حضرت امام حسین (رض) ان نفوسِ قدسیہ میں سے ہیں جن کو توحیدِ الٰہی کی حقانیت کے اثبات پر بطور دلیل کے پیش کیا گیا ہے -جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَکُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ‘‘[1]
دوسری بات یہ ہے کہ آپ() اُن ذواتِ مقدسہ میں سے ہیں جن کے ساتھ اُمت کو محبت و مَوَدَّت کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پاک کی زبانی فرمایا ہے-جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’قُلْ لَّآ اَسْـَٔلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی’’[2]
تیسری بات یہ ہے کہ آپ(رض) کی شخصیت اُن پانچ مبارک تن میں سے ایک ہے جن کے ساتھ محبت کرنا وجوب کا درجہ رکھتی ہے-
جیسا کہ صحابہ کرام (رض) نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا :
1-’’يَا رَسُوْلَ اللهِ مَنْ قَرَابَتُكَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟
’’یا رسول اللہ (ﷺ) آپ کے قرابت داروں میں سے وہ کون ہیں جن کی مَوَدَّت ہمارے اوپر واجب ہے‘‘-
تو اس کے جوا ب میں آقا کریم (ﷺ) نے جن نفوسِ قدسیہ سے محبت کرنے کے وجوب کو ذکر فرمایا ان میں حضرت امام حسین (رض) بھی شامل ہیں‘‘-[3]
2-حضرت شداد فرماتے ہیں کہ:
’’ حضور نبی کریم (ﷺ) عشاء کی نماز کے لئے گھر سے تشریف لائے اور آپ حضرت امام حسن یا حضرت امام حسین () کو اٹھائے ہوئے تھے اُن کو ساتھ بٹھایا اور عشاء کی نماز شروع فرمائی-جب سجدے میں تشریف لے گئے تو کافی دیر ہو گئی ،آپ (ﷺ) نے سر مبارک نہیں اٹھایا-حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو شہزادۂ رسول آپ (ﷺ) کی پیٹھ مبارک پر سوار ہیں -جب آپ (ﷺ) نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ﷺ) سجدہ میں اتنی دیر ہوگئی ، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہواکہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے یا آپ (ﷺ) پر وحی آنے لگی ہے (گویا ہم پریشان ہو گئے ) ،رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: ایسی کوئی بات نہ تھی بلکہ میرا بیٹا میری پیٹھ پر سوار ہواتھاپھر فرمایا:
’’فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ ‘‘
’’پس میں نے نہ پسند جانا کہ جلدی اُٹھ کھڑا ہوں اور اُس کی مراد (خواہش) پوری نہ ہو ‘‘
’’فَكَرِهْتُ أَنْ أُعَجِّلَهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ‘‘کے الفاظ مبارک حضرت امام حسین (رض) کی شان و عظمت پر بمنزلہ مہر کے ثبت ہیں کہ آپ(رض) کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے رسول اللہ (ﷺ) نے سجدہ لمباکر دیا-[4]
3-امام حاکم روایت کرتے ہیں کہ حضرت یعلی عامری (رض) اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں کہ :
’’ سیدی رسول اللہ (ﷺ) کے ہمراہ ایک دعوت کیلئے روانہ ہوئے، یونہی کاشانۂ اقدس سے آپ (ﷺ) باہر تشریف لائے، تو آپ (ﷺ) نے حضرت امام حسین () کو بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا-رسول اللہ (ﷺ) اُن کو پکڑنے لگے لیکن وہ دوڑ پڑے-کبھی اِدھر بھاگ جاتے اور کبھی اُدھر بھاگ جاتے، رسول اللہ (ﷺ) بھی اُن کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگے-بالآخر آپ (ﷺ) نے اُن کو پکڑ کر اُن کاایک ہاتھ اپنی گردن پہ رکھا اور دوسرا ہاتھ اپنی تھوڑی کے نیچے دے کر اپنا منہ اُن کے منہ سے لگا کر اُن کا بوسہ لیا- پھر فرمایا:’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں-اللہ اُس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے ‘‘-[5]
4-امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک (رض) نے فرمایا:
