھ جزوں میں ہے

v     قبائل العرب: یہ دس جزوں پر مشتمل ہے

v     تفسیر غریب الحدیث

v     المسند فی الحدیث

v     کتاب معرفۃ من نزل من الصحابۃ سائر البلدان: یہ پانچ جزوں پر مشتمل ہے-

v     کتاب الاشربہ

v     کتاب المدلسین

v     کتاب الضعفاء[25]

وفات:

آپ کا وصال 234ھ میں ہوا-[26] ان کا مزار مقام عسکر میں ہے-

٭٭٭


[1](تاریخ الثقات، جز:1، ص:350)

[2](سیر الاعلام البلاء، جز:9، ص:104)

[3](تاریخ بغداد، جز:13، ص:421)

[4](ایضاً)

[5](ایضاً)

[6](ایضاً)

[7](تہذیب التہذیب، جز:7، ص:356)

[8](الجرح والتعدیل، جز:1، ص:320)

[9](تہذیب الاسماء و اللغات، جز:1، ص:320)

[10](تاریخ الاسلام، جز:17، ص:278)

[11](طبقات الشافعیہ الکبریٰ، جز:2، ص:148)

[12](تہذیب الاسماء  و اللغات، جز:1، ص:351)

[13](ایضاً)

[14](تاریخ الاسلام، جز:17، ص:277)

[15](ایضاً)

[16](ایضاً)

[17](ایضاً)

[18](ایضاً)

[19](تہذیب الاسماء و الغات، جزؒ1، ص:351)

[20](طبقات الشافعیۃ الکبریٰ، جز:2، ص:)

[21](الثقات لابن حبان، جز:8، ص:470)

[22](تاریخ بغداد، جز:13، ص:421)

[23](سیر اعلام النبلاء، جز:9، ص:104)

[24](ایضاً)

[25](الفہرست، جز:1، ص:282)

(معجم المؤلفین، جز:7، ص:133)

[26](الثقات لابن حبان، جز:8، ص:470)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر