قائداعظمؒ اور نہرورپورٹ قیامِ پاکستان کے تناظرمیں مختصر جائزہ

قائداعظمؒ اور نہرورپورٹ قیامِ پاکستان کے تناظرمیں مختصر جائزہ

قائداعظمؒ اور نہرورپورٹ قیامِ پاکستان کے تناظرمیں مختصر جائزہ

مصنف: حافظ محمد شہباز عزیز اگست 2019

بیسویں صدی کا تیسرا عشرہ (30-1920) متحدہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل اور سر گرم سیاسی دورانیے کے طور پر جانا جاتا ہے-اس دوران ہندوستانی سیاست میں مختلف واقعات ایسے رونما ہوئے جن میں برہمن بنیے نے اپنی تنگ نظری اور متعصبانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف ہندو مسلم دشمنی اور فرقہ واریت جیسے مسائل کو فروغ دیا بلکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اشتراک کو بھی بے تحاشا نقصان پہنچایا جن میں سے ایک اہم واقعہ نہرو رپورٹ (1928ء) کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے- نہرو رپورٹ جہاں برہمنوں کی مسلمانوں سے دشمنی،باہمی منافرت اور فرقہ واریت کےفروغ کا سبب بنی وہیں اس نےہندوستان کی سیاسی فضا میں تلخی و ناخوشگواری کو بھی مزید تقویت دی اور مسلمانوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ متعصب شدت پسند ہندؤوں سے اپنے راستے جدا کر لیں-

نہرو رپورٹ کے بیان سے قبل سائمن کمیشن (جو نہرو رپورٹ کا موجب بنا) کا تذکرہ ضروری ہے -

1927ء میں برطانوی حکومت نے ہندوستان کے آئینی مسائل طے کرنے کی غرض سے سر جان سائمن (Sir John Simon)  کی سر براہی میں 7 افراد پر مشتمل ایک کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا جسے سائمن کمیشن کا نام دیا گیا- یہ کمیشن در اصل انگریز حکومت کی ہندوستانیوں کےلئے نفرت اور در پردہ سازش کی عکاسی کرتا ہے- جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مجوزہ کمیشن میں کوئی بھی ہندوستانی نمائندہ شامل نہیں تھا اس لئے ہندوستان کی تقریباً تما م بڑی سیاسی جما عتوں نے اس کمیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا-قائد اعظم ؒ نے بھی سائمن کمیشن کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے ہندوستانیوں کا اس طرح نظر انداز کیا جانا سختی سے محسوس کیا - جب وائسرائے ہند نے رائل کمیشن کی تقرری کا اعلان کیا تو ایسوسی ایٹیڈ پریس کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا کہ:

’’میرے لیے تو ایسے کمیشن کا تصور ہی شاق ہے جو ہندوستان کے آئندہ آئین اور  35 کروڑ ہندوستانیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا ہو اور اس میں ایک بھی ہندوستانی شامل نہ ہو-قائد اعظمؒ نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگرس پر زور دیا کہ وہ اس اعلان سے متعلق کاروائی کریں-مزید30 جنوری 1928ء کو بھوپت کی زیرِ صدارت ایک عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظمؒ نے سائمن کمیشن کے متعلق فرمایا کہ: ’’یہ حقیقتِ مسلمہ ہے کہ سائمن کمیشن لارڈ برکن ہیڈ(Lord Birkenhead)کا ساختہ پرداختہ ہے- ان کے تمام نظریے اور اصول قبل از وقت فیصلہ شدہ ہیں‘‘-[1]

1928ء میں سٹیٹ سیکرٹری لارڈ برکن ہیڈ(Lord Birkenhead) کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ہندوستان میں ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا مقصد ہندوستان کیلئے متفقہ آئین تیا ر کرنا تھا-یہ کام سر انجام دینے کیلئے پنڈت نہرو کی زیرِ نگرانی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے نہرو کمیٹی اور آئینی دستاویز جواس کمیٹی نے تیار کی اسے نہرو رپورٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے-

نہرو رپورٹ میں سب سے بڑی ستم ظریفی یہ روا رکھی گئی کہ مسلمانوں کے تمام اہم مطالبات (جیسے جدا گانہ انتخابات، مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمائندگی، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی، صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اصلاحات) کو فرقہ وارانہ کَہ کر یکسر مسترد کر دیا گیا-

چونکہ مسٹر محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی تھے اس لئے آپ کی رائے میں ہندوستان کی سیاسی بقاء کیلئے واحد امید صرف ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘کی صورت میں باقی تھی جس کیلئے آپ نے تجویز کیا کہ:

’’ہندوؤں کو لازم ہے کہ وہ زیادہ فراخ دلی اور رواداری سے کام لیں اور مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اعتماد کو وسعت دیں‘‘-[2]