’’حضرت امام حسین(رض) رسول اللہ (ﷺ) کے مشابہ تھے‘‘-[6]
5-بخاری شریف میں اسی سے اگلی احادیث مبارکہ میں ہے کہ:
’’حضرت امام حسن(رض) رسول اللہ (ﷺ) کے زیادہ مشابہ تھے‘‘-
حضرت امام حسن و حسین(رض) کی آپ (ﷺ) سے مشابہت کی احادیثوں میں تعارض کا جواب دیتے ہوئے علامہ غلام رسول سعیدیؒ’’شرح بخاری ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’دونوں ہی آپ (ﷺ) سے سب سے زیادہ مشابہ تھے-حضرت امام حسن (رض) کی آپ (ﷺ) سے سب سے زیادہ مشابہت حقیقی ہے اور حضرت امام حسین (رض)کی آپ (ﷺ) سے مشابہت اضافی ہے-یعنی حضرت امام حسن(رض) کے علاوہ باقی صحابہ اور اہل بیت اطہار(رض) میں سے سب سے زیادہ امام حسین (رض) آپ (ﷺ) سے مشابہ تھے‘‘-[7]
6-حضرت ابوہریرہ (رض)فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا:
’’آپ حسین بن علی کو اٹھائے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے -اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں پس تو بھی اس سے محبت فرما‘‘-[8]
ایسی روایات حضرت امام حسن (رض) کے بارے میں بھی ہیں -
7-حضرت ابوہریرہ (رض)فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں جب بھی حضرت امام حسین () کو دیکھتا تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے،اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن رسول اللہ (ﷺ) کاشانۂ اقدس سے باہر تشریف لائے-آپ (ﷺ) نے میرا ہاتھ تھام کر میرے ساتھ ٹیک لگائی، پھر میں آپ (ﷺ) کے ساتھ چلتے چلتے بنی قینقاع کے بازار تک گئے-اس دوران آپ (ﷺ) نے میرے ساتھ کوئی بات چیت نہیں فرمائی-آپ (ﷺ) نے بازار کا ایک چکر لگایا اور کچھ دیکھتے رہے، پھر آپ (ﷺ) واپس تشریف لائے اور مسجد میں تشریف فرما ہوئے، حضرت امام حسین () دوڑتے ہوئے آئے اور آ کر آپ (ﷺ) کی گود مبارک میں بیٹھ گئے اور آپ (ﷺ) کی داڑھی مبارک سے کھیلنے لگے-رسول اللہ (ﷺ) اُن کا منہ کھول کر اُس میں اپنا لعاب دہن ڈالتے اور ساتھ ساتھ یوں دعا مانگتے:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ‘‘[9]
’’اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر‘‘-
8-حضرت یزید بن ا بی زیاد (رض) فرماتے ہیں کہ
’’رسول اللہ (ﷺ) اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے حجرے مبارک سے باہر تشریف لائے اور سیدہ کائنات (رض) کے کاشانۂ اقدس کے دروازے سے گزرے تو آپ (ﷺ) نے سنا کہ حضرت امام حسین (رض) رو رہے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا: اے فاطمہ کیا تم جانتی ہو کہ حسین کے رونے سے میرے دل کو تکلیف ہوتی ہے ‘‘-[10]
9-حضرت جابر ابن عبد اللہ(رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا:
’’جو شخص جنت کے سردار کو دیکھنا چاہتا ہے وہ حسین ابن علی کو دیکھے‘‘-[11]
10-حضرت ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا:
’’رسول اللہ (ﷺ) حضرت امام حسن یا حضرت امام حسین (رض) کے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے تھے اور حسین کے پاوں رسول اللہ (ﷺ) کے پاؤں پر رکھے ہوئے تھے اور رسول اللہ (ﷺ) فرما رہے تھے اے ننھے ننھے قدموں والے چڑھ آ، چڑھ آ- چنانچہ حضرت امام حسین (رض) آپ (ﷺ) کے جسم اطہر پہ چڑھتے گئے یہاں تک کہ اپنے قدم آپ (ﷺ) کے سینے مبارک پہ رکھ دیے- پس آپ (ﷺ) نے فرمایا اپنا منہ کھول ، پھر آپ (ﷺ) نے اپنا لعاب دہن حضرت امام حسین (رض) کے منہ میں ڈالا اور منہ چوم لیا-پھر فرمایا: اے اللہ تو اسے محبوب رکھ میں اسے محبوب رکھتا ہوں‘‘-[12]
