حافظ شیرازی کسی تعارف کے محتاج نہیں-ایران کی علمی سرزمین نے بڑے نامور عالم، شاعر اور صوفی پیدا کیے جن کو اوراقِ تاریخ میں نمایاں مقام حاصل ہے مگر حافظ شیرازی اپنے جذبۂ غیبی اور عطائے خداوندی کی بدولت شہرت اور مقبولیت کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہیں-حافظ شیرازی کا کلام جہانِ رندانِ قدح خوار کے لئے سرمستی کا ذریعہ ہے وہاں اہل باطن و اہلِ صفاء کی مجالس میں بھی کلامِ حافظ کی گونج سنائی دیتی ہے ان کے اشعار میں جذبۂ عرفانی کی جھلک نظر آتی ہے ان کی شراب جو ان کی شاعری کا محور ہے وہ عام نہیں بلکہ معرفت کی شراب ہے جن کے نشہ میں عالمِ ملکوت کے مناظر کا مشاہدہ کیا جاتا ہے-اسی طرح ان کا محبوب بھی اس عالمِ ارضی کا باشندہ نہیں بلکہ ایک ماورائے مثال ہے جن کا حسن و جمال بحرِ بیکراں اور عالمِ موجودات کا حسن اس سمندر سے ایک قطرۂ خیرات ہے-حافظ شیرازی نے اپنے کلام میں مخمورانِ بادۂ عرفان کے لطف و سرور کے لئے جو موتی پروئے ہیں وہ کمندِ خیال سے بالا تر ہیں ان کے ہر شعر کا مضمون سراپا الہام ہے اور ان کے شعر کا ایک ایک لفظ زیورِ توفیق سے آراستہ ہے جو طریقت کے گل و ریحان کے لئے ایک چمن اور شناسایانِ حقیقت کے لئے ایک انجمن کی حیثیت رکھتا ہے-
آئیے! ذرا باد گیر تصوف میں جھانک کر حافظ شیرازی کے کلام کی مہک سے لطف اندوز ہوتے ہیں!!!
حافظ شیرازی فرماتے ہیں :
سنگِ گل را کنند از پمن نظر لعل و عقیق |
|
ہر کہ قدرِ نفسِ بادِ یمانی دانست |
’’ہر وہ شخص جو بادیمانی میں سانس لینے کی قیمت جان گیا وہ نظر کے اشارے سے پتھر کو لعل و عقیق بنا دیتا ہے‘‘-
یہاں بادِ یمانی سے مراد یمن کی طرف سے آنے والی ہوا ہے- ہوا کی کئی اقسام ہیں جو مختلف واقعات کے رونما ہونے کا پیش خیمہ ہوتی ہیں-مثلاً بادِ سموم عربستان کی طرف سے چلتی ہے جو بہت گرم اور خشک ہوتی ہے ایک دوسری ہوا بادِ صبا جس کو مشرقی یا سامنے سے چلنے والی ہوا کہتے ہیں یہ ہوا ہدایت کہلاتی ہے اور فتح اور نصرت کا نشان ہوتی ہے جیسا کہ ایک حدیث پاک میں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا:
’’مجھے صبا سے فتح و نصرت دی گئی اور قومِ عاد دَبور سے ہلاک ہوئی‘‘-
دَبور وہ ہوا ہے جو انسان میں خواہشاتِ نفسانی اور برے کاموں کا باعث ہوتی ہے اس کو پچھوا یاشام کی ہوا کہتے ہیں جو مغرب سے چلتی ہے-مگر حافظ شیرازی اس شعر میں جس ہوا کی قدر و قیمت بیان فرما رہے ہیں وہ بادِ یمانی ہے-یمن کی طرف سے آنے والی ہوا حافظ شیرازی کے قلب و نظر میں اس لئے اتنی اہم اور قیمتی ہے کیونکہ رسول اللہ (ﷺ) نے فر مایا:
’’میں یمن کی طرف سے ٹھنڈی ہوا محسوس کرتا ہوں‘‘-