مسٹر جناح نے نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کی مجوزہ شرائط میں سے کچھ ترامیم کا مسودہ مرتب کیا اور اسے کلکتہ میں منعقد ہونے والے نہرو آئین کنونشن میں پیش کیا تاکہ ہندو مسلم اتحاد کی راہ ہموار ہوسکے لیکن آپ کی پیش کردہ یہ ترامیم بھی مسترد کردی گئیں-اگرچہ مسٹر جناح نے بطور ہندو مسلم اتحاد سفیر[3] کے ناقابلِ تردید دلائل کے ذریعے ہندوؤں کو مصلحت پر آمادہ کرنا چاہا مگر متعصب برہمن ہندو ذہنیت آڑے آئی اور مسٹر جناح یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :’’اب ہمارے تمہارے راستے جدا جدا ہیں‘‘-

1929ء میں روزنامہ انقلاب کے نمائندہ خصوصی سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نےنہرو پورٹ کے متعلق فرمایا کہ:

’’جس حد تک نہرو رپورٹ کے اصولِ اساسی کا تعلق ہے میں اس کے سخت خلاف ہوں- میرے نزدیک یہ اُصول مسلمانوں کے مقاصد کے منافی ہیں-اس لئے مَیں نہرو رپورٹ کا مخالف ہوں-میرے خیال میں نہرو رپورٹ میں مسلمانوں کے مقاصدِ اساسی کی حفاظت کیلئے کوئی سامان موجود نہیں اور جب تک مسلمان ان تمام شرائط کو منوا نہ لیں گے جو میرے مرتبہ مسودہ میں موجود ہیں اس وقت تک مسلمان ہندوستان میں اپنی مستقل قومی حیثیت کو محفوظ نہیں بنا سکیں گے‘‘-[4]

اسی طرح اخبار ڈیلی کرانیکل کے نمائندے سے گفتگو کے دوران آپ نے نہرو رپورٹ سے متعلق زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:

’’مسلم قوم نہرو رپورٹ کو ہر گز منظور نہیں کر سکتی اور ایسا ہرگز نہ کرے گی-کسی قسم کی چال بازیاں عامۃُ المسلمین سے نہرو رپورٹ کی منظوری حاصل نہیں کر سکتیں‘‘-[5]

ہندو مسلم اتحاد کیلئے قائد اعظمؒ کی انتھک کاوشیں اور نہرو رپورٹ کی صورت میں اس اتحاد کے پارہ پارہ ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے کرم حیدری اپنی تصنیف ’’ملّت کا پاسباں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’ہندوؤں کی طرف سے نہرو رپورٹ کی منظوری پر اصرار اور مسلمانوں کی طرف سے اس کے واضح استرداد کے بعد سیاسیاتِ ہند کا ایک باب ختم ہوا-اس کے بعد ایک مخلوط ہندوستانی قوم اور مخلوط طریقِ انتخاب کیلئے کوئی گنجائش نہ رہی اور ہندو مسلم اتحاد کے امکانات بہت کم ہوگئے-ہندو مسلم اتحاد کے انہدام کا سب سے بڑا دکھ مسٹر محمد علی جناح کو ہوا کیونکہ انہوں نے لندن میں زمانہ طالب علمی سے اس اتحاد کے سہانے خواب دیکھے تھے اور عملی سیاست میں قدم رکھنے سے لے کر وہ مسلسل اس اتحاد کیلئے کوشاں رہے اور مسلسل 24 برس تک انہوں نے اس حصول کیلئے ان تھک محنت کی--- کلکتہ کنونشن سے واپسی پر انہیں اس بات کا دکھ نہ تھا کہ کوتاہ میں ہندوؤں نے ان کے دلائل کی طرف توجہ نہ دی تھی بلکہ ان کی بصیرت آگیں آنکھوں میں ان تمام اہلِ ہند کا درد امڈ آیا تھا جن کے باہمی اتحاد کے قلعے کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا‘‘-

مزید نہر و رپورٹ کی صورت میں ہندو ذہنیت کی عکاسی اور ان کی مسلم دشمنی کا غیرمبہم اظہارہم درج ذیل پیرائے میں دیکھ سکتے ہیں:

’’گاندھی کی سیاسی طبیعت اپنی سیاست کی چالیں دھیمے سروں،مسلمانوں اور ان کے قائدین بلکہ جذبات تینوں پر یک بیک وار دیں کہ پھر 1928ء کی نہرو رپورٹ انڈین نیشنل کانگریس کا وہ حتمی رویہ،تحریری اعلان اور عزم تھا کہ ہندوستان کے دستوری نقشے میں مسلمان نام کی کوئی قوم نہیں اور اسے کسی نوعیت کے سیاسی، سماجی یا معاشی، معاشرتی حقوق کو درخور اعتنا یا لائق توجہ ماننا تو کہاں، لائق تذکرہ بھی نہیں، بلکہ 1916ء کے میثاق لکھنؤ [6]میں مسلمانوں کے جداگانہ انتخابات کے تسلیم شدہ حق اور سمجھوتے کو بھی مسترد کر دیا گیا،حالانکہ برِعظیم میں قوم کہلائے جانے کے اعتبار سے صرف مسلمان ہی واحد قوم تھی، ہندوستانی یا ہندو،کوئی قوم کہاں ذاتیں تھی یا پیشے، انہیں انڈین نیشنل کانگریس کی سیاست اور گاندھی کی قیادت نے دو خطروں اور خوف پر یکجا کرکے ہندو نیشنلزم کو ہوا دی‘‘-[7]

نہرو رپورٹ کے بعد ہندوؤں کی در پردہ سازشیں مسلمانوں پر بے نقاب ہوگئیں اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اب ہندو مسلم اتحاد کا کوئی امکان نہیں-پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر تمیمی اپنی معروف تصنیف ’’زوال سے اقبالؒ تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’ہندو بنیا اپنے دل کابھید اور نیت کا چھید کسی پر ظاہر نہیں کرتا‘‘-

لیکن مسٹر جناح اپنی مومنانہ دور اندیشی سے ہندو بنیے کے دل کا بھید اور نیت کا چھید دونوں بخوبی جان گئے-چنانچہ آپ نے واضح اعلان کیا کہ نہرو رپورٹ مسلمانوں کیلئے نا قابلِ قبول ہے-

ڈاکٹر جاوید اقبال اس حوالے سے رقم طراز ہیں کہ:

’’ہندو قیادت کی جانب سے نہرو رپورٹ میں اپنی ترامیم کے استر داد کے تلخ تجربے کے بعد،محمد علی جناح نے یہ محسوس کر لیا کہ اب ہندوؤں سے حقیقی معاملہ فہمی کا کوئی امکان نہیں- لہٰذا ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ حسب ِ سابق مسلمانوں کے مفادات و حقوق کے تحفط پر اپنی پوری توجہ صرف کر دیں‘‘-[8]

یہ حقیقت ہے کہ نہرو رپورٹ نے محمد علی جناح ؒ کی سیاسی فکر میں تبدیلی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا- اب ہندو مسلم اتحاد کی بجائے مسلم اتحاد اور مسلمانوں کےمفاد وحقوق کا تحفظ آپ کا مطمع نظر ٹھہرا اور وہ شب و روز اسی مقصد کے حصول کیلئے سر گرمِ عمل ہو گئے-چونکہ اس وقت مسلم لیگ دو گروپس میں منقسم تھی اس لئے قائد اعظم ؒ اس امر کیلئے کوشاں تھے کہ سب سے پہلے مسلمان قائدین کے باہمی اختلافات دور کرتے ہوئے دونوں گروہوں کو دوبارہ متحد کیا جائے-چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں منعقدہ اجلاس  1929ء میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا کہ:

’’ہم لوگ ایک ایسے موقع پر جمع ہوئے ہیں جس میں ہمیں سات کروڑ مسلمانوں کی موت و زیست کے مسئلہ پر غور کرنا ہے-اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ کو اپنے ملک میں یا بیرونی دنیا میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے،اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے فیصلہ کی کوئی قدر ہو اور اگر آپ اس بات کے متمنی ہیں کہ تمام مسلمانوں کی آراء کی حمایت حاصل کریں تو آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ یہ باتیں صرف متحدہ اور متفقہ فیصلہ سے حاصل ہو سکتی ہیں‘‘-

نہرو رپورٹ کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس (مارچ 1929ء) میں ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ اور سیاسی مستقبل کیلئے اپنے مشہور 14 نکا ت(جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں) پیش کئے جس میں قانون ساز اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمائندگی جدا گانہ طریقِ انتخاب، سندھ اور بلوچستان میں اصلاحات، سندھ کی بمبئی سے علیحدگی اور مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، مذہب، زبان اور آئینی تحفظ کے مطالبات شامل تھے-اس کے علاوہ ان نکات میں مسلمانوں کو متحد کرنے کی حکمت عملی اور ہندوؤں اور انگریزوں پر مسلمانوں کی واضح موجودیت کا اظہار بھی تھا لیکن ہندو بنیے نے ایک دفعہ پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مطالبات قبول کرنے سے انکار کر دیا-

اس طرح ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلافات کی راہیں روز بروزتقویت پکڑتی چلی گئیں اور ہندو مسلم اتحاد کی دور دور تک کوئی امید باقی نہ رہی-