11-حضرت اُمِّ فضل بنت حارث(رض) رسول اللہ (ﷺ) کی بارگاہ مبارک میں حاضر ہوئیں عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) میں نے آج رات ایک خطرناک خواب دیکھا ہے-آپ (ﷺ) نے فرمایا وہ کیا ہے عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کے جسم اقدس کا ٹکڑا کٹا اور میری گود میں رکھا گیا- رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا تم نے اچھی خواب دیکھی ہے ان شاء اللہ میری بیٹی فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا وہ بچہ تمہاری گود میں رہے گا-فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمۃ الزہرا (رض) نے حضرت امام حسین (رض) کو جنم دیا، وہ میری گود میں رہے جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا-فرماتی ہیں کہ پھر مَیں ایک دن رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور حضرت امام حسین (رض) کو آپ (ﷺ) کی گود میں دیا پھر میں نے دیکھا تو رسول اللہ (ﷺ) کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے-فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا نبی اللہ (ﷺ) آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہ کیا ہے آپ (ﷺ) نے فرمایا میرے پاس جبرائیل (ع) آئے تھے مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس فرزند کو شہید کر دے گی- میں نے عرض کیا اس کو فرمایا ہاں! اور وہ میرے پاس وہاں سے سرخ مٹی سے کچھ مٹی بھی لائے‘‘-[13]
12-ترمذی شریف کی روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی نعم فرماتے ہیں کہ ایک عراقی نے حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے پوچھا کہ:
’’کپڑے پر مچھر کا خون لگ جائے تو کیا حکم ہے؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا:اس کی طرف دیکھو مچھر کے خون کا مسئلہ پوچھ رہا ہے حالانکہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کےنواسہ کو شہید کیا اور میں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا ، آپ (ﷺ) نے فرمایا حسن و حسین میرے دنیا کے پھول ہیں‘‘-[14]
آپ(رض)کی شہادت کے حوالے سےحکیم الامت حضرت علامہ اقبال نے یہی پیغام دیا ہے:
تا قیامت قطع استبداد کرد |
’’قیامت تک آپ نے جبر و استبداد کا خاتمہ کر دیا اور اپنے خون سے نیا چمن پیدا کیا-آپ نے صحرا پر ’’اِلّا الله‘‘ کا نقش ثبت کیا اور ان کی لکھی ہوئی سطر ہماری نجات کا عنوان بن گئی‘‘-
٭٭٭
[1]’’ فرمادو آؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں ‘‘(آلِ عمران:61)
[2]تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبّت (الشورٰی:23)
[3]( تفسیر ابن ابی حاتم / معجم الکبیر/ مجمع الزوائد)
[4](سنن نسائی/ مسند احمد/ مصنف ابن ابی شیبہ/ معجم الکبیر/ المستدرک للحکم)
[5](المستدرك على الصحيحين ،ج 3 ،ص: 194 ، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
[6](صحيح البخاري ، کتاب المناقب ، دارالکتب العلمیہ، بیروت ،لبنان)
[7](شرح بخاری، کتاب المناقب، ص:871-872، فرید بک سٹال اردو بازار لاہور)
[8]( المستدرك على الصحيحين ،ج 3 ،ص: 194 ، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
[9]( المستدرك على الصحيحين ،ج 3 ،ص: 195 ، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
[10](المعجم الكبير للطبرانی ،ج:3،ص:116، دار النشر: مكتبة ابن تيمية ،القاهرة)
[11]( المستدرك على الصحيحين ،ج 3 ،ص: 194 ، الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت)
[12]( الأدب المفرد للبخاری ،ج1 ،ص :96، الناشر: دار البشائر الإسلامية – بيروت)
[13]مشكاة المصابيح ، كتاب المناقب ، الناشر: المكتب الإسلامي – بيروت
[14](سنن ترمذی، ابواب المناقب، بیروت لبنان)