یاد رہے! ملکِ یمن میں حضرت اویس قرنی (رضی اللہ عنہ) رہائش پذیر تھے جو سچے عاشقِ رسول تھے صوفیاء نے لکھا ہے کہ جب وہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتے تو ان کی سانسوں کی خوشبو رسول اکرم (ﷺ) مدینہ پاک میں محسوس فرمایا کرتے تھے-کیا شان ہے ذکرِ الٰہی کرنے والی اس ہستی کی جس کی سانسوں میں نامِ خدا کی لذت اور دل میں عشقِ مصطفےٰ(ﷺ) شعلہ زن ہو اور اس کے وطن سے چلنے والی ہوا محبوبِ خدا کی محفل میں فرحت و تسکین کا باعث ہو- اس شعر میں حافظ شیرازی نے بادِ یمانی میں سانس لینے کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ خواجہ اویس قرنی اپنی سانسوں میں ذکر الٰہی کیا کرتے تھے –جو ذکر زبان سے کیا جاتا ہے وہ ذکرِ جَہری کہلاتا ہے اور جو ذکر سانسوں سے کیا جائے وہ ذکرِ خفی ہوتا ہے- سانسوں میں ذکر کا حکم قرآنِ حکیم میں دیا گیا ہے-جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِاالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ‘‘[1] |
|
’’اور اپنے رب کا ذکر اپنے سانسوں کے ساتھ گِڑ گِڑا کر خفیہ طریقے سے بغیر آواز نکالے صبح و شام ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو ‘‘- |
سلطان العارفین حضرت سلطان باھو قدس اللہ سرّہٗ نے اپنی تعلیمات میں طالبانِ مولیٰ کو ذکرِ الٰہی کا جو طریق سمجھایا ہے وہ اسی آیتِ کریمہ کی روشنی میں سانس کے ساتھ ’’اسم اللہ ذات‘‘کا ذکر ہے- یعنی جب سانس اندر جائےتو ’’اللہ‘‘ اور باہر جائے تو ’’ھو‘‘ کہا جائے؛زبان اور ہونٹ نہ ہلائے جائیں کیونکہ یہ سانس اس قادرِ مطلق کی پھونک سے جاری ہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ‘‘[2] ’’اور جب میں اس میں اپنی روح پھونک دوں‘‘-
یہی روح یا پھونک باعثِ تنفس ہے-
ابتداء میں سب سے پہلے جب آدم علیہ السلام کے وجود میں روح پھونکی گئی اور آدم علیہ السلام نے پہلی سانس کےساتھ اللہ تعالیٰ کا نام لیا تو اللہ اور بندے کے درمیان کوئی حجاب نہ رہا-جس سے معلوم ہوا کہ سانس ہی اللہ اور بندے کے درمیان تعلق جوڑنے کا ذریعہ ہے-جب سانس کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہےتو خیال متاثر ہوتا ہے جس سے روح اور قلب کو تقویت حاصل ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان عالمِ اجسام کے ظلمات سے نکل کر عالمِ انوار کی طرف ترقی کرتا ہے جب خیال میں تجلیاتِ حق کے جلوے اور دل میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) کے شعلے موجزن ہوں تو کائنات کی ہر شے انسان کے لئے مسخر ہوجاتی ہے اور یہی وہ تسخیر ہے جس کا ذکر حافظ شیرازی اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ جب دل میں عشقِ مصطفےٰ (ﷺ) شعلہ زن ہو اور سانسوں میں ذکرِ الٰہی کیا جائے تو ان سانسوں کی ہوا بادِ یمانی بن جاتی ہے ، جس کے سانسوں کی ہوا بادِ یمانی ہو وہ پھینکے گئے تیر موڑنے کی صلاحیت سے مالا مال کر دیئے جاتے ہیں ، اُن کی صحبت کا ایک لمحہ طاعتِ صد سالہ سے بڑھ کر شمار کیا گیا ہے، وہ تسخیرِ خلق پہ قُدرت بخش دی جاتی ہے ، وہ نظر کے ایک ترچھے اشارے سے پتھر کو لعل و عقیق بنا سکتے ہیں -
٭٭٭