یہ نکات تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں سنگ ِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ہندو بنیے کی مسلمانوں کے خلاف اس قدر نفرت انگیز اقدامات کے بعد اب مسلمانوں کیلئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ برِصغیر میں اپنے سیاسی مستقبل،ملّی و تہذیبی تشخص کو برقرار رکھنے اور اسلامی اقدار کے احیاء کیلئے آزادی کا مطالبہ کریں -

یہی(مارچ 1929ء) وہ زمانہ ہے جب مسٹر جناح اور علامہ اقبالؒ کی ذہنی و فکری قربت بڑھنے لگی جو اپریل 1938ء میں اقبالؒ کی وفات تک قائم رہی- اس سے قبل دونوں کےسیاسی افکار کی راہیں جدا جدا بلکہ بعض دفعہ بالکل مخالف سمت پر رہیں- علامہ اقبال ؒ نے اپنی مومنانہ فہم و فراست سے تاریخی تناظر میں بہت پہلے یہ جان لیا تھا کہ ہندوستان میں دو بڑی قومیں (مسلمان اور ہندو) آباد ہیں جن کا کلچر اور تہذیب و تمدن یکسر مختلف ہے- اِسی اثناء (1930ء) میں علامہ اقبالؒ نے اپنا مشہور خطبہ اِلٰہ آباد دیا جس میں آپ نے مسلم قومیت کا تصور واضح کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے خود مختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا-اس دوران گول میز کانفرنسز سے مسلمانوں کے حق میں خاطرخواہ نتائج برآمد نہ ہونے اور کانگریسی ذہنیت سے مایوس ہو کر محمد علی جناح ؒ ہندوستان چھوڑ کر مستقل طور پر انگلستان میں مقیم ہو گئے لیکن  1935ء میں آپ علامہ اقبال ؒ اور دیگر مسلم قائدین کے کہنے پر واپس ہندوستان تشریف لائے اور مسلم لیگ کی تنظیم ِنو کا کام کیا اور بطور عظیم قائد تحریک ِ پاکستان کیلئے قلب و روح کی حیثیت اختیار کی-محمد علی جناح ؒ علامہ اقبال کی اسلامی فکر اور مسلم قومیت کے جداگانہ تصور سے بے حد متاثر تھے اور یہی وہ فکر تھی جس نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کو ہندی قومیت کی بجائے مسلم قومیت اور متحدہ ہندوستان کی بجائے خود مختار ریاست کے قیام کےمطالبہ پر لا کھڑا کیا-اب قائد اعظمؒ نے اپنی بقیہ ساری زندگی علامہ اقبالؒ کے تصورِ پاکستان کی تکمیل اور جہدِ آزادی کیلئے وقف کر دی-آپؒ نے اس مختصر عرصے میں نہ صرف اپنے ناقابلِ تسخیر عزم و استقلال اور مخلص و مومنانہ قیادت میں مسلمانوں کو ایک پرچم تلے متحد کیا بلکہ بیک وقت اپنی سیاسی بصیرت اور آئینی جدو جہد و ناقابل ِ تردید دلائل کے ذریعے دو بڑی سرکش سامراجی طاقتوں (گاندھی سامراج اور بر طانوی سامراج )کو تاریخ کی بد ترین سیاسی شکست سے دو چار کیا اور یوں 14 اگست 1947ء کو پاکستان جیسی عظیم اسلامی نظریاتی ریاست دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آئی-

٭٭٭


[1](احمد سعید،حیاتِ قائد  اعظم ؒ کے چند نئے پہلو،قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ   و ثقافت،2009ء،ص: 23)

[2](اقبال اور قائد اعظم،احمد سعید،ص: 32)

[3](ہندو مسلم اتحاد کیلئے  قائد اعظم محمد علی جناح ؒکی انتھک کوششوں کی بنا پر  1916ء میں سروجنی نایڈو نے آپ کو ’’ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘کا لقب دیا)

[4](احمد سعید،حیاتِ قائد  اعظم ؒ کے چند نئے پہلو،قومی ادارہ برائے تحقیق تاریخ   و ثقافت،2009ء،ص: 29)

[5](روزنامہ انقلاب،9 اپریل1929ء،ص: 5)

[6](میثاق لکھنؤ(1916ء) میں پہلی دفعہ مسٹر محمد علی جناح کی کوششوں کے سبب کانگریس نے  مسلمانوں کے جدا گانہ حقِ انتخاب کو تسلیم کیا)

[7](زوال سے اقبالؒ   تک ،پروفیسر ڈاکٹر جہانگیر تمیمی ، ص: 228،مرکز مطالعات ِ جنوبی ایشیا ،پنجاب یونیورسٹی لاہور)

[8](اسلام اور پاکستانی تشخص،ڈاکٹر جاوید اقبال،مترجم:  سید قاسم  محمود ،ص:291،اقبال اکادمی پاکستان)

سوشل میڈیا پر شِیئر کریں

واپس اوپر